لفظ معنی کے اِبلاغ کاایک موثرذریعہ ہوتے ہیں۔مخاطَب کی طرف سے دیکھاجائے تویہ ابلاغ بہت کچھ اس بات پر منحصرہوتاہے کہ اُن کامرادی معنی کیاصحیح طورپرمتعین کرلیاگیاہے یانہیں؟معمول میں یہ کام انتہائی درجے کی سادگی سے انجام پاجاتاہے اوراس کے لیے کوئی مشقت اٹھانے کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔البتہ،بعض اوقات ایسا بھی ہوتاہے کہ اس میں کچھ نزاکتیں درآتی ہیں،۴ جن کااگر لحاظ نہ رکھا جائے تواس بات کااحتمال بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ ابلاغ کے عمل میں کوئی نقص یااصل مدعاہی سے قطعی انحراف واقع ہو جائے۔ قرآن بھی الفاظ سے تخلیق پانے والا ایک کلام ہے ،چنانچہ ضروری ہے کہ اس کاترجمہ کرتے ہوئے بھی اس طرح کی تمام باریکیوں کا خیال رکھاجائے اور اس کے الفاظ کامرادی معنی معلوم کرنے میں بہت زیادہ اہتمام سے کام لیاجائے۔ ہم اس نظر سے جب ’’البیان‘‘ کا مطالعہ کرتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ یہاں کچھ باتیں معنی کی تعیین کے اس کام میں اصل اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور کچھ باتیں وہ ہیں جو اطلاق کی حیثیت رکھتی ہیں،مگروہ اِس کام کے طریق کو بالکل واضح کردینے والی ہیں۔ اس اعتبارسے دیکھاجائے توہم انھیں اصل اصول اورمنہج وطریق کے دو الگ ناموں کے تحت بیان کرسکتے ہیں۔
اصولی حیثیت کی یہ باتیں قرآن کے ہرہرلفظ کے ترجمہ میں ملحوظ رکھی گئی ہیں اوریہ تعدادمیں چندایک ہیں، جیسا کہ معروف معنی،صحیح معنی اورقراء تِ عامہ۔
قرآن واقعہ میں اورخود اپنی شہادت کے مطابق بھی عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔۵ یہ حقیقت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اُس کے الفاظ کاترجمہ اُن کے معروف معنی کے لحاظ سے کیاجائے اوراس عمل میں کسی شاذمفہوم کو ہرگز راہ نہ دی جائے کہ ایساکرنااصل میں اس کلام کی فصاحت اوربلاغت کاانکارکردیناہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس بات کا التزام کیا گیا ہے کہ ہرلفظ سے وہی معنی مراد لیا جائے جو اہل زبان کے ہاں معروف اورعام طورپرجانا پہچانا ہو۔ اس اصول کی مثال میں اس آیت کودیکھ لیا جاسکتا ہے:
اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ. وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ.(الرحمن ۵۵: ۵۔ ۶)
’’سورج اورچاند ایک حساب سے گردش میں ہیں، اور تارے اوردرخت،سب سجدہ ریزہیں۔‘‘
’النَّجْم‘ سے مرادستارے ہیں۔یہاں اس سے بعض مترجمین نے بے تنے کے پودے اورجھاڑوغیرہ مرادلیے ہیں۔ خاص اس آیت میں معمول سے ہٹ کرمعنی لینے کی وجہ یہ ہوئی کہ اُن کے نزدیک ایک تو سورج اورچاندجیسی آسمانی نشانیوں کے بعد اب زمین کی نشانیوں کا ذکر ہے ،اس لیے یہاں ’النَّجْم‘ سے مرادزمین ہی کی کوئی چیز ہونی چاہیے۔ دوسرے یہ کہ اس کا ’الشَّجَر‘ کے ساتھ مذکورہونابھی اس بات کاتقاضاکرتا ہے کہ اس سے مرادزمین پر پائے جانے والے پودے ہی مرادلیے جائیں اور مزید یہ کہ ’النَّجْم‘ کاایک مطلب لغت کی کتابوں میں بے تنے کے پودے پایا بھی جاتاہے۔اس کے مقابل میں جن حضرات نے اس کاترجمہ ’’ستارے‘‘ کرنے پر اصرار کیا ہے، اُن کے نزدیک اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ قرآن میں الگ سے ستاروں کے سجدہ ریزہونے کا ذکر موجودہے اوراس پر مستزاد یہ کہ بعض علماے تفسیرکی بھی اس مقام پریہی راے ہے۔ ’’البیان‘‘ میں بھی اس کا ترجمہ ’’تارے‘‘ کیا گیا ہے، مگر اس کی وجہ کچھ اورنہیں،بلکہ وہی اصول ہے جس کے مطابق ہر لفظ کاصرف معروف معنی مرادلیاجائے گا اورہم جانتے ہیں کہ عربی زبان میںیہ معروف معنی ستاروں ہی کاہے۔باقی جہاں تک درختوں کے ساتھ ان کی مناسبت کامعاملہ ہے تو واضح رہے کہ اس طرح کی باتیں لفظ کی حقیقی مرادکوپالینے کے بعدہی زیربحث آنی چاہییں اور ’’البیان‘‘ میںیہ اسی ترتیب سے زیربحث آتی بھی ہیں۔
ذیل کی آیات بھی معروف معنی میں ترجمہ کرنے کی اچھی مثال ہیں اور ’’البیان‘‘ میں ان کا ترجمہ کرتے ہوئے ’اِبِل‘ سے اونٹ، ’بَیْض‘ سے انڈے اور ’انْحَرْ‘ سے مرادقربانی لی گئی ہے، نہ کہ بادل،انڈوں کی چھپی ہوئی جھلی اور سینے پر ہاتھ باندھناجیسے شاذمفاہیم:
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْ.(الغاشیہ ۸۸: ۱۷)
’’(یہ نہیں مانتے )توکیااونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ہیں؟‘‘
کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ.(الصافات ۳۷: ۴۹)
’’گویاکہ (شترمرغ کے)چھپے ہوئے انڈے ہیں۔‘‘
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ.(الکوثر ۱۰۸: ۲)
’’اس لیے تم(اس بیت عتیق میں اب) اپنے پروردگار کی نماز پڑھنا اور اُسی کے لیے قربانی کرنا۔‘‘
یہاں اس بات پربھی توجہ رہے کہ کسی لفظ کااہل زبان کے ہاں غیرمعروف ہونا،ایک چیزہے اوراس کاہماری تفسیر کی کتابوں میں غیر معروف ہوکررہ جانا،یہ بالکل دوسری چیزہے۔مثال کے طورپر:
وَالَّذِیْٓ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی. فَجَعَلَہٗ غُثَآءً اَحْوٰی.(الاعلیٰ ۸۷: ۴۔ ۵)
’’جس نے سبزہ نکالا، پھر اُسے گھنا سرسبز و شاداب بنا دیا۔‘‘
’غُثَآءً اَحْوٰی‘ کاترجمہ عام طورپرمترجمین ’’سیاہ کوڑا‘‘کے الفاظ میں کرتے ہیں اوراس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ مفسرین کے ہاں ایک تسلسل سے ان الفاظ کایہی معنی بیان کیا گیا، حتیٰ کہ خیال ہونے لگاکہ یہ اِن الفاظ کا معروف معنی ہے حالاں کہ ’غُثَآء‘ کی حدتک تو صحیح ہے کہ یہ گھنی گھاس کے لیے بھی آجاتاہے اورکوڑاکرکٹ اورخس و خاشاک کے لیے بھی، مگر ’اَحْوٰی‘ کالفظ ہرگزاُس سیاہی کے لیے نہیں آتا جوکسی شے کی بوسیدگی اورپامالی کی وجہ سے اس پرآجاتی ہے، بلکہ یہ اُس سیاہی مائل سرخی اورسبزی کے لیے معروف ہے جوکسی شے پر اُس کی شادابی اور تازگی کے سبب سے نمایاں ہواکرتی ہے۔چنانچہ ’اَحْوٰی‘ کے معروف معنی کاخیال رہے اورموصوف اورصفت کی باہمی مناسبت کابھی دھیان رہے تو ’غُثَآءً اَحْوٰی‘ کا ترجمہ اب سیاہ کوڑاکرکٹ کرنے کے بجاے گھنا اور سرسبز و شاداب ہی کرنا چاہیے ،جیساکہ ’’البیان‘‘ میں کیا گیا ہے: ’’پھر اُسے گھنااورسرسبزوشاداب بنا دیا۔‘‘
دوسری چیز جو ’’البیان‘‘ میں اصول کے طورپرہرآیت کے ترجمے میں کارفرمانظرآتی ہے،وہ غلط معنی سے اجتناب اور صحیح معنی پرمترجم کا اصرار کرنا ہے۔۶ معنی کو صحیح قراردینے کی ایک سے زائد بنیادیں ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طورپر، قرآن نے ہمیں بتایاہے کہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں اتارا گیا ہے ۷ اور ہم جانتے ہیں کہ آپ کی زبان وہی تھی جو اہل مکہ کے ہاں بولی اورسمجھی جاتی تھی۔ سو قرآن کے الفاظ کاصحیح مفہوم اب وہی ہوسکتاہے جس سے اہل مکہ اور بالخصوص قریش کے لوگ واقف ہوں،نہ کہ وہ مفہوم جس کے لیے ہمیں کسی دوسرے مقام اورقبیلے کی زبان سے استدلال لاناپڑے ۔ اور مزید یہ کہ وہ آپ کے زمانے میں سمجھا جانے والامفہوم ہو، نہ کہ وہ بعد میں اس لفظ کے اندر کسی زمانے میں تولدہوا ہو۔اسی طرح مثال کے طورپر،ہمارے لیے ضروری قراردیاگیاہے کہ ہم قرآن کی اتباع کریں، چنانچہ اس لحاظ سے بھی اب صحیح مفہوم وہی ہوسکتاہے جوقرآن کوموضوعی کے بجاے معروضی اندازمیں دیکھنے کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئے اور اس پریہ بھی لازم ہوگا کہ اس عمل میں ہرطرح کی تحقیق اورگہرے غوروخوض کوبھی بروے کارلایاجائے کہ اس کے بغیرممکن ہے کہ ہم کسی غلط معنی کو لفظ کی اصل مراد قرار دے بیٹھیں۔ چندآیتوں کاترجمہ پیش کیاجاتاہے جن سے یہ اصول بالکل واضح ہوکر ہمارے سامنے آجائے گا:
۱۔اہل مکہ کی زبان ہی اس معاملے میں صحیح اور غلط کا معیار ہے، اس کے لیے ذیل کی آیت کاترجمہ دیکھ لیا جا سکتا ہے:
قَالَ اَحَدُھُمَآ اِنِّیْٓ اَرٰنِیْٓ اَعْصِرُ خَمْرًا.(یوسف ۱۲: ۳۶)
’’اُن میں سے ایک نے(ایک دن)اُس سے کہا: میں خواب میں دیکھتاہوں کہ شراب نچوڑرہاہوں۔‘‘
سیدنایوسف کے ساتھ قیددوآدمیوں نے آپ سے اپنے خوابوں کی تعبیرپوچھی۔ایک نے کہا: میں خواب میں دیکھتا ہوں: ’اَعْصِرُ خَمْرًا‘ (میں خمر نچوڑرہاہوں)۔ یہ لفظ اہل مکہ کے ہاں شراب کے لیے عام استعمال ہوتاہے اور قرآن کے دوسرے مقامات میں بھی یہ اسی معنی میں آیا ہے، مگربعض لوگوں کے ہاں جب یہ اُلجھن پیداہوئی کہ حقیقت میں تو شراب کے بجاے انگورنچوڑے جاتے ہیں تو اُنھوں نے اِس کاحل یہ نکالاکہ ’خَمْر‘کاترجمہ یہ کہتے ہوئے انگورکردیاکہ اسے عُمان میں رہنے والے لوگ اسی معنی میں بولاکرتے ہیں۔اس کے برخلاف، ’’البیان‘‘ میں اس اصول کی رعایت سے کہ ترجمہ ہمیشہ اہل مکہ کی زبان کوسامنے رکھتے ہوئے کیاجائے گا،اسے انھی لفظوں میں ادا کیا گیا ہے کہ ’’شراب نچوڑرہاہوں۔‘‘باقی جہاں تک ’شراب‘ کے لفظ میں کسی الجھن کے پیداہونے کی بات ہے تو جان لینا چاہیے کہ اس معاملے میں زبان کے ایک معروف قاعدے سے صرف نظرہوگیاہے جسے ’تسمیۃ الشيء بما یؤول إلیہ‘ کہا جاتا ہے ، یعنی غایت اورنتیجے کے اعتبارسے کسی لفظ کااستعمال کرنا۔ انگور نچوڑنے کی غایت اگر شراب بناناہے تواسے یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ میں شراب نچوڑ رہا ہوں۔یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی موجودہے ، جیسا کہ مثال کے طورپرہم کہیں: ’’مزدورکنواں کھودرہے ہیں۔‘‘ حالاں کہ وہ زمین کھود رہے ہوتے ہیں کہ جس کا مقصد کنواں بناناہوتاہے۔’’درزی دلہاکاسوٹ سی رہاہے۔‘‘حالاں کہ وہ کپڑے کے پارچے سی رہاہوتاہے کہ جس کا مقصد سوٹ تیارکرناہوتاہے۔اسی طرح ہم کہتے ہیں:’’چکی آٹاپیس رہی ہے ۔ ‘‘ حالاں کہ وہ گندم پیس رہی ہوتی ہے کہ جس سے مقصود آٹا حاصل کرناہوتا ہے ۔
۲۔اس معاملے میں قریش کی زبان ہی اصل قرارپائے گی، اس کے لیے ’’البیان‘‘ میں کیا گیا اس آیت کا ترجمہ دیکھ لیاجاسکتاہے:
وَنَادٰی نُوْحُ نِ ابْنَہٗ.(ہود ۱۱: ۴۲)
’’اورنوح نے اپنے بیٹے کوآوازدی۔‘‘
بعض حضرات نے ایک خودساختہ اعتراض سے بچنے کی غرض سے یہاں ’ابْنَہٗ‘ کا ترجمہ ’ابن امرأتہ‘ کیا ہے، یعنی نوح نے اپنی بیوی کے بیٹے کوآوازدی اوراس کی دلیل میں کہاہے کہ قبیلہ طیء کے لوگ ’ابْنَہٗ‘ سے یہی معنی مراد لیتے ہیں، حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہ قبیلہ طیء سے تعلق رکھتے تھے اورنہ قرآن ہی اُس قبیلے کی زبان میں اتاراگیاتھا۔
۳۔لفظ کے اُسی مفہوم کوترجمہ میں لکھاجائے گاجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس سے سمجھا جاتا رہا ہو نہ کہ اُسے جو بعدمیں کہیں جاکراس کے اندرمتولد ہواہو، اس کے لیے ذیل کی آیت کاترجمہ غورطلب ہے:
وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ.(آل عمران ۳: ۷)
’’دراں حالیکہ ان کی حقیقت اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا۔‘‘
فرمایاہے کہ قرآن میں محکمات اورمتشابہات، دونوں طرح کی آیات ہیں۔جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ متشابہات کے درپے ہوتے ہیں اورمقصدیہ ہوتاہے کہ فتنہ پیداکریں اوراس کی حقیقت کوجان لیں ،دراں حالیکہ اُن کی حقیقت اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا۔ قرآن کے زمانۂ نزول میں لفظ ’تَاْوِیْل‘ کااصل معنی کسی چیز کی حقیقت کوجان لینا تھا اور اس پرقرآن کے دیگر کئی مقامات بھی شاہد ہیں، چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ یہی لکھاگیاہے اور اُن آرا سے ہرگزکوئی اعتنانہیں برتاگیاجواس کامعنی ’’مطلب‘‘ ،’’مراد‘‘ اور ’’تفسیر‘‘ کرتے ہیں کہ یہ اس لفظ کے سراسرمتولد مفاہیم ہیں۔۸
۴۔اسی طرح یہ بھی’’ صحیح معنی‘‘کے اصول پراصرارہی ہے کہ ’’البیان‘‘ میں موضوعی کے بجاے معروضی انداز اپنایا گیا ہے۔ سادہ لفظوں میں بیان کیا جائے تو موضوعی انداز اصل میں خارج کی بات کوقرآن میں داخل کردیناہے اور معروضی انداز سے مراد، قرآن کواس کی اپنی صورت میں ،جیسا کہ وہ ہے،دیکھنے کاالتزام کرناہے۔اس بات کوسمجھنے کے لیے ایک مثال کافی ہوسکتی ہے:
اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ.(آل عمران ۳: ۵۵)
’’اُس وقت جب اللہ نے کہا:اے عیسیٰ،میں نے فیصلہ کیاہے کہ تجھے وفات دوں گااوراپنی طرف اُٹھا لوں گا۔‘‘
خارج کے تناظرمیں دیکھنے کے بجاے اگر ’توفی‘ کے لفظ پربراہ راست غورکیاجائے تواس کاصحیح ترجمہ وہی بنتا ہے جو ’’البیان‘‘ میں اختیارکیاگیاہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں یہ لفظ اپنے مجازی معنی ،یعنی وفات کے لیے اس قدر معروف ہوگیاہے کہ اسے حقیقی معنی میں لینے کے لیے اب کسی قرینہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کی بعینہٖ مثال ہماری زبان میں لفظِ انتقال کی ہے ۔اس کے متعلق بھی ہم جانتے ہیں کہ یہ اپنے حقیقی معنی،یعنی منتقل ہونے کے بجاے اب اپنے مجازی معنی،یعنی وفات پاجانے میں زیادہ معروف ہوگیاہے۔
یہاں ایک اورمثال کااضافہ کیاجاسکتاہے ۔اس سے معلوم ہوگاکہ ’’البیان‘‘ میں معروضی اندازپراس قدر اصرار پایا جاتا ہے کہ لفظ تو لفظ، حرف کاترجمہ کرتے ہوئے بھی اس پرکسی درجے میں کوئی سمجھوتا نہیں ہوتا۔ مثلاً ذیل کی آیت میں حرف ’لَا‘ کاترجمہ:
لِئَلاَّ یَعْلَمَ اَھْلُ الْکِتٰبِ اَلَّا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْءٍ مِّنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰہِ.(الحدید ۵۷: ۲۹)
’’تاکہ یہ اہل کتاب نہ جانیں کہ اللہ کے فضل پراُن کاکوئی اجارہ نہیں ہے اوریہ کہ اللہ کافضل اُس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے۔‘‘
عام طورپرمترجمین نے ’لِئَلَّا‘ کے ’لَا‘ کو زائد قرارد ے کراس کاترجمہ نہیں کیاکہ اُن کی دانست میں یہاں اس کا ترجمہ کرناایک طرح کے ابہام اورالجھاؤکوپیداکردیناہے۔ ’’البیان‘‘ میں اس طرح کے ہراندیشے سے قطع نظر ،حرف ’لَا‘ کا ترجمہ ’’نہیں‘‘ کے لفظ میں کیا گیا ہے کہ یہی اس کاصحیح معنی ہے اوراسے زائدقرا ر دینا اصل میں نفی کواثبات میں بدل دینااوراس طرح غلط معنی کواختیارکر لینا ہے۔ باقی جہاں تک کسی اِبہام کاتعلق ہے تو’’نہیں‘‘کے اس ترجمے کے بعد بھی یہاں اصل بات بالکل واضح ہے ۔ یہ اہل کتاب سے بے زاری کا جملہ ہے ۔اس کامطلب ہے کہ یہ لوگ اسی بات کے سزاوارہیں کہ حقیقت حال سے کبھی واقف نہ ہوں اوریونہی اپنے آپ کواللہ کے انعامات کاتنہا حق دار سمجھتے رہیں اورنتیجے کے طورپر اُس کے انعامات سے یک سرمحروم ہوکررہ جائیں۔
۵۔اس سارے عمل میں عمیق غوروفکراورہرطرح کی تحقیق کوبروے کارلانابھی لازم ہے ،اس کے لیے ذیل کی آیت کے ترجمہ میں اچھی دلیل موجودہے:
اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا.(التحریم ۶۶: ۴)
’’اگر تم دونوں اللہ کی طرف رجوع کرو تو یہی تمھارے لیے زیباہے،تمھارے دل تواِس کے لیے مائل ہی ہیں۔‘‘
یہاں ’صغو‘ کا لفظ آیاہے، جس کا معنی ہے: مائل ہونااورجھک جانا۔عام طورپرمترجمین نے اس میلان سے حق بات سے دورہو جانا مرادلیاہے۔اُن کے نزدیک آیت کامطلب یہ ہے کہ اے نبی کی بیبیو،اگرتم توبہ کروتوتمھیں یہی کرنا چاہیے ، اس لیے کہ تمھارے دل تک کج ہوچکے ہیں۔اس کے برخلاف، ’’البیان‘‘ میں اس ’صغو‘ کا ترجمہ تو مائل ہونا ہی کیاگیا ہے،مگراس میں پائے جانے والے باریک فرق کالحاظ رکھتے ہوئے اس سے کسی شے سے انحراف کرنا نہیں، بلکہ اُس کی طرف جھکنااورمائل ہوجانامرادلیاگیاہے، اس لیے کہ عربی زبان میںیہ اسی معنی میں آتا ہے۔ ۹
قرآن کے زمانۂ نزول میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیاگیاتھا کہ اس وقت جوقراء ت کی جارہی ہے ، جمع و تدوین ہو جانے کے بعد اس کی جگہ ایک اور قراء ت جسے ’’عرضۂ اخیرہ ‘‘کی قراء ت کہتے ہیں،دی جائے گی۔اوریہ بھی فرما دیا گیا کہ آپ کوبہرصورت اُسی کی پیروی کرنی ہے۔۱۰ اور ہم جانتے ہیں کہ یہی قراء ت ہے جسے بعد میں ’’قراء ت عامہ‘‘ کہاگیااور جسے امت کااجماع اورقولی تواتر بھی حاصل ہوا۔ ’’البیان‘‘ میں قرآن کے اس حکم کی وجہ سے یہ بھرپورالتزام کیاگیاہے کہ ہرلفظ کاترجمہ قراء ت عامہ ہی کی روشنی میں کیا جائے، جیسا کہ مثال کے طور پریہ آیت:
وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ.(الاعراف ۷: ۴۰)
’’اوروہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے، جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزرجائے۔‘‘
حق کے مقابلے میں استکبارکرنے والوں کے متعلق بیان ہواہے کہ وہ ہرگز جنت میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ اس کے بعد فرمایا ہے: ’حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ‘ (یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر جائے)۔ عربی زبان میں ’الجَمَل‘ سے اونٹ مراد لیا جاتاہے،مگربعض حضرات جب سوئی کے ناکے اوراونٹ کے درمیان میں پائی جانے والی مناسبت کوسمجھ لینے سے قاصر رہے تو اُنھوں نے اسے ’الجُمَّل‘ پڑھااوراس سے ’’موٹا رسا‘‘ مراد لے لیا۔ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ بہرصورت اونٹ ہی کیاجاناتھاکہ یہاں مترجم کے نزدیک قراء ت عامہ ہی اصل قرآن ہے اوراس کوبدلناگویاقرآن کوبدل دیناہے ۔رہا سوئی کے ناکے کے ساتھ اس کی مناسبت کاسوال تواصل میں تعلیق بالمحال کے اسلوب کاتقاضاہے کہ سوئی کے ناکے جیسی چھوٹی چیزکے مقابلے میںیہاں ایک بڑی چیزکابیان کیا جائے جو کسی بھی صورت اس میں سے نہ گزرسکے۔اب عربوں کی معاشرت اوراُن کے مزاج کی رعایت رہے تو اتنی بڑی اورگزر جانے والی یہ چیزآخراونٹ کے سوااورکیاہوسکتی ہے؟۱۱
ذیل کی آیت بھی قراء ت عامہ کے مطابق ترجمہ کرنے کی ایک اچھی مثال ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ.(آل عمران ۳: ۱۶۴)
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تومسلمانوں پر بڑا احسان فرمایاہے کہ اُن کے اندرخوداُنھی میں سے ایک رسول اٹھایا ہے۔‘‘
یہاں ’مِنْ اَنْفُسِہِمْ‘ کالفظ آیاہے۔اس کامطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ خوداُنھی میں سے‘‘، یعنی مسلمانوں میں سے ہیں۔ بعض حضرات نے ایک اعتراض سے بچنے کے لیے جوحقیقت میں کوئی اعتراض نہیں ہے، اسے ’اَنْفَسِہِمْ‘ پڑھا ہے، یعنی وہ اُن کے شریف اورعمدہ لوگوں میں سے ہیں۔ ’’البیان‘‘ کے اصول کاتقاضا ہے کہ اس لفظ کاترجمہ بہرحال قراء ت عامہ کے مطابق کیاجائے اور وہ یہی بنتاہے کہ رسول اللہ ’’خوداُنھی میں سے‘‘ ہیں۔ اس ترجمہ کے بعداب اس کامطلب بھی آسانی سے سمجھ لیا جاسکتا ہے۔یہاں مسلمانوں پر جس احسان کا ذکر ہو رہا ہے، وہ اصل میں اپنی کامل صورت میں اُسی وقت سامنے آتاہے جب یہ کہا جائے کہ اللہ کے رسول اُن کے لیے کوئی اجنبی آدمی نہیں ہیں کہ اسلام کی دعوت میں کسی ابہام کے رہ جانے اورا س طرح اُن کے نامرادہوجانے کاکوئی امکان ہو، بلکہ وہ اُنھی میں سے ہیں،یعنی ملائکہ اورجنوں میں سے ہونے کے بجاے اُنھی کی طرح کے ایک انسان ہیں، انھی کی معاشرت میں جینے والے اورمزیدیہ کہ اُنھی کی زبان میں اُن سے کلام کرنے والے ہیں ۔
بعض باتیں اصولی حیثیت نہیں رکھتیں اورہرمقام پرالگ سے اپنائی گئی ہیں،مگر اس لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں کہ وہ معنی کی تعیین کے طریقۂ کارکوبالکل واضح کردینے والی ہیں،جیساکہ لفظ کی ساخت،لفظ کے عوارض، دیگر الفاظ، سیاق وسباق اورعرف ونظائر۔
عربی زبان میں لفظ کی کنسٹرکشن معنی ومفہوم پراچھاخاصااثررکھتی ہے۔تراجم میں بالعموم اس کی رعایت کی جاتی ہے، مگر اس سے بعض معانی ایسے بھی پیداہوتے ہیں جو بسا اوقات نظر انداز ہو کر رہ جاتے ہیں۔اس بات کی وضاحت ایک سے زائد عنوانات کے تحت کی جاسکتی ہے،مثلاً:
یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ م. بَیْضَآءَ لَذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ.(الصافات ۳۷: ۴۵۔ ۴۶)
’’اُن کے لیے شراب ناب کے جام گردش میں ہوں گے۔ بالکل صاف شفاف،پینے والوں کے لیے لذت ہی لذت۔‘‘
یہ اہل جنت کودی جانے والی نعمتوں کابیان ہے کہ اُنھیں شراب خالص کے جام دیے جارہے ہوں گے۔ وہ دیکھنے میں صاف شفاف اورپینے والوں کے لیے ’لَذَّۃ‘ ہوں گے۔یہاں ’لَذَّۃ‘ اصل میں مصدرہے اور صفت کے مفہوم میں آیاہے اورہم جانتے ہیں کہ جب مصدر صفت کے مفہوم میں استعمال ہوتواُس میں ایک طرح کامبالغہ پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس لفظ کا ترجمہ صرف ’’لذت‘‘ یا ’’لذیذ‘‘ کرنے کے بجاے ’’لذت ہی لذت ‘‘کیاگیاہے۔
قرآن میں اس کی اوربھی کئی مثالیں موجودہیں،جیساکہ یہ آیت:
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھِیْمُ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖٓ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۲۶)
’’یادکریں جب ابراہیم نے اپنے باپ سے اوراپنی قوم کے لوگوں سے کہاتھاکہ جنھیں تم پوجتے ہو،میں اُن سے بالکل بری ہوں۔‘‘
یہاں بھی مصدر ’بَرَآء‘ صفت کے مفہوم میں آیاہے اور ’’البیان‘‘ میں اس سے پیداہوجانے والے مبالغے کو ’’بری ہوں‘‘ کے ساتھ’’بالکل ‘‘کالفظ لاکراداکیاگیاہے۔
بعض اوقات مصدرترجمے میں تاکیدکامعنی بھی پیداکردیتاہے،جیساکہ اس آیت میں:
کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)
’’ہم نے جس طرح پہلی خلقت کی ابتداکی تھی، اُسی طرح ہم اُس کااعادہ کریں گے۔یہ ہمارے ذمے ایک حتمی وعدہ ہے،ہم اس کو ضرورکرکے رہیں گے۔‘‘
اس آیت کاترجمہ کرتے ہوئے عام طورپرمترجمین سے ’وَعْدًا‘ کا مصدر موکّد ہونا نظر انداز ہو گیا ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اس کی پوری رعایت کی گئی ہے اورترجمے میں اس کے لیے’’ حتمی‘‘ کالفظ لایاگیاہے۔
ترجمے میں مصدر کی طرح اس کے مشتقات کامعاملہ بھی بڑاغورطلب ہوتاہے۔جیساکہ مثال کے طورپراسم فاعل کا:
اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْھَا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ.(المومن ۴۰: ۵۹)
’’یہ بالکل قطعی ہے کہ قیامت آکے رہے گی،اِس میں کوئی شک نہیں،مگراکثرلوگ مان نہیں رہے ہیں۔‘‘
یہاں قیامت کے بارے میں فرمایا ہے: ’لَاٰتِیَۃٌ‘۔یہ اسم فاعل ہے اورہم جانتے ہیں کہ قدیم عربی زبان میں فاعل کا وزن فعل میں زورلانے اور قطعیت کوظاہرکرنے کے لیے بھی لایاجاتا ہے۔بالعموم اردوکے مترجمین اس سے زیادہ واقف نہیں ہیں،مگر ’’البیان‘‘ کے مذکورہ ترجمے میں اسے بیان کرنے کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔
یہ فاعل جس طرح اللہ کی طرف سے کیے گئے وعدے کی قطعیت کے لیے آیاہے،اسی طرح بعض اوقات یہ اُس کے عزم جازم اور حتمی فیصلے کے لیے بھی آجاتاہے۔ اس کے لیے ذیل کی آیتوں کودیکھ لیاجاسکتاہے جن میں ’جٰعِلُوْن‘ اور ’فٰعِلِیْن‘ کے الفاظ میں پائے جانے والے اس مفہوم کواردومیں مختلف طریقوں سے اداکیاگیاہے:
وَاِنَّا لَجٰعِلُوْنَ مَا عَلَیْھَا صَعِیْدًا جُرُزًا.(الکہف ۱۸: ۸)
’’ہم اُن سب چیزوں کوجوزمین پرہیں(ایک دن بالکل نابودکرکے اُس کو)ایک چٹیل میدان بنادینے والے ہیں۔‘‘
کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۱۰۴)
’’ہم نے جس طرح پہلی خلقت کی ابتداکی تھی، اُسی طرح ہم اُس کااعادہ کریں گے۔یہ ہمارے ذمے ایک حتمی وعدہ ہے،ہم اس کو ضرورکرکے رہیں گے۔‘‘
ذیل کی آیت میں ’کُنَّا مُرْسِلِیْنَ‘ بھی فاعل کے وزن سے بنا ہوا ’کُنَّا فٰعِلِیْنَ‘ کی طرح کا اسلوب ہے جو خدا کے حتمی فیصلہ کوبیان کرنے کے لیے لایاگیاہے:
وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَھْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَلٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ.(القصص ۲۸: ۴۵)
’’تم مدین والوں کے درمیان بھی موجودنہ تھے،اُن کوہماری آیتیں سناتے ہوئے،لیکن ہم فیصلہ کرچکے تھے کہ تمھیں رسول بنائیں۔ ‘‘
فاعل کی طرح مفعول کے وزن کا بھی یہی معاملہ ہے، یہ بھی اپنے اندرایک طرح کی تاکیداورقطعیت رکھتا ہے۔ دیگر ترجموں کے برعکس، ’’البیان‘‘ میں اس کی بھی پوری پوری رعایت رکھی گئی ہے،جیساکہ ذیل کی آیت میں ’مَفْعُوْلًا‘ کا ترجمہ محض ہوجانے والی بات نہیں کیا، بلکہ اس میں پائی جانے والی حددرجہ قطعیت کوبھی بیان کیاہے:
وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًا.(النساء ۴: ۴۷)
’’اور(یادرکھوکہ)خداکی بات ہوکررہتی ہے۔‘‘
اسم تفضیل عام طورپردوسروں کے مقابلے میں مصدری معنی کی زیادتی کوبیان کرنے کے لیے آتاہے،لیکن یہ بعض اوقات ہرطرح کے تقابل سے مجردہوکربھی آجایاکرتاہے:
وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗ وَھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ.(سبا ۳۴: ۳۹)
’’اُس کی راہ میں جوچیزبھی تم خرچ کروگے،وہ اُس کاصلہ دے گااوروہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘
دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ‘ کا ترجمہ ’’سب سے بہتررزق دینے والا‘‘کرنے کے بجاے’’ بہترین رزق دینے والا‘‘ کیا گیا ہے،اوراس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں اسم تفضیل، یعنی ’خَیْر‘ کالفظ کسی طرح کی ترجیح کے مفہوم میں نہیں،بلکہ محض بیان صفت کے لیے آگیاہے۔
اسم صفت بھی بعض مقامات پرکچھ خاص معنی اداکرتاہے:
ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّا قَلِیْلاً مِّنْکُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ.(البقرہ ۲: ۸۳)
’’پھرتم میں سے تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب (اُس سے) پھر گئے اورحقیقت یہ ہے کہ تم پھر جانے والے لوگ ہی ہو۔‘‘
یہاں فعل ’تَوَلَّیْتُمْ‘ کے بعد ’مُعْرِضُوْنَ‘ کی صفت آئی ہے۔فعل کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ یہ اپنے اندر ایک طرح کا حدوث رکھتاہے ، مگراس کے مقابلے میں صفت کے اندرکسی چیزکے مستقل وصف اورخصلت ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں ’تَوَلَّیْتُمْ‘ کاترجمہ ’’پھرگئے‘‘ کیا گیاہے جومحض وقوع پذیرہونے والے ایک فعل کا بیان ہے، مگر ’مُعْرِضُوْنَ‘ کا ترجمہ’’تم پھرجانے والے لوگ ہی ہو‘‘کیا گیا ہے جواُن لوگوں کے کردارکے ایک مستقل پہلو کوبیان کررہاہے۔
صیغوں کے بدل جانے سے بھی لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں۔عام طورپرتثنیہ کاصیغہ دواورجمع کا صیغہ تین اور اس سے زائد افراد کے لیے لایاجاتاہے،مگرہم جانتے ہیں کہ بعض اوقات ان صیغوں سے کچھ اورمعانی کااِبلاغ بھی پیش نظرہوتاہے:
رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَیْنِ.(الرحمٰن ۵۵: ۱۷)
’’وہی مشرق کارب ہے،اُس کے دونوں کناروں تک، اور وہی مغرب کا رب ہے، اُس کے دونوں کناروں تک۔‘‘
اس آیت میں ’الْمَشْرِقَیْن‘ اور ’الْمَغْرِبَیْن‘ تثنیہ کی صورت میں آئے ہیں۔مترجمین نے ان کاترجمہ ’دو مشرق‘ اور ’دو مغرب‘ کے الفاظ میں کیاہے اوراس سے بالعموم گرمی اورسردی کے مشرق مرادلیے ہیں۔دراں حالیکہ عربی زبان میں تثنیہ کسی چیزکے دونوں کناروں کو بیان کرنے کے لیے بھی آتاہے۔اوریہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ کرتے ہوئے ’’اُس کے دونوں کناروں تک‘‘کی وضاحت کردی گئی ہے۔
ذیل کی آیت بھی اس کی ایک اچھی مثال ہے جس میں ’صَدَفَیْن‘ کے تثنیہ سے اصل میں پہاڑوں کے درمیان خلا کے دونوں کناروں کو بیان کرنامقصودہے:
حَتّٰٓی اِذَا سَاوٰی بَیْنَ الصَّدَفَیْنِ قَالَ انْفُخُوْا.(الکہف ۱۸: ۹۶)
’’یہاں تک کہ جب اُس نے دونوں پہاڑوں کے درمیان خلاکوپاٹ دیاتوکہاکہ دھونکو۔‘‘
جمع کاصیغہ بھی بعض اوقات جمع کے بجاے وسعتِ اطراف کوبیان کرنے کے لیے آجاتاہے:
فَلَآ اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشٰرِقِ وَالْمَغٰرِبِ.(المعارج ۷۰: ۴۰)
’’سو نہیں، میں قسم کھاتا ہوں اُس کی جو مشرق و مغرب کی تمام وسعتوں کامالک ہے۔‘‘
اس آیت میں ’الْمَشٰرِق‘ اور ’الْمَغٰرِب‘ جمع کے صیغے ہیں۔ ان کاترجمہ اکثرمترجمین نے ’’مشرقوں‘‘ اور ’’مغربوں‘‘ کے الفاظ میں کیا ہے اوراس سے سورج کے مختلف مطالع اورمغارب کومراد لیا ہے۔ ’’البیان‘‘ میں جمع کے اس خاص پہلوکالحاظ کرتے ہوئے کہ یہ بعض اوقات کسی شے کے اطراف کی وسعت کوبیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے، اس کاترجمہ یوں کیاگیا ہے:’’جومشرق ومغرب کی تمام وسعتوں کامالک ہے۔‘‘
قرآن میں جمع کاصیغہ اس کے علاوہ بھی کئی مفاہیم کے پیش نظراستعمال کیاجاتاہے:
فَلَا تَذْھَبْ نَفْسُکَ عَلَیْھِمْ حَسَرٰتٍ.(فاطر ۳۵: ۸)
’’سواِن پرافسوس کرکرکے تم اپنے کوہلکان نہ کرو۔‘‘
یہاں ’حَسَرٰت‘ کے لفظ کی جمع اصل میں اُن لوگوں پرکیے جانے والے غم اورافسوس کی شدت کوبیان کرنے کے لیے ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ کرتے ہوئے ’’افسوس کرکرکے‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں اور ان میں ’’کر‘‘ کی تکراردرحقیقت افسوس کی اسی شدت کوظاہرکرنے کی ایک کوشش ہے۔
بعض اوقات جمع کاصیغہ کسی شے کے وجودکوبیان کرنے کے لیے بھی آجایاکرتاہے:
فَاِنْ کَانَ لَہٓٗ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ.(النساء ۴: ۱۱)
’’لیکن اُس کے بھائی بہن ہوں توماں کے لیے وہی چھٹاحصہ ہے(اورباپ کے لیے بھی وہی چھٹا حصہ)۔ یہ حصے اُس وقت دیے جائیں، جب وصیت جو اُس نے کی ہو،وہ پوری کردی جائے اور قرض، (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے۔‘‘
اس آیت میں ’اِخْوَۃ‘ جمع کاصیغہ ہے،چنانچہ مترجمین نے اس کاترجمہ کرتے ہوئے ’’کئی بھائی‘‘ یا’’ایک سے زیادہ بھائی یابہن‘‘وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے محض ’’بھائی بہن‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ’اِخْوَۃ‘ جمع کی صورت میں ہونے کے باوجود بیان عدد یابیان نوع کے لیے نہیں، بلکہ محض بیان وجودکے لیے آیا ہے۔جمع کایہ استعمال ہماری زبان میں بھی پایاجاتا ہے۔جیساکہ ہم کسی دوست کو گاڑی میں جاتے دیکھیں اوروقت ملاقات اُس سے کہیں: ’’بڑے مزے ہورہے ہیں،جناب گاڑیوں میں پھرتے ہیں۔‘‘ یہاں ’گاڑیوں‘ کالفظ جمع کی صورت میں آیاہے ،مگراس سے ہماری مرادنہ گاڑیوں کی تعداد بتانا ہے اورنہ اُن کی کسی مخصوص قسم کا تذکرہ کرنا۔
ماضی اورمضارع کے صیغے بھی عمومی معنی کے ساتھ ساتھ کچھ مزید معانی کااِبلاغ کرتے ہیں:
اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ.(الکوثر ۱۰۸: ۱)
’’ہم نے یہ خیرکثیرتمھیں عطاکردیاہے،(اے پیغمبر)۔‘‘
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’الْکَوْثَر‘ دیے جانے کی خوش خبری سنائی جارہی ہے،مگراس کے لیے ماضی کا صیغہ لایاگیا ہے۔گویا یہ مستقبل میں ہونے والا واقعہ خداکے ہاں اس قدرحتمی ہے کہ سمجھ لیاجائے کہ یہ ابھی سے واقع میں آچکا۔ ’’البیان‘‘ میں دیگرمترجمین کی طرح ’اَعْطَیْنَا‘ کا ترجمہ فعل ماضی میں کیاگیاہے،مگراس کے بعدوالے جملوں میں ’’تم اپنے پروردگارکی نمازپڑھواوراُسی کے لیے قربانی کرو‘‘کہنے کے بجاے’’تم اپنے پروردگارکی نماز پڑھنا‘‘ اور ’’اُسی کی قربانی کرنا‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں اوراسلوب کی اس تبدیلی سے پیش نظر یہی ہے کہ ’اَعْطَیْنَا‘ کا فعل ماضی وعدے کی قطعیت کوتوضروربیان کرے،مگراگلے جملوں میں ’’کرنا‘‘یہ بھی بتادے کہ بہرکیف یہ مستقبل میں پوری ہونے والی ایک بشارت ہی ہے۔
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ ذٰلِکَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ.(ق ۵۰: ۲۰)
’’اور (وہ دیکھو) صور پھونکا گیا۔ یہ وہی دن ہے جس کی وعیدہم نے تمھیں سنائی تھی۔‘‘
یہاں بھی قیامت کے احوال کاماضی کے صیغے میں ذکرکیاگیاہے۔اس سے مقصودایک بات تووہی ہے کہ خداکے وعدوں کی قطعیت کوبیان کیا جائے ،مگراس سے مقصوددوسری بات یہ ہے کہ اُن احوال کوقاری کی آنکھوں کے سامنے مصوربھی کر دیا جائے۔ ’’البیان‘‘ میں ’نُفِخَ‘ کاترجمہ کرتے ہوئے اس دوسری بات کی بھی رعایت کی گئی ہے اوراس غرض سے’’وہ دیکھو‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں۔
ماضی کی طرح مضارع بھی بعض اوقات کچھ خاص معنی اداکرتاہے،جیساکہ اس آیت میںیہ استمرارکابیان کر رہا ہے:
وَاٰتٰہُ اللّٰہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ.(البقرہ ۲: ۲۵۱)
’’اوراللہ نے اُسے بادشاہی دی اورحکمت عطا فرمائی اوراُسے اُس علم میں سکھایا جو اللہ چاہتا ہے (کہ اپنے اِس طرح کے بندوں کو سکھائے)۔‘‘
یہاں ’عَلَّمَہٗ‘ کے فعل ماضی کے بعدہوناتویہ چاہیے تھا کہ ’مِمَّا شَآء‘ ہوتا، مگر دیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس کے بجاے مضارع، یعنی ’مِمَّا یَشَآءُ‘ لایا گیاہے۔دراصل، اللہ نے نہیں چاہاکہ علم کی اس نعمت کابیان حضرت داؤدسے مخصوص ہو کر رہ جائے،بلکہ اُس نے چاہا ہے کہ وہ اسے اپنی ایک مستقل سنت کی حیثیت سے بیان کرے۔چنانچہ ’’البیان‘‘ میں ’مِمَّا یَشَآءُ‘ کا ترجمہ مضارع میں کرنے کے بعداس سے پیداہونے والے استمرارکے مفہوم کو بھی قوسین میں کھول دیاگیاہے۔
عربی زبان میں لفظ مختلف ابواب میں کنسٹرکٹ ہوتاہے۔ اس سے بھی اس کے معنی میں بعض خاصیات پیدا ہو جاتی ہیں اور ترجمہ کرتے ہوئے ضروری ہوتاہے کہ ان کا خصوصی طورپرلحاظ رکھاجائے:
یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ.(البقرہ ۲: ۹)
’’وہ اللہ اوراہل ایمان،دونوں کوفریب دیناچاہتے ہیں ،اورحقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ ہی کوفریب دے رہے ہیں ۔‘‘
اس آیت میں ’یُخٰدِعُوْنَ‘اور ’یَخْدَعُوْنَ‘ کے دوالفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مترجمین نے عام طورپران دونوں کا ترجمہ ایک جیسا کیاہے، یعنی دھوکااورفریب دینا، حالاں کہ ہم جانتے ہیں کہ ایک ہی مقام پردومختلف ابواب سے فعل آجائیں توان کاایک جیساترجمہ کر دینا کچھ زیادہ موزوں نہیں۔ ’’البیان‘‘ میں ’خدع‘ اور ’مخادعۃ‘ کا ترجمہ مختلف طریقے سے کیاگیا ہے، یعنی ’خدع‘ سے مراد فریب دینا اور ’مخادعۃ‘ سے مراد فریب دینے کی کوشش کرنا۔۱۲ اور دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ اس ترجمے سے وہ ساری بحثیں آپ سے آپ ختم ہوگئی ہیں جو تفسیرکی کتابوں میں اس فرق کوملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے پیداہوگئی ہیں۔
فَلَمَّا رَاَیْنَہٗٓ اَکْبََرْنَہٗ وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ.(الیوسف ۱۲: ۳۱)
’’پھرجب عورتوں نے اُس کودیکھاتواُس کی عظمت سے مبہوت ہو گئیں اور(اپنی بات اُس سے منوانے کے لیے)اپنے ہاتھ جگہ جگہ سے زخمی کرلیے۔‘‘
اصل میں ’قَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس کاترجمہ کیاگیاہے کہ اُنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور اس سے مرادیہ لی گئی ہے کہ وہ عورتیں سیدنایوسف کے کردارکی عظمت کودیکھ کر اس قدرمبہوت ہوئیں کہ اپنے ہاتھوں کو کاٹ بیٹھیں، دراں حالیکہ یہاں ’قَطَّعْنَ‘اصل میں ’قطع‘ سے تفعیل ہے جس میں تکثیرکاپہلوبھی پایا جاتا ہے۔ ’’البیان‘‘ میں تفعیل کی رعایت سے یوں ترجمہ کیا گیا ہے: ’’اپنے ہاتھ جگہ جگہ سے زخمی کرلیے۔‘‘ ۱۳ اور اس سے مترجم کی مرادیہ ہے کہ ہاتھوں کاکٹنا بے خودی کی کیفیت میں ہو جانے والاکوئی واقعہ نہیں تھا،بلکہ یہ مصرکی بیگمات کی طرف سے کیا جانے والاایک شعوری اِقدام تھاکہ وہ اپنے اس جذباتی مظاہرے سے سیدنا یوسف کوکسی طرح سے رام کرسکیں۔
وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ.(النساء ۴: ۲۳)
’’اورتمھاری وہ مائیں بھی جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور رضاعت کے اس تعلق سے تمھاری بہنیں بھی۔‘‘
نکاح کے لیے حرام رشتوں کا ذکرکرتے ہوئے فرمایاہے کہ تمھاری وہ مائیں بھی تم پرحرام ہیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا۔ اس کے لیے ’اَرْضَعْنَکُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔یہ باب اِفعال سے ہے جس کی خاصیات میں مبالغہ کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے۔ ’’البیان‘‘ کے ترجمے میں مبالغے کے اس بیان کے لیے اردوکے اس جملے کوکافی سمجھاگیاہے کہ ’’تمھاری وہ مائیں بھی جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا‘‘۔ البتہ، تشریحی نوٹ میں اس امرکی وضاحت کردی گئی ہے کہ رضاعت کسی کواتفاقاً دودھ پلادینے سے قائم نہیں ہوجاتی،بلکہ ضروری ہے کہ یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اورایک مقصد کی حیثیت سے عمل میں آئے۔
لفظ کی ساخت کے ساتھ دوسری اہم چیزاس پرآنے والے عوارض ہیں۔یہ معنی ومفہوم پر اچھا خاصا اثر انداز ہوتے اور معنی کی تعیین کے اس کام میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ہم ان میں سے صرف چندایک کا یہاں ذکر کرتے ہیں:
عربی زبان میں اسم پرالف لام بھی آتاہے جس کاایک مقصدکسی چیزکونکرہ کی حیثیت سے نکال کراسے معرفہ بنا دینا ہوتا ہے۔ تراجم میں عام طورپراس کی رعایت کی جاتی ہے،مگراسے بعض مقامات پرسمجھنا اس قدر دقیق ہوتاہے کہ یہ سرے سے نظرانداز ہوجاتا ہے۔یاکسی مقام پریوں ہوتاہے کہ یہ عہدکے لیے لایاگیاہوتاہے ،مگراسے جنس کا قرار دے دیا جاتا ہے۔یاکسی مقام پرعہدذہنی کے لیے لایاگیاہوتا ہے اور اسے عہد خارجی کا سمجھ کرترجمہ کر دیا جاتا ہے یا معاملہ بعض اوقات اس سے اُلٹ بھی ہوجاتاہے۔ان تمام صورتوں میں اس بات کا اِمکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ قاری پر متکلم کی اصل منشابالکل بھی واضح نہ ہوسکے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا.(الاحزاب ۳۳: ۳۳)
’’اللہ تویہی چاہتاہے ،اِس گھرکی بیبیوکہ تم سے وہ گندگی دور کرے (جو یہ منافق تم پر تھوپنا چاہتے ہیں) اور تمھیں پوری طرح پاک کر دے۔‘‘
اس آیت میں ’الرِّجْس‘ کا لفظ آیاہے۔مترجمین نے عام طورپراس کے الف لام کو جنس کاقراردیااور’’گندی باتیں‘‘، ’’ہر قسم کی گندگی‘‘اور’’ہرطرح کی ناپاکی ‘‘ وغیرہ کے الفاظ میں اس کاترجمہ کیاہے۔ ظاہرہے،اس ترجمہ کے بعد بہت سی غیرمتعلقہ بحثیں آپ سے آپ پیدا ہوگئیں اوربعدازاں مستقل عقیدوں میں ڈھل گئی ہیں،دراں حالیکہ اس مقام پر ازواج مطہرات کودیے جانے والے خصوصی احکام کے پیش نظراصل میں اُنھیں منافقین کی ریشہ دوانیوں سے بچاناہے جواس قدرزیادہ ہو گئی ہیں کہ وہ اُن پراب اخلاقی الزامات لگانے کی بھی راہ ڈھونڈرہے ہیں۔اس لحاظ سے ’الرِّجْس‘ کاالف لام عہدکے لیے ہے اور اُس گندگی کو بیان کررہاہے جو ان الزامات کے ذریعے سے یہ لوگ ازواج مطہرات پر تھوپ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ’’البیان‘‘ کے ترجمے میں بھی اسے جنس کے بجاے عہدکاقرار دیا گیا ہے اور اس عہدکو کھولنے کے لیے ’’وہ گندگی‘‘ کے الفا ظ اورپھرقوسین کے اندر اس کی وضاحت میں یہ جملہ بھی لکھ دیاگیاہے: ’’ جویہ منافق تم پرتھوپنا چاہتے ہیں‘‘۔ دیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس کے نتیجے میں کتاب اللہ کی یہ بات بہت واضح اورہر طرح کے غل وغش سے پاک ہوکر ہمارے سامنے آگئی ہے۔
فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ.(التوبہ ۹: ۵)
’’(بڑے حج کے دن) اِس (اعلان) کے بعد جب حرام مہینے گزر جائیں تو اِن مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو۔‘‘
یہاں اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ ’الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ‘ کا الف لام عہدکے لیے ہے یاجنس کے لیے؟بلکہ کم و بیش سب مترجمین کے نزدیک یہ عہد کے لیے ہے۔البتہ،اختلاف اس امرمیں ہے کہ اسے عہدخارجی کا سمجھاجائے یا عہد ذہنی کا۔اکثر مترجمین اسے عہد خارجی کا قرار دیتے اوراس کامطلب آیت ۲ کی روشنی میں یہ بیان کرتے ہیں کہ منکرین کوجن چارمہینوں کی مہلت دی گئی تھی،اصل میںیہ وہی چار مہینے ہیں۔اس کے برخلاف،بعض حضرات کے ہاں یہ الف لام عہدذہنی کے لیے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اشہرحرم کی تعبیراسم اور علم کے طورپر استعمال ہوتی ہے اور اس سے ہٹانے کے لیے یہاں کوئی وجہ بھی موجودنہیں ہے،اس لیے عربیت کی روسے اس پرآنے والا الف لام اب عہد ذہنی ہی کا ہوسکتا ہے ۔چنانچہ اس سے مرادوہی چارمہینے ہیں جنھیں اصطلاح میں حرام مہینے کہاجاتاہے ،یعنی رجب، ذوالقعدہ ،ذوالحجہ اور محرم۔اب ظاہرسی بات ہے کہ براء ت کا اعلان اگر حج کے موقع پرکیاجائے تواس کے بعد حرام مہینوں میں سے تقریباً پچاس دن باقی رہ جاتے ہیں۔ ’’البیان‘‘ میں اسی راے کو اختیار کیا گیاہے اور حاشیہ میں اس کی وضاحت بھی کردی گئی ہے۔
وَیَدْرَؤُا عَنْھَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْھَدَ اَرْبَعَ شَھٰدٰتٍم بِاللّٰہِ اِنَّہٗ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ.(النور ۲۴: ۸)
’’(اس کے بعد)عورت سے سزااُسی صورت میں ٹل سکتی ہے کہ(اِس کے جواب میں)وہ بھی چارمرتبہ اللہ کی قسم کھاکرکہے کہ یہ شخص جھوٹاہے۔‘‘
مذکورہ بالاآیت کے مقابلے میں یہاں معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔یہ لعان کے متعلق ایک ہدایت ہے اوراس میں ’الْعَذَاب‘ کا الف لام معہودذہنی کے بجاے معہود خارجی کا ہے جس کابیان آیت ۲ میں ’عَذَابَھُمَا‘ کے لفظ میں موجود ہے۔ ’’البیان‘‘ میں بھی اسے عہدخارجی کا قرار دیاگیاہے اوراس کی دلیل یہ ہے کہ عربی زبان میں اگرمعرفہ کا اعادہ معرفہ کی صورت میں کیا جائے اورکوئی قرینہ بھی مانع نہ ہوتو دوسرابالکل پہلاہی ہوتا ہے۔چنانچہ اس شادی شدہ عورت کو دی جانے والی سزابھی بعینہٖ وہی ہوگی جو اس سے پہلے ’عَذَابَھُمَا‘ کے الفاظ میں،یعنی سو کوڑوں کی صورت میں ہرزانی مردوعورت کے لیے بیان کی جاچکی ہے۔ ۱۴
اسی طرح کی ایک مثال یہ آیت بھی ہے:
وَجَعَلْنَا بَیْنَھُمْ مَّوْبِقًا. وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ مُّوَاقِعُوْھَا.(الکہف ۱۸: ۵۲۔ ۵۳)
’’ہم اُن کے درمیان ایک ہلاکت کاگڑھاحائل کر دیں گے اوریہ مجرم اُس کی آگ کودیکھیں گے اورسمجھ لیں گے کہ اُسی میں گرنے والے ہیں۔‘‘
یہاں بھی دیکھ لیاجاسکتاہے کہ اکثرمترجمین ’النَّار‘ کے الف لام کوعہدذہنی کا قراردیتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’آگ‘‘، ’’دوزخ‘‘ اور ’’جہنم‘‘ کے الفاظ میں کررہے ہیں۔ ’’البیان‘‘ میں اسے عہدخارجی کاقراردیتے ہوئے اس کا ترجمہ ’’اُس کی آگ‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے اور اس سے مرادپچھلی آیت میں مذکورہلاکت کے گڑھے کی آگ ہے کہ ایسانہ کرنے کی صورت میں یہ جملہ پچھلی بات سے گویا کٹ کررہ جاتاہے۔
بعض اوقات ایک ہی لفظ قرآن کے متعددمقامات پر الف لام کی مختلف حیثیتوں میں استعمال ہورہاہوتاہے اور اس وجہ سے اس کے سمجھنے میں کسی بڑی غلطی کے راہ پاجانے کااِمکان بہت زیادہ بڑھ جاتاہے،جیساکہ مثال کے طور پر ’الْاِنْسَان‘ اور ’الْمُشْرِکِیْن‘ کے الفاظ۔ ہم ان میں سے صرف ’الْمُشْرِکِیْن‘ کوذیل میں بیان کرتے ہیں:
اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.(النحل ۱۶: ۱۲۰)
’’حقیقت یہ ہے کہ ابراہیم(اپنی جگہ)ایک الگ امت تھا، اللہ کا فرماں بردار اور یک سو اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘
اس آیت میں سیدناابراہیم کے اوصاف حمیدہ بتائے جارہے ہیں،کچھ ایجابی اندازمیں اورکچھ سلبی انداز میں۔ چنانچہ بادنیٰ تامل سمجھ لیاجاسکتاہے کہ یہاں ’الْمُشْرِکِیْن‘ کا الف لام مشرکین کے زمرے، یعنی ان کی جنس کوبیان کرنے کے لیے آیاہے ۔
مَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَلَا الْمُشْرِکِیْنَ اَنْ یُّنَزَّلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ خَیْرٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ.(البقرہ ۲: ۱۰۵)
’’اہل کتاب ہوں یا مشرکین، ان میں سے جن لوگوں نے کفر کیا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے کوئی خیرتم پر نازل کی جائے۔‘‘
اس آیت میں ’الْمُشْرِکِیْن‘ کاالف لام جنس کے بجاے عہدذہنی کاہے ۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ متکلم اور مخاطب، دونوں کے ہاں یہ لوگ بالکل متعین ہیں اوردوسری وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کا آیت میں بیان کردہ یہ وصف بھی کہ وہ ہرگز نہیں چاہتے کہ تم پر خدا کی طرف سے کوئی خیراتاری جائے، اُنھیں واضح طورپرمتعین کررہاہے۔
وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ.(التوبہ ۹: ۶)
’’اور اگر (اس دار و گیر کے موقع پر) اِن مشرکوں میں سے کوئی شخص تم سے امان چاہے(کہ وہ تمھاری دعوت سننا چاہتا ہے)تواُس کوامان دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کاکلام سن لے۔‘‘
یہاں الف لام عہدخارجی کے لیے ہے اور ’’البیان‘‘ کے ترجمہ میں اس کے لیے ’’اِن مشرکوں‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں۔اس تعیین کی دلیل یہ ہے کہ آیت ۱ میں بھی ’الْمُشْرِکِیْن‘ کایہی لفظ آیاہے اورزیربحث آیت میں معرفہ کے اس اِعادہ نے یہ بات طے کردی ہے کہ اس دوسرے سے مرادبھی اصل میں پہلاہی ہے۔یعنی اس سے مرادبھی وہی لوگ ہیں جن پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے من حیث الجملہ اِتمام حجت کیاجاچکاہے۔
بعض حروف لفظ کے اوپر صلہ ہوکرآتے ہیں اورمعنی میں اچھاخاصاتنوع پیداکردیتے ہیں اور بعض اوقات متعدد معانی پرمتضمن بھی ہوجاتے ہیں،چنانچہ ترجمہ کرتے ہوئے ان کی مکمل طورپررعایت کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ ’’البیان‘‘ میںیہ رعایت کس قدربرتی گئی ہے ، اس کے لیے ہم اُن چندآیتوں کاترجمہ پیش کرتے ہیں جن میں ایک ہی صلہ کو مختلف طریقوں سے استعمال کیاگیاہے،جیساکہ مثال کے طور پر ’اِلآی‘ کاصلہ:
وَعَھِدْنَآ اِلآی اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآءِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ.(البقرہ ۲: ۱۲۵)
’’اور ابراہیم و اسمٰعیل کو اِس بات کا پابند کیا کہ میرے اِس گھرکواُن لوگوں کے لیے پاک رکھو جو (اِس میں) طواف کرنے، اعتکاف کرنے اوررکوع و سجود کرنے کے لیے آئیں۔‘‘
’عَہِدَ‘ کے ساتھ جب ’اِلٰی‘ کا صلہ آئے تواب اس کامطلب صرف وعدہ کرنے کانہیں ،بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کسی پر ذمہ داری ڈال دینے کا ہو جاتاہے۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے ’’اس بات کا پابند کیا‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔
کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ لَا رَیْبَ فِیْہِ.(الانعام ۶: ۱۲)
’’اُس نے اپنے اوپررحمت لازم کررکھی ہے۔وہ تم سب کوجمع کرکے ضرورقیامت کی طرف لے جائے گاجس میں کوئی شبہ نہیں۔‘‘
اس آیت میں ’اِلٰی‘ کاصلہ ’لَیَجْمَعَنَّکُمْ‘ کے بعد آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں کوئی لفظ ہانکنے اور لے جانے کے معنی میں محذوف ہے۔چنانچہ دیگر مترجمین کے برعکس،جنھوں نے عام طورپراس کاترجمہ’’ جمع کرے گا‘‘ کیا ہے، ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ یوں کیا گیاہے:’’وہ تم سب کوجمع کرکے ضرورقیامت کی طرف لے جائے گا۔‘‘
وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۴)
’’بنی اسرائیل کوہم نے اِسی کتاب میں اپنے اِس فیصلے سے آگاہ کردیاتھاکہ تم دومرتبہ زمین میں فساد برپا کرو گے اوربڑی سرکشی دکھاؤگے۔‘‘
یہاں ’قَضَیْنا‘ کے بعد ’اِلٰی‘ کا صلہ آیاہے جس کاتقاضا ہے کہ اسے کسی ایسے فعل پرمتضمن ماناجائے جواس صلہ سے مناسبت رکھنے والا ہو اوروہ ’أبلغنا‘ یااس کے ہم معنی کوئی فعل ہوسکتاہے۔ مترجمین نے بالعموم ان دونوں افعال میں سے ایک کوسامنے رکھتے ہوئے ترجمہ کیاہے، جیسا کہ’’ فیصلہ کردیا‘‘اور’’صاف کہہ سنایا‘‘۔ ’’البیان‘‘ میں دونوں کا لحاظ رکھتے ہوئے اس طرح ترجمہ کیا گیا ہے: ’’اس فیصلے سے آگاہ کردیا‘‘۔
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ. اِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ.(القیامہ ۷۵: ۲۲۔ ۲۳)
’’کتنے چہرے اُس دن تروتازہ ہوں گے، اپنے پروردگار کی رحمت کے منتظر۔‘‘
اس آیت میں ’نظر‘کے ساتھ ’اِلٰی‘ آیا ہے۔ اس کے دو ترجمے کیے جاسکتے ہیں: ایک کسی شے کی طرف دیکھنا اور دوسرے کسی سے اچھی بات کی کوئی امیدرکھنا۔ سیاق دلیل ہے کہ یہ دوسرے معنی میں ہے ،اس لیے کہ یہاں اگلی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ دوزخ میں جانے والے اس اندیشہ میں مبتلا ہوں گے کہ اب وہ آفت ٹوٹنے والی ہے جواُن کی کمر کو توڑ ڈالے گی۔ اب ظاہرہے اس اندیشے کے مقابلے میں امیدورجا کا بیان ہی زیادہ موزوں ہو سکتا ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اسی وجہ سے اس کاترجمہ’’ اپنے پروردگار کی رحمت کے منتظر‘‘کیاگیاہے۔
’اِلٰی‘ کی طرح حرف ’عَلٰی‘ بھی صلہ ہوکرآتاہے اورالفاظ میں معنی کی کئی جہتیں پیدا کر دیتا ہے، جیسا کہ مثال کے طورپریہ آیتیں:
وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰکِ وَطَھَّرَکِ وَاصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ.(آل عمران ۳: ۴۲)
’’اورجب فرشتوں نے مریم سے کہا:اے مریم، اللہ نے تجھے برگزیدہ کیاہے اورپاکیزگی عطافرمائی ہے اور دنیاکی تمام عورتوں پر ترجیح دے کر(اپنی ایک عظیم نشانی کے ظہورکے لیے)منتخب کر لیا ہے۔‘‘
’اصْطَفٰی‘ فعل کے ساتھ جب ’عَلٰی‘ کاصلہ آتا ہے تویہ انتخاب سے آگے بڑھ کراس میں ترجیح اورفضیلت کا مضمون بھی پیدا کر دیتا ہے۔ چنانچہ اس کا ترجمہ یوں کیاگیاہے:’’دنیاکی تمام عورتوں پرترجیح دے کرمنتخب کر لیا ہے۔‘‘
وَنَحْشُرُھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَلٰی وُجُوْھِہِمْ عُمْیًا وَّ بُکْمًا وَّ صُمًّا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۹۷)
’’قیامت کے دن ہم اُن کواُن کے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے اکٹھاکریں گے،اندھے ،گونگے اوربہرے۔‘‘
یہاں ’نَحْشُرُھُمْ‘ کے ساتھ ’عَلٰی‘ استعمال ہواہے،اس لیے اس کے اندراکٹھا کرنے کے ساتھ ساتھ گھسیٹنے کا مفہوم بھی شا مل ہوگیا ہے۔ عام طورپرمترجمین اس کے ایک پہلوکوبیان کرتے ہیں:اکٹھاکرنے کویاگھسیٹنے اورچلانے کو۔ ’’البیان‘‘ کے ترجمہ میں اس کے یہ دونوں پہلو بیان کردیے گئے ہیں:’’منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے اکٹھا کریں گے۔‘‘
قَالَ ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ.(الحجر ۱۵: ۴۱)
’’فرمایا:یہ(بندگی کاراستہ)ایک سیدھاراستہ ہے جو مجھ تک پہنچانے والاہے۔‘‘
اس آیت میں ’صِرَاط‘ کے بعد ’عَلٰی‘ آیا ہے۔ اب بات صرف یہ نہیں ہے کہ یہ راستہ سیدھاہے اورخدا تک پہنچ جانے والاہے،بلکہ اس میں یہ اضافی مضمون بھی پیداہوگیاہے کہ یہ اپنے راہ رووں کوخود منزل پرپہنچادینے والاہے۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے ’’مجھ تک پہنچانے والا ہے‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں۔
فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ.(البقرہ ۲: ۳۷)
’’ پھر آدم نے اپنے پروردگارسے (توبہ کے) چند الفاظ سیکھ لیے (اور اُن کے ذریعے سے توبہ کی) تو اُس پر اُس نے عنایت فرمائی اور اُس کو معاف کر دیا۔‘‘
’تَابَ‘ کے بعد ’عَلٰی‘ کاصلہ اس بات پردلیل ہے کہ یہاں ’أقبل‘ یا اِس سے ملتاجلتاکوئی اورمفہوم بھی موجود ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم کومعاف کیااورپوری توجہ سے اُس کی طرف ملتفت بھی ہو گیا۔ ’تَابَ‘ کے ساتھ یہی اضافی مفہوم ہے جسے ’’البیان‘‘ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’اُس نے عنایت فرمائی اوراُس کومعاف کردیا۔‘‘
وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍ.(التکویر ۸۱: ۲۴)
’’وہ غیب کی باتوں پرکبھی حریص نہیں رہا۔‘‘
عربی زبان میں ’ضَنِیْن‘ کے معنی بخیل کے ہیں۔ اس آیت میں اس کاصلہ ’ب‘ نہیں،بلکہ ’عَلٰی‘ آیا ہے، چنانچہ اب اس میں حریص ہونے کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی، آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاہنوں کی طرح غیب دانی کے حریص نہیں ہیں، بلکہ وہ خداکی منشا اور اُس کے حکم سے نبوت اوروحی سے سرفرازہوئے ہیں۔
’عَنْ‘ صلہ ہوکرآئے تواس سے بھی کئی معانی ایسے پیداہوتے ہیں جن کو سمجھنے میں مترجمین کی طرف سے بعض اوقات سہو یا تساہل واقع ہو جاتا ہے:
اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ.(الانعام ۶: ۹۳)
’’آج (تمھارے) اِس (جرم) کی پاداش میں تمھیں ذلت کاعذاب دیاجائے گاکہ تم اللہ پرناحق تہمت باندھتے تھے اوراُس کی آیتوں سے متکبرانہ اِعراض کرتے تھے۔‘‘
اس آیت میں ’تَسْتَکْبِرُوْنَ‘ کے ساتھ ’عَنْ‘ کاصلہ آیاہے۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ لفظ یہاں اِعراض کے مفہوم پربھی مشتمل ہے۔عام طورپرمترجمین نے اس کاترجمہ’’ اس کی آیتوں سے تکبرکرتے تھے‘‘ کیاہے،اس کے برخلاف، ’’البیان‘‘ میں اِعراض کے اس مفہوم کو شامل کرتے ہوئے ترجمے میں’’متکبرانہ اعراض ‘‘کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
فَعَقَرُوا النَّاقَۃَ وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّھِمْ.(الاعراف ۷: ۷۷)
’’پھر انھوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں اور پورے تمردکے ساتھ اپنے پروردگارکے حکم سے سرتابی کی۔‘‘
مترجمین نے بالعموم یہاں صرف’’ سرکشی‘‘ کاترجمہ کیا ہے، دراں حالیکہ ’عَتَوْا‘ کے ساتھ ’عَنْ‘ نے آ کر یہاں سرکشی کے ساتھ ساتھ منکرین کی نافرمانی کوبھی بیان کیاہے۔ ’’البیان‘‘ میں ان دونوں مفاہیم کواس طرح ادا کیا گیا ہے: ’’پورے تمردکے ساتھ اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کی۔‘‘
وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَکَ عَنِ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ.(بنی اسرائیل ۱۷: ۷۳)
’’(اے پیغمبر)،قریب تھاکہ یہ اُس چیزسے ہٹا کر تم کوفتنے میں ڈال دیں جوہم نے تمھاری طرف وحی کی ہے۔‘‘
اس آیت میں ’یَفْتِنُوْنَکَ‘اپنے ساتھ ’عَنْ‘ کے صلہ کی وجہ سے ’یصرفونک‘ پرمشتمل ہوگیاہے،چنانچہ اس کا مطلب اب صرف فتنہ میں ڈال دینانہیں ہے، بلکہ نازل ہونے والی وحی سے ہٹاکرفتنہ میں ڈال دیناہے۔ ’عَنْ‘ کے اسی متضمن معنی کالحاظ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں ’’اُس چیزسے ہٹاکرفتنے میں ڈال دیں‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں۔ حرف ’لام‘ بھی بہت سے الفاظ کے ساتھ بطورصلہ استعمال ہوتاہے اوراپنے اندرمعنی کے بہت سے پہلو رکھتا ہے:
قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَکُمْ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ھَدٰکُمْ لِلْاِیْمَانِ.(الحجرات ۴۹: ۱۷)
’’کہہ دو کہ اپنے اسلام کااحسان مجھ پرنہ رکھو،بلکہ اللہ کاتم پراحسان ہے کہ اُس نے تم کوایمان کی توفیق عطافرمائی۔‘‘
مترجمین ’ھَدٰکُمْ لِلْاِیْمَانِ‘ کا ترجمہ بالعموم ’’ایمان کی ہدایت کی ‘‘کرتے ہیں، دراں حالیکہ ’ھدایت‘ کے بعد ’لام‘ کاصلہ ہو تواس میں توفیق کامضمون آجاتا ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اسی رعایت سے ’’ایمان کی توفیق عطافرمائی‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا.(الطور ۵۲: ۴۸)
’’اورثابت قدمی کے ساتھ اپنے پروردگارکے فیصلے کا انتظار کرو۔ (یہ تمھیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے)، اس لیے کہ تم ہماری نگاہ میں ہو۔‘‘
اس آیت میں ’صبر‘ کے ساتھ ’لام‘ کا صلہ آیاہے جواس بات کی دلیل ہے کہ یہ انتظارکے مفہوم پرمشتمل ہے۔ چنانچہ اس کاصحیح ترجمہ وہی ہوسکتاہے جس میں صبرکے ساتھ ساتھ انتظارکے پہلوکوبھی بیان کیاجائے اور ’’البیان‘‘ میں ایسا ہی کیا گیا ہے: ’’ثابت قدمی کے ساتھ اپنے پروردگارکے فیصلے کاانتظارکرو۔‘‘
بعض اوقات ایک ہی لفظ ہوتاہے اوراس کامعنی ومفہوم صلہ کے بدل جانے سے بالکل بدل جاتاہے۔اس طرح کے الفاظ میں سے ’اِیْمَان‘ کالفظ ایک اچھی مثال ہے اورذیل کی دوآیات میں اس کے دومختلف مفاہیم آئے ہیں:
کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ.(البقرہ ۲: ۲۸۵)
’’یہ سب اللہ پرایمان لائے،اوراُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لائے۔‘‘
وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً.(البقرہ ۲: ۵۵)
’’اوریادکروجب تم نے کہاکہ اے موسیٰ،ہم تمھاری بات کا ہرگز یقین نہ کریں گے، جب تک ہم خدا کو سامنے نہ دیکھ لیں۔‘‘
’اٰمَنَ‘ کے ساتھ ’’ب‘‘ صلہ ہوکرآئے،جیساکہ پہلی آیت میں آیاہے تواس کامطلب ہوتا ہے: کسی چیزپرایمان لانا۔ اگر ’’لام‘‘ صلہ ہو، جیساکہ دوسری آیت میں ہے تواس کامطلب ہوتا ہے: کسی کی بات مان لینا۔بعض اوقات مترجمین ’لام‘ صلہ کے ساتھ آنے والے ’اِیْمَان‘ کا ترجمہ بھی ایمان لاناہی کردیتے ہیں۔ ’’البیان‘‘ میں کیے گئے ان آیتوں کے ترجمے میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس فرق کو ملحوظ رکھنے کی ایک اچھی کوشش کی گئی ہے۔
عربی زبان میں الفاظ پرمختلف اعراب آتے ہیں۔ان کادِقّت نظرسے مطالعہ معنی کی تعیین کرنے اورکلام کے بہت سے مضمرات کو سمجھنے میں بنیادی اہمیت کاحامل ہوتاہے۔اس بات کی وضاحت کے لیے ہم ’’البیان‘‘ میں سے چند آیات کاترجمہ پیش کرتے ہیں:
اِذْ اَوْحَیۡنَآ اِلٰٓی اُمِّکَ مَایُوْحٰٓی. اَنِ اقْذِ فِیۡہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِ فِیۡہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ.(طٰہٰ ۲۰: ۳۸۔ ۳۹)
’’جب ہم نے تمھاری ماں کووہ بات الہام کی تھی جو (اِس وقت تمھیں)وحی کی جارہی ہے کہ اس بچے کو صندوق میں رکھو، پھر صندوق کودریامیں ڈال دو۔ پھر دریا اُس کوکنارے پرڈال دے۔‘‘
یہاں ’فَلْیُلْقِہِ‘ کااِعراب قابل توجہ ہے۔کئی مترجمین نے اس لفظ کوجوابِ امرخیال کرتے ہوئے ترجمہ کیا ہے، حالاں کہ اس پرلام آیاہے اوراس وجہ سے یہ یقینی طورپرامرغائب ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے امرغائب ہونے کا لحاظ ہے کہ اس کاترجمہ ’’پس دریا اُسے کنارے لاڈالے گا‘‘کے بجاے اس طرح کیاگیاہے:پھردریااُس کوکنارے پر ڈال دے۔‘‘
وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ.(القلم ۶۸: ۹)
’’یہ توچاہتے ہیں کہ تم ذرانرم پڑو،پھریہ بھی نرم پڑ جائیں گے۔‘‘
بعض مترجمین نے اس آیت کے مفہوم کواس طرح کے الفاظ میں ادا کیا ہے: ’’وہ تو چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں۔‘‘ حالاں کہ اس آیت میں ’فَیُدْھِنُوْنَ‘ کالفظ ’لَوْ تُدْہِنُ‘ کاجواب نہیں ہے کہ اس صورت میں یہاں ’فیدہنوا‘ لایاجاتا۔ یہ اصل میں ’لَوْ تُدْہِنُ‘ پرعطف ہے اوراس کامبتدا ’ہم‘ یہاں محذوف کر دیا گیا ہے۔ ’فَیُدْھِنُوْنَ‘ کے اسی اعراب کالحاظ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں ’’نرم پڑجائیں‘‘ کے بجاے ’’نرم پڑ جائیں گے‘‘ کے الفاظ میں ترجمہ ہواہے۔
وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ.(البقرہ ۲: ۱۷۷)
’’اور وفاداری تو اُن کی وفاداری ہے کہ جب عہد کر بیٹھیں تو اپنے اِس عہد کو پورا کرنے والے ہوں اور خاص کر اُن کی جو تنگی اور بیماری میں اور جنگ کے موقع پر ثابت قدم رہنے والے ہوں۔‘‘
یہاں ’الصّٰبِرِیْن‘ کی صفت ’الْمُوْفُوْن‘ پر عطف ہونے کی وجہ سے حالت رفعی میں ہونی چاہیے تھی ،مگر اسے حالت نصب میں لایاگیا ہے۔ اعراب کی یہ تبدیلی اصل میں علی سبیل الاختصاص، یعنی صفت پر خصوصی توجہ مبذول کروانے کے لیے ہوئی ہے۔ گویامتکلم کہناچاہتاہے کہ ’أنا أخص بالذکر الصابرین‘، یعنی میں صابرین کا ذکر یہاں خاص طور پر کرنا چاہتا ہوں۔ اس اعراب سے پیداہونے والایہ معنی ہے کہ ’’البیان‘‘ میں ترجمہ کرتے ہوئے اس کے لیے ’’خاص کر‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔
وَیَعْلَمَ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا مَالَھُمْ مِّنْ مَّحِیْصٍ.(الشوریٰ ۴۲: ۳۵)
’’اِس لیے تباہ کردے کہ اُن سے انتقام لے اور اِس لیے کہ جولوگ ہماری آیتوں میں کٹ حجتی کررہے ہیں، وہ جان لیں کہ اُن کے لیے کوئی مفرنہیں ہے۔‘‘
اس آیت میں ’یَعْلَمَ‘ حالت نصب میں ہے،مگرکئی مترجمین نے اسے بالکل نظراندازکرکے ترجمہ کیاہے۔سیاق میں دیکھاجائے تو یہ نصب لام تعلیل کی وجہ سے ہے جو ’یَعْلَمَ‘ کے معطوف علیہ سمیت حذف ہو گیا ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اسے اداکرنے کے لیے پہلے ایک مناسب حال معطوف علیہ ،یعنی:’’اس لیے تباہ کردے کہ اُن سے انتقام لے۔‘‘ نکالا گیا ہے اوراس کے بعد ’ولیعلم‘ کاترجمہ کیاگیاہے۔
مرادی معنی معلوم کرنے میں لفظ کی ساخت اوراُس پرآنے والے عوارض کے بعد تیسری اہم ترچیزیہ ہے کہ کلام میں آئے ہوئے دیگرالفاظ پربھی اچھی طرح سے غوروخوض کرلیاجائے۔ دوسری صورت میں اس بات کاقوی امکان ہوتا ہے کہ ایک مجوزہ معنی کی تائیدمیں ہم چاہے لغت کے شواہد اورقرآن میں سے اُس کے بہت سے نظائر پیش کر دیں، مگر وہ حقیقت میں کسی مقام پر حشو قرارپاتاہویابالکل ہی غلط بیٹھتا ہو۔ اس بات کو ہم چندعنوانات کے تحت واضح کرتے ہیں:
بسااوقات کسی لفظ کے معنی کی تعیین اُن دوسرے الفاظ پرمنحصرہوتی ہے جوکلام میں اس کے ساتھ ہی استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس کی مثال کے لیے ذیل کی چندآیتیں دیکھ لی جاسکتی ہیں:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّّی فَاکْتُبُوْہُ.(البقرہ ۲: ۲۸۲)
’’ایمان والو، تم کسی مقرر مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اُسے لکھ لو۔‘‘
یہاں ’تَدَایَنْتُمْ‘ کالفظ آیاہے، جس کامطلب ہے ادھارلین دین کرنا۔اس کے بعدچونکہ ’بِدَیْنٍ‘ بھی آگیاہے جس نے ادھار معاملے کی وضاحت کردی ہے، اس لیے ’تَدَایَنْتُمْ‘ اب مجردہوکرصرف لین دین تک محدودہوکررہ گیا ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اسی لیے ’بِدَیْنٍ‘ کے لیے ’’ادھار‘‘اور ’تَدَایَنْتُمْ‘ کے لیے محض ’’لین دین کرو‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں۔
ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی.(الحشر ۵۹: ۲۴)
’’وہی اللہ ہے نقشہ بنانے والا،وجود میں لانے والا اور صورت دینے والا۔ سب اچھے نام اُسی کے ہیں۔‘‘
عربی زبان میں بعض الفاظ اپنے اصل معنی سے ہٹ کرتوسعاًدوسرے معنوں میں استعمال ہوجاتے ہیں۔اس کی مثال لفظ ’خلق‘ بھی ہے جواپنے وسیع تراطلاق میں تخلیق کرنے اوربنانے کے معنی میں آتاہے ،وگرنہ اس کااصل معنی اندازہ کرنا اور خاکہ بناناہے۔ زیرنظر آیت میں یہ اپنے اصل معنی میں آیاہے ۔اس کی وجہ اس کے ساتھ آنے والا لفظ ’الْبَارِئُ‘ ہے، جس کااپناایک معنی بھی چونکہ کسی شے کووجودمیں لاناہے،اس لیے اب ’الْخَالِق‘ اپنے اصل معنی کی طرف لوٹ گیاہے۔ ’’البیان‘‘ میںیہی وجہ ہے کہ اس کاترجمہ’’ نقشہ بنانے والا‘‘ کیاگیا ہے۔ اس ترجمہ کا ایک فائدہ یہ بھی ہواہے کہ اس ترتیب میں، یعنی نقشہ بنانے اورکسی شے کووجودمیں لانے کے بعد ’الْمُصَوِّر‘ کے استعمال میں، ’الْمُصَوِّر‘ کا صحیح مفہوم بھی ہمارے سامنے آگیاہے کہ وہ کسی شے کی تصویربنانانہیں،بلکہ اُسے صورت دینا، یعنی نوک پلک درست کرکے اُسے آخری شکل دے دیناہے۔
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ.(آل عمران ۳: ۸۵)
’’اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو اُس سے وہ ہرگزقبول نہ کیاجائے گا۔‘‘
لفظ ’دین‘ کے ایک سے زائدمستقل مفاہیم ہیں۔اس آیت میں اس کے ساتھ آنے والا ’الْاِسْلَام‘ چونکہ ایک مذہب کے نام کے طورپرآیاہے،اس لیے یہ طے ہے کہ اس کے غیرکے لیے آنے والا ’دِیْنًا‘ کالفظ بھی اپنے بہت سے مفاہیم میں سے ایک مفہوم ، یعنی ’’مذہب‘‘ہی کے لیے آیاہے۔
مَا کَانَ لِیَاْخُذَ اَخَاہُ فِیْ دِیْنِ الْمَلِکِ اِلَّآ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰہُ.(یوسف ۱۲: ۷۶)
’’بادشاہ کے قانون کی روسے وہ اپنے بھائی کو روکنے کا مجاز نہ تھا، الّا یہ کہ خداہی چاہے۔‘‘
اس آیت میں ’دین‘ کے لفظ کے ساتھ ’الْمَلِک‘ کی اضافت کاخیال رکھاجائے تویہاں اس کامطلب ’’قانون‘‘ ہی موزوں قرارپاتاہے،جیسا کہ ’’البیان‘‘ میں اس کایہ ترجمہ کیابھی گیاہے۔
وَالذّٰرِیٰتِ ذَرْوًا. فَالْحٰمِلٰتِ وِقْرًا. فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا. فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا. اِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَصَادِقٌ. وَّاِنَّ الدِّیْنَ لَوَاقِعٌ. وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْحُبُکِ.(الذاریات ۵۱: ۱۔ ۷)
’’تند ہوائیں گواہی دیتی ہیں جو غبار اڑاتی ہیں، پھر (پانی سے لدے ہوئے بادلوں کا) بوجھ اٹھاتی ہیں، پھر نرمی کے ساتھ چلتی ہیں، پھرالگ الگ معاملہ کرتی ہیں۔ (یہ گواہی دیتی ہیں) اور دھاریوں والا آسمان بھی کہ جس عذاب کی وعیدتمھیں سنائی جارہی ہے ،وہ یقیناًسچ ہے اورجزاوسزاواقع ہوکررہے گی۔‘‘
اس آیت میں قسم اورجواب قسم کی باہمی موافقت ہی طے کر دیتی ہے کہ ’الدِّیْن‘ کالفظ جزاکے لیے آیا ہے، مگر ’وَاقِع‘ کا لفظ بھی بڑی حدتک اس تعیین میں معاونت کررہاہے کہ اس کااستعمال لفظ ’دین‘ کے دیگرمفاہیم،یعنی مذہب اور قانون سے کچھ مناسبت نہیں رکھتااوریہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ’’ جزاوسزا‘‘کیاگیاہے۔
فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ. اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ.(الزمر ۳۹: ۲۔ ۳)
’’سواللہ ہی کی بندگی کرو،اپنی اطاعت کواُسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ سنو، خالص اطاعت اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘
فرمایاہے کہ اللہ ہی کی بندگی کرو۔اس کے بعد ’الدِّیْن‘ کے لفظ کولانایہ بالکل واضح کردیتاہے کہ یہاں اس سے اُسی بندگی کی عملی صورت، یعنی اطاعت مرادلی گئی ہے۔چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس طرح کے مواقع پراس کا ترجمہ ’’اطاعت‘‘ ہی کیاجاتاہے۔
بعض اوقات دوالفاظ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح آتے ہیں کہ دونوں ہی اپنے اپنے معنی کو واضح کردیتے ہیں:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(البقرہ ۲: ۱۲۹)
’’پروردگار،اوراُنھی میں سے تواُن کے اندر ایک رسول اٹھا جو تیری آیتیں انھیں سنائے اور قانون اور حکمت سکھائے اوراس طرح انھیں پاکیزہ بنائے۔‘‘
’الْکِتٰب‘ قرآن میں ایک سے زائد معانی کے لیے آتاہے: خط ،کتاب اورقانون کے لیے۔اسی طرح ’الْحِکْمَۃ‘ بھی سمجھ بوجھ،دلائل و براہین اور دین کی حقیقت اور ایمان واخلاق کے مباحث کے لیے آتاہے۔لیکن ان دونوں الفاظ کے بارے میں یہ طے ہے کہ جب یہ ایک دوسرے پر عطف ہو کر آئیں گے تواب ’الْکِتٰب‘ سے مراد قانون اور ’الْحِکْمَۃ‘ سے مراددین کی حقیقت اورایمان واخلاق کے مباحث ہی ہوں گے۔اس طرح کے تمام مواقع پر ’’البیان‘‘ کے تفسیری حواشی میں ان معانی کی بخوبی وضاحت کردی گئی ہے۔
قرآن میں بہت سے مقامات پرکسی لفظ کے معنی کی تعیین اس کے مقابل میں آنے والے الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔اس کی مثال کے لیے ذیل کی چندآیتیں دیکھ لی جاسکتی ہیں:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ.(النحل ۱۶: ۳۶)
’’ ہم نے ہر قوم میں ایک رسول اِس دعوت کے ساتھ بھیجا تھاکہ اللہ کی بندگی کرو اور شیطان سے بچو۔‘‘
’طاغوت‘ ایک وصف ہے جومتکبر،سرکش اوراپنی حدودسے تجاوزکرنے والے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ زیر نظر آیت میں اس کا اطلاق شیطان پرکیاگیاہے،اس لیے کہ یہاں پیغمبروں کی دعوت کے دوبنیادی اجزاکابیان ہو رہا ہے: اللہ کی عبادت اور طاغوت سے اجتناب۔سواس تقابل،یعنی اجتناب کے مقابلے میں عبادت اور ’الطَّاغُوْت‘ کے مقابلے میں لفظ ’اللّٰہ‘ کالحاظ رہے توواضح ہوجاتاہے کہ یہاں اس سے مراد لامحالہ شیطان ہی ہے۔
فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنِ.(البقرہ ۲: ۱۵۲)
’’لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمھیں یاد رکھوں گا اور میرے شکر گزار بن کررہو،میری ناشکری نہ کرو۔‘‘
’کفر‘کالفظ انکاراورناشکری،دونوں مفاہیم کے لیے آتا ہے۔ اس کے مقابل میں ایمان کاذکرہوتو اس کا مطلب ماننے سے انکار کردینا،یعنی کفرکرناہوتاہے اورمقابل میں شکرگزاری ہوتوطے ہوجاتاہے کہ اب اس کا مطلب ناشکری کرنا ہے۔ سو یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس لفظ کاترجمہ یہاں’’ناشکری‘‘ کیاگیاہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ.(النحل ۱۶: ۹۰)
’’ اللہ (اِس میں) عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔‘‘
’مُنْکَر‘ سے مراد اصل میں وہ برائیاں ہوتی ہیں جنھیں انسان بالعموم براجانتے ہیں۔یہاں اُن میں سے خاص وہ برائیاں مرادہیں جوکسی کاحق تلف کرنے والی ہوتی ہیں،اوراس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ ’عَدْل‘ کے مقابل میں آیاہے، جس کامطلب حق دارکواس کاحق ادا کرنا ہے۔ ’’البیان‘‘ کے حواشی میں اس لفظ کی مرادکے متعلق یہ وضاحت اچھی طرح سے کردی گئی ہے۔
ضمیریں بھی اپنی حقیقت میں لفظ ہوتی ہیں جواپنے مراجع کی طرف رجوع کرتی ہیں اوراس اعتبارسے یہ اُن کے ساتھ آئے ہوئے دوسرے الفاظ ہی ہوتی ہیں۔سومعنی کی تعیین میں اُن کااور اُن کے مراجع کاصحیح طورپرادراک ہونا بہت زیادہ ضروری ہوتاہے:
فَبَدَاَ بِاَوْعِیَتِھِمْ قَبْلَ وِعَآءِ اَخِیْہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَھَا مِنْ وِّعَآءِ اَخِیْہِ.(یوسف ۱۲: ۷۶)
’’ اِس پر اُس شخص نے یوسف کے بھائی کی خرجی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینا شروع کی، پھر (بادشاہ کا پیمانہ تو نہیں ملا، لیکن) اُس کے بھائی کی خرجی سے اُس نے وہ پیالہ برآمد کر لیا (جو یوسف نے رکھا تھا)۔‘‘
سیدنایوسف علیہ السلام کے اس واقعہ میں ’اسْتَخْرَجَھَا‘ کا لفظ آیاہے ۔عام طورپراس کی ضمیر ’ہا‘ کا مرجع لوگوں نے بادشاہ کے پیمانے کو قرار دیا ہے، دراں حالیکہ یہ ضمیرمونث ہے اوربادشاہ کے پیمانے کے لیے لفظ ’صُوَاع‘ استعمال ہواہے۔چنانچہ یہ طے ہے کہ بنیامین کے سامان سے نکلنے والاپیالہ بادشاہ کے ’صُوَاع‘ کے بجاے یوسف کا ’السِّقَایَۃ‘ تھا۔ ’’البیان‘‘ میں ضمیرکے اس صحیح مرجع کے لحاظ سے ترجمہ کیاگیاہے اوردیکھ لیاجاسکتاہے کہ اس کے نتیجے میں واقعے کی اصل صورت بھی سامنے آجاتی ہے اوروہ طول طویل بحثیں بھی خود سے ختم ہوجاتی ہیں جولوگوں نے حضرت یوسف کے اخلاق حسنہ پر،افسوس یہ کہ اُٹھادی ہیں۔
وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَاِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ.(البقرہ ۲: ۴۵)
’’اور(اس راہ پرچلنے کے لیے)صبراورنمازسے مدد چاہو، اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ سب بہت بھاری ہے، مگر ان کے لیے بھاری نہیں ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں۔‘‘
اس آیت میں ’وَاِنَّھَا‘ کی ضمیرکے بارے میں بحث ہے کہ یہ کس طرف راجع ہے؟مترجمین اس کے مونث ہونے کا لحاظ کرتے ہوئے اسے بالعموم ’الصَّلٰوۃ‘، یعنی نمازکی طرف لوٹاتے ہیں،دراں حالیکہ یہاں اصل مسئلہ ضمیراوراس کے مرجع میں تذکیروتانیث کی موافقت کاہے ہی نہیں ۔عربی زبان میں اس طرح کے مواقع پرجب مونث ضمیرلائی جاتی ہے تووہ کسی ایک چیز کے بجاے کلام میں مذکور سب چیزوں کی طرف لوٹ رہی ہوتی ہے۔یہاں بھی مرجع صرف نمازنہیں ،بلکہ وہ سب باتیں ہیں جواس سلسلۂ بیان میں بنی اسرائیل سے کہی گئی ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ ان الفاظ میں کیا گیا ہے: ’’یہ سب بہت بھاری ہے۔‘‘
قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ.(المائدہ ۵: ۱۰۲)
’’تم سے پہلے ایک قوم نے اسی طرح کی باتیں پوچھیں، پھر اُنھی کے منکرہوکررہ گئے تھے۔‘‘
فرمایاہے کہ ایمان والو،تم ایسی باتیں نہ پوچھاکروجواگرظاہرکردی جائیں تو تم پرگراں ہوں۔اس کے بعد فرمایا ہے: ’قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ‘۔ یہاں ’ھا‘ کی ضمیرکامرجع توطے ہے کہ وہ ’اَشْیَآء‘ کالفظ ہی ہے، مگر یاد رہے کہ اس سے مرادخاص وہ ’أشیاء‘ نہیں ،بلکہ اُن کی نوعیت ہے۔یعنی، مطلب یہ نہیں ہے کہ تم سے پہلے لوگوں نے بھی ٹھیک یہی ’أشیاء‘، یعنی باتیں پوچھی تھیں ،بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسی قسم کی باتیں تھیں جواُنھوں نے بھی پوچھی تھیں۔ ’’البیان‘‘ میں بیان نوعیت کی اس ضمیرکالحاظ ہے کہ ترجمے میں ’’اسی طرح کی باتیں‘‘کے الفاظ لائے گئے ہیں۔
فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا.(البقرہ ۲: ۷۳)
’’چنانچہ ہم نے کہا: اِس (مردے) کو اُسی (گاے) کا ایک ٹکڑا مارو (جو قسمیں کھانے کے لیے ذبح کی گئی ہے تووہ زندہ ہوگیا)۔‘‘
اس مقام پر بنی اسرائیل کی تاریخ کے دوواقعات بیان ہوئے ہیں: ایک میں اُنھیں قسامہ کی غرض سے گاے قربان کرنے کاحکم دیا گیاہے جس پر انھوں نے کافی لیت ولعل کرنے کے بعد عمل کیا۔دوسرے واقعہ میں بھی قتل کے ایک مقدمے اورقسامہ کابیان ہے جس میں انھوں نے جھوٹی قسمیں کھائیں اور ایک دوسرے پرالزام دھرنے لگے۔ اس کے بعدفرمایا ہے: ’فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا‘۔ یہاں ’ھا‘ کی ضمیرکا مرجع بظاہرایسالگتاہے کہ پہلے واقعہ میں ذبح ہونے والی گاے ہی ہے، مگر تدبر کی نگاہ سے دیکھیں تو یہ اصل میں وہ گاے ہے جودوسرے واقعہ میں ذبح کی گئی ہے ،لیکن اس ساری بات کولفظوں میں بیان کرنے کے بجاے اس کے لیے محض ایک ضمیرلائی گئی ہے ۔ ’’البیان‘‘ میں یہی وجہ ہے کہ ترجمہ کرتے ہوئے اس ضمیرمیں مضمرساری بات کوقوسین کے اندرکھول دیاگیاہے۔
اِذْ عُرِضَ عَلَیْہِ بِالْعَشِیِّ الصّٰفِنٰتُ الْجِیَادُ. فَقَالَ اِنِّیْٓ اَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّیْ حَتّٰی تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ.(ص ۳۸: ۳۱۔ ۳۲)
’’یادکرو،جب خاصے کے اصیل اور عمدہ گھوڑے شام کے وقت اُس کے ملاحظے کے لیے پیش کیے گئے (اور اُن کے دیکھنے میں وہ ایسا محو ہوا کہ نماز جاتی رہی) تو اُس نے کہا: یہ تواپنے پروردگارکی یادسے غافل ہو کر، میں مال کی محبت میں لگ گیا،یہاں تک کہ آفتاب (مغرب کے) پردے میں چھپ گیاہے۔‘‘
اوپرجتنی مثالیں گزریں ان میں ضمیرکے مراجع کسی نہ کسی صورت میں کلام کے اندر موجودہیں۔بعض اوقات یہ مذکور نہیں ہوتے، مگروہاں موجودضرورہوتے اور صرف قرینہ سے سمجھ لیے جاتے ہیں۔سیدناسلیمان کے اس واقعہ میں بھی دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’تَوَارَتْ‘ کی ضمیر کا فاعل لفظوں میں بیان نہیں ہوا،بلکہ اسے کلام میں بیان کردہ ’’شام کے وقت‘‘ سے سمجھاگیاہے کہ وہ اصل میں آفتاب ہے۔
[باقی]
________
۴ جیساکہ مثال کے طور پر لفظ کا اصل معنی زیادہ معروف نہ رہے اورہم اس سے کوئی اورمعنی مرادلے بیٹھیں۔ لفظ میں کوئی نیا معنی پیداہوجائے اورہم اُسے ہی متکلم کا منشا قراردے لیں۔ لفظ ایک سے زائد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہواورہم یہ نہ جان سکیں کہ متکلم نے ان میں سے کون سے معنی کاابلاغ کرناچاہاہے۔یا لفظ ایک جامع مفہوم کا حامل ہواورہمیں معلوم نہ ہوسکے کہ سیاق وسباق میں آکراس میں کیاتخصیص پیداہوگئی ہے۔
۵ الشعراء ۲۶: ۱۹۵۔
۶ یہاں یہ فرق واضح رہے کہ معروف کے مقابلے میں شاذمعنی اپنی حقیقت میں غلط نہیں ہوتا،بلکہ وہ عام طورپر استعمال میں نہیں لایاجاتا،لیکن اس دوسرے اصول کے مطابق جومعنی صحیح کے مقابلے میںآتاہے ،وہ اصل میں سرے سے غلط ہوتاہے۔
۷ الدخان ۴۴: ۸۵۔
۸ بعض اوقات مترجمین لفظ کامعنی توصحیح لکھ دیتے ہیں، مگراس سے مرادمتولدمفاہیم ہی لیتے ہیں۔جیساکہ مثال کے طورپران آیتوں میں عالم،فقہ ،امام اورروح کے الفاظ سے ایک مذہبی عالم، فقہ کاعلم،امامت کاعقیدہ اوریونانی علم کا تصورِ روح مراد لے لینا: ’اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا‘ (فاطر ۳۵: ۲۸)۔ ’فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ‘ (التوبہ ۹: ۱۲۲)۔ ’یَوْمَ نَدْعُوْا کُلَّ اُنَاسٍ م بِاِمَامِھِمْ‘ (بنی اسرئیل ۱۷: ۷۱)۔ ’قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ‘ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۵)۔
۹ صحیح معنی تک اس رسائی سے یہ بات بھی بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ازواج مطہرات کی تنقیص کے بجاے اُن کے لیے خداکی طرف سے اتاراگیا ایک تحسین کاجملہ ہے۔
۱۰ القیامہ ۷۵: ۱۷۔ ۱۸۔
۱۱ اہل عرب کایہی مزاج تھاکہ ایک سریہ میں بہت بڑی مچھلی صحابۂ کرام کے ہاتھ لگی۔اُن کے امیرابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی پسلی کی ہڈی کو کھڑا کیا اور ایک شخص کوحکم دیاکہ وہ اونٹ پرسوارہوکراس کے نیچے سے گزرے (بخاری، رقم ۴۳۶۱)۔
۱۲ یہ ’مخادعۃ‘ باب مفاعلہ سے ہے اورمبالغہ کے لیے آیاہے اورموقع کلام بتارہاہے کہ یہ مبالغہ اصل میں فریب دینے کی کوششوں میں کیاجارہاہے۔
۱۳ یہاں تکثیرکے پہلوکوترجیح کیوں دی گئی ہے،اس کی وضاحت کے لیے ’’البیان‘‘ کے حواشی کی مراجعت کرلی جاسکتی ہے۔
۱۴ ’الْعَذَاب‘ سے پہلے اصل میں دوسزاؤں کابیان ہواہے: ایک زناکی اوردوسرے قذف کی۔ ’الْعَذَاب‘ سے مرادزناکی سزا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں جس عورت سے سزاکے ٹل جانے کا بیان ہورہاہے، وہ اس سیاق میں کسی پرالزام نہیں لگا رہی کہ اس سزاکو قذف کی سزاقراردیاجائے،بلکہ خوداُس پرالزام لگایا جارہاہے، اس لیے یہ قطعی طور پرزنا کی سزاہی ہے۔
____________