HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : رضوان اللہ

ایمان ہی نجات کی دلیل ہے (۲)

قرآن میں رسولوں کے بارے میں یہ حقیقت بڑی تفصیل سے بیان ہوئی ہے کہ اُن کی دعوت جب اِتمام حجت اوربراءت کے مراحل طے کرلیتی ہے توخداکی طرف سے اُن کی قوم کافیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ چونکہ آخرت کے فیصلے کی تمہید ہوتاہے ،اس لیے یہ بھی ایمان اور کفرکی بنیاد پر سنایا جاتا اور اس کے نتیجے میں آنے والے عذاب سے صرف اورصرف مومنین نجات پاتے ہیں ۔چنانچہ جب حضرت نوح کی دعوت بھی اپنے آخری مرحلے میں داخل ہوگئی اور عذاب کاوقت آن پہنچاتواُن سے بھی اسی اصول پر فرمایاگیاکہ وہ عذاب سے نجات کے لیے اپنے ساتھ ایمان والوں کوکشتی میں سوارکرالیں ۔ایمان کی بنیادپرنجات کایہ اصول قرآن کے ہر صفحہ پرثبت اوراس کے ہر طالب علم پر مکمل طورپرواضح ہے ،مگراسے زمانے کی گردش ہی کہیں گے کہ آج مطلق نوعیت کے اس اصول میں بھی استثناپیداکرلیاگیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ حضرت نوح کے خاندان کواپنی نجات کے لیے ایمان ہی نہیں ،بلکہ اُن کے خاندان میں سے ہونابھی کفایت کرتاتھا۔ ہمارے نزدیک یہ استثنا ایسانہیں ہے جسے محض راے کا اختلاف قراردیتے ہوئے نظراندازکردیاجائے،بلکہ یہ اپنے نتیجے کے لحاظ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات کے اوپرلایاگیاایک استثناہے۔چنانچہ ہم واجب سمجھتے ہیں کہ اس کابھرپورطریقے سے جائزہ لیں اور نجات کا یہ اصول خاص اس واقعۂ نوح کے تناظرمیں بھی بیان کردیں ۔سواس کے لیے ہم قرآن میں سے دوآیات کوپیش کریں گے جن میں بڑی صراحت کے ساتھ بتادیا گیا ہے کہ باقی سب کی طرح نوح علیہ السلام کے خاندان کی نجات بھی صرف اورصرف ایمان لے آنے پرمنحصر تھی ۔



پہلی آیت

ارشادہواہے:

فَاِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُﶈ فَاسْلُكْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْﵐ وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْاﵐ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ. (المومنون۲۳: ۲۷ )

’’پھرجب ہماراحکم آجائے اورطوفان ابل پڑے تواس میں ہرقسم کے جانوروں کے جوڑے رکھ لو، (نر و مادہ) دو دو اور( اُن کے ساتھ)اپنے لوگوں کوبھی سوارکرالو،ان میں سے سواے ان کے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ ہوچکاہے اورمجھ سے ان لوگوں کے بارے میں کچھ نہ کہناجنھوں نے اپنی جانوں پرظلم کیاہے۔وہ لازماًغرق ہوکررہیں گے۔‘‘

اس آیت میں پہلے دوباتیں اچھی طرح سے سمجھ لی جانی چاہییں :’سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ کی مراد اور لفظِ ’اَهْلَكَ  ‘ کامطلب ۔

سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ

عربی زبان میں قول کامطلب ’’بات ‘‘ہوتاہے،مگراس کے ساتھ ’علی‘ کے استعمال نے یہاں دوچیزیں بالکل واضح کردی ہیں : ایک یہ کہ اس سے مراداب صرف بات نہیں ،بلکہ کوئی نہ کوئی فیصلہ ہے ۔دوسرے یہ کہ یہ فیصلہ ’عَلَيْهِ‘ کی ضمیرکے مرجع کے خلاف ہے ۔ اس قول پرآنے والاالف لام اوراس کے ساتھ فعل ’سبق‘  کا استعمال بھی سامنے رہے تویہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ پہلے سے سنا دیا ہوافیصلہ ہے اورمزیدیہ کہ اس سے نوح علیہ السلام اچھی طرح سے واقف بھی ہیں ۔اب سوال پیداہوتاہے کہ یہ فیصلہ آخرہے کیا؟تویہ وہی فیصلہ ہے جسے انھوں نے اپنی قوم کے سامنے یہ کہتے ہوئے بیان کردیاتھا :’يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗﵧ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ [1](میری قوم کے لوگو،اللہ کی بندگی کرو۔اس کے سوا تمھاراکوئی معبود نہیں  ہے۔ پھرکیا (اُس کے شریک ٹھیراکرتم اس کے غضب سے )ڈرتے نہیں ہو)۔ان کی اس دعوت کا مطلب ،ظاہر ہے، یہی تھا کہ جولوگ صرف خداکی عبادت کرنے کے بجاے اُس کے شریک ٹھیرائیں گے ،اُن کے بارے میں خدا کا فیصلہ ہے کہ وہ اُس کے غضب کاشکارہوکر رہیں گے۔سو قرآن کے الفاظ اوراس کے سیاق کے لحاظ سے یہی ’سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘  کا حقیقی مصداق ہے۔اس کے برخلاف،جن لوگوں نے یہ دعویٰ کردیاہے کہ اس کامصداق نوح کے ’’غیراہل‘‘ بھی ہوسکتے ہیں تومعلوم ہونا چاہیے کہ ان کی یہ بات کسی دلیل پرنہیں ،بلکہ خالص قیاس پر مبنی ہے جوعالم اسباب سے ماوراہوکراورشایدعالم بے خودی میں جاکرکرلیاگیا ہے۔

اَهْلَكَ

 آیت میں ’اَهْلَكَ ‘  کالفظ بھی آیاہے۔اس کالغوی مطلب ہے: ’’تمھارے اپنے لوگ‘‘۔کسی شخص کے یہ اپنے لوگ اُس کے اہل بھی ہوسکتے ہیں اوراُس سے خصوصی تعلق رکھنے والے دوسرے حضرات بھی کہ عربی زبان  میں ’أہل‘  کالفظ ان دونوں اطلاقات میں استعمال کرلیا جاتا ہے۔اس آیت میں یہ پہلے معنی میں آیا ہے، یعنی حضرت نوح کے خاندان کے لوگ۔اس معنی کوترجیح دینے کی ایک وجہ اس پر آنے والا ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ‘  کااستثناہے جو صرف اسی معنی پر موزوں ٹھیرتاہے ۔دوسری صورت میں بات انتہائی غیر معقول ہو جاتی ہے،یعنی’’تم اپنے سے تعلق رکھنے والے متبعین کوسوارکرالواوران میں سے اُنھیں سوارنہ کرانا جوفیصلے کی زدمیں آئے ہوئے ہیں ،یعنی تمھارے متبعین نہیں ہیں ۔‘‘سویہ بات قطعی ہے کہ یہاں ’اَهْلَكَ‘ کامطلب خاندان نوح کے افرادہیں ۔اب سوال پیداہوتاہے کہ مومنین کے عمومی لفظ کو چھوڑ کر ’اَهْلَكَ ‘   کا لفظ کیوں اپنایا گیا؟توجان لیناچاہیے کہ یہ علی سبیل التغلیب کااسلوب ہے اوراس کااستعمال اس لیے کیاگیا ہے کہ نوح پرزیادہ ترآپ کے خاندان کے لوگ ایمان لائے تھے ،اس لیے مومنین کے اس معتدبہ حصے کابیان کردیا توگویاسب مومنین کا بیان کردیاگیا۔

اَهْلَكَ ‘ اور’سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ کی مرادجان لینے کے بعداب آیت کااصل مدعابآسانی سمجھ لیا جا سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت نوح نے اپنی قوم کے ایمان سے ناامیدہوکرجب اپنے خداسے دعاکی تو اُنھیں حکم ہواکہ ایک کشتی ہمارے سامنے اورہماری ہدایت کے مطابق تیار کرو۔پھرجب فیصلے کاوقت آجائے اور طوفان ابل پڑے تو’فَاسْلُكْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ‘۔اس میں اپنی ضرورت کے تمام جانوروں کے جوڑے رکھ لینا۔اس کے بعدفرمایاہے: ’وَاَهْلَكَ ‘ ۔اور اپنے گھروالوں کوبھی اس میں سوارکرا لینا۔ کشتی میں سوارہونے کا مطلب اصل میں خداکے عذاب سے نجات پاناتھااوروہ صرف ایمان والوں کانصیب تھی،اس لیے آپ سے خصوصاًفرمایا گیا: ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ مِنْهُمْ‘  کہ اپنے خاندان میں سے اُن افرادکوہرگزاس میں سوارنہ کراناجوایمان والے نہ ہوں اوراس وجہ سے اُن پر خدا کا فیصلہ صادق آچکاہو۔ اس کے بعدیہ ہدایت بھی کردی گئی کہ تمھارے خاندان میں سے جولوگ تم پرایمان نہ لائیں ،وہ ظالم ہیں ،اس لیے ’وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا‘،ان ظالموں کی ہم دردی اورسفارش میں ہم سے کوئی بات نہ کہنا۔ ’اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ ‘، وہ بہرصورت غرق کر دیے جائیں گے۔

بلکہ آیت کے اصل مدعاکے ساتھ اگرپوری سورہ پربھی ایک نظرڈال لی جائے تویہ چیز اورزیادہ مؤکد ہو جاتی ہے کہ اہل نوح کے معاملے میں بھی نجات کاعام قانون ہی روبہ عمل ہوناچاہیے ،اورانھیں کسی بھی صورت اس معاملے میں کوئی استثنا نہیں دیناچاہیے۔چنانچہ سورہ کی ابتدامیں فرمایاہے کہ وہ لوگ مرادکو پہنچ گئے جوایمان والے ہیں ،اورپھرانھی ایمان والوں کے بارے میں فرمایاکہ وہ جنت الفردوس کے مالک ہونے والے ہیں[2] ۔اس کے بعدماضی کی سرگذشتیں سناکر اس قانون کوسلبی طریقے سے بھی بیان کیاہے،اورواضح فرمادیاہے کہ معذب قوموں پرعذاب آنے کاسبب یہی تھاکہ وہ لوگ ایمان والے نہیں ،بلکہ ظالم،مکذبین اور پرلے درجے کے منکرین تھے[3]۔

دوسری آیت

قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَﵧ وَمَا٘ اٰمَنَ مَعَهٗ٘ اِلَّا قَلِيْلٌ. (ہود ۱۱:  ۴۰ )
’’ ہم نے کہا:ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑے اِس میں رکھ لو، (نر و مادہ) دو دو اور ( اُن کے ساتھ) اپنے گھر والوں کو بھی اِس کشتی میں سوار کرا لو، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں   ــــ   اور تھوڑے ہی لوگ تھےجو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ ‘‘

اس آیت کے متعلق بھی چندچیزیں جان لینی چاہییں :ایک عام بعدالخاص اوردوسرے تخصیص کااسلوب۔

عام بعدالخاص

قرآن کے طالب علم جانتے ہیں کہ اس میں قدیم عربی زبان کی طرزپر خاص بات پرکسی عام بات کوبھی عطف کر دیا جاتا ہے۔ اسے عام بعد الخاص کااسلوب کہا جاتاہے اوراس سے مقصودکئی اہداف ہواکرتے ہیں۔ قرآن میں عام طور پراسے دواہداف کے پیش نظر برتا گیاہے :ایک تتمیم،یعنی بات کومکمل کرنے اوردوسرے تعمیم ،یعنی بات کوعام کردینے کے لیے ۔ مثال کے طورپرذیل کی آیت میں ’وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ‘ کاعطف تتمیم کے لیے آیاہے کہ ان الفاظ کے ذریعے سے حضرت نوح نے اپنی دعاکااِتمام کیااور اس طرح مغفرت کی اس دعامیں سبھی مسلمانوں کوشامل کرلیاہے:

رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ. (نوح۷۱: ۲۸ )
’’میرے مالک ،تو مجھے معاف فرما دے،میرے ماں باپ کومعاف فرما دے، ان سب کومعاف فرما دے جو میرے گھرمیں مومن ہوکر داخل ہو جائیں ، سب مسلمان مردوں اورعورتوں کومعاف فرما دے۔‘‘

ذیل کی آیت میں ’وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ‘  کاعطف تعمیم کے لیے آیاہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ کہتے ہوئے اپنے علم کابیان عام کردیاہے کہ وہ صرف سینوں کی بات سے نہیں ،بلکہ زمین و آسمان میں جوکچھ ہے، اُس سے بھی واقف ہے:

قُلْ اِنْ تُخْفُوْا مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ اَوْ تُبْدُوْهُ يَعْلَمْهُ اللّٰهُﵧ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ. (آل عمران ۳:  ۲۹)
’’ان سے کہہ دو کہ جوکچھ تمھارے دلوں میں ہے، تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اللہ اسے جانتا ہے، اور زمین اورآسمانوں میں جوکچھ ہے، اسے بھی جانتا ہے۔‘‘

اس روشنی میں سمجھ لیناچاہیے کہ ہماری پیش کردہ آیت میں بھی ’اَهْلَكَ ‘کے لفظ پر ’مَنْ اٰمَنَ‘  کا عطف ہوجانا، نہ تو ’’درازگوئی ‘‘ہے اور نہ کوئی ایسارازکہ جسے پالینے کے لیے کچھ دوسرے’’رازوں ‘‘سے بھی پردہ اٹھاناضروری ہوجائے۔یہ بھی عام بعدالخاص کی نوعیت کا عطف ہے اور تعمیم کے لیے آیاہے۔اس کافائدہ یہ ہواہے کہ کشتی میں سوارکرنے کے حکم کادائرہ خاندان سے باہرکے مومنین کوبھی محیط ہو گیاہے۔یعنی اس کامطلب اب یہ ہے کہ اے نوح،تم نہ صرف اپنے گھروالوں ، بلکہ دوسرے مومنین کوبھی اس کشتی میں سوارکرالو۔

تخصیص

کلام میں تخصیص کئی طرح سے پیداکی جاتی ہے: ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے حرف ’اِلّا‘ کواستعمال میں لایاجائے۔یہ طریقہ اس قدر عام ہے کہ اس کی کوئی مثال دیناہمیں عبث کی مشق لگتاہے۔بس یہ سمجھ لینا چاہیے کہ زیربحث آیت میں ’وَاَهْلَكَ‘ کے لفظ پراسی ’اِلّا‘ کے ذریعے سے تخصیص لائی گئی ہے ۔یہ جس پرآتی ہے اُس کے بعض افرادکوچونکہ اُس میں سے خارج کردیتی ہے،اس لیے ایک بات تو یہ طے ہوگئی ہے کہ ’وَاَهْلَكَ‘ کے لفظ میں اب نوح کے خاندان کے سب افرادشامل نہیں رہے ،بلکہ اُس کے بعض افراد،لامحالہ اِس میں سے خارج ہو گئے ہیں ۔اوردوسرے یہ کہ خاندان کے افرادہونے کے باوجود، اس لیے خارج ہو گئے ہیں کہ وہ مشرک ہیں اور خداکے فیصلے کی زد میں آئے ہوئے ہیں ۔

یہاں ایک اوربات بھی سمجھ لینی چاہیے۔کسی شے پرآنے والاعطف بالعموم مغایرت کوبیان کرتا ہے، مگر بعض اوقات یہ معطوف علیہ میں کوئی معنوی پہلویاکسی درجے میں کوئی تخصیص بھی پیداکردیتاہے۔اوران ہر دوقسم کے عطف میں امتیازکرنے کاکام سیاق وسباق کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔مثلاًایک آیت میں فرمایاہے:

وَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَّالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا.(ہود۱۱: ۹۴ )

’’جب ہماراحکم صادر ہو گیا توہم نے شعیب کو اور اُن لوگوں کوجواس کے ساتھ ایمان لائے تھے، خاص اپنی رحمت سے نجات دی۔‘‘

اس آیت میں ’وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ‘  کا عطف ’شُعَيْبًا‘ پرہواہے ۔اوراس میں آنے والا ’مَعَهٗ‘  کالفظ صاف بتارہاہے کہ یہ عطف مغایرت کے ساتھ ساتھ ’شُعَيْبًا‘ میں ایمان کامعنی بھی پیداکررہاہے ،اس لیے کہ اس کا مطلب صحیح لفظوں میں یہ ہے کہ ہم نے شعیب اوراُس کے ساتھ ایمان لانے کے عمل میں شریک دوسرے ایمان والوں کوبھی نجات دی۔

زیربحث آیت میں بھی ’مَنْ اٰمَنَ‘  کاعطف ایک ہی وقت میں جس طرح یہ بتارہاہے کہ وہ ’اَهْلَكَ‘ کا غیر ہے، اسی طرح اپنے اندر موجودایمان کاایک رنگ بھی اس میں پیداکررہاہے۔اس کی وجہ بھی معطوف اور معطوف علیہ، دونوں پرآنے والے آیت کے آخری الفاظ ہیں :’وَمَا٘ اٰمَنَ مَعَهٗ٘ اِلَّا قَلِيْلٌ‘ ۔ اورحقیقت میں یہی معنویت ہے جو ’اَهْلَكَ‘ کے لفظ میں ایک طرح کی تخصیص کاباعث ہوگئی ہے۔

تخصیص کایہ طریق جان لیاجائے تومعلوم ہو جاتا ہے کہ ایک ہی لفظ میں ایک سے زیادہ پہلوؤں کا پیدا ہو جانا ہرگز محال نہیں ہے اورنہ کوئی نقض اورتضادہے،جیساکہ بعض حضرات کوخیال ہواہے،اوراسی وجہ سے اُنھوں نے ایک مثال سے ہمیں باورکراناچاہاہے کہ مغایرت اور تخصیص کبھی اکٹھے نہیں ہوسکتے ۔ اُن کی مثال یہ ہے: ”بیٹا، اپنے بچوں کواورپاکستانی بچوں کولیتے آنا۔‘‘ اس مثال اورآیت کے الفاظ میں ہم عرض کریں کہ مشرق و مغرب  کی دوری ہے،مگرہم اس بحث میں پڑنے کے بجاے اردو کی ایک اور مثال پیش کیے دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اہل علم اس میں مغایرت کے ساتھ ساتھ تخصیص بھی پیداہوتے ضروردیکھ لیں گے۔مثال یہ ہے : ’’بیٹا، پاکستانیوں اور دوسرے بچوں کوبھی ساتھ لیتے آنا۔‘‘اوراگرآیت کے ہرہرلفظ کی رعایت رہے تواس کی مثال یہ بھی ہوسکتی ہے : ’’بیٹا،اپنے ساتھ پاکستانیوں ،سواے اُن کے جوبالغ ہوچکے ہیں اوردوسرے بچوں کوبھی ساتھ لیتے آنا۔‘‘دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ان دونوں مثالوں میں ’’دوسرے بچوں ‘‘کا عطف ’’پاکستانیوں ‘‘ سے مغایرت کوبھی بیان کررہاہے اوران’’ پاکستانیوں ‘‘ کے بچہ ہونے کوبھی۔

 عام بعدالخاص اور تخصیص کی وضاحت کے بعداب ہماری پیش کردہ آیت کو بڑی آسانی سے سمجھ لیا جا سکتا ہے:

یہ بھی اصل میں اُس موقع کابیان ہے جب عذاب کاوقت بالکل قریب آن لگاہے اور نوح علیہ السلام کوحکم دیا گیاہے کہ اپنی ضرورت کے تمام جانوروں کے جوڑے کشتی میں رکھ لیں ۔یہ جانورغیرذوی العقول ہیں اور اس دنیامیں برپاکیے گئے امتحان سے قطعی طورپر لاتعلق ہیں ، اس لیے اُن میں سے کون سا جوڑا رکھا جائے، اس کا پیمانہ صرف یہ ہوناچاہیے کہ وہ جانورہوں اوراُن کی ضرورت کے جانور ہوں۔ اس کے بعد فرمایا ہے: ’وَاَهْلَكَ‘ اوراس کے ساتھ اپنے اہل کوبھی سوارکرالیں ۔اُن کے اہل، ہم جانتے ہیں کہ ذی شعورانسان ہیں اور اس وجہ سے دنیاکے اس امتحان سے گزررہے ہیں ،اس لیے اُن میں سے کون سوارکیاجائے ،اس کافیصلہ اُن کے اہل ہونے کے بجاے ان کی اہلیت کی بنیادپرہوناچاہیے ۔بلکہ وہ سب لوگ آپ کی رسالت کے بھی براہ راست مخاطب ہیں ،اس لیے بھی ضروری ہے کہ اُن میں سے صرف ایمان والے ہی سوارکرائے جائیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہوئی کہ خدانے ’اَهْلَكَ‘ پر ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘  کا استثنا لا کر اس بات کو بالکل صراحت کے ساتھ بھی بیان کردیا،یعنی ’اِلَّا ‘کی اس تخصیص سے بتادیا کہ اُن کے اہل میں سے صرف صاحب ایمان کشتی پر سوارہوسکیں گے اور جوشرک پرقائم ہیں اوراس طرح خداکے فیصلے کی زدمیں آچکے ہیں ،وہ سوار ہونے سے یک سر محروم رہیں گے۔ اس کے بعد ’اَهْلَكَ‘ پر ’مَنْ اٰمَنَ‘  کا عطف لایاگیاہے ۔اس عطف نے جس طرح دیگر مومنین کوبھی اس حکم میں شامل کرلیاہے ،اسی طرح ایک زائدقرینہ اس بات کابھی فراہم کردیاہے کہ ’اَهْلَكَ‘ سے مرادیہاں صرف مسلمان اہل ہیں ،اس لیے کہ اس سیاق میں عطف کے ان الفاظ کاصحیح مطلب بنتا ہے: ’’اوردوسرے ایمان والے بھی‘‘۔اورغورسے دیکھاجائے تویہ’’ دوسرے‘‘ کا مفہوم بھی اصل میں ’اَهْلَكَ‘ کے اندر ایمان والوں کا مفہوم پیدا کررہاہے۔

بہرکیف ،یہ دوسری آیت بھی اس معاملے میں بالکل قطعی ہے کہ نوح علیہ السلام کے خاندان کافیصلہ بھی اسلام کے عام قانون نجات کے مطابق ہی ہوااور کسی بھی شخص کومحض اُن کے اہل ہونے کی بنیادپررتی بھر کوئی رعایت نہیں دی گئی۔

اس اصول کے خلاف دلائل کاتجزیہ

نجات کے اس قانون کوہم چاہتے ہیں کہ صرف اثباتی طورپربیان کردینے پراکتفانہ کریں ،بلکہ اس کی متفقہ اہمیت کے پیش نظراس کی مخالفت میں دیے گئے دلائل پربھی کچھ کلام کردیں ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے خلاف بنیادی طورپرتین عدددلائل دیے گئے ہیں :

پہلی دلیل

قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَاَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَﵧ وَمَا٘ اٰمَنَ مَعَهٗ٘ اِلَّا قَلِيْلٌ. (ہود۱۱: ۴۰ )
’’ ہم نے کہا:ہر قسم کے (جانوروں کے) جوڑے اِس میں رکھ لو، (نر و مادہ) دو دو اور ( اُن کے ساتھ) اپنے گھر والوں کو بھی اِس کشتی میں سوار کرا لو، سواے اُن کے جن کے بارے میں حکم صادر ہو چکا ہے، اور اُن کو بھی جو ایمان لائے ہیں  ــــ  اور تھوڑے ہی لوگ تھےجو اُس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔ ‘‘

اس آیت کے متعلق اوپربیان ہوئی تصریحات معیارنجات کے وضوح میں ہرطرح سے کافی ہیں ، مگر ان لوگوں نے اپنے ’’فہم‘‘ کی بنیادپراسے ہی اٹھاکراپنی راے کی دلیل بنادیاہے ، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان کے اس آیت سے استدلال پربھی اپنی چند گزارشات پیش کردیں ۔

ان کاکہناہے کہ’مَنْ اٰمَنَ‘ کے عطف ہوجانے سے یہ قرینہ پیداہوگیاہے کہ ’اَهْلَكَ‘ کوسوارکرانے میں ایمان کے بجاے اہل ہونا ہی شرط ہے۔ہم سیاق کلام اورزبان وبیان کے تمام قاعدے ایک طرف رکھ دیں توکسی درجے میں اس بات کومان سکتے ہیں کہ اس عطف نے واقعی ’اَهْلَكَ‘کے بارے میں یہ قرینہ پیدا کر دیا ہے ۔لیکن ہم جب دیکھتے ہیں کہ اس پر ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ آیا ہواہے تواس بات کو فرض کرلینا بھی ہمارے لیے محال ہو جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عطف صرف ’اَهْلَكَ‘ پرنہیں ،بلکہ اِس استثناسمیت ’اَهْلَكَ‘ پر آیا ہواہے۔چنانچہ اس کاصحیح ترجمہ یہ ہے:’’تم اپنے اہل میں سے اُنھیں جوخداکے فیصلے کی زدمیں آئے ہوئے نہیں ہیں اور دوسرے مومنین کو سوارکرالو‘‘۔اورظاہرہے ،اس جملے سے اس طرح کے کسی قرینے کی پیدایش کو مان لیناکسی طرح بھی ممکن نہیں ہے۔

ان کاکہناہے کہ اگراہل نوح کے معاملے میں بھی ایمان ہی شرط ہوتاتواس قدرتفصیل کی کیاضرورت تھی؟ سادہ طریقے سے کہہ دیا جاتا کہ مومنین کوسوارکرالو۔اس کے جواب میں ہم عرض کریں گے کہ قرآن ایک سپاٹ اور سادہ کتاب نہیں ہے کہ اسے کسی ایک طرز میں محدودکردیاجائے۔ اسے زبان وادب کابھی ایک شاہ کار بنایا گیا ہے ،چنانچہ اس میں جب بیان ِمدعا کیا جاتاہے توسیاق کی ضرورت سے متعدداورمتنوع پیراے استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔مثلاً،ہم اسی بات کودیکھیں تواسے ایک سے زائد طریقوں سے بیان کیا جاسکتاہے:

۱۔تم اپنے ساتھ مومنین کوسوارکرالو۔

۲۔تم اپنے گھروالوں کوسوارکرالو۔

۳۔تم اپنے گھروالوں اوردیگرمومنین کوسوارکرالو۔

ان تینوں بیانات کی اپنی اپنی افادیت ہے۔جیساکہ ان میں سے پہلاہمیں یہ بتائے گاکہ قوم نوح کی نجات کامعاملہ صرف اور صرف ایمان لانے پرمنحصرتھا۔اسے اِیجازکااسلوب کہا جاتاہے ۔دوسراجملہ یہ بتائے گاکہ حضرت نوح پرزیادہ تراُن کے اپنے گھروالے ایمان لائے،اس لیے اُن کاذکرکردیاتوگویاباہرکے چندمومنین کابھی ذکرکردیا۔یہ علی سبیل التغلیب کااسلوب ہے اوراسے سورۂ مومنون میں اختیارکیاگیاہے،جیساکہ اوپر تفصیل گزری۔ ان میں سے تیسراجملہ یہ بتائے گاکہ نجات کاقانون اپنے اطلاق میں مخاطبین کی دونوں قسموں کو محیط ہے ۔یہ اِطناب کااسلوب ہے اورزیربحث آیت میں اسے ہی اختیارکیاگیاہے ۔غرض یہ کہ اطناب کے اس اسلوب سے اگر اچھی طرح سے واقفیت ہوجائے تو قرآن کے بارے میں ’’سادہ‘‘ہونے کامطالبہ لازمی طور پر ختم ہو جاتاہے۔بلکہ اس مقام کی رعایت سے یہ اصول بھی سمجھ میں آ جاتاہے کہ ایک بات کواگر مختلف انداز سے بیان کیا گیاہوتوقرآن کے طالب علموں کواس پر سوالات اٹھانے کے بجاے صرف یہ دیکھناچاہیے کہ کس مقام پرکون ساپیرایہ کس وجہ سے اختیارکیاگیاہے۔


دوسری دلیل

 حضرت نوح کا بیٹا عذاب کی گرفت میں آیااورانھوں نے ’اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ ‘کہتے ہوئے خداسے التجاکی تو اس کے جواب میں یہ کہنے کے بجاے کہ وہ ایمان نہ لایاتھا،اس لیے غرق ہوا، کہاگیا:’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘،وہ تمھارے اہل میں سے نہ تھا،اس لیے غرق ہوا۔ ان حضرات کاکہناہے کہ یہ مکالمہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل نوح کے لیے نجات کی وجہ صرف یہی تھی کہ وہ اُن کے اہل میں سے ہیں ۔

ہمارے نزدیک اس استدلال کی یہ بنیادہی غلط ہے کہ غرق ہونے والانوح کاحقیقی بیٹانہیں تھا۔ہماری اس بات کوسمجھنے کے لیے فہم قرآن کاوہ بنیادی قاعدہ ضرور سمجھ لیناچاہیے جس سے یہاں مطلق طورپربے اعتنائی برتی گئی ہے ۔قرآن محض لفظوں اورمنتشرجملوں کاکوئی مجموعہ نہیں ہے کہ اس میں سے ایک لفظ اٹھایاجائے اورصرف لغت کے اعتبارسے اس کی مرادمتعین کرلی جائے۔اسے کلام کی صورت میں اتاراگیا ہے اورہم جانتے ہیں کہ یہ الفاظ جب کسی کلام کاحصہ بن جاتے ہیں تواپنے اندرکئی طرح کی تعیین اورتخصیص پیداکرتے چلے جاتے ہیں ۔ اس قاعدے کی روشنی میں دیکھاجائے تومعلوم ہوتاہے کہ لفظ ’اَهْلَكَ‘ میں بھی پیچھے آیت۴۰ میں تخصیص ہوچکی ہے اوراس سے مراد اب محض اہل نہیں رہے،بلکہ کچھ خاص اہل ہوگئے ہیں ۔یعنی نوح علیہ السلام کے خاندان کے وہ افرادجو ایمان لائے ہیں اور اُن کے بارے میں خدا کافیصلہ صادرنہیں ہوچکا۔اس لفظ میں پائی جانے والی یہی تخصیص ہے جو اِعادۂ معرفہ کے اصول پراس واقعہ کے تفصیلی بیان میں آخر تک موجود رہی ہے۔ نوح نے التجا کرتے ہوئے جب ’

اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ ‘کہاہے تواس سے اُن کی مراد یہی ہے کہ پروردگار، میرا بیٹا  تو میرے اُن خاص اہل میں سے تھاجن کے بارے میں عذاب کا فیصلہ نہیں ہواتھا۔اس کے جواب میں خدا نے جب ’اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ اَهْلِكَ ‘کہاہے تواس کامطلب بھی اب یہی ہے کہ وہ تمھارے اُن خاص اہل میں سے ہرگزنہیں تھا،بلکہ ہمارے فیصلے کی زدمیں آیاہواشخص تھا۔اوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے ’اِنَّهٗ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ‘ وہ اپنی ذات میں سراسربرائی ہوچکاتھا۔گویایہ آخری جملہ اُس کے غرق ہونے کی تعلیل اور اِس  لحاظ سے ’اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ‘ میں بیان ہونے والے قانون ہی کادوسرے لفظوں میں حوالہ ہے۔

یہ تورہی آیت سے اٹھائے گئے ان کے استدلال کی حقیقت۔باقی ہم عرض کریں کہ جہاں تک اُس ناخلف کے نسب کا تعلق ہے تو وہ ہرلحاظ سے درست ہے ،اس لیے کہ خدانے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اُسے نوح ہی کا بیٹا  قراردیا ہے۔ارشادہواہے :

وَهِيَ تَجْرِيْ بِهِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِﵴ وَنَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ.(ہود۱۱: ۴۲)
’’وہ کشتی پہاڑوں کی طرح اٹھتی ہوئی موجوں کے دمیان ان کولے کرچلنے لگی اورنوح نے اپنے بیٹے کوآوازدی۔‘‘

یہ آیت اُس کے نسب کے حقیقی ہونے میں بالکل صریح ہے ،مگرافسوس یہ ہے کہ ان حضرات نے اس میں بھی ایک خلط مبحث پیداکر دیا ہے۔ان کاکہناہے کہ حضرت نوح چونکہ اُسے لاعلمی میں اپنابیٹاخیال کرتے تھے، اس لیے خدانے اُنھی کے علم کی رعایت سے حکایت ماجرا کر دی ہے ۔ہم گزارش کریں گے کہ یہ حکایت ماجرا ہے ، اس سے کس کوانکارہے ،مگر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ حضرت نوح کے کلام کی حکایت نہیں ہے کہ اس میں اُن کے مزعومات کاخیال رکھا جاتا،بلکہ یہ اُن کے واقعہ کی حکایت ہے اورخداکی طرف سے ہورہی ہے، اس لیے لازم تھا کہ اس میں صرف اورصرف حقائق کوبیان کیا جاتا۔اب وہ ناخلف چونکہ واقعہ میں اُنھی کا اپنا بیٹا تھا،اس لیے خدانے اسی حقیقت کویہاں بیان کردیاہے۔بلکہ ہم عرض کریں کہ معاملہ اگراس سے الٹ ہوتا  اور اُس شخص کانسب واقعہ میں درست نہ ہوتاتواِس کے لیے ’نَادٰي نُوْحُ اِۨبْنَهٗ ‘ کے الفاظ کسی طرح بھی موزوں نہ ہوتے ۔اس کے لیے ’نادی نوح الذي یزعم ابنہ‘ یااسی طرح کے الفاظ لائے جاتے جو حکایت کے اعتبارسے بھی موزوں ہوتے اوراس سے ایک فائدہ یہ ہوتاکہ اُس کی ولدیت کے غیرحقیقی ہونے کااس مناسب مقام پرایک واضح سااشارہ بھی ہوجاتا۔[4]

 ان حضرات کی غلطی ایک اورزاویے سے بھی سمجھ لینی چاہیے ۔فرض کریں کہ اگریہاں حضرت نوح کے واقعہ کے بجاے اُن کی بات نقل کی جارہی ہوتی تو قرآن کے اندازِحکایت سے واقف ہرشخص جانتاہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے یہ صراحت لازماً کرتا کہ یہ نوح کی اپنی بات ہے ۔اوراسی طرح اگریہ بات غلط ہوتی تواس کی برسرموقع تردیدبھی کرتایاکم سے کم اس کے غلط ہونے کی طرف ایک اشارہ ضرورکردیتا۔عرب کے مشرکین اپنا دین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے۔ایک جگہ اُن کی طرف سے اُن کے دین کی حکایت کرتے ہوئے فرمایاہے :’فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَهٰذَا لِشُرَكَآئِنَا

[5] (اورکہتے ہیں کہ یہ اللہ کاہے ،بزعم خود،اوریہ ہمارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کے لیے ہے)۔یہاں مشرکین کی بات کے بیچ ہی میں ’’بزعم خود‘‘ کالفظ لایاگیاہے تاکہ قارئین کے سامنے فوری طورپراس چیزکی وضاحت کردی جائے کہ یہ ابراہیم علیہ السلام کانہیں ، بلکہ اُن کااپنابنایاہوا دین ہے ۔بلکہ یہ وضاحت اس قدرضروری ہوتی ہے کہ خود ان حضرات نے بھی جب حکایت ماجرا’’سمجھانے‘‘ کے لیے ایک مثال پیش کی ہے تووہ بھی اس میں ’’بقول‘‘ کا لفظ لانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ان کی مثال یہ ہے:’’بقول نصارٰی عیسٰی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔‘‘

اس ذیل میں یہ بھی سمجھ لیناچاہیے کہ ذوالقرنین کے واقعہ کوبیان کرتے ہوئے جوفرمایاہے کہ ’’جب وہ سورج کے غروب ہونے کی جگہ تک پہنچا تواس نے سورج کودیکھاکہ ایک سیاہ کیچڑ کے چشمے میں ڈوب رہا ہے۔‘‘[6]تویہ اصل میں انسانی آنکھ کے مشاہدے کا اعتبارکیا ہے اورزبان کے قواعدکی روسے یہ بالکل جائزہے کہ حقیقت حال معلوم ہونے کے باوجوداس کااعتبارکیا جائے۔ مثال کے طورپر، زمین اپنے محورکے گردگھومتی ہے اوراس سے دن اوررات پیداہوتے ہیں ، یہ بات جان لینے کے بعدبھی ہمارے لیے رواہے کہ ہم کہیں کہ سورج کے طلوع اورغروب ہونے سے دن اوررات پیداہوتے ہیں کہ انسان کی ظاہری آنکھ سے ایساہی دکھائی دیتا ہے۔ مگراس طریق بیان کازیر بحث آیت سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اس لیے کہ اس کامعاملہ یہ نہیں ہے کہ اُس شخص کی ولدیت کے بارے میں ایک حقیقت ہو اور ایک اُس کے بارے میں انسان کامجموعی طورپرکوئی مشاہدہ ہو، بلکہ یہ کسی بات کے حقیقت ہونے یانہ ہونے کا معاملہ ہے اور ہم زبان کے کسی ایسے قاعدے سے واقف نہیں ہیں جوہمیں اجازت دیتاہوکہ ہم دونوں ہی امور کی یکساں طورپرحکایت کرسکیں ،یعنی اُس شخص کی ولدیت کاعلم ہونے کے باوجود،محض حضرت نوح کی لاعلمی کالحاظ کرتے ہوئے حقیقت حال سے مختلف بات کہہ سکیں، اوربالخصوص اُس سیاق میں جہاں حکایت کرنے والا ان حضرات کے بقول ا س غلط فہمی کی اصلاح بھی کرنا چاہتاہو۔

تیسری دلیل

یہ تیسری دلیل اصل میں پہلے دودلائل کومؤکدکرنے کے لیے لائی گئی ہے۔اس کے ذریعے سے یہ لوگ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ صرف نوح کے اہل کی خصوصیت نہیں ہے،بلکہ دیگرانبیاے کرام کے اہل کوبھی یہ حیثیت حاصل رہی ہے۔اس میں انھوں نے متنوع استدلالات پیش کیے ہیں ،ہم ذیل میں قدرے اختصارسے ان پرتبصرہ کرتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ یہ کس حدتک ’’اطمینان‘‘ بخش ہیں :

۱۔اس خصوصیت کے اثبات میں انھوں نے ایک سوال نمااستدلال یہ کیاہے کہ جس طرح حضرت نوح کے واقعے میں’اہل ‘ کا لفظ آیاہے ،اسی طرح حضرت لوط کے واقعے میں بھی اسے لایاگیاہے اورآخر اس کی کوئی تووجہ ہے؟اس پرہم عرض کریں کہ اس کی وجہ چاہے کچھ بھی ہو،بہرحال یہ نہیں ہے کہ ان بزرگوں کے اہل محض اہل ہونے کی وجہ سے نجات کے مستحق ہیں ،بلکہ قرآن کی روسے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نوح پراُن کے اہل بھی ایمان لائے تھے،اس لیے نجات کے فیصلے میں اُن کابھی ذکرکیا،اورمزیدیہ کہ ایمان لانے والوں میں سے زیادہ تر کا تعلق آپ کے اہل سے تھا،اس لیے بعض جگہ صرف اُنھی کاذکرکردیا۔[7] اور جہاں تک حضرت لوط کامعاملہ ہے تو قرآن بتاتا ہے کہ اپنے گھرکے سوا اُن پرکوئی گھرایمان نہ لایا ’فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ[8]۔اوریہی وجہ ہوئی کہ خدانے صرف اُن کے اہل کابیان کیااورخوداُنھوں نے بھی جب دعاکی تواس میں نوح کے برعکس،صرف اپنے اہل کاذکرکیا۔

اس ذیل میں ان حضرات نے یہ نکتہ بھی پیداکیاہے کہ جب خاندان کی بات ہوئی ہے توجس طرح نوح کے بیٹے کواس میں سے خارج سمجھاگیا، لوط کی بیوی کوبھی خارج ازاہل بیت سمجھاگیا۔حضرت نوح کے بیٹے کے بارے میں توہم تفصیل سے بتاچکے ہیں کہ وہ کس معنی میں آپ کے اہل میں سے خارج قراردیاگیا۔جہاں تک حضرت لوط کی بیوی کامعاملہ ہے تواُس پرہم عرض کریں گے کہ یہ عورت تو بہرصورت، آپ کے اہل میں سے تھی، مگر پھر بھی اُسے خارج قراردیاگیاتواس کی وجہ اس کے سوا اورکیاہوسکتی ہے کہ نجات کے فیصلے میں اسے بھی اُسی خاص معنی میں ،یعنی صاحب ایمان نہ ہونے کی وجہ سے اہل میں سے خارج سمجھاگیا۔

۲۔ان کا کہناہے کہ نوح کے بعدذریت انبیاکوایک اہمیت حاصل رہی ہے ۔ نوح برگزیدگی پاتے ہیں تواس کا صلہ اُنھیں یہ بھی ملتاہے کہ اُن کی اولادمیں نبیوں کی آمدکاوعدہ شامل ہو جاتا ہے۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کوامامت پر سرفراز کیا جاتا ہے تووہ بھی اپنی ذریت میں اس کے اجراکامطالبہ کرتے ہیں ۔ان کے اس استدلال اورزیربحث مسئلہ میں شایدہی ادنیٰ درجے کی کوئی مطابقت ڈھونڈی جاسکے۔دعویٰ کیاجارہاتھا کہ انبیاے کرام کے اہل محض اُن کے اہل ہونے کی وجہ سے نجات پاتے ہیں اوردلیل دی جارہی ہے کہ اُن کی ذریت میں نبوت اورامامت جاری کی گئی۔ کس کوشک ہوسکتاہے کہ ان لوگوں پریہ سب افضال وعنایات ہوئیں ،،مگرسوال تویہ ہے کہ اس کا مطلب یہ کہاں سے ہوگیاکہ اب اُن کے لیے اہلیت کی شرط بھی ختم کردی گئی؟قرآن توہمیں بتاتا ہے کہ وہ نبوت دینے کافیصلہ اپنے علم کی بنیادپرکرتاہے[9]،چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اُس نے انبیاکی ذریت میں سے جن لوگوں کوبھی نبوت عطافرمائی، وہ اُس کے علم کے مطابق کامل ترین لوگ اورمرتبۂ احسان پر فائز شخصیات تھیں

[10]۔اسی طرح اُس نے جب ابراہیم کوامامت عطافرمائی تواہلیت کی اسی شرط کے مطابق فرمایاکہ اُس کا وعدہ اُن کی ذریت میں سے ظالم لوگوں کوہرگزشامل نہ ہوگا۔[11]

۳۔ان حضرات نے اسی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے کہاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کوبھی ایک اہمیت حاصل رہی ہے ۔ہم عرض کریں گے کہ ہاں ، ایساہی ہے ،نبیوں کے تمام متعلقین کوایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے ۔مگراس کامطلب یہ بالکل بھی نہیں ہوتاکہ وہ نجات کے باب میں کسی خاص حیثیت کے حامل ہوگئے ہیں ،بلکہ اس کامطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اُن کا معاملہ اس تعلق کے حوالے سے اور زیادہ حساس ہوگیاہے۔انھیں اب دوسروں سے بڑھ کراس دعوت کوقبول کرنااوراس کے مویدبن جانا ہے، اوراس میں یہ بھی ہوسکتاہے کہ اپنے اس تعلق کی وجہ سے وہ پیغمبروں کے ساتھ روا رکھی جانے والی عداوت کابھی خصوصی طورپرنشانہ بن جائیں ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے بارے میں اسی وجہ سے فرمایاہے کہ اگر وہ اللہ اوراس کے رسول کی فرماں بردار بنی رہیں گی تو انھیں اس وجہ سے کہ وہ آپ کی ازواج ہونے کے ناتے منافقین کی شرارتوں کا خصوصی ہدف بن گئی ہیں ،اجربھی دہراملے گا۔مگراس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ تنبیہ بھی کر دی گئی کہ اگروہ کسی برائی میں ملوث ہوں گی تواس تعلق کی وجہ سے کوئی خصوصی رعایت ملناتو بڑی دورکی بات، اس پراُنھیں عذاب بھی دہرادیاجائے گا۔[12]

۴۔ان کا کہناہے کہ جس طرح نصاریٰ کے خلاف مباہلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ کی ہلاکت اورنجات معیار قرار پائی تھی،ہوسکتاہے کہ حضرت نوح اورلوط کی پوری دعوت مباہلہ بن گئی ہواوراُن کے اہل کابچایاجانالازم ہوگیاہوکہ یہ اُن کے حق پرہونے کی دلیل ہوتا۔یہ ان حضرات کی جانب سے کیاہواسراسرقیاس ہے ،وگرنہ قرآن میں نہ تواس دعویٰ کی کوئی دلیل پائی جاتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل کی نجات حق وباطل کا معیارقرارپائی تھی اورنہ اس دعویٰ کی کوئی دلیل ملتی ہے کہ حضرت نوح اورلوط نے کبھی اپنے اہل کی نجات کومعیار قرار دیاتھا۔اصل میں مباہلے کی آیات سے ان لوگوں کومغالطہ ہوگیاہے،اس لیے ضروری ہے کہ ان کے بارے میں چندباتیں اچھی طرح سے سمجھ لی جائیں :ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوامت کے رہنما اور وکیل کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے جب فرمایاہے:’فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَاَبْنَآءَكُمْ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ‘،تویہ الفاظ اس معاملے میں بالکل صریح ہیں کہ مباہلے میں صرف آپ اور آپ کے اہل وعیال کوشریک نہیں ہوناتھا،بلکہ اہل کتاب کی جماعت کے مقابلے میں مسلمانوں کی پوری جماعت کوشریک ہوناتھا۔چنانچہ اس عمومی نوعیت کے معاملے سے صرف آپ کے اہل کی خصوصی حیثیت کااستدلال کرنا،کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ’

فَمَنْ حَآجَّكَ فِيْهِ مِنْۣ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ‘اور’ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ‘[13]کے الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ مباہلہ اصل میں دلائل کے مقابلے میں مکابرت کرنے والوں پرمحض خداکی لعنت کرنے کاایک طریقہ تھا[14]۔چنانچہ اس کی بنیادپریہ کہنابالکل بھی روانہیں ہے کہ اس میں کسی کی ہلاکت ونجات کو معیار قرار دے دیا گیا تھا۔[15]

۵۔اس سلسلے میں ایک نکتہ آفرینی یہ بھی ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل کامصرسے خروج اورفرعون کے ساتھ غرق ہونے سے نجات اُن کے ایمان کی وجہ سے نہیں ،بلکہ اِس وجہ سے ہوئی تھی کہ وہ حضرت اسرائیل کی اولاد تھے۔ان کے اس استدلال میں ،حسب معمول، ایک سے زائد غلط فہمیاں موجود ہیں ۔انھیں رفع کرنے کے لیے یہ جانناازحدضروری ہے کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کی بنی اسرائیل اورآل فرعون کی طرف ہونے والی بعثت میں کیافرق تھا اوراس کی تفصیلات کیاکچھ تھیں ۔خدانے کبھی توفیق دی تواس پراپناحاصل مطالعہ پیش کریں گے۔  سردست،ان کے استدلال کے جواب میں چندباتیں واضح رہیں ۔

ایک یہ کہ بنی اسرائیل بے یقینی، بداعتقادی اورسرکشی جیسی بیماریوں میں ضرور مبتلاہوئے ،مگریہ بھی حقیقت ہے کہ وہ نہ صرف مسلمان ،بلکہ لوگوں پرحق بات کی شہادت دینے کے لیے خداکی طرف سے مامورکی گئی ایک قوم تھے[16]۔وہ موسیٰ علیہ السلام کوبھی خدا کا رسول مانتے تھے[17]اوراُنھیں یہ حیثیت بھی دیتے تھے کہ محض مستقبل کے ایک وعدے پردوردرازکے صحرائی اورپرکٹھن سفرمیں اُن کے ہم رکاب ہوگئے تھے۔چنانچہ ان کے بارے میں یہ گمان کرناہرگز درست نہیں ہے کہ اُن کے ساتھ جومعاملات ہوئے ،وہ ایمان کے بجاے صرف اورصرف اُن کے نسب کی رعایت سے ہوئے۔دوسرے یہ کہ اُن کامصرسے خروج ہویادریاسے پار اتر جانا، یہ خداکے عذاب سے نجات کا معاملہ سرے سے نہ تھاکہ اس سے کوئی شخص اپنی راے کے حق میں دلیل اٹھا لائے،بلکہ یہ اُن پرہونے والاسراسرخدا کااحسان تھااوریہ بھی یادرہے کہ اس کے نتیجے میں وہ خداکے نہیں، بلکہ فرعون کے عذاب سے بچائے گئے تھے[18]۔تیسری بات یہ ہے کہ وہ نبیوں کی اولاد ہونے کی بنیاد پر جزا و سزا کے خدائی قانون سے کبھی مبرانہ ہوئے ۔بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اُن کی طرف سے جب بھی جرم کا ارتکاب ہوا، اُنھیں اس کی سزابھی بڑی سخت اوردردناک ملی ،حتیٰ  کہ شرک کرنے کی پاداش میں اُنھیں قتل تک کی سزاسنائی گئی۔[19]

ایمان ہی نجات کی دلیل ہے ،اس بنیادی اصول کے خلاف یہ ان لوگوں کے دلائل اور ان کی حقیقت ہے۔ سو آخر میں ہم ایک گزارش کرناچاہیں گے۔ یہ اصول خداکی رحمت کاتقاضااوراُس کے بے لاگ انصاف کا مظہر ہے اور مسلمانوں کے لیے قابل قبول،بلکہ ہمیشہ سے اُن کے لیے سرمایۂ افتخاررہاہے۔یہ تواصل میں یہودتھے جنھوں نے نبیوں کی اولادہونے کے زعم میں مبتلاہوکر اس میں استثنا پیدا کیااورنجات کے معاملے میں اپنی خصوصی حیثیت کے دعوے دارہوگئے ۔وگرنہ خدا نے توکسی شخص کونہ اس سے مستثنیٰ قرار دیااورنہ اس طرح کی کسی کوشش کوکبھی جائز قراردیا،بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اُس نے قرآن میں یہودکے ان مزعومات کا ہزار طریقوں سے جواب دیا۔ لہٰذا، ہم مسلمانوں کے لیے یہی زیباہے کہ ہم اس اصول کوجی جان سے مانیں ۔ اسے بے کم و کاست اورمن وعن قبول کریں اوراس میں رتی بھرکسی تبدیلی کے روادارنہ ہوں ۔اورہمیشہ یادرکھیں کہ ہم اس اصولِ انصاف کے مؤیداورداعی بناکرکھڑے کیے گئے ہیں، نہ کہ مخالف اور اسے بے اثر کر دینے والے بناکر۔


حواشی

[1]۔ المومنون۲۳: ۲۳  ۔

[2]۔ المومنون ۲۳: ۱۰ -  ۱۱ ۔

[3]۔ المومنون۲۳: ۴۱، ۴۴ ، اور ۴۸ ۔

[4]۔ بلکہ اس کے بعد’یٰبني ارکب معنا‘ کے الفاظ لانے میں بھی کوئی رکاوٹ نہ ہوتی ،جیساکہ ان حضرات کواس کاخیال ہوگیاہے۔

[5]۔ الانعام۶:  ۱۳۶۔

[6]۔ الکہف ۱۸ : ۸۶۔

[7]۔ اوراس کی دلیل میں سورۂ مومنون کی آیت ۲۷ دیکھ لی جاسکتی ہے۔

[8]۔ الذاریات۵۱: ۳۶ ۔

[9]۔ الانعام۶ : ۱۲۴ ۔

[10]۔ الانعام ۶: ۸۴-   ۸۵ ۔

[11]۔ البقرہ ۲: ۱۲۴ ۔

[12]۔ الاحزاب۳۳: ۳۰ - ۳۱ ۔

[13]۔ آل عمران ۳: ۶۱ ۔

[14]۔ اوریہ طریقہ اس موقع کے ساتھ خاص بھی نہ تھا،بلکہ اسے دوسرے مواقع پربھی اختیارکیا گیا۔روایات میں آتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رِعل اور ذکوان جیسے قبائل پرپورامہینالعنت فرماتے رہے (مسلم، رقم ۱۵۸۴)۔

[15]۔ اس لعنت کا نتیجہ ،البتہ یہ ہوسکتاتھاکہ اس کے بعدجھوٹوں کو ہلاک کردیا جاتا اوراس بات کابھی امکان تھاکہ اُن پر ذلت اوررسوائی مسلط کردی جاتی۔ اگراہل کتاب کے بارے میں خداکی سنت کالحاظ رہے تواس دوسرے نتیجے کے وقوع پذیر ہونے کازیادہ اِمکان تھا۔

[16]۔ البقرہ۲ : ۴۷ ۔

[17]۔ المومن ۴۰: ۲۵۔ الصف۶۱: ۵ ۔

[18]۔ البقرہ۲ : ۴۹۔

[19]۔ البقرہ۲ :  ۵۴۔

____________

B