بعض پیغمبروں نے جب لوگوں کوخدا کے راستے کی طرف دعوت دی تواُن کی اپنی بیویوں نے بھی کہ جن پرانسان کوسب سے زیادہ اعتمادہواکرتاہے،اُن سے حددرجہ بے وفائی کی اور معاون ہونے کے بجاے اس دعوت کے مخالفین کاساتھ دینے پر اصرار کیا۔ نبوت کی تاریخ میں اس کی ایک سے زائدمثالیں موجود ہیں ، جیساکہ نوح اورلوط علیہماالسلام کی بیویوں کے اس طرزکا حوالہ دیتے ہوئے ارشاد ہواہے:
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍﵧ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ .(التحریم ۶۶: ۱۰)
’’اللہ منکروں کے لیے نوح کی بیوی اورلوط کی بیوی کی مثال پیش کرتاہے۔ دونوں ہمارے بندوں میں سے دوصالح بندوں کے گھر میں تھیں، مگر انھوں نے اپنے شوہروں سے بے وفائی کی تواللہ کے مقابلے میں وہ ان کے کچھ کام نہ آسکے اور ددنوں کوحکم ہواکہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی آگ میں چلی جاؤ۔‘‘
یہاں ’فَخَانَتٰهُمَا‘،یعنی بے وفائی کے الفاظ آئے ہیں اوراس سے مراداُن عورتوں کی طرف سے سرزدہونے والاکفرہے اور یہ اس آیت کاسیدھااورصاف مطلب ہے۔ بعض حضرات نے اس کاایک اورہی مطلب پیش کیاہے۔ان کے بقول یہاں جس بے وفائی کاذکر ہواہے، اس سے مراد بدکاری ہے کہ’خیانت‘ کا لفظ جب مرد و عورت کے حوالے سے آتاہے تو عربی زبان میں اس کاعام مستعمل معنی یہی ہے۔ہم عرض کریں گے کہ انھوں نے جس مقصدسے اس مطلب کوپیش کیاہے ،افسوس یہ کہ وہ ان کی اس کوشش سے بھی حاصل ہونے والا نہیں ہے،ا س لیے کہ ان کے پیش نظرتواس بات کااثبات ہے کہ طوفان نوح میں غرق ہونے والا شخص حضرت نوح کاحقیقی بیٹانہیں تھا، مگر یہ اس کی دلیل میں بتارہے ہیں کہ اُن کی بیوی بدچلن تھی اوربدکاری کی مرتکب ہوئی تھی۔ایک ادنیٰ درجے کی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ جان سکتاہے کہ ان دوباتوں میں ایساکوئی لزوم نہیں ہے کہ ایک بات کومان لینے کے بعددوسری آپ سے آپ لازم ہوجائے،یعنی اگر مان بھی لیا جائے کہ وہ عورت بدچلن تھی تواس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ مذکورہ شخص حضرت نوح کابیٹا نہیں تھا۔اس کے لیے توانھیں الگ سے یہ ثابت کرناپڑے گاکہ وہ شخص اُسی عورت کاجناہوابیٹا تھااورمزید یہ کہ وہ کسی جائز تعلق کا نہیں ، بلکہ اُس کے برے عمل کا نتیجہ تھا۔ بہرحال، استدلال کے کسی فائدے سے قطع نظر، انھوں نے اس آیت کوچونکہ اپنے مطلب کی دلیل قرار دے لیاہے ، اس لیے ضروری ہے کہ طالب علموں کے فائدے کے لیے اس کی درست تفہیم کوپیش کر دیا جائے۔مگراس سے پہلے لازم ہے کہ چندباتیں اچھی طرح سے سمجھ لی جائیں : ایک یہ کہ خیانت کامطلب کیاہے ؟ دوسرے یہ کہ عربی زبان میں کیا واقعتاً یہ اپناکوئی عام مستعمل معنی رکھتاہے؟
یہ لفظ اصل میں امانت کے مقابلے میں آتااورامین بنادینے کے بعدکسی شخص پر جو اعتماد پیدا ہو جاتا ہے ،اُس کے مجروح ہونے پر یہ استعمال کیا جاتا ہے۔سیدنایوسف علیہ السلام نے اسی معنی میں ارشادفرمایاہے :
ذٰلِكَ لِيَعْلَمَ اَنِّيْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَيْبِ.(یوسف ۱۲: ۵۲ )
’’اس سے میری غرض یہ تھی کہ عزیزیہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی۔‘‘
اس معنی کے لحاظ سے اس لفظ کے کئی اوراستعمالات بھی ہوگئے ہیں ۔مثال کے طورپر،کسی شخص کوامین اگرعہدکے بارے میں بنایا گیاہو اور اُس نے توقعات کے برعکس اس کی خلاف ورزی کی ہوتواس بدعہدی کے لیے بھی اسے استعمال کر لیا جاتا ہے ،جیساکہ فرمایاہے:
وَاِنْ يُّرِيْدُوْا خِيَانَتَكَ فَقَدْ خَانُوا اللّٰهَ مِنْ قَبْلُ .(الانفال ۸: ۷۱ )
’’اوراگریہ تمھارے ساتھ بدعہدی کرناچاہتے ہیں توان سے بعیدنہیں ہے،اس لیے کہ اس سے پہلے انھوں نے خداسے بدعہدی کی ہے۔‘‘
اسی طرح اس کااستعمال اُس شخص کی بے وفائی کے لیے بھی ہواہے جسے اطاعت کے کسی عہدپرامین بنایا جائے اوروہ اُس کا حق اداکرنے سے انکارکردے،جیساکہ اس آیت میں فرمایاہے :
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ .(الانفال۸ : ۲۷ )
’’ایمان والو،اللہ اوراس کے رسول سے بے وفائی نہ کرو۔‘‘
شوہرکے لیے اُس کی بیوی بھی محبت ورفاقت اوراطاعت وفرماں برداری کے عہدمیں بندھی ہوتی اوراس اعتبارسے ان معاملات میں امین ہوتی ہے ،اس لیے وہ کسی بے وفائی کی مرتکب ہو تواس کے لیے بھی یہی لفظ ’خیانت‘ برت لیا جاتا ہے۔اب اُس کی یہ بے وفائی جس طرح شوہرکی بات نہ ماننے اور اُس کاساتھ نہ نبھانے کی صورت میں ہوسکتی ہے،اسی طرح محبت ورفاقت کے تعلقات کسی اور سے استوارکرنے میں بھی ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ان میں سے پہلی کی مثال اُس روایت میں موجودہے جس میں حواکے لیے اس لفظ کوحضرت آدم کی بات نہ ماننے پرلایاگیاہے:
ولولا حوا لم تخن انثی زوجھا الدھر.(بخاری،رقم۳۳۹۹)
’’اگرحواآدم سے خیانت نہ کرتی توکوئی عورت اپنے شوہرسے کبھی خیانت نہ کرتی۔‘‘
دوسری کی مثال اس روایت میں ہے جس میں کسی غیرسے تعلق بنانے پر اسے لایاگیاہے:
وامرأة غاب زوجھا وقد کفاھامونة الدنیا فخانتہ بعدہ.(ابن حبان،رقم۴۵۵۹)
’’آخرت میں اُس عورت کی کچھ پروانہ کی جائے گی جس کاشوہرکہیں چلاجائے اوراس کے باوجودکہ اُس نے تمام ضروریات زندگی اسے فراہم کررکھی تھیں ،وہ اُس کی غیرموجودگی میں اُس سے خیانت کرے۔‘‘
غرض یہ ہے کہ خیانت کے تمام اطلاقات میں اس کے اصل معنی ہی کالحاظ ہوتاہے ،یعنی کسی کوامین بنایاجائے اوروہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اعتمادکوٹھیس پہنچائے۔دیکھنا صرف یہ ہوتاہے کہ اُس کی طرف سے یہ ٹھیس کس امرمیں اورکس لحاظ سے پہنچائی گئی ہے۔
بعض اوقات کوئی لفظ اپنے بہت سے اطلاقات میں سے کسی ایک میں اس قدرعام ہو جاتا ہے کہ مطلق استعمال میں بھی اس سے عام طورپروہی مراد لیا جاتا ہے۔عربی زبان میں اس کی ایک مثال ’فسق ‘ کالفظ ہے۔ اس کا مطلب ’’کسی شے سے باہر نکلنا‘‘ہے اوراس لحاظ سے یہ پکی ہوئی کھجورکے اپنے چھلکے اور چوہیاکے اپنے بل سے باہرنکل آنے پربھی استعمال ہوتاہے ۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین کے عرف میں یہ خداکے حکم سے باہرنکل جانے کے لیے اتنا زیادہ استعمال ہواہے کہ اب اس سے بالعموم یہی معنی مرادلیا جاتا ہے۔اسے عام مستعمل معنی کہا جاتا ہے اوراس کے متعلق دوبنیادی چیزیں توسب اہل علم جانتے ہیں :ایک یہ کہ اس طرح کے معانی کو واضح کرنے کے لیے کسی قرینہ کولانے کی ضرورت بالکل نہیں ہوتی ،بلکہ یہ لفظ کے مطلق استعمال میں بھی ہرطرح سے واضح ہوتے ہیں ۔دوسرے یہ کہ ماہرین لغت انھیں اپنی کتابوں میں بیان کرنے کاخصوصی طورپر اہتمام بھی کرتے ہیں ،جیساکہ عربی کے ہرمعتبرلغات میں دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’فسق‘ کا اصل مطلب لکھ دینے کے بعداس کامستعمل معنی بھی الگ سے بیان کیاگیاہے۔
اب سوال یہ ہے کہ’خیانت ‘کالفظ بھی کیااپنا مستعمل معنی رکھتاہے کہ وہ جب بھی مردوعورت کے رشتے میں آئے گاتواس سے مراد کسی غیرکے ساتھ جنسی تعلقات کوبناناہوگا؟اس پرہم عرض کریں گے کہ اس لفظ کے جدیداستعمالات میں توایساہی ہے اوران حضرات کو اصل میں یہیں سے اس کادھوکا بھی ہوگیاہے،وگرنہ قدیم عربی مصادرمیں اس لفظ سے جب بھی یہ معنی مرادلیے جاتے ہیں تواس کی وجہ اس کامطلق استعمال نہیں، بلکہ اس کے ساتھ آنے والے قرائن ہوا کرتے ہیں ۔ہماری اس بات کی دلیل میں اوپرصحیح بخاری اور ابن حبان کے حوالے سے دی گئی روایات دیکھ لی جاسکتی ہیں جن میں یہ لفظ مرد وعورت کے رشتے میں آیاہے ،مگرایک میں شوہرکی بات نہ ماننے اور دوسری روایت میں قرینہ آجانے کی وجہ سے بدکاری کرنے کے معنی میں چلاگیا ہے۔بلکہ خودان حضرات کی اپنی دی ہوئی مثالیں بھی اس کی واضح دلیل ہیں ۔ان سب میں بھی کسی مستعمل معنی کی وجہ سے نہیں ،بلکہ کسی نہ کسی قرینے کی وجہ سے یہ خاص مفہوم پیداہواہے۔مثلاً، ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ کے بارے میں’التي خانتک وفضحتني‘ کے الفاظ کہے اوراس سے اُن کی مرادیہی معنی تھا تو اس کا قرینہ اصل میں افک کاوہ واقعہ ہے جس کے ذیل میں سیدناصدیق کی طرف سے ان لفظوں کا صدور ہوا ہے۔ ’وامرأة غاب زوجھا وقد کفاھامونة الدنیا فخانتہ بعدہ‘،اس روایت میں بھی شوہر کے لیے غیبت اورموقع خیانت کے لیے آنے والے ’بعدہ‘کے الفاظ ہیں کہ جنھوں نے مل کر اس خاص مفہوم کی یہاں تقریب پیداکردی ہے۔اسی طرح کامعاملہ ان کی طرف سے پیش کیے جانے والے شعر کابھی ہے: ’خانت بہ أمہ أباہ ۔۔۔ فعینہ عینھا الخوون‘،اس میں بھی دراصل’بہ‘ کا مرجع،یعنی اُس عورت کے حمل کاذکرہے کہ جواس خاص معنی کومرادلینے کی وجہ ہوگیا ہے۔ غرض یہ کہ اس معنی کے لیے کسی نہ کسی قرینے کی بہرحال ضرورت ہونا،اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ عربی زبان میں مستعمل معنی کے طورپر ہرگزرائج نہیں ہے،بلکہ اس کے ساتھ اگریہ حقیقت بھی ملالی جائے توہماری یہ بات اوربھی زیادہ مؤکد ہو جاتی ہے کہ عربی زبان کاہراچھالغت اس ’’مستعمل معنی ‘‘سے یک سرخالی ہے اورکسی بھی صاحب لغات نے اسے الگ سے ثبت نہیں کیاہے۔
جہاں تک ان حضرات نے اردوانگریزی کی مثالیں دے کراپنے دعوے کو ثابت کرناچاہاہے تواس کی حقیقت بھی جان لینی چاہیے۔انھوں نے’خیانت‘ کے لفظ کوسمجھاتے ہوئے اردوکے ’’پینا‘‘اورانگریزی زبان کےلفظcheating’ ‘کی مثال دی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ’’پینا‘‘ کالفظ جب اپنے ایک خاص عرف میں آئے تواس سے مراد’’شراب پینا‘‘ہوتا اورcheating کا مطلب کسی غیر سے جنسی تعلقات استوار کرنا ہوتا ہے، مگر یہ الفاظ اگران مستعمل معنی میں رائج ہیں توہم جانتے ہیں کہ اہل زبان نے انھیں باقاعدہ بیان کیا ہے، اورجوشخص چاہے ان زبانوں کے لغات کی مراجعت کرکے ان میں یہ معانی ثبت کیے ہوئے دیکھ بھی لے سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں خیانت کا معاملہ، جیسا کہ اوپربیان ہوا،ایسابالکل بھی نہیں ہے۔تاہم، اگردوسری زبانوں ہی سے مثالیں دے کرسمجھاناضروری ہو توہم عرض کریں گے کہ اردو میں خیانت کی صحیح مثال’’بے وفائی‘‘ اور انگریزی میں unfaithfulness کالفظ ہے۔یہ خیانت کے ہرطرح سے متبادل ہیں اوراسی کی طرح کسی خاص معنی میں مستعمل نہیں ہیں ،بلکہ یہ شوہر کی بات نہ ماننے ،اُس کاساتھ نہ نبھانے ،اُسے اکیلا چھوڑجانے اورکسی غیر سے راہ و رسم بڑھانے،ان سب معانی میں آتے ہیں اوراس کے بعدمذکورقرائن ہوتے ہیں جوان کے مرادی معنی کی تعیین کرتے ہیں ۔
’خیانت ‘ کے لفظ کی اس تحقیق کے بعد اب ہم زیربحث آیت کو آسانی سے سمجھ لے سکتے ہیں :
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّامْرَاَتَ لُوْطٍﵧ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتٰهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا وَّقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ .(التحریم ۶۶: ۱۰)
’’اللہ منکروں کے لیے نوح کی بیوی اورلوط کی بیوی کی مثال پیش کرتاہے۔دونوں ہمارے بندوں میں سے دوصالح بندوں کے گھر میں تھیں ،مگرانھوں نے اپنے شوہروں سے بے وفائی کی تواللہ کے مقابلے میں وہ ان کے کچھ کام نہ آسکے اورددنوں کوحکم ہواکہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی آگ میں چلی جاؤ۔‘‘
اس آیت میں’خیانت‘ کا لفظ ’’بے وفائی‘‘ کے معنی میں ہے اورحضرات نوح اورلوط علیہماالسلام کی بیویوں کی طرف سے اُن کے باہمی اعتمادکو مجروح کرنے پر آیا ہے[1]۔اس اعتمادکومجروح کرنے کی وجہ بدچلنی تو بہرصورت نہیں ہوسکتی ،اس لیے کہ اسے ثابت کرنے کے لیے جس درجے کاقرینہ چاہیے وہ پوری آیت اوراس کے سیاق و سباق میں کہیں دور تک بھی موجود نہیں ہے۔بلکہ اگرکسی شخص کے ذہن میں اپنے دعوے کوسچ کردکھانے کی دھن یانبیوں کے ازواج کے بارے میں گم راہ فرقوں کی گھڑی ہوئی خرافات نہ ہوں توہم عرض کریں کہ اس معنی کایہاں سوچ میں آجانابھی امرمحال ہے۔سوال پیداہوتاہے کہ وہ وجہ پھرآخرکیاہے؟ہمارے نزدیک اس کی وجہ ان عورتوں کی طرف سے سرزدہونے والاکفرہے ،اورذیل کے قرائن ہماری اس بات کی واضح دلیل ہیں :
ایک یہ کہ پچھلی آیت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاگیاہے کہ آپ کفاراور منافقین پرسختی کریں اورانھیں بتادیں کہ ان کا ٹھکاناجہنم ہے۔یہ منکرین کے دوگروہ تھے جن میں سے اول اپنی بدعہدیوں اور دوسرے اطاعت وفرماں برداری کاحق ادانہ کرنے کی وجہ سے پکے خائن تھے۔ چنانچہ انھیں سمجھانے کے لیے بھی ایک کے بجاے دوعورتوں کی خیانت کی مثال دی ہے، اوراس طرح بتادیاہے کہ ان میں سے پہلی نے صریح کفر اور دوسری نے منافقت کرتے ہوئے اپنے شوہر سے یہ خیانت کی ہے[2] ۔
دوسرے یہ کہ اس آیت میں کفرکرنے والوں کو اس بات پرتنبیہ کی گئی ہے کہ انھیں خداکے عذاب سے لازماً دوچارہوناہے اوراس ذیل میں بڑی سے بڑی نسبت بھی انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی۔چنانچہ اس رعایت سے مناسب یہی معلوم ہوتاہے کہ انھیں سمجھانے کے لیے جو مثال دی جائے ،اس میں کفر ہی کے جرم پر بتایا جائے کہ اُن سے پہلے نوح ولوط کی بیویوں نے جب اس کا ارتکاب کیاتووہ بھی عذاب کی لپیٹ میں آکررہیں اور پیغمبروں کے ساتھ اُن کی نسبتیں اُنھیں کچھ بھی فائدہ نہ دے سکیں ۔
تیسرے یہ کہ یہاں فرمایاہے :’وَقِيْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِيْنَ ‘(اورددنوں کوحکم ہواکہ جاؤ آگ میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی آگ میں چلی جاؤ)۔اس سیاق میں ’الدّٰخِلِيْن ‘ سے مرادحضرات نوح اورلوط کاکفرکرنے والے ہیں اور اس کی مزیددلیل اس لفظ پر آنے والاالف لام بھی ہے۔اب ظاہرہے، ان کفرکرنے والوں کی معیت میں ان کی سزامیں داخل ہونا،اُسی وقت معقول اورعدل کے مطابق ہوسکتاہے جب مان لیاجائے کہ یہ عورتیں بھی کفرکرنے والی ہیں اوراسی لیے کافروں کی معیت میں ان کی سزامیں داخل ہو جانے والی ہیں ۔
چوتھے یہ کہ ان عورتوں کی خیانت پر جوسزا،جس طریقے سے اورجس طرح قیامت سے پہلے ہی سنادی گئی ہے، قرآن کے رمزشناس جان سکتے ہیں کہ یہ محض کسی غیراخلاقی حرکت کے ارتکاب پرسنائی ہوئی سزا ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ لامحالہ،اس کی وجہ ان عورتوں کا کفرہی ہے کہ اس انداز میں اتمام حجت کے بعدکفرکرنے والوں کا انجام بیان ہواکرتاہے،جیساکہ پچھلی آیت میں ’وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ‘کے الفاظ میں اس طرح کے لوگوں کاانجام بد بیان ہوا بھی ہے ۔
غرض یہ کہ ان قرائن سے واضح طورپرمعلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں خیانت سے مراداصل میں ان عورتوں کاکفر ہے۔سواب سادہ لفظوں میں اس آیت کی تفہیم کچھ یوں بنتی ہے:
کفرکرنے والوں کودوعورتوں کی مثال دی گئی ہے جوحضرات نوح اورلوط علیہماالسلام کے عقدمیں تھیں ۔یہ عقد چونکہ میاں اوربیوی کو ایک دوسرے کے لیے امین بناتا اور اس طرح اُن کے درمیان میں ایک طرح کا اعتماد پیدا کر دیتا ہے ،اس لیے اُن حضرات کواپنی بیویوں سے بڑی امیدتھی کہ وہ دعوت حق کوسبقت کرتے ہوئے قبول کریں گی اوراس کام میں اُن کی مویداور معاون بن کر رہیں گی۔یہ امید اس لیے بھی بہت زیادہ تھی کہ وہ صرف خداکے ان نیک بندوں کے عقدمیں نہ تھیں ،بلکہ ان کی تولیت میں اوران کے زیر تربیت بھی تھیں۔ ’فَخَانَتٰهُمَا ‘، مگرانھوں نے اس سب کے باوجود ان کے اعتمادکو ٹھیس پہنچائی جب سچے دل سے ایمان لانے کے بجاے کفر کا ارتکاب کیا۔ چنانچہ اپنے اس کفرکی وجہ سے وہ خداکے عذاب کی گرفت میں آکررہیں اور پیغمبروں کے ساتھ اُن کی نسبتیں بھی اُن کے کچھ کام نہ آسکیں ۔
آیت کی تفہیم کے بعداب آخرمیں خیانت کے استعمال پران حضرات کی طرف سے اٹھایاگیاایک سوال بھی واضح ہوجانا چاہیے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگران عورتوں نے اپنے شوہروں کی توقعات کے برعکس کفرکیااوراس طرح سے خیانت کی مرتکب ہوئیں توفرعون کی بیوی نے بھی تواپنے شوہرکی امیدوں کے برخلاف اسلام قبول کیاتھاتووہ خیانت کی مرتکب کیوں نہیں ہوئی؟ اس پر ہم عرض کریں گے کہ اگریہ حضرات چاہیں تو اس لفظ کا استعمال اُس خاتون کے لیے بھی کرسکتے ہیں کہ پہلی کے مقابلے میں اس دوسری ’’خیانت‘‘ کا ارتکاب اُس کے لیے نہ صرف یہ کہ جائز،بلکہ فرض بھی تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خالق اورمخلوق کے تقاضے اگرباہم مختلف ہوجائیں تو ترجیح بہرصورت خالق کے تقاضوں کودی جاتی ہے، اوریہ اسلام کا بنیادی اصول ہے اورقرآن میں بھی اس کے بہت سے مظاہر موجود ہیں ۔ایک جگہ بیان ہواہے کہ صالح علیہ السلام کی قوم کو آپ سے بڑی امیدیں تھیں ، مگرانھوں نے خداکی دی ہوئی واضح فطرت اور اس کی طرف سے وحی آجانے کے بعد فرمایا کہ اب میں تمھاری امیدوں کوپوراکرکے اپنے پروردگارکی نافرمانی نہیں کرسکتا[3] ۔ موسیٰ علیہ السلام فرعون کے گھرمیں پلے بڑھے تھے ، اس بات کو جتلاتے ہوئے اُن پرجب ناشکرے پن کاالزام لگایاگیاتوانھوں نے بھی اپنی دعوت پر یہی کہتے ہوئے اصرارکیاکہ مجھ پر میرے رب کاحکم آچکا ہے[4] ۔بلکہ شروع دورمیں ہروہ شخص اس امرکامرتکب ہواجس کے والدین ابھی تک کافرتھے اوراُس نے ان کی توقعات کے برخلاف دین اسلام کوقبول کرنے کا اعلان کردیا۔اس سوال پرمزیدعرض کریں کہ اس صورت میں’خیانت‘ کے لفظ کایہ اُسی طرح کاجائز لغوی استعمال ہوگاجس طرح ہم معبودان باطل کاانکارکرنے والے پر بھی ’کافر‘ کے لفظ کااستعمال کرلیں اور ایسا کر لینا بہرحال اس قدر ’’عجیب‘‘ نہیں ہوگاکہ آج کسی شخص کوتمسخرانہ اندازمیں اس کا ذکرکرنے کی ضرورت آن پڑے۔
[1]۔ بلکہ ’امرأة نوح‘ اور ’امرأة لوط‘ کی ترکیب کے بعد ’كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ‘ کے جوالفاظ آئے ہیں، وہ بھی اصل میں اعتمادکے اسی مضمون کو مؤکد کرنے کے لیے آئے ہیں کہ وہ بیویاں ہونے کے ساتھ ساتھ ان بزرگوں کی تولیت میں بھی تھیں ،اس لیے دوسروں کی نسبت ان سے ایمان لانے کی زیادہ توقع کی جاتی تھی ۔
[2]۔ اس دوسری عورت کے منافق ہونے پریہ دلیل بھی دی جاسکتی ہے کہ قرآن میں جب بھی حضرت لوط کے گھرانے کی نجات کاذکرہوتاہے توہم دیکھتے ہیں کہ انھیں خصوصی طور پریہ بات بتائی جاتی ہے کہ اُن کی بیوی بہرصورت نجات پانے والوں میں سے نہیں ہے ۔ظاہرہے ،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ درپردہ کفر،یعنی نفاق میں مبتلاہے ، اس لیے ضروری ہے کہ نجات کے اس مرحلے میں حضرت لوط کو اس کے بارے میں اچھی طرح سے آگاہ کر دیا جائے (الشعراء ۲۶: ۱۶۹ - ۱۷۱ ۔ ہود ۱۱: ۸۱ ۔ النمل ۲۷: ۵۷ )۔
[3]۔ ہود ۱۱: ۶۲ - ۶۳ ۔
[4]۔ الشعراء ۲۶: ۱۸ - ۲۱ ۔
___________