HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: طٰہٰ ۲۰: ۴۲- ۹۸ (۳)

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ) 


اِذْھَبْ اَنْتَ وَاَخُوْکَ بِاٰیٰتِیْ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ(۴۲) اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی(۴۳) فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ ےَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی(۴۴) 

قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ ےَّفْرُطَ عَلَےْنَآ اَوْ اَنْ ےَّطْغٰی(۴۵) قَالَ لَاتَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی(۴۶) فَاْتِےٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآءِ ےْلَ وَلَا تُعَذِّبْھُمْ قَدْ جِءْنٰکَ بِاٰےَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَالسَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی(۴۷) اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی(۴۸)  

قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا ےٰمُوْسٰی(۴۹) قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی(۵۰) قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی(۵۱) قَالَ عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَلَا یَنْسَی(۵۲) الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مَھْدًا وَّسَلَکَ لَکُمْ فِیْھَا سُبُلًا وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی(۵۳) کُلُوْا وَارْعَوْا اَنْعَامَکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّھٰی(۵۴) مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی(۵۵)  

وَلَقَدْ اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّھَا فَکَذَّبَ وَاَبٰی(۵۶) قَالَ اَجِءْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ یٰمُوْسٰی(۵۷) فَلَنَاْتِیَنَّکَ بِسِحْرٍ مِّثْلِہٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ مَوْعِدًا لَّانُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَلَآ اَنْتَ مَکَانًا سُوًی(۵۸)  

قَالَ مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیْنَۃِ وَاَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی(۵۹) فَتَولّٰی فِرْعَوْنُ فَجَمَعَ کَیْدَہٗ ثُمَّ اَتٰی(۶۰) قَالَ لَہُمْ مُّوْسٰی وَیْلَکُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍ وَقَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی(۶۱)  

فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ وَاَسَرُّوا النَّجْوٰی(۶۲) قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِھِمَا وَیَذْھَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی(۶۳) فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ثُمَّ اءْتُوْا صَفًّا وَقَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی(۶۴)  

قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَاِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی(۶۵) قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی(۶۶) فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی(۶۷) قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی(۶۸) وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا اِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍ وَلَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی(۶۹) فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی(۷۰) 

قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّلَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی(۷۱)  

قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآءَ نَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا(۷۲) اِنَّآ اٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَمَآ اَکْرَھْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ وَاللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی(۷۳)  

اِنَّہٗ مَنْ یَّاْتِ رَبَّہٗ مُجْرِمًا فَاِنَّ لَہٗ جَھَنَّمَ لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰی(۷۴) وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ فَاُولٰٓءِکَ لَہُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی(۷۵) جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی(۷۶)  

وَلَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّلَا تَخْشٰی(۷۷) فَاَتْبَعَہُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِہٖ فَغَشِیَھُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَھُمْ(۷۸) وَاَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہٗ وَمَا ھَدٰی(۷۹) 

یٰبَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰکُمْ مِّنْ عَدُوِّکُمْ وَوٰعَدْنٰکُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی(۸۰) کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِیْہِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبِیْ وَمَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْہِ غَضَبِیْ فَقَدْ ھَوٰی(۸۱) وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی(۸۲)  

وَمَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی(۸۳) قَالَ ھُمْ اُولَآءِ عَلٰٓی اَثَرِیْ وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی(۸۴) قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْ م بَعْدِکَ وَاَضَلَّھُمُ السَّامِرِیُّ(۸۵) فَرَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا اَفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَھْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ(۸۶)  

قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَلٰکِنَّا حُمِّلْنَآ اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰھَا فَکَذٰلِکَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ(۸۷)  

فَاَخْرَجَ لَہُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰھُکُمْ وَاِلٰہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ(۸۸) اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْھِمْ قَوْلًا وَّلَا یَمْلِکُ لَہُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا(۸۹)  

وَلَقَدْ قَالَ لَہُمْ ھٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ(۹۰) قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حَتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی(۹۱)  

قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا(۹۲) اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ(۹۳) قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَلَا بِرَاْسِیْ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ وَلَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ(۹۴)  

قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یٰسَامِرِیُّ(۹۵) قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُھَا وَکَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ(۹۶) قَالَ فَاذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَامِسَاسَ وَاِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ وَانْظُرْ اِلٰٓی اِلٰھِکَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا(۹۷) اِنَّمَآ اِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا(۹۸)

(اِس کے بعد موسیٰ مصر پہنچے تو ارشاد ہوا): تم اورتمھارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جاؤ اور دیکھو، میرے ذکر میں سستی نہ کرنا۵۶؎۔ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت سرکش ہو گیا ہے۔ سو اُس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا،۵۷؎ شاید وہ یاددہانی حاصل کرے یا میرے عتاب سے ڈرے۵۸؎۔۴۲-۴۴

اُنھوں نے عرض کیا کہ اے ہمارے پروردگار، ہمیں اندیشہ ہے کہ اِس کو سنتے ہی وہ ہم پر زیادتی کرے یا اُس کی سرکشی کچھ اور بڑھ جائے۵۹؎۔ فرمایا: اندیشہ نہ کرو، میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، (سب کچھ) سنتا اور دیکھتا ہوں ۶۰؎۔ سو اُس کے پاس جاؤ اور اُس سے کہو کہ ہم تیرے رب کے فرستادے ہیں ۶۱؎، اِس لیے بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دو۶۲؎ اور اُن کو ستاؤ نہیں۔ ہم تیرے پروردگار کی طرف سے ایک بڑی نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور (یہ پیغام بھی کہ) سلامتی اُنھی پر ہے جو ہدایت کی پیروی کریں ۶۳؎۔ ہم کو وحی کی گئی ہے کہ اُن پر، البتہ عذاب ہے جو جھٹلائیں اور منہ موڑیں ۶۴؎۔۴۵-۴۸

(اُنھوں نے یہی بات آ کر کہہ دی تو)فرعون نے پوچھا: اچھا تو پھر تم دونوں کا رب کون ہے، اے موسیٰ؟۶۵؎ اُس نے جواب دیا: ہمارا رب وہی ہے، جس نے ہر چیز کو اُس کی خِلقت عطا کی، پھر رہنمائی فرمائی ہے۶۶؎۔فرعون نے کہا: پھر اگلی قوموں کا کیا حال ہے۶۷؎؟ موسیٰ نے جواب دیا: اُن کا علم میرے پروردگار کے پاس ایک نوشتے میں محفوظ ہے۔ میرا رب نہ بھٹکتا ہے، نہ بھولتا ہے۶۸؎   وہی۶۹؎ جس نے زمین کو تمھارے لیے گہوارہ بنایا اور اُس میں تمھارے لیے راہیں نکال دیں اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اُس سے ہم نے مختلف نباتات کی گوناگوں قسمیں پیدا کر دیں۔ کھاؤ اور اپنے مویشیوں کو چراؤ۔ اِس کے اندر عقل والوں کے لیے، یقینا بڑی نشانیاں ہیں ۷۰؎۔ (تم اگر سمجھو تو حقیقت یہ ہے کہ) ہم نے اِسی زمین سے تم کو پیدا کیا ہے، ہم اِسی میں تم کو لوٹائیں گے اور اِسی سے تم کو دوبارہ نکال کھڑا کریں گے۔۴۹-۵۵

ہم نے فرعون کو اپنی سب نشانیاں دکھا دیں ۷۱؎۔ اِس پر بھی وہ جھٹلائے چلا گیا اور نہیں مانا۔ اُس نے کہا: موسیٰ، کیا تم اِس لیے ہمارے پاس آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہم کو ہمارے ملک سے نکال باہر کرو۷۲؎؟ یہی بات ہے تو ہم بھی تمھارے مقابل میں ایسا ہی جادو لے کر آجائیں گے۔ سو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وعدہ ٹھیرا لو، کوئی بیچ کی جگہ،۷۳؎ نہ ہم اُس کی خلاف ورزی کریں نہ تم کرو گے۔۵۶-۵۸

موسیٰ نے کہا: تمھارے ساتھ جشن کے دن کا وعدہ ہے۷۴؎ اور یہ کہ (اِس کے لیے) لوگ دن چڑھے جمع کیے جائیں گے۔ ۷۵؎(یہ بات طے ہو گئی)تو فرعون وہاں سے ہٹا اور اپنے سارے داؤ اکٹھے کیے،۷۶؎ پھر مقابلے پر آگیا۔ (اُس دن، جب لوگ جمع ہوئے تو) موسیٰ نے (مقابلے سے پہلے اُنھیں تنبیہ کی)، فرمایا: شامت کے مارو، (اللہ کے شریک ٹھیرا کر) تم اللہ پر جھوٹ نہ باندھو کہ کسی عذاب سے وہ تمھاری جڑ اکھاڑ دے۷۷؎۔ (یاد رکھو)، خدا پرجس نے بھی جھوٹ باندھا، وہ نا مراد ہوا ہے۷۸؎۔۵۹-۶۱

اِس پر وہ۷۹؎ اپنے اُس معاملے میں باہم بحثا بحثی اور چپکے چپکے مشورے کرنے لگے۔ (بالآخر) اُنھوں نے کہا: یہ دونوں یقینا بڑے ماہر جادوگر ہیں ۸۰؎۔ یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمھارے ملک سے نکال دیں اور تمھارے اِس مثالی طریق زندگی کا خاتمہ کر دیں ۸۱؎۔ سو اپنی سب تدبیریں اکٹھی کر لو، پھر متحد ہو کر (اِن کے مقابلے میں) آؤ اور (اچھی طرح سمجھ لو کہ) آج وہی کامیاب رہے گا جو غلبہ پا لے گا۔ ۶۲-۶۴

جادوگر بولے: موسیٰ، یا تم پھینکو یا پھر یہ ہو کہ پہلے ہم ہی پھینکتے ہیں ۸۲؎؟ موسیٰ نے کہا: نہیں، بلکہ تم ہی پھینکو۔۸۳؎(اُنھوں نے پھینکا) تو یکایک اُن کی رسیاں اور لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے اُس کو اِس طرح دکھائی دینے لگیں کہ گویا دوڑ رہی ہیں ۸۴؎۔اِس پر موسیٰ اپنے دل ہی دل میں کچھ ڈرا۸۵؎۔ ہم نے کہا: ڈرو نہیں، یقینا تم ہی غالب رہو گے اور اُس کو جو تمھارے ہاتھ میں ہے، (زمین پر) ڈال دو۔ اُنھوں نے جو کچھ بنایا ہے، یہ ابھی اُس کو نگل جائے گا۔ (اِس لیے کہ) جو کچھ اُنھوں نے بنایا ہے، یہ محض جادوگر کافریب ہے اور جادوگر جہاں سے بھی آئے، (حق کے مقابل میں) وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۸۶؎۔ آخر کو یہی ہوا کہ جادوگر سجدے میں گر پڑے۸۷؎۔ اُنھوں نے بے اختیار کہا: ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ہیں ۸۸؎۔۶۵-۷۰

(اِس پر) فرعون نے کہا: تم نے میری اجازت کے بغیر ہی اُس کی تصدیق کر دی ہے؟ یقینا وہی تمھارا گرو ہے، جس نے تمھیں جادو سکھایا ہے۔ اچھاتو اب میں تمھارے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کٹواؤں گا اور تمھیں (سب کے سامنے) ضرور کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا۔ تمھیں خوب پتا چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کی سزا زیادہ سخت اور زیادہ دیرتک رہنے والی ہے۸۹؎۔۷۱

جادوگروں نے جواب دیا: ہم اُن روشن نشانیوں پر ہرگز تم کو ترجیح نہ دیں گے جو ہمارے سامنے آچکی ہیں اور نہ اُس ذات پر جس نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ اِس لیے تمھیں جو کرنا ہے، کر گزرو۹۰؎۔ تم جو کچھ کر سکتے ہو، اِسی دنیا کی زندگی کا کر سکتے ہو۔ ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں، اِس لیے کہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور اُس جادو کو بھی معاف فرمائے جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا ہے۹۱؎۔ اللہ ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے۹۲؎۔۷۲-۷۳

حقیقت ۹۳؎یہ ہے کہ جو شخص بھی مجرم بن کر اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہو گا، اُس کے لیے جہنم ہے، وہ اُس میں نہ مرے گا، نہ جیے گا۹۴؎۔ اِس کے برخلاف جو مومن ہو کر اُس کے حضور آئیں گے، جنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے ۹۵؎تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے اونچے درجے ہیں۔ ہمیشہ رہنے والے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اُن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔اور یہ صلہ ہے اُن کا جو پاکیزگی اختیار کریں ۹۶؎۔۷۴-۷۶

(اِس کے بعد کچھ عرصہ گزرا، یہاں تک کہ حجت پوری ہو گئی، تب) ہم نے موسیٰ کو وحی بھیج دی کہ میرے بندوں کو رات میں لے کر نکل جاؤ۹۷؎۔ پھر دریا (سامنے آئے تو اپنے عصا سے اُس) میں اُن کے لیے ایک سوکھا راستہ بنا لو،۹۸؎ (تم اطمینان سے پار ہو جاؤ گے)۔ تمھیں نہ کسی کے آ پکڑنے کا خطرہ ہو گا، نہ ڈوبنے کا اندیشہ۹۹؎۔ پھر جب وہ نکلے تو فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ اُن کا پیچھا کیا۔ پھر اُس کو اور اُس کی فوجوں کو دریا سے ڈھانپ لیا، جس چیز نے ڈھانپ لیا۱۰۰؎۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ ہی کیا تھا، (اُس کو) صحیح راہ نہیں دکھائی تھی۔۷۷-۷۹

 اے بنی اسرائیل، ہم نے اِس طرح تمھارے اِس دشمن سے تم کو نجات دی تھی اور تم سے طور کے مقدس کنارے کا وعدہ ٹھیرایا ۱۰۱؎اور تم پر من و سلویٰ اتارا تھا۱۰۲ ؎، (اِس ہدایت کے ساتھ کہ)ہماری دی ہوئی پاکیزہ چیزیں کھاؤ اوراُن کے معاملے میں سرکشی نہ کر۱۰۳؎و کہ تم پر میرا غضب نازل ہو جائے اور (یاد رکھو کہ) جس پر میرا غضب نازل ہوا، وہ پھر گر کے رہا۔۱۰۴؎البتہ، جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور اچھے عمل کریں، پھر ہدایت پر رہیں تو اُن کے لیے میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں۔ ۸۰-۸۲

(پھر ہوا یہ کہ موسیٰ اُس وعدے کے لیے وقت سے پہلے ہی پہنچ گیا، فرمایا): یہ اپنی قوم کو چھوڑ کر تم جلدی کیوں چلے آئے ہو، موسیٰ؟۱۰۵؎اُس نے عرض کیا: وہ لوگ بھی یہ میرے پیچھے ہی ہیں ۱۰۶؎ اور پروردگار، میں تیری خوشنودی کے لیے تیرے حضور جلدی چلا آیا ہوں ۱۰۷؎۔ فرمایا: اچھا یہ بات ہے تو سن لو کہ ہم نے تمھاری قوم کو تمھارے پیچھے فتنے میں ڈال دیا ۱۰۸؎اور سامری ۱۰۹؎نے اُن کو گمراہ کرڈالا ہے۔ اِس پر موسیٰ سخت غصے اور افسوس کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹا۔ اُس نے (جا کر) اُن سے کہا: میری قوم کے لوگو، کیا تمھارے پروردگار نے تم سے نہایت اچھا وعدہ۱۱۰؎ نہیں کیا تھا؟پھر کیا تم پر زیادہ وقت گزر گیا یاتم نے یہ چاہا کہ تم پر تمھارے پروردگار کا غضب نازل ہو، اِس لیے تم نے میرے عہد۱۱۱؎ کی خلاف ورزی کر ڈالی ہے؟ ۸۳-۸۶

اُنھوں نے جواب دیا: ہم نے آپ کے ساتھ وعدے کی خلاف ورزی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی ہے، بلکہ ہوا یہ کہ ہم سے لوگوں کے زیورات کا بوجھ اٹھوایا گیا تھا۔ پھر (اُن کے مطالبے پر) وہ ہم نے اتار پھینکا اور اِس طرح سامری نے یہ ہنر دکھایا ہے۱۱۲؎۔ ۸۷

سو۱۱۳؎(اُنھی کے زیورات سے)سامری نے اُن کے لیے ایک بچھڑا (بنا کر) نکال کھڑا کیا، ایک دھڑ جس سے بیل کی سی آواز نکلتی تھی۔ ۱۱۴؎ اِس پر وہ کہنے لگے کہ یہی تمھارا معبود ہے اور یہی موسیٰ کا معبود ہے، مگر وہ اُسے بھول گیا ہے۱۱۵؎۔ (اُن پر افسوس)، پھر کیا وہ دیکھتے نہیں تھے کہ وہ نہ اُن کی کسی بات کا جواب دے سکتا ہے اور نہ اُن کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے؟ ۸۸-۸۹

ہارون اِس سے پہلے ہی اُن سے کہہ چکا تھا کہ میری قوم کے لوگو، تم اِس بچھڑے کے ذریعے سے فتنے میں ڈال دیے گئے ہو۔ تمھارا پروردگار تو حقیقت میں خداے رحمن ہے۔ سو تم میری پیروی کرو اور میری بات مانو۔۱۱۶؎ مگر اُنھوں نے کہہ دیا کہ ہم تو اِسی بچھڑے کی پرستش میں لگے رہیں گے، جب تک موسیٰ لوٹ کر ہمارے پاس نہ آجائے۱۱۷؎۔ ۹۰-۹۱

(سو قوم کے سرداروں سے پوچھنے کے بعد) موسیٰ (ہارون کی طرف پلٹا اور) بولا: ہارون، جب تم نے دیکھا کہ یہ گمراہ ہوئے جا رہے ہیں تو تمھارا ہاتھ کس چیز نے پکڑ لیا تھا کہ تم میری پیروی نہ کرو۱۱۸؎؟ پھر کیا تم نے میرے حکم کی نافرمانی کر ڈالی۱۱۹؎؟ ہارون نے جواب دیا: اے میری ماں کے جنے، نہ میری ڈاڑھی پکڑو، نہ میرا سر۱۲۰؎۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ تم (آکر) کہو گے کہ تم نے بنی اسرائیل کے درمیان پھوٹ ڈال دی اور میری بات کا لحاظ نہیں کیا ہے۱۲۱؎۔۹۲-۹۴

موسیٰ نے کہا: اور سامری، تیرا کیا معاملہ ہے؟ اُس نے جواب دیا: میں نے وہ چیز دیکھی جو دوسروں نے نہیں دیکھی تو (اُسی کے مطابق) میں نے فرستادۂ الٰہی کے نقش قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھا لی، پھر اُس کو بچھڑے میں ڈال دیا۔۱۲۲؎ میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا تھا۔۱۲۳؎ موسیٰ نے کہا:یہ بات ہے تو دور ہو، اب زندگی بھر تجھے یہی کہنا ہے کہ مجھے کوئی چھوئے نہیں ۱۲۴؎ اور (مرنے کے بعد) تیرے لیے وعدے کا ایک وقت اور بھی ہے جو تجھ سے کسی طرح ٹلے گا نہیں۔ اور اپنے اُس معبود کو دیکھ جس پر تو لگا بیٹھا تھا۔ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم ابھی اُس کو جلا دیں گے، پھر دریا میں بکھیر کر بہا دیں گے۔ (لوگو)، تمھارا معبود توصرف اللہ ہے، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اُس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے۱۲۵؎۔۹۵-۹۸

۵۶؎ موسیٰ علیہ السلام کی تسکین و تسلی کے بعد یہ اب اُسی حکم کا اعادہ ہے جو طورسینا کے دامن میں دیا گیا تھا۔ چنانچہ فرمایا کہ دونوں جاؤ اور فرعون کو انذار کرو اور اِس انذار و دعوت کے دوران میں کوئی غفلت نہیں ہونی چاہیے، نہ مجھے یاد کرنے میں اور نہ دوسروں کو میری یاددہانی کرانے میں۔

۵۷؎ انبیا علیہم السلام اپنی دعوت ہمیشہ اِسی اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔ یہ اُسی کی تاکید ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... اِس ہدایت کی ضرورت صرف اِس پہلو سے نہیں تھی کہ اب حضرت موسیٰ فرعون کے سامنے ایک بے بس اسرائیلی کی حیثیت سے نہیں، بلکہ خدا کے ایک سفیر کی حیثیت سے جا رہے تھے اور ہاتھ میں عصاے موسوی بھی تھا، بلکہ لینت اور نرمی دعوت حق کی فطرت ہے۔ حضرات انبیاکی بعثت تعلیم و اصلاح کے لیے ہوئی، اِس وجہ سے اُن کی دعوت اور اُن کے انذار میں ایک معلم کی شفقت اور ایک غم گسار کی دل سوزی ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔ کسی نبی کے متعلق یہ بات علم میں نہیں آئی کہ اُس نے ہیکڑی جتائی اور دھونس جمائی ہو۔ سخت سے سخت حالات میں بھی اُن کا طرز خطاب اور انداز جواب نہایت ہی نرم، موثر اور ہم دردانہ رہا ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۵۳)  

۵۸؎ یعنی غفلت سے بیدار ہو یا اگر یہ نہیں تو میرے عتاب کے خوف ہی سے متوجہ ہو کر سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہو جائے۔

۵۹؎ یعنی کچھ سننے اور سمجھنے سے پہلے ہی ہم پر ہاتھ ڈال دے یا ہماری بات سنتے ہی برہم ہو کر بنی اسرائیل پر اور زیادہ ظلم و ستم کرنے لگے۔ آیت میں ’یَفْرُطَ‘ کے بعد ’عَلٰی‘ ہے،جس سے کسی کے خلاف عاجلانہ اقدام کے معنی پیدا ہو گئے ہیں۔یہی معاملہ ’اَنْ یَّطْغٰی‘کا ہے۔ اوپر’اِنَّہٗ طَغٰی‘ کے بعد اب وہ بھی محض طغیان کے معنی میں نہیں رہا۔ ہم نے ترجمہ اِنھی سب چیزوں کے لحاظ سے کیا ہے۔

۶۰؎ اِس اجمال میں جو تفصیل مضمر ہے اور ’سنتا اور دیکھتا ہوں‘ کے الفاظ جس سطوت و جلالت اور تحفظ و ضمانت کو ظاہر کر رہے ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ وہ محتاج بیان نہیں ہے۔

۶۱؎ اصل میں ’رَسُوْل‘ کا لفظ ہے۔ یہ نبوت سے آگے ایک خاص منصب کے حاملین کے لیے بھی آتا ہے اور خدا کے فرستادوں کے لیے ایک عام لفظ کے طور پر بھی۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ یہ اِسی دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

۶۲؎ بنی اسرائیل کو ساتھ لے جانے کا یہ مطالبہ، معاذ اللہ کسی قوم پرست لیڈر کی طرف سے اپنی قوم کو غلامی سے چھڑانے کا مطالبہ نہیں تھا، بلکہ خدا کی اُس اسکیم کو بروے کار لانے کے لیے کیا گیا تھا،جس کے تحت سیدنا ابراہیم کی ذریت کو عالمی سطح پر ابلاغ دعوت اور اتمام حجت کے لیے منتخب کیا گیا۔ اِس اسکیم کے مطابق یہ ضروری تھا کہ اُنھیں ایک خاص علاقے میں آباد کرکے وہاں دعوت حق کا مرکز قائم کیا جائے۔ بائیبل کی کتاب خروج کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے یہ پوری اسکیم فرعون اور اُس کے درباریوں کے سامنے واضح نہیں فرمائی، بلکہ صرف اتنا کہا کہ وہ قربانی کی عبادت کے لیے تین دن کی راہ بیابان میں جاناچاہتے ہیں، اِس لیے کہ جس چیز کی قربانی کرنا پیش نظر ہے، اُس کی قربانی اگر مصر میں کی گئی تو وہاں کے لوگ اُنھیں سنگ سار کر دیں گے۔

۶۳؎ یہ دعوت کا بڑا ہی موثر اسلوب ہے،جس میں تنبیہ اور خیرخواہی، دونوں کی آمیزش محسوس کی جا سکتی ہے۔

۶۴؎ اِس آیت میں لطافت بیان کے جو پہلو ملحوظ ہیں، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُن کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”ایک تو یہ کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے عام لیڈروں کی طرح فرعون پر اپنی طرف سے عذاب کی کوئی دھونس جمانے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اُس کو صرف اللہ تعالیٰ کی اُس وحی کی خبر دی جواُن پر آئی تھی کہ تکذیب اور اعراض کرنے والوں پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ طریقہ اُنھوں نے اِسی لیے اختیار فرمایا کہ اپنی طرف سے فرعون کے لیے کوئی وجہ اشتعال نہ پیدا ہونے دیں۔
دوسری یہ کہ اُنھوں نے فرعون کو مخاطب کر کے یوں نہیں فرمایا کہ اگر تو جھٹلائے گا اور اعراض کرے گا تو تجھ پر عذاب الٰہی آ دھمکے گا، بلکہ بصیغہئ عام یوں فرمایا کہ جو ایسا کرے گا، اُس کا انجام یہ ہو گا تاکہ فرعون کے کانوں میں بات پڑ بھی جائے اور اُس کی انانیت کو ٹھیس بھی نہ لگے۔
تیسری یہ کہ ’کَذَّبَ‘ کے مفعول اور ’تَوَلّٰی‘ کے متعلق، دونوں کو یہاں حذف کر دیا۔ یوں نہیں فرمایا کہ جو ہماری رسالت کی تکذیب اور ہماری لائی ہوئی ہدایت سے اعراض کرے گا، اُس پر عذاب آئے گا۔ اِس لیے کہ یہ بات ازخود واضح تھی اور اِس کے اظہار سے بھی بہرحال فرعون کے پندار کو چوٹ لگتی۔“(تدبرقرآن۵/ ۵۵)

۶۵؎ یہ سوال طنزو تحقیر کے لیے ہے اور جس ذہنی پس منظر کے ساتھ کیا گیا ہے، وہ قرآن نے دوسرے مقامات میں تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ پورا مصر تو سورج دیوتا کے مظہر کی حیثیت سے مجھے اپنا پروردگار مانتا ہے، پھر یہ تم دونوں کس پروردگار کے رسول بن کر آگئے ہو؟ اِس سے پہلے تو میں نے کسی ایسے پروردگار کا ذکر تم لوگوں سے نہیں سنا جو میری بادشاہی میں مداخلت کرے اور مجھ سے کہے کہ میں بنی اسرائیل کو تمھارے ساتھ جانے دوں۔ زمین و آسمان کا کوئی خالق ہے تو ہوا کرے، اِس سرزمین کے لوگوں کا رب اور معبود تو میں ہی ہوں۔

۶۶؎ یہ جواب نہایت مختصر ہے، مگر اپنے اندر حقائق و معارف کی ایک دنیا لیے ہوئے ہے۔ اِس سے موسیٰ علیہ السلام نے نہایت بلیغ اسلوب میں یہ حقیقت فرعون پر واضح کر دی ہے کہ رب ہونے کا حق دار فی الواقع کون ہو سکتا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ ہر شے اپنے مقصد وجود کے اعتبار سے ایک خاص قالب و ہیئت رکھتی ہے اور پھر اِس مقصد وجود کی تحصیل و تکمیل کے لیے اپنے اندر ایک جبلی رہنمائی بھی رکھتی ہے۔ شہد کی مکھی کو جس مقصد کے لیے خالق نے پیدا کیا ہے، اُس کی تکمیل کے لیے اُس کے ننھے سے وجود کے اندر اُس نے وہ تمام قوتیں اور صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں جو اُس کے لیے ضروری ہیں اور پھر اُس کی جبلت کو یہ الہام بھی فرمادیا کہ وہ کس طرح اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرے اور اپنے لیے شہد کا ذخیرہ فراہم کرے۔ یہی حال اِس کائنات کی ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیز کا ہے۔ ایک چیونٹی، ایک بھنگا، ایک مکڑی، ایک بکری، ایک شیر، سب کو قدرت کی طرف سے ایک خاص نوع کی خلقت اور اُس کی ضرورت کے اعتبار سے ایک جبلی ہدایت عطا ہوئی ہے۔ سب کو خدا نے الہام فرمایا ہے کہ کس طرح اور کس نوع کی اپنے لیے غذا حاصل کریں، کس طرح توالد و تناسل کا سلسلہ قائم کریں، کس طرح اپنی اور اپنی نسل کی حفاظت کریں، کس چیز سے بچیں، اور کس چیز کو اختیار کریں اور پھر کس طرح اِس کائنات کی مجموعی خدمت میں اپنا فریضہ ادا کریں۔
بلبل کی نغمہ سنجی، طوطی کی شکرفشانی اور کوئل کی کوک کس کا الہام ہے؟ ظاہر ہے کہ اُن کے خالق ہی کا! تو وہی خالق اُن کا اور سب کا رب بھی ہے۔
 صرف جان دار چیزوں ہی تک قدرت کا یہ فیض محدود نہیں ہے، بلکہ چمن کے بیل بوٹے جو ثمرباری اور گل ریزی کرتے ہیں؛ سوسن، بنفشہ، گلاب اور سرو و صنوبر جو چمن آرائی کرتے ہیں؛ سیب، انار اور انگور جو دعوت شوق دیتے ہیں، آخر یہ کس کی بخشی ہوئی خلقت اور یہ کس کی عطا کردہ جبلت ہے؟ آخر کون ہے جو اِن میں سے کسی ایک چیز کے بھی خلق کا دعویٰ کر سکے یایہ کہہ سکے کہ یہ اُس کا کرشمہ ہے کہ اُس نے سیب کے اندر سیب کی خاصیت ودیعت کی اور کیکر کے اندر کیکر کی؟ چمن کے ہر پودے، میدان کی ہر گھاس اور جنگل کی ہر جھاڑی میں یہ الگ الگ مزاج، الگ الگ رنگ و بو اور الگ الگ فوائد و نقصانات کون ودیعت کرتا ہے؟ جو کرتا ہے، وہی رب ہے، نہ کہ ہر خرنا مشخص جو سر پر تاج اوڑھ لے اور خدائی کا دعوے دار بن بیٹھے، وہ رب بن جائے۔
زمین ہی نہیں، ایک نظر آسمان پر بھی ڈالیے۔ یہ سورج، یہ چاند، یہ کہکشاں، یہ قوس قزح، یہ آسمان، یہ ابر، یہ ہوا، آخر کس نے اِن کو پیدا کیا اور کون ہے، جس نے اِن کے فرائض اِن کو الہام کیے؟ جس نے اِن کو پیدا کیا اور اِن کو اِن کے فرائض الہام کیے، وہی رب ہے۔ سورج کا اوتار بن کر تخت پر براجمان ہوجانا تو بہت آسان ہے، لیکن کون ہے جو ایک منٹ کے لیے سورج کو اُس کے وقت سے پہلے نمودار کر سکے یا افق سے اُس کو غائب کر سکے؟
اِس کائنات میں اشرف المخلوقات کی حیثیت انسان کو حاصل ہے۔ اُس کو قدرت نے بہترین خلقت بھی عطا فرمائی ہے اور نہایت اعلیٰ صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے، لیکن نہ کسی کو اپنی خلقت کے معاملے میں کوئی دخل ہے، نہ اپنی صلاحیتوں کی تخلیق ہی میں کسی کا کوئی حصہ ہے۔ یہ خدا ہی ہے، جس نے ہمیں ہاتھ، پاؤں، ناک، کان اور آنکھ کی قوتیں دیں اور اُسی نے ہمیں جبلت و فطرت اور عقل و ادراک و شعور کی نعمتیں بخشیں۔ یہ اِنھی چیزوں کا فیض ہے کہ آج خشکی و تری، دریا اور پہاڑ سب ہمارے لیے یکساں ہیں۔ ہم سمندروں کا سینہ چیرتے اور فضاؤں میں اڑتے ہیں۔ ہماری رسائی زمین کے بعید ترین گوشوں اور کونوں ہی تک نہیں، بلکہ چاند اور مریخ تک ہے۔ بجلی اور ایٹم، سب پر ہمارا تصرف ہے۔ یہ سب کچھ ہے، لیکن ایک لمحے کے لیے بھی یہ مغالطہ نہ ہو کہ یہ آپ کی اپنی پیدا کردہ صلاحیتوں کا کرشمہ ہے! جو اِس مغالطے میں ہے، وہ احمق ہے! یہ سب خدا کی بخشی ہوئی عقل کا کرشمہ ہے، جس کی بدولت انسان قدرت کے کچھ نوامیس دریافت کر کے چاند اور مریخ پر تاخت کرتا پھر رہا ہے۔ اگر یہ خدا کی بخشی ہوئی عقل کی رہنمائی سے اُس کے کچھ قوانین دریافت کر لے اور اُن سے فائدہ اٹھانے کی قابلیت پیدا کر لے تو اِس پر اتنا مغرور نہ ہو جائے کہ خدا کی خدائی ہی کو چیلنج کر دے۔“ (تدبرقرآن۵/ ۵۶)

۶۷؎ یعنی اُن کا انجام کیا ہوا؟ وہ بھی تو ہمارے اِسی دین کے ماننے والے تھے۔ یہ، ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی تذکیر پر سنجیدہ طریقے سے غور کرنے کے بجاے بات کا رخ پھیرنے اور اپنے گردوپیش کے لوگوں کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کے لیے فرعون کی شرارت تھی۔ اِس سے مقصود یہ تھا کہ اُس کے اہل دربار جب اپنے بزرگوں پر موسیٰ علیہ السلام کی تنقید سنیں گے تو یقینا بھڑک اُٹھیں گے اور اِس کے نتیجے میں اُس کا بھرم قائم رہ جائے گا۔ وہ اِس بات کی طرف توجہ نہیں کریں گے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اُسے لاجواب کر دیا ہے۔

۶۸؎ مطلب یہ ہے کہ خاطر جمع رکھو، اُنھوں نے جو کچھ مانا اور جو کچھ کیا ہے، وہ سب میرے رب کے ریکارڈ میں محفوظ ہے اور یہ خیال نہ کرو کہ اُس میں سے کوئی چیز رہ گئی ہو گی یا صحیح طریقے سے ثبت نہیں ہوئی ہو گی یا میرا رب اُس کو بھول گیا ہو گا۔ وقت آنے پر وہ اُن کی ہر چیز سامنے لے آئے گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہ آخری بات الفاظ میں بیان نہیں کی، لیکن اندازکلام اِس کو صاف ظاہر کر رہا ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ اِس لیے کہ بعض مواقع میں کنایہ جتنا موثر ہوتا ہے، صراحت اتنی موثر نہیں ہوتی۔

۶۹؎ یہاں سے آگے کی آیتیں موسیٰ علیہ السلام کے کلام کا حصہ نہیں ہیں، بلکہ تضمین کے طور پر براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اِن میں سورہ کے مخاطبین، یعنی قریش مکہ کو خطاب کرکے اُنھی حقائق کی تفصیل کر دی ہے جن کی طرف موسیٰ علیہ السلام نے اوپر بالاجمال اشارہ کیا ہے۔ قرآن میں اِس کی مثالیں کئی جگہ موجود ہیں۔

۷۰؎ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ جس کی قدرت و حکمت کے یہ کرشمے ہر طرف دیکھ رہے ہو، وہی تمھارا رب ہے اور وہی اِس کا سزاوار ہے کہ اُس کو رب مانا جائے۔ پھر یہی نہیں، اُس کا یہ اہتمام ربوبیت اِس بات کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایک ایسا دن لائے، جس میں اُس کے کامل عدل کا ظہور ہو اور یہ اُس کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ چنانچہ یہی نتیجہ ہے جسے اگلی آیت میں بیان کر دیا ہے کہ جس مٹی سے پیدا کیے گئے ہو، اُسی میں دفن ہو گے اور اُسی سے ایک دن نکال کھڑے کیے جاؤ گے۔

۷۱؎ یہ اُن نشانیوں کی طرف اشارہ ہے جن کا ذکر سورۂ اعراف (۷) میں ہوا ہے۔ ہم نے آیت ۳۳ کے تحت وہاں اِن نشانیوں کی تفصیل کر دی ہے۔

۷۲؎ یعنی لوگوں کو متاثر کرکے اپنے پیچھے لگا لو اور وہ ہمارے خلاف بغاوت کرکے ہم کو ہمارے ملک سے نکال دیں۔ فرعون نے یہ بات اِس لیے کہی کہ ایک تو اِس سے موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اثر مٹانے کی کوشش کی جائے، دوسرے اُنھیں ایک سیاسی خطرہ قرار دے کر اپنے اعیان و اکابر اور اپنی قوم کے لوگوں کو ایسا مشتعل کر دیا جائے کہ وہ اُن کی دعوت کی طرف متوجہ ہی نہ ہو سکیں۔

۷۳؎ یعنی جہاں ہمارے اور تمھارے آدمی آسانی کے ساتھ جمع ہو سکیں۔

۷۴؎ یہ غالباً کسی میلے یا فرعون کی سال گرہ کا دن تھا،جس کی تاریخ اُس وقت سامنے تھی۔ اِسے ’یَوْمُ الزِّیْنَۃِ‘اِس لیے کہا ہے کہ لوگ اِس طرح کے موقعوں پر اپنے آپ کو بھی آراستہ کرتے اور شہروں کو بھی سجاتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے یہی دن نامزد کر دیا کہ جب لوگ تمام ملک سے کھچ کر وہاں پہنچے ہوئے ہوں گے تو سب کے سامنے اور دن کی پوری روشنی میں وہیں فرعونی تہذیب کا سارا طلسم باطل کر دیا جائے۔

۷۵؎ یعنی چاشت کے وقت۔ اِس طرح کے موقعوں پر لوگوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو جمع کرنا پیش نظر ہو تو یہی وقت موزوں ہوتا ہے۔

۷۶؎ قرآن کے دوسرے مقامات میں وضاحت ہے کہ فرعون نے اپنے اعیان و اکابر سے مشورہ کیا اور بالآخر یہ طے پایا کہ اِس معاملے کو معمولی نہ سمجھا جائے، بلکہ تمام ملک میں ہرکارے دوڑائے جائیں اور ماہر ترین جادوگروں کو بلالیا جائے۔ آیت میں اُس کی اِنھی تدبیروں کو داؤ اکٹھے کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۷۷؎ فرعون اور اُس کی قوم کے لیے موسیٰ علیہ السلام کی دعوت اصلاً یہی تھی کہ وہ اپنے مشرکانہ تصورات و عقائد سے دست بردار ہو کر خدا ے واحد کے سامنے سر جھکا دیں۔ لوگوں کے اجتماع سے فائدہ اٹھا کر اُنھوں نے سب سے پہلے اِسی کو پیش کیا ہے اور اِس کی یہ دلیل بھی واضح کر دی ہے کہ علم و عقل میں شرک کی کوئی بنیاد نہیں ہے، یہ سراسر افتراء علی اللہ ہے۔

۷۸؎ یہ اُس تاریخ کی طرف اشارہ ہے جس میں رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہ نامرادی بار بار سامنے آتی رہی۔

۷۹؎ یعنی تمام اعیان حکومت اور تما م ساحر جو مقابلے کا لائحہئ عمل طے کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔

۸۰؎ یہ بات، ظاہرہے کہ جادوگروں کے اندر پیشہ ورانہ رقابت کا جذبہ بھڑکانے کے لیے کہی گئی ہے۔

۸۱؎ یہ اُس طرح کی بات ہے جو ارباب اقتدار جب عوام کو اپنے کسی مقصد کے لیے استعمال کرناچاہتے ہیں تو بالعموم کہتے ہیں، ورنہ معلوم ہے کہ برتر طریق زندگی جس کا حوالہ دیا گیا ہے، یہ اُس وقت کی اشرافیہ ہی کے لیے تھا۔ فرعونی تہذیب میں عوام کی حیثیت غلاموں اور قلیوں سے زیادہ نہیں تھی۔

۸۲؎ یہ بات اُنھوں نے پیشہ ورانہ اخلاق کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہی، لیکن جملے کا اسلوب ایسا ہے کہ اُن کی یہ خواہش صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ وہی پہل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ابتدا ہی میں حاضرین کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیں۔ اِس طرح کے مقابلوں میں پہل کا موقع مل جائے تو اِس کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

۸۳؎ موسیٰ علیہ السلام کو پورا اعتماد تھا کہ اُن کا پروردگار اُن کے ساتھ ہے، اِس لیے اُنھوں نے پہلے اُنھی کو موقع دیا کہ وہ اپنا ہنر دکھائیں۔ جادوگر جب اپنے فن کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں تو جوے کے تیروں کی طرح کوئی چیز دیکھنے والوں کے سامنے پھینکتے اور اُس پر اپنا جادو دکھاتے ہیں۔ آیت میں ’اِلْقَاء‘، یعنی پھینکنے کا لفظ اِسی مناسبت سے استعمال ہوا ہے۔

۸۴؎ موسیٰ علیہ السلام چونکہ لٹھیا کو سانپ بنا کر پیش کرتے تھے، اِس لیے جادوگروں نے بھی اُسی قسم کے جادو کاانتخاب کیا اور لاٹھیوں کے ساتھ ساتھ رسیوں کو بھی سانپ بنا کر دکھا دیا۔ لیکن قرآن نے ’یُخَیَّلُ اِلَیْہِ‘ کے الفاظ سے واضح کر دیا ہے کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت وماہیت نہیں بدلتی۔ وہ محض نگاہ اور قوت متخیلہ کو متاثر کرتا ہے، جس سے انسان وہی کچھ دیکھنے لگتا ہے جو جادوگر دکھانا چاہتا ہے۔

۸۵؎ یہ ایک وقتی ہراس تھا جو اِس طرح کی صورت حال میں فطری طور پر پیدا ہو جاتا ہے۔ حضرت موسیٰ غالباً توقع نہیں کر رہے تھے کہ جادوگر کوئی ایسی چیز پیش کردیں گے جو اُسی طرح کی ہو گی، جیسی وہ پیش کر رہے تھے۔

۸۶؎ اِس لیے کہ حق کے سامنے آتے ہی ہر شخص پر واضح ہو جاتا ہے کہ جادو کیا ہے اور معجزہ کیا چیز ہوتی ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، یہ بالکل ویسی ہی بات ہے کہ ماہ نخشب کے مقابلے میں خورشید جہاں تاب نکل آئے۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ منطق و استدلال سے دونوں کا فرق واضح کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

۸۷؎ یعنی جب عصا پھینکا گیا اور اُس نے سانپ کی طرح لہراتی ہوئی ہر رسی اور ہر لاٹھی کو اُسی طرح رسی اور لاٹھی بنا دیا، جس طرح کہ وہ حقیقت میں تھی اور ساراطلسم نابود ہو گیا تو جادوگر سجدے میں گر پڑے۔ آیت میں اِس کے لیے ’اُلْقِیَ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو مجہول کا صیغہ ہے۔ یہ جادوگروں کے جذبہئ تعظیم و اکرام کی تعبیر کے لیے آیا ہے۔ سحر و ساحری اور اِس طرح کے دوسرے علوم کو اُن کے ماہرین ہی بہتر سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اُن میں اور معجزے میں فرق کے لیے یہ نہایت واضح معیار ہے کہ اِن علوم و فنون کے ماہرین بھی اُس کے سامنے اعتراف عجز پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

۸۸؎ یہ فرعون کی خدائی اور بادشاہی، دونوں کاصاف انکار تھا جسے، ظاہر ہے کہ وہ آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔

۸۹؎ یعنی میری یا تمھارے گرو موسیٰ کی۔ یہ اُس سزا کی طرف اشارہ ہے جو نفسی علوم کے ماہرین اپنے شاگردوں کی نافرمانی پر اُنھیں دیتے ہیں۔ اِس طرح کے لوگ بالعموم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اُنھوں نے گرو کی مرضی کے خلاف کچھ کیا تو اپنے جادو کے زور سے وہ اُنھیں کسی بڑی آفت میں مبتلا کر دے گا۔ اوپر جادوگروں کے جس اعتراف حق کا بیان ہے، اُس سے مجمع پر جواثر پڑا اور فرعون اور اُس کے درباری جس طرح رسوا ہو کر رہ گئے، اُس کی خفت مٹانے اور بگڑے ہوئے حالات کو سنبھالنے کے لیے یہ فرعون نے فوراً اُن پر سازش کا الزام رکھ کر سزا سنا دی ہے کہ سب تمھاری اور تمھارے گرو، موسیٰ کی ملی بھگت ہے۔ اُس نے ڈرا دھمکا کر تمھیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے اور اب تم لوگ ہمارے خلاف بغاوت کرنا چاہتے ہو۔ تم نے یہ سب اِسی لیے کیا ہے کہ کھلے میدان میں اپنے گرو کے سامنے شکست مان لو گے تو اُس کی دھاک عام لوگوں پر بیٹھ جائے گی اور ہماری حکومت کے خلاف تمھاری سازش کامیاب ہو جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تم نے میری اجازت کا انتظار بھی نہیں کیا اور موسیٰ پر ایمان کا اعلان کر دیا ہے۔ اب میں تمھیں وہی سزا دوں گا جو سلطنت کے باغیوں کو دی جاتی ہے اور وہ اُس سزا سے کہیں زیادہ سخت او رعبرت انگیز ہو گی، جس کے خوف سے تم نے فتح و شکست کا یہ ڈراما رچایا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”...ہرچند یہ بات بالکل بے تکی تھی۔ فرعون خود اپنے ہی منتخب کیے ہوئے میدان میں خود اپنی ہی لائی ہوئی فوج سے ہارا تھا،لیکن اِس شکست کا اثر مٹانے کے لیے اُس کو کوئی نہ کوئی بات تو آخر بنانی تھی۔ چنانچہ اُس نے بنائی اور داد دینی چاہیے کہ اُس نے بڑی سیاسی ذہانت کا ثبوت دیا اور کیا عجب کہ اِس طرح وہ بہتوں کو بے وقوف بنانے میں کامیاب بھی ہوگیا ہو، لیکن حق کو اِس قسم کی پرفریب باتوں سے نہیں دبایا جا سکتا۔“(تدبرقرآن ۵/ ۶۷)

۹۰؎ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سچا ایمان آن کی آن میں انسان کو کس بلندی پر پہنچا دیتا ہے۔ استاذامام کے الفاظ میں، یہ وہی جادوگر ہیں جن کا حال قرآن میں دوسری جگہ یہ بیان ہوا ہے کہ جب وہ مقابلے کے لیے بلائے گئے تو اُنھوں نے بڑی لجاجت کے ساتھ فرعون سے اپنی کامیابی کی صورت میں انعام کی درخواست کی یا اب ایمان کے نور نے اُن کے دلوں کو اِس طرح منور کر دیا کہ خدا اور آخرت کے سوا اِس دنیا کی کسی چیز کی اُن کی نگاہوں میں کوئی وقعت باقی نہیں رہی ہے، یہا ں تک کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کی راہ میں اپنی زندگی بھی قربان کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں۔

۹۱؎ اِس سے معلوم ہوا کہ مقابلے پر آنے سے پہلے ہی جادوگر کسی حد تک سمجھ چکے تھے کہ معاملہ اُن کے کسی ہم پیشہ سے نہیں ہے، بلکہ کسی اور ہی دنیا کے آدمی سے ہے۔ چنانچہ وہ طوعاً و کرہاً اپنے جادو کا کرتب دکھانے کے لیے تیار ہوئے۔ 

۹۲؎ یہ فرعون کی بات کا جواب ہے۔ اُس نے کہا تھا کہ تمھیں پتا چل جائے گا کہ ’اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّاَبْقٰی‘۔ جادوگروں نے اُس کا نہایت صحیح اور بھرپور جواب دیا ہے کہ ہمیں ڈراتے ہو تو سن لو کہ ہم نے ہر طرف سے منہ موڑ کر اپنا رخ اللہ کی طرف کر لیا ہے اور ’اللّٰہُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی‘۔

۹۳؎ یہاں سے آگے آیت ۶۷ تک تضمین ہے۔ انداز کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ عبارت جادوگروں کے قول کا حصہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی بات کے ساتھ اپنی بات ملا کر اُس کو پورا اور مطابق حال کر دیا ہے۔

۹۴؎ یہ عذاب دوزخ کی شدت، اُس کی ہمیشگی اور بے پناہی کی ایسی تعبیر ہے کہ الفاظ سے اُس کی شرح و وضاحت کا تقاضا کیا جائے تو اعتراف عجز کر لیتے ہیں۔ اِس سے جوتصویر سامنے آتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ اُس سے روح کانپتی اور جسم پر لرزہ طاری ہوتا ہے۔

۹۵؎ اِس سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اُسی ایمان کا اعتبار ہے، جس کے ساتھ اچھا عمل بھی ہو۔ ’مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ‘ کا اسلوب اِسی مدعا پر دلالت کرتا ہے۔ قرآن جس دین کی دعوت دیتا ہے، اُس میں ایمان اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ چنانچہ ایمان کے بغیر جس طرح اعمال بے نتیجہ ہیں، اُسی طرح اعمال صالحہ کے بغیر ایمان کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، ایسا ایمان ایک ٹھونٹھ درخت کے مانند ہے جو برگ و بار سے بالکل خالی ہے۔ جس درخت نے دنیا میں اپنے برگ و بار پیدا نہیں کیے، آخر وہ آخرت میں کس طرح ثمر بار ہو جائے گا!

۹۶؎ یہی دین کی تمام دعوت کا خلاصہ اور اُس کے نزول کا مقصد ہے۔ خدا کی جنت کے دروازے اُنھی لوگوں کے لیے کھلیں گے جو اپنے ظاہر و باطن کو ہر لحاظ سے پاکیزہ بنانے کی کوشش کریں۔

۹۷؎ یہ ہجرت کی ہدایت ہے۔حضرت موسیٰ نے فرعون سے یہ مطالبہ ابتدا ہی میں کر دیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کو اُن کے ساتھ جانے کی اجازت دے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ فرعون اور اُس کی قوم پر اتمام حجت کے ساتھ وہ اِس لیے بھی مبعوث کیے گئے تھے کہ بنی اسرائیل اپنی قومی حیثیت میں شہادت حق کے جس منصب پر فائز کیے گئے ہیں، اُس کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے وہ اُنھیں اُس سرزمین میں لا کر آباد کریں، جس کے بارے میں فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ اُسے توحید کی دعوت کا مرکز بنایا جائے گا۔ چنانچہ ہجرت کی یہ ہدایت اصلاً تو اُنھی کے لیے ہے، لیکن تبعاً اِس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو مصریوں میں سے ایمان لے آئے تھے۔

۹۸؎ اصل میں ’فَاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا‘کے الفاظ آئے ہیں۔ عربی محاورے کے لحاظ سے ’ضرب طریق‘ کے معنی راستہ بنالینے کے ہیں، لیکن اِس کے استعمال میں ایک لطیف کنایہ حضرت موسیٰ کے عصا کی طرف بھی ہے، جس کی ضرب ہی سے بحر احمر کی شمالی خلیج میں یہ راستہ بنایا گیا تھا۔ آیت میں ’الْبَحْر‘ کا الف لام اِس بات کا قرینہ ہے کہ حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے متعین طور پر بتا دیا تھا کہ اُنھیں کہاں سے نکلنا ہے۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ہے:

”اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ تو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے؟ بنی اسرائیل سے کہہ کہ وہ آگے بڑھیں اور تو اپنی لاٹھی اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اُس کو دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے...پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایااور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اُسے خشک زمین بنا دیا اور پانی دو حصے ہو گیا۔ اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور اُن کے دہنے اور بائیں ہاتھ پانی دیوار کی طرح تھا۔“ (۱۴: ۱۵-۲۹)

۹۹؎ اصل الفاظ ہیں: ’لاَ تَخٰفُ دَرَکًا وَّلاَ تَخْشٰی‘۔ اِن میں ’تَخْشٰی‘ کا مفعول عربیت کے قاعدے سے تقابل کے اصول پر حذف کر دیا گیا ہے، یعنی ’وَلاَ تَخْشٰی غَرَقًا‘۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

۱۰۰؎ کسی چیز کی ہول ناکی یا غیر معمولی عظمت و جلالت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ اسلوب قرآن میں کئی جگہ اختیار کیا گیا ہے۔ یہ اُس موقع پر اختیار کیا جاتا ہے، جب الفاظ تعبیر سے قاصر ہو جائیں۔ بائیبل کی کتاب خروج میں، یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے:

”جب مصر کے بادشاہ کو خبر ملی کہ وہ لوگ چل دیے تو فرعون اور اُس کے خادموں کا دل اُن لوگوں کی طرف سے پھر گیا اور وہ کہنے لگے کہ یہ ہم نے کیا کیا کہ اسرائیلیوں کو اپنی خدمت سے چھٹی دے کر اُن کو جانے دیا۔ تب اُس نے اپنا رتھ تیار کروایا اور اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لیا اور اُس نے چھ سوچنے ہوئے رتھ، بلکہ مصر کے سب رتھ لیے اور اُن سبھوں میں سرداروں کو بٹھایا... اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا تاکہ پانی مصریوں اور اُن کے رتھوں اور سواروں پر پھر بہنے لگے۔ اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور صبح ہوتے ہوتے سمندر پھر اپنی اصلی قوت پر آگیا اور مصری الٹے بھاگنے لگے اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ و بالا کر دیا۔ اور پانی پلٹ کر آیا اور اُس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے سارے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا، غرق کر دیا اور ایک بھی اُن میں سے باقی نہ چھوٹا۔“ (۱۴: ۵-۲۸)

۱۰۱؎ یہ اُس وعدے کی طرف اشارہ ہے جو دریا پار کرلینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی شریعت دینے کے لیے فرمایا۔ قرآن نے دوسری جگہ اِس کی وضاحت فرمائی ہے۔ بنی اسرائیل اِس کے لیے طور کے اُسی مقدس جانب بلائے گئے تھے، جہاں حضرت موسیٰ کو نبوت عطا ہوئی۔ بائیبل میں ہے:

”اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ پہاڑ پر میرے پاس آ اور وہیں ٹھیرا رہ اور میں تجھے پتھر کی لوحیں اور شریعت اور احکام جو میں نے لکھے ہیں، دوں گا تاکہ تو اُن کو سکھائے۔ اور موسیٰ اور اُس کا خادم یشوع اٹھے اور موسیٰ خدا کے پہاڑ کے اوپر گیا۔ اور بزرگوں سے کہہ گیا کہ جب تک ہم لوٹ کر تمھارے پاس نہ آجائیں، تم ہمارے لیے یہیں ٹھیرے رہو اور دیکھو ہارون اور حور تمھارے ساتھ ہیں۔ جس کسی کا مقدمہ ہو، وہ اُن کے پاس جائے۔“(خروج۲۴: ۱۲-۱۴)  

۱۰۲؎ یہ من و سلویٰ کیا ہے؟ اِس کی وضاحت ہم سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۵۷ کے تحت کر چکے ہیں۔

۱۰۳؎ یعنی اُن کو پا کر اُن کا جو حق تم پر عائد ہوتا ہے، اُس کو ادا کرنے میں سرکشی کا رویہ اختیار نہ کرو، بلکہ خدا کے شکر گزار بن کر رہو کہ اُس نے یہ چیزیں اِن حالات میں اور اِس فراوانی کے ساتھ تمھیں عطا فرمائی ہیں۔

۱۰۴؎ یعنی اپنے اُس مقام سے گر کر رہا جو اُس کو میں نے عطا فرمایا تھا۔

۱۰۵؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَمَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ‘۔ اِن میں ’اَعْجَلَکَ‘ کے بعد ’عَنْ‘ اِس بات کا قرینہ ہے کہ یہ چھوڑ کر آنے کے مفہوم میں کسی فعل پر متضمن ہو گیا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۱۰۶؎ مطلب یہ ہے کہ آپ ہی کی جانب آرہے ہیں کہ آپ کی شریعت سے بہرہ یاب ہوں۔ یہ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم پر اعتماد کا اظہار ہے کہ وہ کہیں نہیں جائیں گے، وہیں پہنچیں گے، جہاں اُن کو پہنچنے کے لیے کہا گیا ہے۔

۱۰۷؎ یعنی فرط شوق میں جلدی چلا آیا ہوں کہ آپ سے ہم کلام ہوں اور آپ بھی خوش ہوں کہ بندہ میری محبت میں اور میری شریعت کو جلد سے جلد پالینے کے لیے وقت سے پہلے ہی حاضر ہو گیا ہے۔

۱۰۸؎ مطلب یہ ہے کہ اپنی سنت کے مطابق اُس کو چھوڑ دیا ہے کہ فتنے میں پڑ جائے۔ اِس سے تم پر واضح ہو جائے گا کہ میری محبت اور مجھ سے ملاقات کا شوق بھی اِس کا باعث نہیں بننا چاہیے کہ تم اپنی قوم سے غافل ہو جاؤ۔ تمھاری اصل ذمہ داری اِس قوم کی تعلیم و تربیت ہے تاکہ یہ اُس کام کے لیے تیار ہو جائے، جس کے لیے میں اِس کو مصر سے نکال کر لایا ہوں۔ تم اِس بات سے واقف تھے کہ اِس قوم کے عوام مشرکانہ عقائد سے متاثر ہیں اور تمھیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہارون اِن بگڑے ہوئے لوگوں کو قابو میں نہیں رکھ سکیں گے، مگر اِس کے باوجود تم نے جلدی کی اور اُن کو اچھی طرح قاعدے میں لانے سے پہلے ہی یہاں چلے آئے ہو۔ یہ ایک غلطی تھی اور اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ ایک ایسے فتنے میں مبتلا ہوگئے ہیں، جس سے نمٹنا آسان نہیں ہو گا۔

۱۰۹؎ یہ اُس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ کسی قبیلے یا نسل یا مقام کی طرف نسبت ہے۔ ہم پیچھے ذکر کر چکے ہیں کہ مصریوں میں سے بھی کچھ لوگ موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تھے اور ہجرت کے اِس سفر میں بنی اسرائیل کے ساتھ شریک تھے۔ یہ غالباً اُنھی میں سے کوئی فتین اور کیاد متصوف تھا، جس نے موسیٰ علیہ السلام کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھا کر بنی اسرائیل کے سادہ لوح عوام کو اپنے گرد جمع کر لینے کی کوشش کی اور اِس کے لیے اُسی طرح کا ڈھونگ رچایا، جس طرح کے ڈھونگ اِس قبیل کے لوگ رچایا کرتے ہیں۔

۱۱۰؎ یعنی اپنی شریعت اوراپنا ہدایت نامہ عطا فرمانے کا وعدہ۔

۱۱۱؎ یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن قوم کے سرداروں کی طرف ہے۔ لہٰذا یہ اُسی عہد کی طرف اشارہ ہے، جس کا حوالہ ہم پیچھے نقل کر آئے ہیں کہ طور پر جاتے وقت قوم کے سرداروں کو حضرت موسیٰ نے پابند کر دیا تھا کہ جب تک وہ اُن کے لیے خدا کی شریعت لے کر واپس نہیں آجاتے، وہ لوگوں کو ادھر ادھر نہیں ہونے دیں گے اور تمام معاملات میں ہارون علیہ السلام کی ہدایات کی پیروی کریں گے۔

۱۱۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’اَلْقَی السَّامِرِیُّ‘۔ اِن میں لفظ ’اَلْقٰی‘ بالکل اُسی مفہوم میں ہے، جس میں یہ پیچھے اِسی سورہ کی آیت ۵۶ میں آیا ہے، یعنی پانسا پھینکنے اور کوئی ہنر یا کرتب دکھانے کے مفہوم میں۔ مطلب یہ ہے کہ سفر کی آپا دھاپی میں ضائع ہو جانے کے خطرے سے محفوظ رکھنے کے لیے لوگوں نے اپنے زیورات ہماری امانت میں رکھ دیے تھے۔ ہم اُنھیں ایک بوجھ ہی سمجھ کر اٹھائے ہوئے تھے۔لوگ ہمارے پاس آئے اور اُنھوں نے اپنے زیورات مانگے تو ہم نے یہ بوجھ اتار پھینکا۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ ایک ذمہ داری تھی، اچھا ہوا کہ لوگوں نے ہمارے سر سے اتار دی، مگر وہ اُنھیں اکٹھا کرکے سامری کے پاس لے گئے اور اُس نے یہ کرتب دکھادیا۔ اِس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہمیں تو معلوم بھی نہیں تھا کہ لوگ اپنے زیورات کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں، اِس لیے ہمارے متعلق یہ گمان نہ فرمائیے کہ ہم نے زیورات واپس کیے ہیں تو سامری کی اِس فتنہ پردازی میں ہمارا بھی کوئی دخل ہے۔

۱۱۳؎ قوم کے سرداروں کا جواب اوپر ختم ہو گیا۔ یہاں سے آگے انداز کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ واقعے کی تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے۔

۱۱۴؎ اُس زمانے کے مصر میں بت گری کا فن جس درجے کو پہنچا ہوا تھا، اُس سے واقف کسی شخص کے لیے ایک ایسا بچھڑا ڈھال لینا کچھ مشکل نہ تھا، جس میں سے اُس کے ڈکرانے کی آواز نکلتی ہو۔چنانچہ اِس بچھڑے کی مورت بناتے وقت یہ صنعت گری بھی کی گئی تھی کہ اُس میں سے جب ہوا گزرتی تو جس طرح بچھڑے ڈکراتے ہیں، اُسی طرح کی آواز اُس سے نکلتی تھی۔ یہود کی بدقسمتی ہے کہ اُنھوں نے جس طرح زیورات کے بارے میں یہ روایت گھڑ لی کہ وہ اُنھوں نے قبطیوں کو دھوکا دے کر اُن سے لوٹ لیے تھے اور اِس کی ہدایت اُنھیں اللہ کے نبی نے اور خود نبی کو اللہ تعالیٰ نے دی تھی، اُسی طرح بچھڑا بنانے کا الزام بھی اپنے پیغمبر حضرت ہارون پر رکھ دیا ہے*۔ قرآن نے یہ دونوں ہی باتوں کی تردید کر دی ہے۔

۱۱۵؎ یعنی طور پر جا کر اُسے فراموش کر بیٹھا ہے، ورنہ اُسے بھی معلوم ہے کہ اُس کا الٰہ درحقیقت یہی ہے۔

۱۱۶؎ یہ قرآن نے مزید واضح کر دیا ہے کہ بچھڑا بنانے کے گناہ عظیم میں حضرت ہارون کا ہرگز کوئی دخل نہ تھا، بلکہ اُنھوں نے تو ابتدا ہی سے اپنی قوم کے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ بائیبل اِس معاملے میں اپنی غلط بیانی کا راز خود ہی فاش کر دیتی ہے۔ اُس کا اپنا بیان ہے کہ اِس جرم کے مرتکبین کے بارے میں خدا کا حکم تھا کہ اُنھیں قتل کر دیا جائے گا اور اُن کے نام خدا کی کتاب سے مٹا دیے جائیں گے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب اِس جرم کی پاداش میں لوگوں کو سزا دی گئی تو نہ ہارون علیہ السلام کا نام کتاب سے مٹایا گیا اور نہ اُنھیں قتل کیا گیا، بلکہ خود بائیبل کی روایت کے مطابق اُن کو اور اُن کی اولاد کو بنی اسرائیل میں بزرگ ترین منصب، یعنی بنی لاوی کی سرداری اور مقدس کی کہانت سے سرفراز کر دیا گیا۔**

۱۱۷؎ اِس جملے سے مترشح ہے کہ حضرت ہارون کے سمجھانے سے لوگوں کو کسی حد تک اپنی حماقت کا احساس ہو گیا تھا، لیکن ہر حماقت کی طرح اب اِس حماقت سے بھی پیچھا چھڑانا آسان نہیں تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے معاملے کو موسیٰ علیہ السلام کی واپسی تک ٹال دیا۔

۱۱۸؎ یعنی کس چیز نے روکا کہ اِس طرح کے موقعوں پر جو میرا طریقہ رہا ہے اور جس کی میں تمھیں ہدایت کرتا رہا ہوں، اُس پر عمل نہ کرو؟ یہ سوال کسی بدگمانی کی بنا پر نہیں، بلکہ حضرت ہارون کا عذر معلوم کرنے کے لیے کیا گیاہے۔آیت میں اِس کے لیے ’اَلَّا تَتَّبِعَنِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’لَا‘ ہمارے نزدیک زائد نہیں ہے، بلکہ زبان کے معروف قاعدے کے مطابق فعل کی تاکید کے لیے آیا ہے۔ یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی موجود ہے۔

۱۱۹؎ یہ اُس حکم کی طرف اشارہ ہے جو طور پر جاتے وقت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون کو دیا تھا۔ سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۴۲ میں ہے کہ اُنھوں نے ہارون علیہ السلام کو ہدایت فرمائی تھی کہ میرے پیچھے تم میری قوم میں میری جانشینی کرو گے اور لوگوں کی اصلاح کرتے رہو گے اور بگاڑ پیدا کرنے والوں کے طریقے پر نہیں چلو گے۔

۱۲۰؎ دوسری جگہ ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اِس موقع پر جوش حمیت اور غلبہئ حال میں تورات کی الواح ایک طرف پھینک دی تھیں اور حضرت ہارون کے بال پکڑ کر اُنھیں جھنجھوڑنے لگے تھے کہ اصل ذمہ داری تمھاری تھی، تم نے اِس فتنے کو کیوں سر اٹھانے دیا۔ ہارون علیہ السلام نے یہ بات اِسی موقع پر کہی ہے۔

۱۲۱؎ سورۂ اعراف (۷)کی آیت ۱۵۰ میں صراحت ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اِس فتنے سے روکنے کی انتہائی کوشش کی تھی، مگر اُنھوں نے آں جناب کے خلاف فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تل گئے تھے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... اب دو ہی صورتیں باقی رہ گئیں تھیں: یا تو حضرت ہارون اپنے ساتھیوں کو لے کر الگ ہو جائیں یا چند دن حضرت موسیٰ کی واپسی کا انتظار کریں۔ پہلی صورت میں اندیشہ تفریق ملت اور باہمی کشت و خون کا تھا۔ دوسری صورت میں توقع تھی کہ حضرت موسیٰ اپنے دبدبہ اور حسن تدبیر سے حالات پر قابو پا لیں گے۔ اِسی توقع کی بنا پر اُنھوں نے پہلی صورت اختیار نہ کی کہ اُس سے اصلاح کی جگہ فساد کا اندیشہ تھا اور وہ حتی الامکان اِس فساد سے قوم کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔“(تدبرقرآن ۵/ ۸۰)

۱۲۲؎ یہ سامری نے اپنے آپ کو معذور ٹھیرانے کے لیے بات بنائی ہے کہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں، یہ سب میں نے اپنے ایک کشف کے زیر اثر کیا ہے۔ مجھے ایک مشاہدہ ہوا تھا جو دوسروں کو نہیں ہوا۔ میں نے دیکھا کہ جبریل امین آئے ہیں اور میں نے اُن کے نقش قدم سے ایک مٹھی خاک اٹھا لی ہے اور ایک بچھڑا بنا کر اُس کے اندر ڈال دی ہے، جس سے وہ بولنے لگا ہے۔ چنانچہ کشف میں جہاں سے مٹی اٹھائی تھی، وہیں سے اٹھا کر میں نے اِس بچھڑے میں ڈال دی۔ میں نے یہ سب بطورخود اور کسی شرارت کے ارادے سے نہیں کیا ہے۔

۱۲۳؎ یہ سامری کا اعتراف جرم ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

”... اُسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ اب حضرت موسیٰ کی گرفت سے اُس کے لیے چھوٹنا آسان نہیں ہے اور اِس قسم کی دھونس اُن کے آگے چلنے والی نہیں ہے، اِس وجہ سے اُس نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ یہ جو کچھ ہوا، محض مغالطے کا نتیجہ ہے کہ میں اپنے نفس کے ایک فریب کو کشف سمجھ بیٹھا اور مجھ سے یہ جرم صادر ہو گیا۔“(تدبرقرآن۵/ ۸۱)

۱۲۴؎ سامری جس اخلاقی کوڑھ میں مبتلا تھا،اُس کی سزا اُسے یہ دی گئی کہ اُسے جسمانی کوڑھ میں مبتلا کر دیا گیا۔ چنانچہ بنی اسرائیل میں جو قاعدہ کوڑھیوں کی چھوت سے لوگوں کو بچانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا، وہ اُس پر بھی نافذ ہو گیا کہ اب وہ زندگی بھر اپنی زبان سے یہ منادی کرتا پھرے گا کہ لوگو، میں ناپاک ہوں، مجھے کوئی ہاتھ نہ لگائے۔ یہ، ظاہر ہے کہ ذلت و رذالت کی آخری حد تھی، جس سے آگے کسی حد کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ بائیبل کی کتاب احبار میں یہ قاعدہ اِس طرح بیان ہوا ہے:

”اور جو کوڑھی اِس بلا میں مبتلا ہو، اُس کے کپڑے پھٹے اور اُس کے سر کے بال بکھرے رہیں اور وہ اپنے اوپر کے ہونٹ کو ڈھانکے اورچلا چلا کر کہے ناپاک ناپاک۔ جتنے دنوں تک وہ اِس بلا میں مبتلا رہے، وہ ناپاک رہے گا اور وہ ہے بھی ناپاک۔ پس و ہ اکیلا رہا کرے۔ اُس کا مکان لشکر گاہ کے باہر ہو۔“ (۱۳: ۴۵-۴۶)

۱۲۵؎ یہ توحید کی دلیل ہے کہ جب خدا کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے تو اُس کو یہ احتیاج کیوں لاحق ہو گی کہ وہ کسی کو اپنا شریک بنائے؟

[باقی]

_______________

 * خروج ۳: ۱۴-۲۲۔ ۱۱: ۲-۳۔ ۱۲: ۳۵-۳۶۔ ۳۲: ۱-۵۔

** خروج ۳۲: ۲۷-۳۳۔ گنتی ۱۸: ۱-۷۔

______________

B