HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الحج ۲۲: ۱ – ۴ (۱)

البیان

الحج - المؤمنون


یہ دونوں سورتیں اپنے مضمون کے لحاظ سے توام ہیں۔ دونوں کا موضوع انذار و بشارت ہے جو پچھلی سورتوں سے چلا آرہا ہے۔ پہلی سورہ میں قریش مکہ کو،خاص کر حرم کی تولیت کے حوالے سے آخری انذار و تنبیہ اور دوسری میں اُن کے لیے اُسی انذار و تنبیہ کے نتائج کی وضاحت ہے جس میں ایمان والوں کی کامیابی کا مضمون بہت نمایاں ہو گیا ہے۔

دونوں سورتوں میں خطاب اصلاً قریش سے ہے اور اِن کے مضمون سے واضح ہے کہ ام القریٰ مکہ میں یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے مرحلۂ ہجرت و براء ت میں نازل ہوئی ہیں۔

سورۂ حج کی چند آیات، البتہ مدنی ہیں جو اُس اقدام کی وضاحت کے لیے سورہ کا حصہ بنا دی گئی ہیں جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد خدا کا فیصلہ قریش مکہ کے لیے ظاہر ہو جائے گا۔

ـــــــــــــــــــــــــ

سورۃ الحج

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ـــــــــ ۱ ـــــــــ
اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْئٌ عَظِیْمٌ {۱} یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَمَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَ لٰکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ{۲} 
لوگو،۱؎ اپنے پروردگار سے ڈرو۲؎۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا بھونچال بڑی ہی ہول ناک چیز ہے۔ تم جس دن اُس کو دیکھو گے ، ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حمل والی اپنا حمل ڈال دے گی، اور تم لوگوں کو مدہوش دیکھو گے، حالاں کہ وہ مدہوش نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا۳؎۔۱-۲
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍ {۳} کُتِبَ عَلَیْہِ اَنَّہٗ مَنْ تَوَلَّاہُ فَاَنَّہٗ یُضِلُّہٗ وَیَھْدِیْہِ اِلٰی عَذَابِ السَّعِیْرِ{۴} 
اِدھر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن میں ایسے (احمق) بھی ہیں۴؎ جو بغیر کسی علم کے۵؎ خدا کے بارے میں جھگڑتے ۶؎اور ہر سرکش شیطان۷؎ کی پیروی کرنے لگتے ہیں، جس کی نسبت لکھ دیا گیا ہے۸؎ کہ جو اُس کو دوست بنائے گا تو یوں ہے کہ اُس کو وہ گم راہ کردے گا اور اُس کو دوزخ کے عذاب میں پہنچائے گا۔۳-۴


۱؎ یہ لفظ اگرچہ عام ہے، لیکن اِس سے مراد وہی متمردین قریش ہیں جو قیامت کو جھٹلاتے اور عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے تھے۔

۲؎ یعنی اُس کے مقابلے میں سرکشی اختیار نہ کرو، اِس لیے کہ اُس کا عذاب پناہ مانگنے کی چیز ہے، وہ مطالبہ کرنے کی چیز نہیں ہے۔

۳؎ آیت میں مخاطبین کے لیے ایک جگہ جمع اور دوسری جگہ واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ہم دوسری جگہ وضاحت کر چکے ہیں کہ جمع کے لیے واحد کا صیغہ استعمال کیا جائے تو اُس میں مخاطبین کا ایک ایک شخص فرداً فرداً مراد ہوتا ہے اور کلام میں جمع کے بالمقابل زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔

۴؎ ’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ‘ کا یہ اسلوب تحسین اور تقبیح، دونوں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ یہ تقبیح کے لیے ہے۔ لفظ ’احمق‘ کے اضافے سے ہم نے اِسی کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

۵؎ یعنی عقل و فطرت، علم و استدلال اور کتاب الٰہی کی کسی شہادت کے بغیر ہی مناظرے اور مجادلے کے لیے آستینیں چڑھا لیتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ اِس طرح کے لوگ کسی معاشرے میں بھی تعداد میں بہت زیادہ نہیں ہوتے، بلکہ اِن کا ایک خاص طائفہ ہی ہوتا ہے۔ اِن کا علم بھی بس سنی سنائی اور رٹی رٹائی باتوں پر مبنی ہوتاہے۔ لیکن زبان درازی میں طاق اور لاف زنی میں مشاق ہوتے ہیں، اِس وجہ سے شاطر لوگوں کے ایجنٹ بن کر بے چارے سادہ لوح عوام کو گم راہ کرنے کی خدمت خوب انجام دیتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۵/ ۲۰۸)

۶؎ یہ اُس جھگڑے کا ذکر ہے جو وہ خدا کی توحید اور اُس کے حضور میںجواب دہی کے متعلق پیدا کیے ہوئے تھے۔ چنانچہ کسی طرح باور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے کہ قیامت برپا ہو گی اور بالفرض ہو گی تو اُنھیں تنہا خدا سے معاملہ پڑے گا اور اُن کے شرکا و شفعا وہاں اُن کے کام نہ آئیں گے۔

۷؎ یعنی خواہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

۸؎ یہ اُس مہلت کی طرف اشارہ ہے جو خدا نے شیطان کو دے رکھی ہے اور اِس طرح گویا اُس کے لیے طے کر دیا ہے کہ قیامت تک وہ یہی خدمت انجام دیتا رہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B