ساتویں صدی عیسوی میں جزیرۂ عرب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے بنی نوع انسان کے لیے ہدایت کی فراہمی کا جو طریقہ اختیار کیا گیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ کتاب کے ساتھ ساتھ اللہ کے رسول بھی اپنے قول وعمل کے ذریعے سے اہل ایمان کی رہنمائی فرما رہے تھے۔ اپنی اس منصبی حیثیت میں آپ کو اہل ایمان کے لیے دینی ہدایات واحکام مقرر کرنے کا مستقل اختیار حاصل تھا اور اہل ایمان سے کتاب الہٰی اور پیغمبر، دونوں کی اطاعت کسی امتیاز کے بغیر یکساں مطلوب تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْﵐ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَي اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِﵧ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا.(النساء ۴ :۵۹)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کی بھی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول اور ان لوگوں کی بھی اطاعت کرو جو تم میں سے صاحب اختیار ہوں۔ پھر اگر تمھارا کسی معاملے میں باہم تنازع ہو جائے تو اسے (فیصلے کے لیے) اللہ اور رسول کے پاس لے جاؤ ، اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ طریقہ بہتر بھی ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا بھی۔‘‘
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَﵐ وَمَنْ تَوَلّٰي فَمَا٘ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا. (النساء۴: ۸۰)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی اور جس نے منہ پھیرا تو ہم نے تمھیں ایسے لوگوں پر نگران بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘
اس کے ساتھ قرآن مجید میں یہ بات بھی اتنی ہی وضاحت کے ساتھ بتا دی گئی تھی کہ پیغمبر کو حاصل تشریعی اختیار، کتاب اللہ کے مدمقابل یا اس کے متوازی نہیں ہے، بلکہ اس کے تابع ہے۔ یعنی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم، کتاب الہٰی میں دی گئی ہدایت کے پابند اور پیروکار تھے اور اس میں کسی قسم کی ترمیم وتغییر کے مجاز نہیں تھے۔ چنانچہ کفار کی طرف سے قرآن میں تبدیلی کے مطالبے کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْ٘ اَنْ اُبَدِّلَهٗ مِنْ تِلْقَآئِ نَفْسِيْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰ٘ي اِلَيَّ اِنِّيْ٘اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ. (یونس ۱۰: ۱۵ )
’’تم کہہ دو کہ مجھے یہ حق نہیں ہے کہ میں اپنی طرف سے اس کو تبدیل کر دوں۔ میں تو بس اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف بھیجی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘
ایک موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حلال چیز کو ذاتی طور پر اپنے لیے ممنوع قرار دیا تو قرآن مجید میں آپ کو اس پر تنبیہ کی گئی۔ فرمایا:
يٰ٘اَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا٘ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ تَبْتَغِيْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. (التحریم۶۶ : ۱)
’’اے نبی، تم کیوں اپنی بیویوں کی خوش نودی پانے کے لیے اس چیز کو حرام ٹھیراتے ہو جو اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہے؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اس بات کی وضاحت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر صاف لفظوں میں فرمائی۔ چنانچہ ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے خطبہ میں فرمایا:
إن مکة حرمھا اللہ ولم یحرمھا الناس، فلا یحل لامرئ یؤمن باللہ والیوم الآخر أن یسفك بھا دمًا ولا یعضد بھا شجرة، فإن احد ترخص لقتال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقولوا لہ: إن اللہ أذن لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ولم یأذن لکم، وإنما أذن لي ساعة من نھار، وقد عادت حرمتھا الیوم کحرمتھا بالأمس، ولیبلغ الشاھد الغائب. (بخاری، رقم ۱۸۳۲)
’’مکہ کو لوگوں نے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حرم قرار دیا ہے، پس کسی آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، حلال نہیں کہ اس میں کسی کا خون بہائے یا کسی درخت کو کاٹے۔ اور اگر کوئی شخص اس بات سے رخصت نکالنا چاہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں قتال کیا ہے تو اس سے کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی تھی، لیکن تمھیں اس کی اجازت نہیں دی۔ اور مجھے بھی اس میں قتال کرنے کی اجازت بس دن کے ایک مختصر سے حصے میں دی گئی، پھر اس کی حرمت اسی طرح دوبارہ قائم ہو گئی جیسے گذشتہ روز تھی۔ اور جو لوگ یہاں موجود ہیں، وہ یہ بات ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔‘‘
ایک موقع پر سیدنا علی نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور اس کی اجازت نہ دی۔ اس موقع پر آپ نے اپنی بات کی وضاحت میں فرمایا:
وإني لست أحرم حلالًا ولا أحل حرامًا ولکن واللہ لا تجتمع بنت رسول اللہ و بنت عدو اللہ مکانًا واحدًا أبدًا.(مسلم، رقم ۲۴۴۹)
’’میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال نہیں کر رہا، لیکن بخدا، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی، کبھی ایک جگہ اکٹھی نہیں ہو سکتیں۔‘‘
اسی طرح ایک موقع پر آپ نے لوگوں کو لہسن کھا کر مسجد میں آنے سے منع فرمایا۔ لوگوں میں یہ بات پھیل گئی کہ شاید لہسن کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کی اور فرمایا:
أیھا الناس إنہ لیس لي تحریم ما أحل اللہ لي ولکنھا شجرۃ أکرہ ریحھا. (مسلم،رقم ۵۶۵)
’’اے لوگو، مجھے اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ بس مجھے اس پودے کی بو پسند نہیں۔‘‘
ان نصوص کی روشنی میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی طرف سے اتارے ہوئے کسی حکم میں تبدیلی یا ترمیم کے مجاز نہیں تھے، تاہم منصب رسالت کے تحت اس کے علاوہ مستقل احکام وشرائع وضع کرنے کا پورا اختیار رکھتے تھے اور اہل ایمان پر ان کی پابندی قبول کرنا بھی کتاب اللہ ہی کی طرح لازم تھا۔ ابو رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ألفین أحدکم متکئًا علی أریکتہ یأتیہ الأمر من أمري مما أمرت بہ أو نھیت عنہ فیقول لا ندري ما وجدنا فی کتاب اللہ اتبعناہ.( ابوداؤد، رقم ۴۶۰۵)
’’میں تم میں سے کسی کو ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور میرا کوئی حکم اس تک پہنچے جس میں، میں نے کسی بات کا حکم دیا یا کسی بات سے منع کیا ہو اور وہ کہہ دے کہ ہم نہیں جانتے، ہمیں تو بس کتاب اللہ میں جو بات ملے گی، اسی کی پیروی کریں گے۔‘‘
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا إني أوتیت الکتاب ومثلہ معہ، ألا یوشک رجل شبعان علی أریکتہ یقول علیکم بھذا القرآن، فما وجدتم فیہ من حلال فأحلوہ وما وجدتم فیہ من حرام فحرموہ، ألا لا یحل لکم لحم الحمار الأھلي ولا کل ذي ناب من السباع ولا لقطة معاھد إلا أن یستغني عنھا صاحبھا. (ابوداؤد،رقم ۴۶۰۴)
’’آگاہ رہو کہ مجھے اللہ کی کتاب بھی دی گئی ہے اور اس کے ساتھ اسی جیسی ایک اور چیز بھی (جس کی پیروی تم پر لازم ہے)۔ آگاہ رہو، قریب ہے کہ کوئی شخص خوب سیر ہو کر اپنے تکیے پر ٹیک لگائے بیٹھا ہو اور تم سے کہے کہ بس اس قرآن کو اختیار کر لو اور اس میں تمھیں جو چیز حلال ملے، اسے حلال سمجھو اور جو حرام ملے، اسے حرام مانو۔ آگاہ رہو کہ تمھارے لیے گھریلو گدھے کا گوشت کھانا بھی حلال نہیں ہے اور کسی کچلی والے درندے کا بھی، اور کسی معاہد کی گری ہوئی چیز اٹھانا بھی حلال نہیں، الّا یہ کہ (وہ ایسی معمولی ہو کہ) اس کا مالک اس سے بے نیاز ہو۔‘‘
ایک زاویے سے دیکھا جائے تو اگرچہ اس وقت اللہ کی کتاب بھی براہ راست نازل ہو رہی تھی، لیکن چونکہ اہل ایمان کو قرآن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے مل رہا تھا اور اس کے علاوہ مستقل احکام و شرائع وضع کرنے کے اختیار کے تحت ہدایت الہٰی کی تفصیل وتکمیل کا عمل بھی آپ ہی کے ہاتھوں سے انجام پا رہا تھا، اس لیے آپ کے حین حیات میں اصل مرکز اطاعت آپ ہی کی شخصیت تھی۔ ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنی اس حیثیت کو واضح فرمایا ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گویا الوداعی گفتگو کرنے کے لیے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
فاسمعوا وأطیعوا ما دمت فیکم، فإذا ذھب بي فعلیکم بکتاب اللہ، أحلوا حلالہ وحرموا حرامہ. (احمد، رقم ۶۶۰۶)
’’جب تک میں زندہ ہوں، میری اطاعت کرو، اور جب میں رخصت ہو جاؤں تو اللہ کی کتاب کو لازم پکڑنا، اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام ماننا۔‘‘
چنانچہ یہ بدیہی بات تھی کہ کتاب اللہ کے معنی ومراد کو سمجھنے اور اس کی تشریح وتوضیح میں آپ ہی کے ارشاد یا عمل کو صحابہ کی نظر میں حتمی اور فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو۔ چنانچہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أظھرنا، علیہ ینزل القرآن وھو یعرف تأویلہ، وما عمل بہ من شيء عملنا بہ. (احمد، رقم ۱۴۴۴۰)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود تھے۔ آپ پر قرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ہی اس کی مراد کو (سب سے بہتر) جانتے تھے، چنانچہ آپ جو بھی عمل کرتے، ہم بھی وہی کرتے تھے۔‘‘
تاہم ذخیرۂ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ فقہاے صحابہ قرآن کے معنی ومفہوم پر مستقلاً بھی غور کرتے تھے اور ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں اہل علم صحابہ کو قرآن کی کسی آیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا عمل کے مابین تفاوت محسوس ہوا اور انھوں نے اس حوالے سے اپنا اشکال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ ام مبشر بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے سامنے فرمایا: ’’اللہ نے چاہا تو (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔‘‘ام المومنین حفصہ نے کہا کہ یا رسول اللہ، بالکل جائے گا۔ اس پر آپ نے انھیں ڈانٹ دیا تو ام المومنین نے قرآن مجید کی اس آیت کا حوالہ دیا:
وَاِنْ مِّنْكُمْ اِلَّا وَارِدُهَا كَانَ عَلٰي رَبِّكَ حَتْمًا مَّقْضِيًّا.(مریم ۱۹: ۷۱)
’’تم میں سے ہر شخص جہنم پر وارد ہوگا۔ یہ تمھارے رب کا اٹل فیصلہ ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں اس سے اگلی آیت پڑھی:
ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّنَذَرُ الظّٰلِمِيْنَ فِيْهَا جِثِيًّا.( مسلم،رقم ۲۴۹۶)
’’پھر ہم ان لوگوں کو نجات دیں گے جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا اور ظالموں کو جہنم میں گھٹنوں کے بل گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔‘‘
علامہ ابن القیم لکھتے ہیں کہ سیدہ حفصہ کو آیت اور حدیث کے مابین تعارض محسوس ہوا اور انھوں نے سمجھا کہ قرآن میں ورود سے مراد آگ میں داخل ہونا ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایا کہ اہل ایمان اور اہل کفر کے ورود کی نوعیت مختلف ہوگی۔ متقین کا ورود ایسا ہوگا کہ وہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے، جب کہ ظالموں کا ورود انھیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں رکھنے کے لیے ہوگا (الصواعق المرسلۃ ۳/ ۱۰۵۴)۔
۲۔ ام المومنین سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے حساب لیا گیا، اسے لازماً عذاب ہوگا۔ میں نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اہل ایمان کے بارے میں نہیں فرمایا کہ:
فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَّسِيْرًا. (الانشقاق ۸۴ :۸)
’’ان سے آسان حساب لیا جائے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تو محض سرسری پوچھ گچھ ہوگی۔ لیکن جس سے حساب لیتے ہوئے چھان بین کی گئی، وہ مارا گیا‘‘ (بخاری، رقم ۱۰۳)۔
۳۔ النساء (۴) کی آیت ۱۰۱میں نماز کو قصر کرنے کا حکم اصلاً جہاد کے احکام کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے سرایا کو دشمن قبائل کے علاقے سے گزر کر جانا ہوتا تھا اور خدشہ ہوتا تھا کہ اگر کسی جگہ زیادہ دیر قیام کیا تو دشمن کو خبر ہو جائے گی اور وہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ قرآن مجید میں نماز کو قصر کرنے کی ہدایت اسی تناظر میں آئی ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رخصت کو اس خاص صورت تک محدود رکھنے کے بجاے اس کو عمومی طو رپر ہر طرح کے سفر سے متعلق قرار دیا جس پر بعض صحابہ کو اشکال ہوا اور انھوں نے یہ اشکال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔
یعلیٰ بن امیہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر سے سوال کیا کہ النساء (۴: ۱۰۱) میں تو نماز کو قصر کرنے کی اجازت کفار کی طرف سے اندیشے اور خوف کی حالت میں دی گئی تھی تو اب جب کہ اہل ایمان کو امن حاصل ہو گیا ہے، اس رخصت پر عمل کیوں برقرار ہے؟ سیدنا عمر نے فرمایا:
عجبت مما عجبت منہ فسألت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن ذلک، فقال:”صدقة تصدق اللہ بھا علیکم فاقبلوا صدقتہ“. (مسلم، رقم ۶۸۶)
’’جس بات پر تم حیران ہوئے ہو، وہ میرے لیے بھی باعث حیرانی بنی تھی، چنانچہ میں نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مہربانی ہے جو اس نے تم پر کی ہے، اس لیے اللہ کی دی ہوئی رخصت کو قبول کرو۔‘‘
گویا آپ نے واضح فرمایا کہ آیت میں’اِنْ خِفْتُمْ اَنْ يَّفْتِنَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا‘(اگر تمھیں خوف ہو کہ اہل کفر تمھیں فتنے میں ڈال دیں گے) کی قید کسی شرط کے طور پر نہیں، بلکہ قصر کی رخصت سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک خاص وجہ کے طور پر ترغیب کے پہلو سے بیان کی گئی ہے۔
۴۔ قرآن مجید میں ایسی خواتین کی فہرست بیان کرتے ہوئے جن سے نکاح کرنا حرام ہے، مختلف نسبی اور رضاعی رشتوں کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم نسبی رشتوں میں ماں اور بہن کے علاوہ خالہ، پھوپھی، بھتیجی اور بھانجی کو بھی شامل کرتے ہوئے رضاعی رشتوں کے ذکر میں صرف رضاعی والدہ اور رضاعی بہن کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے (النساء ۴: ۲۳) ۔
اس تناظر میں، ام المومنین سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ان کی رضاعی والدہ کے شوہر ابو القعیس کے بھائی افلح ان کے پاس آئے، جب کہ امہات المومنین کے لیے حجاب کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ ام المومنین نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر انھیں اپنے پاس نہیں آنے دوں گی، کیونکہ میرا رضاعی رشتہ ابوالقعیس کی بیوی سے تو بنتا ہے، لیکن ابو القعیس سے نہیں، اس لیے ان کا بھائی میرے لیے غیر محرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ام المومنین نے آپ سے یہ سوال پوچھا۔ آپ نے فرمایا: تم اپنے چچا کو اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں دیتیں؟ میں نے کہا: یا رسول اللہ، مجھے ابو القعیس نے تو دودھ نہیں پلایا، بلکہ اس کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’تمھارے ہاتھ خاک آلود ہوں، اس کو اجازت دے دو، کیونکہ وہ تمھارا چچا ہے‘‘ (بخاری، رقم ۴۷۹۶)۔
ایک دوسری ر وایت میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بیٹھے تھے کہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے باہر سے کسی آدمی کی آواز سنائی دی جو اندر جانے کی اجازت مانگ رہا تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے فرمایا کہ غالباً یہ فلاں شخص ہے۔ یہ شخص حفصہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر فلاں شخص، جو سیدہ عائشہ کا رضاعی چچا تھا، زندہ ہوتا تو وہ بھی میرے پاس آ سکتا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں۔ رضاعت سے بھی وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسبی تعلق سے حرام ہوتے ہیں (بخاری، رقم ۲۶۴۶) ۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وضاحت کے بعد بھی سیدہ عائشہ اس پر مطمئن نہیں ہوئیں کہ کسی عورت کا دودھ پینے سے اس کے شوہر کے ساتھ بھی بچے کا حرمت کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے، چنانچہ قاسم بن عبد الرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ ا م المومنین ایسے لڑکوں سے تو حجاب نہیں کرتی تھیں جنھیں ان کی بہنوں یا بھتیجیوں نے دودھ پلایا ہو، لیکن جن لڑکوں نے ام المومنین کے بھائیوں کی بیویوں کا دودھ پیا ہوتا، انھیں اپنے پاس آنے کی اجازت نہیں دیتی تھیں (موطا، رقم ۱۲۸۰)۔ یعنی وہ یہ سمجھتی تھیں کہ ان لڑکوں نے ان کے بھائی کی بیوی کا دودھ پینے سے وہ ان کے بھائی کے رضاعی بیٹے نہیں بن گئے اور نتیجتاً ام المومنین کے ساتھ بھی ان کا بھتیجے کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ چنانچہ جمہور فقہا ومحدثین کی طرف سے ابو القعیس کی مذکورہ روایت کو اس اصول کی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ اگر کسی راوی کا عمل خود اپنی نقل کردہ روایت کے خلاف ہو تو ایسی صورت میں اس کے عمل کا نہیں، بلکہ روایت کا اعتبار کیا جائے گا (فتح الباری ۹/ ۵۶۔ بدایۃ المجتہد ۲/ ۳۹)۔
۵۔ سورۂ توبہ میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے طرز عمل کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ ان لوگوں کے نفاق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کے حق میں اللہ کے رسول کی دعاے مغفرت بھی قبول نہیں کرے گا، اس لیے اے پیغمبر، آپ ان کے لیے دعا کریں یا نہ کریں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعاے مغفرت کریں تو اللہ ان کی بخشش نہیں کرے گا (۹: ۸۰)۔
قرآن کے اس تبصرے سے واضح تھا کہ اللہ تعالیٰ کو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منافقین کے حق میں استغفار کرنا پسند نہیں، تاہم جب رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بیٹے کی فرمایش پر اس کو کفن دینے کے لیے اپنی قمیص عطا کی اور پھر اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی کھڑے ہوگئے۔ اس موقع پر سیدنا عمر نے آپ کو کھینچا اور کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقوں کی نماز پڑھنے سے منع نہیں کیا؟ رسول اللہ نے فرمایا کہ مجھے اس معاملے میں اختیار دیا گیا ہے، اور پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی (بخاری، رقم ۱۲۶۹)۔
اس واقعے سے فہم نص میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوے کو واضح کرتے ہوئے مولانا ظفر احمد عثمانی لکھتے ہیں:
وحاصل اجتھادہ أنہ فھم من الآیة إباحة الاستغفار لھم، وخالفہ في ذلک عمر وفھم منھا النھي عن الاستغفار ومنع النبي صلی اللہ علیہ وسلم من الصلاة علی عبد اللہ بن أبي، ولم ینکر النبي صلی اللہ علیہ وسلم ذلک منہ ولکن لم یرجع من اجتھادہ، وأقرھما اللہ تعالی علی اجتھادھما حیث لم یعاتب واحدًا منھما ولا بین المخطئ من المصیب.
وبہ تبین أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قد کان یجتھد في تأویل النص ویخالفہ أصحابہ في تأویلہ ولا ینکرہ علیھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ویقرھم اللہ تعالی علیہ، لأن اللہ تعالیٰ لم ینکرہ في ھذہ القصة علی أحد بین الفریقین، لا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا علی عمر، بل أنزل قولہ تعالٰی: ’’وَلَا تُصَلِّ عَلٰ٘ي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ‘‘(التوبة ۸۴) وھو یحتمل أن یکون نسخا لتخییرہ السابق ویحتمل ان یکون بیانًا لقولہ: ’’استغفر لھم او لا تستغفر لھم‘‘ إنہ لم یکن للتخییر، بل للنھي عن الاستغفار علی وجہ الکنایة. (اعلاءالسنن ۱۹/ ۹۳۱۶)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کا حاصل یہ تھا کہ آپ نے آیت سے منافقین کے حق میں استغفار کا مباح ہونا سمجھا، جب کہ عمر نے اس میں آپ سے اختلاف کیا اور آیت سے استغفار کا ممنوع ہونا اخذ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبد اللہ بن ابی کی نماز جنازہ پڑھنے سے روکنے کی کوشش کی۔ آپ نے یہ اختلاف کرنے پر سیدناعمر پر کوئی اعتراض نہیں کیا، لیکن اپنے اجتہاد سے بھی رجوع نہیں کیا اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان دونوں کو ان کے اجتہاد پر برقرار رکھا، کیونکہ نہ تو دونوں میں سے کسی کو عتاب کیا اور نہ یہ واضح کیا کہ کس کا اجتہاد غلط تھا اور کس کا صحیح۔
اس واقعے سے خوب واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات قرآن کی آیت کی مراد سمجھنے میں اجتہاد سے کام لیتے تھے اور آپ کے صحابہ آپ کی سمجھی ہوئی مراد سے اختلاف کرتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی وجہ سے ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی انھیں اس پر برقرار رکھتے تھے، کیونکہ مذکورہ قصے میں اللہ تعالیٰ نے دونوں فریقوں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عمر میں سے کسی پر بھی انکار نہیں کیا، بلکہ اپنا یہ ارشاد نازل کر دیا کہ ’’(اے پیغمبر، ان میں سے جو کوئی بھی مرے، تم کبھی نہ تو اس کی نمازہ جنازہ ادا کرنا اور نہ (دعا کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا‘‘۔ یہ ارشاد اس کا بھی محتمل ہے کہ اسے سابقہ تخییر کا ناسخ سمجھا جائے اور اس کا بھی احتمال رکھتا ہے کہ اسے ’استغفر لھم او لا تستغفر لھم‘ کی تفسیر قرار دیا جائے کہ اس سے مراد اختیار دینا نہیں، بلکہ کنایے کے اسلوب میں استغفار سے منع کرنا تھا۔‘‘
مذکورہ تمام مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو واجب الاتباع اور قرآن مجید کی تعبیر وتشریح میں حتمی سند تسلیم کرتے ہوئے بھی فقہاے صحابہ قرآن کے بیانات کو اپنے مدعا پر دلالت کے لحاظ سے کلیتاً حدیث نبوی پر منحصر نہیں سمجھتے تھے، بلکہ قرآن کو اپنی جگہ ایک واضح کلام تصور کرتے ہوئے اس کے معنی ومفہوم پر مستقلاً بھی غور کرتے تھے اور جہاں انھیں قرآن کی کسی آیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد یا عمل کے مابین تفاوت محسوس ہوتا، وہ نہ صرف اپنا اشکال آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے، بلکہ بعض اوقات اپنے فہم پر اصرار بھی کرتے تھے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں تو خود آپ کی وضاحت یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی روشنی میں اس کا قطعی فیصلہ ممکن تھا کہ زیر بحث سوال کے حوالے سے مراد الہٰی کیا ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صورت حال میں باعتبار نوعیت ایک بنیادی فرق یہ واقع ہو گیا کہ اب وضاحت یا تصفیے کے لیے خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ ایک بنیادی سوال پیدا ہوا جس نے آگے چل کر علم اصول فقہ کی ایک مہتم بالشان بحث کی صورت اختیار کر لی کہ اگر کتاب اللہ میں کسی معاملے سے متعلق کوئی ہدایت ایسے اسلوب میں بیان کی گئی ہو جو فی نفسہٖ واضح ہو اور بظاہر محتمل اور توضیح طلب نہ ہو، جب کہ اسی معاملے سے متعلق کوئی ایسی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی جائے جو قرآن مجید کے بیان سے ٹکرا رہی ہو تو ایسی صورت میں کیا موقف اختیار کیا جائے؟
عہد نبوی کے بعد کی صورت حال میں قرآن اور حدیث میں بظاہر دکھائی دینے والے تفاوت کی توجیہ کے حوالے سے علمی وعقلی طور پر دو مساوی امکانات کی گنجایش پیدا ہو گئی تھی:
ایک یہ کہ قرآن مجید سے بظاہر جو مفہوم سمجھ میں آتا ہے، اسے اپنے علم وفہم کا قصور تصور کیا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ارشاد کو مراد الہٰی کی زیادہ قابل اعتماد تفسیر سمجھ کر قبول کر لیا جائے۔
دوسرا یہ کہ قرآن مجید کی ظاہری دلالت کو برقرار رکھا جائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد یا عمل قرآن مجید کے برعکس یا اس سے متجاوز دکھائی دے تو اس کی بنیاد قرآن مجید ہی میں تلاش کی جائے یا توجیہ وتاویل کے ذریعے سے حتی الامکان اس کے صحیح محل کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ بھی ممکن نہ ہو تو آپ کی نسبت سے منقول بات کو راویوں کی غلط فہمی اور سوء سماع پر محمول کیا جائے۔
فقہاے صحابہ کی آرا میں اس نوعیت کی مثالیں محدود تعداد میں نقل ہوئی ہیں، تاہم ان سے ان کے مختلف و متخالف رجحانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آیندہ سطور میں اس ضمن کی بنیادی بحثوں کا ایک جائزہ پیش کیا جائے گا۔
۱۔ وضو میں پاؤں کا دھونا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور جمہور صحابہ واہل علم کے تعامل سے وضو کا طریقہ یہی ثابت ہے کہ چہرے اور بازوؤں کے ساتھ ساتھ پاؤں کو بھی دھویا جائے۔ تاہم قرآن مجید میں وضو کا حکم بیان کرتے ہوئے سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۶ میں ’فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَاَيْدِيَكُمْ اِلَي الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ اِلَي الْكَعْبَيْنِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہاں بادی النظر میں پاؤں کا ذکر سر کے مسح کے ساتھ ہوا ہے جس سے ذہن کا اس طرف جانا ممکن ہے کہ پاؤں کا حکم بھی وہی ہے جو سر کا ہے۔ اس تناظر میں صحابہ و تابعین کی ایک جماعت کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ وہ وضو میں اصل حکم اس کو سمجھتے تھے کہ پاؤں پر صرف مسح کر لیا جائے۔ چنانچہ ربیع بیان کرتی ہیں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میرے پاس آئے اور مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھا جس میں ربیع نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے پاؤں کو دھویا۔ ابن عباس نے کہا کہ :
إن الناس أبوا إلا الغسل ولا أجد في کتاب اللہ إلا المسح.(ابن ماجہ، رقم ۴۶۲)
’’لوگ پاؤں کو دھوئے بغیر نہیں رہتے، لیکن مجھے کتاب اللہ میں صرف مسح کرنے کا حکم ملتا ہے۔‘‘
اسی طرح شعبی کہتے تھے کہ جبریل پاؤں پر مسح کرنے کا حکم لے کر اترے تھے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۸۴، ۱۸۵)۔ شعبی اس کے حق میں ایک قیاسی دلیل بھی پیش کرتے تھے، وہ کہتے تھے کہ پاؤں پر مسح ہی کرنے کا حکم ہے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ (وضو میں) جن اعضا کو دھونے کا حکم ہے، تیمم میں صرف انھی (پر مسح کرنے) کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ (وضو میں) جن اعضا پر مسح کا حکم ہے، انھیں چھوڑ دیا گیا ہے اور ان کا تیمم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا (ایضاً، رقم ۱۸۱)! یہی نقطۂنظر عکرمہ اور حسن بصری سے بھی مروی ہے (ایضاً، رقم ۱۷۸- ۱۷۹)۔ تاہم جمہور صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر سنت کی روشنی میں پاؤں دھونے ہی کو وضو کے مشروع کے طریقے کے طور پر قبول کیا اور اسی کی روشنی میں قرآن کی آیت میں ’وَاَرْجُلَكُمْ‘ کو حکم کے اعتبار سے ’وَامْسَحُوْا‘ کے بجاے ’فَاغْسِلُوْا‘ کے ساتھ متعلق قرار دیا۔
۲۔ موزوں پر مسح کرنے کی رخصت
سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت میں ، جمہور صحابہ کے فہم کے مطابق، پاؤں کو دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے وضو کی حالت میں پاؤں پر موزے پہنے ہونے کی صورت میں پاؤں کو دھونے کے بجاے صرف موزوں پرمسح کرنے پر اکتفا فرمایا اور صحابہ کو بھی اس کی اجازت دی (بخاری، رقم ۶۳۹) ۔
بظاہر قرآن کی ہدایت سے مختلف ہونے کی وجہ سے یہ رخصت بعض صحابہ کے لیے باعث اشکال بنی۔ مثلاً ایک موقع پر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو کہا کہ یارسول اللہ، کیا آپ بھول گئے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں نہیں، بلکہ تم بھول گئے ہو۔ مجھے میرے رب نے یہی حکم دیا ہے (ابو داؤد، رقم ۱۴۰)۔
صحابہ و تابعین کے مابین اس حوالے سے خاصی بحث بھی موجود رہی ہے۔ جن حضرات نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اس رخصت پر عمل کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، انھیں اس حوالے سے دوسرے صحابہ کی روایت قبول کرنے میں تردد اور مزید تحقیق کی ضرورت محسوس ہوئی۔ مثلاً عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سفر میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے یہ سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ ابن عمر کو اس پر اطمینان نہ ہوا اور انھوں نے اس کی تحقیق کے لیے سیدنا عمر سے رجوع کیا۔ سیدنا عمر نے ان سے کہا کہ جب سعد تمھیں کوئی بات بیان کریں تو اسے رد نہ کیا کرو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم واقعتاً موزوں پر مسح فرمایا کرتے تھے (بخاری، رقم ۱۹۸) ۔
تاہم عبد اللہ بن عباس کے بیان کے مطابق اس موقع پر وہ بھی وہاں موجود تھے۔ جب سیدنا عمر نے سعد بن ابی وقاص کی تائید کی تو ابن عباس نے کہا کہ:
یا سعد، قد علمنا أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم مسح علی خفیہ ولکن أقبل المائدة أم بعدھا؟ قال:لا یخبرک أحد أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم مسح علیھما بعدما أنزلت المائدة، فسکت عمر. (احمد، رقم ۳۳۶۶)
’’اے سعد، ہم جانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا تھا، لیکن کیا یہ سورۂ مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے تھا یا بعد میں؟ کوئی شخص تمھیں یہ خبر نہیں دے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ مائدہ نازل ہونے کے بعد موزوں پر مسح کیا۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ میری یہ بات سن کر سیدنا عمر خاموش ہو گئے۔‘‘
گویا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس عمل کو کتاب اللہ میں پاؤں دھونے کا حکم نازل ہونے کے بعد منسوخ سمجھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میں صحرا میں کسی راہ گیر کی پشت پر ہاتھ پھیر لوں، یہ مجھے موزوں پر مسح کرنے سے زیادہ پسند ہے (احمد، رقم ۲۸۹۰)۔
تاہم عطاء ابن رباح کے سامنے ذکر کیا گیا کہ عکرمہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اللہ کی کتاب کا حکم موزوں پر مسح کے خلاف ہے تو عطاء نے کہا کہ عکرمہ نے غلط کہا ہے۔ میں نے عبداللہ بن عباس کو موزوں پر مسح کرتے دیکھا ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۹۶۳)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی غالباً صحیح صورت حال واضح ہونے کے بعد موزوں پر مسح کی رخصت پرعمل کرنے لگے تھے۔
بہرحال ابن عباس کے مذکورہ استدلال کے تناظر میں تابعین کے دور میں مسح علی الخفین سے متعلق جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو خاص اہمیت دی جاتی تھی (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۸۶۸)، کیونکہ جب ان کے موزوں پر مسح کرنے پر اعتراض کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ رخصت سورۂ مائدہ کے نزول سے پہلے تھی تو انھوں نے جواب میں کہا کہ میں نے تو اسلام ہی سورۂ مائدہ کے نازل ہونے کے بعد قبول کیا تھا (ابوداؤد، رقم ۹۳)۔ ان کی روایت اس بات کی دلیل ہے کہ سورۂ مائدہ میں وضو کا حکم نازل ہونے کی وجہ سے موزوں پر مسح کرنے کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔
بعض دیگر صحابہ نے بھی ابتداء ً ان روایات کو درست ماننے سے انکار کیا، مثلاً ام المومنین عائشہ سے منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ وہ مسح کرنے کے مقابلے میں پاؤں کو کٹوا دینا پسند کرتے ہیں (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۹۶۴، ۱۹۶۵)، [1] تاہم سیدہ عائشہ کو غالباً بعد میں مستند روایات سے اس کی اطلاع ملی اور وہ قائل ہو گئیں۔ چنانچہ شریح بن ہانی نے ان سے اس کے متعلق سوال کیا تو ام المومنین نے کہا کہ اس کے بارے میں علی بن ابی طالب سے پوچھو، کیونکہ وہ سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جایا کرتے تھے اور اس کے متعلق مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں (مسلم، رقم ۵۵۶)۔
تابعین کے ہاں بھی اس حوالے سے تردد کی کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلاً زر بن حبیش ، صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا کہ میرے دل میں موزوں پر مسح کے بارے میں کھٹک ہے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ہیں تو کیا آپ نے اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بات سنی ہے؟ صفوان نے کہا کہ ہاں، آپ ہمیں ہدایت فرماتے تھے کہ سفر کی حالت میں ہم تین دن اور تین راتوں تک موزے نہ اتارا کریں (احمد، رقم ۱۷۸۳۲)۔ اسی طرح یحییٰ بن ابی اسحٰق کا بیان ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے موزوں پر مسح کے جواز کا فتویٰ دیا تو میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انھوں نے کہا کہ نہیں، لیکن میں نے اپنے معتمد ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ موزوں پر مسح کرنا درست ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۸۹۵)۔
۳۔ بیوگی کی صورت میں حاملہ خاتون کی عدت
قرآن مجید میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن (البقرہ ۲ :۲۳۴) اور حاملہ عورت کی عدت، جسے طلاق دے دی جائے، وضع حمل بیان کی گئی ہے (الطلاق ۶۵ :۴)۔ لیکن اگر کوئی خاتون حاملہ ہونے کی حالت میں بیوہ ہو جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہوگا؟ آیا وہ بچہ جنم دینے کے بعد عدت سے فارغ ہو جائے گی یا اسے چار ماہ دس دن پورے ہونے تک مزید انتظار کرنا ہوگا؟ فقہاے صحابہ وتابعین کے مابین اس حوالے سے اختلاف راے پیدا ہو گیا۔ ایک گروہ کی راے یہ تھی کہ ایسی عورت کی عدت، وضع حمل ہے اور اس کے فوراً بعد وہ نکاح کر سکتی ہے، جب کہ دوسرے گروہ کا کہنا یہ تھا کہ چونکہ وہ حاملہ بھی تھی اور بیوہ بھی، اس لیے اس کے لیے دونوں عدتیں پوری کرنا لازم ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پہلے گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا استدلال یہ تھا کہ سورۂ طلاق میں حاملہ کے لیے وضع حمل کو عدت مقرر کرنے کی ہدایت، سورۂ بقرہ کے بعد نازل ہوئی ہے اور اس نے بیوہ کے لیے چار ماہ دس دن کی عدت کے حکم میں جزوی ترمیم کر دی ہے (بخاری، رقم ۴۹۱۰)۔ گویا ان کے فہم کے مطابق سورۂ بقرہ میں اللہ نے بیوہ کے لیے کسی تفصیل کے بغیر مطلقاً یہ حکم بیان کیا تھا، لیکن سورۂ طلاق میں حاملہ کی عدت بیان کر کے یہ واضح کر دیا کہ حاملہ کا حکم سابقہ ہدایت سے مختلف ہے۔
اس بحث کا اہم نکتہ یہ تھا کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وضاحت منقول ہے جو مذکورہ راے کی تائید کرتی ہے اور متعدد صحابہ نے، جن کی راے پہلے بیوہ حاملہ کو دو عدتوں کا پابند قرار دینے کی تھی، یہ روایات سامنے آنے کے بعد اپنی راے سے رجوع کر لیا۔ مثلاً عبد الکریم بن ابی المخارق کی روایت ہے کہ ایک عورت نے سیدنا عمر سے استفسار کیا کہ میں حاملہ تھی اور شوہر کی وفات کے بعد عدت پوری ہونے سے پہلے میں نے بچے کو جنم دے دیا تو اب میرے لیے کیا حکم ہے؟ سیدنا عمر نے کہا کہ تمھیں دونوں عدتوں میں سے دوسری عدت بھی پوری کرنی ہوگی۔ وہ عورت ابی بن کعب کے پاس گئی اور انھیں یہ واقعہ بتایا۔ ابی بن کعب نے کہا کہ واپس جاؤ اور عمر کو بتاؤ کہ ابی بن کعب نے کہا کہ تمھاری عدت پوری ہو چکی ہے۔ سیدنا عمر نے یہ سن کر ابی بن کعب کو بلایا اور پوچھا کہ کیا تم نے یہ بات کہی ہے؟ ابی بن کعب نے کہا کہ ہاں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ‘ کے متعلق پوچھا تھا کہ کیا بیوہ کی عدت بھی یہی ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں۔ چنانچہ سیدنا عمر نے اس عورت سے کہا کہ یہ بات سن لو (اور اس کے مطابق عمل کرو) (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۱۷۱۷)۔ [2]
اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ وہ حاملہ عورت کے بارے میں جو بیوہ ہو جائے، یہ راے رکھتے تھے کہ اگر وہ چار ماہ دس دن سے پہلے ولادت سے فارغ ہو جائے تو بھی اسے چار ماہ دس دن کی مدت پوری کرنی ہوگی۔ ایک موقع پر ایک خاتون نے ان سے استفسار کیا تو انھوں نے اس کو یہی جواب دیا۔ اس پر ان کے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن کے مابین اس مسئلے پر بحث ہو گئی تو ابن عباس نے مسئلے کی تحقیق کے لیے اپنے غلام کریب کو ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا ۔ انھوں نے بتایا کہ سبیعہ اسلمیہ حالت حمل میں بیوہ ہو گئی تھیں اور اس کے چالیس دن کے بعد انھوں نے بچے کو جنم دے دیا۔ پھر انھیں نکاح کا پیغام ملا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (چار ماہ دس دن گزرنے کا انتظار کیے بغیر) ان کا نکاح کر دیا تھا (بخاری، رقم ۴۹۰۹)۔ چنانچہ ابن عباس نے اس عورت سے کہا کہ یہ بات سن لو (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۱۷۲۵)۔[3]
تاہم صحابہ وتابعین کی ایک جماعت ایسی عورت کے لیے دونوں عدتیں لازم ہونے کے موقف پر قائم رہی۔ روایات میں اس کی تفصیل منقول نہیں کہ یہ حضرات سبیعہ اسلمیہ کے واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کی کیا توجیہ کرتے تھے، تاہم بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس روایت کی صحت کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے تھے۔ چنانچہ محمد بن سیرین کہتے ہیں کہ میں ایک مجلس میں تھا جس میں عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ حاملہ اگر بیوہ ہو جائے تو وہ دونوں عدتیں پوری کرنے کے بعد حلال ہوگی۔ میں نے سبیعہ اسلمیہ کی حدیث کا ذکر کیا جو عبد اللہ بن عتبہ نے نقل کی ہے تو ابن ابی لیلیٰ کے اصحاب نے مجھے ٹہوکا دیا۔ میں سمجھ گیا ( کہ وہ اس روایت کی صحت کے متعلق تحفظات رکھتے ہیں) چنانچہ میں نے کہا کہ عبد اللہ بن عتبہ مسجد کے ایک کونے میں موجود ہیں اور اگر میں ان کی طرف جھوٹ منسوب کروں تو پھر تو میں بڑا ہی جسارت مند ہوں۔ اس پر عبد الرحمٰن بن ابی لیلیٰ جھینپ گئے اور کہا کہ لیکن عبد اللہ بن عتبہ کے چچا، (یعنی ابن مسعود) یہ بات نہیں کہتے تھے۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ اس کے بعد میں مالک بن عامر سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے اس مسئلے میں ابن مسعودسے کچھ سنا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ ابن مسعود کہتے تھے کہ تم ایسی عورت کو تنگی میں ڈالتے ہو اور آسانی پیدا نہیں کرتے؟ سورۂ طلاق، سورۂ بقرہ کے بعد نازل ہوئی تھی (بخاری، رقم ۴۹۱۰)۔
۴۔ طلاق مغلظہ کی صورت میں دوران عدت نفقہ و رہایش کا حکم
سورۂ طلاق میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ وہ اگر اپنی بیویوں کو طلاق دیں تو فوراً انھیں ان کے گھروں سے نکال نہ دیں، بلکہ دوران عدت میں انھیں اپنی استطاعت کے مطابق رہایش مہیا کریں۔ (الطلاق۶۵ :۱)
اسلوب سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ طلاق کی نوعیت سے قطع نظر، عدت کے حوالے سے دی گئی ایک ہدایت ہے اور عدت گزارنے والی تمام خواتین اس عرصے میں رہایش اور نفقہ کی حق دار ہیں۔ فقہاے صحابہ کے ایک گروہ کی، جن میں سیدنا عمر اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما شامل ہیں، یہی راے تھی اور وہ شوہر کو، طلاق مغلظہ کے بعد عدت گزارنے والی بیوی کو بھی رہایش اور نفقہ فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔ تاہم سیدنا عمر کے دور میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تو ایک خاتون صحابیہ، فاطمہ بنت قیس نے یہ روایت بیان کی کہ ان کے خاوند نے انھیں تین طلاقیں دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ عدت کے دوران میں ان کا نفقہ یا رہایش خاوند کے ذمے نہیں ہے۔ آپ نے انھیں عدت گزارنے کے لیے اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر ایک دوسرے گھر میں منتقل ہو جانے کا حکم دیا (مسلم، رقم ۳۶۹۷، ۳۶۹۸)۔
فاطمہ بنت قیس کی اس روایت کے حوالے سے فقہاے صحابہ وتابعین میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا۔ سیدنا عمر نے اس روایت کو درست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ہم کتاب اللہ کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ایک عورت کی بات پر نہیں چھوڑ سکتے جس کو پتا نہیں بات یاد بھی رہی یا نہیں۔[4]
اس کو رہایش بھی ملے گی اور نفقہ بھی۔ سیدنا عمر نے سورۂ طلاق کی یہ آیت پڑھی:’لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۣ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ‘ (مسلم، رقم ۳۷۱۰)۔ سیدہ عائشہ نے فاطمہ کی روایت کو رد تو نہیں کیا، لیکن یہ فرمایا کہ اس واقعے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو اپنے شوہر کے گھر سے منتقل ہونے کا حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ زبان کی تیز تھی اور اس کے سسرال والے اس سے تنگ تھے، اس لیے آپ نے اسے ایک دوسرے گھر میں عدت گزارنے کے لیے کہا۔
مروان بن الحکم کی امارت کے دور میں ان کے سامنے فاطمہ بنت قیس کا یہی واقعہ پیش کیا گیا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ حدیث ہم نے صرف ایک عورت سے سنی ہے، اس لیے ہم اس کے مقابلے میں اسی بات پر قائم رہنا پسند کرتے ہیں جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے۔ جب فاطمہ بنت قیس کو مروان کے اس تبصرے کی خبر پہنچی تو انھوں نے کہا کہ میرے اور تمھارے مابین قرآن، حاکم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیوی کو گھر سے نہ نکالنے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ممکن ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بعد دونوں کے مابین موافقت کی کوئی صورت پیدا فرما دے۔ یہ بات رجعی طلاق کے بارے میں تو درست ہے، لیکن تین طلاق کے بعد موافقت کی کون سی صورت نکل سکتی ہے (مسلم، رقم ۳۷۰۴)؟ یوں فاطمہ نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان کی بیان کردہ روایت قرآن کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے مطابق ہے۔
۵۔ ہم بستری سے پہلے طلاق کی صورت میں مہر مثل کا مسئلہ
معقل بن سنان الاشجعی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قبیلے کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں، جس کا خاوند فوت ہو گیا تھا اور نکاح میں اس کے مہر کی مقدار طے نہیں کی گئی تھی، یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کو اتنا ہی مہر دیا جائے، جتنا اس کے خاندان کی عورتوں کو عام طور پر دیا جاتا ہے (ابو داؤد، رقم ۲۱۱۶) ۔
صحابہ کے دور میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا تو مذکورہ حدیث کے بارے میں ان کے مابین اختلاف پیدا ہو گیا۔ چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس عورت کے متعلق دریافت کیا گیا جس کا شوہر نکاح کے بعد ہم بستری سے پہلے فوت ہو گیا ہے اور اس کے مہر کی مقدار طے نہ کی گئی ہو۔ ابن مسعود نے ایک مہینے تک جواب دینے سے معذرت کی، لیکن پھر اس کے اصرار پر وضو کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور پھر کہا کہ میرے خیال میں اسے اس جیسی کسی عورت کے مہر کے برابر مہر ملنا چاہیے، وہ شوہر کی وراثت میں بھی حصہ دار ہے اور اس پر عدت گزارنا بھی لازم ہے۔ یہ سن کر قبیلہ اشجع کا ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے وہی فیصلہ کیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے قبیلے کی ایک عورت بروع بنت واشق کے بارے میں فرمایا تھا جو ہلال بن امیہ کے نکاح میں تھی۔ ابن مسعود نے پوچھا کہ کیا تمھارے علاوہ کسی اور نے بھی آپ کا یہ فیصلہ سنا؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ وہ اپنی قوم کے کچھ لوگوں کو لے کر آیا جنھوں نے اس بات کی گواہی دی۔ شعبی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ابن مسعود کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا وہ اس موقع پر ہوئے جب ان کا فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے موافق نکلا (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۱۳۶۷) ۔
تاہم سیدنا علی نے اس روایت کو قبول نہیں کیا، بلکہ فرمایا: ’’کتاب اللہ کے خلاف قبیلۂاشجع کے ایک بدو کی بات قبول نہیں کی جا سکتی ‘‘ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۴۴۲۴)۔ جب انھیں بتایا گیا کہ ابن مسعود نے اس روایت کو قبول کیا ہے تو سیدنا علی نے کہا کہ بدوؤں کی روایت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب نہیں کی جا سکتی (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۹۳۶)۔
روایات میں اس کی تفصیل منقول نہیں کہ سیدنا علی اسے کس بنیاد پر کتاب اللہ کے خلاف سمجھتے تھے، تاہم قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان کے پیش نظر غالباً درج ذیل آیات تھیں:
لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِيْضَةًﵗ وَّمَتِّعُوْهُنَّﵐ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗﵐ مَتَاعًاۣ بِالْمَعْرُوْفِﵐ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِنِيْنَ. وَاِنْ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ. (البقرہ ۲: ۲۳۶- ۲۳۷)
’’اگر تم اپنی بیویوں کو ایسی حالت میں طلاق دینا چاہو کہ تم نے ان سے ہم بستری نہ کی ہو یا ان کے لیے مہر کی رقم مقرر نہ کی ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں، البتہ انھیں (بوقت رخصت) کچھ سامان دے دو۔ فراخی رکھنے والے پر اس کی استطاعت کے بقدر اور تنگ دست پر اس کی گنجایش کے مطابق۔ دستور کے مطابق سامان دینا چاہیے اور یہ اچھا برتاؤ کرنے والوں پر لازم ہے۔ اور اگر تم ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے انھیں طلاق دے دو، جب کہ تم نے ان کے مہر کی رقم مقرر کی ہوئی ہو تو پھر جو رقم تم نے طے کی ہے، اس کا نصف ادا کیا جائے۔‘‘
پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر بوقت نکاح مہر کی مقدار طے نہ کی گئی ہو یا مجامعت سے پہلے طلاق دینے کی نوبت آ جائے تو دونوں صورتوں میں مطلقہ کو حسب استطاعت بوقت رخصت کچھ سامان دے دیا جائے۔ یہاں مہر کی ادائیگی کا ذکر نہیں اور اس سے یہ سمجھنا بظاہر بہت قرین قیاس ہے کہ ایسی صورت میں صرف سامان رخصت دینا ہی کافی ہے، مہر ادا کرنا لازم نہیں۔ دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ اگر قبل از مجامعت طلاق دی جائے، جب کہ بوقت نکاح مہر کی مقدار مقرر کر لی گئی تھی تو ایسی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم ہوگی۔ یہاں ’وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيْضَةً‘ کی قید سے مزید یہ مفہوم ہوتا ہے کہ مہر کی مقدارطے ہونے کی صورت میں تو نصف مہر کی ادائیگی لازم ہے، لیکن اگر مقدار طے نہ کی گئی ہو تو، جیسا کہ پہلی آیت میں کہا گیا، سامان رخصت دے دینا کافی ہوگا۔
۶۔ بوقت ضروری عارضی نکاح کی اجازت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف غزوات کے موقع پر صحابہ کی درخواست پر انھیں محدود مدت کے لیے مقامی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت دی تھی (مسلم، رقم ۱۴۰۴- ۱۴۰۶۱)۔ صحابہ آپ کے زمانے میں اور آپ کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے تک اس رخصت سے فائدہ اٹھاتے رہے، تاہم جب سیدنا عمر کا عہد خلافت آیا تو انھوں نے اس رخصت کو ختم کر دینے کا فیصلہ کیا اور اعلان کر دیا کہ دو متعے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیے جاتے تھے، لیکن میں ان دونوں سے منع کرتا ہوں اور جو شخص ایسا کرے گا، اس کو سزا دوں گا: ایک متعۃ الحج اور دوسرا متعۃ النساء (ابو عوانۃ، المسند الصحیح المخرج علیٰ صحیح مسلم، رقم ۳۸۰۹)۔ اس فیصلے کے تناظر میں صحابہ کے مابین دو رجحان سامنے آئے۔ جمہور صحابہ نے سیدنا عمر کے فیصلے سے اتفاق کیا اور یہ نقطۂنظر اختیار کیا کہ متعہ کی اجازت ان خاص مواقع کے لیے تھی جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی، لیکن جب آپ نے اس سے منع کر دیا تو اس کے بعد یہ اباحت باقی نہیں رہی۔ یہ موقف رکھنے والے صحابہ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام نمایاں ہے (مسلم، رقم ۱۴۰۶- ۱۴۰۷)۔ تاہم بعض صحابہ، جن میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نام زیادہ معروف ہے، مخصوص شرائط کے ساتھ عارضی نکاح کی اجازت کے باقی ہونے کے قائل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ آدمی سفر میں شدید اضطرار کی حالت میں اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آدمی کے لیے سخت اضطرار کی کیفیت میں مردار کھانا حلال ہو جاتا ہے (مسلم، رقم ۱۴۰۴– ۱۴۰۶۱۔الطبرانی، المعجم الکبیر، احادیث عبد اللہ بن عباس، رقم ۱۰۶۰۱)۔ ابن عباس اس رخصت کو ایک سماجی ضرورت کے طور پر بہت اہمیت دیتے تھے اور ان کا یہ تبصرہ تھا کہ متعہ کی رخصت اللہ کی طرف سے اس امت پر ایک رحمت تھی، اگر عمر بن الخطاب اس سے منع نہ کر دیتے تو کوئی بد بخت ہی زنا کا ارتکاب کرتا (طحاوی، شرح معانی الآثار، رقم ۲۷۷۷) ۔
دل چسپ امر یہ ہے کہ ابن عباس اس ضمن میں ممانعت کی روایات سے بھی واقف تھے۔ امام ابن القیم لکھتے ہیں کہ ابن عباس کا زاویۂنظر یہ تھا کہ یہ کوئی ابدی ممانعت نہیں، بلکہ اس کی نوعیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی ضرورت پوری ہو جانے کے بعد رخصت سے فائدہ اٹھانے کی ممانعت کر دی جائے۔ یعنی جیسے حالت اضطرار میں ضرورت کے بقدر خنزیر کا گوشت کھا لینے کے بعد اس کی اباحت ختم ہو جاتی ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر متعہ کی اجازت دی اور پھر ضرورت پوری ہو جانے کے بعد اس سے منع کر دیا، لیکن ہمیشہ کے لیے اس رخصت کو منسوخ نہیں کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی اضطراری صورت حال اب بھی کسی کو پیش آجائے تو وہ اس رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے (زاد المعاد ۴۹۵، ۷۸۱)۔
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ متعہ کی اجازت کا ماخذ صرف احادیث کو نہیں سمجھتے تھے، بلکہ ان کے نزدیک یہ قرآن مجید میں منصوص تھی اور غالباً یہی نکتہ ان کے لیے متعہ سے ممانعت کو ابدی تحریم پر محمول کرنے سے مانع تھا۔ چنانچہ ان سے منقول ہے کہ وہ سورۂ نساء کی آیت ۲۴میں ’فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً‘ میں جملہ شرطیہ کے بعد ’اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي‘ کا اضافہ کر کے یوں پڑھتے تھے:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِيْضَةً
. ’’پھر تم ایک مقررہ مدت تک ان میں سے جس سے فائدہ اٹھاؤ، انھیں ان کے مقررہ مہر ادا کر دو۔‘‘
ابن عباس کہتے تھے کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ایسے ہی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو ایسے ہی نازل فرمایا ہے (تفسیر الطبری ۸/ ۱۷۷)۔ تابعین میں سے سدی، مجاہد، قتادہ، حکم اور سعید بن جبیر بھی اس آیت کی قراء ت اسی طرح کرتے اور اسے متعہ کے جواز کی دلیل کے طور پر پیش کرتے تھے (ایضاً، ص ۱۷۶، ۱۷۸) ۔
قرآن وسنت کے باہمی تعلق کے حوالے سے مذکورہ حضرات کے بارے میں یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ وہ قرآن مجید میں کسی چیز کا جواز منصوص ہونے کی صورت میں سنت سے اس کے نسخ کو قرین قیاس تصور نہیں کرتے تھے اور اس کے بجاے قرآن کی اباحت کو علیٰ حالہ قائم رکھتے ہوئے حدیث میں وارد ممانعت کی تاویل و توجیہ کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔ [5]
۷۔ شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنا
سنت کے ایسے احکام جن میں قرآن پر زیادت پائی جاتی ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ رجم کی سزا کا ہے۔ جیساکہ معلوم ہے، قرآن مجید میں بدکاری کی سزا کسی تفصیل وامتیاز کے بغیر سو کوڑے بیان کی گئی ہے۔ تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قولاً وفعلاً شادی شدہ زانی کو سنگ سار کرنا ثابت ہے۔ اس حوالے سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی نقل کردہ قولی حدیث میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ثیب کے لیے سو کوڑے اور رجم، دونوں سزائیں بیان کی ہیں، لیکن اس نوعیت کے سبھی مقدمات میں عملاً آپ سے مجرم کو صرف سنگ سار کرنا منقول ہے۔ قرآن کی ہدایت اور سنت سے ثابت حکم کے باہمی تعلق کے حوالے سے فقہائے صحابہ سے بنیادی طور پر دو زاویہ ہاے نظر منقول ہیں۔
سیدنا عمر سے یہ منقول ہے کہ وہ رجم کی سزا کا ماخذ خود قرآن ہی میں نازل ہونے والے ایک حکم کو قرار دیتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے کہا کہ یہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی جسے ہم نے پڑھا اور اچھی طرح سمجھا اور اس کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کی سزا دی اور آپ کے بعد ہم نے بھی یہ سزا نافذ کی ہے۔ انھوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد لوگ یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ ہم اللہ کی کتاب میں رجم کی آیت کو موجود نہیں پاتے اور یوں اللہ کے نازل کردہ ایک فریضے کو ترک کر دیں (بخاری، رقم ۶۴۷۳)۔ بعض روایات کے مطابق انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر لوگوں کے اس الزام کا ڈر نہ ہوتا کہ عمر نے کتاب اللہ میں اضافہ کر دیا ہے تو میں رجم کی آیت کو اللہ کی کتاب میں لکھ دیتا (ابو داؤد، رقم ۳۸۹۷)۔ ایک روایت کے مطابق سیدنا عمر نے کہا کہ یہ آیت اللہ کی کتاب میں نازل ہوئی تھی اور ہم نے اسے پڑھا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا جو بہت سا حصہ چلا گیا، اس میں یہ آیت بھی چلی گئی، لیکن اس (کے حکم الہٰی ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رجم کیا، ابوبکر نے بھی رجم کیا اور ان دونوں کے بعد میں نے بھی رجم کی سزا دی ہے (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۲۹۳۷)۔
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے کہ انھوں نے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ اس وقت سورۂ احزاب کی ستر سے زائد کچھ آیات کی تلاوت کرتے ہو، جب کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سورت سیکھی تھی جو سورۂ بقرہ کے برابر یا اس سے بھی کچھ بڑی تھی اور اس میں رجم کی آیت بھی تھی (احمد، رقم ۲۰۷۶۲) ۔
اسی طرح زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر مروان کی مجلس میں یہ کہا کہ ہم ’الشیخ والشیخة إذا زنیا فارجموھما البتة‘ کی آیت پڑھا کرتے تھے۔ مروان نے کہا کہ کیا ہم اسے مصحف میں درج نہ کر لیں؟ زید نے کہا کہ نہیں، دیکھتے نہیں کہ جوان شادی شدہ مردو عورت بھی اگر زنا کریں تو انھیں رجم کیا جاتا ہے۔ پھر انھوں نے بتایا کہ یہی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں صحابہ کے مابین زیر بحث آئی تو سیدنا عمر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یارسول اللہ، مجھے رجم کی آیت لکھوا دیجیے، لیکن آپ نے فرمایا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا ( بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۰۔ نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۴۸)۔
اس کے برخلاف سیدنا علی سے یہ مروی ہے کہ وہ رجم کی سزا کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کے سامنے شراحہ ہمدانیہ کا مقدمہ پیش کیا گیا جو ایک شادی شدہ خاتون تھی اور بدکاری کی مرتکب ہوئی تھی تو انھوں نے جمعرات کے روز اسے سو کوڑے لگوائے اور پھر جمعہ کے روز اسے سنگ سار کر دیا۔ ان سے کہا گیا کہ آپ نے اس کو دو سزائیں کیوں دیں؟ تو سیدنا علی نے جواب میں فرمایا کہ:
جلدتھا بکتاب اللہ ورجمتھا بسنة رسول اللہ. (احمد، رقم ۱۲۸۵)
’’میں نے اس کو اللہ کی کتاب کے مطابق کوڑے لگوائے اور رسول اللہ کی سنت کے مطابق رجم کیا ہے۔‘‘
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ‘ کی آیت نازل کی ہے، جب کہ مرد وعورت اگر محصن ہوں تو ان کے لیے حکم یہ ہے کہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی رو سے رجم کر دیا جائے (طبری، جامع البیان ۴/ ۲۹۷۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۶۶۹۱)۔ تاہم ایک دوسری روایت میں ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ جو شخص رجم کا انکار کرتا ہے، وہ غیر شعوری طور پر قرآن کا انکار کرتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’يٰ٘اَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ‘ (اے اہل کتاب، تمھارے پاس ہمارا رسول آیا ہے جو تمھارے لیے تورات کی ان بہت سی باتوں کو ظاہر کرتا ہے جنھیں تم چھپاتے تھے) اور رجم کا حکم بھی انھی امور میں سے ہے جنھیں اہل کتاب چھپاتے تھے (نسائی، السنن الکبریٰ، رقم ۷۱۶۲)۔
گویا ابن عباس قرآن مجید میں واضح طور پر رجم کا حکم نازل ہونے کے قائل نہیں تھے اور اس کے بجاے اسے اشارتاً قرآن میں مذکور مانتے اور اس کا اصل ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو قرار دیتے تھے۔
یہ سوال بھی بعض حضرات کے ذہنوں میں پیدا ہوا کہ رجم کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل قرآن میں زنا کی سزا نازل ہونے سے پہلے کا تو نہیں چنانچہ ابواسحٰق شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا؟ انھوں نے کہا: ہاں، میں نے پوچھا کہ سورۂ نور کے نازل ہونے سے پہلے یا اس کے بعد؟ انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں (بخاری، رقم ۶۴۶۰)۔
۸۔ حلال اور حرام جانوروں کی تفصیل
قرآن مجید میں کھانے پینے کی اشیا میں صرف چار چیزیں حرام کی گئی ہیں، یعنی مردار، خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جانے والا جانور۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘ اِلَّا٘ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. (الانعام ۶: ۱۴۵)
’’کہہ دو کہ میری طرف جو وحی بھیجی گئی ہے، اس میں، میں کسی کھانے والے کے لیے کسی چیز کو حرام نہیں پاتا سواے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا جانے والا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ ناپاک ہے یا گناہ کا کام، یعنی ایسا جانور ہو جسے ذبح کرتے ہوئے اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ پھر جو مجبور ہو جائے، دراں حالیکہ نہ تو خواہش رکھنے والا ہو اور نہ حد سے تجاوز کرنے والا تو بے شک تیرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فہرست میں اضافہ کرتے ہوئے گھریلوگدھوں، چنگال والے پرندوں اور کچلی والے درندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے (بخاری، رقم ۵۵۲۷۔ مسلم، رقم ۱۹۳۴)۔
مذکورہ آیت میں حصر کے اسلوب کے تناظر میں ان کے علاوہ دوسرے جانوروں کی تحریم کا حکم بعض فقہاے صحابہ کے لیے باعث اشکال بنا اور اس ضمن میں ظاہر قرآن کو ترجیح دینے کا رجحان پیدا ہوا۔
عیسیٰ بن نمیلہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا۔ ان سے خارپشت (کانٹے دار جنگلی چوہے) کا گوشت کھانے کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا‘۔ مراد یہ تھی کہ اس کا گوشت کھانا حلال ہے۔ اس پر وہاں موجود ایک شخص نے انھیں بتایا کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خارپشت کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ناپاک جانوروں میں سے ایک جانور ہے۔ ابن عمر نے کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہے تو آپ ہی کی بات درست ہے (ابو داؤد، رقم ۳۷۸۱)۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ وہ درندوں کے گوشت کی حرمت کی قائل نہیں تھیں۔ قاسم کابیان ہے کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب ہر کچلی والے درندے اور ہر چنگال والے پرندے کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ یہ آیت پڑھتی تھیں: ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا‘ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۰۲۳۵۔ ابن حجر، المطالب العالیۃ، رقم ۳۶۸۷)۔
اس آیت کی روشنی میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا موقف بھی یہ تھا کہ قرآن مجید نے حصر کے ساتھ جن چار چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، ان کے علاوہ باقی سب چیزیں مباح ہیں:
قال: کان أھل الجاھلیة یأکلون أشیاءویترکون أشیاء تقذرًا فبعث اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم وأنزل کتابہ وأحل حلالہ وحرم حرامہ فما أحل فھو حلال وما حرم فھو حرام وما سکت عنہ فھو عفو وتلا:قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘ اِلَّا٘ آخر الآیة.( ابو داؤد، رقم ۳۷۸۲)
’’ابن عباس نے کہا کہ اہل جاہلیت بہت سی چیزیں کھاتے تھے اور بہت سی چیزوں سے گھن کھاتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ، اپنی کتاب نازل کی اور حلال اور حرام چیزوں کی وضاحت فرمائی۔ پس جن چیزوں کو اللہ نے حلال بتایا ہے، وہ حلال ہیں اور جن کو حرام کہا ہے، وہ حرام ہیں اور جن سے خاموشی اختیار کی ہے، ان پر کوئی مواخذہ نہیں (یعنی وہ مباح ہیں)۔ ابن عباس نے یہ آیت تلاوت کی:’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗ٘‘۔‘‘
اس بنیاد پر عبد اللہ ابن عباس گھریلو گدھے کے گوشت کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن زید سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جابر نے کہا کہ ہاں، حکم بن عمرو الغفاری ہمیں بصرہ میں یہی بتاتے تھے، لیکن ابن عباس جیسے بڑے عالم نے یہ بات تسلیم نہیں کی، اوریہ آیت پڑھی کہ:’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا‘ (بخاری، رقم ۵۵۲۹)۔ حدیث میں وارد ممانعت کے متعلق ابن عباس نے یہ خیا ل ظاہر کیا کہ گدھے چونکہ سواری اور باربرداری کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اس لیے ممکن ہے، آپ نے سواری کے لیے جانور کم پڑ جانے کے خدشے سے ان کے کھانے سے منع کیا ہو (بخاری، رقم ۴۲۲۷)۔گویا ابن عباس کی راے میں گدھے کے گوشت کی ممانعت فی نفسہٖ حرام او ر ناپاک ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایک دوسری معاشرتی ضرورت کے پیش نظر کی گئی۔
اس دوسرے پہلو سے گدھے، گھوڑے اور خچر وغیرہ کا گوشت نہ کھانے کے حق میں ابن عباس قرآن مجید کی ایک دوسری آیت سے استدلال کرتے تھے۔ چنانچہ ان سے منقول ہے کہ وہ گھوڑے، خچر اور گدھے کے گوشت کو ناپسند کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:’وَالْاَنْعَامَ خَلَقَهَا لَكُمْ فِيْهَا دِفْءٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ‘ (النحل ۱۶: ۵) (اللہ نے تمھارے لیے چوپایوں کو پیدا کیا ہے جن میں تمھارے لیے گرمایش حاصل کرنے کا سامان اور دوسرے فائدے ہیں اور ان میں سے کچھ جانوروں کا تم گوشت کھاتے ہو)۔ سو یہ جانور کھانے کے لیے ہیں۔ (اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:) ’وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ لِتَرْكَبُوْهَا‘ (النحل ۱۶: ۸) (اور گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو پیدا کیا ہے تاکہ تم ان پر سواری کرو)۔ سو یہ جانور سواری کے لیے ہیں (مصنف ابن ابی شیبہ ، رقم ۲۴۸۰۳، ۲۴۸۰۵)۔
بعض دیگر صحابہ سے بھی اس نوعیت کی توجیہات منقول ہیں۔ مثلاً ایک توجیہ یہ کی گئی کہ چونکہ یہ گدھے مال غنیمت کے تھے اور ان میں سے ابھی بیت المال کا حق، یعنی خمس نہیں نکالا گیا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گوشت کو کھانے سے منع فرما دیا۔ اسی طرح ایک راے یہ تھی کہ یہ گدھے گندگی کھاتے تھے، اس لیے آپ نے ان کے گوشت کوممنوع قرار دے دیا (بخاری، رقم ۴۲۲۰)۔
کچلی والے درندوں اور چنگال والے پرندوں کے گوشت کی ممانعت کی روایت عبد اللہ بن عباس نے بھی روایت کی ہے (مسلم، رقم ۳۵۷۴)۔ تاہمجب ان سے کوے اور چیل کے گوشت کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ اللہ نے حلال چیزوں کو حلال ٹھیرایاہے اور حرام کو حرام ، جب کہ کئی چیزوں سے سکوت اختیار فرمایا ہے۔ سو جن چیزوں سے اس نے سکوت کیا ہے، وہ اس کی طرف سے رخصت ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۰۲۳۹)۔
ابو مکین نے نقل کیا ہے کہ عکرمہ نے کہا کہ جو چیز تم پر قرآن میں حرام نہیں کی گئی، وہ تمھارے لیے حلال ہے (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۰۲۴۳)۔
[باقی]
_______
[1]۔ابن ابی شیبہ کی نقل کردہ بعض روایات میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہی بات منقول ہے، لیکن بظاہر وہ درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسح علی الخفین کی روایات خود ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی نقل کی ہیں (ابن ماجہ، رقم ۵۵۹)۔
[2]۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ سوال وجواب کی روایت طبری اور ابن ابی حاتم نے بھی متعدد سندوں سے نقل کی ہے (تفسیر الطبری، تفسیر ابن ابی حاتم)۔ ابن کثیر نے اس روایت کی مختلف سندوں کو ضعیف قرار دیا ہے (تفسیر ابن کثیر ۱۴/ ۳۹)، تاہم ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سندوں میں کلام ہے، لیکن کثرت طرق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ثابت ہے (فتح الباری ۲/ ۸۹۰)۔
[3]۔ ابن کثیر، ابن عبد البر سے نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نے حدیث سبیعہ سامنے آنے پر اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا (تفسیر ابن کثیر ۲ /۳۷۹۔ تفسیر القرطبی ۴/ ۱۲۷) ۔
[4]۔ فقہاے صحابہ میں سے خاص طور پر ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں یہ رجحان سب سے نمایاں ہے کہ وہ کسی بھی روایت کے قرآن مجید کے خلاف ہونے کو اس کے غلط ہونے کی دلیل سمجھتی تھیں اور اسے قبول نہیں کرتی تھیں۔ مثلاً انھوں نے فرمایا کہ ’’جو شخص تم سے یہ کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی میں سے کوئی بات چھپائی ہے تو اس کی بات نہ مانو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے پیغمبر، جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ (لوگوں تک) پہنچا دو، اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا‘‘ (بخاری، رقم ۷۱۳۳)۔ اسی طرح انھوں نے کہا کہ ’’جو شخص تمھیں یہ بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو وہ غلط کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں۔ اور جو تمھیں یہ بتائے کہ آپ غیب جانتے تھے تو وہ بھی غلط کہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ غیب صرف اللہ جانتا ہے‘‘ (بخاری، رقم ۶۹۸۶)۔ اسی طرح جب ان کے سامنے سیدنا عمر کی نقل کردہ یہ روایت بیان کی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرنے والے کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو ام المومنین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم کرے، بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مومن کو اس کے اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیتے ہیں۔ آپ نے تو کافر کے متعلق فرمایا کہ اس کے پس ماندگان کے رونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے عذاب میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ ام المومنین نے کہا کہ تمھیں قرآن کی یہ آیت کافی ہے کہ کوئی جان دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی (بخاری، رقم ۱۲۸۷، ۱۲۸۸)۔ انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی نقل کردہ اس روایت پر بھی تعجب ظاہر کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے موقع پر مشرکین کی لاشوں کو، جنھیں بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تھا، مخاطب کیا اور صحابہ کے، مردوں کو خطاب کرنے پر تعجب ظاہر کرنے پر فرمایا: ’’تم لوگ ان سے زیادہ سننے کی صلاحیت نہیں رکھتے، البتہ یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ ام المومنین نے مردوں کے سننے کی بات کو قرآن مجید کے منافی قرار دیا اور فرمایا: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا ہوگا کہ یہ لوگ اب جان گئے ہیں کہ میں ان سے جو کچھ کہتا تھا، وہ حق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: تم مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘ ( بخاری، رقم ۱۳۷۰، ۱۳۷۱)۔ ام المومنین، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ اس حدیث پر بھی سخت ناراض ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :’’نحوست عورت میں، سواری کے جانور میں اور گھر میں ہوتی ہے،‘‘ اور فرمایا کہ: ’’اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں فرماتے تھے ۔ آپ تو اہلِ جاہلیت کے بارے میں کہتے تھے کہ وہ یوں کہتے ہیں کہ نحوست عورت، گھر اور سواری میں ہوتی ہے۔ پھر ام المومنین نے قرآن کی یہ آیت پڑھی :’مَا٘ اَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْاَرْضِ وَلَا فِيْ٘ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ‘ (تمھیں زمین میں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے، وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے، اس سے پہلے کہ ہم اس کو وجود میں لائیں)‘‘(احمد، رقم ۲۵۵۵۷)۔
[5]۔ بعض اہل علم نے یہ راے ظاہر کی ہے کہ ابن عباس نے متعہ کے جواز کے حوالے سے اپنی اس راے سے رجوع کر لیا تھا (ابن الہمام، شرح فتح القدیر ۳/ ۲۳۹۔ ملا علی القاری، مرقاۃ المفاتیح ۶/ ۲۸۱)۔ اس ضمن میں محمد بن کعب کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے کہ ابن عباس نے کہا کہ متعہ کی اجازت ابتداے اسلام میں تھی، لیکن پھر بعد میں اسے حرام قرار دےدیا گیا (ترمذی، رقم ۱۱۲۲)۔ تاہم ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس روایت کی سند ضعیف ہے اور یہ معنًا بھی شاذ ہے (فتح الباری۹/ ۷۷)۔ چنانچہ ابن کثیراور ابن بطال وغیرہ نے اس دعوے کو قبول نہیں کیا اور ان کا کہنا ہے کہ ابن عباس آخر وقت اپنے اسی موقف پر قائم رہے (البدایہ والنہایہ ۶/ ۲۸۴۔ فتح الباری ۹/ ۷۸)۔ البتہ روایات میں اتنی بات نقل ہوئی ہے کہ جب ابن عباس کے اس فتوے سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا تو پھر وہ جواز کا فتویٰ دینے سے گریز کرنے لگے۔ چنانچہ سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے کہا کہ آپ کو اندازہ ہے کہ آپ نے کیسا فتویٰ دیا ہے؟ آپ کا فتویٰ مسافر قافلوں کی زبانوں پر ہے اور شاعر، اس کے متعلق شعر کہہ رہے ہیں۔ ابن عباس نے سنا تو کہا:
’’انا للہ وانا الیہ راجعون۔ بخدا، میں نے نہ اس کا فتویٰ دیا اور نہ میری یہ مراد ہے۔ میں تو اسے اسی (اضطرار کی) حالت میں جائز کہتا ہوں جس میں اللہ نے مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔‘‘(طبرانی، المعجم الکبیر، احادیث عبد اللہ بن عباس، رقم ۱۰۶۰۱)
____________