HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: طٰہٰ ۲۰: ۹۹- ۱۳۵ (۴)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ) 


کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ م  مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا(۹۹) مَنْ اَعْرَضَ عَنْہُ فَاِنَّہٗ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وِزْرًا(۱۰۰) خٰلِدِیْنَ فِیْہِ وَسَآءَ لَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ حِمْلًا(۱۰۱) یَّوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ وَنَحْشُرُ الْمُجْرِمِیْنَ یَوْمَءِذٍ زُرْقًا(۱۰۲) یَّتَخَافَتُوْنَ بَیْنَہُمْ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا عَشْرًا(۱۰۳) نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَقُوْلُوْنَ اِذْ یَقُوْلُ اَمْثَلُھُمْ طَرِیْقَۃً اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا یَوْمًا(۱۰۴) 
وَیَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُھَا رَبِّیْ نَسْفًا(۱۰۵) فیَذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا(۱۰۶) لَّا تَرٰی فِیْھَا عِوَجًا وَّلَآ اَمْتًا(۱۰۷) یَوْمَءِذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ لَاعِوَجَ لَہٗ وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ فَلَا تَسْمَعُ اِلَّا ھَمْسًا(۱۰۸) یَوْمَءِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَہٗ قَوْلًا(۱۰۹) یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِہٖ عِلْمًا(۱۱۰) وَعَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ وَقَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا(۱۱۱) وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّلَا ھَضْمًا(۱۱۲) 
وَکَذٰلِکَ اَنْزَلْنٰہُ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا وَّصَرَّفْنَا فِیْہِ مِنَ الْوَعِیْدِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ اَوْ یُحْدِثُ لَھُمْ ذِکْرًًا(۱۱۳) فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰٓی اِلَیْکَ وَحْیُہٗ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴) 
وَلَقَدْ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا(۱۱۵) وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ اَبٰی(۱۱۶) فَقُلْنَا یٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَلِزَوْجِکَ فَلَا یُخْرِجَنَّکُمَا مِنَ الْجَنَّۃِ فَتَشْقٰی(۱۱۷) اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰی(۱۱۸) وَاَنَّکَ لَا تَظْمَؤُا فِیْھَا وَلَا تَضْحٰی(۱۱۹) فَوَسْوَسَ اِلَیْہِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰٓاٰدَمُ ھَلْ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الْخُلْدِ وَمُلْکٍ لَّا یَبْلٰی(۱۲۰) فَاَکَلَا مِنْھَا فَبَدَتْ لَھُمَا سَوْاٰتُھُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ وَعَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی(۱۲۱) ثُمَّ اجْتَبٰہُ رَبُّہٗ فَتَابَ عَلَیْہِ وَھَدٰی(۱۲۲) قَالَ اھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعًام بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی(۱۲۳) وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی(۱۲۴) قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْٓ اَعْمٰی وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْرًا(۱۲۵) قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَھَا وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰی(۱۲۶) وَکَذٰلِکَ نَجْزِیْ مَنْ اَسْرَفَ وَلَمْ یُؤْمِنْم بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَشَدُّ وَ اَبْقٰی(۱۲۷) 
اَفَلَمْ یَھْدِلَھُمْ کَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ یَمْشُوْنَ فِیْ مَسٰکِنِہِمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّھٰی(۱۲۸) وَلَوْلَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّکَ لَکَانَ لِزَامًا وَّاَجَلٌ مُّسَمًّی(۱۲۹) فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا وَمِنْ اٰنَآئِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی(۱۳۰) وَلَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَہُمْ فِیْہِ وَرِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی(۱۳۱) وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا لَانَسْءَلُکَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُکَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلتَّقْوٰی(۱۳۲) 
وَقَالُوْا لَوْلَا یَاْتِیْنَا بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ اَوَلَمْ تَاْتِھِمْ بَیِّنَۃُ مَا فِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی(۱۳۳) وَلَوْ اَنَّآ اَھْلَکْنٰھُمْ بَعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَآ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْزٰی(۱۳۴) قُلْ کُلٌّ مُّتَرَبِّصٌ فَتَرَبَّصُوْا فَسَتَعْلَمُوْنَ مَنْ اَصْحٰبُ الصِّرَاطِ السَّوِیِّ وَمَنِ اھْتَدٰی(۱۳۵) 
اِسی طرح، (اے پیغمبر)،ہم تمھیں ماضی کی سرگذشتیں سناتے ہیں ۱۲۶؎ اور اِس کے لیے ہم نے خاص اپنے پاس سے تم کو ایک یاددہانی عطا فرما دی ہے۱۲۷؎۔ جو اِس سے منہ موڑیں گے، وہ قیامت کے دن ایک بھاری بوجھ اٹھائیں گے۱۲۸؎ اور ہمیشہ اُسی کے وبال میں رہیں گے، اور قیامت کے دن وہ اُن کے لیے بہت برا بوجھ ہو گا۔ جس دن صور پھونکا جائے گا۱۲۹؎ اور مجرموں کو ہم اُس دن اِس حال میں اکٹھا کریں گے کہ (خوف کے مارے) اُن کی آنکھیں نیلی پڑی ہوں گی۔ وہ چپکے چپکے آپس میں کہتے ہوں گے کہ تم (دنیا میں) مشکل سے دس دن رہے ہو گے۔۱۳۰؎ ہمیں خوب معلوم ہے جو کچھ وہ کہیں گے، جب کہ اُن میں سے جو (اُن کے خیال میں) سب سے بہتر اندازہ لگانے والا ہو گا، وہ کہے گا کہ تم ایک دن سے زیادہ نہیں رہے ہو۔۹۹-۱۰۴
وہ تم سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھتے ہیں (کہ اُس دن اُن کا کیا بنے گا)۱۳۱؎؟تو کہو کہ میرا رب اُن کو دھول بنا کر اڑا دے گا، پھر زمین۱۳۲؎ کو چٹیل میدان بنا کر چھوڑدے گاکہ تم اُس میں کوئی موڑ اور کوئی ٹیلا نہ دیکھو گے۔ اُس دن سب پکارنے والے کے پیچھے چل پڑیں گے، اُس سے ذرا اِدھر اُدھر نہ ہو سکیں گے اور تمام آوازیں خدا ے رحمن کے آگے پست ہو جائیں گی، سو تم ایک دبی دبی سرگوشی کے سوا کچھ نہ سنو گے۔ اُس دن شفاعت نفع نہ دے گی، ۱۳۳؎ الاّیہ کہ رحمن کسی کو اجازت دے اور اُس کے لیے کوئی بات کہنا پسند کرے۔(اِس لیے کہ) وہ اُن کے آگے اور پیچھے جو کچھ ہے، اُس کو جانتا ہے اور اُن کا علم اُس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔۱۳۴؎ سب کے چہرے اُس حی و قیوم کے سامنے جھکے ہوں گے۔ ۱۳۵؎(اُس دن) نامرادی ہے اُن کے لیے جوظلم۱۳۶؎کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہوں۔ اِس کے برخلاف جو نیک عمل کرے گا اور اِس کے ساتھ ایمان بھی رکھتا ہو گا، اُس کو، البتہ (اُس دن) کسی زیادتی اور کسی حق تلفی کا اندیشہ نہ ہو گا۔ ۱۰۵-۱۱۲
ہم نے، (اے پیغمبر)، اِس یاددہانی کو اِسی طرح عربی قرآن کی صورت میں اتارا ہے۱۳۷؎ اور اِس میں اپنی وعید طرح طرح سے بیان کر دی ہے تاکہ یہ لوگ خدا کے غضب سے بچیں یا اِن کے اندر وہ کچھ سوچ پیدا کر دے۔ سو برتر ہے اللہ، بادشاہ حقیقی۔ (وہ اپنی حکمت کے مطابق اِس کو اُسی تدریج سے اتارے گا جو اُس نے مقرر کر دی ہے)۔ اور دیکھو تم اپنی طرف اِس کی وحی کے پورا ہو جانے سے پہلے اِس قرآن کو پانے کی جلدی نہ کرو، اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، میرا علم زیادہ کر دے۱۳۸؎۔ ۱۱۳-۱۱۴
(اِس لیے کہ تم جس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو، وہ ایک بھاری ذمہ داری ہے۱۳۹؎)۔ہم نے اِس سے پہلے آدم پر ایک عہد کی ذمہ داری ڈالی تھی تو وہ بھول گیا تھا اور ہم نے اُس میں ارادے کی پختگی نہیں پائی تھی۔۱۴۰؎یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۱۴۱؎ تو وہ سجدہ ریز ہو گئے، مگر ابلیس نہیں مانا،۱۴۲؎ اُس نے انکار کر دیا۔ اِس پر ہم نے کہا کہ اے آدم، یہ تمھارا اور تمھاری بیوی کا دشمن ہے۱۴۳؎ تو ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو اِس باغ ۱۴۴؎سے نکلوا دے، پھر تم محروم ہو کر رہ جاؤ۔ یہاں تو تمھیں یہ آسایش ہے کہ نہ اِس میں بھوکے رہتے ہو نہ لباس کی ضرورت ہوتی ہے، نہ تم کو اِس میں پیاس ستاتی ہے نہ دھوپ لگتی ہے۱۴۵؎۔ لیکن شیطان نے اُس کو ورغلایا۔ اُس نے کہا: آدم، میں تم کو وہ درخت بتاؤں جس میں ہمیشہ کی زندگی ہے اور اُس بادشاہی کا پتا دوں جس پر کبھی زوال نہ آئے گا؟۱۴۶؎ سو (اُس کی ترغیب سے آدم و حوا)، دونوں نے اُس درخت کا پھل کھا لیا۱۴۷؎ تو اُن کی پردے کی چیزیں اُن پر ظاہر ہو گئیں ۱۴۸؎ اور (اُن کو چھپانے کے لیے) وہ دونوں اپنے اوپر اُس باغ کے پتے گانٹھنے لگے۔۱۴۹؎ اِس طرح آدم نے اپنے پروردگار کی نافرمانی کی اورراہ راست سے بھٹک گیا۔ پھراُس کے پروردگار نے اُ س کو برگزیدہ کیا۔۱۵۰؎ سو اپنی عنایت سے اُس کی توبہ قبول فرمائی ۱۵۱؎ اور اُسے راستہ دکھا دیا۔۱۵۲؎ فرمایا: تم دونوں فریق یہاں سے اتر جاؤ، اکٹھے۔۱۵۳؎ تم ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔۱۵۴؎ پھر میری طرف سے اگر کوئی ہدایت تمھارے پاس آئے تو اُس کی پیروی کرو،اِس لیے کہ جو میری ہدایت کی پیروی کرے گا، وہ نہ گم راہ ہو گا نہ محروم رہے گا۔۱۵۵؎ اور جو میری یاددہانی سے منہ موڑے گا تو اُس کے لیے تنگی کی زندگی ہے ۱۵۶؎اور قیامت کے دن ہم اُس کواندھا اٹھائیں گے۔۱۵۷؎ وہ کہے گا: پروردگار، تونے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ہے، میں تو آنکھوں والا تھا۔ ارشاد ہو گا: ہماری آیتیں تمھارے پاس آئی تھیں تو تم نے اِسی طرح اُنھیں نظر انداز کر دیا تھا۔ آج تمھیں بھی اُسی طرح نظر انداز کر دیا جائے گا۔ ہم اُن کو جو حد سے گزر گئے اور اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان نہیں لائے، اِسی طرح بدلہ دیں گے۔۱۵۸؎ اور آخرت کا عذاب تو زیادہ سخت اور زیادہ دیرپا ہے۔۱۱۵-۱۲۷
پھر کیا اِن لوگوں کو اِس سے ہدایت نہیں ہوئی کہ اِن سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کوہلاک کر چکے ہیں جن کی بستیوں میں اب یہ چلتے پھرتے ہیں ۱۵۹؎؟ حقیقت یہ ہے کہ اِس میں عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ تمھارے پروردگار کی طرف سے، (اے پیغمبر)، اگر ایک بات پہلے طے نہ کر دی گئی ہوتی اور(مہلت کی) ایک مقرر مدت نہ ہوتی تو (جو رویہ اِنھوں نے اختیار کیا ہے، اُس کی پاداش میں اِن پر) لازماً عذاب آجاتا۔ سو جو کچھ یہ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہو۱۶۰؎، سورج کے نکلنے اور اُس کے غروب ہونے سے پہلے۱۶۱؎ اور رات کے اوقات میں بھی تسبیح کرو۱۶۲؎ اور دن کے کناروں پر بھی۱۶۳؎۔ اِس لیے کہ (اُس کے صلے میں خدا کی عنایتوں سے)نہال ہو جاؤ۱۶۴؎۔ اور اِن کے بعض گروہوں کو دنیوی زندگی کی رونق ۱۶۵؎کا جو سازوسامان ہم نے اُس میں اُن کی آزمایش کے لیے دے رکھا ہے۱۶۶؎، اُس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو ۱۶۷؎اور (یاد رکھو کہ) تمھارے پروردگار کا رزق ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے۱۶۸؎۔ تم اپنے لوگوں کو ۱۶۹؎نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اُس کے پابند رہو۔ہم (اُن کے لیے) تم سے کوئی رزق نہیں مانگتے (کہ تمھیں کسی کے سازوسامان کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہو)۔۱۷۰؎ رزق تو ہم تمھیں دیں گے۔۱۷۱؎ (ہم تم سے تقویٰ کا تقاضا کرتے ہیں ۱۷۲؎)اور انجام کی فیروزمندی تقویٰ ہی کے لیے ہے۔ ۱۲۸-۱۳۲
اِنھیں اصرار ہے کہ اپنے پروردگار کے پاس سے یہ ہمارے لیے کوئی نشانی کیوں نہیں لاتے؟کیا اِن کے پاس اگلے صحیفوں میں جو کچھ ہے، اُس کی گواہی نہیں پہنچی؟۱۷۳؎ اگر ہم اِن کو اِس سے پہلے ہی کسی عذاب سے ہلاک کر دیتے تو یہ کہتے کہ پروردگار، تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے ۱۷۴؎ہم تیری آیتوں کی پیروی اختیار کر لیتے؟ اِن سے کہو کہ ہر ایک منتظر ہے۱۷۵؎ تو تم بھی انتظار کرو،۱۷۶؎ پھر عنقریب جان لو گے کہ کون سیدھی راہ پر چلنے والا ہے اور کون برسرغلط ہے، اور کون منزل تک پہنچا اور کون راہ سے بھٹک گیا ہے۔۱۷۷؎ ۱۳۳-۱۳۵

۱۲۶؎ یعنی جس طرح پیچھے موسیٰ علیہ السلام کی سرگذشت سنائی ہے۔

۱۲۷؎ یعنی قرآن مجید۔

۱۲۸؎ اِس لیے کہ وہ اُن کی گم راہی کا بوجھ بھی ہو گا اور اُن لوگوں کی گم راہی کا بوجھ بھی جو اُن کے گم راہ کرنے سے گم راہ ہوئے۔

۱۲۹؎ اصل الفاظ ہیں: ’یَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ‘۔ اِس میں مجہول کا صیغہ صورت حال کی ہول ناکی کی تعبیر کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اُس کی ہول ناک آواز سے ہر طرف ہلچل تو برپا ہو جائے گی، لیکن پوچھنے والے پوچھ رہے ہوں گے اور اُنھیں معلوم نہ ہو گا کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ یہ صوروہی چیز ہے جسے ہماری زبان میں نرسنگھا، بوق یاقرنا کہا جاتا ہے۔ اِس کی اصل حقیقت کو جاننا تو کسی کے لیے ممکن نہیں ہے، اِس لیے کہ اِس کا تعلق امورمتشابہات سے ہے۔ تاہم جو لفظ اِس کے لیے اختیار کیا گیا ہے، اِس کا کچھ تصور اُس سے قائم کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو خود انسانوں کے ہاں اُس سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اِس سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جانا ہوتا ہے، نہ یہ کہ ہم اُس چیز کو بعینہٖ اُس طرح سمجھ لیں، جس طرح وہ دنیا میں پائی جاتی ہے۔ قدیم ایام میں شاہی جلوس یا اعلان جنگ وغیرہ کے موقع پر نرسنگھا پھونکا جاتا تھا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت برپا کرنے کے لیے بھی پھونکی جائے گی، جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے جیسی ہو گی۔ اِس سے تمام مخلوقات پر شدید گھبراہٹ اور ہول کی کیفیت طاری ہو گی، لوگوں کو اپنی عزیز ترین چیزوں تک کا ہوش نہ رہے گا، جنگلوں کے جانور بدحواس ہوکر اکٹھے ہو جائیں گے، یہاں تک کہ اُس کی ہول ناک آواز سے تمام مخلوقات بے ہوش ہوجائیں گی۔

۱۳۰؎ یعنی جس کو آج بہت دور کی چیز سمجھتے اور ’حدیث خرافۃ‘ کہتے ہیں، اُس وقت اُس کے بارے میں اِس طرح کے اندازے لگا رہے ہوں گے۔

۱۳۱؎ اہل عرب کا عام خیال تھا کہ ہر چیز فنا ہو سکتی ہے، مگر سربہ فلک پہاڑ فنا نہیں ہو سکتے۔ زہیر جیسا حکیم شاعر بھی کہتا تھا کہ حوادث روزگار کے مقابل میں کوئی چیز بھی قائم و دائم نہیں رہ سکتی، ’إلا الجبال الرواسیا‘۔ یہ سوال اِسی مغالطے کی بنا پر اور طنز اور مذاق کے انداز میں کیا جاتا تھا۔

۱۳۲؎ اصل میں ’ھَا‘کی ضمیر ہے، جس کا مرجع بالکل ظاہرہے۔ یہ عربی زبان کا معروف اسلوب ہے۔زمین و آسمان کے لیے اِس طرح ضمیریں قرآن میں متعدد مقامات پر آئی ہیں۔

۱۳۳؎ یہ اہل عرب کی مزعومہ شفاعت کی تردید ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... اُن کا زعم یہ تھا کہ وہ جن معبودوں کو پوجتے ہیں، وہ خدا کے لاڈلے اور چہیتے ہیں۔ وہ خود آگے بڑھ کر اپنے پجاریوں میں سے جس کے لیے چاہیں گے، سفارش کریں گے اور اُس کو خدا سے چھڑا لیں گے۔“(تدبرقرآن۵/ ۹۲) 

۱۳۴؎ یعنی جب لوگوں کے ماضی اور مستقبل کی ہر چیز سے وہ خود واقف ہے اور کوئی دوسرا اُس کے علم کے کسی حصے کو بھی اُس کی مرضی کے بغیر اپنی گرفت ادراک میں نہیں لے سکتا تو سفارش کس بنا پر کی جائے گی؟ کیا کوئی شخص اِس لیے سفارش کرے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے؟

۱۳۵؎ یعنی عام لوگ تو ایک طرف،جن کے بارے میں گمان کرتے ہو کہ خدا کے ہاں اُنھیں نازو تدلل کا مقام حاصل ہے اور اِسی بنا پر وہ اُس سے جو چاہیں گے، منوا لیں گے، وہ بھی اُس روز خشیت و تذلل کے ساتھ سر جھکائے کھڑے ہوں گے اور جانتے ہو کس کے سامنے؟ اُس ہستی کے سامنے جو کوئی خاموش علۃ العلل نہیں ہے، بلکہ زندہ خدا ہے اور اپنی کائنات کا نظم خود سنبھالے ہوئے ہے۔

۱۳۶؎ ’ظُلْم‘ کا لفظ قرآن میں اِس طریقے سے آئے، جس طریقے سے یہاں آیا ہے تو اِس سے شرک مراد ہوتا ہے۔

۱۳۷؎ یعنی اِسی تذکیر و نصیحت اور انذارو بشارت کا حامل بنا کر عربی زبان میں اتارا ہے، اِس لیے کہ جن لوگوں پر اتمام حجت کے لیے یہ نازل کیا گیا ہے، اُن کی زبان عربی ہے۔ چنانچہ ہم نے عنایت فرمائی ہے کہ خود اُن کی زبان میں اُن پر اپنی حجت پوری کر دی ہے تاکہ اب جو فیصلہ اُن کے لیے صادر ہونے والا ہے، اُس کے خلاف اُن کے پاس کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔

۱۳۸؎ اپنی قوم پر اتمام حجت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضۂ منصبی تھا۔ اِس طرح کی غیر معمولی ذمہ داری کو جلد سے جلد اور سرخ روئی کے ساتھ پورا کرنے کی خواہش ایک فطری خواہش تھی۔ پھرقریش بھی بار بار تقاضا کرتے تھے کہ قرآن اگر خدا کی طرف سے نازل کیا جا رہا ہے تو ایک ہی مرتبہ پورا کیوں نازل نہیں کر دیا جاتا۔ قرآن جیسی بے نظیر کتاب کسی شخص کو کائنات کے بادشاہ اور جہانوں کے پروردگار کی طرف سے دی جا رہی ہو اور اُس کے اندر یہ خواہش پیدا ہو جائے کہ پوری کتاب جلد اُسے مل جائے تو اِس پر تعجب نہ ہوناچاہیے۔ آپ کے قلب کو تمام قوت، روح کو زندگی، عقل کو رہنمائی اور ارادے کو ثبات و استحکام قرآن ہی سے حاصل ہوتا تھا، یہ چیز بھی اُس کو جلد پا لینے کے لیے شوق و اضطراب کا باعث بن جاتی تھی۔ اِس آیت میں اِسی بے قراری اور عجلت پر صبر و انتظار کی تلقین کی گئی ہے۔

۱۳۹؎ یعنی یہ ذمہ داری کہ قوم پر اتمام حجت کے بعد اُس کا فیصلہ کر دیا جائے۔

۱۴۰؎ انسان کی یہی کم زوری ہے، جس سے وہ حدود سے تجاوز کرتا اور گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پیچھے موسیٰ علیہ السلام کی عجلت کا نتیجہ دیکھ چکے ہو۔ تمھارے باپ آدم سے بھی یہی غلطی ہوئی تھی۔ وہ بھی حیات ابدی کو پانے کے لیے جلدی کے راستے پر چل پڑے تھے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ انسان جس چیز کے لیے جدوجہد کرتا ہے، اُس کا نتیجہ بہت جلد دیکھنا چاہتا ہے، لیکن اِسی میں بسا اوقات اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتاہے۔ اِس لیے جتنا قرآن نازل ہوتا جائے، اُسی کو اپنی قوم کے سامنے پیش کرو۔ اِس کتاب کا جو حصہ جس وقت نازل ہونا چاہیے، وہ اُسی وقت نازل ہو گا اور اِس کا فیصلہ اللہ، بادشاہ حقیقی کرے گا۔ اِس کے لیے کسی جلدی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا کرو گے تو اندیشہ ہے کہ کوئی ابلیس یا کوئی سامری اِس سے فائدہ اٹھا کر لوگوں کو فتنے میں مبتلا کر دے گا۔

۱۴۱؎ یہ سجدہ تعظیم کے لیے تھا اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوا، اِس لیے اِس میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی اطاعت کا یہ امتحان جس وجہ سے لیا، وہ یہ تھی کہ اولاً، آدم پر واضح ہو جائے کہ اصلی سرفرازی نور یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں ہے، لہٰذا اُسے بھی اپنی انانیت کو ایک طرف رکھ کر ہمیشہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے۔ ثانیاً، وہ یہ سمجھ لے کہ اُسے جب اللہ تعالیٰ نے یہ درجہ دیا ہے کہ فرشتوں نے اُس کو سجدہ کیا تو یہ بات کسی طرح اُس کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ کسی برتر مخلوق کو بھی خدا کا شریک سمجھ کر اُس کی پرستش کرے۔ بندگی اور پرستش اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ وہ اگر اِس حق میں کسی کو شریک کرتا ہے تو صرف اللہ تعالیٰ کی اہانت نہیں کرتا، بلکہ خود اپنی بھی اہانت کرتا ہے۔

۱۴۲؎ قرآن کی سورۂ کہف (۱۸)میں صراحت ہے کہ ابلیس جنات میں سے تھا، اِس لیے یہ استثنا دلیل ہے کہ جنات چونکہ اپنی خلقت کے لحاظ سے فرشتوں سے زیادہ دور نہیں ہیں، اِس لیے اُنھیں جب سجدے کا حکم دیا گیا تو علیٰ سبیل التغلیب جنات بھی اُس میں شامل تھے۔

۱۴۳؎ یہ اِس لیے فرمایا کہ ذریت آدم سے ابلیس کی دشمنی اُس چیلنج سے واضح ہوگئی تھی جو اُس نے سجدے سے انکار کے بعد دیا تھا۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیات ۱۶-۱۷ میں ہے کہ اُس نے کہا تھا کہ میں اولاد آدم کے لیے تیری سیدھی راہ پر گھات میں بیٹھوں گا۔ پھر اُن کے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں، ہر طرف سے اُن پر تاخت کروں گا اورتو اُن میں سے اکثر کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا۔

۱۴۴؎ یہ غالباً اِسی دنیا کا کوئی باغ تھا جسے آدم و حوا کا مستقر قرار دیا گیا۔ اِس میں جو امتحان اُنھیں پیش آیا، اُس سے دونوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ شیطان اُن پر حملہ کرے گا تو کہاں سے کرے گا۔

۱۴۵؎ یہ الفاظ اپنے لازم کے لحاظ سے استعمال ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ باغ میں اور ایسے معتدل موسم کی جگہ پر ٹھیرائے گئے ہو کہ سردی اور گرمی، دونوں کے آزار سے محفوظ رہتے ہو۔ چنانچہ جو کچھ میسر ہے، وہی کفایت کرتا ہے، زندگی کو قائم رکھنے کے لیے کسی غیرمعمولی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...سردی کے آزار میں سے بھوک اور عریانی ہے اور گرمی کی تکالیف میں سے پیاس اور دھوپ۔ جن لوگوں کی نظر اہل عرب کے کلام پر ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہ بسااوقات سردی اور گرمی کی تکالیف کا ذکر اِسی طرح کے الفاظ سے کرتے ہیں۔ بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ پیاس کا ذکر بھوک کے ساتھ اور دھوپ کا ذکر عریانی کے ساتھ زیادہ موزوں ہوتا۔ ہمارے نزدیک یہ راے عربیت کے ذوق سے محرومی کا نتیجہ ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۹۸)

۱۴۶؎ یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ لفظ ’شَجَرَۃ‘یہاں مجازی مفہوم میں ہے اور اِس سے مراد وہی شجرۂ تناسل ہے، جس کا پھل کھانے ہی سے انسان اِس دنیا میں اپنے آپ کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ چنانچہ ابلیس نے یہ لالچ دے کر آدم و حوا کو اُس درخت کا پھل کھانے کی ترغیب دی کہ حیات جاوداں اور ابدی بادشاہی کا راز اِسی درخت کے پھل میں ہے، جس سے تمھیں محروم کر دیا گیاہے۔ اِس کا پھل کھاؤ گے تو باقی رہو گے، ورنہ جلد یا بدیر موت سے دوچار ہو جاؤ گے۔ شیطان کی یہ بات، اگر غور کیجیے تو ایسی غلط بھی نہیں تھی، اِس لیے کہ یہ اِسی درخت کا پھل ہے، جس کے کھانے سے انسان کی زندگی کا تسلسل دنیا میں قائم ہے۔

۱۴۷؎ اِس پر تعجب نہ ہونا چاہیے، اِس لیے کہ اِس پھل کی خواہش میں جو غیر معمولی کیفیت انسان پر طاری ہو جاتی ہے، اُس سے مغلوب ہو کر وہ آج بھی اِس کے بارے میں خدا کی ہدایت کو بھول جاتا ہے۔

۱۴۸؎ یعنی اُن کے بارے میں یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ صرف رفع حاجت کا ذریعہ نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسری چیز بھی اِن کے اندر چھپی ہوتی ہے جو اِن کا پھل کھانے کے بعد ہی کھلتی ہے۔

۱۴۹؎ اِس سے واضح ہے کہ جنس اور جنسی اعضا کے ساتھ شرم کا احساس انسان کی فطرت میں ودیعت ہے۔ یہ کوئی اکتسابی چیز نہیں ہے اور نہ تہذیب کے ارتقا سے مصنوعی طور پر پیدا ہوئی ہے، بلکہ ایک ایسا احساس ہے جو خدا نے انسان کے اندر الہام کر دیا ہے۔ جنس کے معاملات سے واقف ہوتے ہی یہ آپ سے آپ نمایاں ہو جاتا ہے۔ چنانچہ انسان اپنے اُن اعضا کو ڈھانکنے کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے لیے جنسی تلذذ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

۱۵۰؎ یعنی اپنے کار خاص کے لیے منتخب کر لیا۔ چنانچہ توبہ کی توفیق دی اور توبہ جن الفاظ میں کرنی چاہیے، وہ بھی ازراہ عنایت القا فرما دیے۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۲۳ میں توبہ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ اِن سے واضح ہے کہ آدم علیہ السلام سے جب لغزش ہوئی تو اُس کے فوراً بعد ہی وہ سخت نادم ہو گئے تھے۔ لہٰذا یہی چیز توفیق توبہ اور نتیجے کے طور پر نبوت کے لیے انتخاب الٰہی کا باعث بن گئی۔

۱۵۱؎ اصل الفاظ ہیں: ’فَتَابَ عَلَیْہ‘۔ اِن میں ’عَلٰی‘ اِس بات پر دلیل ہے کہ یہ ’أقبل‘ کے مفہوم پر متضمن ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کا التفات اور توجہ اُس کو پھر حاصل ہو گئی۔

۱۵۲؎ یعنی آگے کے مراحل کے لیے راستہ دکھا دیا تاکہ وہ شیطان کے فتنوں کا مقابلہ کر سکے۔

۱۵۳؎ یہ خطاب آدم و حوا سے نہیں ہے، بلکہ آدم اور ابلیس سے بحیثیت دو فریقوں کے ہے۔ آیت میں لفظ ’جَمِیْعًا‘کی تاکید اِس کو بالکل واضح کر دیتی ہے۔ دوسرے مقامات میں اِسی بنا پر جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔

۱۵۴؎ ابلیس نے قیامت تک کے لیے اپنی دشمنی کا اعلان کر رکھا ہے۔ اِس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اولاد آدم بھی اگر بالکل ہی احمق اور ناعاقبت اندیش نہیں ہو گی تو اُسے اپنا دشمن ہی سمجھے گی۔ یہ اِسی حقیقت کا بیان ہے۔

۱۵۵؎ یہ اُس ہدایت کا ذکر ہے جو وحی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اُس نے عقل و فطرت کی ہدایت کے ساتھ یہ ہدایت بھی انسان کو عطا فرمائی تاکہ شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں وہ ٹھیک اُس راستے پر قائم رہے، جس کی منزل خدا کی جنت ہے۔ یہ ہدایت سب سے پہلے خود آدم علیہ السلام کو دی گئی اوروہ اِسی مقصد سے نبی بنائے گئے۔ اِس کے لیے، ظاہر ہے کہ اُن کے حالات کے لحاظ سے کوئی شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے اُنھیں لازماً دی ہو گی۔ 

۱۵۶؎ یعنی ایسی زندگی ہے جو سکون و طمانیت، شرح صدر اور فراغ خاطر سے محروم ہو گی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... انسان کے اندر ایک خلا ہے جو اللہ کے ایمان کے سوا اور کسی چیز سے نہیں بھر سکتا۔اِس وجہ سے، جب تک اُس کو ایمان حاصل نہ ہو، کوئی دوسری چیز اُس کو تسلی و طمانیت سے بہرہ مند نہیں کر سکتی۔ دوسری چیزیں، خواہ وہ بظاہر کتنی ہی شان دار اور دل فریب کیوں نہ ہوں، وقتی بہلاوے کا کام تو دے سکتی ہیں، لیکن قلب و روح کی بے قراری کو رفع نہیں کر سکتیں۔ جب بچہ بھوک سے روتا ہے تواُس کے منہ میں چسنی یا نپل دے کر کچھ دیر کے لیے بہلایا جا سکتاہے، لیکن وہ آسودہ اُسی وقت ہوتا ہے، جب ماں اُس کو چھاتی سے لگاتی اور اُس کو دودھ پلاتی ہے۔ اِس کے بغیر اُس کی بے چینی نہیں جاتی۔ یہی حال انسان کا ہے۔ وہ اپنے لیے جو اسباب و سامان بھی مہیا کر لے، لیکن اگر وہ خدا کے ایمان سے محروم ہے تو وہ غیر مطمئن، ڈانوا ں ڈول، اندیشہ ناک، مضطرب اور اندرونی خلفشار میں مبتلا رہے گا، اگرچہ وہ اپنی نمایشوں سے اُس پر کتنا ہی پردہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ نفس مطمئنہ کی بادشاہی صرف سچے اور پکے ایمان ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ ’اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ‘۔
 ممکن ہے، کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ بہت سے لوگ ایمان کے مدعی ہوتے ہیں، لیکن اُن کی زندگی نہایت پریشان حالی و پراگندہ بالی کی ہوتی ہے۔ برعکس اِس کے کتنے ہیں جو خدا کو محض ایک وہم سمجھتے ہیں، لیکن وہ بڑی بے فکری وطمانیت کی زندگی بسر کرتے ہیں؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہاں بحث ایمان کے مدعیوں سے نہیں، بلکہ حقیقی اہل ایمان سے ہے۔ ثانیاً،جن لوگوں کو خدا سے بے پروا ہونے کے باوجود ہم مطمئن خیال کرتے ہیں، ہم صرف اُن کے ظاہری کروفر کو دیکھتے ہیں۔ اگر کبھی اُن کے سینوں میں جھانک کر دیکھنے کا موقع ملے، تب معلوم ہو کہ اُن کے اندر کتنے خطرے اورکتنے خلجان چھپے ہوئے بیٹھے ہیں، لیکن یہ ہر ایک کو نظر نہیں آتے۔ اِن کو وہ خود دیکھتے ہیں یا وہ لوگ دیکھ سکتے ہیں جن کے اندر ایمانی بصیرت ہو۔“(تدبرقرآن ۵/ ۱۰۳) 

۱۵۷؎ یہ اندھا پن باعتبار نتیجہ ہو گا، یعنی اگرچہ دیکھ رہے ہوں گے، مگر اُس نور سے محروم ہوں گے جو اُس روز اہل ایمان کے پاس ہو گا اور اُس کی روشنی میں وہ ہرمرحلے پر اپنا جادہ و منزل اپنے لیے متعین کر لیں گے۔ سورۂ حدید (۵۷) کی آیت ۱۳ میں اِس کی وضاحت ہو گئی ہے۔

۱۵۸؎ اشارہ ہے اُس تنگی کی طرف جس کا ذکر اوپر ہواہے۔

۱۵۹؎ یہ عاد و ثمود وغیرہ کی اُن بستیوں کی طرف اشارہ ہے جن کے برباد شدہ آثار اور کھنڈروں پر سے قریش کے لوگ اپنے تجارتی سفروں میں برابر گزرتے رہتے تھے۔

۱۶۰؎ یہ ذکر کے پہلو سے نماز کی تعبیر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...یہ ذکر دو عنصروں سے مرکب ہے: ایک ’تَسْبِیْح‘،دوسرا ’حَمْد‘۔ ’تَسْبِیْح‘ میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کو اُن باتوں سے پاک و منزہ قرار دینا جو اُس کی شان کے منافی ہیں۔ ’حَمْد‘ میں اثبات کا پہلو نمایاں ہے، یعنی اُس کو اُن صفات سے متصف قرار دینا جو اُس کے شایان شان ہیں۔ یہ نفی اور یہ اثبات، دونوں مل کر اللہ تعالیٰ کے صحیح تصور کو دل میں راسخ کرتے ہیں اور اِسی رسوخ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا صحیح تعلق قائم ہوتا ہے جو تمام صبر و توکل کی بنیاد ہے۔ اگر اِن کے اندر کسی پہلو سے کوئی ضعف یا عدم توازن پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے متعلق آدمی کا تصور غلط ہو جاتا ہے اور یہ غلطی اُس کے سارے نظام فکر و عمل کو بالکل درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔“ (تدبرقرآن۷/ ۵۶۷)

۱۶۱؎ یعنی فجر اور عصر کے وقت۔

۱۶۲؎ عشا اور تہجد کی نماز رات میں پڑھی جاتی ہے۔ یہ اُس کی طرف اشارہ ہے۔ آیت میں فعل کا اعادہ تاکید پر دلالت کر رہا ہے۔

۱۶۳؎ یہ تین ہی ہو سکتے ہیں: ایک صبح، دوسرا زوال آفتاب اور تیسرا شام کا کنارہ۔ چاشت، ظہر اور مغرب کی نمازیں دن کے اِنھی کناروں پر ادا کی جاتی ہیں۔

نماز کی یہ ہدایت صبر حاصل کرنے کی ایک تدبیر کے طور پر ہوئی ہے، اِس لیے کہ صبر کی توفیق جس کو بھی حاصل ہوتی ہے، اللہ کی مدد سے حاصل ہوتی ہے اور اللہ کی مدد حاصل کرنے کا واحد ذریعہ نماز ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...یہ آیات حق و باطل کی کشمکش کے نہایت مشکل دور میں نازل ہوئی ہیں۔ اِن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے واسطے سے امت کو وہ تدبیر بتائی گئی ہے جو مشکلات و مصائب میں ثابت قدم رکھنے والی اور خدا کی رحمت و نصرت کا حق دار بنانے والی ہے۔ اِس طرح کے حالات میں صرف فرض نمازوں ہی کا اہتمام مطلوب نہیں ہے، بلکہ نوافل کا اہتمام بھی مطلوب ہے۔ قرآن، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سلف صالحین کے عمل، ہر چیز سے ہمارے اِس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ عام حالات میں تو تہجد و اشراق کی نمازوں کی حیثیت بہرحال نفلی نمازوں ہی کی ہے، لیکن مشکلات و مصائب میں، خواہ وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، اِن کا اہتمام ضروری ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۰۷)  

۱۶۴؎ اِن دو لفظوں کے اندر بشارتوں کی جو دنیا چھپی ہوئی ہے، اُس کا اندازہ ہر صاحب ذوق کر سکتا ہے۔

۱۶۵؎ اصل میں ’زَہْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ ’مَتَّعْنَا بِہٖ‘ میں ’بِہٖ‘ کی ضمیر مجرور سے حال واقع ہوئے ہیں اور مجرور سے حال واقع ہونا فصیح عربی میں معروف ہے۔ بعض گروہوں سے اشارہ مکہ اور طائف کے اُن لوگوں کی طرف ہے جو وہاں عزت و اقتدار رکھتے تھے۔ اُن کے مال و دولت اور عزت و اقتدار کو ’زَہْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا‘کہہ کر قرآن نے اشارہ کر دیا ہے کہ جو کچھ اُن کے پاس ہے، اُس کی چمک دمک چند روزہ ہے۔

۱۶۶؎ یعنی اِس لیے نہیں دے رکھا کہ یہ اُس کے حق دار تھے، بلکہ اِس لیے دے رکھا ہے کہ اِن کا امتحان کریں کہ ہماری نعمتیں پا کر یہ شکر گزاری کا رویہ اختیار کرتے ہیں یا ہمارے آگے ہی اکڑنے لگتے ہیں۔

۱۶۷؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت کی محبت اور اِن لوگوں کے لیے سچے جذبۂ خیر خواہی و ہم دردی کی بنا پر اِن کے ایمان کے خواہاں تھے۔ قریش کے اِن اغنیا اور سادات و امرا کی طرف آپ کے التفات کا باعث یہی تھا، اِس میں کسی طمع و حرص کا، معاذ اللہ، کوئی شائبہ نہ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اِس سے بھی روک دیا ہے، اِس لیے کہ اپنے گریز و فرار اور استکبار کی وجہ سے وہ دعوت کے اِس مرحلے میں اب اِس کے مستحق نہیں رہے تھے۔


۱۶۸؎ یعنی موت کے بعد بھی باقی رہنے والا ہے، بلکہ اُس لازوال او ر ابدی بادشاہی کی صورت اختیار کرنے والا ہے، جس سے آگے کسی نعمت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔

۱۶۹؎ اصل میں لفظ ’اَھْلَکَ‘آ یا ہے۔ اِس سے وہ تمام لوگ مراد ہیں جو اُس وقت ایمان لا چکے تھے۔ عربی زبان میں لفظ ’أھل‘ اِس وسعت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں اِس کے استعمال میں یہ بلاغت ہے کہ غرباے مسلمین کی عزت اِس سے اِس درجہ بڑھ گئی ہے کہ وہ گویا سرورعالم کے اہل میں شامل ہو گئے ہیں۔

۱۷۰؎ مطلب یہ ہے کہ ہم نے یہ تقاضا تم سے کبھی نہیں کیا کہ تم یہ خیال کرو کہ اِن لوگوں نے ایما ن قبول نہ کیا تو ہماری دعوت اور اُس کو آگے بڑھ کر قبول کرنے والے غرباے مسلمین اِس سرزمین میں بے یارومددگار ہو کر رہ جائیں گے۔ نہیں، اِن میں سے کسی چیز کو بھی خاطر میں لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنی دعوت اور اپنے ساتھیوں کے لیے اِن ناقدروں کی مدد اور سرپرستی کے محتاج نہیں ہو۔ تمھارے ساتھ خدا ہے اور تمھاری اور تمھارے ساتھیوں کی مدد، تقویت اور کفالت کے لیے وہی کافی ہے۔

۱۷۱؎ یعنی تمھیں بھی اور اُن کو بھی جو دعوت کے اِس کام میں تمھارے ساتھی بنیں گے۔ یہ ہمارا کام ہے اور ہم جب اپنا کوئی کام کسی کے سپرد کرتے ہیں تو اُس کے رزق کی ذمہ داری اِسی طرح اپنے اوپر لے لیتے ہیں۔ اِس لیے تم ہمارا کام کرو اور نماز کا اہتمام رکھو۔ باقی جو ذمہ داری ہماری ہے، اُس کو ہم پر چھوڑ دو۔ اُس کے لیے تمھیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنی ڈیوٹی پر ہو تو مسیح (علیہ السلام) کے الفاظ میں، اپنی مزدوری کے حق دار ہو۔

۱۷۲؎ یعنی علم و عمل میں بھی اور اُس کام میں بھی جو ہم نے تمھارے سپرد کیا ہے۔

۱۷۳؎ یہ جس سوال کا جواب ہے، وہ چونکہ اہل کتاب کا القا کیا ہوا تھا، اِس لیے جواب بھی اُنھی کو پیش نظر رکھ کر دیا ہے۔

۱۷۴؎ اصل الفاظ ہیں:’مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰی‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”’ذلت‘ اور ’خزی‘ کے الفاظ اپنے عام استعمال میں ایک دوسرے کے مفہوم میں بھی آتے ہیں، لیکن جب یہ دونوں ایک ساتھ آئیں، جس طرح یہاں آئے ہیں تو اِن کے درمیان ایک نازک سا فرق ہو جاتا ہے۔ اِس صورت میں ’ذلت‘ سے مراد وہ ذلت ہوتی ہے، جس کا احساس ایک ذلیل ہونے والا خود اپنے باطن میں کرتا ہے اور ’خزی‘ سے وہ رسوائی مراد ہوتی ہے جو دوسروں کے سامنے اُس کو ہوتی ہے۔ مطلب یہ کہ نہ ہم اپنی نگاہوں ہی میں ذلیل ہوتے اور نہ دوسروں کے آگے ہی رسوائی اور فضیحتا کی یہ نوبت آتی۔“(تدبرقرآن۵/ ۱۱۲)

۱۷۵؎ یعنی ہم بھی اور وہ سب لوگ بھی جو اِس کشمکش کو دیکھ رہے ہیں۔

۱۷۶؎ یہ خطاب کا اسلوب شدت عتاب کے اظہار کے لیے ہے۔

۱۷۷؎ اِس جملے میں مقابل کے فقرے عربیت کے اسلوب پر محذوف ہیں۔ ہم نے اُنھیں کھول دیا ہے۔

_____________

B