HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانبیاء ۲۱: ۹۵- ۱۱۲ (۴)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ) 


وَحَرٰمٌ عَلٰی قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَآ اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ(۹۵) حَتّٰٓی اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ وَھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنْسِلُوْنَ(۹۶) وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَاِذَا ھِیَ شَاخِصَۃٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یٰوَیْلَنَا قَدْ کُنَّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا بَلْ کُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۹۷)  
اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَھَنَّمَ اَنْتُمْ لَھَا وٰرِدُوْنَ(۹۸) لَوْ کَانَ ھٰٓؤُلَآءِ اٰلِھَۃً مَّا وَرَدُوْھَا وَکُلٌّ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ(۹۹) لَہُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّھُمْ فِیْھَا لَا یَسْمَعُوْنَ(۱۰۰) 
اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَھُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓی اُولٰٓءِکَ عَنْھَا مُبْعَدُوْنَ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَھَا وَھُمْ فِیْ مَا اشْتَھَتْ اَنْفُسُھُمْ خٰلِدُوْنَ(۱۰۲) لَا یَحْزُنُھُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰھُمُ الْمَلٰٓءِکَۃُ ھٰذَا یَوْمُکُمُ الَّذِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳) 
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ(۱۰۴) 
وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْ م بَعْدِ الذِّکْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ(۱۰۵) اِنَّ فِیْ ھٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِیْنَ(۱۰۶) وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) قُلْ اِنَّمَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۸) فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ اٰذَنْتُکُمْ عَلٰی سَوَآءٍ وَاِنْ اَدْرِیْٓ اَقَرِیْبٌ اَمْ بَعِیْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ(۱۰۹) اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ مِنَ الْقَوْلِ وَیَعْلَمُ مَا تَکْتُمُوْنَ(۱۱۰) وَاِنْ اَدْرِیْ لَعَلَّہٗ فِتْنَۃٌ لَّکُمْ وَمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ(۱ا۱) 
قٰلَ رَبِّ احْکُمْ بِالْحَقِّ وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ(۱۱۲) 

(اب۲۹۳؎ اِن منکروں کے زیادہ درپے ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اے پیغمبر۔ اِس لیے کہ)ہم نے جس بستی والوں کے لیے (اپنے قانون کے مطابق) ہلاکت مقدر کر رکھی ہے۲۹۴؎، اُن کے لیے حرام ہے کہ وہ حق کی طرف رجوع کریں ۲۹۵؎، اِس لیے کہ وہ کبھی رجوع نہ کریں گے، یہاں تک کہ وہ وقت آجائے، جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں ۲۹۶؎اور وہ ہر بلندی سے پل پڑیں اور (قیامت کا) وعدۂ برحق قریب آجائے تو ناگہاں اِن منکروں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں اور بول اٹھیں کہ ہاے ہماری کم بختی! ہم اِس سے غفلت میں پڑے رہے، بلکہ ہم ظالم تھے۲۹۷؎۔ ۹۵-۹۷
تم اور تمھارے معبود جن کو اللہ کے سوا پوجتے رہے ہو،۲۹۸؎ اب جہنم کا ایندھن ہیں۔ تم (روؤ یا فریاد کرو)، اُس میں داخل ہو کر رہو گے۔ اگر یہ واقعی معبود ہوتے تو اُس میں نہ پڑتے    (یہ پوجنے والے اور جن کو پوجا گیا)، سب ہمیشہ اُسی میں رہیں گے۔ اب پوجنے والوں کو اُس میں چلانا ہے اور جن کو پوجتے رہے ہو، اُن کا حال یہ ہو گا کہ اُس میں کچھ نہ سنیں گے۔۲۹۹؎۹۸-۱۰۰
جن کے لیے، البتہ ہماری طرف سے اچھے انجام کا وعدہ ہو چکا ہے۳۰۰؎، وہ اُس سے دور رکھے جائیں گے، وہ اُس کی آہٹ بھی نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنے من بھاتے عیش میں رہیں گے۔۳۰۱؎ وہ بڑی گھبراہٹ ۳۰۲؎اُن کو ذرا غم میں نہ ڈالے گی اور خدا کے فرشتے اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ اورکہیں گے: یہ تمھارا وہی دن ہے، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ۱۰۱-۱۰۳
اُس دن، جب کہ ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے، جس طرح طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ ہم نے جس طرح پہلی خلقت۳۰۳؎ کی ابتدا کی تھی، اُسی طرح ہم اُس کا اعادہ کردیں گے۔ یہ ہمارے ذمے ایک حتمی وعدہ ہے۳۰۴؎، ہم اِس کو ضرور کرکے رہیں گے۔۱۰۴
ہم نے پندونصیحت کے بعد زبور میں لکھ دیا تھا۳۰۵؎ کہ (اُس دن جو) زمین۳۰۶؎(وجود میں آئے گی، اُس) کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ اِس میں اُن لوگوں کے لیے بڑی آگاہی۳۰۷؎ ہے جو (ہماری) بندگی کرنے والے ہیں۔ (یہ تم سے عذاب کا مطالبہ کرتے ہیں) اور ہم نے،(اے پیغمبر)، تم کو جو بھیجا ہے تو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ میری طرف تو صرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود ایک ہی معبود ہے تو کیا تم اپنے آپ کو اُس کے حوالے کرتے ہو؟ پھر اگر وہ اعراض کریں تو کہہ دو کہ میں نے تم سب کو یکساں خبردار کر دیا ہے۳۰۸؎۔ میں نہیں جانتا کہ وہ وقت قریب ہے یا دور جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ (اب معاملہ خدا کے حوالے ہے)۔ بے شک، وہی جانتا ہے اُس کو بھی جوسامنے کہہ رہے ہو اور اُس کو بھی جسے تم چھپاتے ہو۔۳۰۹؎ اورمجھے نہیں معلوم، شاید یہ فرصت تمھارے لیے ایک آزمایش اور ایک خاص وقت تک فائدہ اٹھا لینے کی مہلت ہو۔۱۰۵-۱۱۱
پیغمبر نے دعا کی کہ میرے پروردگار، حق کے ساتھ فیصلہ کر دے، اور فرمایا: ہمارا پروردگار رحمن ہی ہے، جس سے ہم اُن باتوں کے مقابلے میں مدد مانگتے ہیں جو تم بیان کرتے ہو۔۳۱۰ ؎۱۱۲

۲۹۳؎ یہاں سے آگے خاتمۂ سورہ کی آیات ہیں۔ اِن میں اُسی مضمون کو ازسرنو لے لیا ہے، جس سے سورہ شروع ہوئی تھی۔ یہ ’عود علی البدء‘ کا اسلوب ہے۔ اِس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اصل مدعا اگر نگاہوں سے اوجھل ہو گیا ہے تو خاتمۂ کلام میں اُس کو ایک مرتبہ پھر مخاطب کے ذہن میں تازہ کر دیا جائے۔

۲۹۴؎ آیت میں فعل ’اَھْلَکْنَا‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ فیصلۂ فعل کے معنی میں ہے۔

۲۹۵؎ یہ فقرہ اصل میں محذوف ہے۔ اِس کی وضاحت ’اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَ‘ کے جملے نے کر دی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تمھارے مخاطبین سنت الہٰی کی زد میں آچکے ہیں، اِس لیے اب یہ اُسی انجام کو پہنچیں گے، جس کو پچھلی قومیں پہنچی ہیں۔ اِن کے لیے ممکن نہیں ہے کہ توبہ و انابت کی توفیق پائیں اور باطل کو چھوڑ کر حق کی طرف رجوع کرلیں۔ اِن کی ہٹ دھرمی کے باعث اِن کے لیے ہلاکت مقدر ہو چکی ہے۔

۲۹۶؎ یعنی ظہور قیامت کے قطعی آثار نمودار ہو جائیں اور اُس کے بارے میں کسی بحث کی گنجایش نہ رہے۔ اگلی آیت سے واضح ہے کہ یاجوج و ماجوج کے خروج کے بعد یہی صورت پیدا ہو جائے گی۔ یہ دونوں نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں جو ایشیا کے شمالی علاقوں میں آباد ہوئی۔ پھر اُنھی کے بعض قبائل یورپ پہنچے اور اِس کے بعد امریکا اور آسٹریلیا کو آباد کیا۔ صحیفۂ حزقی ایل میں اِن کا تعارف روس، ماسکو اور توبالسک کے فرماں روا کی حیثیت سے کرایا گیا ہے۔ حزقی ایل فرماتے ہیں:

”اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد، جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرماں روا ہے متوجہ ہو اور اُس کے خلاف نبوت کر۔“ (۳۸: ۱-۲) 
”پس اے آدم زاد، تو جوج کے خلاف نبوت کر اور کہہ: خداوند یوں فرماتا ہے: دیکھ اے جوج، روش، مسک اور توبل کے فرماں روا، میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دوں گا اور تجھے لیے پھروں گا اور شمال کی دور اطراف سے چڑھا لاؤں گا۔“(۳۹: ۱-۲)

یوحنا عارف کے مکاشفے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن کے خروج کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ایک ہزار سال بعد کسی وقت ہو گی۔ اُس زمانے میں یہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اِن کا فساد جب انتہا کو پہنچے گا تو ایک آگ آسمان سے اترے گی اور قیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا:

”اور جب ہزار برس پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور اُن قوموں کو جو زمین کی چاروں طرف ہوں گی، یعنی جوج و ماجوج کو گم راہ کرکے لڑائی کے لیے جمع کرنے کو نکلے گا۔ اُن کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہو گا، اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گی اور مقدسوں کی لشکر گاہ اور عزیز شہر* کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور آسمان پر سے آگ نازل ہو کر اُنھیں کھا جائے گی۔“ (مکاشفہ۲۰: ۷-۹)

۲۹۷؎ یعنی یہ بات بھی نہیں کہ ہمیں کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا اور ہم غفلت میں پڑے رہے، بلکہ خبردار کرنے والوں کو جھٹلا کر اوراُن کی تنبیہات کا مذاق اڑا کر یہ ظلم اپنی جانوں پر ہم نے خود ڈھایا ہے۔

۲۹۸؎ یعنی تمھارے اصنام و احجار۔ یہاں چونکہ مشرکین عرب مخاطب ہیں، اِس لیے وہی مراد ہوں گے۔ آیت میں اِن کے لیے ’مَا‘ کا استعمال اِس کا مزید قرینہ ہے۔ قرآن نے دوسری جگہ ’وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ‘ کے الفاظ میں اِس کی تصریح کر دی ہے۔ اِنھیں جہنم کا ایندھن بنانے سے مقصود اِن پتھروں کو سزا دینا نہیں ہے، بلکہ اِن کے پوجنے والوں کی فضیحت ہے کہ دیکھ لو، جن کو معبود بنا کر پوجتے رہے ہو، اُن پر یہاں کیا گزر رہی ہے۔ اِن کے ساتھ، البتہ اُن جنوں اور انسانوں کو بھی شامل سمجھیے جنھوں نے پسند کیا کہ اللہ کے بجاے اُن کی بندگی کی جائے۔

۲۹۹؎ اصل الفاظ ہیں: ’ھُمْ فِیْھَا لَا یَسْمَعُوْنَ‘۔ آیت پر غور کیا جائے تو بادنیٰ تامل واضح ہو جاتا ہے کہ ’ھُمْ‘ کا مرجع پوجنے والوں کے معبود ہی ہیں جن کے لیے اوپر ’وَمَا تَعْبُدُوْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ بظاہر انتشار ضمیر ہے، لیکن مرجع میں التباس کا اندیشہ نہ ہو تو استاذ امام کے الفاظ میں، یہ ایجاز کے پہلو سے کلام کا حسن ہے۔ اِس کے ساتھ یہ امر بھی واضح رہے کہ یہاں ضمیر اور فعل پوجنے والوں کے تصور کے لحاظ سے وہی استعمال ہوئے ہیں جو ذی عقل ہستیوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تو اُنھیں سمیع و بصیر سمجھ کر ہی اُن سے دعائیں کرتے اور اُن کے پورا ہونے کی توقع رکھتے تھے۔

۳۰۰؎ اِس وعدے کا ذکر پیچھے آیت ۴۹ میں گزر چکا ہے۔

۳۰۱؎ یہ اِس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ اُنھیں جو کچھ دیا جائے گا، اُس کی یکسانی اُنھیں کبھی افسردہ نہ کرے گی کہ اُس سے اکتا کر وہ آگے کسی چیز کی خواہش کریں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...انسان ایک ذی ارادہ و اختیار ہستی ہے،اِس وجہ سے بڑے سے بڑے عیش کو بھی وہ اپنی ہی شرائط پر پسند کرتا ہے۔ اُس کی فطرت کے اِس تقاضے کی رعایت سے اللہ تعالیٰ نے اپنے باایمان بندوں کے لیے جنت بھی ایسی بنائی ہے، جس میں وہ اپنی پسند کے مطابق جس طرح کا تنوع چاہیں گے، پیدا کر لیں گے۔ اُن کی کسی خواہش میں کوئی ادنیٰ رکاوٹ بھی حائل نہیں ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہ عیش دوام اور اُس کے اندر حسب منشا تنوع اور رنگا رنگی پیدا کرنے کی یہ آزادی اِس دنیا میں ہفت اقلیم کے کسی شاہنشاہ کو بھی نہ حاصل ہوئی، نہ حاصل ہو سکتی۔“ (تدبرقرآن۵/ ۱۹۳)    

۳۰۲؎ یہ اُس گھبراہٹ اور ہلچل کی طرف اشارہ ہے جو نفخ صور کے بعد تمام کائنات میں برپا ہو گی۔ اِس کی ہول ناک تصویر قرآن کے آخری باب کی سورتوں میں دیکھ لی جا سکتی ہے۔

۳۰۳؎ اصل میں ’اَوَّلَ خَلْقٍ‘ کے الفاظ ہیں۔ یہ یہاں ظرف کے محل میں ہیں، جس طرح دوسرے مقامات میں اِسی مضمون کو ادا کرنے کے لیے ’اَوَّلَ مَرَّۃٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔

۳۰۴؎ اصل الفاظ ہیں:’وَعْدًا عَلَیْنَا‘۔ اِن میں مصدر تاکید کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۳۰۵؎ یہ زبور کے مزمور ۳۷ کا حوالہ ہے۔ اِسے دیکھیے تو اِس کی نوعیت ایک ترکیب بند کی ہے، جس میں موعظت و نصیحت کی باتوں کے بعد بار بار ایک ترجیع یا ٹیپ کے مصرعے کی طرح یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ زمین کے وارث خدا کے نیک اور متقی بندے ہوں گے اور یہ وراثت ابدی ہو گی۔ آیت میں ’مِنْ م بَعْدِ الذِّکْرِ‘ کے الفاظ سے قرآن نے اِسی چیز کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اِس کے چند الفاظ یہ ہیں:

”اور بدی کرنے والوں پر رشک نہ کر... خداوند پر توکل کر اور نیکی کر... وہ تیری راست بازی کو نور کی طرح اور تیرے حق کو دوپہر کی طرح روشن کرے گا۔ کیونکہ بدکردار کاٹ ڈالے جائیں گے، لیکن جن کو خداوند کی آس ہے، ملک کے وارث ہوں گے۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں شریر نابود ہو جائے گا۔ تو اُس کی جگہ غور سے دیکھے گا پر وہ نہ ہو گا، لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہیں گے... اُن کی میراث ہمیشہ کے لیے ہو گی... صادق زمین کے وارث ہوں گے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہیں گے۔“ (۱-۲۹)

استاذ امام لکھتے ہیں:

”... زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر اترے ہوئے نغمات الہٰی کا مجموعہ ہے۔ حضرت داؤد، جیسا کہ اِسی سورہ میں بیان ہوا ہے، نبی بھی تھے اور اِس زمین کے ایک جلیل القدر بادشاہ بھی۔ ایک بادشاہ کی زبان ہی سے یہ اعلان سب سے زیادہ موزوں ہو سکتا تھا کہ زمین کے حقیقی اورآخری وارث صرف اللہ کے نیک بندے ہی ہوں گے۔ جب ایک صاحب جبروت بادشاہ اِس حقیقت کی منادی کر گیا ہے تو کسی دوسرے کے لیے اِس میں مجال سخن کہاں باقی رہی!“(تدبرقرآن۵/ ۱۹۸) 

۳۰۶؎ اصل میں لفظ ’الْاَرْض‘ استعمال ہوا ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اُس کے وارث بلاشرکت غیرے صرف اللہ کے نیکوکار بندے ہوں گے۔ یہی بات زبور کے اُس مزمور میں بیان ہوئی ہے، جس کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اُس میں مزید صراحت ہے کہ یہ وراثت ابدی ہو گی۔ اِس سے واضح ہے کہ ’الْاَرْض‘ سے مراد یہاں اُس جہان نو کی زمین ہے جو قیامت کے بعد نئے نوامیس و قوانین کے ساتھ وجود میں آئے گی۔ سورۂ ابراہیم (۱۴) کی آیت ۴۸ میں اُسی کے بارے میں فرمایا ہے: ’یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ‘ (اُس دن کو یاد رکھو، جب یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی)۔

۳۰۷؎ اصل میں لفظ ’بَلٰغًا‘ آیا ہے۔ اِس کی تنکیر تفخیم شان کے لیے ہے اور اپنے مدعا کے لحاظ سے یہ عام منادی اور عام بشارت، دونوں کو شامل ہے۔

۳۰۸؎ یعنی امیر و غریب، چھوٹے بڑے، لیڈر اور پیرو، سب کو بغیر کسی فرق و تمیز کے خبردار کر دیا ہے۔

۳۰۹؎ مطلب یہ ہے کہ تم جو مطالبہ مجھ سے کر رہے ہو، اُس کو بھی جانتا ہے اور اُس کو بھی جو اُس مطالبے کی تہ میں چھپا ہوا ہے۔ اُس پر سب کچھ واضح ہے، اِس لیے وہی اپنے قانون اور اپنی حکمت کے مطابق فیصلہ کرے گا کہ تمھارے ساتھ اب کیا کرنا ہے۔

۳۱۰؎ سورہ کے آخر میں یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بھی ہے اور ہجرت و براء ت کے اِس مرحلے میں اپنے منکرین کو وداع بھی۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ صرف فیصلے ہی کا انتظار باقی رہ جاتا ہے۔

کوالالمپور 

۱۵/ اپریل۲۰۱۳ء

______________

* ’مقدسوں کی لشکر گاہ‘ سے مراد مدینہ اور ’عزیز شہر‘ سے مراد شہر امین مکہ ہے۔ یہ تعبیرات اتنی واضح ہیں کہ الہامی صحائف کے اسالیب اور اِن شہروں کی تاریخ سے واقف کسی شخص کو اِنھیں سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی۔

B