HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانبیاء ۲۱: ۱- ۳۳ (۱)

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ(۱) مَایَاْتِیْھِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّھِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَمَعُوْہُ وَھُمْ یَلْعَبُوْنَ(۲) لَاھِیَۃً قُلُوْبُھُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ھَلْ ھٰذَآ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اَفَتَاْتُوْنَ السِّحْرَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ(۳) 
قٰلَ رَبِّیْ یَعْلَمُ الْقَوْلَ فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۴)  
بَلْ قَالُوْٓا اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ م بَلِ افْتَرٰہُ بَلْ ھُوَ شَاعِرٌ فَلْیَاْتِنَا بِاٰیَۃٍ کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ(۵)  
مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَھُمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنٰھَا اَفَھُمْ یُؤْمِنُوْنَ(۶) وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْھِمْ فَسْءَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) وَمَا جَعَلْنٰہُمْ جَسَدًا لَّا یَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوْا خٰلِدِیْنَ(۸) ثُمَّ صَدَقْنٰہُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰھُمْ وَمَنْ نَّشَآءُ وَاَھْلَکْنَا الْمُسْرِفِیْنَ(۹)  
لَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ کِتٰبًا فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۱۰) وَکَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ کَانَتْ ظَالِمَۃً وَّ اَنْشَاْنَا بَعْدَھَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ(۱۱)  فَلَمَّآ اَحَسُّوْا بَاْسَنَآ اِذَا ھُمْ مِّنْھَا یَرْکُضُوْنَ(۱۲) لَا تَرْکُضُوْا وَارْجِعُوْٓا اِلٰی مَآ اُتْرِفْتُمْ فِیْہِ وَمَسٰکِنِکُمْ لَعَلَّکُمْ تُسْءَلُوْنَ(۱۳) قَالُوْا یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ(۱۴) فَمَا زَالَتْ تِّلْکَ دَعْوٰھُمْ حَتّٰی جَعَلْنٰھُمْ حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ(۱۵) 
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ(۱۶) لَوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَھْوًا لَّاتَّخَذْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّآ اِنْ کُنَّافٰعِلِیْنَ(۱۷) بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ھُوَ زَاھِقٌ وَلَکُمُ الْوَیْلُ مِمَّا تَصِفُوْنَ(۱۸) 
وَلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَنْ عِنْدَہٗ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِہٖ وَلَا یَسْتَحْسِرُوْنَ(۱۹) یُسَبِّحُوْنَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لَا یَفْتُرُوْنَ(۲۰) 
اَمِ اتَّخَذُوْٓا اٰلِھَۃً مِّنَ الْاَرْضِ ھُمْ یُنْشِرُوْنَ(۲۱) لَوْکَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ(۲۲) لَا یُسْءَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْءَلُوْنَ(۲۳) اَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اٰلِھَۃً قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ ھٰذَا ذِکْرُ مَنْ مَّعِیَ وَذِکْرُ مَنْ قَبْلِیْ بَلْ اَکْثَرُھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ الْحَقَّ فَھُمْ مُّعْرِضُوْنَ(۲۴) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ(۲۵) 
وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا سُبْحَنٰہٗ بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ(۲۶) لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَھُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ(۲۷) یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَاخَلْفَھُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَھُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ(۲۸) وَمَنْ یَّقُلْ مِنْھُمْ اِنِّیْ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ فَذٰلِکَ نَجْزِیْہِ جَھَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ(۲۹) 
اَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰھُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ(۳۰) وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِھِمْ وَجَعَلْنَا فِیْھَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَّھُمْ یَھْتَدُوْنَ(۳۱) وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا وَّھُمْ عَنْ اٰیٰتِھَا مُعْرِضُوْنَ(۳۲) وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ(۳۳) 

اللہ کے نام سے جو سراسر رحمت ہے، جس کی شفقت ابدی ہے۔
لوگوں کے لیے اُن کے حساب کا وقت قریب آ لگا ہے ۱۷۸؎ اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے اعراض کیے جا رہے ہیں ۱۷۹؎۔ اُن کے پروردگار کی طرف سے جو تازہ یاددہانی بھی اُن کے پاس آتی ہے، وہ اُس کو سنتے ہیں تو کھیل میں لگے ہوتے ہیں۔ اُن کے دل غافل ہیں اور وہ ظالم چپکے چپکے (آپس میں) سرگوشیاں کرتے ہیں کہ یہ شخص ہے ہی کیا، یہ تو تمھارے ہی جیسا آدمی ہے، پھر کیا آنکھوں دیکھتے اِس کے جادو میں پڑتے ہو؟۱۸۰؎ ۱-۳
(اِس پر) رسول نے کہا:۱۸۱؎ (یہ کیا سرگوشیاں کرتے ہیں)؟ میرا پروردگار ہر اُس بات کو جانتا ہے جو زمین و آسمان میں کی جائے اور وہ سمیع و علیم ہے۔۴
یہی نہیں کہ صرف جادو کہتے ہیں، بلکہ اُنھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ بھی کہ اِس نے اپنی طرف سے اِس قرآن کو گھڑ لیا ہے، بلکہ یہ بھی کہ یہ محض ایک شاعر ہے۔۱۸۲؎ سو(اگر یہ واقعی پیغمبر ہے تو) ہمارے پاس اُسی طرح کوئی نشانی لائے، جس طرح اگلے پیغمبر نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے۔۱۸۳؎ ۵
ہم نے جن بستیوں کو ہلاک کیا ہے، اُن میں سے کوئی بھی اِن سے پہلے (اِس طرح کی نشانی دیکھ کر) ایمان نہیں لائی تو کیا یہ ایمان لائیں گے؟ (کہتے ہیں کہ ہمارے جیسا آدمی ہے)۔ تم سے پہلے بھی ہم نے جس کو رسول بنا کر بھیجا، آدمیوں ہی میں سے بھیجا ہے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔ سو یاددہانی والوں سے پوچھ لو، اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو۱۸۴؎۔ ہم نے اُن رسولوں کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانا نہ کھاتے ہوں اور وہ (دنیامیں) ہمیشہ رہنے والے بھی نہیں تھے۔۱۸۵؎ پھر دیکھ لو کہ اُن سے اپنا وعدہ ہم نے پورا کر دیا۱۸۶؎ اور اُن کو اور (اُن کے ساتھ) جن کو ہم چاہتے تھے، بچا لیا اور حد سے گزرنے والوں کو ہم نے ہلاک کر چھوڑا۔ ۶-۹
(لوگو)، ہم نے تمھاری طرف بھی ایک کتاب نازل کر دی ہے، جس میں تمھارے حصے کی یاددہانی ہے۔ پھر کیا سمجھتے نہیں ہو۱۸۷؎؟ کتنی ہی بستیاں ہم نے توڑ پھوڑ کر برابر کر دیں جو اپنی جانوں پر ظلم ڈھا رہی تھیں ۱۸۸؎اور اُن کے بعد دوسرے لوگ اٹھا کھڑے کیے۔۱۸۹؎ پھر جب اُنھوں نے ہمارے عذاب کی آہٹ پائی تو اُسی وقت وہاں سے بھاگنے لگے۔ (ہم نے کہا): اب بھاگو نہیں، اپنے اُسی سازوسامان کی طرف جس میں تم مزے کر رہے تھے اور اپنے اُنھی گھروں کی طرف لوٹ جاؤ جو تمھاری عشرت گاہیں تھیں ۱۹۰؎ تاکہ تم سے پوچھا جائے۔۱۹۱؎  اُنھوں نے واویلا کیا کہ ہاے ہماری بدبختی، بے شک، ہم ہی ظالم تھے۔ سو یہی واویلا کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم نے اُن کو کاٹ کر ڈھیر کر دیا، گویا بجھے ہوئے پڑے ہیں ۱۹۲؎۔ ۱۰-۱۵
ہم نے زمین و آسمان کو اور اُس کو جو اُن کے درمیان ہے، کچھ کھیل تماشے کے طور پر نہیں بنایا ہے۱۹۳؎۔ اگر ہم کوئی کھیل بنانا چاہتے تو اُس کا اہتمام اپنے پاس ہی سے کر لیتے، اگر ہم کو یہی کرنا ہوتا۱۹۴؎۔ ہرگز نہیں،۱۹۵؎بلکہ(ایک دن آنے والا ہے۱۹۶؎ کہ) ہم حق کو باطل پر ماریں گے اور وہ اُس کا سر توڑ دے گا۔ پھر اُسی وقت دیکھو گے کہ وہ نابود ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے بڑی خرابی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بیان کرتے ہو۱۹۷؎۔۱۶-۱۸
اُسی کے ہیں جو زمین اور آسمانوں میں ہیں اور جو اُس کی بارگاہ میں ہیں، (جنھیں اُس کی اولاد بنا کر پوجتے ہو)،۱۹۸؎وہ اُس کی بندگی سے سرتابی نہیں کرتے اور نہ تھکتے ہیں۔ رات دن اُس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، کبھی دم نہیں لیتے۔۱۹-۲۰
کیا اِنھوں نے زمین کے الگ معبود ٹھیرا لیے ہیں جو اُس کو جِلااٹھاتے ہیں ۱۹۹؎؟ اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے معبود بھی ہوتے تو دونوں درہم برہم ہو جاتے۲۰۰؎۔سو اللہ، عرش کا مالک۲۰۱؎ اُن سب چیزوں سے پاک ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ وہ جو کچھ کرتا ہے، اُس کے لیے (کسی کے آگے) جواب دہ نہیں ہے اور یہ سب جواب دہ ہیں ۲۰۲؎۔ کیا اِنھوں نے خدا کے سوا دوسرے معبود ٹھیرا لیے ہیں؟ اِن سے کہو کہ اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ اُن کی یاددہانی موجود ہے جو میرے ساتھ ہیں اور اُن کی یاددہانی بھی جو مجھ سے پہلے ہوئے ہیں۲۰۳؎۔ نہیں، کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اِن میں سے زیادہ حق کو نہیں جانتے، اِس لیے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں، اُن کی طرف ہم یہی وحی کرتے رہے ہیں۲۰۴؎ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، سو میری ہی بندگی کرو۲۰۵؎۔۲۱-۲۵
یہ کہتے ہیں کہ خداے رحمن کے اولاد ہے۔ وہ (اِس تہمت سے) پاک ہے۔ فرشتے، جن کو یہ خدا کی بیٹیاں سمجھتے ہیں، وہ اُس کی اولاد نہیں، بلکہ مقرب بندے ہیں۲۰۶؎۔ وہ اُس کے حضور کبھی بڑھ کر نہیں بولتے اور اُس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۲۰۷؎۔ اُن کے آگے اور پیچھے جو کچھ ہے، سب اُس کو معلوم ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے، اُس کے سوا جس کے لیے اللہ پسند فرمائے اور اُس کی ہیبت سے لرزتے رہتے ہیں۔ اُن میں سے جو یہ کہنے کی جسارت کرے کہ اللہ کے سوا میں الٰہ ہوں تو اُس کو ہم جہنم کی سزا دیں گے۔ ہم ظالموں کو اِسی طرح سزا دیتے ہیں۲۰۸؎۔ ۲۶-۲۹
(یہ نشانیاں مانگتے ہیں)۔ کیا اِن منکروں نے بارہا دیکھا نہیں کہ آسمان اور زمین، دونوں بند ہیں۲۰۹؎، پھر ہم نے اُن کو کھول دیا۲۱۰؎ اور ہم نے ہر زندہ چیز کو آسمان کے پانی ہی سے پیدا کیا ہے؟ کیا وہ پھر بھی ایمان نہ لائیں گے؟ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے کہ وہ اُن کو لے کر جھک نہ پڑے۲۱۱؎ اور اُن پہاڑوں کے اندر راستے کے لیے درے بنائے تاکہ لوگ (اپنے لیے) راہ پا لیں ۲۱۲؎۔ اور آسمان کو ہم نے ایک محفوظ چھت بنا دیا۲۱۳؎ اور یہ لوگ ہیں کہ اُس کی نشانیوں سے منہ پھیرے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہی ہے جس نے رات اور دن بنائے اور سورج اور چاند کو پیدا کیا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک (اپنے) ایک مدار میں گردش کر رہا ہے۲۱۴؎۔۳۰-۳۳

۱۷۸؎  یعنی مشرکین مکہ کے لیے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اب سنت الہٰی کے مطابق کسی وقت بھی عذاب سے دوچار ہو سکتے تھے۔پیچھے سورۂ طہٰ کے آخر میں جس چیز کے بارے میں فرمایا تھا کہ اُس کا انتظار کرو، یہ اُسی کے قریب آ لگنے کا ذکر ہے، جس سے بغیر کسی تمہید کے یہ سورہ شروع ہو گئی ہے۔ یہ لوگ چونکہ خدا کی یاددہانی سے منہ موڑے ہوئے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے بھی اِن سے منہ موڑ کر ایک عام لفظ ’النَّاس‘سے اِن کا ذکر فرمایا ہے۔

۱۷۹؎  آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں: ایک غفلت، دوسرا اعراض۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... غفلت، یعنی زندگی کے اصل حقائق سے بے پروائی، بجاے خود بھی انسان کی شامت کی دلیل ہے اور ایک بہت بڑا جرم ہے، لیکن یہ جرم اُس صورت میں بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے،جب کوئی اللہ کا بندہ جھنجھوڑنے اور جگانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہو، لیکن لوگ ایسے غفلت کے ماتے ہوں کہ اُس کی کوئی نصیحت بھی سننے کے لیے تیار نہ ہوں۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۲۲)    

۱۸۰؎  یہاں ’جادو‘ کا لفظ ٹھیک اُس مفہوم میں ہے، جس میں یہ ’إن من البیان لسحرًا‘ کے جملے میں آیا ہے، یعنی اُس کلام کا جادو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سنا رہے تھے۔ کسی کلام کی غیر معمولی تاثیر و تسخیر کے لیے یہ تعبیر اہل عرب کے ہاں بھی رائج تھی اور ہمارے ہاں بھی موجود ہے۔ اِس سے وہ اپنے لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ تم جس چیز سے متاثر ہو رہے ہو، وہ سراسر الفاظ کی ساحری ہے، اِسے کوئی الہامی کلام اور اِس کے پیش کرنے والے کو خدا کا رسول قرار دے کر اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا نہ کرو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس کلام کا زور اور اِس کی سطوت و جلالت فی الواقع دلوں کو تسخیر کرتی ہے، لیکن اِس سے زیادہ اِس کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ لفظ و معنی کے ربط و نظام کا غیر معمولی کمال ہے، جس کا مظاہرہ یہ نبوت و رسالت کے مدعی بن کر تمھارے سامنے کر رہے ہیں۔ تم سوچنے سمجھنے والے لوگ ہو، تمھیں تو اِس شخص کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ یہ آخری بات، ظاہر ہے کہ مخاطبین کے اندر احساس برتری کو ابھارنے کے لیے کہی جا تی تھی۔

۱۸۱؎  یعنی اُن کو مخاطب کیے بغیر اپنے دل میں کہا اور اِس طرح گویا معاملے کو اللہ کے حوالے کر دیا کہ وہی اِن کے فتنوں کا تدارک کرے گا۔ آگے اِسی تفویض کا بیان ہے۔

۱۸۲؎  اِس سے واضح ہے کہ قرآن کے مخاطبین اُس کی ہیبت و جلالت سے سخت مرعوب تھے، لیکن چونکہ ماننا نہیں چاہتے تھے کہ وہ خدا کا کلام ہے، اِس لیے کبھی اُس کو پیغمبر کے واہمہ کی خلاقی، کبھی اُس کی من گھڑت اور کبھی شاعرکی سحر آفرینی کہہ کر لوگوں کے دلوں پر سے اُس کی ہیبت کو کم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

۱۸۳؎  آیت میں ’کَمَآ اُرْسِلَ الْاَوَّلُوْنَ‘ کے بعد ’بِالاٰیٰتِ‘ کا لفظ دلالت قرینہ کی بنا پر حذف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اِن کا یہ حربہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں، اِن کے زعم کے مطابق، سب سے زیادہ کارگر حربہ تھا، اِس لیے کہ قرآن کی دعوت تمام تر آفاق و انفس اور عقل و فطرت کے دلائل پر مبنی تھی۔ وہ معجزات و خوارق اور نشانی عذاب کے بجاے لوگوں کو آنکھیں کھولنے اور عقل و بصیرت سے کام لینے پر ابھارتا تھا کہ ایمان کا فطری راستہ عقل و دل کا راستہ ہے۔ جولوگ عقل و بصیرت سے کام نہیں لیتے، وہ خوارق دیکھ کر بھی ایمان نہیں لاتے اور عذاب کی نشانی دیکھ کر جو لوگ ایمان لاتے ہیں،اُن کا ایمان لانا بے سود ہوتاہے۔ قرآن کی یہ بات بالکل برحق تھی، لیکن مخالفین اُس کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گریز پر محمول کر کے لوگوں کو ورغلاتے کہ دیکھو، اگر یہ سچ مچ کوئی رسول ہوتے تو اِن کے لیے ہمارا یہ مطالبہ پورا کردینا کیا مشکل تھا! لیکن جب یہ اِس سے گریز کر رہے ہیں تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ یہ اپنے دعوے میں (نعوذ باللہ) جھوٹے ہیں۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۲۵)

۱۸۴؎  اِس میں مخاطبین پر ایک نوعیت کی تعریض ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کی اولاد ہونے کے باوجود نہیں جانتے ہو تو اُن اہل کتاب سے پوچھ لو جن کے پاس اِس سے پہلے اِسی طرح یاددہانی بھیجی گئی۔ اِس بدیہی حقیقت کا انکار تو وہ بھی نہیں کر سکتے۔

۱۸۵؎  یہ اُن باتوں کا جواب ہے جو وہ کہتے تھے کہ یہ تو اُسی طرح کھاتے اور پیتے ہیں، جس طرح تم کھاتے اور پیتے ہو، پھر یہ رسول کس طرح ہو سکتے ہیں؟

۱۸۶؎  یعنی یہ وعدہ کہ اُن کے جھٹلانے والوں کو ہم لازماً ہلاک کر دیں گے اور اُنھیں اور اُن کے ساتھیوں کو نجات دیں گے۔ رسولوں سے متعلق یہ اُسی سنت الہٰی کا ذکر ہے، جس کی وضاحت ہم جگہ جگہ کر چکے ہیں۔

۱۸۷؎  یعنی اِس بات کو سمجھتے نہیں ہو کہ یہ خدا کی یاددہانی ہے اور اِس کو رد کر دینے کا نتیجہ کیا ہو گا؟ تمھاری عقل کہاں کھوئی گئی ہے؟ تم کیوں اپنی شامت کو دعوت دے رہے ہو؟

۱۸۸؎  لفظ ’ظَالِم‘ یہاں ’ظالم لنفسہ‘ کے معنی میں ہے۔ قرآن میں یہ متعدد مقامات پر اِس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۱۸۹؎  مطلب یہ ہے کہ نہیں مانو گے تو تمھارے ساتھ بھی یہی ہو گا اور اِس سے خدا کی دنیا اجڑ نہیں جائے گی۔ وہ تمھاری جگہ دوسروں کو لا بسائے گا۔ یہ اُس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔

۱۹۰؎  یہ فقرہ اصل میں مقدر ہے۔ اِس کا قرینہ یہ ہے کہ یہاں خطاب امراو اغنیا سے ہے، جیسا کہ ’مَآ اُتْرِفْتُمْ فِیْہِ‘ کے الفاظ سے واضح ہے، اور یہ اُنھی کے گھر ہیں۔

۱۹۱؎  یہ طنزو تضحیک کا جملہ ہے، یعنی تمھاری خبر لی جائے۔

۱۹۲؎  اصل میں ’حَصِیْدًا خٰمِدِیْنَ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔یہ نہایت بلیغ استعارہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...(اِس) میں یہ مضمون مضمر ہے کہ جس طرح گھاس کاٹ کر اُس کے خشک انبار میں آگ لگا دی جائے اور وہ راکھ کا ڈھیر ہو کے رہ جائے، اُسی طرح ہم نے اُن کو خاک اور راکھ بنا دیا۔ لفظ ’خٰمِدِیْنَ‘ یہاں مستعارلہٗ کی رعایت سے آیا ہے اور یہ عربی کا معروف اسلوب ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۲۹)    

۱۹۳؎  پیچھے فرمایا تھا کہ ایسا ایک دن آنا لازمی ہے، جس میں پوچھاجائے گا کہ کیا کرتے رہے ہو۔ یہ اُس کی دلیل بیان کی ہے کہ اگر جزا و سزا نہیں ہے، جیسا کہ تم سمجھتے ہو تواِس کے معنی یہ ہوئے کہ دنیا کسی بھگوان کی لیلا، کسی کھلنڈرے کا کھیل یا کسی دیوتاکا اکھاڑا ہے۔ تم واقعی یہ سمجھتے ہو تو سن لو کہ ہم نے اِس کو کھیل تماشے کے طور پر نہیں بنایا ہے۔ اِس کی ایک ایک چیز گواہی دے رہی ہے کہ یہ نہایت پر حکمت کارخانہ ہے او ر اِس کے بنانے والے نے اِسے ایک عظیم مقصد اور عظیم غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ چنانچہ ایک دن ایسا لازماً آئے گا، جس میں یہ مقصد ظاہر ہو جائے گا۔

۱۹۴؎  یعنی اول تو یہ ہمارے شایان شان نہیں کہ ایسا کرتے، لیکن بالفرض کرنا ہی تھا تو اِس کے لیے روم کا یہ اکھاڑا بنا کر اپنے ہی ذی حس اور ذی شعور بندوں اور بندیوں کا تماشا دیکھنا تو ظلم اور شقاوت کی انتہا ہے۔ تم خداے رحمن کے بارے میں یہ خیال کس طرح کرتے ہو کہ اُس نے حق و باطل، خیر و شر، ہدایت و ضلالت اور ظلم و مظلومی کی یہ رزم گاہ صرف اِس لیے قائم کر رکھی ہے کہ خود ایک تماشائی بن کر اِس کا تماشا دیکھتا رہے۔ خدا کے بندو، یہ اُس کے عدل اور رحم کے بالکل منافی ہے۔

۱۹۵؎  یعنی یہ دنیا ہرگز کھیل تماشا نہیں ہے۔ تمھارا یہ خیال بالکل باطل ہے۔

۱۹۶؎  یعنی قیامت کا دن،جب اُس امتحان کا نتیجہ سامنے آئے گا جو اِس وقت برپا ہے کہ تم میں سے کون حق کی راہ اختیار کرتا ہے اور کون باطل ہی پر قائم رہ کر دنیاسے رخصت ہو جاتا ہے۔

۱۹۷؎  یعنی یہ باتیں کہ دنیا محض ایک کھیل تماشا ہے اور آخرت اگر ہوئی بھی تو ہمارے شرکا و شفعا ہم کو ہر خطرے سے بچا لیں گے۔

۱۹۸؎  یہ فرشتوں کا ذکر ہے جن کے بارے میں مشرکین عرب کا گمان تھا کہ وہ خدا کی بیٹیاں ہیں اور وہ چونکہ اُن کو پوجتے ہیں، اِس لیے اُن کی سفارش سے وہ خدا کی پکڑ سے بچ جائیں گے۔

۱۹۹؎  یعنی زندگی بخشتے اور شاداب کر دیتے ہیں۔ اہل عرب کے علم الاصنام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو وہ خدا کی سلطنت میں ایک دور کی جگہ سمجھ کر یہ خیال کرتے تھے کہ اُس کا نظم و نسق اُس نے دوسروں کے حوالے کر رکھا ہے اور خود اُس سے الگ تھلگ آسمانوں پر اپنی حکومت چلا رہا ہے۔ یہ اِسی واہمے کی تردید ہے۔

۲۰۰؎  یہ توحید کی وہی دلیل ہے جسے دلیل توافق کہا جاتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اِس کا خلاصہ یہ ہے کہ اِس کائنات کے بقا کا انحصار اِس امر پر ہے کہ اِس کے مختلف اجزا و عناصر اور اِس کے تمام اضداد میں نہایت گہرا توافق ہے۔ اگر یہ توافق ایک لمحے کے لیے بھی ختم ہو جائے تو اِس کائنات کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے۔ یہ توافق صریح طور پر اِس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ اِس پوری کائنات پر ایک ہی ذات کا ارادہ (mind) کارفرما ہے۔ اگر اِس میں بہت سے ارادے کارفرما ہوتے تو آسمان و زمین کا باقی رہنا ناممکن تھا۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۳۶)

۲۰۱؎  یعنی کائنات کے تخت سلطنت کا مالک۔

۲۰۲؎  اِس لیے یہ تصور نہایت احمقانہ ہے کہ کوئی اُس کے ارادوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

۲۰۳؎  یہ اب توحید کے اثبات اور شرک کی تردید میں انبیا علیہم السلام کی تذکیر کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن بھی موجود ہے جو میرے ماننے والوں کے لیے یاددہانی بن کر نازل ہو ا ہے اور تورات، زبور، انجیل اور انبیا کے دوسرے صحائف بھی۔ اُنھیں دیکھ لو، اُن میں سے کسی میں بھی شرک کی تعلیم نہیں پائی جاتی، وہ سب توحید ہی کی شہادت دیتے ہیں۔

۲۰۴؎  اصل میں ’نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’نُوْحِیْ‘ سے پہلے ایک فعل ناقص عربیت کے اسلوب پر حذف کر دیا گیا ہے۔

۲۰۵؎  اوپر اگلوں کی جس یاددہانی کا حوالہ دیا ہے، یہ اُس کی مزید وضاحت کر دی ہے۔

۲۰۶؎  اِس لیے کہ وہ شرک سے بالکل پاک ہیں، خدا کی سچی معرفت رکھتے ہیں اور کامل وفاداری کے ساتھ اُس کی بندگی کا حق ادا کرتے ہیں۔ اِ س کا صلہ خدا کا تقرب ہے، نہ کہ زور و اثر اور نازو تدلل جس سے وہ، اِن کے زعم کے مطابق، خدا سے جو چاہیں گے، منوا لیں گے۔

۲۰۷؎  مطلب یہ ہے کہ جن کی حیثیت خدا کے آگے یہ ہے، اُن کے بارے میں یہ خیال کر لینا کہ وہ خدا کی بارگاہ میں ایسا زور و اثر رکھتے ہیں کہ اپنے ماننے والوں کو اُس کی پکڑ سے بچا لیں گے، محض حماقت ہے۔

۲۰۸؎  یہ پوری تقریر اُسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے فرمائی ہے جو اوپر بیان ہوئی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کی یہ حیثیت مان لی جائے کہ وہ اپنی سفارش سے مجرموں کو چھڑا سکتا ہے تو عقیدۂ آخرت بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اور خدا کے بارے میں بھی یہ ماننا ممکن نہیں رہتا کہ وہ کوئی عادل اور حکیم ہستی ہے، جس کے وعدوں پر بھروسا کیا جا سکتا ہے۔

۲۰۹؎  یعنی آسمان سے بارش نہیں ہوئی اور زمین سے سبزہ نہیں اگا۔ اِسی کو آیت میں ’رَتْق‘، یعنی بند ہونے سے تعبیر کیا ہے۔

۲۱۰؎  یعنی آسمان کو کھول دیا اور اُس نے دھڑا دھڑ پانی برسانا شروع کر دیا۔ اِس کے نتیجے میں زمین بھی کھل جاتی ہے اور نباتات کے خزانے اگلنا شروع کر دیتی ہے۔

یہ مشاہدہ جن حقائق پر دلالت کرتا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”اِس میں نہایت واضح دلیل توحید کی موجود ہے۔ اگر آسمان میں الگ الٰہ اور زمین میں الگ معبود ہوتے تو آسمان کو کیا پڑی تھی کہ وہ زمین کو زندہ و شاداب رکھنے کے لیے اپنے ذخیرے کا پانی صرف کرتا؟ زمین و آسمان میں یہ زوجین کی سی سازگاری اِس بات کی صاف شہادت ہے کہ دونوں کا خالق و مالک ایک ہے اور دونوں پر اُسی کا ارادہ کارفرما ہے۔
دوسری شہادت اِس کے اندر معاد کی ہے۔ جب زمین خشک و بے آب و گیاہ یا بالفاظ دیگر مردہ ہو کر ازسرنو زندہ و شاداب ہو جاتی ہے تو موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے کو کیوں مستبعد خیال کیا جائے؟
تیسری شہادت اِس کے اندر انسان کے مسؤل ہونے کی ہے۔ جب خدا نے انسان کی پرورش کے لیے یہ کچھ اہتمام فرمایا ہے کہ اپنے آسمان و زمین، سورج چاند اور ابرو ہوا، ہرچیز کو اُس کی خاطر سرگرم کار رکھتا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ اُس کو بالکل شتر بے مہاربنا کر چھوڑ دے، محاسبے کا کوئی دن اُس کے لیے مقرر نہ کرے۔“ (تدبرقرآن۵/ ۱۴۱)   

۲۱۱؎  یہ غالباً وہی چیز ہے جسے جدید سائنس میں ’isostasy‘کہا جاتا ہے۔ قرآن کے اِس بیان سے پہاڑوں کے بارے میں یہ نظریہ درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ سمندروں کے نیچے کے کثیف مادے کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو زمین اُسی طرح ہلتی رہتی، جس طرح اب زلزلہ آجائے تو ہلتی ہے۔ اِس کے لیے جو الفاظ قرآن میں آئے ہیں، اُن میں ’اَنْ‘ سے پہلے لام علت عربیت کے اسلوب پر مقدر ہے۔ ہم نے ترجمہ اُسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ یہ اُسی طرح کا اسلوب ہے، جیسے ہم کہتے ہیں: ’ھٰذا دواء للحمی‘۔

۲۱۲؎  یعنی سفر کی راہ بھی اور جس پروردگار کی قدرت، عظمت اور حکمت اِن راستوں کے وجود سے ظاہر ہوتی ہے، اُس تک پہنچنے کی راہ بھی۔ یہ بلیغ فقرہ، اگر غور کیجیے تو نہایت خوبی کے ساتھ اِن دونوں مفاہیم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

۲۱۳؎  یعنی ایک ایسی چھت جس کی وسعت و پہنائی کی کوئی حد نہیں ہے، لیکن نہ کہنہ ہوتی ہے، نہ اِس میں کوئی خلل پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایسی محکم ہے کہ دیکھنے والے اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ازل سے ہے اور ابد تک قائم رہے گی۔ اور یہی نہیں، اب تو ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس کی ترکیب اِس طرح ہے کہ یہ ہم کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بھی بچاتی ہے اورشہاب ثاقب کی اُس بارش سے بھی جو دس کھرب روزانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں۔ پھر اِس کے خالق نے اِسے ایسے قمقموں سے سجا دیا ہے جن کی حسن افروزی اور فیض بخشی ہر اندازے اور خیال سے باہر ہے۔

۲۱۴؎  یہ اِس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کوئی ایک دوسرے سے نہیں ٹکراتا، بلکہ ٹھیک اُس قانون کے مطابق گردش کرتا رہتا ہے جو اُس ہستی نے اُس کے لیے مقرر کر دیا ہے، جس کے ہاتھ میں اُس کی باگ ہے اور جو کائنات کے مجموعی مفاد کے لیے اُس کو مسخر کیے ہوئے ہے۔

[باقی]

_____________

B