قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے اہم ترین سوال جس پر امام شافعی نے داد تحقیق دی ہے، بعض احادیث کے، بظاہر قرآن کے حکم سے متعارض یا اس سے متجاوز ہونے کا سوال ہے۔ اس ضمن میں عہد صحابہ و تابعین میں جو مختلف زاویہ ہاے نظر پائے جاتے تھے، ان کی وضاحت پچھلی فصل میں کی جا چکی ہے۔ جمہور فقہا و محدثین ایسی صورت میں قرآن مجید کی مراد کی تعیین میں احادیث کو فیصلہ کن حیثیت دیتے تھے اور ظاہری تعارض کو، کسی قابل اعتماد روایت کو رد کرنے کی درست بنیاد تصور نہیں کرتے تھے۔ امام شافعی نے بھی اس بحث میں جمہور اہل علم کے موقف کی تائید کی، البتہ امام شافعی سے پہلے اہل علم کے استدلال کا محوری نکتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کا مطلق اور حتمی ہونا تھا اور وہ قرآن اور حدیث میں کسی ظاہری مخالفت کی صورت میں حدیث کو قرآن کی تشریح میں فیصلہ کن حیثیت دینے کو اس اتباع واطاعت کے ایک تقاضے کے طور پر پیش کرتے تھے۔ امام شافعی نے اس بحث کو جس رخ پر آگے بڑھایا، اس میں یہ نکتہ تو بدیہی طور پر موجود ہی تھا، لیکن انھوں نے اس میں ایک نہایت بنیادی پہلو کا اضافہ کر کے اسلامی روایت میں گویا تفسیر متن کے اصولوں (hermeneutics) کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی ۔
امام شافعی نے قرآن وسنت کے باہمی تعلق کی بحث میں جس نکتے کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور جسے پورے زور استدلال کے ساتھ واضح کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کلام عرب میں اسلوب عموم کی نوعیت ہے۔ یہ نکتہ امام شافعی کے زیربحث تصور میں محوری حیثیت رکھتا ہے اور اسی پر ان کے اس بنیادی دعوے کا انحصار ہے کہ قرآن کے ساتھ سنت کا تعلق، محض تبیین ووضاحت تک محدود ہے اور وہ قرآن کے مدعا ومفہوم میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کرتی۔
امام شافعی کا اٹھایا ہوا سوال یہ تھا کہ اگر قرآن نے کوئی حکم کسی قسم کی قیود وشرائط کے بغیر عموم کے اسلوب میں بیان کیا ہو تو فہم کلام کے اصولوں کی رو سے یہ فرض کرنے کا جواز کس حد تک ہے کہ فی الواقع شارع کی مراد اس حکم کو، کسی قسم کے خصوص یا استثنا کے بغیر، ہر ہر فرد پر اور ہر ہر صورت میں واجب العمل قرار دینا ہے؟ اگر تو واقعی یہ فرض کرنا ممکن ہو کہ قرآن میں اسلوب عموم میں بیان کیے جانے والے ہر حکم کا ہر ہر فرد اور ہر ہر صورت کو شامل ہونا قطعی طور پر مراد ہے تو پھر کسی حدیث کے، ظاہر قرآن کے خلاف ہونے کی صورت میں اسے قبول کرنے کی نوعیت دو متعارض دلیلوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کی ہوگی، لیکن اگر یہ فرض کرنے ہی کی معقول بنیاد موجود نہ ہو اور قرآن کا اسلوب عموم خود ایک قابل احتمال اور محتاج تفسیر چیز ہو تو یہاں سرے سے کسی قسم کا تعارض پایا ہی نہیں جاتا جسے دور کرنے کی ضرورت ہو، چنانچہ متکلم کی طرف سے بیان کی جانے والی کوئی بھی تخصیص یا تقیید دراصل سابقہ حکم کی تفصیل اور تشریح ہی تصور کی جائے گی۔
امام شافعی کہتے ہیں کہ قرآن کے بیانات کے استقرا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں عموم کا اسلوب بذات خود قطعی طور پر یہ طے نہیں کرتا کہ متکلم کی مراد عموم ہی ہے، بلکہ اس میں دونوں احتمال ہوتے ہیں اور متکلم کی مراد متعین کرنے کے لیے اضافی دلائل وقرائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض جگہ عموم کے اسلوب سے فی الواقع عموم ہی مراد ہوتا ہے، یعنی الفاظ کی ظاہری دلالت جن مصداقات کو شامل ہے، وہ سب متکلم کی مراد ہوتے ہیں، بعض جگہ عموم کے اسلوب سے عموم مراد تو ہوتا ہے، لیکن قرائن ودلائل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اس عموم سے فلاں اور فلاں صورتیں خارج ہیں، اور بعض مقامات پر عموم کے اسلوب سے سرے سے عموم مراد ہی نہیں ہوتا، بلکہ کچھ خاص مصداقات کا ذکر عموم کے الفاظ سے کر دیا جاتا ہے۔
ان تینوں طرح کے مواقع کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
پہلی نوعیت کی مثال’خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ‘ (الانعام ۶: ۱۰۲)، ’وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللّٰهِ رِزْقُهَا‘ (ہود ۱۱: ۶) اور’يٰ٘اَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰي وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا‘ (الحجرات ۴۹: ۱۳) جیسی آیات ہیں۔ ان مثالوں میں عموم کے اسلوب سے حقیقتاً عموم ہی مراد ہے، کیونکہ عقلی ونقلی دلائل کی رو سے ہر چیز کا خدا کی مخلوق ہونا اور ہر جان دار کے رزق کا بندوبست اللہ کے ذمے ہونا قطعی طور پر واضح ہے۔ اسی طرح انسانوں کا مرد وعورت سے پیدا ہونا اور قبیلوں اور برادریوں میں تقسیم ہونا ہر دور اور ہر علاقے کے انسانوں کے حق میں درست ہے اور کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جو یہ واضح کرے کہ فلاں یا فلاں مصداقات اس دلالت سے خارج ہیں۔
دوسری نوعیت ( کہ عموم کے اسلوب سے عموم ہی مراد ہو، لیکن قرائن سے بعض صورتوں کا اس سے خارج ہونا بھی واضح ہو) کی ایک مثال یہ آیت ہے:
مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِيْنَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ يَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَلَا يَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖ. (التوبہ ۹: ۱۲۰)
’’مدینہ میں رہنے والوں اور اس کے گرد بسنے والے دیہاتیوں کے لیے یہ روا نہیں تھا کہ وہ رسول اللہ کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ انھیں پیغمبر سے زیادہ اپنی جانوں کو بچانے کی رغبت ہو۔‘‘
یہاں عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، لیکن عقلی دلیل سے واضح ہے کہ اس حکم کے مخاطب تمام اہل مدینہ نہیں، بلکہ وہ عاقل وبالغ مرد ہیں جو جہاد کی طاقت رکھتے ہیں۔ اسی طرح’حَتّٰ٘ي اِذَا٘ اَتَيَا٘ اَهْلَ قَرْيَةِ اِۨسْتَطْعَمَا٘ اَهْلَهَا‘ (الکہف ۱۸: ۷۷) اور’رَبَّنَا٘ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا‘ (النساء ۴: ۷۵) میں یہ واضح ہے کہ بستی کے سارے لوگ نہیں، بلکہ بعض لوگ مراد ہیں۔ یہی اصول’اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ‘ (الحجرات ۴۹: ۱۳) کے عموم کو بھی عاقل اوربالغ انسانوں تک محدود کرتا ہے۔ نماز اور روزہ کے احکام کے مخاطب بھی اسی اصول کی رو سے عاقل اور بالغ مرد اور عورتیں قرار پاتے ہیں، جب کہ بچے، پاگل اور ماہواری کے ایام میں خواتین اس کے مخاطب نہیں ہیں۔
تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ عموم کے اسلوب میں دراصل کچھ خاص افراد یا حالات کا ذکر کیا گیا ہو اور یہ تخصیص کلام کے سیاق وسباق سے واضح ہو۔ مثلاً’اَلَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ‘ (آل عمران ۳: ۱۷۳) میں قرینے سے واضح ہے کہ اطلاع دینے والے ’النَّاس‘ سے بھی چند لوگ مراد ہیں اور جن کے متعلق اطلاع دی گئی ہے، وہ بھی چند ہی لوگ تھے۔ اسی طرح’ثُمَّ اَفِيْضُوْا مِنْ حَيْثُ اَفَاضَ النَّاسُ‘ (البقرہ ۲: ۱۹۹) میں بداہتاً واضح ہے کہ ’النَّاس‘ سے سب لوگ نہیں، بلکہ صرف وہ لوگ مراد ہیں جو حج کے لیے جمع ہوئے ہوں۔ اسی کی ایک مثال’وَقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ‘ (البقرہ ۲: ۲۴) کی آیت ہے جس میں بالبداہت ’النَّاس‘ سے بعض انسان مراد ہیں۔
مذکورہ تمام مثالوں میں عموم سے متعلق متکلم کا ارادہ خود کلام کے ساتھ جڑے ہوئے عقلی یا داخلی قرائن سے واضح ہے اور اس کے سمجھنے میں کسی صاحب فہم کو دقت نہیں ہو سکتی۔ امام شافعی لکھتے ہیں:
فإنما خاطب اللہ بکتابہ العرب بلسانھا علی ما تعرف من معانیھا وکان مما تعرف من معانیھا اتساع لسانھا وأن فطرتہ أن یخاطب بالشيء منہ عامًا ظاھرًا یراد بہ العام الظاھر ویستغنی بأول ھذا منہ عن آخرہ، وعامًا ظاھرًا یراد بہ العام ویدخلہ الخاص فیستدل علی ھذا ببعض ما خوطب بہ فیہ، وعامًا ظاھرًا یراد بہ الخاص وظاھرًا یعرف في سیاقہ أنہ یراد بہ غیر ظاھرہ، وکل ھذا موجودہ علمہ في أول الکلام أو وسطہ أو آخرہ، وتبتدئ الشيء من کلامھا یبین أول لفظھا فیہ عن آخرہ، وتبتدئ الشيء یبین آخر لفظھا فیہ عن أولہ، وتکلم بالشيء تعرفہ بالمعنی دون الإیضاح باللفظ کما تعرف الإشارة، ثم یکون ھذا عندھا من أعلی کلامھا لانفراد أھل علمھا بہ دون أھل جھالتھا.(الام ۱/ ۲۲)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اہل عرب کو ان کی زبان میں ان اسالیب کے مطابق مخاطب کیا ہے جن کو وہ جانتے تھے۔ ان اسالیب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زبان کے استعمال میں وسعت ہے اور زبان کا یہ فطری طریقہ ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے اور مراد بھی عام ہی ہو اور اس میں کلام کے ابتدائی حصے کو سمجھنے کے لیے آخری حصے کو دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔ زبان کا ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے اور مراد بھی عام ہو، لیکن اس میں سے کچھ افراد یا صورتیں مستثنیٰ ہوں جس کا پتا اس دلیل سے چلے گا جس میں ان مخصوص افراد کا حکم بتایا گیا ہے۔ اسی طرح یہ بھی زبان کا ایک اسلوب ہے کہ کسی چیز کا ذکر بظاہر عام الفاظ میں کیا جائے، لیکن اس سے مراد مخصوص افراد ہوں اور کلام کے سیاق سے ہی واضح ہو رہا ہو کہ اس کا ظاہری عموم مراد نہیں۔ یہ سب قرائن کلام کے آغاز میں یا درمیان میں یا آخر میں موجود ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ کلام کا آغاز ایک بات سے کیا جاتا ہے اور کلام کا پہلا حصہ اس کے آخری حصے کی وضاحت کر رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ کلام کا آخری حصہ، ابتدائی حصے کی مراد کو واضح کر رہا ہوتا ہے۔ کلام کرتے ہوئے آپ کسی بات کا ابلاغ، الفاظ میں وضاحت کیے بغیر، معنی و مفہوم کے ذریعے سے بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ اشارے کی مدد سے کر سکتے ہیں۔ پھر یہ سب اسالیب اہل عرب کے ہاں کلام کی بلند ترین صورت سمجھے جاتے ہیں، کیونکہ ان کا فہم ان میں سے اہل علم ہی کو حاصل ہوتا ہے، نہ کہ جاہلوں کو۔‘‘
امام شافعی نے اسی اصول کے تحت شرعی احکام میں، بعض قیاسی ونقلی تخصیصات کی بھی وضاحت کی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں مردوں سے خطاب کر کے انھیں چار تک عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے (النساء ۴: ۳)۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ یہاں حکم کی نوعیت سے ہی واضح ہے کہ اس کے مخاطب آزاد مرد ہیں، نہ کہ غلام، اس لیے کہ یہاں ان سے خطاب کیا گیا ہے جو خود نکاح کر سکتے ہیں اور باندیوں کے مالک ہو سکتے ہیں، جب کہ غلام کے متعلق معلوم ہے کہ وہ نہ تو خود اپنا نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی باندی کا مالک ہو سکتا ہے (الام ۶/ ۳۷۹) ۔ گویا یہ اجازت چونکہ براہ راست اور اصلاً صرف آزاد مردوں کے لیے بیان کی گئی ہے، اس لیے اگر کسی دوسری دلیل سے غلاموں کے لیے منکوحہ عورتوں کی تعداد اس سے کم مقرر کی جائے تو وہ مذکورہ آیت کے خلاف نہیں ہوگا۔
اسی طرح قرآن مجید میں اہل ایمان کو خطاب کر کے حکم دیا گیا ہے کہ مقتولوں کا قصاص لینا ان پر فرض ہے (البقرہ ۲: ۱۷۸)۔ یہاں ایک تو اہل ایمان کو مخاطب کرنے سے ہی واضح ہے کہ قصاص کا حکم اصلاً مسلمانوں کے لیے بیان کیا جا رہا ہے۔ پھر اسی حکم میں اللہ تعالیٰ نے مقتول کے وارث کی طرف سے قاتل کو قصاص معاف کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ’فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جو اہل ایمان کے باہمی رشتے کو بیان کرتے ہیں اور اس سے مزید واضح ہو جاتا ہے کہ یہاں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین قصاص کا معاملہ زیر بحث نہیں (الام ۷/ ۹۷)۔ امام شافعی اس وضاحت سے گویا اس طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ احادیث میں اگر یہ کہا گیا ہے کہ مسلمان کو غیر مسلم کے قصاص میں قتل نہ کیا جائے تو اسے قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ یہ آیت سرے سے اس صورت سے بحث ہی نہیں کر رہی۔
یہ امام شافعی کے استدلال کا پہلا مقدمہ ہے، یعنی اسلوب عموم سے متکلم کی مراد ہمیشہ اور لازمی طور پر عموم نہیں ہوتی، بلکہ اس عموم کا مبنی بر خصوص ہونا بھی عین ممکن ہے جسے خود کلام کے اندر موجود قرائن سے سمجھا جاسکتا ہے۔
استدلال کا دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ اسلوب عموم میں ارادۂ تخصیص کی وضاحت اگر ازخود کلام کے داخلی قرائن سے واضح نہ ہو تو بھی متکلم یہ حق رکھتا ہے کہ وہ مستقل وضاحت کے ذریعے سے ارادۂ تخصیص کو واضح کر دے۔ ایسی صورت میں بعض دفعہ متکلم یہ وضاحت اسی سیاق کلام میں کر دیتا ہے اور بعض دفعہ کسی دوسرے مقام پر اس کی وضاحت کی جاتی ہے۔ پہلی صورت کی مثال سورۂ نور میں قذف سے متعلق آیات ہیں۔ چنانچہ آیت ۴ میں اللہ تعالیٰ نے پاک دامن عورتوں پر بدکاری کا الزام لگانے والوں کو چار گواہ پیش نہ کرنے کی صورت میں ۸۰ کوڑے لگانے کی ہدایت کی ہے، تاہم اس سے اگلی آیت میں فرمایا ہے کہ اگر شوہر اپنی بیویوں پر بدکاری کا الزام لگائیں تو ان سے چار گواہ نہیں، بلکہ اپنے الزام کے سچا ہونے پر پانچ قسمیں کھانا مطلوب ہے۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے دوسری آیت نے پہلی آیت کے حکم کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ یہ واضح کیا ہے کہ ا س کے عموم سے شوہر خارج ہیں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے الگ حکم بیان فرمایا ہے (الام ۱ /۶۳، ۶۴)۔
امام شافعی لکھتے ہیں:
وفي ھذا الدلیل علی ما وصفت من أن القرآن عربي، یکون منہ ظاھرہ عامًا وھو یراد بہ الخاص، لا أن واحدة من الآیتین نسخت الأخری، ولکن کل واحدة منھما علی ما حکم اللہ عزوجل بہ. (الام ۱ /۶۴)
’’یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن، عربی زبان کے اسالیب میں کلام کرتا ہے جس میں بعض اوقات ظاہراً الفاظ عام ہوتے ہیں، لیکن مراد خاص ہوتی ہے۔ چنانچہ دونوں آیتوں میں سے کسی نے دوسری کو منسوخ نہیں کیا، بلکہ ہر آیت اس حکم کو بیان کر رہی ہے جو اللہ نے مقرر کیا ہے۔‘‘
دوسری صورت کی مثال سورۂ نور میں ہی زنا کی سزا کا حکم ہے جہاں بظاہر ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ کے الفاظ عام ہیں، اور ان کی سزا یہ بیان کی گئی ہے کہ زانی مرد اور عورت دونوں کو سو سو کوڑے لگائے جائیں (النور ۲۴: ۲)۔ یہاں بظاہر عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، تاہم دوسری جگہ خود قرآن نے یہ واضح کیا ہے کہ اگر باندیاں زنا کی مرتکب ہوں تو ان کی سزا آزاد عورتوں سے نصف ہوگی (النساء ۴: ۲۵)۔ اس سے معلوم ہو گیا کہ سورۂ نور میں اسلوب عموم میں جو حکم بیان کیا گیا ہے، اس میں عموم مراد نہیں، بلکہ وہ سزا صرف آزاد مرد اور عورت کے لیے ہے۔ یہ ہدایت بھی سورۂ نور کے حکم میں نسخ یا تبدیلی واقع نہیں کر رہی، بلکہ صرف متکلم کے ارادے کو واضح کر رہی ہے کہ ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ سے مراد آزاد مرد اور عورت ہیں (الام ۱ /۳۰، ۵۷)۔
اسی نوعیت کی ایک مثال وہ آیات ہیں جن میں جہاد کی فرضیت کا حکم بیان کیا گیا ہے (التوبہ ۹: ۳۹ و ۴۱)۔ یہ آیات بظاہر تمام مسلمانوں کو مخاطب کر رہی ہیں اور ان کا ظاہری مفہوم یہ ہو سکتا ہے کہ نماز، زکوٰۃ اور حج کی طرح تمام مسلمانوں پر جہاد کے لیے نکلنا فرض ہو۔ تاہم دوسری آیا ت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ یہ حکم فرض کفایہ کی نوعیت کا ہے اور سب مسلمانوں کے لیے نکلنا لازم نہیں (النساء ۴: ۹۵۔ التوبہ ۹: ۱۲۲) (الام ۱/ ۱۶۷، ۱۶۸)۔ یعنی ان دونوں طرح کی آیات کا باہمی تعلق بھی نسخ کا نہیں، بلکہ توضیح وتبیین کا ہے اور دوسرے مفہوم کی آیات پہلی آیات میں کوئی تبدیلی نہیں کر رہیں، بلکہ انھی میں مضمر مراد الہٰی کو بیان کر رہی ہیں۔
مذکورہ دو مقدمات کے بعد امام شافعی اپنے استدلال کے اصل اور اہم ترین مقدمے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جب یہ واضح ہو گیا کہ اسلوب عموم سے واقعتاً عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں، بلکہ اس کا تعین اضافی دلائل وقرائن کی روشنی میں کیا جا تا ہے اور خود متکلم بھی مستقل کلام کے ذریعے سے اس کی تخصیص کو واضح کر سکتا ہے تو اب یہ بات سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے کہ قرآن میں عموم کے اسلوب میں وارد بعض احکام کی تخصیص سنت کے ذریعے سے بھی واضح کی جا سکتی ہے۔ ایسی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے نمایندے اور ترجمان کی حیثیت سے اور وحی وحکمت کی رہنمائی سے بہرہ ور ہونے کی بنیاد پر قرآن کی مراد کی وضاحت فرماتے ہیں اور یہ وضاحت مراد الہٰی کی تعیین میں حتمی اور فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ۔ بالفاظ دیگر امام شافعی کا کہنا یہ ہے کہ جس طرح دوسرے کئی دلائل وقرائن، مثلاً عقلی اقتضاء ات اور سیاق وسباق وغیرہ، متکلم کی مراد کو واضح کرنے میں مدد دیتے ہیں، اسی طرح سنت بھی یہ بات طے کرنے میں مدد دیتی ہے کہ کہاں اسلوب عموم سے قرآن کی مراد واقعتاً عموم ہے اور کہاں عموم کی دلالت سے بعض خاص صورتیں مستثنیٰ ہیں۔ پس قرآن میں وارد حکم عام کو اسی وقت تک اس کے عموم پر سمجھا جائے گا جب تک اس سے متعلق سنت میں کوئی تخصیص بیان نہ ہوئی ہو۔ سنت میں تخصیص وارد ہونے کے بعد قرآن کے حکم کو اس کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے گا اور دونوں کے مجموعے سے اللہ تعالیٰ کی مراد طے کی جائے گی۔ اس تخصیص کی نوعیت ایسی ہی ہوگی جیسے متکلم نے ایک مقام پر ایک حکم بیان کرنے کے بعد دوسرے مقام پر یہ واضح کیا ہو کہ فلاں صورت میں حکم یہ نہیں، بلکہ یہ ہوگا۔ اس صورت میں سنت کے حکم کو کتاب اللہ سے اختلاف پر محمول کر کے حدیث کو رد کر دینے یا منسوخ تصور کرنے کا طریقہ غلط اور غیر علمی طریقہ ہوگا۔
امام شافعی لکھتے ہیں:
فوجب علی کل عالم ألا یشک أن سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إذا قامت ھذا المقام مع کتاب اللہ تعالٰی في أن اللہ أحکم فرضہ بکتابہ وبین کیف ما فرض علی لسان نبیہ وأبان علی لسانہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم ما أراد بہ العام والخاص کانت کذالک سنتہ في کل موضع لا تختلف، وأن قول من قال: تعرض السنة علی القرآن فإن وافقت ظاھرہ وإلا استعملنا ظاھر القرآن وترکنا الحدیث جھل لما وصفت. (الام ۱۰ / ۳۲)
’’چنانچہ ہر عالم پر واجب ہے کہ وہ اس میں شک نہ کرے کہ جب (ان مثالوں میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی حیثیت، اللہ کی کتاب کے ساتھ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے مقرر کردہ فرائض کو اجمالاً قرآن میں بیان کیا ہے، جب کہ ان پر عمل کی کیفیت کو اپنے نبی کی زبان سے واضح کیا ہے اور اسی طرح نبی کی زبان سے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اللہ کی مراد عام ہے یا خاص، تو پھر رسول کی سنت کو کسی فرق کے بغیر ہر مسئلے میں یہی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ چنانچہ ان لوگوں کا یہ قول کہ سنت کو قرآن پر پرکھا جائے گا، اگر وہ اس کے ظاہر کے ساتھ موافق ہو تو ٹھیک، ورنہ ہم قرآن کے ظاہر پر عمل کریں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں گے، اس اصول سے ناواقفیت پر مبنی ہے جو میں نے بیان کیا ہے۔‘‘
’’الرسالہ‘‘ میں عربی زبان میں اسلوب عموم کی نوعیت کی اصولی وضاحت کے ساتھ ساتھ ’’الام‘‘ میں بعض متعلقہ مثالوں پر کلام کرتے ہوئے امام شافعی نے کلام میں تخصیص کے دو عقلی اصولوں کا بھی حوالہ دیا ہے جنھیں اگر اس استدلال میں شامل کر لیا جائے تو امام صاحب کا زاویۂ نظر زیادہ وضاحت سے سمجھا جا سکتا ہے:
ایک یہ کہ کسی نص میں اگر کسی امر کی اباحت بیان کی گئی ہو تو وہ عقلاً اس شرط کے ساتھ مشروط ہوتی ہے کہ شارع نے دوسری نصوص میں اس اباحت پر جو قدغنیں عائد کی ہیں، وہ اپنی جگہ برقرار ہیں اور انھیں ملحوظ رکھتے ہوئے ہی حکم اباحت کی تعبیر کی جائے گی۔ مثلاً سورۂ نساء میں محرمات کی ایک فہرست ذکر کرنے کے بعد ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ (النساء ۴: ۲۴) کی اباحت بیان کی گئی ہے، تاہم یہ اباحت چار بیویوں کی تحدید کے ساتھ مشروط ہے جو دوسری نصوص میں بیان کی گئی ہے۔ امام شافعی اسی مضمر شرط کی روشنی میں اس ممانعت کی بھی توجیہ کرتے ہیں جو حدیث میں پھوپھی کے ساتھ بھتیجی اور خالہ کے ساتھ بھانجی کو ایک آدمی کے نکاح میں بیک وقت جمع کرنے کے حوالے سے بیان کی گئی ہے (الام ۱ /۸۸ ، ۱۰۰۔ ۶ /۱۲، ۳۹۰) ۔ ایک اور مثال ’اِلَّا٘ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ‘ (النساء ۴: ۲۹) کی اباحت ہے جو بظاہر باہمی رضامندی سے کی جانے والی ہر بیع کو مباح قرار دیتی ہے، لیکن یہ بھی درحقیقت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ ایسی کسی بیع کو شارع نے دیگر نصوص میں ممنوع قرار نہ دیا ہو۔ چنانچہ احادیث میں مختلف بیوع سے متعلق جو ممانعت وارد ہوئی ہے، وہ اسی شرط کی وجہ سے اصل اباحت کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے اندر مضمر ہے (الام ۱ /۷۳، ۷۴۔ ۴ / ۵)۔
دوسرا اصول جس کا امام صاحب نے ذکر کیا ہے، یہ ہے کہ جب متکلم کوئی عمومی حکم بیان کرے تو عقلی طور پر اس میں یہ قید شامل ہوتی ہے کہ وہ بعض خاص صورتوں کو، ان کی مخصوص نوعیت کی وجہ سے، اس عمومی حکم سے مستثنیٰ کرنے کا اختیار رکھتا ہے اور ایسے کسی استثنا کا بیان، ابتداءً ہی حکم کی قیود میں شامل ہونے کی وجہ سے، اصل عمومی حکم کے منافی نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ استثنا سامنے آنے کے بعد اسے اصل حکم کے ساتھ ملا کر مجموعی تعبیر کی جائے گی۔ نصوص میں متعدد مثالوں کی روشنی میں اس اصول کی وضاحت کرتے ہوئے امام شافعی لکھتے ہیں:
أن العرایا لیست مما نھی عنہ غني ولا فقیر، ولکن کان کلامہ فیھا جملة عام المخرج یرید بہ الخاص، وکما نھی عن الصلاة بعد الصبح والعصر وکان عام المخرج، ولما أذان في الصلاة للطواف في ساعات اللیل والنھار وأمر من نسي صلاة أن یصلیھا إذا ذکرھا فاستدللنا علی أن نھیہ ذلک العام إنما ھو علی الخاص، والخاص أن یکون نھی عن أن یتطوع الرجل، فأما کل صلاة لزمتہ فلم ینہ عنھا، وکما قال: ’’البینة علی المدعي والیمین علی المدعیٰ علیہ‘‘، وقضی بالقسامة وقضی بالیمین مع الشاھد، والقسامة استثناء مما أراد لأن المدعي في القسامة یحلف بلا بینة والمدعي مع الشاھد یحلف ویستوجبان حقوقھما. (الام ۴ /۱۱۵)
’’عرایا سے کسی مال دار یا فقیر کو منع نہیں کیا گیا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مزابنہ سے ممانعت کا) حکم مجموعی لحاظ سے عموم کے اسلوب میں بیان فرمایا جس سے مراد (سب نہیں، بلکہ) خاص صورتیں تھیں۔ اسی طرح جب آپ نے فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، لیکن طواف کی دو رکعتیں دن اور رات کی تمام ساعات میں ادا کرنے کی اجازت دی اور بھول کر نماز قضا کر دینے والے کو کہا کہ جب بھی اسے یاد آئے، وہ نماز ادا کر لے تو اس سے ہمیں معلوم ہو گیا کہ آپ نے جو عمومی ممانعت بیان کی تھی، وہ خاص تھی اور وہ یہ کہ ان اوقات میں آدمی نفل نماز نہ پڑھے۔ جو نمازیں (کسی وجہ سے) آدمی پر لازم ہوں، ان سے روکنا مقصود نہیں تھا۔ اسی طرح آپ نے یہ فرمایا کہ گواہ پیش کرنا مدعی کے ذمے اور قسم کھانا مدعا علیہ کے ذمے ہے، لیکن پھر آپ نے قسامت کے طریقے پر فیصلہ کیا اور ایک گواہ کے ساتھ مدعی کی قسم لے کر بھی فیصلہ فرما دیا۔ یہاں قسامت کا طریقہ آپ کے اس حکم سے مستثنیٰ ہے ( کہ مدعی کے ذمے گواہ پیش کرنا ہے)، کیونکہ قسامت میں تو مدعی گواہ پیش کرنے کے بجاے قسمیں کھاتا ہے اور اسی طرح قضاء بالیمین میں بھی مدعی ایک گواہ پیش کرکے (دوسرے کی جگہ) قسم کھاتا ہے اور یہ دونوں (قسم کھا کر) اپنا حق ثابت کر لیتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بحث کی روشنی میں امام شافعی کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ مفروضہ کہ کتاب الہٰی میں عموم کا ظاہری اسلوب لازماً حکم اور مراد کے عموم پر ہی دلالت کرتا ہے، درست نہیں، بلکہ کلام کی حقیقی مراد کو سمجھنے کے لیے اضافی قرائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قرائن عقلی بھی ہو سکتے ہیں، کلام کا سیاق وسباق اور کلام کے اندر موجود اشارات بھی اور اسی موضوع سے متعلق خود متکلم کی طرف سے کسی دوسری جگہ کی گئی وضاحت بھی۔ کتاب اللہ کی مراد بیان کرنے کے معاملے میں چونکہ خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبر کی یہ ذمہ داری مقرر کی گئی ہے اور اس کے لیے آپ کو وحی کی صورت میں اللہ کی رہنمائی بھی حاصل ہے، اس لیے سنت میں اگر کتاب اللہ کے کسی عام حکم کا خصوص بیان کیا گیا ہو تو اس کی حیثیت بعینہ وہ ہے جو خود اللہ تعالیٰ کی اپنی وضاحت کی ہے۔ چنانچہ کسی قابل اعتماد حدیث کو کتاب اللہ کے ظاہری عموم کے خلاف ہونے کی بنا پر رد کرنا درست نہیں، بلکہ اسے خود اللہ کی طرف سے کی گئی تبیین اور وضاحت کے طور پر قبول کرنا اہل ایمان پر لازم ہے۔
یوں امام شافعی نے بحث میں دلالت کلام کے نہایت اہم سوال کا اضافہ کر کے نوعیت کے لحاظ سے جمہور اہل علم کے استدلال کو ایک اعتقادی مقدمے سے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع واطاعت کے نکتے کو بنیادی دلیل کی حیثیت حاصل تھی، ایک علمی وعقلی مقدمے میں تبدیل کر دیا جس میں کلام کے اسلوب عموم کی حقیقی مراد کے تعین کو اصل توجہ طلب علمی سوال کا درجہ حاصل تھا۔ امام صاحب کا یہ اضافہ ان کی غیر معمولی ذہانت کا مظہر تو تھا ہی، اس نے اسلامی علمیات میں ایک ایسی بحث کی بنیاد رکھ دی جو اس کے بعد سے آج تک علم اصول فقہ کی ایک مہتم بالشان اور اساسی بحث کا درجہ رکھتی ہے۔
مذکورہ بنیادی مقدمے کی روشنی میں امام شافعی نے ان تمام اہم مثالوں پر کلام کیا ہے جو قرآن میں وارد عام احکام کی سنت کے ذریعے سے تخصیص وتحدید کی بحث سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان مثالوں کو ہم دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک قسم ایسی مثالوں کی ہے جن میں امام شافعی سنت میں وارد تخصیصات کے لفظی یا عقلی قرائن خود قرآن مجید سے بیان کرتے ہیں اور یوں واضح کرتے ہیں کہ سنت نے قرآن کے حکم میں تبدیلی نہیں کی، بلکہ اسی میں موجود اشارات، علل اور قرائن کی روشنی میں مراد الہٰی کی وضاحت کی ہے۔ دوسری قسم کی مثالوں سے متعلق امام شافعی کا کہنا یہ ہے کہ ان میں حکم کی تخصیص کا کوئی قرینہ بظاہر قرآن میں دکھائی نہیں دیتا، تاہم چونکہ اصولی طور پر یہ بات طے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ تعالیٰ ہی کی مراد کو واضح کرتے ہیں، اس لیے ان مثالوں کو بھی نسخ اور تغییر کی نہیں، بلکہ تبیین وتوضیح ہی کی مثالیں تسلیم کرنا لازم ہے۔
پہلی نوعیت کی مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حالت حیض میں خواتین سے دور رہنے کا حکم دیا ہے:’وَلَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰي يَطْهُرْنَ‘ (البقرہ ۲: ۲۲۲) ، امام شافعی اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ماہواری کی حالت میں خواتین نماز ادا نہیں کر سکتیں، کیونکہ نماز کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ نے وضو اور غسل کے ذریعے سے طہارت حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے، جب کہ مذکورہ آیت کی رو سے ماہواری کی حالت میں خواتین کے لیے پاک ہونا ممکن نہیں۔ اس سے واضح ہو گیا کہ نماز کی فرضیت کا حکم ایسے لوگوں کے لیے ہو جو اگر وضو اور غسل کر کے پاک ہونا چاہیں تو ہو سکتے ہیں، جب کہ حائضہ خواتین کا معاملہ یہ نہیں۔ پھر یہ کہ ماہواری چونکہ کوئی اختیاری چیز نہیں جس کی وجہ سے عورت ترک نماز کی وجہ سے گناہ گار ہو، اس لیے ماہواری کے ایام میں وہ نماز کی ادائیگی کی مکلف ہی نہیں، چنانچہ ان ایام کی نمازوں کی قضا بھی اس پر واجب نہیں۔ روزے کا معاملہ نماز سے مختلف ہے۔ شریعت میں انسان کو حالت سفر میں روزہ چھوڑ دینے اور رمضان کے بعد تک موخر کر دینے کی اجازت دی گئی ہے، جب کہ نماز کے معاملے میں ایسی رخصت نہیں دی گئی۔ مزید یہ کہ نماز ہر روز پانچ اوقات میں فرض کی گئی ہے، جب کہ روزہ صرف ایک مہینے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔ گویا خود قرآن مجید کے احکام میں وہ بنیادیں موجود ہیں جن کی روشنی میں اور جن سے استنباط کر کے سنت میں یہ قرار دیا گیا ہے کہ ایام حیض میں فوت شدہ نمازوں کی قضا تو خواتین کے ذمے نہیں، لیکن روزوں کی قضا لازم ہے (الام ۱ /۵۰، ۵۱۔ ۲ /۱۳۱)۔
۲۔ قرآن مجید میں قصاص کا حکم بیان کرتے ہوئے بعض مقامات پر عموم کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مثلاً ’اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ‘ (المائدہ ۵: ۴۵) اور’وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا يُسْرِفْ فِّي الْقَتْلِ‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳)۔ اس کا بظاہر یہ مطلب بنتا ہے کہ قصاص کے معاملے میں تمام انسانوں کا حکم یکساں ہے اور کوئی بھی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کرے تو اس سے قصاص لیا جائے گا۔ تاہم اس عموم کو خصوص پر محمول کرنے کا احتمال بھی موجود ہے، یعنی یہ کہ اس سے مراد ایسے دو آدمیوں کے مابین قصاص ہو جو مکافئ الدم ہوں، یعنی جن کی جان یکساں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ دوسرا معنی ہی مرادہے، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ مسلمان کو کسی کافر کے قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا (الام ۷ / ۶۱، ۶۲، ۲۵۹) ۔
امام شافعی اس تخصیص کے حق میں قرآن مجید سے یہ قیاسی استشہاد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ توبہ (۹: ۲۸) میں اہل ذمہ پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کا حکم دیا ہے جو ان کی محکومانہ حیثیت کی ایک علامت ہے اور اس کی رو سے وہ قانونی ومعاشرتی امور میں مسلمانوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تو اہل کتاب کی خواتین سے نکاح کرنے کی اجازت دی ہے، لیکن مسلمان خواتین کے لیے کسی کافر سے نکاح کو جائز قرار نہیں دیا (الام ۹ /۱۳۴) ۔ گویا شریعت کے احکام کا عمومی منشا یہی ہے کہ کافروں کو مسلمانوں کے برابر اور ہم پلہ تصور نہ کیا جائے، اس لیے قصاص کے معاملے میں یہ تفریق روا رکھنا خود قرآن مجید کے منشا کے مطابق ہے۔
۳۔ خور ونوش میں حلت وحرمت کے احکام کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘ اِلَّا٘ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖﵐ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ .(الانعام ۶: ۱۴۵ )
’’کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں، میں کسی کھانے والے کے لیے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کا کام، یعنی ایسا جانور ہو جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے، دراں حالیکہ نہ تو خواہش رکھنے والا ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
قرآن مجید کے اس بیان کے برعکس احادیث میں ان چار کے علاوہ بھی کئی جانوروں، مثلاً گدھے اور درندوں وغیرہ کا شمار محرمات میں کیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن میں تصریحاً یہ کہا گیا ہے کہ ان چار کے علاوہ کوئی چیز اللہ کی شریعت میں حرام نہیں، اس لیے بظاہر ان جانوروں کی تحریم آیت میں بیان ہونے والی عمومی اباحت کے منافی معلوم ہوتی ہے۔
اس اشکال کے جواب میں امام شافعی واضح کرتے ہیں کہ مذکورہ آیت کا تناظر عام نہیں، بلکہ خاص ہے، یعنی اس میں دنیا کے تمام جانور اور اشیاے خور ونوش زیر بحث نہیں، بلکہ یا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ خاص اشیا سے متعلق سوال کیا گیا تھا جس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی۔ مراد یہ ہوئی کہ جن چیزوں سے متعلق پوچھا گیا ہے، ان میں سے ان چار کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں (الام ۱ / ۹۰، ۱۰۱) ۔ آیت کے مخصوص تناظر کے حوالے سے امام صاحب نے دوسری توجیہ یہ ذکر کی ہے کہ یہاں صرف وہ جانور زیر بحث ہیں جنھیں اہل عرب حلال سمجھتے تھے۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرام اور حلال کے ضمن میں چیزوں کے پاکیزہ اور ناپاک ہونے کو معیار قرار دیا ہے۔ چونکہ حکم کے مخاطب اہل عرب ہیں، اس لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کو اہل عرب طیب سمجھتے ہیں، وہ حلال اور جن کو وہ خبیث سمجھتے ہیں، وہ حرام ہیں۔ البتہ بعض چیزوں کے معاملے میں وہ غلطی میں مبتلا تھے اور چار ایسی چیزوں کو بھی طیب سمجھتے تھے جو درحقیقت خبیث تھیں۔ قرآن مجید نے اس کی اصلاح کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ یہ چار چیزیں دراصل طیبات میں داخل نہیں ہیں (الام ۳ / ۶۲۷، ۶۲۸) ۔
گویا اس توجیہ کے مطابق’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا‘ میں علی الاطلاق تمام جانور زیربحث نہیں، بلکہ صرف ان جانوروں کی طرف اشارہ ہے جن کو اہل عرب حلال سمجھ کر ان کا گوشت کھاتے تھے۔ باقی رہے وہ جانور جن کو وہ پہلے ہی ناپاک اور خبیث تصور کرتے اور ان کا گوشت نہیں کھاتے تھے تو ان سے اس آیت میں کوئی تعرض نہیں کیا گیا۔ ان کی حرمت کا ذکر اجمالی طور پر’وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ‘ (الاعراف ۷: ۱۵۷) میں کیا گیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے اور درندوں وغیرہ کی حرمت بیان کر کے اسی اجمالی حکم کی تفصیل فرمائی ہے اور یوں ان جانوروں کو حرام قرار دینا قرآن مجید کے خلاف نہیں، بلکہ اس کی تصریحات کے بالکل مطابق ہے۔
۴۔ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے ان خواتین کی ایک فہرست ذکر کی ہے جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے۔ اس فہرست میں ایک شق یہ بھی ہے کہ دو بہنوں کو بیک وقت ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنا ممنوع ہے۔ اس کے بعد فرمایا ہے:
وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ. (النساء ۴: ۲۴)
’’اور ان کے علاوہ جو بھی عورتیں ہیں، وہ تمھارے لیے حلال کی گئی ہیں۔‘‘
یہاں صرف دو بہنوں کو جمع کرنے کی حرمت پر اکتفا کرنے اور اس کے بعد ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘کی تصریح کا مقتضا یہ بنتا ہے کہ دو بہنوں کے علاوہ کوئی بھی دو ایسی عورتیں جن کے ساتھ انفراداً نکاح کرنا جائز ہو، انھیں ایک آدمی اپنے نکاح میں جمع بھی کر سکتا ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بہنوں کے ساتھ ساتھ خالہ اور بھانجی کو اور اسی طرح پھوپھی اور بھتیجی کو بھی ایک آدمی کے نکاح میں جمع کرنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے۔ امام شافعی نے اس اشکال کے جواب میں قرآن مجید کے داخلی قرائن واشارات کی روشنی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ حدیث میں بیان کی جانے والی ممانعت، قرآن مجید کی دلالت کے خلاف نہیں۔
پہلے اشکال، یعنی قرآن میں جمع کے حوالے سے صرف دو بہنوں کے ذکرپر اقتصار کیے جانے سے متعلق امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ ان کے علاوہ اور کسی بھی دو خواتین کو جمع کرنا ممنوع نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت کسی مسئلے کی بعض جزئیات اپنی کتاب میں اور بعض دیگر جزئیات اپنے پیغمبر کی زبان سے بیان فرماتے ہیں۔ گویا پھوپھی اور بھتیجی یا خالہ اور بھانجی کو نکاح میں جمع کرنا قرآن میں مسکوت عنہ ہے، یعنی اس کا نفیًایا اثباتًا کوئی ذکر نہیں اور حدیث میں وارد ممانعت ایک مسکوت عنہ امر کے بارے میں شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
جہاں تک دوسرے اشکال، یعنی ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ کا تعلق ہے تو اس ضمن میں امام شافعی کا استدلال دو نکات پر مبنی ہے :
ایک یہ کہ اس جملے کا روے سخن ’وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَيْنَ الْاُخْتَيْنِ‘ کی طرف نہیں، بلکہ آیت میں مذکورہ باقی محرمات کی طرف ہے۔ اس فرق کی وجہ ان دونوں طرح کی حرمتوں میں نوعیت کا مختلف ہونا ہے۔ باقی تمام محرمات، جیسے ماں، بہن، خالہ اور پھوپھی وغیرہ ہمیشہ او رہر حال میں حرام ہیں، جب کہ دو بہنوں میں سے کوئی بھی فی الاصل حرام نہیں، بلکہ انھیں صرف بیک وقت ایک نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ کا تعلق ان محرمات سے ہے جو فی الاصل اور ابدی طور پر حرام ہیں اور اس جملے کا مدعا یہ ہے کہ مذکورہ خواتین کے علاوہ کوئی بھی خاتون ابدی اور مطلق حرمت کا حکم نہیں رکھتی۔ باقی رہا عارضی اور وقتی حرمت کا حکم جو دو بہنوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے تو یہ جملہ اس سے کوئی تعرض نہیں کر رہا، چنانچہ اس سے اخذ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ دو بہنوں کے علاوہ باقی کوئی بھی رشتہ رکھنے والی خواتین کے ساتھ بیک وقت نکاح کو جائز قرار دیا جا رہا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ ایک اور بدیہی شرط کے ساتھ مشروط ہے، اور وہ یہ کہ ابدی محرمات کے علاوہ باقی عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے ، جب تک کہ شریعت میں بیان کردہ کسی دوسری پابندی کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ گویا یہ اباحت ان تمام پابندیوں کے ساتھ مشروط ہے جو قرآن وسنت میں اپنے اپنے مقامات پر بیان کی گئی ہیں اور ان سے قطع نظر کر کے مطلقًاان سب عورتوں سے نکاح کی اجازت دینا یہاں مراد نہیں ہے۔ مثلاً شریعت میں چار سے زائد عورتوں سے نکاح کی ممانعت کی گئی ہے، اس لیے ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ میں بیان کردہ اجازت اس شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ اسی طرح دوسرے مقام پر قرآن نے تین طلاقوں کے بعد اسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیا ہے، جب تک کہ وہ کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کر لے (البقرہ ۲: ۲۳۰) ۔ یہی معاملہ لعان کی صورت میں میاں بیوی کے مابین تفریق کا ہے جس کے بعد وہ کبھی نکاح نہیں کر سکتے۔ چنانچہ جیسے یہ صورتیں ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘ کی اباحت سے مستثنیٰ ہیں، اسی طرح ایک پابندی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ آدمی پھوپھی اور بھتیجی کو اور اسی طرح خالہ اور بھانجی کو اپنے نکاح میں جمع نہ کرے، چنانچہ زیر بحث اباحت میں یہ شرط بھی ملحوظ ہوگی (الام ۱ /۸۸، ۱۰۰۔ ۶/۱۲ ، ۳۹۰)۔
امام شافعی کے استدلال کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ چونکہ یہ اباحت ابتداءًا ہی اس شرط کے ساتھ مشروط ہے، اس لیے اس سے پہلے یا اس کے بعد جن جن صورتوں کو بھی شارع نے اس اباحت سے مستثنیٰ کیا ہے، وہ اس کے معارض نہیں ہیں۔
۵۔ سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اگر اپنی بیویوں کو طلاق دیں تو فوراً انھیں ان کے گھروں سے نکال نہ دیں، بلکہ دوران عدت میں انھیں اپنی استطاعت کے مطابق رہایش مہیا کریں (الطلاق ۶۵: ۱، ۶) ۔
اسلوب سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عام ہدایت ہے اور عدت گزارنے والی تمام خواتین اس عرصے میں رہایش کی، اور چونکہ رہایش کے ساتھ نفقہ بھی عادتًالازم ہوتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ نفقہ کی بھی حق دار ہیں۔ تاہم فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے خاوند نے انھیں تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ آپ نے فاطمہ سے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کے بجاے عبد اللہ بن ام مکتوم کے گھر میں عدت مکمل کریں (ابوداؤد، رقم ۲۲۹۱)۔ فاطمہ بنت قیس کی یہ روایت فقہاے صحابہ وتابعین کے مابین خاصے اختلاف کا باعث رہی ہے۔ مثلاً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سورۂ طلاق کی مذکورہ آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس روایت کو درست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہم کتاب اللہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے جس کو پتا نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں۔ ایسی عورت کو رہایش بھی ملے گی اور نفقہ بھی (مسلم، رقم ۳۷۱۰)۔ یہی موقف صحابہ وتابعین کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ فاطمہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ قرآن کے ظاہر کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے عین مطابق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ طلاق میں دوران عدت میں بیویوں کو گھر سے نہ نکالنے کی ہدایت تو سب عورتوں کے متعلق دی ہے اور یہ حکم عام ہے، لیکن نفقہ ادا کرنے کی پابندی صرف حاملہ عورتوں کے حوالے سے لازم کی ہے۔ پہلا حکم سورہ کی ابتدا میں’لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۣ بُيُوْتِهِنَّ‘ کے الفاظ سے دیا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد حاملہ اور غیر حاملہ، دونوں طرح کی خواتین کے لیے عدت کے احکام بیان فرمائے ہیں اور شوہروں کو پابند کیا ہے کہ وہ دونوں کو دوران عدت میں رہایش فراہم کریں، لیکن نفقہ کی ہدایت دیتے ہوئے صرف حاملہ عورتوں کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّﵧ وَاِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْهِنَّ حَتّٰي يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ. (الطلاق ۶۵: ۶ )
’’جیسی جگہ پر تم ٹھیرے ہو، اپنی گنجایش کے مطابق ان کو بھی ٹھیراؤ اور انھیں تنگی میں ڈالنے کے لیے ان کو ضرر پہنچانے کی کوشش نہ کرو۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو جب تک بچے کو جنم نہ دے دیں، ان پر (اپنا مال بھی) خرچ کرو۔‘‘
یوں قرآن مجید کی دلالت اس پر واضح ہے کہ حاملہ مطلقہ کے علاوہ کوئی دوسری مطلقہ دوران عدت میں نفقہ کی حق دار نہیں، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو نفقہ کا حق دار تسلیم نہ کرنا قرآن مجید کے عین مطابق ہے۔ البتہ آپ نے اس کو شوہر کا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ عدت گزارنے کا حکم اس لیے دیا کہ فاطمہ زبان کی تیز تھیں اور ان کے سسرال والے ان کی زبان درازی سے تنگ تھے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑے اور بدمزگی سے بچنے کے لیے ازروے مصلحت فاطمہ کو وہاں عدت گزارنے سے منع فرمایا، تاہم اصل قانون قرآن مجید کی ہدایت کے مطابق یہی ہے کہ ایسی مطلقہ کو بھی دوران عدت میں رہایش مہیا کی جائے گی (الام ۶ /۲۸۰، ۲۸۱ )۔
۶۔ روایات میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مقدمات میں ایک گواہ اور قسم کی بنیاد پر مدعی کے حق میں فیصلہ کر دیا (مسلم، رقم ۱۷۱۲)۔ فقہاے احناف نے اس روایت کو قرآن مجید کے اس حکم کے منافی قرار دیتے ہوئے قبول نہیں کیا جس میں دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے (البقرہ ۲ : ۲۸۲)۔ احناف کے نزدیک آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ دو مردوں یا ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ کرے، جب کہ زیر بحث حدیث میں اس کے برخلاف ایک گواہ کے ساتھ مدعی سے ایک قسم لے کر فیصلہ کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔ فقہاے احناف اس معاملے میں اپنی راے کے درست ہونے پر ایسا اذعان رکھتے ہیں کہ امام محمد سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ اگرکوئی قاضی اس طریقے کے مطابق فیصلہ کرے تو اس کے فیصلے کو فسخ کر دیا جائے، کیونکہ یہ طریقہ قرآن مجید کے خلاف ہے (الام ۸ /۱۵ ۔ ابن عبد البر، الاستذکار ۲۲ /۵۳ ) ۔
امام شافعی نے متعدد مقامات پر اس مسئلے پر کلام کیا ہے اور اس ضمن میں امام محمد بن الحسن کے ساتھ اپنے مجادلے کی روداد بھی نقل کی ہے۔ امام صاحب کا کہنا ہے کہ اس آیت میں شہادت کا کوئی ایسا نصاب بیان نہیں کیا گیا جس کی پابندی ہر ہر مقدمے میں ضروری ہو، بلکہ یہاں موضوع بحث قرض کے لین دین کا مسئلہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی ہے، جب کہ اس کے علاوہ دوسرے متنوع قسم کے معاملات میں کئی دوسرے طریقوں کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کا جواز بھی قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ ان میں سے ہر طریقہ معاملے کی نوعیت کے لحاظ سے اپنی جگہ درست ہے اور کسی بھی آیت یا حدیث کو دوسری آیت یا حدیث کے خلاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امام شافعی لکھتے ہیں:
أرأیت إذا حکم اللہ عز وجل في الزنا بأربعة شھود وجاء ت بذلک السنة وقال اللہ عز وجل: ’’واستشھدوا شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامراتان‘‘، أما صار أھل العلم إلی إجازة أربعة في الزنا واثنین في غیر الزنا ولم یقولوا أن واحدًا منھما نسخ الآخر ولا خالفہ وامضوا کل واحد منھما علی ما جاء فیہ، قال: بلی.(الام ۸/ ۲۷ )
’’بتاؤ کہ جب اللہ تعالیٰ نے زنا میں چار گواہوں کی گواہی پر فیصلے کا حکم دیا ہے اور سنت میں بھی یہی آیا ہے، جب کہ (قرض کے معاملے میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مرد گواہ مقرر کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہونی چاہییں، تو (ان دونوں الگ الگ حکموں کے بارے میں) کیا اہل علم کا یہ موقف نہیں ہے کہ زنا میں چار اور باقی معاملات میں دو گواہوں پر فیصلہ کیا جائے گا اور یہ نہیں کہا کہ ان میں سے ایک حکم دوسرے کے خلاف ہے اور اس نے اسے منسوخ کر دیا ہے، بلکہ اہل علم نے ہر حکم کو اس دائرے میں واجب العمل مانا ہے جس میں وہ دیا گیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔‘‘
اسی بحث میں الزامی استدلال سے کام لیتے ہوئے امام شافعی لکھتے ہیں:
فکان مما رد بہ الیمین مع الشاھد أن قال: قال اللہ تبارک وتعالٰی: ’’شھیدین من رجالکم فان لم یکونا رجلین فرجل وامرأتان‘‘، فقلت لہ: لست أعلم في ھذہ الآیة تحریم أن یجوز أقل من شاھدین بحال، قال: فإن قلت فیھا دلالة علی ألا یجوز أقل من شاھدین؟ قلت: فقلہ، قال: فقد قلتہ، قلت: فمن الشاھدان اللذان أمر اللہ جل ثناوہ بھما؟ قال: عدلان حران مسلمان، فقلت: فلم أجزت شھادة أھل الذمة؟ وقلت: لم أجزت شھادة القابلة وحدھا؟ قال: لأن علیًا أجازھا، قلت: فخلاف ھي للقرآن؟ قال: لا، قلت: فقد زعمت أن من حکم بأقل من شاھدین خالف القرآن.(الام ۱۰/۲۹۰)
’’مخالف نے گواہ کے ساتھ قسم پر فیصلے کے طریقے کو جن دلائل کی وجہ سے رد کیا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دو مرد گواہ ہونے چاہییں اور اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں۔ میں نے کہا کہ مجھے تو اس آیت میں اس بات کی کوئی ممانعت نظر نہیں آتی کہ کسی بھی حال میں دو سے کم گواہوں پر فیصلہ نہ کیا جائے۔ اس نے کہا کہ لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اس میں اس پر دلالت موجود ہے کہ دو سے کم گواہوں پر فیصلہ جائز نہیں؟ میں نے کہا کہ کہو۔ اس نے کہا کہ میں یہی کہتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ یہ دو گواہ جن کا اللہ نے ذکر کیا ہے، کس قسم کے ہونے چاہییں؟ اس نے کہا کہ عادل، آزاد اور مسلمان ہونے چاہییں۔ میں نے پوچھا کہ پھر تم (بعض امور میں) اہل ذمہ کی گواہی کیوں قبول کرتے ہو اور اکیلی دایہ کی گواہی پر کیوں فیصلہ کرتے ہو؟ اس نے کہا کہ اس لیے کہ سیدنا علی نے اس کو، (یعنی دایہ کی گواہی کو) درست قرار دیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ قرآن کے خلاف ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا کہ ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ جو شخص (کسی بھی صورت میں) دو سے کم گواہوں پر فیصلہ کرتا ہے، اس کی بات قرآن کے خلاف ہے۔‘‘
مذکورہ مثالوں کے علاوہ بعض دیگر احادیث میں بیان ہونے والی تخصیصات بھی بظاہر قرآن کے عا م حکم کے معارض محسوس ہوتی ہیں۔ امام شافعی نے ان کا ذکر اس بحث کے تناظر میں تو نہیں کیا، لیکن ان کی توجیہ بھی اس انداز سے کی ہے کہ ان تخصیصات کا خود اصل حکم میں مضمر ہونا واضح ہو جاتا ہے۔
۷۔ مثال کے طور پر روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اپاہج شخص کو، جس نے بدکاری کی تھی اور معذور اور کم زور ہونے کی وجہ سے کوڑوں کی سزا کا متحمل نہیں تھا، اس طرح سزا دی کہ سو تنکے جمع کر کے ایک ہی دفعہ اس کے جسم پر مارنے کا حکم دیا۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ اور سنت سے یہ واضح ہے کہ کوڑے لگوانے سے مقصود انسان کی جان لینا نہیں ہے، بلکہ لوگوں کو حرام کاموں کے ارتکاب سے باز رکھنا ہے اور اس سے مجرم کا گناہ بخشے جانے کی توقع ہے۔ چونکہ معذور یا نہایت بیمار آدمی کو کوڑے لگانے سے اس کی جان جا سکتی ہے، اس لیے ایسے شخص کو کوڑے لگوانا شریعت کا مقصود نہیں ہو سکتا (الام ۷ / ۳۴۴ )۔ گویا امام صاحب یہ واضح کر رہے ہیں کہ اس معاملے میں سزا کا عام طریقہ چھوڑ کر خصوصی طریقہ اختیار کرنا خود حکم کے مقصد اور شریعت کے عمومی مزاج کی رعایت سے ضروری تھا۔
۸۔ اسی طرح بعض احادیث میں کہا گیا ہے کہ دو مردار کھانا ہمارے لیے حلال ہے: ایک مچھلی اور دوسرا ٹڈی۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ دراصل حلال جانوروں کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن کے حلال ہونے کے لیے ان کو ذبح کرنا ضروری ہے اور دوسری وہ جنھیں ذبح کرنا ضروری نہیں۔ اس دوسری قسم کی مثال کے طور پر امام شافعی ٹڈی اور مچھلی کا ذکر کرتے ہیں (الام ۳ / ۶۰۳، ۶۰۶)۔ امام شافعی کی مراد یہ ہے کہ ذبح کرنے کی شرط ایسے جانوروں کے لیے ہے جن کے جسم میں خون ہوتا ہے اور اسے ذبح کے ذریعے سے بہا دیا جاتا ہے۔ چونکہ مچھلی اور ٹڈی میں خون ہی نہیں ہوتا جسے بہایا جا سکے، اس لیے ان کو ذبح کرنا بھی ضروری نہیں۔ گویا امام صاحب یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن میں جس مردار کو حرام کہا گیا ہے، وہ خون رکھنے والے جانور ہیں اور اس میں مچھلی اور ٹڈی سرے سے شامل ہی نہیں، بلکہ ان کا حکم اصولی طور پر ہی ایسے جانوروں سے مختلف ہے۔
[باقی]
____________