HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

تصویر اور مصوری

تحقیق وتخریج: محمد عامر گزدر

—۱—

عَنْ جَابِرِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ،۱ یَزْعُمُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنِ الصُّوَرِ فِي الْبَیْتِ، وَنَہَی الرَّجُلَ أَنْ یَصْنَعَ ذٰلِکَ.
جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں تصویریں رکھنے اور اُن کے بنانے سے منع فرمایا ہے۔۱

________

۱۔ سورۂ سبا (۳۴) کی آیت ۱۳ میں تصریح ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اپنی عمارتوں میں تصویریں اور مجسمے بھی بنوائے تھے۔آیت میں اِس کے لیے ’تَمَاثِیْل‘ کا لفظ آیا ہے جو بے جان اور جان دار، ہر چیز کی تصویر اور مجسمے کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔ یہ جس طریقے سے استعمال کیا گیا ہے، زبان و بیان کی رو سے اُس میں کسی تخصیص کی بھی گنجایش نہیں اورخدا کے کسی پیغمبر کے بارے میں یہ تصور نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی ایسا کام کرے گا جواصلاً شر ہو اور جسے بغیر کسی قید وشرط کے حرام قرار دیا جاسکتا ہو۔پھر یہی نہیں، سورۂ اعراف (۷)کی آیات ۳۲۔۳۳ میں مزید تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ صرف پانچ چیزیں حرام کی ہیں: ایک فواحش، دوسرے حق تلفی، تیسرے جان، مال اور آبرو کے خلاف زیادتی ، چوتھے شرک اور پانچویں بدعت۔ لہٰذا یہ بات تو کسی طرح نہیں مانی جاسکتی کہ خدا کے دین میں تصویروں کی ممانعت علی الاطلاق ہے۔ چنانچہ فقہا نے بھی اِسے علی الاطلاق نہیں، بلکہ ذی روح کی تخصیص کے ساتھ ہی مانا ہے۔لیکن روایت کے حکم اور قرآن کی تصریحات میں بظاہر جو منافات ہے، وہ اِس سے بھی ختم نہیں ہوتی، اِس لیے ضروری ہے کہ یہ ممانعت صرف اُس صورت کے لیے خاص قرار دی جائے ، جب تصویر کوئی ایسا معاملہ کرنے کے لیے بنائی گئی ہو جسے اِن آیتوں میں حرام کہا گیا ہے۔یہ، ظاہر ہے کہ اُنھی تصویروں اور مجسموں کے ساتھ ہوسکتا ہے جن کے ساتھ مشرکانہ عقائد وابستہ ہوں یا وابستہ کیے جاسکتے ہوں ، یعنی مثال کے طور پر،لوگ اُنھیں ذی روح ہستیوں کی طرح یا اُن کے تعلق سے مقدس اور نافع وضار سمجھ کر اُن کی عبادت اور اُن سے استعانت کریں یا کرسکتے ہوں۔اِس تخصیص کے بعد قرآن وحدیث میں کوئی منافات باقی نہیں رہتی اور روایت کا حکم ہر لحاظ سے واضح ہوجاتا ہے ، مگر یہ سوال، اِس کے باوجود باقی رہتا ہے کہ اِس کے لیے علی الاطلاق ممانعت کا اسلوب کیوں اختیار کیا گیا ؟ اِس کا جواب، ہمارے نزدیک یہ ہے کہ مورتیں اور تصویریں اُس زمانے میں زیادہ تر پرستش کے لیے یا ایسی چیزوں اور ایسے اشخاص ہی کی بنائی جاتی تھیں جن سے متعلق مشرکانہ جذبات کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ تھا ، مثلاً انبیا، فرشتے،جنات ، اُن کے بسیرا کرنے کے درخت اور اُن کی سواری کے لیے پروں والے گھوڑے یا مذہبی علامات، جیسے صلیب وغیرہ۔چنانچہ پورے اطمینان کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ روایت میں لفظ ’الصور‘ پر الف لام عہد کا ہے اور اِس سے وہی تصویریں اور مجسمے مراد ہیں جومشرکانہ تصورات کے تحت بنائے گئے ہوں یا اُن کا باعث بن سکتے ہوں۔ آگے کی روایتوں کومجموعی حیثیت میں اور تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو یہ حقیقت مزید واضح ہوجاتی ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۵۱۲۵ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا جابر رضی اللہ عنہ ہیں اور اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۴۵۹۶۔ سنن ترمذی، رقم ۱۷۴۹۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۲۲۴۴۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۴۴۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۹۷۲۳۔

—۲—

عَنْ وَہْبِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ السَّوَاءِيِّ، قَالَ:۱ إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَ الْمُصَوِّرَ۲.
وہب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویریں بنانے والوں پر لعنت کی ہے۱۔

________

۱۔یعنی وہ تصویریں جن کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔ اُن پر، ظاہر ہے کہ لعنت ہی ہونی چاہیے، کیونکہ قرآن نے جگہ جگہ واضح کردیا ہے کہ جو لوگ جانتے بوجھتے اللہ کے شریک ٹھیرائیں، وہ اُس کی رحمت سے ہمیشہ کے لیے محروم کردیے جاتے ہیں۔تاہم یہ لعنت اُنھی مصوروں پر ہوگی جو یہ تصویریں مذہبی عقیدت کے جذبے کے ساتھ بنائیں اور اُن کے بارے میں وہی کچھ مانتے ہوں جو اُن کے پوجنے والے مانتے ہیں یا اُن لوگوں کے لیے بنائیں جو اِسی جذبے اور اِسی مقصد سے تصویریں بنواتے ہیں۔

متن کے حواشی

۱۔ یہ روایت صحیح بخاری، رقم ۲۲۳۸ سے لی گئی ہے۔ اِس کے راوی تنہا وہب بن عبد اللہ سوائی رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسندابن جعد، رقم ۵۱۵۔ مسند احمد، رقم ۱۸۷۵۶، ۱۸۷۶۸۔ صحیح بخاری، رقم ۲۰۸۶، ۵۳۴۷، ۵۹۶۲۔ مسند حارث، رقم ۴۳۸۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۸۹۰۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۵۲۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۹۸۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۰۰۷۔

۲۔ صحیح بخاری، رقم ۵۳۴۷ میں یہاں ’الْمُصَوِّرَ‘ کے بجاے صیغۂ جمع ’الْمُصَوِّرِیْنَ‘ آیا ہے۔

—۳—

عَنْ عَاءِشَۃَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَتْرُکُ فِيْ بَیْتِہِ شَیْءًا فِیہِ تَصْلِیبٌ إِلَّا قَضَبَہُ۱.
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسی چیزبغیر کاٹے نہیں چھوڑتے تھے، جس میں صلیب کی تصویر بنی ہو۱۔

________

۱۔ اِس لیے کہ صلیب نصاریٰ کے ہاں ایک مقدس علامت بن چکی تھی اور اُس کے ساتھ اُن کے وہی جذبات وابستہ تھے جو مشرکین کے اپنے اوثان کے ساتھ ہوتے ہیں۔اِس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا مسیح علیہ السلام ، جنھیں وہ خدا کا اکلوتا بیٹا سمجھتے ہیں ، اُن کے عقیدے کے مطابق اِسی پر چڑھائے گئے اور اپنے ماننے والوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے اِسی سے اپنے آسمانی باپ کے پاس گئے تھے۔ اِس سے وہ علت مزید واضح ہوجاتی ہے جو ہم نے اوپر تصویر کی حرمت کے لیے بیان کی ہے، کیونکہ صلیب بے جان ہی ہوتی ہے۔ اُس کی تصویروں کو کاٹ دینے کی وجہ اگر کوئی ہوسکتی ہے تو وہی ہوسکتی ہے جو ہم نے اوپر بیان کردی ہے۔ آگے جن پردوں اور کپڑوں کا ذکر بعض روایتوں میں ہوا ہے، اُن کی تصویروں کوبھی اِسی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۵۹۹۶ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے متابعات کے مصادر یہ ہیں: مسند اسحاق، رقم ۱۴۰۵، ۱۶۹۰، ۱۷۵۲۔ مسند احمد، رقم ۲۴۲۶۱، ۲۶۱۴۲۔ صحیح بخاری، رقم ۵۹۵۲۔ سنن ابی داود، رقم ۴۱۵۱۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم۹۷۰۶۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم۴۶۴۱۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۴۵۷۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۷۱۔

صحیح بخاری، رقم ۵۹۵۲ میں یہ روایت اِن الفاظ میں نقل ہوئی ہے: ’إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمْ یَکُنْ یَتْرُکُ فِيْ بَیْتِہِ شَیْءًا فِیہِ تَصَالِیبُ إِلَّا نَقَضَہُ‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز بغیرتوڑے نہیں چھوڑتے تھے، جس میں صلیب کی تصویریں بنی ہوں‘‘، جب کہ مسند اسحاق، رقم ۱۶۹۰ میں یہ الفاظ ہیں: ’إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَتْرُکُ فِيْ بَیْتِہِ ثَوبًا فِیہِ تَصْلِیبٌ إِلَّا قَصَّہُ‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسا کپڑا بغیرکاٹے نہیں چھوڑتے تھے، جس میں صلیب کی تصویربنی ہو‘‘۔

—۴—

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:۱ دَخَلَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَکَّۃَ [یَوْمَ الْفَتْحِ۲] وَحَوْلَ الْکَعْبَۃِ ثَلَاثُ مِاءَۃٍ وَسِتُّونَ صَنَمًا۳، فَجَعَلَ یَطْعَنُہَا بِعُودٍ کَانَ فِيْ یَدِہِ [فَتَسَّاقَطُ عَلٰی وَجْہِہَا۴]، وَیَقُو لُ: ’’(جَاءَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ، إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا)[الإسراء: ۸۱]، (جَاءَ الْحَقُّ وَمَا یُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا یُعِیْدُ)‘‘ [سبأ:۴۹].
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے دن مکہ میں داخل ہوئے تو اُس وقت کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھے تھے۱۔ آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، آپ اُس سے اُن کومارنے لگے تو وہ پے بہ پے منہ کے بل گرتے چلے گئے۲۔ آپ اُس وقت کہہ رہے تھے: حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور یہ باطل مٹنے ہی والا تھا (بنی اسرائیل۱۷: ۸۱)۔ حق آگیا اور حقیقت یہ ہے کہ باطل نہ ابتدا کرتا ہے، نہ اعادہ ۳(سبا ۳۴: ۴۹)۔

________

۱۔ یہ بت بھی، ظاہر ہے کہ مجرد آرٹ کے پہلو سے نہیں ، بلکہ پرستش ہی کے لیے بنائے گئے تھے۔

۲۔ یہ اِس لیے کہ اب آپ کے پاس قوت نافذہ تھی اور قرآن مجید میں آپ کوحکم دیا گیا تھا کہ جزیرہ نماے عرب میں دین خالص اللہ ہی کے لیے ہوجانا چاہیے: ’(وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ)‘ (الانفال ۸: ۳۹)۔ اِس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے، ہماری کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’قانون جہاد‘‘ اور ’’مقامات‘‘ میں ’’خدا کے فیصلے‘‘ کے زیر عنوان ہمارے مضامین۔

۳۔ اِس موقع پر اِن آیات کی تلاوت بھی اُسی حقیقت کو واضح کرتی ہے جو ہم نے بتوں اور تصویروں کے بارے میں اوپر بیان کی ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۹۰۶ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ الفاظ کے معمولی تفاوت کے ساتھ اِس کے بقیہ طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند حمیدی، رقم ۸۶۔ مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۱۷۸۔ مسند احمد رقم ۳۵۸۴۔ صحیح بخاری، رقم ۲۴۷۸،۴۲۸۷، ۴۷۲۰۔ صحیح مسلم، رقم ۱۷۸۱۔ سنن ترمذی، رقم ۳۱۳۸۔ مسند بزار، رقم ۱۸۰۰۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۱۲۳۳، ۱۱۳۶۴۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۹۶۷۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۶۷۸۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۶۲۔ المعجم الصغیر، طبرانی، رقم ۲۱۰۔المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۳۰۳۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۰۵۳۵۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۵۵۰۔

۲۔ صحیح بخاری، رقم ۴۲۸۷۔

۳۔ بعض طرق، مثلاً صحیح بخاری، رقم ۲۴۷۸ میں یہاں ’صَنَمًا‘ ’’بت‘‘ کے بجاے ’نُصُبًا‘ ’’عبادت کے لیے نصب کیے گئے پتھر‘‘ کا لفظ نقل ہوا ہے، جس کی جمع ’أَنْصَاب‘ آتی ہے۔*

۴۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۲۳۰۳۔

—۵—

عن جَابِرِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ، یَقُولُ:۱ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ یَوْمَ الْفَتْحِ، وَہُوَ بِالْبَطْحَاءِ، أَنْ یَأْتِيَ الْکَعْبَۃَ فَیَمْحُوَ کُلَّ صُورَۃٍ فِیہَا، وَلَمْ یَدْخُلِ الْبَیْتَ حَتّٰی مُحِیَتْ کُلُّ صُورَۃٍ فِیہِ۲.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے دن، جب کہ آپ بطحا میں تھے، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ کعبہ میں جا کر اُس کے اندر سب تصویریں مٹادیں۔چنانچہ آپ اُس وقت تک بیت اللہ میں داخل نہیں ہوئے، جب تک اُس میں موجود تمام تصویروں کو مٹا نہیں دیا گیا۱۔ 

________

۱۔ یعنی بیت اللہ کے اندررکھی ہوئی تصویروں کو مٹا نہیں دیا گیا۔ اوپر کی روایت میں تصریح ہے کہ بیت اللہ کے باہر اور اُس کے صحن میں جو بت رکھے گئے تھے،وہ آپ نے خود اپنی چھڑی سے گرائے تھے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۵۱۰۹ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا جابر رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم ۱۴۵۹۶، ۱۵۲۶۱۔ سنن ابی داود، رقم ۴۱۵۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۵۷۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۹۷۲۳،۱۴۵۶۲۔    

۲۔ مسند احمد، رقم ۱۵۲۶۱ میں اِس واقعے کی مزید تفصیل اِس طرح نقل ہوئی ہے: ’عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: کَانَ فِي الْکَعْبَۃِ صُوَرٌ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنْ یَمْحُوَہَا، فَبَلَّ عُمَرُ ثَوْبًا وَمَحَاہَا بِہِ، فَدَخَلَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَمَا فِیہَا مِنْہَا شَيْءٌ‘ ’’کعبہ میں بہت سی تصویریں تھیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اُنھیں مٹادیں۔سیدنا عمر نے ایک کپڑا بھگویا اور اُس سے اُن تصویروں کو مٹادیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کعبہ میں داخل ہوئے تو اُس وقت وہاں کوئی تصویر باقی نہیں تھی‘‘۔

—۶—

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ۱ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ مَکَّۃَ، أَبَی أَنْ یَدْخُلَ البَیْتَ وَفِیہِ الآلِہَۃُ، فَأَمَرَ بِہَا فَأُخْرِجَتْ، فَأُخْرِجَ صُورَۃُ إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ عَلَیْہِمَا السَّلَامُ فِيْ أَیْدِیہِمَا مِنَ الأَزْلاَمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ، [أَمَا وَاللّٰہِ۲] لَقَدْ عَلِمُوا مَا اسْتَقْسَمَا بِہَا قَطُّ‘‘، ثُمَّ دَخَلَ البَیْتَ، فَکَبَّرَ فِيْ نَوَاحِي البَیْتِ، وَخَرَجَ وَلَمْ یُصَلِّ فِیہِ.
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو بتوں کے ہوتے بیت اللہ کے اندر جانے کو تیار نہیں ہوئے ۔ چنانچہ آپ نے اُن کے بارے میں حکم دیا اور وہ نکال دیے گئے۔ اِنھی میں ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام کی مورتیں بھی نکالی گئیں، جن کے ہاتھوں میں جوے کے تیر تھے۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو فرمایا: اِن پر خدا کی مار، بخدا یہ خوب جانتے تھے کہ ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام نے کبھی جوے کے تیروں سے قسمت معلوم نہیں کی۔اِس کے بعد آپ بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے، پھر اُس کے کونوں میں کھڑے ہوکر تکبیر کہی اور باہر آگئے۔ آپ نے اُس کے اندر نماز نہیں پڑھی۲۔

________

۱۔اِس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس نوعیت کی تصویریں تھیں جو اُس زمانے میں بالعموم بنائی جاتی تھیں۔ روایت ۱ کے تحت ہم نے اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے۔

۲۔ یعنی اِس موقع پر نماز نہیں پڑھی۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن صحیح بخاری، رقم ۴۲۸۸ سے لیا گیا ہے۔اِس کے باقی طرق جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۳۰۹۳۔ صحیح بخاری، رقم ۱۶۰۱۔ سنن ابی داود، رقم ۲۰۲۷۔

بعض روایتوں، مثلاً صحیح بخاری، رقم ۳۳۵۲ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے یہ بات اِن الفاظ میں نقل ہوئی ہے: ’أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَی الصُّوَرَ فِي البَیْتِ لَمْ یَدْخُلْ حَتّٰی أَمَرَ بِہَا فَمُحِیَتْ، وَرَأَی [تَمَاثِیلَ]** إِبْرَاہِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ بِأَیْدِیہِمَا الأَزْلاَمُ، فَقَالَ: ’’قَاتَلَہُمُ اللّٰہُ، وَاللّٰہِ إِنِ اسْتَقْسَمَا بِالأَزْلاَمِ قَطُّ‘‘‘ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ میں تصویریں دیکھیں تو اُس وقت تک اُس میں داخل نہیں ہوئے، جب تک آپ کی ہدایت کے مطابق اُنھیں مٹا نہیں دیا گیا اور آپ نے ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام کی مورتیں بھی دیکھیں جن کے ہاتھوں میں جوے کے تیر تھے۔ اُنھیں دیکھ کر آپ نے فرمایا: اِن پر خدا کی مار، بخدا ابراہیم اور اسمٰعیل علیہما السلام نے کبھی جوے کے تیروں سے قسمت معلوم نہیں کی‘‘۔

اِس متن کے متابعات جن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم ۱۹۴۸۵۔ مسند احمد، رقم ۳۴۵۵۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۶۱۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۱۸۴۵۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۰۱۹۔ فوائد، تمام رازی، رقم ۱۱۷۶۔

۲۔ مسند احمد، رقم ۳۰۹۳۔

—۷—

عَنْ صَفِیَّۃَ بِنْتِ شَیْبَۃَ، قَالَتْ:۱ لَمَّا اطْمَأَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ طَافَ عَلٰی بَعِیرٍ یَسْتَلِمُ الرُّکْنَ بِمِحْجَنٍ بِیَدِہِ، ثُمَّ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ، فَوَجَدَ فِیہَا حَمَامَۃَ عَیْدَانٍ، فَکَسَرَہَا، ثُمَّ قَامَ عَلٰی بَابِ الْکَعْبَۃِ، فَرَمَی بِہَا، وَأَنَا أَنْظُرُ.
صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ فتح کے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان ہوا تو آپ نے ایک اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا۔آپ کے ہاتھ میں ایک عصا تھا،جس سے آپ حجر اسود کا استلام کر رہے تھے۔اِس کے بعد آپ کعبے میں داخل ہوئے تو وہاں ایک کبوتری کی مورت دیکھی جو لکڑیوں سے بنی تھی۔آپ نے اُس کو توڑ ڈالا۔پھر آپ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہوئے اور میری آنکھوں کے سامنے اُس ٹوٹی ہوئی کبوتری کو باہر پھینک دیا۔۱

________

۱۔ آپ کے اِس طرز عمل سے واضح ہے کہ یہ کبوتری بھی کسی مشرکانہ عقیدے ہی کے تحت بنائی گئی اور بیت اللہ کے اندر رکھی گئی ہوگی، لیکن جن لوگوں کو آپ نے اصنام واوثان سے بیت اللہ کو پاک کرنے پر مامور فرمایا، اُنھوں نے غالبًا اِسے تزئین کی کوئی چیز سمجھا اور اُٹھا کر باہر نہیں پھینکا۔

متن کے حواشی

 ۱۔ اِس واقعے کا متن سنن ابن ماجہ، رقم ۲۹۴۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا صفیہ بنت شیبہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ تفصیلات کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے باقی طرق جن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: الآحاد والمثانی، ابن ابی عاصم، رقم ۳۱۹۱۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۸۱۰۔ معرفۃ الصحابۃ، ابو نعیم، رقم ۷۷۲۱، ۷۷۲۲۔

—۸—

عَنْ أَبِي الْہَیَّاجِ الْأَسَدِيِّ قَالَ:۱ قَالَ لِي عَلِیٌّ: أَبْعَثُکَ عَلٰی مَا بَعَثَنِي عَلَیْہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَدَعَ تِمْثَالًا [فِيْ بَیْتٍ۲] إِلَا طَمَسْتَہُ، وَلَا قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَا سَوَّیْتَہُ۳.
ابو ہیاج اسدی کہتے ہیں کہ مجھ سے علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تمھیں اُسی مہم پر بھیج رہا ہوں ، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا اور وہ یہ کہ تم کسی گھر میں کوئی مورت نہ چھوڑو، جسے توڑ نہ دو۱ اور کوئی اونچی قبر نہ چھوڑو، جسے زمین کے برابر نہ کردو۲۔

________

۱۔ یہاں بھی، ظاہر ہے کہ اُسی طرح کی مورتیں مراد ہیں جن کی وضاحت اوپر ہوئی ہے۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اِن مورتوں کو مٹادینے کی ہدایت کے باوجود یہ بعض جگہوں پر موجود تھیں یا غالبًا فتنۂ ارتداد کے زمانے میں کہیں کہیں دوبارہ بن گئی تھیں اور ایک خلیفۂ راشد کو وہی اقدام ایک مرتبہ پھر کرنا پڑا جو اِس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرچکے تھے۔ ۲۔ یعنی وہ قبر جس کے ساتھ مذہبی تقدس وابستہ ہو ، جیسا کہ دنیا کی بہت سی قوموں میں اُن کے انبیا اور اولیا کی قبروں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ یہ حکم توحید کے عالمی مرکز کے طور پر جزیرہ نماے عرب کی خاص حیثیت کے پیش نظر دیا گیا جو اُسے خود پروردگار عالم نے دی ہے اورجس کے تحت اُس کے اندر کوئی ایسی چیز گوارا نہیں کی جاسکتی جس میں شرک اور اُس کے متعلقات کا کوئی شائبہ بھی ہوسکتا ہو۔دنیا کے دوسرے علاقوں سے اِس حکم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔اُن میں قانون کی طاقت سے صرف وہی چیزیں روکی جاسکتی ہیں جن میں کسی کی حق تلفی یا اُس کی جان، مال اور آبرو کے خلاف کسی زیادتی کا اندیشہ ہو ۔ اِس کی تفصیلات کے لیے دیکھیے، ہماری کتاب ’’مقامات‘‘ میں مضامین: ’’خدا کے فیصلے‘‘ اور ’’قانون کی بنیاد‘‘۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۷۴۱ سے لیا گیا ہے، اِس کی روایت تنہا علی رضی اللہ عنہ سے ہوئی ہے۔ اسلوب کے کچھ فرق کے ساتھ اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند طیالسی، رقم ۱۵۰۔ مسند احمد، رقم ۱۰۶۴۔ صحیح مسلم، رقم ۹۶۹۔ سنن ابی داود، رقم ۳۲۱۸۔ سنن ترمذی، رقم ۱۰۴۹۔ مسند بزار، رقم ۹۱۱۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۳۱۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۲۱۶۹۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۵۰، ۶۱۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۱۳۶۶، ۱۳۶۷۔ السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۱۲۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۶۷۵۷۔

۲۔ السنن الصغریٰ، بیہقی، رقم ۱۱۱۲۔

۳۔ بعض طرق، مثلاً السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۲۰۳۱میں یہ روایت اِن الفاظ نقل ہوئی ہے: ’قَالَ عَلِيٌّ: أَلَا أَبْعَثُکَ عَلٰی مَا بَعَثَنِي عَلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، لَا تَدَعَنَّ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّیْتَہُ، وَلَا صُورَۃً فِيْ بَیْتٍ إِلَّا طَمَسْتَہَا‘ ’’میں تمھیں اُسی مہم پر بھیج رہا ہوں ، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھیجا تھا ۔تم ہرگز کوئی اونچی قبر نہ چھوڑنا، جسے زمین کے برابر نہ کردو اور نہ کسی گھر میں کوئی مورت چھوڑنا، جسے توڑ نہ دو‘‘۔

—۹—

قَالَ أَبُو زُرْعَۃَ:۱ دَخَلْتُ مَعَ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ دَارًا بِالْمَدِینَۃِ۲ [وَہِيَ تُبْنَی۳]، فَرَأَی أَعْلاَہَا مُصَوِّرًا یُصَوِّرُ [فِي الْجِدَارِ۴]، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ’’[قَالَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ۵]: وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذَہَبَ یَخْلُقُ کَخَلْقِی، فَلْیَخْلُقُوا حَبَّۃً، وَلْیَخْلُقُوا ذَرَّۃً، [وَلْیَخْلُقُوا شَعِیرَۃً۶]‘‘.
ابو زرعہ سے روایت ہے کہ مدینہ میں ایک گھر بن رہا تھا ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں اُس میں گیا تو اُنھوں نے دیکھا کہ اُس کے اوپرایک مصور اُس کی دیوار میں تصویریں بنا رہا ہے۔اِس پر ابوہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ فرماتے تھے: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہے جو میری تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرے؟۱یہ لوگ ایک دانہ، ایک ذرہ یا ایک جو ہی بنا کر دکھائیں۲۔

________

۱۔ یہ قرآن کی کوئی آیت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ہے۔اِس طرح کی روایات جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات آپ نے اپنے الفاظ میں بیان کی ہے، اِس کے علاوہ بھی نقل ہوئی ہیں۔مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص محض تصویر یا مجسمہ نہ بنائے ، جس طرح کہ مصور اور مجسمہ ساز بناتے ہیں، بلکہ اِس خیال سے میرے شریک تخلیق کرنے کی کوشش کرے کہ اُس کی بنائی ہوئی یہ تصویریں اور مجسمے بھی گویا اُسی طرح حقیقی شخصیت کے حامل ہوگئے ہیں ، جس طرح میری مخلوقات ہوتی ہیں ، اور اُن سے پرستش اور استعانت کے لیے اب وہی جذبات اور توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں جو زندہ معبودوں کے ساتھ وابستہ کی جاتی ہیں۔ ’یَخْلُقُ کَخَلْقِيْ‘ کی تعبیر یہاں اِسی پہلو سے اختیار کی گئی ہے۔اِس طرح کا خیال سراسر افترا علی اللہ ہے۔چنانچہ اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ اُس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو ایسی تخلیق کی جسارت کرے؟

۲۔یعنی اُس طرح بناکر دکھائیں،جس طرح خدا نے بنایا ہے۔یہ تو محض ایک شبیہ بناکر اُس کو حقیقی شخصیات کی طرح صاحب اختیار اور نافع وضار سمجھنے کی حماقت میں مبتلا ہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات، ظاہر ہے کہ اُنھی مصوروں کے بارے میں کہی ہوگی جو اپنی بنائی ہوئی تصویروں کے بارے میں اِس طرح کا عقیدہ رکھتے تھے۔اوپر روایت ۸ سے معلوم ہوچکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرہ نماے عرب سے تمام مشرکانہ تصویریں مٹادینے کی ہدایت کی تھی۔اِس کے بعد یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ لوگوں نے وہی تصویریں زمانۂ رسالت کے متصل بعد اور وہ بھی مدینہ میں دوبارہ بنانا شروع کردی تھیں۔چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اگر آپ کے اِس ارشاد کا اطلاق اپنے سامنے کسی مصور کی بنائی ہوئی عام تصویروں پر کیا ہے تو اِسے اُن کی غلط فہمی سمجھنا چاہیے۔ علما وفقہا کی ایک بڑی تعداد تصویر کے باب میں اِس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتی ہے تو اُن سے بھی اِس کا صدور مستبعد نہیں ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحیح بخاری، رقم ۵۹۵۳ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۱۱۔ مسند اسحاق، رقم ۱۶۳۔ مسند احمد، رقم ۷۱۶۶، ۷۵۲۱، ۹۸۲۴،۱۰۸۱۹۔ صحیح بخاری، رقم ۷۵۵۹۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۱۱۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۵۹۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۶۸۔

۲۔ بعض طرق، مثلاً مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۱۱ میں یہاں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں: ’دَخَلْتُ مَعَ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ دَارَ مَرْوَانَ، فَرَأَی فِیہَا تَصَاوِیرَ‘ ’’میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مروان کے گھر میں داخل ہوا تو اُنھوں نے اُس میں کچھ تصویریں دیکھیں‘‘، جب کہ مسند اسحاق، رقم ۱۶۳ میں ہے: ’دَخَلْتُ مَعَ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ دَارًا ابْتُنِيَ لِسَعِیدٍ بِالْمَدِینَۃِ أَوْ لِمَرْوَانَ بِالْمَدِینَۃِ‘ ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ میں ایک گھر میں داخل ہوا جو مدینہ میں سعید کے لیے یا مروان کے لیے تعمیرکیا گیاتھا‘‘۔

۳۔ مسنداحمد، رقم ۷۱۶۶۔

۴۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۵۹۔

۵۔ صحیح بخاری، رقم ۷۵۵۹۔

۶۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۱۱۔

—۱۰—

عَنْ عَاءِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ، أَنَّہَا قَالَتْ:۱ لَمَّا مَرِضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ذَکَرَ بَعْضُ نِسَاءِہِ کَنِیسَۃً رَأَتْہَا بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ، وَکَانَتْ أُمُّ سَلَمۃَ وَأُمُّ حَبِیبَۃَ قَدْ أَتَیَا أَرْضَ الْحَبَشَۃِ، فَذَکَرْنَ کَنِیسَۃً رَأَیْنَہَا بِأَرْضِ الْحَبَشَۃِ، یُقَالُ لَہَا: مَارِیَۃُ، وَذَکَرْنَ مِنْ حُسْنِہَا وَتَصَاوِیرَ فِیہَا، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأْسَہُ، فَقَالَ: ’’إِنَّ أُولٰءِکَ [قَوْمٌ۲] إِذَا مَاتَ فِیہِمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلٰی قَبْرِہِ مَسْجِدًا [وَصَوَّرُوہُ۳]، ثُمَّ صَوَّرُوا فِیہِ تِلْکَ الصُّوَرَ، أُولٰءِکَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللّٰہِ [یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۴]‘‘.
ام المومنین سیدہ عائشہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار ہوئے تو آپ کی بیویوں میں سے کسی نے اُس گرجے کا ذکر کیا جو اُنھوں نے حبشہ کی سرزمین میں دیکھا تھا۔ ام سلمہ اور ام حبیبہ حبشہ جاچکی تھیں، لہٰذا جو گرجا اُنھوں نے اُس سر زمین میں دیکھا تھا،اُس کا ذکر کیا، جس کا نام ماریہ تھا۔ اُنھوں نے اُس کی خوب صورتی اور اُس میں تصویروں کا بھی ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اِن میں کوئی صالح آدمی دنیا سے رخصت ہوجاتا تو اُس کی قبر پر عبادت گاہ بناتے اور اُس کی مورت بنالیتے، پھر یہی نہیں، اُس عبادت گاہ میں اِسی طرح تصویریں بناتے تھے۱۔یہی ہیں جو قیامت کے دن خدا کے نزدیک بد ترین خلائق ہوں گے۔

________

۱۔ یعنی جس طرح سیدہ مریم اور سیدنا مسیح کی تصویریں بنائی جاتی ہیں، اُسی طرح اپنے بعض صالحین کی تصویریں بناکر اُنھیں بھی مشرکانہ عقیدت کے ساتھ گرجوں اور خانقاہوں میں رکھ لیتے تھے۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن اصلاً موطا مالک (روایۃ ابی مصعب الزہری)، رقم ۱۹۴۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۷۵۴۸، ۱۱۸۱۵۔ مسند اسحاق، رقم ۷۶۸، ۷۶۹۔ مسند احمد، رقم ۲۴۲۵۲۔ صحیح بخاری، رقم ۴۲۷،۴۳۴، ۱۳۴۱، ۳۸۷۳۔ صحیح مسلم، رقم ۵۲۸۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۷۰۴۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۷۸۵۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۶۲۹۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۷۹۰۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۱۱۸۹، ۱۱۹۰، ۱۱۹۱۔ صحیح ابن حبان، رقم ۳۱۸۱۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۷۲۲۰۔

۲۔ صحیح بخاری، رقم ۴۳۴۔

۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۷۵۴۸۔

۴۔ مسند احمد، رقم ۲۴۲۵۲۔

—۱۱—


إِنَّ عَاءِشَۃَ، تَقُولُ:۱ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ سَتَرْتُ سَہْوَۃً لِيْ بِقِرَامٍ فِیہِ تَمَاثِیلُ، فَلَمَّا رَآہُ ہَتَکَہُ، وَتَلَوَّنَ وَجْہُہُ، وَقَالَ: ’’یَا عَاءِشَۃُ، أَشَدُّ النَّاسِ عَذَابًا عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، الَّذِینَ یُضَاہُونَ۲ بِخَلْقِ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی‘‘۳. قَالَتْ عَاءِشَۃُ: فَقَطَعْنَاہُ فَجَعَلْنَا مِنْہُ وِسَادَۃً أَوْ وِسَادَتَیْنِ۴.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے۔میں نے گھر کے ایک روشن دان کو باریک پردے سے ڈھانپ رکھا تھا، جس پر مورتیں بنی تھیں ۔آپ نے جیسے ہی اُس کو دیکھا تو پھاڑ ڈالا اورآپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ نے فرمایا: عائشہ، قیامت کے دن اللہ کے ہاں اُن لوگوں کو سخت ترین عذاب دیا جائے گا جو اللہ کی تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرتے ہیں۱۔ سیدہ کہتی ہیں کہ پھر ہم نے اُس پردے کو کاٹا اور اُس سے دو یا تین تکیے بنالیے۲۔

________

۱۔یعنی مورتوں کو حقیقی شخصیات کی طرح صاحب اختیار اور نافع وضار سمجھ کر بناتے اور اِس طرح گویا اللہ کی تخلیق کے مانند تخلیق کی کوشش کرتے ہیں۔

۲۔ اِس کے نتیجے میں، ظاہر ہے کہ تصویریں مسخ ہوگئیں اور اُن کے بارے میں کسی غلط تاثر کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں رہا۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی بھی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اسلوب کے کچھ فرق کے ساتھ اِس کے متابعات جن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم ۱۹۴۸۴۔ مسند حمیدی، رقم ۲۵۳۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۰۸۔ مسند اسحاق، رقم ۹۱۸، ۹۱۹، ۹۷۵۔ مسند احمد، رقم۲۴۰۸۱، ۲۴۵۳۶، ۲۴۵۵۶، ۲۴۵۶۳، ۲۵۶۳۱، ۲۵۸۳۹۔ صحیح بخاری، رقم ۵۹۵۴، ۶۱۰۹۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۵۶، ۵۳۵۷، ۵۳۶۳۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۹۳، ۹۶۹۴، ۹۶۹۵، ۹۷۰۵۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۴۰۹، ۴۴۶۹، ۴۵۲۴، ۴۷۲۳۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۴۷۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۹۱۷۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۵۶، ۱۴۵۵۷، ۱۴۵۵۸، ۱۴۵۷۳۔

۲۔ کئی طرق، مثلاً مسند احمد، رقم ۲۴۵۶۳ میں یہاں ’یُضَاہُونَ‘ کے بجاے ’یُشَبِّہُونَ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔معنی کے اعتبار سے دونوں مترادف ہیں۔

۳۔صحیح بخاری، رقم ۶۱۰۹ میں یہاں یہ الفاظ ہیں: ’إِنَّ مِنْ أَشَدِّ النَّاسِ عَذَابًا یَوْمَ القِیَامَۃِ الَّذِینَ یُصَوِّرُونَ ہٰذِہِ الصُّوَرَ‘ ’’قیامت کے دن جن لوگوں کوسخت ترین عذاب دیا جائے گا ، اُن میں وہ بھی ہیں جو اِس طرح کی تصویریں بناتے ہیں‘‘۔

۴۔ سیدہ کی یہ بات معمولی تفاوت کے ساتھ اِس باب کے کئی طرق میں نقل ہوئی ہے۔

—۱۲—

عَنْ عَاءِشَۃَ۱ أَنَّہَا اشْتَرَتْ نُمْرُقَۃً فِیہَا تَصَاوِیرُ، فَلَمَّا رَآہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَی البَابِ، فَلَمْ یَدْخُلْہُ، فَعَرَفْتُ فِی وَجْہِہِ الکَرَاہِیَۃَ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَتُوبُ إِلَی اللّٰہِ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی وَإِلٰی رَسُولِہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۲، مَاذَا أَذْنَبْتُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’مَا بَالُ ہٰذِہِ النُّمْرُقَۃِ؟‘‘ قُلْتُ: اشْتَرَیْتُہَا لَکَ لِتَقْعُدَ عَلَیْہَا وَتَوَسَّدَہَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’إِنَّ أَصْحَابَ ہٰذِہِ الصُّوَرِ یَوْمَ القِیَامَۃِ یُعَذَّبُونَ، فَیُقَالُ لَہُمْ: أَحْیُوا مَا خَلَقْتُمْ۳‘‘، وَقَالَ: ’’إِنَّ البَیْتَ الَّذِيْ فِیہِ الصُّوَرُ لاَ تَدْخُلُہُ المَلاَءِکَۃُ‘‘.
سیدہ ہی سے مروی ہے کہ اُنھوں نے ایک تکیہ خریدا جس میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۱۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو دیکھا تو آپ دروازے ہی پرکھڑے ہوگئے، اندر داخل نہیں ہوئے اور میں نے آپ کے چہرے سے ناراضی محسوس کی ۔میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ، میں اللہ اور اُس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تکیہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ کے لیے خریدا ہے کہ آپ اِس پر بیٹھیں اور اِس سے ٹیک لگائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو فرمایا: اِن تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ اِن سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے ، اِس کو زندہ کرو ۲ اور فرمایا کہ جس گھر میں اِس طرح کی تصویریں ہوں، اُس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے۳۔

________

۱۔ یعنی تکیے کے لحاظ سے بنی ہوئی تھیں، کسی تصویر والے پردے کو اِس تکیے کے لیے کاٹا نہیں گیا تھا، جیسا کہ پچھلی روایت میں مذکور ہے۔

۲۔یہ، ظاہر ہے کہ اُن کی فضیحت کے لیے ہوگا، اِس لیے کہ وہ اُن کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے اور نافع وضار سمجھ کر اُن سے استعانت کرتے تھے۔

۳۔یہ مضمون جن روایتوں میں بیان ہوا ہے، اُن کی وضاحت ہم ’’فرشتے، تصاویر اور کتا‘‘ کے زیر عنوان اِسی کتاب میں کرچکے ہیں۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن صحیح بخاری، رقم ۲۱۰۵ سے لیا گیا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے الفاظ کے معمولی تفاوت اور اجمال وتفصیل کے کچھ فرق کے ساتھ اِس کے بقیہ طرق اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: موطا مالک، رقم ۱۷۳۶۔ مسند احمد، رقم ۲۴۴۱۷، ۲۴۵۱۰، ۲۵۸۶۹، ۲۶۰۹۰۔ صحیح بخاری، رقم ۵۱۸۱، ۵۹۵۷، ۵۹۶۱، ۷۵۵۷۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۷۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۲۱۵۱۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۶۲۔ السنن الکبریٰ،نسائی، رقم ۹۷۰۴۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۴۳۸۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۱۴۹۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۴۵۔

۲۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۴۴۳۸ میں یہاں یہ الفاظ آئے ہیں: ’أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنْ سُخْطِ اللّٰہِ وَسُخْطِ رَسُولِہِ‘ ’’میں اِس بات سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں کہ میں اُس کو اور اُس کے رسول کو ناراض کروں‘‘۔

۳۔ آپ کا یہی ارشادکسی سیاق وسباق کے بغیرکم وبیش انھی الفاظ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہوا ہے۔ مثال کے طور پر السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۶۱ میں ہے: ’عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: ’’إِنَّ أَصْحَابَ ہٰذِہِ الصُّوَرِ الَّذِینَ یَصْنَعُونَہَا یُعَذَّبُونَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، یُقَالُ لَہُمْ: أَحْیُوا مَا خَلَقْتُمْ‘‘‘ ’’ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِن تصویروں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔ اِن سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے ، اِس کو زندہ کرو‘‘۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اِس کے متابعات جن مراجع میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم ۱۹۴۹۰۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۱۰۔ مسند احمد، رقم ۴۴۷۵، ۴۷۰۷، ۵۱۶۸، ۵۷۶۷، ۶۰۸۴، ۶۲۶۲۔ صحیح بخاری، رقم ۵۹۵۱، ۷۵۵۸۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۰۸۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۷۰۲، ۹۷۰۳۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۱۲۰۴، ۶۰۲۱۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۶۶۔

—۱۳—

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ ’’مَنْ صَوَّرَ صُورَۃً، عُذِّبَ۲ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَنْفُخَ فِیہَا الرُّوحَ، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ فِیہَا‘‘.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے کوئی تصویر بنائی، اُسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ اُس میں روح پھونکے ۱ اور وہ نہیں پھونک سکے گا۔

________

۱۔ یعنی جس طرح دنیا میں اُس کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتا تھا کہ گویا وہ کوئی ذی روح ہستی ہے جو اُس کی دعائیں سنتی اور اُس کے لیے نفع وضرر کا باعث بنتی ہے، اُسی طرح اب اُس کوذی روح بنا کر دکھائے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن مسنداحمد، رقم ۱۰۵۴۹ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۶۰۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۹۹۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۶۹۴۴۔

۲۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۶۰ میں یہاں ’عُذِّبَ‘ ’’عذاب دیا جائے گا‘‘ کے بجاے ’کُلِّفَ‘ ’’مجبور کیا جائے گا‘‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔

—۱۴—

عَنِ النَّضْرِ بْنِ أَنَسٍ، قَالَ:۱ کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَہُوَ یُفْتِي النَّاسَ، لَا یُسْنِدُ إِلَی نَبِيِّ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَیْءًا مِنْ فُتْیَاہُ حَتّٰی جَاءَ ہُ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالَ: إِنِّيْ رَجُلٌ مِنْ أَہْلِ الْعِرَاقِ، وَإِنِّيْ أُصَوِّرُ ہٰذِہِ التَّصَاوِیرَ، [فَمَا تَقُولُ فِیہَا؟۲]، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ: ادْنُہْ ۔ إِمَّا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلاثًا ۔ فَدَنَا، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ: ’’مَنْ صَوَّرَ صُورَۃً فِي الدُّنْیَا، یُکَلَّفُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنْ یَّنْفُخَ فِیہِ الرُّوحَ، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ [فِیہَا أَبَدًا۳]‘‘۴.
نضر بن انس کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ اپنے کسی فتوے کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیے بغیر لوگوں کو دینی مسائل میں اپنی راے دے رہے تھے۔اتنے میں عراق کا ایک شخص اُن کے پاس آیا اور اُس نے کہا: میں عراق کا رہنے والا ہوں اور اِس طرح کی تصویریں بناتا ہوں ،۱ آپ اِن کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اُسے دو یا تین مرتبہ اپنے قریب ہونے کے لیے کہا۔جب وہ قریب ہوگیا تو اُس سے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص دنیا میں کوئی تصویر بناتا ہے، اُسے قیامت کے دن مجبور کیا جائے گا کہ اُس میں روح پھونکے اور وہ اُس میں کبھی روح نہیں پھونک سکے گا۲۔

________

۱۔ یعنی اپنی بنائی ہوئی تصویریں دکھاکر کہا کہ اِس طرح کی تصویریں بناتا ہوں۔

۲۔ اِس کی وضاحت اوپر روایت ۱۳ کے تحت ہوچکی ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے اِس ارشاد کا حوالہ یہاں، ظاہر ہے ، اِسی لیے دیا ہوگا کہ عراقی شخص نے جو تصویریں اُنھیں دکھائیں، وہ اُسی طرح کی ہوں گی جن کے ساتھ مشرکانہ عقائد وابستہ ہوں یا وابستہ کیے جاسکتے ہوں۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاًمسند احمد، رقم ۲۱۶۲ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔ متن کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: جامع معمر بن راشد، رقم ۱۹۴۹۱۔ مسند حمیدی، رقم ۵۴۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۲۵۲۱۳۔ مسند احمد، رقم ۱۸۶۶، ۳۲۷۲، ۳۳۸۳۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۶۰۱۔ صحیح بخاری، رقم ۵۹۶۳، ۷۰۴۲۔ صحیح مسلم، رقم ۲۱۱۰۔ سنن ابی داود، رقم ۵۰۲۴۔ سنن ترمذی، رقم ۱۷۵۱۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۵۸، ۵۳۵۹۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۹۷، ۹۶۹۸۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۶۸۵، ۵۶۸۶۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۱۸۵۵، ۱۱۹۲۳، ۱۱۹۶۰، ۱۲۹۰۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۶۹، ۱۴۵۷۲۔

۲۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۹۷۔

۳۔جامع معمر بن راشد، رقم ۱۹۴۹۱۔

۴۔مسند احمد، رقم ۳۳۸۳ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ہی سے آپ کا یہ ارشاد اِس اسلوب میں نقل ہوا ہے: ’’’مَنْ صَوَّرَ صُورَۃً، کُلِّفَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَنْ یَّنْفُخَ فِیہَا، وَعُذِّبَ وَلَنْ یَّنْفُخَ فِیہَا‘‘‘ ’’جو شخص کوئی تصویر بناتا ہے، اُسے قیامت کے دن مجبور کیا جائے گا کہ اُس میں روح پھونکے اور اُسے عذاب دیا جائے گا۔ وہ اُس میں ہرگزروح نہیں پھونک سکے گا‘‘۔ مسند حمیدی، رقم ۵۴۱ میں یہ الفاظ ہیں: ’’’مَنْ صَوَّرَ صُورَۃً عُذِّبَ وَکُلِّفَ أَنْ یَّنْفُخَ فِیہَا وَلَیْسَ بِفَاعِلٍ‘‘‘ ’’جو شخص کوئی تصویر بناتا ہے ، اُسے قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور مجبور کیا جائے گا کہ اُس میں روح پھونکے ، لیکن وہ ایسا نہیں کر پائے گا‘‘، جب کہ بعض طرق، مثلاًسنن ابی داود، رقم ۵۰۲۴ میں یہی مضمون اِن الفاظ میں روایت ہوا ہے: ’’’مَنْ صَوَّرَ صُورَۃً عَذَّبَہُ اللّٰہُ بِہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، حَتّٰی یَنْفُخَ فِیہَا، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ‘‘‘ ’’جو شخص کوئی تصویر بناتا ہے ،قیامت کے دن اُس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُسے عذاب دے گا، یہاں تک کہ وہ اُس میں روح پھونکے اور وہ نہیں پھونک سکے گا‘‘۔

—۱۵—

عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِی الْحَسَنِ، قَالَ:۱ کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَأَلَہُ رَجُلٌ فَقَالَ: یَا ابْنَ عَبَّاسٍ، إِنِّيْ رَجُلٌ إِنَّمَا مَعِیشَتِي مِنْ صَنْعَۃِ یَدِي، وَإِنِّي أَصْنَعُ ہٰذِہِ التَّصَاوِیرَ؟ قَالَ: فَإِنِّي لَا أُحَدِّثُکَ إِلَّا بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ، [سَمِعْتُہُ یَقُولُ۲]: ’’مَنْ صَوَّرَ صُورَۃً، فَإِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی مُعَذِّبُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَنْفُخَ فِیہَا الرُّوحَ، وَلَیْسَ بِنَافِخٍ فِیہَا أَبَدًا‘‘، قَالَ: فَرَبَا لَہَا الرَّجُلُ رَبْوَۃً شَدِیدَۃً، فَاصْفَرَّ وَجْہُہُ، فَقَالَ لَہُ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَیْحَکَ، إِنْ أَبَیْتَ إِلَّا أَنْ تَصْنَعَ، فَعَلَیْکَ بِہٰذَا الشَّجَرِ وَکُلِّ شَيْءٍ لَیْسَ فِیہِ رُوحٌ.
سعید بن ابی حسن کی روایت ہے کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا تھاکہ ایک شخص نے اُن سے سوال کیا۔ اُس نے کہا: اے ابن عباس، میں اِس طرح کی تصویریں بناتا ہوں اور میرا ذریعۂ معاش میرے ہاتھ کی یہی صنعت ہے۔ ابن عباس نے جواب دیا کہ میں تم سے وہی بات کہوں گا جو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس نے کوئی تصویر بنائی، قیامت کے دن اللہ اُس کو عذاب میں مبتلا کرے گا اور نہیں چھوڑے گا، یہاں تک کہ وہ اُس میں روح پھونکے اور وہ کبھی اُس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔یہ سن کر اُس شخص کی حالت غیر ہوگئی،اُس کا سانس چڑھنے لگا اور اُس کے چہرے کا رنگ زرد پڑگیا۔ابن عباس نے یہ دیکھا تو فرمایا: تم پر افسوس، بندۂ خدا، اگر تمھارااِس کے بغیر گزارا نہیں تو اِس درخت کی تصویر بنالو یا کسی ایسی چیز کی بنالو جس میں روح نہ ہو۱۔

________

۱۔ پیچھے کے مباحث سے واضح ہے کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ بات اگر فرمائی ہے تو غالبًا اِسی لیے فرمائی ہے کہ مشرکانہ جذبات بالعموم ذی روح ہستیوں ہی سے وابستہ ہوتے ہیں۔اِس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں اور نہیں ہوسکتے کہ تصویر کی حرمت اُس کے ذی روح ہونے کی وجہ سے ہے۔روایت ۱ کے تحت ہم اِس کے دلائل کی تفصیل کرچکے ہیں۔

متن کے حواشی

۱۔اِس روایت کا متن اصلاً مسند احمد، رقم ۳۳۹۴ سے لیا گیا ہے۔کم وبیش اِنھی الفاظ کے ساتھ اِس واقعے کے متابعات اِن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: صحیح بخاری، رقم ۲۲۲۵۔ مسند ابی یعلیٰ، رقم ۲۵۷۷۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۴۸۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۲۷۷۲، ۱۲۷۷۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۱۴۵۷۹۔

۲۔صحیح بخاری، رقم ۲۲۲۵۔

—۱۶—

عَنْ سَعِیدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، قَالَ:۱ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: یَا أَبَا الْعَبَّاسِ، إِنِّيْ رَجُلٌ أُصَوِّرُ ہٰذِہِ الصُّوَرَ، وَأَصْنَعُ ہٰذِہِ الصُّوَرَ، فَأَفْتِنِي فِیہَا، قَالَ: ادْنُ مِنِّي، فَدَنَا مِنْہُ، فقَالَ: ادْنُ مِنِّي، فَدَنَا مِنْہُ حَتّٰی وَضَعَ یَدَہُ عَلٰی رَأْسِہِ، قَالَ: أُنَبِّءُکَ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ’’کُلُّ مُصَوِّرٍ فِي النَّارِ، یُجْعَلُ لَہُ بِکُلِّ صُورَۃٍ صَوَّرَہَا نَفْسٌ تُعَذِّبُہُ فِي جَہَنَّمَ‘‘، [وقَالَ:۲] فَإِنْ کُنْتَ لَا بُدَّ فَاعِلًا، فَاجْعَلِ۳ الشَّجَرَ وَمَا لَا نَفْسَ لَہُ.
اِنھی سعیدبن ابی حسن کا بیان ہے کہ ایک شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے ابو عباس، میں ایک مصور ہوں اور اِس طرح کی تصویریں بناتا ہوں، مجھے اِن کے بارے میں فتویٰ دیجیے۔ ابن عباس نے کہا: میرے قریب ہو جاؤ، وہ قریب ہوا تو کہا: اور قریب ہو جاؤ۔ وہ اور قریب ہوگیا، یہاں تک کہ اُنھوں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:۱ میں تمھیں وہ بات بتاتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے کہ ہر تصویریں بنانے والا دوزخ میں جائے گا۲۔پھر اُس نے جتنی تصویریں بنائی ہوں گی، اتنے ہی اشخاص پیدا کیے جائیں گے جو اُس کو دوزخ میں عذاب دیں گے۔ اور فرمایا: سو تمھارا اگر اِس کے بغیر گزارا نہیں تو درخت کی تصویر بنالو یا کسی ایسی چیز کی جس میں روح نہ ہو۳۔

________

۱۔ یہ خاص شفقت کا انداز ہے جس سے مقصود یہ تھا کہ سائل وہ بات سننے کے لیے تیار ہوجائے جو اُس کے لیے گراں ہوسکتی ہے۔

۲۔ یعنی اُس طرح کی تصویریں بنانے والا جو کسی مشرکانہ عقیدے کے تحت بنائی جائیں، جیسا کہ پیچھے وضاحت ہوچکی ہے۔

۳۔ اِس لیے کہ اِس طرح کی چیزوں کے ساتھ مشرکانہ جذبات بالعموم وابستہ نہیں ہوتے۔تاہم کسی جگہ وابستہ ہوگئے ہوں تو اِن کی تصویروں کا حکم بھی وہی ہوگا جوابن عباس رضی اللہ عنہ نے اِس واقعے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے بیان کیا ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۲۸۱۰ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی تنہا ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں۔کم وبیش اِنھی الفاظ کے ساتھ اِس واقعے کا متن صحیح مسلم، رقم ۲۱۱۰ میں بھی روایت ہوا ہے۔

۲۔صحیح مسلم، رقم ۲۱۱۰۔

۳۔صحیح مسلم، رقم ۲۱۱۰ میں یہاں ’فَاجْعَلْ‘ کے بجاے ’فَاصْنَعْ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

—۱۷—

عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ، أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:۱ ’’یَجْمَعُ اللّٰہُ النَّاسَ یَوْمَ القِیَامَۃِ فِيْ صَعِیدٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ یَطَّلِعُ عَلَیْہِمْ رَبُّ العَالَمِینَ، فَیَقُولُ: أَلَا یَتْبَعُ کُلُّ إِنْسَانٍ مَا کَانُوا یَعْبُدُونَ؟ فَیُمَثَّلُ لِصَاحِبِ الصَّلِیبِ صَلِیبُہُ، وَلِصَاحِبِ التَّصَاوِیرِ تَصَاوِیرُہُ، وَلِصَاحِبِ النَّارِ نَارُہُ، فَیَتْبَعُونَ مَا کَانُوا یَعْبُدُونَ...‘‘.
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک ہی میدان میں لوگوں کو جمع کرے گا۔پھر جہانوں کا پروردگاریکایک سامنے آکر فرمائے گا: کیا سب لوگ اپنے معبودوں کے پیچھے کھڑے نہیں ہوں گے؟چنانچہ صلیب پوجنے والوں کے لیے صلیب، مورتیں پوجنے والوں کے لیے مورتوں اور آگ کی پرستش کرنے والوں کے لیے آگ کو ممثل کردیا جائے گا اور وہ اپنے معبودوں کے پیچھے ہو جائیں گے۱۔

________

۱۔ یہ روایت اُسی مدعا کو مزید واضح کردیتی ہے جو ہم نے اوپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے سمجھا ہے کہ تصویروں کی ممانعت جوکچھ بھی روایتوں میں بیان ہوئی ہے، وہ اُن کی عبادت اور اُن سے متعلق مشرکانہ جذبات ہی کی بنا پر ہوئی ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن سنن ترمذی، رقم ۲۵۵۷ سے لیا گیا ہے ۔ اِس کے باقی طرق ابن خزیمہ،التوحید واثبات صفات الرب ، رقم ۱۲۳ اور ۲۵۱ میں اور ابن مندہ ، کتاب الایمان، رقم ۸۱۵ میں دیکھ لیے جاسکتے ہے۔

—۱۸—

عَنْ أَبِيْ سَعِیدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:۱ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’... یَجْمَعُ اللّٰہُ النَّاسَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِيْ صَعِیدٍ وَاحِدٍ، قَالَ: فَیُقَالُ: مَنْ کَانَ یَعْبُدُ شَیْءًا فَلْیَتْبَعْہُ، قَالَ: فَیَتْبَعُ الَّذِینَ کَانُوا یَعْبُدُونَ الشَّمْسَ الشَّمْسَ فَیَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، وَیَتْبَعُ الَّذِینَ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْقَمَرَ الْقَمَرَ فَیَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، وَیَتْبَعُ الَّذِینَ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ الْأَوْثَانَ، وَالَّذِینَ کَانُوا یَعْبُدُونَ الْأَصْنَامَ الْأَصْنَامَ فَیَتَسَاقَطُونَ فِي النَّارِ، قَالَ: وَکُلُّ مَنْ کَانَ یُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللّٰہِ حَتّٰی یَتَسَاقَطُونَ فِي النَّار...‘‘.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایک ہی میدان میں لوگوں کو جمع کرے گا۔ آپ نے فرمایا: اِس کے بعداُن سے کہا جائے گا کہ ہر شخص اپنے معبود کے پیچھے چلے۔ فرمایا کہ پھر جو لوگ سورج کی پرستش کرتے تھے، وہ اُس کے پیچھے چلیں گے اور پے در پے جہنم میں جاگریں گے اور چاند کو پوجنے والے اُس کے پیچھے چلیں گے اور پے در پے دوزخ میں گرجائیں گے اور بتوں اور مورتوں کے پوجنے والے اُن کے پیچھے چل کر پے در پے جہنم میں جاپڑیں گے۔آپ نے فرمایا: خدا کے سوا ہر وہ چیز جس کی عبادت کی جاتی تھی، وہ اپنے پیرووں کو لے کر چلے گی، یہاں تک کہ وہ سب دوزخ میں گر جائیں گے۱۔

________

۱۔ یہ اُسی مضمون کی وضاحت ہے جو سورۂ انبیا (۲۱) کی آیت ۹۸ میں بیان ہوا ہے: ’(اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وَارِدُوْنَ)‘ ’’تم اور تمھارے معبود جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے رہے ہو، اب جہنم کا ایندھن ہیں‘‘۔ بتوں اور مورتوں کی مذمت جس پہلو سے ہوئی ہے، وہ اِس روایت سے بھی واضح ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس روایت کا متن مسند احمد، رقم ۱۱۱۲۷ سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔اِس کے متابعات اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند احمد، رقم ۱۱۱۲۷۔ السنۃ، ابن ابی عاصم، رقم ۶۳۴۔ التوحید و اثبات صفات الرب، ابن خزیمہ، رقم ۲۴۶۔

—۱۹—

عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ بْنِ مَسْعُودٍ،۱ أَنَّہُ دَخَلَ عَلٰی أَبِي طَلْحَۃَ الْأَنْصَارِيِّ یَعُودُہُ. قَالَ: فَوَجَدَ عِنْدَہُ سَہْلَ بْنَ حُنَیْفٍ، فَدَعَا أَبُو طَلْحَۃَ إِنْسَانًا. فَنَزَعَ نَمَطًا مِنْ تَحْتِہِ. فَقَالَ لَہُ سَہْلُ بْنُ حُنَیْفٍ: لِمَ تَنْزِعُہُ؟ قَالَ: لِأَنَّ فِیہِ تَصَاوِیرَ. وَقَدْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیہَا مَا قَدْ عَلِمْتَ. فَقَالَ سَہْلٌ: أَلَمْ یَقُلْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ’’إِلاَّ مَا کَانَ رَقْمًا فِي ثَوْبٍ‘‘؟ قَالَ: بَلٰی، وَلَکِنَّہُ أَطْیَبُ لِنَفْسِي.
عتبہ بن مسعود کے پوتے اور عبد اللہ کے بیٹے عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے اُن کے ہاں گئے تو اُنھوں نے دیکھا کہ سہل بن حنیف اُن کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں۔ پھر ہوا یہ کہ ابو طلحہ نے کسی شخص کو بلایا اور اُس نے اُن کے نیچے سے بچھونا کھینچ لیا۔ سہل بن حنیف نے پوچھا: کیوں کھینچتے ہو؟ ابو طلحہ نے جواب دیا: اِس لیے کہ اُس میں تصویریں بنی ہوئی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن کے بارے میں جو کچھ فرمایا ہے، وہ تمھیں معلوم ہی ہے۔اِس پر سہل نے کہا: کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ سواے اُن کے جو کپڑوں میں نقش ہوں۱؟ ابو طلحہ نے کہا: ہاں، لیکن مجھے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے۲۔

________

۱۔ یہ معلوم ہے کہ کپڑے پہننے یا بچھا کر بیٹھنے کی چیز ہیں، لہٰذااُن میں منقوش تصویروں میں بھی وہ علت بالعموم باقی نہیں رہتی جس کی بنا پر اُنھیں ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

۲۔یہ اُنھوں نے اپنا ذوق بیان کیا ہے۔مطلب یہ ہے کہ اگرچہ حرج نہیں، لیکن مجھے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے بچھونوں پر بھی کوئی تصویر گھر میں نہ رکھوں۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن موطا مالک، رقم ۷۷۸ سے لیا گیا ہے۔ عبید اللہ سے اِس کے متابعات جن مصادر میں نقل ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں: مسند احمد، رقم ۱۵۹۷۹۔ سنن ترمذی، رقم ۱۷۵۰۔ السنن الصغریٰ، نسائی، رقم ۵۳۴۹۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۸۱۔ مسند رویانی، رقم ۹۸۷۔ المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۴۷۳۱۔

عبید اللہ ہی سے یہ واقعہ بعض طرق میں معلومات کے کچھ فرق کے ساتھ اِس طرح بھی روایت ہوا ہے: ’عَنْ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُتْبَۃَ قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ حُنَیْفٍ نَعُودُ أَبَا طَلْحَۃَ فِي شَکْوَی فَدَخَلْنَا عَلَیْہِ وَتَحْتَہُ بُسْطٌ فِیہَا صُوَرٌ، قَالَ: انْزِعُوا ہٰذَا مِنْ تَحْتِي، فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ: أَوَمَا سَمِعْتَ یَاأَبَا طَلْحَۃَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حِینَ نَہَی عَنِ الصُّوَرِ یَقُولُ: ’’إِلَّا رَقْمًا فِي ثَوْبٍ، أَوْ ثَوْبٌ فِیہِ رَقْمٌ‘‘، قَالَ: بَلٰی، وَلَکِنَّہُ أَطْیَبُ لِنَفْسِي أَنْ أَنْزِعَہُ مِنْ تَحْتِي‘ ’’عتبہ کے پوتے اور عبد اللہ کے بیٹے عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: ایک موقع پرابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ علیل تھے۔چنانچہ میں اور عثمان بن حنیف عیادت کے لیے اُن کے ہاں گئے۔ہم اُن کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ اُن کے بچھونے میں تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ ابوطلحہ نے کہا: اِس کو میرے نیچے سے کھینچ لو۔ اِس پر عثمان نے اُن سے کہا: ابو طلحہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویروں سے منع کرتے ہوئے جو فرمایا تھا، کیا تم نے نہیں سنا تھا کہ سواے اُن کے جو کپڑوں میں نقش ہوں؟ ابو طلحہ نے کہا: ہاں، لیکن مجھے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ میں اِس کو نیچے سے کھینچ لوں‘‘ (السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۹۶۸۰)۔

الفاظ کے معمولی تفاوت کے ساتھ یہ واقعہ اِسی تفصیل کے ساتھ اِن مراجع میں بھی دیکھ لیا جاسکتا ہے: مسند ابی یعلیٰ، رقم ۱۴۴۰۔ شرح معانی الآثار، طحاوی، رقم ۶۹۳۳۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۴۷۳۲۔

—۲۰—

عَنْ عَاءِشَۃَ، قَالَتْ:۱ کُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عَلَی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَکَانَ یَأْتِینِي صَوَاحِبِي [فَیَلْعَبْنَ مَعِي۲]، فَکُنَّ إِذَا رَأَیْنَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْقَمِعْنَ۳ مِنْہُ، فَکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُسَرِّبُہُنَّ إِلَيَّ۴ یَلْعَبْنَ مَعِي۵.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلنے کے لیے آجاتی تھیں ۔ پھر جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتیں تو آپ سے چھپنے کی کوشش کرتی تھیں ، لیکن آپ اُنھیں میرے پاس بھیج دیتے تھے، پھر وہ میرے ساتھ کھیلتی رہتی تھیں ۱۔

________

۱۔ مطلب یہ ہے کہ گڑیاں بھی اگرچہ ذی ارواح کی بنائی جاتیں اور ایک طرح کے مجسموں ہی کی صورت میں ہوتی ہیں، لیکن آپ اُن پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے،جیسا کہ اگلی روایتوں میں تصریح ہے۔اوپر کی توضیحات سے واضح ہے کہ اُن پر اعتراض کی کوئی وجہ بھی نہیں ہوسکتی تھی، اِس لیے کہ اُن میں شرک کا کوئی شائبہ نہیں تھا اور نہ ہونے کا اندیشہ تھا۔سیدہ کے اِن کے ساتھ کھیلنے پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ دیہات کی زندگی سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اِس طرح کی گڑیوں سے بڑی عمر کی لڑکیاں بھی بالعموم کھیلتی اور گھر در کے معاملات کواُن کے ساتھ کھیلتے ہوئے، بالکل اُسی طرح ممثل کرتی ہیں، جس طرح ہمارے اِس زمانے میں ڈراموں اور تماثیل میں کیا جاتا ہے۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاًمسند احمد، رقم ۲۵۹۶۸ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی بھی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ متن کے معمولی اختلاف کے ساتھ اِس کے باقی طرق اِن مصادر میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں: مسند اسحاق، رقم ۷۸۳، ۷۸۴۔ مسند احمد، رقم ۲۴۲۹۸۔ صحیح بخاری، رقم ۶۱۳۰۔ صحیح مسلم، رقم ۲۴۴۰۔ سنن ابی داود، رقم ۴۹۳۱۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۸۸۹۷، ۸۸۹۸، ۸۹۰۰۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۴۲۶۱، ۴۲۶۲، ۴۲۶۳۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۶۳، ۵۸۶۵، ۵۸۶۶۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۲۷۹، ۲۸۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۲۰۹۸۱۔

۲۔ مسند احمد، رقم ۲۴۲۹۸۔

۳۔ بعض طرق، مثلاً صحیح بخاری، رقم ۶۱۳۰ میں یہاں ’یَنْقَمِعْنَ‘ کے بجاے ’یَتَقَمَّعْنَ‘ کا لفظ نقل ہوا ہے۔ معنی کے اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۴۔ مسند احمد، رقم ۲۴۲۹۸ میں یہاں ’یُدْخِلُہُنَّ عَلَيَّ‘ کے الفاظ ہیں، جو کہ معنی کے اعتبار سے مترادف ہی ہیں۔

۵۔ سنن ابی داود، رقم ۴۹۳۱ میں یہ روایت اِن الفاظ میں نقل ہوئی ہے: ’عَنْ عَاءِشَۃَ، قَالَتْ: کُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ فَرُبَّمَا دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي الْجَوَارِي، فَإِذَا دَخَلَ خَرَجْنَ، وَإِذَا خَرَجَ دَخَلْنَ‘ ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ کہتی ہیں: میں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی۔ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لے آتے اور میری پاس میری سہیلیاں بیٹھی ہوتی تھیں۔ چنانچہ جب آپ تشریف لاتے تو وہ باہر چلی جاتی تھیں اور جب آپ تشریف لے جاتے تو وہ پھر سے اندر آجاتی تھیں‘‘۔

—۲۱—

عَنْ عَاءِشَۃَ، قَالَتْ:۱ قَدِمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَۃِ تَبُوکَ أَوْ خَیْبَرَ، وَفِي سَہْوَتِہَا سِتْرٌ، فَہَبَّتْ رِیحٌ فَکَشَفَتْ نَاحِیَۃَ السِّتْرِ عَنْ بَنَاتٍ لِعَاءِشَۃَ لُعَبٍ، فَقَالَ: ’’مَا ہٰذَا یَا عَاءِشَۃُ‘‘؟ قَالَتْ: بَنَاتِي، وَرَأَي بَیْنَہُنَّ فَرَسًا لَہُ جَنَاحَانِ مِنْ رِقَاعٍ، فَقَالَ: ’’مَا ہٰذَا الَّذِي أَرَی وَسْطَہُنَّ‘‘؟ قَالَتْ: فَرَسٌ، قَالَ: ’’وَمَا ہٰذَا الَّذِي عَلَیْہِ‘‘؟ قَالَتْ: جَنَاحَانِ، قَالَ: ’’فَرَسٌ لَہُ جَنَاحَانِ‘‘؟ قَالَتْ: أَمَا سَمِعْتَ أَنَّ لِسُلَیْمَانَ خَیْلًا لَہَا أَجْنِحَۃٌ؟ قَالَتْ: فَضَحِکَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی رَأَیْتُ نَوَاجِذَہُ.
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک یا خیبر سے لوٹ کر آئے ۔اُن کے گھر کے طاق میں پردہ پڑا تھا ۔ ہوا جو چلی تو اُس نے پردے کا ایک کونا اٹھادیا جس سے اُن کے کھیلنے کی گڑیاں سامنے دکھائی دینے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: عائشہ، یہ کیا ہیں؟ اُنھوں نے کہا: میری گڑیاں ہیں۔آپ نے دیکھا، اُن کے درمیان ایک گھوڑا تھا، جس کے کپڑے کے دو پر لگے ہوئے تھے۔آپ نے پوچھا: یہ میں اِن گڑیوں کے بیچ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ اُنھوں نے کہا: گھوڑا ہے۔ آپ نے پوچھا: یہ اِس کے اوپر کیا لگے ہیں؟ اُنھوں نے کہا: دو پر ہیں۔ آپ نے پوچھا: گھوڑا اور اُس کے دو پر؟ اُنھوں نے جواب دیا: آپ نے نہیں سنا، سلیمان علیہ السلام کے پاس پروں والے گھوڑے تھے؟ وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ہنس دیے، یہاں تک کہ میں نے آپ کی ڈاڑھیں کھلی ہوئی دیکھیں۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاً سنن ابی داود، رقم ۴۹۳۲ سے لیا گیا ہے۔اِس کی راوی تنہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے متابعات کے مراجع یہ ہیں: السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۸۹۰۱۔ النفقۃ علی العیال، ابن ابی الدنیا، رقم ۵۵۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۵۸۶۴۔ الآداب، بیہقی، رقم ۶۲۳۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۲۰۹۸۲۔

—۲۲—

عَنِ الرُّبَیِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ، قَالَتْ:۱ أَرْسَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاۃَ عَاشُورَاءَ إِلٰی قُرَی الْأَنْصَارِ الَّتِي حَوْلَ الْمَدِینَۃِ: ’’مَنْ کَانَ أَصْبَحَ صَاءِمًا فَلْیُتِمَّ صَوْمَہُ، وَمَنْ کَانَ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْیَصُمْ بَقِیَّۃَ یَوْمِہِ ذٰلِکَ‘‘، قَالَتْ: فَکُنَّا [بَعْدَ ذٰلِکَ۲] نَصُومُہُ، وَنُصَوِّمُ صِبْیَانَنَا الصِّغَارَ، وَنَذْہَبُ بِہِمْ إِلَی الْمَسْجِدِ، وَنَجْعَلُ لَہُمُ اللُّعْبَۃَ مِنَ الْعِہْنِ، فَإِذَا بَکَی أَحَدُہُمْ عَلَی الطَّعَامِ أَعْطَیْنَاہَا إِیَّاہُ حَتّٰی یَکُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ. وَعَنْہَا فِي بَعْضِ الرِّوَایَاتِ، قَالَتْ: [فَإِذَا سَأَلُونَا الطَّعَامَ، أَعْطَیْنَاہُمُ اللُّعْبَۃَ تُلْہِیہِمْ حَتّٰی یُتِمُّوا صَوْمَہُمْ]۳.
ربیع بنت معوذرضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کی صبح مدینہ کے گرد انصار کی بستیوں میں پیغام بھیجا کہ جس کی صبح روزے کے ساتھ ہوئی ہے، وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جو روزے سے نہیں ہے، وہ باقی دن کا روزہ رکھ لے۔ ربیع کا بیان ہے کہ اِس کے بعد ہم خود بھی اِس دن کا روزہ رکھتے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے ۔ ہم اُن کو مسجد میں بھی ساتھ لے کرجاتے اور اُن کے لیے رنگی ہوئی اون کی گڑیاں بنالیتے تھے۔ پھر جب اُن میں سے کوئی کھانے کے لیے روتا تو اُن میں سے کوئی گڑیا اُسے دے دیتے،یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا تھا۔ بعض دوسری روایتوں میں ہے کہ ربیع نے بتایا: پھر جب وہ کھانا مانگتے تو ہم اُنھیں یہ گڑیاں دے دیتے کہ وہ اُن سے بہلے رہیں، یہاں تک کہ اپنا روزہ پورا کرلیں۔

متن کے حواشی

۱۔ اِس واقعے کا متن اصلاًصحیح ابن حبان، رقم ۳۶۲۰ سے لیا گیا ہے۔ اِس کی راوی تنہا ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا ہیں۔ اِس کے متابعات جن مراجع میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں، وہ یہ ہیں: صحیح بخاری، رقم ۱۹۶۰۔ صحیح مسلم، رقم ۱۱۳۶۔ النفقۃ علی العیال، ابن ابی الدنیا، رقم ۳۰۵۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۲۹۷۰۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۷۰۰۔ السنن الکبریٰ، بیہقی، رقم ۸۴۰۸۔ شعب الایمان، بیہقی، رقم ۳۴۹۹۔ معرفۃ السنن والآثار، بیہقی، رقم ۸۹۹۵۔

۲۔ صحیح مسلم، رقم ۱۱۳۶۔

۳۔ صحیح مسلم، رقم ۱۱۳۶۔

المصادر والمراجع

ابن أبي أسامۃ أبو محمد الحارث بن محمد بن داہر التمیمي البغدادي. (۱۴۱۳ھ/۱۹۹۲م). بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث. ط۱. تحقیق: د. حسین أحمد صالح الباکري. المدینۃ المنورۃ: مرکز خدمۃ السنۃ والسیرۃ النبویۃ.

ابن أبي الدنیا أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد البغدادي. (۱۴۱۰ھ/۱۹۹۰م). النفقۃ علی العیال. ط۱. تحقیق: د نجم عبد الرحمن خلف. الدمام: دار ابن القیم.

ابن أبي شیبۃ أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد العبسي. (۱۹۹۷م). المسند. ط۱. تحقیق: عادل بن یوسف العزازي وأحمد بن فرید المزیدي. الریاض: دار الوطن.

ابن أبي شیبۃ أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد العبسي. (۱۴۰۹ھ). المصنف في الأحادیث والآثار. ط۱. تحقیق: کمال یوسف الحوت. الریاض: مکتبۃ الرشد.

ابن أبي عاصم أبو بکر أحمد بن عمرو الشیباني. (۱۴۱۱ھ/۱۹۹۱م). الآحاد والمثاني. ط۱. تحقیق: د. باسم فیصل أحمد الجوابرۃ. الریاض: دار الرایۃ.

ابن أبي عاصم أبو بکر أحمد بن عمرو الشیباني. (۱۴۰۰ھ). السنۃ. ط۱. تحقیق: محمد ناصر الدین الألباني. بیروت: المکتب الإسلامي.

ابن الجعد علي بن الجعد بن عبید الجَوْہَري البغدادي. (۱۴۱۰ھ/۱۹۹۰م). المسند. ط۱. تحقیق: عامر أحمد حیدر. بیروت: مؤسسۃ نادر. ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (۱۴۱۴ھ/۱۹۹۳م). الصحیح. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ. ابن حبان أبو حاتم محمد بن حبان البُستي. (۱۳۹۶ھ). المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین. ط۱. تحقیق: محمود إبراہیم زاید. حلب: دار الوعي.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶م). تقریب التہذیب. ط۱. تحقیق: محمد عوامۃ. سوریا: دار الرشید.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴م). تہذیب التہذیب. ط۱. بیروت: دار الفکر.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۱۳۷۹ھ). فتح الباري شرح صحیح البخاري. د.ط. بیروت: دار المعرفۃ.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۲۰۰۲م). لسان المیزان. ط۱. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدۃ. د.م: دار البشائر الإسلامیۃ.

ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (۱۴۱۹ھ). المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ. ط۱. تحقیق: (۱۷) رسالۃ علمیۃ قدمت لجامعۃ الإمام محمد بن سعود. تنسیق: د. سعد بن ناصر بن عبد العزیز الشثري. السعودیۃ: دار العاصمۃ.

ابن خزیمۃ أبو بکر محمد بن إسحاق النیسابوري. (۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴م). کتاب التوحید وإثبات صفات الرب. ط۵. تحقیق: عبد العزیز بن إبراہیم الشہوان. الریاض: مکتبۃ الرشد.

ابن خزیمۃ أبو بکر محمد بن إسحاق النیسابوري. (د.ت). الصحیح. د.ط. تحقیق: د. محمد مصطفی الأعظمي. بیروت: المکتب الإسلامي.

ابن راہویہ إسحاق بن إبراہیم الحنظلي المروزي. (۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱م). المسند. ط۱. تحقیق: د. عبد الغفور بن عبد الحق البلوشي. المدینۃ المنورۃ: مکتبۃ الإیمان.

ابن ماجہ أبو عبد اللّٰہ محمد القزویني. (د.ت). السنن. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. د.م: دار إحیاء الکتب العربیۃ. ابن المَلَک محمد بن عز الدین الرومي الکرماني الحنفي. (۱۴۳۳ھ/۲۰۱۲م). شرح مصابیح السنۃ للإمام البغوي. ط۱. تحقیق ودراسۃ: لجنۃ مختصۃ من المحققین بإشراف نور الدین طالب. د.ن: إدارۃ الثقافۃ الإسلامیۃ.

ابن مندہ أبو عبد اللّٰہ محمد بن إسحاق العبدي. (۱۴۰۶ھ). الإیمان. ط۲. تحقیق: د. علي بن محمد بن ناصر الفقیہي. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.

أبو داود سلیمان بن الأشعث السِّجِسْتاني. (د.ت). السنن. د.ط. تحقیق: محمد محیي الدین عبد الحمید. بیروت: المکتبۃ العصریۃ.

أبو عوانۃ یعقوب بن إسحاق الإسفراییني النیسابوري. (۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸م). المستخرج. ط۱. تحقیق: أیمن بن عارف الدمشقي. بیروت: دار المعرفۃ.

أبو نعیم أحمد بن عبد اللّٰہ الأصبہاني. (۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸م). معرفۃ الصحابۃ. ط۱. تحقیق: عادل بن یوسف العزازي. الریاض: دار الوطن للنشر.

أبو یعلي أحمد بن علي التمیمي الموصلي. (۱۴۰۴ھ/۱۹۸۴م). المسند. ط۱. تحقیق: حسین سلیم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.

أحمد بن محمد بن حنبل أبو عبد اللّٰہ الشیباني. (۱۴۲۱ھ/۲۰۰۱م). المسند. ط۱. تحقیق: شعیب الأرنؤوط، وعادل مرشد، وآخرون. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ. البخاري محمد بن إسماعیل أبو عبد اللّٰہ الجعفي. (۱۴۲۲ھ). الجامع الصحیح. ط۱. تحقیق: محمد زہیر بن ناصر الناصر. بیروت: دار طوق النجاۃ. البزار أبو بکر أحمد بن عمرو العتکي. (۲۰۰۹م). المسند. ط۱. تحقیق: محفوظ الرحمن زین اللّٰہ، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق الشافعي. المدینۃ المنورۃ: مکتبۃ العلوم والحکم.

البیہقي أبو بکر أحمد بن الحسین الخراساني. (۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸م). الآداب. ط۱. تعلیق: أبو عبد اللّٰہ السعید المندوہ. بیروت: مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ.

البیہقي أبو بکر أحمد بن الحسین الخراساني. (۱۴۱۰ھ/۱۹۸۹م). السنن الصغری. ط۱. تحقیق: عبد المعطي أمین قلعجي. کراتشي: جامعۃ الدراسات الإسلامیۃ.

البیہقي أبو بکر أحمد بن الحسین الخراساني. (۱۴۲۴ھ/۲۰۰۳م). السنن الکبری. ط۳. تحقیق: محمد عبد القادر عطا. بیروت: دار الکتب العلمیۃ. البیہقي أبو بکر أحمد بن الحسین الخراساني. (۱۴۲۳ھ/۲۰۰۳م). شعب الإیمان. ط۱. تحقیق: الدکتور عبد العلي عبد الحمید حامد. الریاض: مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع.

البیہقي أبو بکر أحمد بن الحسین الخراساني. (۱۴۱۲ھ/۱۹۹۱م). معرفۃ السنن والآثار. ط۱. تحقیق: عبد المعطي أمین قلعجي. القاہرۃ: دار الوفاء .

الترمذي أبو عیسی محمد بن عیسی. (۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵م). السنن. ط۲. تحقیق وتعلیق: أحمد محمد شاکر، ومحمد فؤاد عبد الباقي، وإبراہیم عطوۃ عوض. مصر: شرکۃ مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابي الحلبي.

تمام بن محمد أبو القاسم الرازي البجلي. (۱۴۱۲ھ). الفوائد. ط۱. تحقیق: حمدي عبد المجید السلفي. الریاض: مکتبۃ الرشد.

الحاکم أبو عبد اللّٰہ محمد بن عبد اللّٰہ النیسابوري. (۱۴۱۱ھ/۱۹۹۰م). المستدرک علی الصحیحین. ط۱. تحقیق: مصطفی عبد القادر عطا. بیروت: دار الکتب العلمیۃ.

الحمیدي أبو بکر عبد اللّٰہ بن الزبیر القرشي الأسدي. (۱۹۹۶م). المسند. ط۱. تحقیق وتخریج: حسن سلیم أسد الداراني. دمشق: دار السقا.

الخطابي أبو سلیمان حمد بن محمد الخطاب البستي. (۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲م). معالم السنن. ط۱. حلب: المطبعۃ العلمیۃ.

الذہبي شمس الدین أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد. (۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵م). سیر أعلام النبلاء. ط۳. تحقیق: مجموعۃ من المحققین بإشراف الشیخ شعیب الأرنؤوط. د.م: مؤسسۃ الرسالۃ.

الذہبي شمس الدین أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد. (۱۴۱۳ھ/۱۹۹۲م). الکاشف في معرفۃ من لہ روایۃ في الکتب الستۃ. ط۱. تحقیق: محمد عوامۃ أحمد محمد نمر الخطیب. جدۃ: دار القبلۃ للثقافۃ الإسلامیۃ - مؤسسۃ علوم القرآن.

الرُّویاني أبو بکر محمد بن ہارون. (۱۴۱۶ھ). المسند. ط۱. تحقیق: أیمن علي أبو یماني. القاہرۃ: مؤسسۃ قرطبۃ.

السیوطي جلال الدین عبد الرحمن بن أبي بکر. (۱۴۱۶ھ/۱۹۹۶م). الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج. ط۱. تحقیق وتعلیق: أبو اسحق الحویني الأثري. الخبر: دار ابن عفان للنشر والتوزیع.

الطبراني أبو القاسم سلیمان بن أحمد الشامي. (د.ت). المعجم الأوسط. د.ط. تحقیق: طارق بن عوض اللّٰہ بن محمد، عبد المحسن بن إبراہیم الحسیني. القاہرۃ: دار الحرمین.

الطبراني أبو القاسم سلیمان بن أحمد الشامي. (۱۴۰۵ھ/۱۹۸۵م). المعجم الصغیر. ط۱. تحقیق: محمد شکور محمود الحاج أمریر. بیروت: المکتب الإسلامي.

الطبراني أبو القاسم سلیمان بن أحمد الشامي. (د.ت). المعجم الکبیر. ط۲. تحقیق: حمدي بن عبد المجید السلفي. القاہرۃ: مکتبۃ ابن تیمیۃ.

الطحاوي أبو جعفر أحمد بن محمد الأزدي المصري. (۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴م). شرح معاني الآثار. ط.۱. تحقیق: محمد زہري النجار ومحمد سید جاد الحق. د.م: عالم الکتب.

الطیالسي أبو داود سلیمان بن داود البصري. (۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹م). المسند. ط۱. تحقیق: الدکتور محمد بن عبد المحسن الترکي. مصر: دار ہجر.

الطیبي شرف الدین الحسین بن عبد اللّٰہ. (۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷م). الکاشف عن حقائق السنن المعروف ب شرح الطیبي علی مشکاۃ المصابیح. ط۱. تحقیق: د. عبد الحمید ہنداوي. مکۃ المکرمۃ: مکتبۃ نزار مصطفی الباز. عبد الحمید بن حمید بن نصر الکَسّي. (۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸م). المنتخب من مسند عبد بن حمید. ط۱. تحقیق: صبحي البدري السامراءي، محمود محمد خلیل الصعیدي. القاہرۃ: مکتبۃ السنۃ.

العیني بدر الدین أبو محمد محمود بن أحمد الغیتابي الحنفي. (۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹م). شرح سنن أبي داود. ط۱. تحقیق: أبو المنذر خالد بن إبراہیم المصري. الریاض: مکتبۃ الرشد.

العیني بدر الدین أبو محمد محمود بن أحمد الغیتابي الحنفي. د.ت. عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري. د.ط. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

القاضي عیاض بن موسی أبو الفضل الیحصبي. (۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸م). إکمال المعلم بفوائد مسلم. ط۱. تحقیق: الدکتور یحیی إسماعیل. مصر: دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع.

الکشمیري محمد أنور شاہ بن معظم شاہ الہندي ثم الدیوبندي. (۱۴۲۶ھ/۲۰۰۵م). فیض الباري علی صحیح البخاري. ط۱. تحقیق: محمد بدر عالم المیرتہي. بیروت: دار الکتب العلمیۃ.

مالک بن أنس بن مالک بن عامر الأصبحي المدني. (۱۴۲۵ھ/۲۰۰۴م). الموطا. ط۱. تحقیق: محمد مصطفی الأعظمي. أبو ظبي: مؤسسۃ زاید بن سلطان آل نہیان للأعمال الخیریۃ والإنسانیۃ.

مالک بن أنس بن مالک بن عامر الأصبحي المدني. (۱۴۱۲ھ). الموطا (روایۃ أبي مصعب الزہري). د.ط. تحقیق: بشار عواد معروف ومحمود خلیل. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ.

مسلم بن الحجاج النیسابوري. (د.ت). الجامع الصحیح. د.ط. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

المُظہري الحسین بن محمود مظہر الدین الکوفي الشیرازي الحنفي. (۱۴۳۳ھ/ ۲۰۱۲م). المفاتیح في شرح المصابیح. ط۱. تحقیق ودراسۃ: لجنۃ مختصۃ من المحققین بإشراف نور الدین طالب. وزارۃ الأوقاف الکویتیۃ: دار النوادر، وہو من إصدارات إدارۃ الثقافۃ الإسلامیۃ. معمر بن أبي عمرو راشد الأزدي البصري. (۱۴۰۳ھ). الجامع. ط۲. تحقیق: حبیب الرحمن الأعظمي. بیروت:توزیع المکتب الإسلامي.

الملا القاري علي بن سلطان محمد أبو الحسن الہروي. (۱۴۲۲ھ/۲۰۰۲م). مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح. ط۱. بیروت: دار الفکر.

المناوي زین الدین محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفین القاہري. (۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸م). التیسیر بشرح الجامع الصغیر. ط۳. الریاض: مکتبۃ الإمام الشافعي. المناوي زین الدین محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفین القاہري. (۱۳۵۶ھ). فیض القدیر شرح الجامع الصغیر. ط۱. مصر: المکتبۃ التجاریۃ الکبری. موسی شاہین لاشین. (۱۴۲۳ھ/۲۰۰۲م). فتح المنعم شرح صحیح مسلم. ط۱. د.م: دار الشروق.

النساءي أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب الخراساني. (۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶م). السنن الصغری. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدۃ. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ. النساءي أبو عبد الرحمن أحمد بن شعیب الخراساني. (۱۴۲۱ھ/۲۰۰۱م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق وتخریج: حسن عبد المنعم شلبي. بیروت: مؤسسۃ الرسالۃ. النووي یحیی بن شرف أبو زکریا. (۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷م). الإیجاز في شرح سنن أبي داود. ط۱. تقدیم وتعلیق وتخریج: أبو عبیدۃ مشہور بن حسن آل سلمان. عمان ۔ الأردن: الدار الأثریۃ.

النووي یحیی بن شرف أبو زکریا. (۱۳۹۲ھ). المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج. ط۲. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.

________

*تفصیل کے لیے دیکھیے: الدکتور موسی شاہین لاشین، فتح المنعم شرح صحیح مسلم، (د.م: دار الشروق، ط۱، ۱۴۲۳ھ/ ۲۰۰۲م)، ج۷، ص۲۵۹.

** الفوائد، تمام رازی، رقم ۱۱۷۶۔

____________

B