بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَاءِنْ مِّتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُوْنَ(۳۴) کُلُّ نَفْسٍ ذَآءِقَۃُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ(۳۵)
وَاِذَا رَاٰکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا اَھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمْ وَھُمْ بِذِکْرِ الرَّحْمٰنِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ(۳۶)
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَاُورِیْکُمْ اٰیٰتِیْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ(۳۷) وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۸) لَوْ یَعْلَمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا حِیْنَ لَا یَکُفُّوْنَ عَنْ وُّجُوْھِھِمُ النَّارَ وَلَا عَنْ ظُھُوْرِھِمْ وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ(۳۹) بَلْ تَاْتِیْہِمْ بَغْتَۃً فَتَبْھَتُھُمْ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ رَدَّھَا وَلَا ھُمْ یُنْظَرُوْنَ(۴۰)
وَلَقَدِ اسْتُھْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیْنَ سَخِرُوْا مِنْھُمْ مَّاکَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِءُوْنَ(۴۱) قُلْ مَنْ یَّکْلَؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ بَلْ ھُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّھِمْ مُّعْرِضُوْنَ(۴۲) اَمْ لَھُمْ اٰلِھَۃٌ تَمْنَعُھُمْ مِّنْ دُوْنِنَا لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ نَصْرَ اَنْفُسِھِمْ وَلَا ھُمْ مِّنَّا یُصْحَبُوْنَ(۴۳)
بَلْ مَتَّعْنَا ھٰٓؤُلَآءِ وَاٰبَآءَ ھُمْ حَتّٰی طَالَ عَلَیْھِمُ الْعُمُرُ اَفَلَا یَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا اَفَھُمُ الْغٰلِبُوْنَ(۴۴)
قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ وَلَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنْذَرُوْنَ(۴۵) وَلَءِنْ مَّسَّتْھُمْ نَفْحَۃٌ مِّنْ عَذَابِ رَبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۴۶)
وَنَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْءًا وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِھَا وَکَفٰی بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَضِیَآءً وَّذِکْرًا لِّلْمُتَّقِیْنَ(۴۸) الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَیْبِِ وَھُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ(۴۹)
وَھٰذَا ذِکْرٌ مُّبٰرَکٌ اَنْزَلْنٰہُ اَفَاَنْتُمْ لَہٗ مُنْکِرُوْنَ(۵۰)
وَلَقَدْ اٰتَیْنَآ اِبْرٰھِیْمَ رُشْدَہٗ مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا بِہٖ عٰلِمِیْنَ(۵۱) اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَا ھٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْتُمْ لَھَا عٰکِفُوْنَ(۵۲) قَالُوْا وَجَدْنَآ اٰبَآءَ نَا لَھَا عٰبِدِیْنَ(۵۳) قَالَ لَقَدْ کُنْتُمْ اَنْتُمْ وَاٰبَآؤُ کُمْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۵۴) قَالُوْٓا اَجِءْتَنَا بِالْحَقِّ اَمْ اَنْتَ مِنَ اللّٰعِبِیْنَ(۵۵) قَالَ بَلْ رَّبُّکُمْ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الَّذِیْ فَطَرَھُنَّ وَاَنَا عَلٰی ذٰلِکُمْ مِّنَ الشّٰھِدِیْنَ(۵۶) وَتَاللّٰہِ لَاَکِیْدَنَّ اَصْنَامَکُمْ بَعْدَ اَنْ تُوَلُّوْا مُدْبِرِیْنَ(۵۷) فَجَعَلَہُمْ جُذٰذًا اِلَّا کَبِیْرًا لَّھُمْ لَعَلَّھُمْ اِلَیْہِ یَرْجِعُوْنَ(۵۸)
قَالُوْا مَنْ فَعَلَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَآ اِنَّہٗ لَمِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۹) قَالُوْا سَمِعْنَا فَتًی یَّذْکُرُھُمْ یُقَالُ لَہٗٓ اِبْرٰھِیْمُ(۶۰) قَالُوْا فَاْتُوْا بِہٖ عَلٰٓی اَعْیُنِ النَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَشْھَدُوْنَ(۶۱) قَالُوْٓا ءَ اَنْتَ فَعَلْتَ ھٰذَا بِاٰلِھَتِنَا یٰٓاِبْرٰھِیْمُ(۶۲) قَالَ بَلْ فَعَلَہٗ کَبِیْرُھُمْ ھٰذَا فَسْءَلُوْھُمْ اِنْ کَانُوْا یَنْطِقُوْنَ(۶۳) فَرَجَعُوْٓا اِلٰٓی اَنْفُسِھِمْ فَقَالُوْٓا اِنَّکُمْ اَنْتُمُ الظّٰلِمُوْنَ(۶۴) ثُمَّ نُکِسُوْا عَلٰی رُءُ وْسِھِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاھٰٓؤُلَآءِ یَنْطِقُوْنَ(۶۵) قَالَ اَفَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکُمْ شَیْءًا وَّلَا یَضُرُّکُمْ(۶۶) اُفٍّ لَّکُمْ وَلِمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۶۷)
قَالُوْا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْٓا اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ(۶۸) قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ(۶۹) وَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَ(۷۰)
وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ(۷۱) وَوَھَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ نَافِلَۃً وَکُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَ(۷۲) وَجَعَلْنٰھُمْ اَءِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءَ الزَّکٰوۃِ وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ(۷۳)
وَلُوْطًا اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا وَّنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْقَرْیَۃِ الَّتِیْ کَانَتْ تَّعْمَلُ الْخَبٰٓءِثَ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فٰسِقِیْنَ(۷۴) وَاَدْخَلْنٰہُ فِیْ رَحْمَتِنَا اِنَّہٗ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۷۵)
وَنُوْحًا اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَنَجَّیْنٰہُ وَاَھْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ(۷۶) وَنَصَرْنٰہُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمَ سَوْءٍ فَاَغْرَقْنٰھُمْ اَجْمَعِیْنَ(۷۷)
(یہ تم کو نہیں مانتے، اِس لیے کہ تمھیں بھی ایک دن مر جانا ہے)۔ تم سے پہلے بھی، (اے پیغمبر)، ہم نے کسی انسان کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی، تو کیا اگر تم مر گئے تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ۲۱۵؎؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور(یہ اپنی حیثیت پراترائیں نہیں)، ہم اچھے اوربرے حالات سے تم لوگوں کو آزما رہے ہیں، پرکھنے کے لیے اور (ایک دن)تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔۲۱۶؎۳۴-۳۵
یہ منکرین جب تم کو دیکھتے ہیں تو اِس کے سوا کچھ نہیں کرتے کہ تمھیں مذاق بنا لیتے ہیں۔ (کہتے ہیں ۲۱۷؎): اچھا یہی ہے جو تمھارے معبودوں کی ہجو کرتا ہے۲۱۸؎ اور اپنا حال یہ ہے کہ یہ خود خداے رحمن کے ذکر ہی کے منکر ہیں ۲۱۹؎۔ ۳۶
(یہ عذاب کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ) انسان عجلت کے خمیر سے پیدا ہوا ہے۔ میں عنقریب اپنی نشانیاں تمھیں دکھاؤں گا، اِس لیے مجھ سے جلدی نہ مچاؤ۔ اورکہتے ہیں کہ یہ وعدہ کب پورا ہو گا، اگر تم سچے ہو؟ اے کاش، اِن منکروں کو اُس وقت کی خبر ہوتی، جب یہ دوزخ کی آگ کو نہ اپنے چہروں سے ہٹا سکیں گے، نہ اپنی پیٹھوں سے اور نہ اِن کو کہیں سے مدد پہنچے گی۔ یہ مصیبت بتا کر نہیں آئے گی،۲۲۰؎ بلکہ اِن پر اچانک آموجود ہو گی اور اِنھیں مبہوت کر دے گی۔ پھر نہ اُس کو دفع کر سکیں گے اور نہ اِنھیں مہلت ہی دی جائے گی۔۳۷-۴۰
تم سے پہلے بھی، (اے پیغمبر)، رسولوں کا مذاق اڑایاجا چکا ہے۔ پھر جنھوں نے اُن کا مذاق اڑایا تھا، اُن کو اُسی چیز نے گھیر لیا،جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے۔ اِن سے پوچھو، (اگر وہی چیز تمھیں آگھیرے تو)رات اور دن میں کون خداے رحمن سے تمھاری حفاظت کرسکتا ہے؟ کوئی نہیں، بلکہ یہ لوگ اپنے پروردگار کی یاددہانی سے منہ موڑ ے ہوئے ہیں۔ کیا اِن کے لیے ہمارے سوا کچھ اور معبود ہیں جو اِن کو بچا لیں گے؟ (ہرگز نہیں)، وہ نہ خود اپنی مدد کر سکیں گے اور نہ ہمارے مقابل میں کوئی اُن کا ساتھ دے سکتا ہے۔۴۱-۴۳
بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم نے اِن کو اور اِن کے باپ دادا کو دنیا سے بہرہ مند کیا، یہاں تک کہ اِن پر ایک لمبی مدت اِسی حال میں گزر گئی۔ ۲۲۱؎تاہم،کیا یہ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ اِس سرزمین کو ہم اِس کے کناروں سے کم کرتے ہوئے اِس کی طرف بڑھ رہے ہیں ۲۲۲؎؟ پھر کیا یہی غالب رہنے والے ہیں ۲۲۳؎؟۴۴
اِن سے کہو، میں بس وحی کے ذریعے سے تم کو متنبہ کر رہا ہوں مگر (یہ بہرے ہیں اور) بہرے پکار کو نہیں سنا کرتے، (اے پیغمبر)، جب اُنھیں خبردار کیا جائے۔(اِس وقت تو یہ مطالبے کر رہے ہیں اور اُدھر) واقعہ یہ ہے کہ تمھارے پروردگار کے عذاب کا کوئی جھونکا بھی اِنھیں چھو جائے تو پکاراُٹھیں گے کہ ہاے ہماری بدبختی! بے شک، ہم ہی ظالم تھے۔ ۴۵-۴۶
(اِنھیں بتاؤ کہ) روزِ قیامت کے لیے ہم انصاف کی ترازو رکھ دیں گے۔ پھر کسی جان پر ذرا بھی ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کا عمل ہو گا تو ہم اُس کو لا موجود کریں گے۔۲۲۴؎ اور ہم (لوگوں کا) حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔۴۷
ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور خدا ترسوں کے لیے ایک روشنی اور یاددہانی عطا فرمائی تھی،۲۲۵؎ جو بن دیکھے اپنے پروردگارسے ڈرتے ہیں اور قیامت کا خطرہ رکھنے والے ہیں ۲۲۶؎۔۴۸-۴۹
اُسی طرح یہ قرآن بھی ایک با برکت یاددہانی ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے، پھر کیا تم لوگ اِس کے منکر ہی بنے رہو گے؟ ۵۰
اِس سے پہلے ابراہیم کو بھی ہم نے (اُس کے شایانِ شان) اُس کے حصے کی ۲۲۷؎ ہدایت عطا کی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے۔۲۲۸؎ جب اُس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم کے لوگوں سے کہا: یہ کیا مورتیں ہیں جن سے تم لگے بیٹھے ہو۲۲۹؎؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہم نے اپنے باپ دادا کو اِنھی کی عبادت کرتے ہوئے پایا ہے۔ اُس نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ تم بھی اور تمھارے باپ دادا بھی ایک کھلی گم راہی میں پڑے رہے ہو۲۳۰؎۔ اُنھوں نے پوچھا: کیا ہمارے پاس سوچی سمجھی بات لے کر آئے ہو یا ہنسی مسخری کر رہے ہو۲۳۱؎؟ اُس نے کہا: نہیں، بلکہ تمھارا پروردگار وہی ہے جو زمین اور آسمانوں کا پروردگارہے، جس نے اُن کو پیدا کیا ہے اور میں (تمھارے سامنے) اُس پر گواہی دے رہا ہوں ۲۳۲؎ (پھر اپنے دل میں کہا): خدا کی قسم، جب تم پیٹھ پھیر کر جا چکو گے تو میں تمھارے بتوں کے ساتھ ضرور ایک چال کروں گا۔۲۳۳؎ چنانچہ (وہ چلے گئے تو)ابراہیم نے اُن سب کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا، اُن کے ایک بڑے کے سوا تاکہ وہ اُسی کی طرف رجوع کریں ۲۳۴؎۔۵۱-۵۸
(اُنھوں نے آ کر بتوں کی یہ حالت دیکھی تو) کہنے لگے: ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ حرکت کس نے کی ہے ۲۳۵؎؟ یقینا وہ بڑا ہی ظالم ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ ہم نے ایک نوجوان کو اِنھیں کچھ برا کہتے ہوئے سنا تھا،۲۳۶؎ جس کو ابراہیم پکارتے ہیں ۲۳۷؎۔ اُنھوں نے کہا:تو اُس کو سب لوگوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ وہ بھی دیکھ لیں ۲۳۸؎۔ (چنانچہ ابراہیم لائے گئے تو) اُنھوں نے پوچھا: ابراہیم، یہ حرکت ہمارے معبودوں کے ساتھ تمھی نے کی ہے؟ ابراہیم نے جواب دیا: بلکہ اِن کے اِس بڑے نے کی ہو گی۔ تو اِنھی سے پوچھ لو، اگر یہ بولتے ہوں ۲۳۹؎۔اِس پر اُن کو اپنے باطن کی طرف ذرا تنبہ ہوا اور اُنھوں نے ایک دوسرے سے کہا: حقیقت میں تم ہی ظالم ہو ۲۴۰؎۔ لیکن پھر اوندھے ہو گئے ۲۴۱؎اور بولے:تمھیں معلوم ہی ہے کہ یہ بولتے نہیں ہیں ۲۴۲؎۔ ابراہیم نے کہا: پھر کیا اللہ کے سوا اُن چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو تمھیں نہ کوئی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان؟ تف ہے تم پر اور اُن پر بھی جنھیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو۔ پھر کیا سمجھتے نہیں ہو ۲۴۳؎؟۵۹-۶۷
(اِس پر) وہ بولے کہ اگر کچھ کرنے کا ارادہ ہے تو اِس کو آگ میں جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو۲۴۴؎۔(چنانچہ ابراہیم کو آگ میں جھونک دیا گیا، تب) ہم نے حکم دیا کہ اے آگ، تو ابراہیم کے لیے ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا۔ ۲۴۵؎ اُنھوں نے چاہا تھا کہ (ابراہیم سے نجات کے لیے) اُس کے ساتھ ایک چال چلیں ۲۴۶؎، مگر ہم نے اُن کو بری طرح ناکام بنا دیا۔۶۸-۷۰
اور اُس کو اور (اُس کے بھتیجے) لوط کو بچا کر ہم اُس سرزمین کی طرف نکال لے گئے، جس میں ہم نے دنیا والوں کے لیے برکتیں رکھی تھیں۔۲۴۷؎ اور (اُس کی قربانیوں کے صلے میں) ہم نے اُس کو اسحق عطا فرمایا ۲۴۸؎اوراُس پر مزید یعقوب بھی، اور ہم نے ہر ایک کو صالح بنایا۔ اور ہم نے اُن کو امامت عطا فرما ۲۴۹؎ئی کہ ہماری ہدایت کے مطابق (دنیا والوں کی) رہنمائی کرتے تھے اور اُن کو نیک کام کرنے اور نماز کا اہتمام رکھنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم بھیجا اور وہ ہماری بندگی کرنے والے تھے۔۷۱-۷۳
ہم نے لوط کو بھی حکم اور علم عطا فرمایا تھا ۲۵۰؎اور اِسی طرح اُس کو بھی اُس بستی سے نجات دی تھی جہاں کے لوگ بدکاریاں کرتے تھے۲۵۱؎۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑے ہی برے، نا ہنجار لوگ تھے۔ اور (دنیا اور آخرت، دونوں کے اندر) اُس کو ہم نے خاص اپنی رحمت میں داخل کیا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ وہ صالح لوگوں میں سے تھا۔ ۷۴-۷۵
یہی معاملہ ہم نے نوح کے ساتھ کیا تھا۲۵۲؎۔ یاد کرو، اِن سب لوگوں سے پہلے جب اُس نے پکارا ۲۵۳؎ تو ہم نے اُس کی دعا قبول کی اور اُسے اور اُس کے لوگوں ۲۵۴؎ کو بڑی مصیبت سے نجات بخشی اور اُس کی مدد میں اُن لوگوں سے انتقام لیا۲۵۵؎ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا تھا۔ یقینا وہ بڑے ہی برے لوگ تھے، سو ہم نے اُن سب کو غرق کر دیا۲۵۶؎۔ ۷۶-۷۷
۲۱۵؎ مطلب یہ ہے کہ جب خود بھی فانی ہیں تو آخر رسول کے بارے میں کیوں چاہتے ہیں کہ اُسے غیر فانی ہوناچاہیے۔
۲۱۶؎ یعنی یہ خیال نہ کریں کہ اِن کے اچھے حالات اِن کا ذاتی استحقاق ہیں اور اِس کی بنا پر اب نبوت بھی اِنھیں ہی ملنی چاہیے تھی، لہٰذا مال و دولت اور عز و جاہ میں فروتر کسی شخص کو یہ خدا کا پیغمبر کیوں مانیں، بلکہ اِس بات کو سمجھیں کہ اِس دنیا میں غربت و امارت اور رنج و راحت، سب امتحان کے لیے ہے۔ اِن میں سے کوئی چیز بھی کسی کا ذاتی استحقاق نہیں ہے۔
۲۱۷؎ یعنی تحقیر کے انداز میں کہتے ہیں۔
۲۱۸؎ اصل میں ’یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمْ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ضمیر خطاب اپنے عوام کو بھڑکانے کے لیے ہے، ورنہ موقعِ کلام کا تقاضا تھا کہ ’یذکر اٰلھتنا‘ کہا جاتا اور ’ذِکْر‘ سے مراد برائی کے ساتھ ذکر کرنا ہے۔ یہ اسلوب بتا رہا ہے کہ ’یَذْکُرُ اٰلِھَتَکُمْ‘ کے بعد ’بالسوء‘ کا لفظ وہ اپنے معبودوں کے لیے غیرت و حمیت کی بنا پر حذف کر دیتے تھے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، گویا اپنے بتوں کے لیے برائی کا لفظ زبان پر لانا اُنھیں بطورِ نقلِ کفر بھی گوارا نہیں تھا۔
۲۱۹؎ یعنی اپنے ٹھیرائے ہوئے معبودوں کے لیے تو ایسی غیرت و حمیت رکھتے ہیں، مگر معبودِ حقیقی کے معاملے میں حال یہ ہے کہ اُس کے ذکر کے بھی روادار نہیں ہیں۔
۲۲۰؎ یعنی روزِ قیامت کی مصیبت جس کا ذکر پچھلے جملے سے مفہوم ہو رہا ہے۔
۲۲۱؎ یہ اُن کے اعراض و استکبار کے اصل سبب سے پردہ اٹھایا ہے کہ عزت و اقتدار اور خوش حالی کی سرمستی میں ایک مدت گزارنے کی وجہ سے یہ اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور اِن کا یہی زعم خدا کے پیغمبر سے اِن کی بے پروائی کا باعث بن گیا ہے۔
۲۲۲؎ یعنی سرزمینِ حرم کو۔ یہ اُن فتوحات کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کی دعوت کو مکہ کے اطراف میں حاصل ہو رہی تھیں۔ خدا نے اِسے اپنے اقدام سے تعبیر فرمایا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اگر کوئی نشانی ہی دیکھنا چاہتے ہیں تو اِس نشانی کو کیوں نہیں دیکھتے جو اِن کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہو رہی ہے کہ ہماری دعوت کے آثار گردوپیش کے قبائل میں پھیلتے جا رہے ہیں، اِن کا دائرہ تنگ ہو رہا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ اِن کا یہ شہر بھی ایک دن اِس دعوت کی یلغار سے اِسی طرح مفتوح ہو جائے گا۔
۲۲۳؎ یعنی غلبۂ حق کے اِن آثار کو دیکھنے کے بعد بھی کیا اِن کا گمان ہے کہ یہی غالب رہیں گے؟
۲۲۴؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَاِنْ کَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ، اَتَیْنَا بِھَا‘۔ اِن میں ’کَانَ‘ کا اسم ہمارے نزدیک بربناے قرینہ محذوف ہے اور ’بِھَا‘ میں ضمیرِ مونث لفظِ ’حَبَّۃ‘ کی مناسبت سے آگئی ہے۔
۲۲۵؎ یعنی تورات جو حق و باطل کا فرق دکھانے والی کسوٹی تھی، جس سے فکر و عمل کی تاریکیوں میں ہدایت و معرفت کی روشنی حاصل ہوتی تھی اور جس میں اُن سب حقائق کی یاددہانی کرائی گئی جو اِس وقت زیر بحث ہیں۔
۲۲۶؎ اِس لیے کہ انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے جو ہدایت نازل کی جاتی ہے، اُس سے وہی نفع اٹھاسکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص خدا سے بے خوف ہے اور اپنے انجام کا بھی کوئی اندیشہ نہیں رکھتا تو اِس ہدایت سے اُس کو کوئی نفع حاصل نہیں ہو سکتا۔ یہ نافع اُنھی کے لیے ہوتی ہے جو خدا اور آخرت کے بارے میں اپنی فطرت کے الہام کو سنتے اور سنجیدگی کے ساتھ اُس پر غور کرتے رہتے ہیں۔
۲۲۷؎ اصل میں لفظِ ’رُشْدَہٗ‘ آیا ہے۔ اِس کی اضافت سے اِس کے اندر ایک خاص امتیاز کا مفہوم پیدا ہو گیا ہے، یعنی ابراہیم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ہدایت و معرفت عطا ہوئی جو اُسی کے درجے اور مرتبے کے کسی شخص کو ملنی چاہیے۔
۲۲۸؎ مطلب یہ ہے کہ جو کچھ دیا تھا، یوں ہی نہیں دیا تھا، اُس کو خوب جانچ اور پرکھ کر اور اپنے اُس علم کے مطابق دیا تھا جوہم اُس کے بارے میں رکھتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...اِس فقرے میں اُن لوگوں پر تعریض بھی ہے جو اپنے اندر ہمت تو حضرت ابراہیم کی کسی ادنیٰ سے ادنیٰ سنت پر عمل کرنے کی بھی نہیں رکھتے تھے، لیکن اُن کے ساتھ نسبت کے دعوے دار اور اِس نسبت کے بل پر اپنے آپ کو دنیا اور آخرت،دونوں میں بڑے سے بڑے مرتبے کا حق دار سمجھے بیٹھے تھے۔ فرمایا کہ خدا کے ہاں اِس غلط بخشی کی گنجایش نہیں ہے۔ وہ جس کو اپنی معرفت و حکمت بخشتا ہے، اُس کے ظرف اور اُس کے حوصلہ کو دیکھ کر بخشتا ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۵۸)
۲۲۹؎ ابراہیم علیہ السلام کے عنفوانِ شباب کا یہ واقعہ اُسی ہدایت و معرفت کا اظہار ہے جو اُن کو عطا ہوئی تھی۔ اُن کی قوم بت پرست اور باپ بت خانے کا پروہت تھا، لیکن آگے جو کچھ بیان ہوا ہے، اُس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اپنی زندگی کے ابتدائی دور ہی سے وہ توحید کے معاملے میں کیسا شرحِ صدر رکھتے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...اِس فقرے میں اِن بتوں کے لیے جو استخفاف و تحقیر ہے اور لفظِ ’عٰکِفُوْنَ‘ میں باپ اور قوم کی بلادت اور اُن کے جمود پر جو طنز ہے، وہ عربی زبان کا ذوق رکھنے والوں سے مخفی نہیں ہے۔ اِس عمر میں اور ایسے ماحول کے اندر یہ نعرۂ حق وہی بلند کرسکتا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ توفیقِ خاص سے نوازے اور جس کے ایمان کی سطوت و جلالت ہر خوف اور ہر طمع سے بالکل بے پروا و بے نیاز ہو۔“ (تدبرقرآن۵/ ۱۵۸)
۲۳۰؎ مطلب یہ ہے کہ کوئی ضلالت مجرد اِس دلیل سے ہدایت نہیں بن جاتی کہ وہ باپ دادا کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ علم و عقل کا قطعی فیصلہ یہی ہے کہ جو کچھ کر رہے ہو، وہ ایک کھلی گم راہی ہے۔
۲۳۱؎ یہ سوال بتا رہا ہے کہ اُنھیں یقین نہیں ہوا کہ اِس طرح کی بات کوئی شخص سوچ سمجھ کر بھی کہہ سکتا ہے۔
۲۳۲؎ یعنی اُس کا اعلان کر رہا ہوں اور تمھیں بھی اُس کی دعوت دیتا ہوں۔ آیت میں لفظِ ’شہادت‘ دعوت اور اعلان کے معنی میں ہے اور قرآن میں یہ لفظ اِس معنی میں جگہ جگہ استعمال ہوا ہے۔
۲۳۳؎ اِس سے معلوم ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعوت بت خانے کے اندر کسی اجتماع کے موقع پر دی، اور اُسی وقت ارادہ کر لیا کہ اب وہ عملاً بھی اُنھیں دکھا دیں گے کہ یہ بت کتنے بے حقیقت ہیں۔ اِس کے لیے جو اسکیم اُنھوں نے اپنے ذہن میں تیار کر رکھی تھی، اُسی کو آیت میں لفظِ ’کَیْد‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
۲۳۴؎ یعنی اگر اُن سے باز پرس کی جائے تو کہہ سکیں کہ اپنے اِسی بڑے سے پوچھ لو کہ اُس نے یہ سب کیوں کیا ہے اور اُن کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہ رہے کہ اُسی کی طرف رجوع کریں یا اعتراف کر لیں کہ جن کو وہ خدا بنائے بیٹھے ہیں، وہ اتنے بے بس ہیں کہ نہ اپنے اوپر آئی ہوئی مصیبت کو دفع کر سکتے ہیں اور نہ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ مصیبت کس کے ہاتھوں آئی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ طریقہ نہی عن المنکر کے لیے نہیں، بلکہ اپنے خاص طریقے پر استدلال کے لیے اختیار کیا ہے، جس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
۲۳۵؎ یعنی پہلے حیرت اور پریشانی کے عالم میں یہ سوال کیا، پھر غصے میں آ کر وہ بات کہی جو اگلے جملے میں بیان ہوئی ہے کہ جس نے بھی یہ حرکت کی ہے، وہ بڑا ہی ظالم ہے۔
۲۳۶؎ اصل میں ’یَذْکُرُھُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کے بعد بھی ’بالسوء‘ کا لفظ اُسی طرح محذوف ہے، جس طرح آیت ۶۳ میں ہے۔ اِس کی بلاغت ہم پیچھے واضح کر چکے ہیں۔
۲۳۷؎ اِس جملے کا اسلوب بتا رہا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام ابھی اتنے روشنا س نہیں ہوئے تھے کہ ایک ایک شخص اُن سے واقف ہوگیا ہو۔ اُن کی باتیں ضرور لوگوں کے کانوں میں پڑ چکی تھیں، لیکن ابھی وہ اُن کی طرف کچھ زیادہ متوجہ نہیں تھے۔ بت خانے میں اجتماع کے موقع پر اُنھوں نے جو کچھ کہا تھا، وہ اگرچہ سب کے سامنے اور ڈنکے کی چوٹ کہا تھا، مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے اُسے نوجوانی کی ترنگ اور جسارت پر محمول کیا اور اُس پر متنبہ ہو کراپنے بتوں کی حفاظت کے اقدامات نہیں کیے۔ اُن کا خیال یہی رہا ہو گا کہ اِس نے ایک بات کر دی ہے۔ اِس سے آگے یہ ہمارے بتوں کے خلاف کسی اقدام کی جسارت نہیں کر سکتا۔
۲۳۸؎ مدعا یہ تھا کہ ہم اگر اُس کے خلاف کوئی فتویٰ دیں یا کارروائی کریں تو اُس پر گواہ رہیں کہ ہم نے فی الواقع ایک مجرم کو سزا دی ہے اور اُس کی سزا عبرت کی موجب بھی ہو۔ اُس زمانے میں اِس طرح کے جرائم کی سزائیں بالعموم مذہبی پیشوا ہی سناتے تھے، بلکہ اکثر اِس کے مجاز بھی ہوتے تھے کہ خود ہی اِن کا نفاذ بھی کر دیں۔
۲۳۹؎ اِس فقرے میں نہ خوف کا کوئی شائبہ ہے، نہ اِسے جھوٹ قراردیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں نے اِسے خوف یا کذب پر محمول کیا ہے،اُن کے بارے میں اِس کے سوا کیا عرض کیا جا سکتا ہے کہ سخن شناس نہ ای دلبرا خطا ایں جاست۔ اِس کو اگر تعبیر کر سکتے ہیں تو استاذ امام کے الفاظ میں، ایک لطیف طنز، ایک پر معنی استہزا اور ایک حکیمانہ استدراج سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فقرہ ہزار تقریروں پر بھاری ہے۔ ابراہیم علیہ السلام جو کچھ کہنا چاہتے تھے، وہ اُنھوں نے بالکل ممثل کرکے دکھادیا ہے کہ جن کو معبود سمجھتے ہو، اُن کی بے بسی دیکھ لو اور یہ بھی دیکھ لو کہ اگر کائنات میں بہت سے خدا ہوتے تو اُن کا کوئی بڑا بھی اِسی طرح چھوٹے خداؤں کی کسی بات پر بگڑ کر سب کا کچومر بنا ڈالتا۔ یہ حکیمانہ استدلال و استدراج اور شرک اور اہلِ شرک کی تفضیح وتضحیک کا ایسا اسلوب ہے کہ اِس کی شاید ہی کوئی دوسری مثال پیش کی جا سکتی ہے۔
۲۴۰؎ مطلب یہ ہے کہ تم بتوں کے توڑنے والے کوظالم کہہ رہے تھے، لیکن اِس نوجوان نے جس حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے، اُس سے تو یہی واضح ہو رہا ہے کہ ظالم وہ نہیں، بلکہ ظالم تم خود ہو جو اِن گونگے اور بہرے پتھروں کو معبود بنائے بیٹھے ہو۔
۲۴۱؎ یعنی ذرا دیر کے لیے اُنھوں نے آنکھیں کھولیں، لیکن اِس کے بعد فوراً ہی عصبیت کے جذبات ابھر آئے اور اُن پر جہالت سوار ہو گئی، جس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ آدمی کی عقل اوندھ جاتی ہے۔
۲۴۲؎ یہی وہ مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم اپنے حریفوں کو لانا چاہتے تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے لا کھڑا کیا اور وہ اعتراف شکست کے لیے مجبور ہو گئے۔
۲۴۳؎ ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ کیا تھا، اِسی حقیقت کی تبلیغ کے لیے کیا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہ تقریر، ظاہر ہے کہ بتوں کی بے بسی کو اِس طرح آشکارا کر دینے کے بعد جتنی موثر ہو سکتی تھی، اُس کے بغیر اتنی موثر نہیں ہو سکتی تھی۔ اِس کے بغیر اگر یہی بات اُن کے سامنے لائی جاتی تو وہ اِس کے جواب میں سو باتیں بنا سکتے تھے، لیکن اب جب کہ وہ پاش پاش ہو کر سامنے پڑے ہوئے اپنی زبان حال سے اپنی بے حقیقتی اور بے بسی کی کہانی خود ہی سنا رہے تھے تو اُن کے پجاری اُن کی حمایت میں کیا چیز پیش کر سکتے تھے؟“(تدبرقرآن۵/ ۱۶۴)
۲۴۴؎ مطلب یہ ہے کہ اگر اِس وقت اِس فتنے کا سدِباب نہ کیا گیا تو آباو اجداد کا دین تباہ ہو کر رہ جائے گا، اِس لیے ابھی اٹھو اور اپنے معبودوں کی حمایت میں اِس نوجوان کا خاتمہ کر دو۔ اِس سے کم کوئی دوسری تجویز موثر نہ ہو گی۔ اِس وقت یہی ایک طریقہ ہے،جس سے ہم دین کو بچا سکتے ہیں۔
۲۴۵؎ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اُس کے رسول اپنے دشمنوں سے کبھی مغلوب نہیں ہوتے۔ یہ اُسی وعدے کا ظہور تھا، جس کے تحت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آگ کو گلزار بنا دیا گیا۔
۲۴۶؎ یہ کیاچال تھی؟ سورۂ صافات (۳۷) کی آیت ۹۸ کے تحت ہم اِن شاء اللہ اِس کی وضاحت کریں گے۔
۲۴۷؎ یہ ارضِ کنعان کی طرف اشارہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کم و بیش دو ہزار سال تک اپنی دعوت کے لیے خاص کیے رکھا۔ اِس کی برکتوں سے مراد وہی دعوت و ہدایت ہے جو اِس سرزمین سے دنیا والوں کے لیے عام کی گئی۔
۲۴۸؎ قرآن میں اشارہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحق اُن کے بڑے بیٹے اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کے صلے میں ملے تھے۔
۲۴۹؎ یعنی بنی اسرائیل کی امامت جو ان انبیا علیہم السلام کی قیادت میں دنیا والوں پر دینِحق کی شہادت کے لیے منتخب کیے گئے تھے۔
۲۵۰؎ یعنی صحیح قوتِ فیصلہ اور علمِ نبوت۔ پہلی چیز عقل و فطرت کی پاکیزگی اور دوسری وحیِ الہٰی کی برکت سے حاصل ہوتی ہے۔
۲۵۱؎ یہ امرد پرستی اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خبائث و فواحش کی طرف اشارہ ہے، جس میں قومِ لوط مبتلا تھی۔
۲۵۲؎ آیت میں لفظِ ’نُوْح‘ منصوب ہے۔ اِس کا نصب اُس مفہوم سے پیدا ہوا ہے جو سلسلہئ کلام سے مستفاد ہو رہا ہے۔
۲۵۳؎ یہ اُس دعا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت نوح نے ایک مدت دراز تک اپنی قوم کو دعوت دینے کے بعد بالآخر تھک کر مانگی تھی۔ سورۂ نوح (۷۱) میں یہ دعا تفصیل کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔
۲۵۴؎ اصل میں لفظِ ’اَھْل‘استعمال ہوا ہے۔ یہ کسی شخص کے اہلِ خانہ اور اتباع و احباب، سب کے لیے آجاتا ہے۔یہاں بھی اِسی مفہوم میں ہے۔
۲۵۵؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَنَصَرْنٰہُ مِنَ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا‘۔ اِن میں ’نَصَرْنَا‘ کے بعد ’مِنْ‘ اِس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں یہ لفظِ ’انتقمنا‘ کے مفہوم پر متضمن ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۲۵۶؎ یعنی کم و بیش ساڑھے نو سو برس کی دعوت اور اتمامِ حجت کے بعد بھی جب ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے تو بالآخر غلاظت کے اِس ڈھیر سے اپنی زمین کو دھو کر پاک کر دیا۔
[باقی]
_______________