HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانبیاء ۲۱: ۷۸- ۹۴ (۳)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ) 


وَدَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَکُنَّا لِحُکْمِھِمْ شٰھِدِیْنَ(۷۸) فَفَھَّمْنٰھَا سُلَیْمٰنَ وَکُلاًّ اٰتَیْنَا حُکْمًا وَّعِلْمًا وَّسَخَّرْنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَالطَّیْرَ وَکُنَّا فٰعِلِیْنَ(۷۹) وَعَلَّمْنٰہُ صَنْعَۃَ لَبُوْسٍ لَّکُمْ لِتُحْصِنَکُمْ مِّنْ م بَاْسِکُمْ فَھَلْ اَنْتُمْ شٰکِرُوْنَ(۸۰) 
وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْءٍ عٰلِمِیْنَ(۸۱) وَمِنَ الشَّیٰطِیْنِ مَنْ یَّغُوْصُوْنَ لَہٗ وَیَعْمَلُوْنَ عَمَلًا دُوْنَ ذٰلِکَ وَکُنَّا لَھُمْ حٰفِظِیْنَ(۸۲) 
وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٓٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۸۳) فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَمِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ(۸۴) 
وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ(۸۵) وَاَدْخَلْنٰھُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا اِنَّھُمْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۸۶) 
وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۸۷) فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُجِی نْ   الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۸) 
وَزَکَرِیَّآ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ(۸۹) فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَوَھَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ اِنَّھُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ(۹۰) 
وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۹۱) 
اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ(۹۲) وَتَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ(۹۳) فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ وَاِنَّا لَہٗ کٰتِبُوْنَ(۹۴) 
اور داؤد و سلیمان کو بھی ہم نے اپنی نعمت سے سرفراز فرمایا۲۵۷؎۔ یاد کرو، جب وہ کھیتی کے مقدمے کا فیصلہ کر رہے تھے، جب اُس میں رات کے وقت کچھ لوگوں کی بکریاں جا پڑی تھیں ۲۵۸؎ اور اُن کا یہ فیصلہ ہم خود دیکھ رہے تھے۲۵۹؎۔ سو ہم نے سلیمان کو وہ قضیہ سجھا دیا اور ہم نے دونوں کو حکم اور علم عطا فرمایا تھا۲۶۰؎۔ اور پہاڑوں اور پرندوں کو ہم نے داؤد کا ہم نوا کر دیا تھا،۲۶۱؎ وہ (اُس کے ساتھ)خدا کی تسبیح کرتے تھے،۲۶۲؎ اور (اُن کے لیے یہ) ہم ہی کرنے والے تھے۲۶۳؎۔ اور ہم نے اُس کو تمھارے لیے ایک جنگی لباس کی صنعت سکھائی تھی تاکہ وہ تمھاری جنگوں میں تمھیں بچائے رکھے۔۲۶۴؎ (وہ اِن سب نعمتوں کو پا کر اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا تھا)۔ پھر کیا تم بھی (اِس طرح) شکر گزار بنتے ہو؟۲۶۵؎ ۷۸-۸۰
اور سلیمان کے لیے ہم نے تیز ہواؤں کو مسخر کر دیا تھا۲۶۶؎ جو اُس کے حکم سے اُس سرزمین کی طرف چلتی تھیں، جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں ۲۶۷؎اورہم ہر چیز کے جاننے والے تھے۔۲۶۸؎ اور شیاطین ۲۶۹؎میں سے بھی ہم نے اُس کے تابع کیے تھے جو اُس کے لیے (سمندروں میں) غوطے لگاتے تھے اور اُس کے سوا دوسرے کام بھی کرتے تھے، اور ہم ہی اُن کو تھامے ہوئے تھے۲۷۰؎۔۸۱-۸۲
اور ہم نے ایوب پر بھی عنایت فرمائی تھی، ۲۷۱؎جب اُس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ میں آزار میں مبتلا ہوں اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۲۷۲؎۔ (اُس نے پکارا) تو ہم نے اُس کی فریاد سن لی اور جس تکلیف میں وہ مبتلا تھا، اُس کو دور کر دیا اور اُس کے اہل و عیال بھی اُس کو دیے، بلکہ اُن کے ساتھ اتنے ہی اور بھی،۲۷۳؎ اپنی خاص رحمت سے اور اِس لیے کہ یہ ایک یاددہانی ہو خدا کی بندگی کرنے والوں کے لیے۔ ۸۳-۸۴
اور یہی عنایت اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل پر بھی ہوئی۔ یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۲۷۴؎۔ اِن کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کر لیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ (ہمارے) نیک بندوں میں سے تھے۔ ۸۵-۸۶
اور مچھلی والے (یونس) پر بھی،۲۷۵؎ جب وہ (اپنی قوم سے)برہم ہو کر چلا گیا ۲۷۶؎اور اُس نے خیال کیا کہ ہم اُس پر کوئی گرفت نہ کریں گے۔۲۷۷؎ لیکن پھر اندھیروں میں ۲۷۸؎ پکار اٹھا کہ (پروردگار)، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں، تو پاک ہے، بے شک میں ہی قصور وار ہوں ۲۷۹؎۔ تب اُس کی دعا ہم نے قبول کر لی اور اُس کو غم سے نجات دی۔۲۸۰؎ ایمان والوں کو ہم اِسی طرح نجات دیتے ہیں ۲۸۱؎۔۸۷-۸۸
اور زکریا پر بھی، جب اُس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ میرے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ۲۸۲؎اور تو سب وارثوں سے بہتر وارث ہے۲۸۳؎۔ پھر اُس کی یہ دعا ہم نے قبول کی۲۸۴؎ اور اُسے یحییٰ عطا فرمایا اور اُس کی بیوی کو اُس کے لیے بھلا چنگا کر دیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ لوگ نیکی کے کاموں میں سبقت کرتے تھے اور امید و بیم کی ہر حالت میں ہم کو پکارتے اور ہمارے آگے سرافگندہ رہنے والے تھے۲۸۵؎۔۸۹-۹۰
اور اُس خاتون پر بھی۲۸۶؎ جس نے اپنا دامن پاک رکھا ۲۸۷؎تو ہم نے اُس کے اندر اپنی روح پھونک دی ۲۸۸؎اور اُس کو اور اُس کے بیٹے (عیسیٰ) کو دنیا والوں کے لیے ایک نشانی بنا دیا۔۹۱
(چنانچہ) یہ حقیقت ہے کہ یہ تمھاری امت ہے، ایک ہی امت ۲۸۹؎ اور میں ہی تمھارا پروردگار ہوں، اِس لیے میری ہی بندگی کرو۔۲۹۰؎ مگر (یہ لوگ ہیں کہ)اِنھوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے۲۹۱؎۔ (تم اِن کی پروا نہ کرو)، یہ سب ہماری ہی طرف لوٹنے والے ہیں۔ پھر جو نیک عمل کرے گا اور ایمان پر بھی ہو گا۲۹۲؎ تو اُس کی محنت کی ناقدری نہ ہو گی۔ ہم اُس کے لیے اُسے لکھ رہے ہیں۔۹۲-۹۴

۲۵۷؎ آیت میں ’دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ‘ کا نصب بھی اُسی طرح ہے، جس طرح اوپر ’نُوْحًا‘ کا نصب بیان ہوا ہے۔

۲۵۸؎ اِس مقدمے کی اللہ تعالیٰ نے اِس سے زیادہ کوئی تفصیل نہیں فرمائی ہے کہ کسی کی بکریوں کا ریوڑ کسی کے کھیت میں جا پڑا تھا اور وہ نقصان کی تلافی کے لیے اپنا مقدمہ لے کر داؤد علیہ السلام کی عدالت میں آیا تھا، اِس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کا مقصد یہاں مقدمے کی روداد پیش کرنا نہیں ہے، بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ حضرت داؤد ایک حکمران اور پیغمبر ہونے کے باوجود اپنے فیصلوں میں کس قدر محتاط تھے اور کس طرح ہر وقت تیار رہتے تھے کہ اپنے سے فروتر کوئی شخص بھی اگر غلطی پر متنبہ کرے تو اُسے بغیر کسی تردد کے تسلیم کر لیں۔

۲۵۹؎ اِس لیے کہ پیغمبر کی حکومت درحقیقت اللہ تعالیٰ کی حکومت ہوتی ہے۔ اُس کے تمام فیصلے براہ راست اُس کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی جگہ اگر غلطی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ فوراً اُس کی اصلاح کر دیتا ہے۔

۲۶۰؎ یعنی اگرچہ دونوں کو صحیح قوت فیصلہ اور علم نبوت عطا ہوا تھا، لیکن حضرت داؤد اِس قضیے میں معاملے کی تہ تک نہیں پہنچ سکے۔ چنانچہ بیٹے نے راے دی جو زیادہ صائب اور قرین عدل تھی اور اُنھوں نے اُسی کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ اُس کو محض اِس لیے رد نہیں کر دیا کہ اِس سے اُن کے اجتہاد کا ضعف نمایاں ہوتا تھا۔

۲۶۱؎ آیت میں فعل ’یُسَبِّحْنَ‘ کو ’طَیْر‘ پر مقدم کر دیا ہے، دراں حالیکہ یہ ’جِبَال‘ اور ’طَیْر‘، دونوں سے متعلق ہے اور بظاہر اِس کو بعد میں آنا چاہیے تھا، اِس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ پرندوں کے نغمے تو ہم سب سنتے ہیں، لیکن پہاڑوں کی نواسنجی ایک نادر بات تھی، چنانچہ ضروری تھا کہ اُسے نمایاں کیا جائے۔

۲۶۲؎ مطلب یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام جس طرح عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کرتے تھے،اُسی طرح دعا و مناجات کے لیے بھی کمال انابت کے ساتھ نغمہ سنج ہوتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... تورات سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت داؤد نہایت خوش الحان تھے اور اِس خوش الحانی کے ساتھ ساتھ اُن کے اندر سوز و درد بھی تھا۔ مزید براں یہ کہ اُن کی تمام مناجاتیں گیتوں اور نغموں کی شکل میں ہیں اور یہ گیت الہامی ہیں۔ اِن گیتوں کا حال یہ ہے کہ زبور پڑھیے تو اگرچہ ترجمے میں اِن کی شعری روح نکل چکی ہے، لیکن آج بھی اِن کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دل سینے سے نکل پڑے گا۔ حضرت داؤد جیسا خوش الحان اور صاحب سوز و درد جب اِن الہامی گیتوں کو پہاڑوں کے دامن میں بیٹھ کر، سحر کے سہانے وقت میں، پڑھتا رہا ہو گا تو یقینا پہاڑوں سے بھی اُن کی صداے بازگشت سنائی دیتی رہی ہو گی اور پرندے بھی اُن کی ہم نوائی کرتے رہے ہوں گے۔ یہ نہ خیال فرمائیے کہ یہ محض شاعرانہ خیال آرائی ہے، بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ اِس کائنات کی ہر چیز، جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے، اپنے رب کی تسبیح کرتی ہے، لیکن ہم اُن کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ اُن کا یہ شوق تسبیح اُس وقت اور بھڑک اٹھتاہے، جب کوئی صاحب درد کوئی ایسا نغمہ چھیڑ دیتا ہے جو اُن کے دل کی ترجمانی کرتا ہے۔ اُس وقت وہ بھی جھوم اٹھتے ہیں اور اُس کی لے میں اپنی لے ملاتے ہیں۔“(تدبر قرآن۵/ ۱۷۳)

۲۶۳؎ یعنی اِس میں اُن کا کوئی ذاتی کمال نہیں تھا، بلکہ یہ سب نعمتیں ہم ہی نے اُن کو عطا فرمائی تھیں۔

۲۶۴؎ مطلب یہ ہے کہ اُن کے دور میں سائنسی علوم میں بھی ایسی ترقی ہوئی کہ اعلیٰ درجے کی زرہیں بنائی گئیں جنھوں نے داؤد علیہ السلام کی فوج کو ناقابل تسخیر بنا دیا اور اِس کے نتیجے میں وہ دنیا کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن گئے۔ آیت میں لفظ ’عَلَّمْنٰہُ‘ آیا ہے۔ اِس میں ضمیر کا مرجع داؤد علیہ السلام ہیں، لیکن اِس سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ اُسی طرح کی نسبت ہے، جس طرح ہم کہتے ہیں کہ تاج محل شاہ جہان نے بنایا تھا۔

۲۶۵؎ اوپر تین چیزوں کا ذکر ہوا ہے: ایک حق پرستی، دوسرے بندگی و انابت میں ایسا انہماک کہ پہاڑ اور پرندے بھی دعا و مناجات میں ہم نوا بن جائیں، تیسرے عظیم سیاسی قوت۔ اِس کے بعد وہ کون سی چیز ہے، جس کی انسان دنیا میں تمنا کر سکتا ہے؟ قرآن نے اپنے مخاطبین کو توجہ دلائی ہے کہ تم اپنی رفاہیت پر اکڑ رہے ہو۔ اِدھر ذرا خدا کے اِس بندے کو دیکھو کہ یہ سب نعمتیں پا کر بھی نہ اُس میں دین داری کا غرور پیدا ہواا ور نہ مال و دولت اور دنیوی اقتدار کی نخوت۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتا رہا، اُس کے مقابل میں کبھی سرکش نہیں ہوا۔ پھر کیا تم بھی سرکشی چھوڑ کر اِسی طرح خدا کے شکر گزار بنتے ہو؟

۲۶۶؎ یعنی خدمت میں لگا دیا تھا۔ آیت میں ’سُلَیْمٰنَ‘ کا ’ل‘ اِ س بات کا قرینہ ہے کہ فعل ’سخرنا‘ یہاں محذوف ہے۔

۲۶۷؎ یہ اُن علاقوں کے لیے الہامی صحائف کی خاص تعبیر ہے جو بنی اسرائیل کے لیے خاص کیے گئے تھے اور اُن کے لیے دینی اوردنیوی، ہر قسم کی برکتیں اُن میں رکھ دی گئی تھیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کی بری قوت تو بہت تھی، لیکن اُن کی حکومت میں بحری قوت میں بے مثال ترقی حضرت سلیمان کے عہد میں ہوئی۔ اُنھوں نے ایسے بادبانی جہاز ایجاد کیے جو ہندوستان اور مغربی جزائر تک سفر کرتے تھے۔ اُن کا بحری بیڑا وقت کا سب سے زیادہ طاقت ور بیڑا تھا۔ بحر احمر میں اُس کا مرکز ترسیس تھا جو خلیج عقبہ میں واقع تھا اور بحر متوسط میں صور، طائر اور یافہ کی بندرگاہیں۔ اُس زمانے تک سمندری ہواؤں کو کنٹرول کرنے کا ذریعہ بادبان ہی تھے۔ یہی بادبان جہازوں کے لیے انجن کا کام دیتے تھے۔ حضرت سلیمان نے ایسے بادبان ایجاد کیے جو تند ہواؤں میں بھی جہاز کی آمدو رفت میں خلل واقع نہیں ہونے دیتے تھے۔ وہ اپنی معینہ سمتوں میں، موافق و ناموافق ہر قسم کی ہوا میں، اپنے لمبے لمبے سفر بے خوف و خطر جاری رکھتے۔ یہ چیزچونکہ خدا کی سکھائی ہوئی سائنس کا ثمرہ تھی، اِس وجہ سے فرمایا کہ ہم نے سلیمان کے لیے تند ہوائیں مسخر کر دی تھیں جو اُس کے حکم سے چلتی تھیں۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۷۵)

۲۶۸؎ یعنی اِس چیز کے بھی جاننے والے تھے کہ جس شخص کو ہواؤں پر یہ تصرف بخشا گیا، وہ فی الواقع اِس فضل و عنایت کا اہل ہے اور اِس کے بھی کہ وہ ہماری بخشی ہوئی قوتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔

۲۶۹؎ یعنی شیاطین جن۔ دوسری جگہ قرآن نے اِس کی وضاحت کر دی ہے۔

۲۷۰؎ مطلب یہ ہے کہ وہ علم بھی ہمارا عطا کردہ تھا، جس سے اُنھیں مسخر کیا گیا تھا اور اُس کے بعد بھی اُن کے اصلی نگران ہم ہی تھے۔ اُن میں سے کسی کے لیے ممکن نہ تھا کہ بھاگ سکے یا حضرت سلیمان کے منشا کے خلاف کوئی کام کرے۔

۲۷۱؎ یعنی اُس کو بھی علم و حکمت سے اُسی طرح نوازا تھا، جس طرح اوپر جن پیغمبروں کا ذکر ہوا ہے، اُن کو نوازا تھا۔ قرآن میں ایوب علیہ السلام کا ذکر جس طریقے سے ہوا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اسرائیلی پیغمبر تھے جو غالباً نویں صدی قبل مسیح میں کسی وقت ہوئے ہیں۔ بائیبل کا بیان ہے کہ یہ ابتدا میں بہت دولت مند تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...خدانے اُنھیں بڑا خاندان اور بڑی دولت دے رکھی تھی۔ اُن کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ سات ہزار بھیڑیں، تین ہزار اونٹ، ایک ہزار بیل اور پانچ سو باربرداری کے گدھے اُن کے پاس تھے۔ اُن کے نوکر چاکر بھی بے شمار تھے۔ اہل مشرق میں اِس درجے کا مال دار کوئی اور نہ تھا۔ لیکن یہ تمام خدم و حشم رکھنے کے باوجود وہ خدا کے نہایت شکرگزار اور فرماں بردار بندے تھے۔ کبھی کسی برائی سے وہ آلودہ نہ ہوئے۔“(تدبر قرآن۵/ ۱۷۷)

۲۷۲؎ اِس دعا کا پس منظر سفر ایوب میں یہ بیان ہوا ہے کہ اِس قدر دولت مندی کے باوجود ایوب علیہ السلام کی نیکی، تقویٰ اور خدا پرستی پر شیطان اور اُس کے ایجنٹوں کو حسد ہوا اور اُنھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ تمام نیکی، تقویٰ اور خدا پرستی اِس لیے ہے کہ خدا نے اِسے اتنا کچھ دے رکھا ہے۔ یہ سب نعمتیں اگر اِس سے چھین لی جائیں تو پھر دیکھیے گا، یہ بھی خدا کا شکر گزار نہ ہو گا۔ اِس کے بعد خدا کی آزمایشوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ پہلے مال و دولت اور خاندان کا صفایا ہوا، لیکن خدا سے مایوس ہونے کے بجاے ایوب علیہ السلام اُسی کے دروازے پر گر پڑے۔ سفر ایوب میں ہے:

”تب ایوب نے اٹھ کر اپنا پیراہن چاک کیا اور سر منڈایا اور زمین پر گر کر سجدہ کیا اور کہا: ننگا میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو۔“ (۱: ۲۲)

اِس کے بعد وہ آزار شروع ہوا، جس کا ذکر دعا میں کیا گیا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ سفر ایوب کے مطابق ایوب علیہ السلام کے تلوے سے لے کر سر کی چاندی تک سارے جسم میں جلتے ہوئے پھوڑے نکل آئے اور وہ ایک ٹھیکرا لے کر اپنا جسم کھجاتے اور راکھ پر بیٹھے رہتے تھے۔ ایوب علیہ السلام نے یہ دعا اِسی موقع پر کی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اِس دعا کی اِس بلاغت کو ملحوظ رکھیے کہ حضرت ایوب نے اپنے دکھ اور درد کا حوالہ تو دیا، لیکن حرف مدعا کو زبان پر نہیں لائے، اُس کو خدا کی رحمت پر چھوڑ دیا۔ فرمایا کہ میں دکھی ہوں اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنا دکھ تیرے آگے پیش کرتا ہوں اور معاملہ تیری رحمت کے حوالہ کرتاہوں۔ تو جو کچھ کرے گا،اپنی شان رحیمی کے مطابق کرے گا اور اُسی میں میرے لیے برکت و رحمت ہے۔ یہی وہ مقام ہے، جس کو مقام رضا کہتے ہیں۔ جو اِس مقام کو حاصل کر لیتا ہے، اُسی کو آخرت میں ’رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کا درجہ حاصل ہو گا۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۷۸)

۲۷۳؎ یعنی جب صبر و رضا کے اِس امتحان میں وہ کامیاب ہو گئے توخدا نے وہ بھی دیا جو اُنھوں نے مانگا تھا اور وہ بھی جس کا وہ اپنی تواضع کے سبب سے اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھ رہے تھے:

”...خداوند نے ایوب کو، جتنا اُس کے پاس پہلے تھا، اُس کا دوچند دیا۔ تب اُس کے سب بھائی اور سب بہنیں اور اُس کے سب اگلے جان پہچان اُس کے پاس آئے اور اُس کے گھر میں اُس کے ساتھ کھانا کھایا...یوں خداوند نے ایوب کے آخری ایام میں ابتدا کی نسبت زیادہ برکت بخشی اور اُس کے پاس چودہ ہزار بھیڑبکریاں اور چھ ہزار اونٹ اور ہزار جوڑی بیل اور ہزار گدھیاں ہو گئیں۔ اُس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں بھی ہوئیں... اور اِس کے بعد ایوب ایک سو چالیس برس جیتا رہا اور اپنے بیٹے اور پوتے چوتھی پشت تک دیکھے۔“ (سفر ایوب ۴۲: ۱۰-۱۶)   

۲۷۴؎ یعنی اِن کو بھی اِسی طرح صبر و رضا کے امتحان سے گزارا اور یہ بھی ہر لحاظ سے ثابت قدم رہے۔ حضرت اسمٰعیل کا امتحان تو معلوم و معروف ہے، لیکن حضرت ادریس اور حضرت ذوالکفل کی سرگذشت حیات بالکل پردۂ خفا میں ہے۔ اُن کے بارے میں ہم اتنا ہی جانتے ہیں، جتنا قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات میں بیان کر دیا ہے۔

۲۷۵؎ پرانے صحیفوں میں اِن کا نام یوناہ آیا ہے۔ یہ عراق کے ایک قدیم شہر نینویٰ کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گئے تھے، جس کی آبادی اُس وقت ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ اِن کو چونکہ مچھلی نے نگل لیا تھا، اِس لیے قرآن میں اِن کا ذکر ایک قسم کے پیار کے ساتھ اور اِس واقعے کی تلمیح کے لیے مچھلی والے کے لقب سے ہوا ہے۔

۲۷۶؎ رسولوں کے بارے میں خدا کی سنت ہے کہ اتمام حجت کے بعد اگر اُن کے مخاطبین بدستور رسول کے منکر بنے رہیں تو رسول کو حکم دیا جاتا ہے کہ اُن لوگوں کو چھوڑ کر وہ اُن کی بستی سے نکل جائے۔ اِس کے بعد لوگوں پر عذاب آجاتا ہے۔ یونس علیہ السلام نے خیال کیا کہ اپنی قوم کو سمجھانے کے لیے جو کچھ میں کر سکتا تھا، کر چکا ہوں۔ یہ نہایت سنگ دل لوگ ہیں اور حق کی ناقدری کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں، اِس لیے اب اِن سے ہجرت کا وقت آگیا ہے۔ چنانچہ خدا کی طرف سے اُس کا حکم ملے بغیر وہ اُن سے مایوس اور آزردہ ہو کر اُنھیں چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ اِسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

۲۷۷؎ یعنی اُنھوں نے خیال کیا کہ میں چونکہ یہ اقدام اپنی طرف سے دعوت و تبلیغ کا حق ادا کر دینے کے بعد اور بالکل صحیح وقت پر کر رہا ہوں، اِس لیے اِس پر کسی گرفت کا اندیشہ نہیں ہے، لیکن اُن کا یہ خیال صحیح نہیں تھا، اِس لیے کہ قوم پر اتمام حجت ہوا ہے یا نہیں، اِس کا فیصلہ کوئی شخص اپنی راے اور اجتہاد سے نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اِس پر گرفت ہوئی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”حضرت یونس کا یہ خیال بجاے خود ایک پاکیزہ جذبے پر مبنی تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو آزمایشیں مقرر کر رکھی ہیں، وہ لازماً پوری ہو کے رہتی ہیں۔ وہ قوم سے بے زار ہو کر، ایک کشتی میں، جو سفر پر روانہ ہونے کے لیے بالکل تیار کھڑی تھی، سوار ہو گئے۔ کشتی کچھ منزل طے کرنے کے بعد طوفان میں گھر گئی۔ جب طوفان کسی طرح ٹلتا نظر نہیں آیا تو ملاحوں نے اُس زمانے کے عام وہم کے مطابق یہ خیال کیا کہ ہو نہ ہو اِس کشتی میں اپنے آقا سے بھاگا ہوا کوئی غلام سوار ہو گیا ہے، جب تک اُسے پکڑ کر سمندر کے حوالے نہ کیا جائے گا، اِس طوفان سے نجات نہیں مل سکتی۔ بالآخر یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کشتی میں مفرور غلام کون ہے، قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ ڈالنے کی خدمت، جیسا کہ سورہئ صافات میں اشارہ ہے، حضرت یونس ہی کے سپرد ہوئی۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہوئی ہوگی کہ تمام اہل کشتی میں لوگوں کو سب سے زیادہ ثقہ آدمی وہی نظر آئے ہوں گے۔ بہرحال قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ حضرت یونس کے نام کا نکلا جس کے نتیجے میں وہ کشتی سے سمندر میں لڑھکا دیے گئے۔ سمندر میں اُن کو کسی بڑی مچھلی، غالباً وہیل نے نگل لیا*۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۸۱)

۲۷۸؎ یعنی مچھلی کے پیٹ اور پاتال کی گہرائیوں کے اندھیروں میں، جہاں سے صرف زمین و آسمان کا پروردگار ہی کسی فریاد کرنے والے کی فریاد سن سکتا تھا۔ اِس میں جمع اندھیرے کی شدت اور اُس کے اطراف کی وسعت اور اُس کے ناپیداکنار ہونے کو ظاہر کر رہی ہے۔

۲۷۹؎ اِس دعا کا ذکر صحیفہئ یونس میں بھی ہوا ہے اور اِسی مضمون کی ایک مفصل دعا نقل کی گئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... اِس دعا میں اُن کی طرف سے طلب و تمنا کسی چیز کی بھی نہیں ہے۔ صرف اپنی تقصیر کا اعتراف و اظہار ہے۔ اعتراف تقصیر کے بعد اُنھوں نے اپنے معاملے کو اپنے رب پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ جو فیصلہ فرمائے، وہی حق ہے اور اُسی میں حکمت و رحمت ہے، اِس لیے کہ وہ ہر عیب سے پاک ہے۔ سب سے پہلے خدا ہی کے معبود اور ملجا و ماویٰ ہونے کا اظہار کیا ہے، اِس کے بعد اُس کو ہر نقص و عیب سے پاک اور منزہ قرار دیا ہے، پھر اپنی تقصیر کا اعتراف فرمایا ہے کہ یہ جو کچھ پیش آیا، سر تا سر میری اپنی ہی غلطی کا نتیجہ ہے۔ میں نے خود ہی اپنی جان پر ظلم ڈھایا، میرے رب نے مجھ پر کوئی ظلم نہیں کیا۔“(تدبرقرآن ۵/ ۱۸۳)

۲۸۰؎ یعنی اُس غم سے بھی نجات دی جو اُنھیں اپنی قوم کی طرف سے پیش آیا اور اُس غم سے بھی جس سے وہ اپنی قوم کو چھوڑنے کے بعد خدا کی گرفت کے باعث دوچار ہوئے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول فرمائی اور مچھلی نے اُن کو ساحل کی ریت پر اگل دیا۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے اُن کے نڈھال جسم کو گرمی اور دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لیے کدو یا اِسی قسم کی کوئی بیل اگا رکھی تھی، جس کے نیچے اُن کو پناہ ملی۔ جب اِس حادثے سے اوسان بجا ہوئے اور جسم میں کچھ جان آئی تو اُن کو پھر اہل نینوا کے پاس انذار کے لیے جانے کی ہدایت ہوئی۔ صحیفۂ یونس سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس دوبارہ انذار کے لیے قدرت نے ایک موثر تقریب بھی پیدا کر دی۔ وہ یوں کہ وہ بیل جس کے سایے نے حضرت یونس کو امان دی تھی، کسی سبب سے دفعتاً سوکھ گئی۔ احسان شناس لوگ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے احسان کی بھی قدر کرتے ہیں۔ حضرت یونس کو اِس یادگار بیل کے یوں خشک ہو جانے کا احساس ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس پر اُن کو توجہ دلائی کہ ایک حقیر بیل، جس کے لگانے اور پروان چڑھانے پر تم نے کوئی محنت نہیں کی، سوکھ جانے پر تم یوں ملول ہوئے تو غور کرو کہ میں اُس عظیم نینوا کو کس طرح اپنے عذاب کے حوالے کر سکتا ہوں، جس کو میں نے پیدا کیا، جس کی پرورش کی اور جس کو پروان چڑھایا ہے؟ جاؤ، اُن کو پھر دعوت دو، شاید وہ نیکی کی راہ اختیار کریں اور میری رحمت کے مستحق ٹھیریں۔ اِس ہدایت کے مطابق حضرت یونس پھر اہل نینوا کے پاس انذار کے لیے گئے اور اُن کی اِس دوبارہ دعوت و تذکیر کا یہ اثر ہوا کہ بادشاہ سے لے کر نینوا کے عام باشندے تک سب کانپ اٹھے، سب خدا پر ایمان لائے، بادشاہ نے شاہی لباس اتار کر ٹاٹ کا پیرہن پہن لیا اور باشندوں کے نام فرمان جاری کیا کہ ہر کوئی اپنی بری راہ سے باز آجائے، روزہ رکھے، خدا کے حضور زاری کرے اور توبہ و انابت کا سر جھکائے**۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۸۱)

۲۸۱؎ اِس فقرے سے تمام سرگذشت مطابق حال ہو گئی ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بھی اطمینان دلادیا گیا ہے کہ اِس وقت جن تاریکیوں میں آپ لوگ گھرے ہوئے ہیں، وہ بھی ایک دن اِسی طرح کا فور ہو جائیں گی۔

۲۸۲؎ یعنی اکیلا نہ چھوڑ، بلکہ کوئی ایسا وارث عطا فرما جو میری اور یعقوب کے خاندان کی دینی روایات کا حامل ہو۔ سورۂ مریم (۱۹) کی آیات ۵-۶میں وضاحت ہے کہ حضرت زکریا کی بیوی بانجھ تھیں اور اُنھوں نے یہ دعا اُس وقت کی جب وہ خود بڑھاپے کی منزل میں داخل ہو چکے تھے۔ وہاں یہ سرگذشت تفصیل کے ساتھ گزر چکی ہے۔

۲۸۳؎ یہ جملہ دعا کے ایک خاص پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... مطلب یہ ہے کہ میں یہ دعا جو کر رہا ہوں،صرف اِس لیے کر رہا ہوں کہ تیرے دین کی خدمت کی جو سعادت اِس خاندان کو تیرے فضل سے حاصل رہی ہے، اُس سے یہ خاندان محروم نہ رہ جائے، ورنہ میں جانتا ہوں کہ تو جس کو چاہے گا، اِس خدمت کے لیے اٹھا کھڑا کرے گا، تو کسی کا محتاج نہیں ہے۔“(تدبرقرآن ۵/ ۱۸۴)

۲۸۴؎ یہ دعا ایک اعلیٰ دینی مقصد کے لیے تھی، اِس لیے درخور قبول ٹھیری۔

۲۸۵؎ یعنی خدا کے خالص بندے تھے۔ اُن کا کردار منافقانہ یا مشرکانہ نہیں تھا۔ یہ زکریا علیہ السلام کے خاص اہل بیت اور اُن سے وابستہ لوگوں کا ذکر ہے۔ اُن کے بنی اعمام اِس کے مصداق نہیں ہو سکتے۔ اُن کی حالت جیسی کچھ تھی، وہ سورۂ مریم (۱۹) میں بیان ہو چکی ہے۔

۲۸۶؎ سیدہ مریم مراد ہیں۔ آگے جو صفت بیان ہوئی ہے، وہ اُن کے ساتھ ایسی خاص ہو چکی ہے کہ اُن کا نام لیے بغیر ہی قرآن کا ہر قاری سمجھ لیتا ہے کہ اُس کا مصداق کیا ہے۔

۲۸۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا‘۔ اِس میں لفظ ’فَرْج‘ اندیشے کی جگہ کے معنی میں آیا ہے اور یہ عربی زبان میں اُسی طرح کا ایک محاورہ ہے، جس طرح ’سد الثلمۃ‘،’رتق الفتق‘ اور ’جبر الکسر‘ وغیرہ کے محاورات آتے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے وجود کے اُن تمام حصوں پر پہرا لگائے رکھا، جہاں سے کوئی بدی راہ پا سکتی تھی۔ آگے اِسی کا صلہ بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اپنی ایک عظیم نشانی کے ظہور کے لیے منتخب فرمایا اور اُن کے لیے اپنی وہ شان ظاہر فرمائی جو استاذ امام کے الفاظ میں، اِس آسمان کے نیچے کسی کے لیے بھی ظاہر نہیں فرمائی۔

۲۸۸؎ یعنی اُس کے ہاں بیٹے کی پیدایش کے لیے عام قانون سے ہٹ کر اپنا حکم اُسی طرح براہ راست نازل کر دیا، جس طرح آدم و حوا کے لیے نازل کیا تھا۔

۲۸۹؎ یہ تمام نبیوں کا ذکر کرنے کے بعد بطور خلاصہئ بحث فرمایا ہے کہ تم سب ایک ہی امت ہو، اِس لیے کہ جن کو اپنا پیشوا مانتے ہو، اُن سب کا دین اور اُن کی دعوت ابتدا سے انتہا تک ایک ہی ہے۔ اپنی اصل کے لحاظ سے وہ الگ الگ دین لے کر نہیں آئے، بلکہ ایک ہی طریقے پر اور ایک ہی پروردگار کے راستے کی دعوت دیتے رہے ہیں۔

۲۹۰؎ یہ اُس دعوت کا خلاصہ بیان کر دیا ہے جو خدا کے پیغمبروں نے ہمیشہ دی ہے۔

۲۹۱؎ یعنی خدا کے دین میں اپنی طرف سے نئی نئی بحثیں پیدا کرکے اُس کے جو مختلف ایڈیشن تیار کیے گئے ہیں، وہ سب لوگوں کی ایجاد ہیں اور اُنھی نے دین حق کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کئی دینوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اِس تقسیم و تفریق کا خدا اور اُس کے بھیجے ہوئے نبیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

۲۹۲؎ اچھے عمل کی قبولیت کے لیے یہ لازمی شرط ہے۔ اِس کے بغیر خدا کے ہاں کسی عمل کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اُس کے ہاں وہی عمل درخور قبول ہے جو اُس کے لیے اور اُس پر ایمان کے ساتھ کیا گیا ہے۔

[باقی]

________

* یہ تمام تفصیل صحیفۂ یونس اور قرآن کی تصریحات و اشارات پر مبنی ہے۔

** یہ تمام تفصیل صحیفۂ یونس اور قرآن کی تصریحات و اشارات پر مبنی ہے۔

_____________

B