قرآن مجید کو اس وضاحت کے ساتھ اتاراگیاہے کہ یہ سراسرہدایت اورحق کے معاملے میں پیداہوجانے والے اختلافات میں خداکی آخری حجت ہے۔اس کی دین میں یہی حیثیت ہے کہ اسے سیکھنے اوردوسروں کوسکھانے کاکام ہر زمانے میں حقیقی مسلمانوں کاہدف رہا ہے۔یہ کام شروع دورمیں بہت سادہ اورکسی حدتک آسان بھی تھاکہ لوگ اس کی زبان سے مکمل طورپرآشنا،اس کی آیات کے پس منظر اور جس ماحول میں یہ اُتریں،اُن سے اچھی طرح سے واقف تھے۔لیکن یہ قدرے مشکل اور پیچیدہ ہوتا چلا گیاجب اس کتاب کے براہ راست مخاطبین اس دنیامیں نہ رہے اور بعد میں آنے والوں کی زبان میں کچھ ناگزیرتبدیلیاں رونماہونے لگیں۔ الفاظ میں متولد مفاہیم پیدا ہوئے تو بعض اسالیب متروک ہوکرنئی نئی صورتوں میں ظاہرہونے لگے۔اس سلسلے کی ایک مشکل اُن نومسلموں کے ہاں بھی پیدا ہوئی جو عربی زبان سے قطعی نابلدہونے کی بناپر اپنے اورقرآن کے درمیان میں ایک قدرتی حجاب دیکھتے تھے۔ یہ حالات تھے جن میں صاحبان علم کواس بات کا شدت سے احساس ہواکہ فہم قرآن کے کام کوباقاعدہ علمی طریقے سے انجام دیاجائے ۔سواُنھوں نے اسے متعددزبانوں میں بیان کرنا شروع کیاجوترجمہ کی ایک مستقل اورشان دار روایت کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔اس سے پہلے کتاب کا اصل مدعا جاننے کے لیے انھوں نے بہت سی تفسیری کاوشوں کابھی اہتمام کیااوراس کے لیے عام طورپردوطریقوں کواختیارکیا:ایک یہ کہ اپنی طرف سے کوئی بات کہنے کے بجاے صرف اگلے لوگوں کی آراکونقل کردیااوردوسرے یہ کہ اصل زبان سے استشہادکرتے ہوئے اورتاریخ کی حتمی شہادت اور آیات کے بین السطورسے مددلیتے ہوئے خوداس کے مطالب کوبیان کیا۔یہ کوششیں بہت سالوں تک اسی طرح ہوتی رہیں اور مسلمانوں کے تفسیری علم میں گراں قدراضافے کاباعث بنیں۔
تاہم،یہ سلسلہ زیادہ دیرجاری نہ رہ سکااورجلدہی اپنی فطری صورت سے محروم ،بلکہ بڑی حدتک اس سے اجنبی ہو کر رہ گیا۔ یہ اُس وقت ہواجب مسلمانوں پرمنطق ،فلسفہ اورتصوف اُن کے خارج سے اوربعض فقہی اورکلامی عصبیتیں اُن کے داخل سے اثر اندازہونا شروع ہوئیں۔منطق کاغلبہ ہواتو قرآن کاایک کلام ہونااوراس لحاظ سے نطق ہونا،نظروں سے بالکل اوجھل ہوگیا۔ فلسفے کا رواج ہواتواس کی سادگی کاحسن گہناگیااوریہ کسی کی سمجھ میں نہ آنے والا ایک معمہ اورچیستان بن کررہ گیا۔تصوف کے زیراثراِس میں سے وہ وہ مضامین ڈھونڈ نکالنے کی سعی ہوئی کہ اس کے الفاظ اپنی حکومت بالکل کھوبیٹھے اورانجام کار’’باطن‘‘ کے محکوم محض قرارپائے۔ اور گروہی تعصبات نے تو اس معاملے میں قیامت ہی برپاکردی کہ آیات کواُن کے اصل مفہوم سے یک سر غیر متعلق کیا اور انھیں بے کارکی بحثوں میں اپنی تائید اور دوسروں کی مخالفت کا ایندھن بناکے رکھ دیا۔
حالات کے اس تناظرمیں پچھلی صدی میں بعض اہم پیش رفت ہوئیں۔ ہندوستان میں قرآن کے ایک بہت بڑے عارف، حمید الدین فراہی،خداکی اس کتاب پرتان دیے گئے پردوں کو ہٹانے کاگویا عزم لے کر پیدا ہوئے۔ وہ اس طرح کہ زندگی بھریہ کتاب اُن کی مساعی کا ہدف رہی۔وہ اسی کی خاطرجیے،بلکہ صحیح لفظوں میں کہاجائے تووہ جتنی عمرجیے،اسی کے اندرجیے۔خداکی طرف سے بھی یہ انعام ہوا کہ اُس نے اپنی کتاب کوسمجھنے کافطری منہاج اُن پر بالکل کھول دیا۔اُنھوں نے اِس کے لیے کچھ اصول مرتب کیے اور بعض سورتوں کی تفسیربھی لکھی۔ اُن کے یہی مرتب کردہ اصول تھے جن کی روشنی میں مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبرقرآن‘‘ کے نام سے پورے قرآن پر کام کرنے کی سعادت حاصل کی۔مولاناکے پیش نظرچونکہ ان اصولوں کی روشنی میں تفسیرکرنے کاصحیح طریق واضح کر دینا تھا، اس لیے اُن کا انہماک زیادہ تر تفسیر میں رہااور وہ ترجمہ پرزیادہ توجہ نہ دے سکے۔محترم جاویداحمدغامدی نے ’’البیان‘‘ لکھی تواسی کام کوآگے بڑھایااورترجمے میں بھی ان اصولوں کی رعایت کرنے کاپوراپورااہتمام کیا اور مزید یہ کہ وہ خودبھی قرآن کے جیدعالم ہیں،اس لیے کئی مقامات پراپناایک منفرداور مستقل موقف بھی بیان کیا۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانافراہی نے اس کام کی بنیادیں فراہم کیں۔ مولانا اصلاحی نے اُنھی پرایک عمارت اُٹھائی۔ غامدی صاحب نے بھی اس کاایک حصہ تعمیرکیااورمزیدیہ کہ اس کی تزیین وآرایش کابھی اچھاخاصا انتظام کیا۔ اور جہاں تک راقم کی اِس تحریرکامعاملہ ہے تواس کی حیثیت بس اتنی ہے کہ وہ ایک صدی سے زیادہ میں بننے والی اس عمارت میں اور بالخصوص اس کی آخری تعمیر میں، اتفاق سے کچھ دن گزار چکاہے اور اس کی خوبیوں سے کچھ نہ کچھ واقفیت بھی رکھتا ہے، اس لیے اُس کے دل میں اب یہ شدیدتمناہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس کاخوب خوب چرچا کرے تاکہ وہ سب بھی آئیں،اِس کی سیردیکھیں اوراپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کا سامان کریں۔
دووجوہات ہیں کہ ہم نے غامدی صاحب کی’’ البیان‘‘ پرلکھنے کااِرادہ کیاہے:ایک اس وجہ سے کہ ترتیب میں مؤخر ہونے کی بناپر یہ مولانافراہی اورمولانااصلاحی کے کام کی مکمل اور آخری صورت ہے اوراس لیے اس کی خصوصیات بھی بڑی حدتک اپنے اندرسموئے ہوئے ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ ہمارے پیش نظراصل میں ترجمہ پر لکھنا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ’’البیان‘‘ ہی وہ کتاب ہے جس میں ترجمہ مکمل طورپر فراہی اصولوں کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ مزید یہ بات بھی سامنے رہے کہ اس تحریرمیں ہم چاہیں بھی تواس کے تمام خصائص وامتیازات کاجائزہ نہیں لے سکتے، اس لیے ہم صرف چندچیزوں کے بارے میں اپنی گزارشات پیش کریں گے،جیساکہ حروف، الفاظ، اسالیب اور اس میں پائی جانے والی توضیحات کے بارے میں۔البتہ،ہم یہ کوشش ضرورکریں گے کہ ان چیزوں کواس طرح سے ترتیب دیں کہ قرآن کوطالب علمانہ طرزسے پڑھنے والے حضرات کے لیے یہ ایک معاون کتاب کی صورت بھی اختیار کرجائے۔
حرف آپس میں مل کرلفظ بناتے ہیں۔۱ اس لحاظ سے دیکھاجائے تویہ لفظوں کامحض ایک جزہوتے ہیں۔اس کے علاوہ یہ لفظوں کے ساتھ جڑکراورجملوں کے ساتھ مل کر آتے ہیں اور اُس وقت اپناایک مستقل مفہوم بھی رکھتے ہیں۔ کلام کی معنویت چونکہ بہت کچھ ان کے فہم پر منحصرہوتی ہے،اس لیے ضروری ہے کہ انھیں سمجھنے اوردوسری زبان میں منتقل کرنے کاکام بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ کیا جائے۔ یہ کام ’’البیان‘‘ میں کس قدراحتیاط کے ساتھ کیا گیا ہے، ذیل میں چندحروف کے بارے میں کیاگیاکلام اس کی کافی دلیل ہوسکتا ہے۔
یہ حرف قرآن میں کثرت سے استعمال ہواہے اوراپنے اندربہت سے معانی لیے ہوئے ہے ۔قدیم تراجم میں اسے عام طور پر ’’پس‘‘ سے بیان کیاجاتاہے اور نسبتاًنئے ترجموں میں ’’سو‘‘اور’’تو‘‘سے۔ان میں سے’’پس‘‘ عربی زبان کی’’ف‘‘ ہی کی طرح معنی ومفہوم کی بہت سی جہتیں رکھتاہے اوراپنے اندریہ صلاحیت بھی رکھتاہے کہ ’’ف‘‘ کو بڑی حدتک بیان کردے۔مگرہم جانتے ہیں کہ آج کے قاری کے لیے اس کے تمام پہلوؤں کااِدراک کرنااورصرف اس ایک لفظ سے کلام میں موجودمختلف معانی کواخذکر لینااب کسی طرح بھی ممکن نہیں رہا۔ کچھ ایساہی معاملہ ’’سو‘‘ اور ’’تو‘‘ کا بھی ہے۔چنانچہ اس صورت احوال میں لازم ہوجاتاہے کہ ہم کسی آیت میں’’ ف‘‘ کا ترجمہ کرتے ہوئے اردو کے وہی الفاظ استعمال کریں جو اُس مقام میں اُس سے مرادلیے گئے ہوں۔ہمارے خیال کے مطابق ’’البیان‘‘ میں چند دوسرے تراجم کی طرح ، بلکہ اس سے کچھ مزیدبڑھ کر اس ضرورت کالحاظ رکھاگیاہے ۔ذیل میں ہم ’’البیان‘‘ میں کیے گئے ’’ف‘‘کے مختلف ترجموں کی چندمثالیں پیش کرتے ہیں:
وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا. وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ھَضْمًا.(طٰہٰ۲۰: ۱۱۱۔ ۱۱۲)
’’اس دن نامرادی ہے اُن کے لیے جوظلم کابوجھ اٹھائے ہوئے ہوں۔اِس کے برخلاف جونیک عمل کرے گا اور اس کے ساتھ ایمان بھی رکھتاہوگا،اُس کو البتہ اُس دن کسی حق تلفی اورکسی زیادتی کا اندیشہ نہ ہوگا۔‘‘
مذکورہ آیت میں ’فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا‘ کی ’’ف‘‘ کاترجمہ عام طورپر’’تو‘‘اور’’سو‘‘سے کیاگیاہے۔ اس سے عام قارئین پریہ بالکل بھی واضح نہیں ہوپاتاکہ یہ جملہ ’قَدْ خَابَ‘ کے تقابل میں آنے کی وجہ سے اپنے اندرمقابلے کا مفہوم اور ایک طرح کی تاکیدبھی رکھتاہے۔ ان کے بجاے’’ البتہ‘‘ کالفظ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بڑی آسانی سے ان دونوں پہلوؤں کوبیان کررہاہے۔
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ. فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.(البقرہ ۲: ۲۳۸۔ ۲۳۹)
’’اپنی نمازوں کی حفاظت کرو،بالخصوص اُ س نمازکی جودرمیان میں آتی ہے ،اوراللہ کے حضورمیں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ۔پھراگرخطرے کاموقع ہوتوپیدل یاسواری پر،جس طرح چاہے پڑھ لو۔لیکن جب امن ہو جائے تواللہ کواُسی طریقے سے یادکروجو اُس نے تمھیں سکھایاہے ،جسے تم نہیں جانتے تھے۔‘‘
ان آیات کااصل مدعایہ ہے کہ نمازوں کی حفاظت کی جائے اورانھیں خشوع وخضوع کے ساتھ اداکیاجائے۔پھر خوف کی حالت میں ایک رخصت کابیان کرکے ’فَاِذَآ اَمِنْتُمْ‘ کے الفاظ میں اصل مدعاکی پھرسے تاکیدکردی گئی ہے۔ اس ’’ف‘‘کے لیے زیادہ تر مترجمین نے ’’پھر‘‘کالفظ استعمال کیاہے۔اس کے مقابلے میں ’’البیان‘‘ میں ’’لیکن‘‘ کا لفظ آیاہے جوبخوبی بتا رہاہے کہ یہ رخصت اصل حکم میں محض استثنا کی حیثیت رکھتی ہے اوراس کادوسرافائدہ یہ ہوا ہے کہ یہ اصل حکم کی اہمیت کو نظروں سے اوجھل بھی نہیں ہونے دے رہا۔
فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْبَتَھَا م نَبَاتًا حَسَنًا.(آل عمران ۳: ۳۷)
’’تاہم اُس کے پروردگارنے اُس لڑکی کوبڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمایااورنہایت عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا۔‘‘
حضرت مریم کی والدہ نے اپنابچہ خداکے لیے وقف کرنے کی نذرمانی۔توقع کے برعکس،ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی توانھیں اس بات کاکچھ ملال ہواکہ وہ بیٹے کے بجاے اُسے وقف کررہی ہیں۔مگرخدانے اسی بیٹی کوقبول فرمایا اور بڑی اچھی طرح سے قبول فرمایا۔اسی بات کو ’فَتَقَبَّلَھَا رَبُّھَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ‘ کے جملے میں بیان کیا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تویہاں ’’ف‘‘کاترجمہ’’تاہم‘‘ کے لفظ سے کرنابڑامعنی خیزہے اوروالدۂ مریم کے اِس تردد، اور اس کے باوجودخداکی طرف سے ہونے والی قبولیت کوخوب خوب بیان کررہاہے۔
فَخُذْ اَرْبَعَۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ.(البقرہ ۲: ۲۶۰)
’’اچھا،تو چارپرندے لے لو،پھراُن کواپنے ساتھ ہلالو۔‘‘
سیدناابراہیم علیہ السلام نے خداسے درخواست کی کہ مجھے دکھائیں کہ آپ مردوں کوکس طرح سے زندہ کریں گے؟ فرمایا: کیا تم ایمان نہیں رکھتے ؟عرض کیا:ایمان تورکھتاہوں،لیکن خواہش ہے کہ میرادل پوری طرح سے مطمئن ہو جائے۔ اس پرفرمایاہے کہ اگرتم ایمان رکھتے ہواورمحض شرح صدرکے لیے یہ دیکھناچاہتے ہوتویوں کرو کہ ..... اور اس ساری بات کے لیے یہاں صرف ’’ف‘‘ کواستعمال کیا ہے۔اب دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’’ پس‘‘ اور’’پھر‘‘کے مقابلے میں ’’البیان‘‘ میں لائے گئے ’’اچھا، تو‘‘کے الفاظ اس بات کوکس خوب صورتی سے ادا کررہے ہیں۔
ایک مقام پر’’ف‘‘کاترجمہ انھی ’’اچھاتو‘‘کے الفاظ میں کیاہے ،مگراس سے کلام کے ایک اورپہلوکوکھولاہے:
وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ.(الجاثیہ ۴۵: ۳۱)
’’رہے وہ جنھوں نے ماننے سے انکارکردیاتھا،اُن سے کہاجائے گا:اچھاتومیری آیتیں کیاتمھیں پڑھ کر نہیں سنائی جاتی تھیں؟مگر تم نے تکبرکیااورتم مجرم لوگ تھے۔‘‘
یہ آخرت کے دن کابیان ہے۔یہاں ’’اچھاتو‘‘کے الفاظ ایک تومنکروں کی طرف خداکے اُس التفات کوبیان کر رہے ہیں جس کے بعد اُن سے شدیدبازپرس ہواچاہتی ہے،اوردوسرے اُس تردید کوبھی بیان کررہے ہیں جو خدا کی طرف سے اُن کی متوقع معذرتوں پر کی گئی ہے۔
فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۷۱)
’’اچھا، انتظارکرو،میں بھی تمھارے ساتھ انتظارکرتاہوں۔‘‘
حضرت ہودعلیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے دعوت توحید کواس طرح سے پیش کیاکہ ان سے خیرخواہی کاحق ادا کر دیا۔ قوم نے پھربھی ماننے سے انکارکیاتواُن کے ایمان سے قطعی مایوس ہوکراورکچھ دھمکی آمیزاسلوب میں فرمایا ہے: ’فَانْتَظِرُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ‘۔ ’’البیان‘‘ میںیہاں ’’ف‘‘ کاترجمہ’’ اچھا‘‘ کے لفظ سے کیا گیا ہے اور ہمارے خیال میں مایوسی اوردھمکی کے ان دو پہلوؤں کو بہت واضح طورپربیان کررہاہے۔
فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا.(الاعراف ۷: ۷۲)
’’آخرکار ہم نے اُس کواوراُنھیں جواُس کے ساتھ تھے،اپنی رحمت سے بچالیا۔‘‘
یہ سیدنا ہود علیہ السلام کی سرگذشت کاآخری جملہ ہے۔کچھ عرصہ گزرجانے کے بعداُن کی دھمکی کے واقع ہو جانے اورجس مقصد سے یہ سرگذشت سنائی گئی ہے،اُسے بیان کرنے کے لیے یہاں’’ف‘‘لائی گئی ہے۔ ’’آخرکار‘‘ کا لفظ اصل میں انھی دونکتوں کانہایت بلیغ بیان ہے۔
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَصَدَفَ عَنْھَا.(الانعام ۶: ۱۵۷)
’’اب اُن سے بڑھ کرکون ظالم ہوگاجواللہ کی آیتوں کوجھٹلادیں اوراُن سے منہ موڑیں۔‘‘
قریش سے فرمایاہے کہ ہم نے یہ کتاب اس لیے اُتاری ہے کہ مباداتم کہوکہ کتاب توہم سے پہلے کے دو گروہوں پر اتاری گئی تھی اورہم اُن کے پڑھنے پڑھانے سے بالکل بے خبرتھے۔یاکہوکہ اگرہم پرکتاب اتاری جاتی توہم اُن سے زیادہ ہدایت یافتہ ہوتے۔سو تمھارے پروردگارکی طرف سے ایک واضح حجت اورہدایت ورحمت تمھارے پاس آگئی ہے ۔اس کے بعدفرمایا ہے: ’فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ‘۔ یہاں ’’ف‘‘کامطلب یہی ہے کہ اس کتاب کے آجانے کے بعدتمھارے سب عذر ختم ہوگئے ہیں،چنانچہ جو اب بھی اسے جھٹلادے گا، آخر اُس سے بڑا ظالم کون ہوگا۔ ’’اب‘‘ کا لفظ اسی مطلب کواداکرنے کے لیے لایاگیاہے۔
بعض مقامات پرموقع کلام اورفعل کے تکمیلی پہلو کی رعایت کرتے ہوئے اسی ’’اب‘‘کے ساتھ کچھ اور لفظوں کا اضافہ بھی کیاگیا ہے۔جیساکہ مثال کے طورپر’’اب ذرا‘‘اور’’اب جاؤ‘‘وغیرہ:
فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ.(البقرہ ۲: ۲۵۹)
’’اب ذرااپنے کھانے اورپینے کی چیزوں کو دیکھو، اِن میں سے کوئی چیزسڑی نہیں۔‘‘
فَافْعَلُوْا مَاتُؤْمَرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۶۸)
’’اب جاؤ اوروہ کرو جس کاتمھیں حکم دیا جا رہا ہے۔‘‘
ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّءُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ.(الانعام ۶: ۱۶۴)
’’پھرتمھارے پروردگارہی کی طرف تم سب کوپلٹناہے۔اُس وقت وہ تمھیں بتادے گاجس چیزمیں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘
یہاں ’’ف‘‘کاترجمہ عام طورپر’’پھر‘‘سے کیاگیاہے۔اس کے بجاے’’اُس وقت‘‘ کے الفاظ اس اعتبار سے بہت بہترہیں کہ یہ اُس کے ظر ف ہونے کوبھی بیان کررہے ہیں اورمعنی میں اس سے پچھلے جملہ کے ’’ثم‘‘، یعنی ’’پھر‘‘ سے اس کے مختلف ہونے کوبھی نمایاں کررہے ہیں۔’’ف‘‘کے اس ظرفیہ استعمال کی اوربھی کئی مثالیں قرآن میں موجود ہیں، جیساکہ مثال کے طوپر:
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِھِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ.(الفتح ۴۸: ۱۸)
’’اللہ ایمان والوں سے راضی ہو گیا، جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کررہے تھے،اُس وقت اللہ نے جان لیاجوکچھ اُن کے دلوں میں تھاتواُس نے اُن پر طمانیت اتار دی۔‘‘
فَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِیْدًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمَالَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ. (آل عمران ۳: ۵۶)
’’پھریہی نہیں،اِن منکروں کومیں دنیااورآخرت ،دونوں میں سخت سزادوں گا،اوروہ کوئی مددگارنہ پائیں گے ۔‘‘
یہاں بنی اسرائیل کے انکارکے نتیجے میں خدائی دینونت کے ظہورکااعلان ہوا ہے۔ یعنی، اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان لوگوں سے الگ کرکے اپنے پاس لے جائے گا اورماننے والوں کواُن کے منکروں پرغلبہ عطاکرے گا اور آخرت میں ان سب کے اختلافات کی حقیقت بھی کھول دے گا۔اورصرف یہی نہیں ہوگا،بلکہ منکروں کو دنیا اور آخرت، دونوں میں عذاب اورماننے والوں کواُن کی محنت کاصلہ بھی عطا کرے گا۔ ’فَاَمَّا الَّذِیْنَ‘ کے’’ ف‘‘ کا ترجمہ ’’پھریہی نہیں‘‘ کے الفاظ میں کریں تویہ ساری بات اداہوجاتی ہے۔اس کے بجاے ’’سو‘‘لایا جائے تو اصل بات کسی طرح بھی واضح نہیں ہوپاتی اوراگر’’پھر‘‘لایاجائے توسرے سے اصل مدعاہی خراب ہوجاتاہے۔
وَاَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَفَلَمْ تَکُنْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاسْتَکْبَرْتُمْ وَکُنْتُمْ قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ. (الجاثیہ ۴۵: ۳۱)
’’رہے وہ جنھوں نے ماننے سے انکارکردیاتھا،اُن سے کہاجائے گا:اچھاتومیری آیتیں کیاتمھیں پڑھ کرنہیں سنائی جاتی تھیں؟مگر تم نے تکبرکیااورتم مجرم لوگ تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کامنکرین سے یہ پوچھنا کہ تمھیں میری آیتیں کیاپڑھ کرنہیں سنائی جاتی تھیں؟ استفسار کے لیے نہیں، بلکہ اقرارکے لیے ہوگا۔مطلب یہ ہوگاکہ تمھیں میری آیتیں واقعتا پڑھ کرسنائی جاتی تھیں۔چنانچہ اس کے بعد ’فَاسْتَکْبَرْتُمْ‘ کی ’’ف‘‘ کا ترجمہ ’’مگر‘‘ سے کرنا ہی زیادہ موزوں ہو سکتا ہے جو اس بات کو بھی بیان کر رہا ہے کہ اُن پر یہ آیتیں یقیناپڑھ کرسنائی جاتی تھیں اوراُس ملامت کوبھی بیان کر رہاہے جوان آیتوں کے مقابلے میں استکبارکرنے پر اُنھیں کی جارہی ہے۔
وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِھِمْ فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ.(البقرہ ۲: ۸۸)
’’اورانھوں نے کہا:ہمارے دلوں پرغلاف ہیں۔نہیں،بلکہ اِن کے اس کفرکی وجہ سے اللہ نے اِن پرلعنت کردی ہے، اس لیے اب یہ کم ہی مانیں گے۔‘‘
یہودنے مسلسل انکارکی روش اختیارکی تواس کی پاداش میں خداکی طرف سے اُن پرلعنت کردی گئی۔ ہم جانتے ہیں کہ اس لعنت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتاہے کہ ملعونین ایمان لانے سے یک سرمحروم ہوجاتے ہیں،چنانچہ فرمایا ہے: ’فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَ‘۔ اس لیے اب یہ کم ہی مانیں گے۔یہاں’’ف‘‘کو’’اس لیے‘‘کے الفاظ میں بیان کرنا،اس اعتبار سے زیادہ صحیح ہے کہ لعنت اور ایمان سے مستقل محرومی ۲ کے درمیان میں جوسبب اور مسبب کاتعلق پایا جاتا ہے، یہ اُسے بہت اچھی طرح سے واضح کر دیتا ہے۔
اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ.(البقرہ ۲: ۷۵)
’’اس کے باوجود،(مسلمانو)،کیاتم ان سے یہ توقع رکھتے ہوکہ یہ تمھاری بات مان لیں گے۔‘‘
اس مقام پریہودکے ہاں دینی امورمیں پائے جانے والے گریزاوراُن کی سرکشی کابیان ہواہے۔اس دوران میں مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’اَفَتَطْمَعُوْنَ اَنْ یُّؤْمِنُوْا لَکُمْ‘۔ دیکھ لیاجاسکتاہے کہ یہاں ’’ف‘‘ کاترجمہ ’’اس کے باوجود‘‘کے الفاظ میں ادا کرنابہت زیادہ مناسب ہے اورمسلمانوں کواُن کی سادہ لوحی پر بہت اچھے طریقے سے متنبہ کررہاہے جویہودکے اِس منفی رویے کے باوجوداُن سے بعض مثبت امیدیں لگائے بیٹھے تھے۔
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ.(البقرہ ۲: ۱۸۴)
’’اس پربھی جوتم میں سے بیمارہویاسفرمیں ہوتووہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرلے۔‘‘
ایمان والوں پرروزے فرض کیے گئے ہیں تاکہ اُن میں اللہ کاڈرپیداہو۔روزہ اپنی ذات میں ایک پابندی کانام ہے جو بالعموم نفس پرشاق گزرتی ہے،چنانچہ فرمایاہے کہ یہ بہت زیادہ نہیں،بلکہ گنتی کے چندروز ہیں۔مزیدیہ کہ کسی معقول عذرکی وجہ سے اگریہ مقررہ دنوں میں نہ رکھے جاسکیں تو دوسرے دنوں میں رکھ لیے جائیں ۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تویہاں’’ف‘‘ کاترجمہ ’’اس پربھی‘‘کے الفاظ میں کرنا،جس طرح روزوں کے متعلق رعایت کے پہلو کو بیان کررہاہے ،اسی طرح روزوں میں پائی جانے والی مشقت کے ہلکے پن کی طرف اشارہ کرکے ہمیں اُن کی ترغیب بھی دے رہاہے۔
یہ اسلوب اُن مقامات پربھی آیاہے جہاں کچھ حرمتوں سے بازرہنے کاحکم دیاہے اورمقصد یہی ہے کہ ان احکام میں پائی جانے والی نرمی کونمایاں کیاجائے۔جیساکہ مثال کے طورپرجب مردار،خون، سؤر کا گوشت اورغیراللہ کے نام کاذبیحہ حرام قراردیاتواسی ’’ف‘‘کو استعمال کیاہے اور ’’البیان‘‘ میں وہاں بھی اس کاترجمہ ’’اس پربھی‘‘کے الفاظ ہی سے کیا گیا ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ.(البقرہ ۲: ۱۷۳)
’’اس پر بھی جو مجبور ہو جائے، اس طرح کہ نہ چاہنے والا ہو، نہ حدسے بڑھنے والاتواُس پرکوئی گناہ نہیں۔‘‘
فَرَجَعْنٰکَ اِلآی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَےْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ.(طٰہٰ ۲۰: ۴۰)
’’اِس طرح ہم نے تم کوتمھاری ماں کی طرف لوٹادیاکہ اُس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اوراُس کوغم نہ رہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ماں نے خداسے الہام پاکراُنھیں دریاکے حوالے توکردیا،مگر اپنے بچے سے یہ دوری برداشت کرنا اُن کے لیے کوئی آسان ہدف نہ تھا۔سوخدانے اپنی تدبیرسے کچھ ایسے انتظامات کیے کہ یہ سب دوریاں ختم ہو گئیں۔ ان انتظامات کی تفصیل ذکرکرنے کے بعدان کانتیجہ یوں بیان فرمایا ہے: ’فَرَجَعْنٰکَ اِلٰی اُمِّکَ‘۔ ’’اس طرح‘‘ کے الفاظ اصل میں اسی نتیجے کوبیان کررہے ہیں۔
قرآن میں اس ’’ف‘‘کواوربھی کئی مقامات پرلایاگیاہے،جیساکہ مثال کے طورپریہ آیت:
وَاِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ.(البقرہ ۲: ۵۰)
’’اور یاد کرو، جب ہم نے تمھیں ساتھ لے کر دریا چیر دیا اور اِس طرح تمھیں بچالیا۔‘‘
وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۹)
’’ہاں ،البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا،ورنہ ظالم ٹھیروگے۔‘‘
حضرت آدم سے کہاگیاہے کہ وہ اوران کی بیوی اس باغ میں رہیں اوراس میں سے جہاں سے چاہیں، کھائیں۔ ہاں، ان پرایک پابندی ضرورہے کہ وہ اس درخت کے پاس نہ جائیں۔ ’فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ‘ کہ اس کی خلاف ورزی پر وہ خداکے ہاں ظالم قرار پائیں گے۔ اس پابندی اورخلاف ورزی کی صورت میں نکلنے والے اس کے نتیجے کو ’’ورنہ‘‘ کا یہ لفظ ’’پس‘‘ یا ’’پھر‘‘ کے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح سے اداکررہاہے۔
ذیل کی اس آیت میں بھی ’’ف‘‘اسی مفہوم کے لیے آیاہے:
وَ لَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَ کُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(الاعراف ۷: ۷۳)
’’اورکسی برے ارادے سے اِس کوہاتھ نہ لگانا، ورنہ ایک دردناک عذاب تمھیں آپکڑے گا۔‘‘
۱۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہَُ فَلَیْسَ مِنِّیْ.(البقرہ ۲: ۲۴۹)
’’اس کی صورت یہ ہوگی کہ جواِس کاپانی پیے گا،وہ میراساتھی نہیں ہے۔‘‘
طالوت جب اپنی افواج کولے کرنکلے تواُنھوں نے لوگوں کوبتایاکہ اللہ نے فیصلہ کیاہے کہ وہ ایک ندی کے ذریعے سے تمھارا امتحان کرے گا۔ اس امتحان کی صورت کیا ہو گی؟ کہا: ’فَمَنْ شَرِبَ مِنْہَُ فَلَیْسَ مِنِّی‘۔ یہ ’’ف‘‘ تفصیل کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ’’ اس کی صورت یہ ہوگی‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے۔
۲۔ وَاِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا.(البقرہ ۲: ۶۰)
’’اوریادکرو،جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی دعا کی توہم نے کہا: اپنی لٹھیا اِس پتھر پر مارو۔ (اُس نے ماری) تو اُس سے بارہ چشمے بہ نکلے۔‘‘
’فَانْفَجَرَتْ‘ کی اس ’’ف‘‘سے پہلے جونحویوں کے ہاں فاے فصیحہ کہلاتی ہے،کوئی بات محذوف مانی جاتی ہے۔ ’’البیان‘‘ میں پہلے اُس بات یعنی،’’اُس نے ماری‘‘ کو ظاہر کیا گیا ہے اور پھر ’’تو‘‘ کے ساتھ اُس کاترجمہ کیا گیا ہے۔
۳۔ قَالَ اَلَا تَاْکُلُوْنَ. فَاَوْجَسَ مِنْھُمْ خِیْفَۃً.(الذاریات ۵۱: ۲۷۔ ۲۸)
’’اُس نے کہا: کیوں آپ کھاتے نہیں؟پھر(اُن کے تردد کو دیکھ کر) اُس نے اپنے دل میں اُن سے کچھ اندیشہ محسوس کیا۔‘‘
’فَاَوْجَسَ‘ کی یہ ’’ف‘‘ اپنے ماقبل سے سبب کاتعلق رکھتی ہے ،مگراسے سادہ اندازمیں بیان کیاجائے توکچھ مسائل پیداہوتے ہیں۔مثال کے طورپر،’’سو‘‘یا’’پھر‘‘وغیرہ سے ترجمہ کریں تواس میں ترتیب یاتعقیب کامفہوم پیدا ہو جاتا ہے جویہاں بالکل بھی مقصود نہیں۔ اوراگر’’اس پر‘‘وغیرہ کے الفاظ لائیں توان سے سبب توواضح ہو جاتا ہے، مگر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس سوال کہ ’’آپ کھاتے کیوں نہیں؟‘‘ اوراس بات کے درمیان میں کہ ’’اس نے اپنے دل میں اُن سے کچھ اندیشہ محسوس کیا‘‘،کوئی سبب واضح نہیں ہو پاتا۔ ’’البیان‘‘ میں اس کاحل یہ نکالاگیاہے کہ ’’پھر‘‘ کا لفظ لاکر ’’اُن کے ترددکودیکھ کر‘‘کاوہ فقرہ بھی لکھ دیاگیاہے جوپچھلے جملوں سے خودبخود مفہوم ہورہاہے۔
اس سے کچھ ملتی جلتی مثال یہ آیت بھی ہے:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً.(النساء ۴: ۲۴)
’’پھر(اِس سے پہلے اگر مہر ادا نہیں کیا ہے تو) جو فائدہ اُن سے اٹھایاہے ،اُس کے صلے میں اُن کا مہر اُنھیں اداکرو،ایک فرض کے طورپر۔‘‘
’فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ‘ کے اس ’’ف‘‘ میں بھی سابقہ جملوں سے مترشح ہونے والا ایک مفہوم مضمرہے۔دیکھ لیا جا سکتا ہے کہ جب اسے کھول دیاگیا تواس کے نتیجے میں وہ ساری بحث سرے سے ختم ہوگئی جو آیت کے الفاظ اور سیاق و سباق سے صرف نظر کرتے ہوئے بعض حضرات نے یہاں پیداکرلی ہے۔
۴۔ فَاِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.(الدخان ۴۴: ۵۸)
’’سو(اِنھیں اِسی قرآن سے یاددہانی کرتے رہو، اے پیغمبر، اس لیے کہ )ہم نے تواِس کوتمھاری زبان میں نہایت موزوں بنایا ہے،اِسی لیے کہ یہ یاددہانی حاصل کریں۔‘‘
یہ’’ف‘‘پچھلی کسی ایک بات پرنہیں ،بلکہ پورے سلسلۂ کلام پرآگئی ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ’’ف‘‘کا ترجمہ کرتے ہوئے کچھ ایسی وضاحت بھی کردی جائے جوپچھلے سارے مضمون کے ساتھ اس کے اتصال کوبیان کردے۔
۵۔ فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُہٗ فِیْ صَرَّۃٍ فَصَکَّتْ وَجْھَھَا وَقَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ.(الذاریات ۵۱: ۲۹)
’’اُس کی بیوی یہ سن کرحیرانی کے عالم میںآگے بڑھی، اپنا ماتھا پیٹا اور بولی: بڑھیا بانجھ، (اب جنے گی)؟‘‘
یہاں یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ ’’ف‘‘ کاترجمہ ضرورہی کیاجائے،یہ ہرصورت میں لازم نہیں ہوتا۔بعض اوقات اردو کے جملوں کی ترکیب خودہی اسے بیان کررہی ہوتی ہے ۔ایسے میں لفظی ترجمہ پراصرارکیاجائے توکلام کی روانی میں خلل واقع ہوتااوراس کی خوب صورتی بھی بڑی حدتک متاثرہوتی ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اسی لیے ’فَصَکَّتْ وَجْھَھَا‘ کے ’’ف‘‘ کا لفظی ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے۔
’’واو‘‘ کا حرف بھی قرآن میں کثرت سے استعمال ہواہے ۔اسے مترجمین بالعموم’’اور‘‘کے لفظ سے اداکرتے ہیں۔ یہ اس لحاظ سے درست ہے کہ عربی کے ’’واو‘‘ کی طرح یہ بھی اپنے اندرمعنی و مفہوم کی بہت سی وسعتیں رکھتا ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے تمام پہلوؤں کواپنی گرفت میں لے لینا، ایک عام قاری کے بس کی بات نہیں۔ چنانچہ قرآن کے اصل فہم کوترجمے میں منتقل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ’’ واو‘‘جس مقام پرجس معنی میں استعمال ہوا ہو، وہاں اُسی معنی کواداکرنے والے اردوکے الفاظ لائے جائیں۔ ’’البیان‘‘ میں یہ اہتمام کس قدر کیا گیا ہے، ذیل کی چندمثالیں بڑی حدتک اسے بیان کردیتی ہیں:
وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوْھُمْ وَقُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.(النساء ۴: ۵)
’’ہاں،اِس سے فراغت کے ساتھ اُن کوکھلاؤ،پہناؤاوراُن سے بھلائی کی بات کرو۔‘‘
یتیموں کے بارے میں فرمایاہے کہ اگروہ نادان اوربے سمجھ ہوں تواُن کامال اُن کے حوالے نہ کرو۔اس ہدایت کا منشا یہ بالکل نہیں تھا کہ اُن کی واجبی ضروریات کوبھی پورانہ کیاجائے،چنانچہ اصل حکم پراستدراک کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’وَّارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَاکْسُوھُمْ‘۔ یعنی، جہاں تک اُن کی ضروریات کاتعلق ہے توانھیں فراغت کے ساتھ پورا کرو۔ یہاں ’’واو‘‘کاترجمہ’’ اور‘‘کے لفظ سے کریں تویہ مدعاکسی طرح بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں ’’ہاں‘‘ کا لفظ آسانی سے اس مشکل کوحل کردیتاہے۔
’’البیان‘‘ میں بعض مقامات پرکلام کی مناسبت سے اس’’ہاں‘‘میں مزیدلفظوں کا اضافہ بھی کیاگیاہے،جیساکہ ’’ہاں،البتہ‘‘ یا ’’اورہاں‘‘وغیرہ:
وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۹)
’’ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیرو گے۔‘‘
یہاں ’’ہاں‘‘کے ساتھ ’’البتہ‘‘کااستعمال درخت کے پاس نہ جانے کے حکم میں پائی جانے والی ایک طرح کی تاکید کو بیان کر رہا ہے۔
وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ. (البقرہ ۲: ۱۸۷)
’’اور ہاں، تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو (رات کو بھی) بیویوں کے پاس نہ جانا‘‘
’وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ‘ کا ’’واو‘‘ اُس بات میں استثنا کو بیان کر رہا ہے جوکئی جملے پیچھے مذکورہوئی ہے اوراس کے بعد اس کی بعض ضمنی تفصیلات آگئی ہیں۔ چنانچہ بہتریہی تھا کہ ’’ہاں‘‘لاکرجس طرح استثناکوبیان کیاجائے،اسی طرح ’’اور‘‘ لاکراُس دورپڑی ہوئی بات کو ذراقریب بھی کردیاجائے۔
اُولٰٓئِکَ لَاخَلَاقَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ وَلَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ وَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.(آل عمران ۳: ۷۷)
’’اُن کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے ،اوراللہ قیامت کے دن نہ اُن سے بات کرے گا،نہ اُن کی طرف نگاہ التفات سے دیکھے گااورنہ اُنھیں(گناہوں سے)پاک کرے گا،بلکہ وہاں اُن کے لیے ایک دردناک سزا ہے۔‘‘
جنھوں نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے عہداوراپنی قسموں کے بدلے میں دنیاکے مفادات کوترجیح دی ہے ،ان کے بارے میں فرمایا ہے کہ اُنھیں آخرت میں کوئی فائدہ نہ ملے گا،بلکہ یہ سب ملناتوبہت دور کی بات: ’وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘، اُنھیں تو وہاں درد ناک عذاب بھگتنا ہو گا۔ دیکھ لیاجاسکتاہے کہ ’’اور‘‘کے بجاے ’’بلکہ‘‘ کااستعمال اس ساری بات کوکس خوبی سے اداکررہاہے۔
بعض مقامات پر’’بلکہ‘‘کے ساتھ اِس ’’واو‘‘سے پہلے کی بات کوبھی دہرا دیاگیاہے اوراس سے کلام کی معنویت اورزیادہ کھل گئی ہیں اوروہ قریب الفہم بھی ہوگیا ہے:
وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِھِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْھَا یَظْھَرُوْنَ. وَلِبُیُوْتِھِمْ اَبْوَابًا وَّسُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِئُوْنَ. وَزُخْرُفًا.(الزخرف ۴۳: ۳۳- ۳۵)
’’اگریہ اندیشہ نہ ہوتاکہ سب لوگ ایک ہی طریقے کے ہو جائیں گے (اورکوئی ایمان پرنہیں رہے گا) تو جو لوگ خداے رحمن کے منکرہورہے ہیں،اُن کے گھروں کی چھتیں ہم چاندی کی کردیتے اورزینے بھی جن پر وہ چڑھتے اوراُن کے گھروں کے دروازے اور اُن کے تخت جن پروہ تکیے لگا کر بیٹھتے، بلکہ (چاندی ہی نہیں)، سونے کے بھی۔‘‘
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.(الاعراف ۷: ۲۳)
’’دونوں بول اٹھے:پروردگار،ہم نے اپنے اوپرظلم کیاہے،اب اگرتوہماری مغفرت نہ فرمائے گااورہم پررحم نہ کرے گاتوہم ضرور نامراد ہو جائیں گے۔‘‘
یہ آدم وحواکی توبہ کے الفاظ ہیں۔اُنھوں نے پہلے اعتراف کیاہے کہ ہم نے غلطی کاارتکاب کیا اوراس طرح اپنے اوپرظلم کیا ہے۔پھرعرض کیاہے: ’وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وتَرْحَمْنَا‘۔ اِس ’’واو‘‘ کاترجمہ ’’اور‘‘کے بجاے ’’ اب‘‘ کے لفظ سے کریں توغلطی کے بعد اُن کی پشیمانی اوراس کے بعداپنے آپ کوخداکے آگے ڈال دینا،یہ دونوں ہی جہتیں بڑی خوب صورتی کے ساتھ اداہوجاتی ہیں۔
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ.(النمل ۲۷: ۱۵)
’’اس کے برخلاف ہم نے داؤد اورسلیمان کوبڑاعلم عطافرمایاتھا،(مگروہ ہمارے حضورجھکتے ہی چلے گئے) اور اُنھوں نے کہا: شکر ہے اللہ کے لیے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پرفضیلت عطافرمائی ہے۔‘‘
پہلے فرعون اوراُس کی قوم کاذکرکیاہے جن کے ظلم اورگھمنڈکی وجہ سے اُن پرخداکاعذاب نازل ہوا۔اس کے بعد حضرت داؤد اور سلیمان کاذکرکیا جوخداکی نعمتوں کو پاکرکسی تکبرمیں مبتلانہیں ہوئے،بلکہ اُس کا حددرجہ شکر ادا کرنے والے ہوئے۔ ان دو رویوں کے باہم مختلف ہونے کوواضح کرنے کے لیے ’’البیان‘‘ میں ’وَلَقَدْ‘ کے واو کا ترجمہ ’’اس کے برخلاف‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے اورہمارے خیال میںیہی زیادہ صحیح ہے ۔
’’البیان‘‘ میں’’واو‘‘کے اس ترجمہ کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں،اس لیے کہ قرآن میں اِنذاراوربشارت کے نقطۂ نظر سے اکثردوباہم متضاد معاملات زیربحث آتے ہیں۔
قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَکُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ.(البقرہ ۲: ۲۱۷)
’’کہہ دوکہ اِس میں قتال بڑی ہی سنگین بات ہے،لیکن اللہ کی راہ سے روکنااوراُس کونہ ماننااوربیت الحرام کا راستہ لوگوں پربندکرنااوراُس کے رہنے والوں کووہاں سے نکالنااللہ کے نزدیک اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔‘‘
حرام مہینوں میں قتال کے بارے میں پوچھاگیاتوفرمایاہے کہ ان میں قتال کرناواقعتا سنگین بات ہے ۔اس کے بعد استدراک کرتے ہوئے فرمایاہے: ’وَصَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ...‘ یعنی، جو رویہ مشرکین نے اختیارکررکھاہے، وہ تو اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔یہاں ’’واو‘‘ کا ترجمہ’’ اور‘‘سے کریں تویہ مضمون کچھ ہلکا سا ہوجاتاہے ،مگراس کے مقابلے میں ’’لیکن‘‘ کالفظ اسے پوری شدت کے ساتھ بیان کررہاہے۔
اگراستدراک کی اس ’’واو‘‘کونہ سمجھاجائے اوراسے اداکرنے کے لیے لفظ بھی’’اور‘‘ہی کااستعمال میں لایا جائے تو بعض اوقات اصل مدعانظروں سے اوجھل ہو جاتا، حتیٰ کہ بعض صورتوں میں بالکل خلط ملط ہوکررہ جاتا ہے، جیسا کہ اس آیت میں:
وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ.(النساء ۴: ۱۱)
’’لیکن ترکے کاچھٹاحصہ،(اس سے پہلے)میت کے والدین میں سے ہرایک کوملناچاہیے،اگراُس کی اولاد ہو۔‘‘
مترجمین نے عام طورپراس ’’واو‘‘کوعطفِ جمع کی واوسمجھااوراس کاترجمہ بھی اس لحاظ سے ’’اور‘‘کے لفظ کے ساتھ کیاہے۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وراثت کی بعض صورتوں میں وہ الجھنیں پیداہوئیں جوخداکے مقررکردہ حصوں میں کمی بیشی کیے بغیرکسی طرح سلجھ نہیں سکیں۔ ’’البیان‘‘ میں کیے گئے’’لیکن‘‘کے ترجمہ سے کوئی الجھن سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتی کہ اِس’’ لیکن‘‘ کایہ ناگزیرتقاضاہے کہ ترکے میں سے والدین کے حصے بچوں کومال دینے سے پہلے ہی نکال لیے جائیں۔
بعض مقامات پریہ ’’واو‘‘استدراک کے ساتھ ساتھ حال کے مضمون پربھی محیط ہوجاتی ہے۔اس طرح کے مواقع پر ’’لیکن‘‘ کے ساتھ کچھ مقدرمفہوم کااضافہ کرکے اسے بیان کیاگیاہے،جیساکہ مثال کے طورپراس آیت میں:
فَاِنْ کَذَّبُوْکَ فَقُلْ رَّبُّکُمْ ذُوْ رَحْمَۃٍ وَّاسِعَۃٍ وَلَا یُرَدُّ بَاْسُہٗ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ.(الانعام ۶: ۱۴۷)
’’اس کے بعدبھی اگروہ تمھیں جھٹلائیں توکہہ دوکہ تمھارے پروردگارکی رحمت میں بڑی وسعت ہے، لیکن (اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس کی دی ہوئی مہلت ختم ہوگئی تو)مجرموں سے اُس کاعذاب ٹالا نہ جاسکے گا۔‘‘
قَالَ رَبِّ اَ نّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّکَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا وَّقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا.(مریم ۱۹: ۸)
’’اُس نے عرض کیا:پروردگار،میرے ہاں لڑکاکیسے ہوگا،جب کہ میری بیوی بانجھ ہے اورمیں خودبڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں۔‘‘
’وَّکَانَتِ امْرَاَتِی عَاقِرًا‘۔ یہ ’’واو‘‘ حال کے لیے آئی ہے اوراس کے لیے ’’اور‘‘ کا لفظ اب کچھ زیادہ فصیح نہیں رہا۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے موقع ومحل کی مناسبت سے ایک سے زیادہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ زکریا علیہ السلام کو جب لڑکے کی بشارت دی گئی تواسے مان لینے میں اُنھیں کچھ ترددلاحق ہوا کہ اُن کے ظاہری حالات اِس بشارت کے بالکل بھی موافق نہیں تھے۔اُن کے اِس تردداور بظاہرناممکن حالات کے بیان کو ان دونوں کے درمیان میں ’’جب کہ ‘‘کے الفاظ لاکرہی بہتر طورپرادا کیاجاسکتاتھا۔
وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاَقْوَمَ.(النساء ۴: ۴۶)
’’دراں حالیکہ اگروہ ’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘، ’اسْمَعْ‘ اور ’انْظُرْنَا‘ کہتے تواُن کے لیے بہترہوتا اورموقع ومحل کے مطابق بھی۔‘‘
یہودمیں سے کچھ لوگ دین میں طعن کرنے کے لیے رسول اللہ کی مجلس میں بعض لفظوں کوتوڑموڑکربولتے تھے۔ اُن کے بارے میں فرمایا ہے: ’وَلَوْ اَنَّھُمْ قَالُوْا‘ ۔یہ ’’واو‘‘بھی حال کے لیے ہے اوراس کاترجمہ ’’دراں حالیکہ‘‘ کے لفظ سے کرنے میں یہ خوبی ہے کہ یہود کے اس گروہ کے لیے ایک مناسب اوربہتررویے پرتشویق واضح کی جائے اور ان پراس حسرت کااظہاربھی کیاجائے کہ وہ تو کتاب کے حاملین ہونے کی وجہ سے اس بات کے سزاوارتھے کہ دین میں طعن کرنے کے بجاے آگے بڑھ کراسے قبول کرنے والے ہوتے ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.(الانفال ۸: ۲۹)
’’ایمان والو،اگرتم خداسے ڈرتے رہے تووہ تمھارے لیے فرقان نمایاں کرے گااورتمھارے گناہ تم سے جھاڑ دے گا اور تمھاری مغفرت فرمائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے فضل والاہے۔‘‘
اس آیت میں مومنین سے تقویٰ کی شرط پربعض انعامات کے وعدے فرمائے ہیں اورپھرتقویٰ کی طرف راغب کرنے اوران وعدوں کو مزیدمؤکد کرنے اوریہ بتانے کے لیے کہ اُس کی رحمتوں کوصرف ان وعدوں تک محدودنہ سمجھ لیاجائے، فرمایا ہے: ’وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ‘۔ ’’البیان‘‘ میں حال کی اس ’’واو‘‘ کاترجمہ ’’حقیقت یہ ہے کہ‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے جس سے یہ سارے مقاصد بڑی حدتک ادا ہو جاتے ہیں۔
بعض مقامات پر’’حقیقت یہ ہے کہ ‘‘کے ساتھ کسی اورلفظ کااضافہ بھی کیاگیاہے اوربعض مواقع پر اس کے ساتھ کسی مقدر مفہوم کو بھی کھول دیاگیاہے،جیساکہ ذیل کی یہ آیتیں:
اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَکَفٰی بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا.(النساء ۴: ۵۰)
’’انھیں دیکھو،(اپنے دعووں سے)یہ اللہ پر کیسا افترا باندھ رہے ہیں اورحقیقت یہ ہے کہ صریح گناہ ہونے کے لیے تویہی کافی ہے۔‘‘
یہاں ’’اور‘‘کا لانااس لیے بھی ضروری تھاکہ اُن کے جرم کی شناعت اورخداکی طرف سے اُس کے اظہارمیں پائی جانے والی مبادرت کوبھی ظاہر کیاجائے۔
وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَآءِرٌ وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ.(النحل ۱۶: ۹)
’’اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے، جب کہ راہیں ٹیڑھی بھی ہیں۔(اب تمھیں اختیارہے کہ جو راہ چاہے، اختیار کرو)، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگروہ چاہتاتوتم سب کو (اُسی ایک راہ کی )ہدایت دے دیتا۔‘‘
یہاں’’ورنہ‘‘اوراس سے پہلے مقدرجملہ اس لیے نکالاگیاہے تاکہ پچھلی بات پر ’وَلَوْ شَآءَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ‘ کاعطف موزوں ہوسکے۔
الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ.(البقرہ ۲: ۲۷)
’’جواللہ کے عہدکواُس کے باندھ لینے کے بعدتوڑدیتے ہیں اوراللہ نے جس چیزکے جوڑنے کاحکم دیاہے ،اُسے کاٹتے ہیں ،اور اس طرح زمین میں فسادبرپاکرتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ کے عہدکوتوڑنے اوررحمی رشتوں کوکاٹ دینے کایہ نتیجہ بیان ہواہے کہ زمین میں فساد برپا ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ’وَیُفْسِدُوْنَ‘ کے ’’واو‘‘ کا ترجمہ ’’اور اس طرح‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے ۔ اس کے بجاے اگر’’ اور‘‘سے ترجمہ کیا جاتا توفساد فی الارض پہلی دوباتوں کانتیجہ ہونے کے بجاے تین کاتیسراہوکررہ جاتا۔
یہی ’’واو‘‘ذیل کی آیت میں بھی آئی ہے:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(البقرہ ۲: ۱۲۹)
’’پروردگار،اوراُنھی میں سے تواُن کے اندرایک رسول اٹھا جو تیری آیتیں اُنھیں سنائے اوراُنھیں قانون اور حکمت سکھائے اوراس طرح اُنھیں پاکیزہ بنائے۔‘‘
تزکیہ اصل میں کتاب وحکمت کی تعلیم کالازمی نتیجہ ہے، نہ کہ اس سے الگ دین کاایک مقصد۔ ’وَیُزَکِّیْھِمْ‘ کی ’’واو‘‘ کا ترجمہ بھی’’ اور اس طرح سے ‘‘کے الفاظ میں کریں تودین اُس آمیزش سے بالکل پاک ہوجاتاہے جوتزکیے کے نام پرغیراسلامی نظریات کواس میں داخل کرکے کی گئی ہے۔
’’اوراس طرح ‘‘کے الفاظ بعض مقامات پرنتیجے کی’’ واو‘‘کے بجاے تفصیل کی ’’واو‘‘کے لیے بھی لائے گئے ہیں، جیساکہ اس آیت میں:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ. (الزخرف ۴۳: ۳۲)
’’دنیاکی زندگی میں ان کی معیشت کاسامان توان کے درمیان ہم نے تقسیم کیاہے اوراس طرح تقسیم کیا ہے کہ ایک کے درجے دوسرے پربلندرکھے ہیں‘‘
اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا.(العنکبوت ۲۹: ۱۷)
’’تم اللہ کوچھوڑکرمحض بتوں کوپوج رہے ہواوراس کے لیے جھوٹ گھڑتے ہو۔‘‘
سیدناابراہیم اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم اللہ جیسی ہستی کو چھوڑکربتوں کی پوجاکررہے ہوجن کے بارے میں واضح ہے کہ وہ تمھارے رزق پرکوئی اختیار نہیں رکھتے ،چنانچہ اپنے اس شرک کوبنیادفراہم کرنے کے لیے تم اُن کے بارے میں اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتے ہو۔ ایک مقصدکوپانے اوراس کے لیے کوئی تدبیرکرنے کے لیے ’’واو‘‘ کا یہی استعمال ہے جسے ’’البیان‘‘ میں ’’اور اس کے لیے‘‘ کے الفاظ میں ادا کیاگیاہے۔
ذیل کی آیت میں بھی اس ’’واو‘‘کاصحیح ادراک اوراسی لحاظ سے اس کاصحیح ترجمہ ایک اورطریقے سے اُس بدعت پر خط تردیدپھیر دیتا ہے جو تزکیے کے نام پر،افسوس یہ کہ دین میں راہ پاگئی ہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.(الجمعہ ۶۲: ۲)
’’اُسی نے امیوں کے اندرایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جواُس کی آیتیں اُنھیں سناتااوراُن کاتزکیہ کرتا ہے، اور اس کے لیے اُنھیں قانون اورحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
وَاِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ.(البقرہ ۲: ۵۳)
’’اوریادکروجب ہم نے موسیٰ کوکتاب،یعنی(حق وباطل کے لیے)فرقان عطافرمائی،اس لیے کہ (اس کے ذریعے سے )تم ہدایت حاصل کرو۔‘‘
قرآن میں انبیاے کرام پراترنے والی کتابوں کے متعلق یہ صراحت فرمائی گئی ہے کہ وہ اختلافات کوختم کرنے کے لیے آتی ہیں۔ تورات کی بھی یہی حیثیت تھی جسے یہاں ’الْفُرْقَان‘ کے لفظ اورتفسیرکے’’ واو‘‘کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا ترجمہ ’’یعنی‘‘ کے لفظوں میں کرنا،نہایت برمحل اوراصل مدعاکوبہت زیادہ واضح کردینے والا ہے۔
ذیل کی یہ آیت بھی اس واوکو’’یعنی ‘‘کے لفظ سے اداکرنے کی ایک اچھی مثال ہے:
وَیُعَلِّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ.(آل عمران ۳: ۴۸)
’’اور اللہ اُسے قانون اورحکمت سکھائے گا،یعنی تورات و انجیل کی تعلیم دے گا۔‘‘
چونکہ تورات میں زیادہ ترقانون بیان ہواہے اورانجیل میں حکمت کی باتیں،اس لیے انھیں بالترتیب قانون اور حکمت سے تعبیر کر لیاگیاہے۔
تفسیر کے اس’’واو‘‘ کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے تو قرآن کے قاری پر اس کے فہم کی ایک نئی دنیا کھل جاتی ہے، جیسا کہ اس آیت میں:۳
وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ.(الحجر ۱۵: ۸۷)
’’ہم نے تم کوسات مثانی،یعنی قرآن عظیم عطا کر دیا ہے۔‘‘
بعض مقامات پر اس ’’واو‘‘ کو ’’یعنی‘‘ کے لفظ میں اداکرنے سے وہ بے سودبحثیں بالکلیہ ختم ہوجاتی ہیں جوگروہی تعصبات کی وجہ سے قرآن میں پیداکرلی گئی ہیں۔مثال کے طورپریہ آیت:
قَدْْ جَآءَ کُمْ مِّنَ اللّٰہِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ.(المائدہ ۵: ۱۵)
’’تمھارے پاس یہ اللہ کی طرف سے ایک روشنی آگئی ہے،یعنی ایک ایسی کتاب جو(دین وشریعت سے متعلق ہرچیزکو)واضح کر دینے والی ہے۔‘‘
۱۔ وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ.(القصص ۲۸: ۲۳)
’’اور(اس کام کے لیے ہمیں ہی آناپڑتاہے،اس لیے کہ)ہمارے والدبہت بوڑھے ہیں۔‘‘
’’البیان‘‘ میں بعض مواقع پریہ التزام کیاگیاہے کہ ’’واو‘‘کاترجمہ’’اور‘‘کے لفظ میں کرتے ہوئے اُس کے ساتھ مقدر بات کوبھی ظاہر کر دیا جائے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے کنویں پرکھڑی ہوئی عورتوں سے کہا: ’مَا خَطْبُکُمَا‘۔ اُنھوں نے دوباتوں سے متعلق استفسار کیا:ایک یہ کہ تم عورتیں ہوکریہاں کیوں آئی ہو؟ اور دوسرے یہ کہ اگرتم آگئی ہو تو اب اپنے گلے کوروک کر کیوں کھڑی ہو؟ انھوں نے جواب میں کہاکہ ہم چرواہوں کی اِس بھیڑمیں اپنے جانوروں کوپانی نہیں پلاسکتیں،اس لیے انھیں روک کرکھڑی ہیں۔اورہم خودیہاں اس لیے آئی ہیں کہ: ’وَاَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ‘۔ ’’البیان‘‘ کے ترجمے میں ’’اور‘‘ کا لفظ بتارہاہے کہ یہ سوال کے دوپہلوؤں میں سے ایک کاجواب ہے اور مقدر جملہ اُس مطابقت کوبیان کررہاہے جو موسیٰ علیہ السلام کے سوال اور عورتوں کی طرف سے دیے گئے جواب کے درمیان میں پائی جاتی ہے۔
۲۔ وَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَآءَ لُوْنَ.(الصافات ۳۷: ۲۷)
’’اُس وقت ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے کہ باہم سوال وجواب کریں۔‘‘
پچھلی آیتوں میں آخرت کامنظربیان ہواہے جب مجرموں اوراُن کے ساتھیوں اوراُن کے باطل معبودوں کو دوزخ کاراستہ دکھا دیاجائے گا۔ ’وَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ‘ کی ’’واو‘‘ اِن آیتوں سے مفہوم ہونے والے ظرف کو بیان کر رہی ہے، چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ ’’اُس وقت‘‘ کے لفظوں میں کیاگیاہے۔
۳۔ اِنَّ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا کَانُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَضْحَکُوْنَ. وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ ےَتَغَامَزُوْنَ. وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا اِلآی اَھْلِھِمُ انْقَلَبُوْا فَکِھِیْنَ.(المطففین۸۳: ۲۹۔۳۱)
’’(وہ بھی دن تھے کہ)یہ مجرم ایمان والوں پرہنستے تھے، جب اُن کے پاس سے گزرتے توآنکھوں سے اشارے کرتے تھے، جب اپنے لوگوں میں پلٹتے تو مزے لیتے ہوئے پلٹتے تھے۔‘‘
’’البیان‘‘ میں کئی مقامات پر’’واو‘‘کاترجمہ چھوڑدیاگیاہے کہ وہاں کلام اسے خودہی ادا کر رہا ہوتا ہے۔ یہاں اسی لیے ’وَاِذَا مَرُّوْا بِہِمْ‘ اور ’وَاِذَا انْقَلَبُوْٓا‘ کے ’’واو‘‘ کا ترجمہ نہیں کیا گیا اور اگر ایسا کیا جاتا تو کلام کی روانی میں حددرجہ خلل آتااوراس میں بننے والی تصویرایک سے زائد تصویروں میں تبدیل ہوجاتی۔
۴۔ وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ.(العنکبوت۲۹: ۵۳)
’’یہ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘‘
بعض اوقات یہ’’واو‘‘محض عطفِ جملہ کی ہوتی ہے ،اس لیے یہ ضروری نہیں ہوتاکہ اس کالفظوں میں ترجمہ کیاجائے۔
تنوین بھی ایک حرف ہے کہ اسے نحوی حضرات ’’ن‘‘ کاقائم مقام قراردیتے ہیں۔یہ اصل میں تنکیرکے لیے آتی ہے،مگرکلام عرب میں اس سے بعض دوسرے معانی کوبھی اداکیاجاتاہے۔ان میں سے ایک معنی تفخیم شان کابھی ہے اوراس کاترجمہ عام طورپراس کے صرف ایک پہلو کے لحاظ سے کیاجاتاہے،مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ’’البیان‘‘ میں تفخیم کی اس تنوین کاترجمہ ہرجگہ ایک سانہیں کیاگیاکہ مختلف مقامات پراس کے مختلف پہلومرادہواکرتے ہیں،مثلاً:
سُوْرَۃٌ اَنْزَلْنٰھَا وَفَرَضْنٰھَا وَاَنْزَلْنَا فِیْھَآ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ لَّعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.(النور ۲۴: ۱)
’’یہ ایک عظیم سورہ ہے جس کوہم نے اتاراہے اوراس کے احکام (تم پر)فرض ٹھیرائے ہیں اوراس میں نہایت واضح تنبیہات بھی اتاری ہیں تاکہ تم یادرکھو۔‘‘
یہاں ’سُوْرَۃٌ‘ کی تنوین اصل میں اس کی عظمت اوراہمیت کے اظہارکے لیے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مبتدا محذوف کی خبرہے اوراس حذف سے مقصودیہ ہے کہ ساری توجہ خبرپرمرکوزہوکررہ جائے۔مزیدیہ کہ اگلے جملے، جیساکہ اسے ہم نے اتاراہے،اس کے احکام فرض ٹھیرادیے ہیں ،اس میں نہایت واضح تنبیہات اتاردی ہیں؛ان سب سے بھی ’سُوْرَۃٌ‘ کے اس لفظ میں عظمت واہمیت کاپہلوپیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’ایک عظیم سورہ‘‘ کے الفاظ میں کیاگیاہے۔
بَلْ قَالُوْٓا اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا عَلٰٓی اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلآی اٰثٰرِھِمْ مُّھْتَدُوْنَ.(الزخرف ۴۳: ۲۲)
’’ہرگزنہیں،بلکہ یہ توکہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ داداکوایک برترطریقے پرپایاہے اورہم اُنھی کے قدم بہ قدم ٹھیک راستے پرچل رہے ہیں۔‘‘
عرب کے لوگ صرف اس لیے شرک کواپنادین قرارنہیں دیتے تھے کہ یہ اُن کے باپ داداکاطریقہ تھا،بلکہ وہ اُسے حق بھی سمجھتے تھے۔آیت میں ’وَّاِنَّا عَلٰٓی اٰثٰرِھِمْ مُّھْتَدُوْنَ‘ کے الفاظ بھی یہی بات بتارہے ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں ’اُمَّۃٍ‘ کی تنوین محض تنکیر کے لیے نہیں آئی ،جیساکہ عام طورپر مترجمین نے سمجھاہے ،بلکہ یہ اُن کے اُس زعم کوبیان کرنے کے لیے آئی ہے جس کے مطابق شرک ہی بہتراورسب سے بڑھ کر دین تھا۔یہی وجوہ ہیں کہ ’’البیان‘‘ میں اسے ’’برتر ‘‘کے لفظ میں ادا کیاگیاہے۔
وَشَجَرَۃً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِسَیْنَآءَ تَنْبُتُ م بِالدُّھْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰکِلِیْنَ.(المومنون ۲۳: ۲۰)
’’اسی طرح وہ درخت بھی اگایاہے جوطورسیناسے نکلتاہے ۔وہ روغن لیے ہوئے اگتاہے اور(روغن کی صورت میں)کھانے والوں کے لیے ایک اچھاسالن بھی۔‘‘
یہاں خداکی طرف سے کیے گئے ربوبیت کے بے مثل انتظام کوبیان کیاجارہاہے۔امتنان کے اس پہلوکالحاظ رکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت محض روغن زیتون کے سالن ہونے کابیان نہیں ،بلکہ اِس سالن کے ایک بڑی اچھی نعمت ہونے کابیان ہے۔ان آیات کے مخاطبین کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ اُن کے ہاںیہ روغن سالن کے طورپر استعمال ہوتااوربہت زیادہ پسندکیاجاتاتھا اور اسے ایک مقوی غذابھی قرار دیا جاتا تھا۔ ’صِبْغٍ‘ کی تنوین اصل میں اِس کی انھی خوبیوں کابیان ہے ،اوراسی وجہ سے ’’البیان‘‘ میں اس کا ترجمہ ’’ایک اچھا سالن‘‘کیاگیاہے۔
وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ عُدْوَانًا وَّظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِیْہِ نَارًا.(النساء ۴: ۳۰)
’’اوریادرکھوکہ جولوگ ظلم وزیادتی کے ساتھ ایساکریں گے، اُن کوہم ضرورایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیں گے۔‘‘
قرآن میں عمل اورجزاکے درمیان میں مشابہت کی بہت سی مثالیں مذکورہوئی ہیں۔اس آیت میں اسی اصول پر فرمایا ہے کہ جوظلم وزیادتی کرتے ہوئے نافرمانی کاارتکاب کرے گا،اُسے ہم سزابھی بڑی سخت اورہولناک دیں گے۔ اس پہلوکالحاظ کیاجائے تو ’نَارًا‘ کی تنوین سزاکے ہولناک ہونے کابیان ہے اوراس لفظ کاترجمہ’’ایک سخت بھڑکتی ہوئی آگ‘‘ کرنا،بہت زیادہ موزوں ہے۔
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَھُمْ فِیْ رَوْضَۃٍ یُّحْبَرُوْنَ.(الروم ۳۰: ۱۵)
’’پھرجوایمان لائے اورجنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے،وہ ایک شان دارباغ میں شاداں فرحاں رکھے جائیں گے۔‘‘
جن لوگوں نے کفراورتکذیب کی زندگی گزاری ،اُن کے بارے میں فرمایاہے کہ وہ آخرت کے روز عذاب میں پکڑے ہوئے ہوں گے۔ان کے مقابلے میں جولوگ ایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے ،مذکورہ آیت میں اُن کے حسن انجام کابیان فرمایا ہے۔ یہ حسن انجام محض ایک باغ کے بجاے کسی ایسے باغ کادیاجاناہی ہوسکتاہے جو اپنی خوب صورتی اورشان میں بہت زیادہ بڑھاہوا ہو۔ ’یُحْبَرُوْنَ‘ کے لفظ کی رعایت رہے توبھی اِس باغ میں یہ وصف آپ سے آپ پیدا ہو جاتا ہے۔ ’رَوْضَۃٍ‘ کی تنوین باغ کے اِسی وصف کابیان ہے اور ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ اسی لیے ’’شان دار باغ‘‘ کے الفاظ میں ہواہے۔
خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.(العنکبوت ۲۹: ۴۴)
’’زمین اورآسمانوں کوخدانے برحق پیداکیاہے۔اس میں یقینابہت بڑی نشانی ہے ایمان والوں کے لیے۔‘‘
مقصدحق کی تذکیراوراُس کی طرف رہنمائی کے لیے قرآن میں عام طورپرتین بڑے دلائل کا ذکر کیا جاتا ہے: انفسی، تاریخی اور آفاقی۔یہاں ان میں سے آخری کاذکر فرمایاہے۔زمین وآسمان کی یہ تخلیق جس طرح قرآن میں ایک بڑی دلیل کے طورپربیان ہوتی ہے، اسی طرح ہم جانتے ہیں کہ یہ واقعہ میں بھی بہت بڑی دلیل ہے۔اس نظر سے دیکھاجائے تو ’لَاٰیَۃً‘ کی تنوین اس دلیل کے بڑے ہونے ہی کابیان ہے۔
یہ تنوین بعض اوقات تفخیم کے بجاے تحقیرکی ہوتی ہے، مگر ’’البیان‘‘ میں اس کاترجمہ بھی ہرجگہ ایک سا نہیں کیاگیا:
وَلَئِنْ مَّسَّتْھُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۴۶)
’’تمھارے پروردگارکے عذاب کاکوئی جھونکابھی انھیں چھوجائے توپکاراُٹھیں گے کہ ہاے ہماری بدبختی! بے شک،ہم ہی ظالم تھے۔‘‘
منکرین اللہ کے رسول کامذاق اڑاتے،اُنھیں عذاب سے خبردارکیاجاتاتو جلدی مچاتے ہوئے خوداس عذاب کی طلب کرتے، یہاں تک کہ اس کے وقوع پربے تکے سوال اُٹھادیتے۔اُن کے اس رویے پرفرمایاہے کہ خداکاعذاب تو بہت بڑی چیزہے ، اُنھیں اگراس کا ذراسا جھونکا بھی چھوجائے تواُن کی یہ ساری مشیخت اوراکڑفوں ختم ہوکررہ جائے۔ اس روشنی میں دیکھیں تو ’نَفْحَۃٌ‘ کی تنوین یہاں اس جھونکے کااپنی جسامت میں حقیرہونا بیان کررہی ہے۔ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے ’’کوئی جھونکا بھی‘‘ کے الفاظ لائے گئے ہیں اوردیکھ لیاجاسکتا ہے کہ یہ تینوں الفاظ مل کر کس خوب صورتی سے یہ سارامعنی اداکر رہے ہیں۔
وَّاَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًا.(الجن ۷۲: ۶)
’’اوریہ بھی کہ (انسان کچھ پہلے ہی سرکش تھے،پھر)انسانوں میں سے کچھ احمق ہمارے اِن جنوں میں سے کچھ شریروں کی دہائی دیتے رہے تواِنھوں نے اُن کی سرکشی بڑھادی۔‘‘
اس آیت میں انسانوں کی یہ حماقت بیان ہوئی ہے کہ وہ جنوں کی دہائی دیتے رہے اوراس حماقت کا یہ نتیجہ بیان ہوا ہے کہ جن چونکہ خود شریر تھے،اس لیے انھوں نے انسانوں کی سرکشی میں اوراضافہ کردیا۔اس لحاظ سے دیکھاجائے تو آیت میں ’رِجَالٌ‘ کی تنوین دونوں جگہ تحقیر کے خاص پہلو،یعنی حقارت کے لیے آئی ہے۔البتہ ،یہ حقارت ’رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ‘ میں انسانوں کی حماقت اور ’رِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ‘ میں جنوں کی شرارت پر پیدا ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’البیان‘‘ میں اس کے لیے’’ احمق‘‘ اور’’شریر‘‘کے دومختلف الفاظ لائے گئے ہیں۔
ذیل کی آیت میں تحقیرکے دونوں پہلواکٹھے ہوگئے ہیں،یعنی کسی شے کااپنی جسامت اوراپنی حیثیت ،دونوں میں معمولی درجے کا ہونا اور ’’البیان‘‘ میں انھی دو پہلوؤں کو ’’ذرا سی‘‘ کے الفاظ میں اداکیاگیاہے:
خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ھُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ.(النحل ۱۶: ۴)
’’اُس نے انسان کوایک ذراسی بوندسے پیدا کیا تو دیکھتے ہوکہ یکایک وہ ایک کھلاہواحریف بن کراٹھ کھڑا ہوا ہے۔‘‘
بعض اوقات یہ تنوین تقلیل اورتکثیرکے مضمون کوبھی بیان کرتی ہے:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ.(التوبہ ۹: ۱۲۲)
’’مگرایساکیوں نہ ہواکہ اُن کے ہرگروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیداکرتے ۔‘‘
دوردرازکے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں تھاکہ وہ تعلیم وتربیت کی غرض سے سب کے سب مدینہ کے لیے نکل کھڑے ہوتے اورنہ دین اسلام کایہ مزاج ہی ہے کہ وہ ان سب کے نکل آنے پر اصرار کرتا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی ہرجماعت میں سے کچھ لوگ ہی نکلتے۔ آسانی سے سمجھ لیاجاسکتا ہے کہ ’طَآءِفَۃٌ‘ کی تنوین یہاں تقلیل کے لیے آئی ہے جسے ’’کچھ لوگ‘‘کے الفاظ میں اداکیا گیاہے۔
فَاٰمَنَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْ م بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌ.(الصف ۶۱: ۱۴)
’’چنانچہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک بڑا گروہ اپنے کفر پر جما رہا۔‘‘
مسلمانوں سے فرمایاہے کہ وہ اللہ کے مددگاربنیں گے تووہ بھی لازماًاُن کی مددکرے گا،جیساکہ ایک زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری اللہ کے مددگاربنے اوراس کے باوجودکہ بنی اسرائیل میں سے بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے،اللہ نے اُنھیں ان کے دشمنوں پر غالب کیا۔اس سیاق میں اوراس کے ساتھ اگرسورہ کے مرکزی مضمون کوبھی سامنے رکھاجائے توآیت میں اول الذکر ’طَآئِفَۃٌ‘ کی تنوین توتقلیل کے لیے ہے ،مگر ثانی الذکر ’طَآئِفَۃٌ‘ کی تنوین تکثیرکے لیے آئی ہے ،چنانچہ اس کا ترجمہ ایک ’’بڑا گروہ‘‘ کیاگیاہے۔
تنوین سے کسی شے کی تعمیم بھی مرادلی جاتی ہے:
وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ. وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ. وَشَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ.(البروج ۸۵: ۱- ۳)
’’برجوں والاآسمان گواہی دیتاہے اوروہ دن بھی جس کاوعدہ تم سے کیاجارہاہے،اور(دنیامیں)ہردیکھنے والا، (اگر وہ عبرت کی نگاہ سے دیکھے)اورجوکچھ وہ دیکھ رہاہے۔‘‘
یہاں قیامت پراستدلال کیاجارہاہے اوراس کے لیے آسمان میں کیے گئے نگرانی کے انتظام اورخود قیامت کے دن کوپیش کیا ہے۔اسی طرح آفاق میں موجودبے شمار نشانیوں اوراُن سے عبرت حاصل کرنے والے بہت سے لوگوں کابھی ذکرکیاہے کہ یہ سب گواہی دیتے ہیں کہ قیامت واقع ہوکررہے گی۔اس لحاظ سے دیکھیں تو ’شَاھِدٍ‘ اور ’مَشْھُوْدٍ‘ کی تنوین اصل میں تعمیم کی ہیں اوراسی وجہ سے ان کاترجمہ’’ ہردیکھنے والا‘‘اور’’جوکچھ وہ دیکھ رہا ہے‘‘ کے الفاظ میں ہواہے۔
تنوین کراہت کے لیے بھی آتی ہے اوراس کراہت اورناپسندیدگی کے بھی ایک سے زائدپہلومرادہواکرتے ہیں:
قَدْ سَاَلَھَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِھَا کٰفِرِیْنَ.(المائدہ ۵: ۱۰۲)
’’تم سے پہلے ایک قوم نے اِسی طرح کی باتیں پوچھیں،پھراُنھی کے منکرہوکررہ گئے تھے۔‘‘
یہودکے بارے میں فرمایاہے کہ ایسابھی ہواکہ اُنھوں نے خداکاحکم سن کرلیت ولعل سے کام لیااوراُس پر بے جا سوالات پوچھنا شروع کردیے اورجب خداکی طرف سے جواب دیاگیاتوپھربھی مان لینے کے بجاے اُن کا انکار کر دیا۔ یہاں یہودکی قوم کے لیے محض ’قَوْمٌ‘ کا لفظ لایا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ متکلم اُن سے اِعراض اور اپنی بے زاری کا اظہار کرنا چاہتا ہے۔ ’’ایک قوم‘‘ کے الفاظ اصل میں اُسی اعراض کابیان ہیں۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْھًا فَنَرُدَّھَا عَلآی اَدْبَارِھَآ.(النساء ۴: ۴۷)
’’اے وہ لوگو،جنھیں کتاب دی گئی،اُس چیزکومان لوجوہم نے اُن چیزوں کی تصدیق میں اتاری ہے جو خود تمھارے پاس موجود ہیں۔مان لو،اس سے پہلے کہ ہم چہرے بگاڑدیں اوراُن کوپیچھے کی طرف الٹ کر برابر کر دیں۔‘‘
اہل کتاب کووعیدسنائی جارہی ہے کہ انھوں نے اپنی صلاحیتوں کواستعمال نہ کرنے کا ارادہ کررکھاہے ،اس لیے اُن کے چہروں پر اب آنکھ اورکان وغیرہ کی گویاضرورت نہیں رہی اور بہتریہی ہے کہ ان چہروں کو بالکل سپاٹ بنا دیا جائے۔ یہاں اُن کے چہروں کے لیے ’وجوہہم‘ نہیں، بلکہ ’وُجُوْھًا‘ کہا ہے اوراس تنوین سے مقصودیہ ہے کہ متکلم کو اُن سے صرف بے زاری نہیں، بلکہ اس قدر نفرت ہے کہ اُن کا ذکرکرنابھی اُسے روا نہیں۔ ’’البیان‘‘ میں اسی نفرت کو ادا کرنے کے لیے چہرے کے ساتھ کسی اورلفظ کو استعمال کرنے کے بجاے محض ’’چہرے‘‘کالفظ لایا گیا ہے۔
[باقی]
________
۱ یاد رہے کہ اس تحریرمیں ہم حرف اورلفظ کاباہمی فرق اردوزبان کے لحاظ سے کررہے ہیں،وگرنہ عربی کی نحومیں حرف کوبھی لفظ ہی کہاجاتاہے۔
۲ یاد رہے، یہاں ’’کم ہی مانیں گے‘‘ سے مرادیہ نہیں ہے کہ ان کے ایمان کی کچھ نہ کچھ توقع بہرحال ابھی پائی جاتی ہے ۔بلکہ یہ کسی چیزکی مطلق نفی کرنے کا ویساہی اسلوب ہے ، جیساکہ ہم کسی کی بے جاحرکتوں کودیکھ کراس سے بالکل مایوس ہو جائیں اور کہیں کہ اس کے سدھرنے کااب کم ہی اِمکان ہے۔
۳ اس آیت کی تفصیل کے لیے ’’البیان‘‘ میں لکھی ہوئی تفسیر کی مراجعت کی جاسکتی ہے۔
____________