HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : عرفان شہزاد

زکوٰۃ: ایک مطالعہ نو؛ فقہی قیود اور ان کے نتائج

وحی، خدا کی وہ عظیم نعمت ہے جو انسان اوراس کے سماج سے متعلق ایسے مستقل نوعیت کے معاملات میں متعین رہنمائی کرتی ہے جن کا کوئی معین حل نکالنا یا بالاتفاق کسی حتمی نتیجے تک پہنچنا عقلِ انسانی کے لیے ممکن نہیں، اور اسی وجہ سے وہ محل نزاع و بحث بنے رہتے ہیں۔ ان میں ایمانیات سے لے کر سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات تک سے متعلق متعین اور قطعی رہنمائی خدا کی آخری وحی، قرآن مجید کے ذریعے سے فراہم کر دی گئی ہے۔

ریاست کا قیام، انسانی سماج کے اجتماعی معاملات اور ان میں پیدا ہونے والے نزاعات کو دور کرنے کا ایک ناگزیر بندوبست ہے۔ ریاست اپنے فرائض و وظائف، جن میں دفاع، قیام امن، ترسیل انصاف سے لے کر عوام کے فلاح و بہبود تک کے سب امور شامل ہیں، کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مال و دولت کی محتاج ہوتی ہے۔ اس کے مستقل حل کے لیے ریاستیں اپنے شہریوں پر ٹیکس اور لگان عائد کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اس ٹیکس کی شرح کتنی ہو، اور یہ کہاں خرچ کیا جانا چاہیے، یہ ہمیشہ سے محل نزاع رہا ہے۔ اہل حکومت نے جہاں ٹیکس وصولی میں زیادتی کی انتہائیں کیں اور اخراجات میں جدتیں پیدا کرکے بے اندازہ اسراف کیے، وہاں بعض اہل فکر نے ٹیکس فری معیشت کے نظریات بھی پیش کیے، نیزٹیکس کے مصارف پر بھی خود ساختہ پابندیاں تجویز کیں۔ لیکن وحی نے اپنے ماننے والوں کو اس مخمصے سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دی۔ اس نے مملکت کے شہریوں کے مال میں مقررہ ٹیکس بنام زکوٰۃ کی شرحیں اور اس کے مصارف، جن میں ریاستی مشینری کے اخراجات اورفرد اور سماج کی بہبود کے تمام امور شامل ہیں، بھی خود مقرر کردیے۔ ان میں کوئی ردو بدل بغیر کسی انتظامی مجبوری یا اضطرار کے کسی مسلمان حاکم اور عالم کو روا نہیں۔

شریعت کی رو سے ایک مسلم ریاست کے مالی معاملات کے پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ و عشر اور زمین کا کرایہ ہی مستقل آمدن کا ذریعہ ہے۔ عشر بھی پیداوار کی زکوٰۃ ہی ہے۔ اس لیے اس مضمون میں ہم اسے بھی زکوٰۃ کے عموم میں ہی بیان کریں گے۔ مسلم حکومت زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس مسلم عوام کی رضامندی کے بغیر وصول کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

وحی نے اس ٹیکس کو زکوٰۃ جیسی مذہبی اصطلاح عطا کی، اسے عبادات میں شامل کیا، بلکہ اسے دین کے ایک رکن کی حیثیت دے دی،نماز اور زکوٰۃ، دونوں کو مسلمانیت کی شرط قرار دیا، جس کے بعد ایک مسلمان کسی مسلم ریاست میں حقوق شہریت کا استحقاق پیدا کرتا ہے:

فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(التوبہ۹: ۵) 
’’پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔ یقیناً اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

اسی بنا پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں جن لوگوں نے حکومت کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا، ان کے خلاف جنگ کی گئی۔

مختلف قسم کے اموال پر زکوٰۃ کی شرحیں اور اس کے مصارف نزول قرآن سے پہلے سے خدا کی شریعت میں ہمیشہ سے معروف اور معلوم رہے ہیں:

وَجَعَلْنٰھُمْ اَءِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْھِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَاِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآءَ الزَّکٰوۃِ وَکَانُوْا لَنَا عٰبِدِیْنَ.(الانبیاء۲۱: ۷۳)

اہل کتاب تو اس کی تفصیلات سے بھی اچھی طرح آگاہ تھے۔ اہل عرب بھی دین ابراہیم کو کافی کچھ بھلا دینے کے باوجوداس سے واقف تھے، اسی بنا پر مکی سورہ میں بھی زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے۔عربوں کے جد امجد اور ان کے پیغمبر حضرت اسمٰعیل کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیۡلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا. وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا.(مریم۱۹: ۵۴۔۵۵)
’’اور اِس کتاب میں اسمٰعیل کا ذکر کرو۔ وہ وعدے کا سچا اور رسول نبی تھا۔ وہ اپنے لوگوں کو نماز اور زکوٰۃ کی تلقین کرتا تھا اور اپنے رب کے نزدیک ایک پسندیدہ انسان تھا۔‘‘

سورۂ نمل جو مکی سورہ ہے، اس میں بھی زکوٰۃ کا ذکر ہے:

الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ.(۲۷: ۳)
’’جو نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی آخرت پر فی الواقع یقین رکھتے ہیں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے یہ تجدید پا کر امت کو متواتر سنت کے ذریعے سے حاصل ہوئی ہے۔ قرآن میں زکوٰۃ و صدقات کے مصارف کا ذکر منافقین کے ایک اعتراض کے جواب میں آ گیا ہے، ورنہ وہ بھی اسی طرح معلوم تھے، جیسے زکوٰۃ کی شرحیں، جن کا ذکر قرآن میں نہیں، بلکہ سنت متواترہ میں ہے:

اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ.(التوبہ ۹: ۶۰) 
’’(اِنھیں بتا دو کہ) صدقات تو درحقیقت فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن کے لیے جو اُن کے نظم پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے۔ نیز اِس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان زدوں کے سنبھالنے میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘

شریعت نے تین قسم کے اموال پر تین طرح سے زکوٰۃ عائد کی ہے:

۱۔ مال: سونا چاندی اور دیگر مالیت کی چیزیں۔ ان میں زائد از ضرورت اشیا، حد نصاب سے زیادہ ہونے اور ان کی کل مالیت پر سال میں ایک بار اڑھائی فیصد کی شرح سے زکوٰۃ عائد ہوگی۔

۲۔ پیداوار: زمین کی پیداوار اور اس کے علاوہ پیداوار کی تمام جدید صورتوں میں بھی ہر پیداوار کے موقع پرپانچ، دس اور بیس فیصد کے حساب سے زکوٰۃ عائد ہوگی، جسے عشر اور نصف عشر وغیرہ کہا جاتا ہے۔ اس کا فارمولہ یہ ہے کہ پیداوار اگر محنت اور سرمائے، دونوں سے وجود میں آئی ہے تو اس کا پانچ فی صد، سرمائے یا محنت میں سے کسی ایک سے وجود میں آئی ہے تو دس فی صد اور ان دونوں کے بغیر پیداوار ہوئی ہے، جیسے کوئی خزانہ نکل آئے، تو اس کا بیس فی صد زکوٰۃ میں دیا جائے گا۔

۳۔ مویشی: ا۔ اونٹ

۴۔ ۵سے ۲۴ تک، ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکر ی ،

۵۔ ۲۵سے ۳۵ تک، ایک یک سالہ اونٹنی اور اگر وہ میسر نہ ہو تو دوسالہ اونٹ ،

۶۔ ۳۶ سے ۴۵ تک ، ایک دو سالہ اونٹنی ،

۷۔ ۴۶ سے ۶۰ تک، ایک سہ سالہ اونٹنی ،

۸۔ ۶۱سے ۷۵ تک ، ایک چار سالہ اونٹنی ،

۹۔ ۷۶ سے ۹۰ تک ، دو ، دوسالہ اونٹنیاں ،

۱۰۔ ۹۱سے ۱۲۰تک ، دو، سہ سالہ اونٹنیاں ،

۱۱۔ ۱۲۰سے زائد کے لیے ہر ۴۰ پر ایک دوسالہ اورہر ۰ ۵پرایک سہ سالہ اونٹنی ۔

۱۲۔ ب۔گائیں

۱۳۔ ہر ۳۰ پرایک یک سالہ اور ہر ۴۰ پرایک دو سالہ بچھڑا ۔

۱۴۔ ج۔بکریاں

۱۵۔ ۴۰ سے ۱۲۰ تک، ایک بکری ،

۱۶۔ ۱۲۱سے ۲۰۰ تک ، دوبکریاں ،

۱۷۔ ۲۰۱ سے ۳۰۰ تک ، تین بکریاں،

۱۸۔ ۳۰۰ سے زائد میں ہر ۱۰۰ پرایک بکری ۔

دور جدید نے پیداوار کی بہت سے نئی صورتیں پیدا کر دی ہیں، جن میں صنعتی پیداوار، تنخواہ، پینشن، کمیشن، اور مختلف خدمات کی فیسیں وغیرہ شامل ہیں، جو روزانہ، ہفتانہ اور ماہانہ بنیادوں پر پیدا ہوتی ہیں۔ فقہا نے انھیں مال میں شامل کیا ہے، یعنی اخراجات کے بعد ان میں سے جو بچ جائے، اس پر سال میں ایک دن مقرر کر کے اڑھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے، لیکن غور کیجیے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ اصلاً پیداوار ہی ہیں، چنانچہ ان پر پیداوار کی زکوٰۃ عائد ہونی چاہیے، انھیں مزروعات، یعنی زمین کی فصل کی پیداوار پر قیاس کرنا ہی درست ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جیسے ہی یہ وصول ہوں، ان پر پانچ، دس اور بیس فی صد زکوٰۃ عائد ہو جائے گی۔ ان کی بچت انھیں الگ سے مال بھی بناتی ہے، جس پر سال میں ایک بارالگ سے اڑھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔ اس کے لیے حدنصاب کا مقرر کرنا حکومت کا اختیار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وقت میں جو نصاب مقرر کیا تھا، وہ ایک نمونہ ہے کہ نصاب مقرر کرتے ہوئے کن امور کا خیال کرنا چاہیے۔ حکومت کا یہ بھی اختیار ہے کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق قابل زکوٰۃ اشیا میں سے کسی چیز کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دے دے یا اس پر زکوٰۃ کی شرح کم عائد کر دے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں گھوڑوں اور سبزیوں کو بوجوہ مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔

دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک مسلم حکومت، مال اور پیداوار کی ان تمام مدات سے زکوٰۃ کی وصولی کرے، تو عمومی حالات میں اسے مزید کوئی ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی اور ٹیکس کی شرح میں زیادتی کے عوامی شکوے، اور ردعمل میں ٹیکس چوری کا اخلاقی جواز بھی ختم ہو جائے گا۔ معاملہ ملکی قانون کے علاوہ شریعت، اخلاق اور ضمیر کی عدالت میں آ جائے گا۔

جب تک حکومت اس پر عمل پیرا نہیں ہوتی، تب تک، البتہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت جتنا ٹیکس تنخواہوں اور پراپرٹی ٹیکس وغیرہ پر کاٹ لیتی ہے، مسلمان اپنے اموال اور پیداوار کا حساب لگا کر اتنا حصہ اپنی زکوٰۃ میں سے منہا کر لیں۔ اگر ٹیکس میں کٹنے والی رقم زکوٰۃ کی مقدار سے کم ہے تو باقی کی زکوٰۃ وہ خود ادا کر دیا کریں، اور اگر ٹیکس میں محسوب ہونے والی رقم زیادہ ہے تو اس زائد کٹ جانے والی رقم کو سماج کے اجتماعی کاموں میں اپنی طرف سے عام صدقہ سمجھیں اور عند اللہ اجر و ثواب کی امید رکھیں۔ معلوم ہونا چاہیے کہ زکوٰۃ وہ کم سے کم مقدار ہے جسے ایک مسلمان کو خدا کے دیے ہوئے مال میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے، لیکن مکارم اخلاق کا تقاضا ہے کہ خدا کی راہ میں وسعت سے خرچ کیا جائے۔

نماز اور زکوٰۃ، دونوں کا انتظام ایک مسلم حکومت کے فرائض میں شامل ہے۔ تاہم بد قسمتی سے مسلم حکومتیں اپنے ان فرائض سے عموماً غافل ہیں۔ نماز اور زکوٰۃ کا معاملہ چونکہ فرد کی عبادت کا معاملہ ہے اور ریاست اس کی اجتماعی سطح پر جمع و تقسیم کرنے میں معاون کا کردار ادا کرتی ہے،اس لیے ریاست کے بندوبست کی عدم موجودگی میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ جیسے انھوں نے خود سے باجماعت نماز، مساجد، جمعہ اورعیدین کا انتظام کامیابی سے قائم کیا ہے، اسی طرح زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا انتظام بھی کریں۔ اس کے لیے ایسی تمام تنظیمیں اور ادارے جو عوامی، فلاحی اور تعمیری کاموں میں مصروف ہیں، کو زکوٰۃ ادا کرکے اس فریضہ کی ادائیگی کرنی چاہیے۔

زکوٰۃ پر فقہی قیود اور ان کے نتائج

یہ سمجھنے میں کوئی دقت نہیں تھی کہ زکوٰۃ فقرا و مساکین وغیرہ کی بہبود کے لیے وضع کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے فقہا نے نصاب زکوٰۃ اور فقیر کی تعریف میں ایسی پر تکلف شرائط اورفقہی قیود پیدا کر دی ہیں جو نہ صرف زائد از ضرورت قانون سازی معلوم ہوتی ہے، بلکہ اس سے بہت سے حقیقی ضرورت مند، فقیر و مسکین کے زمرے سے خارج قرار پائے ہیں۔ یہ قیود شریعت کو ریاضیاتی منطقی اصولوں پر برتنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔

مسلم حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے زکوٰۃ جیسے اہم ستون سے سماج کو کما حقہٗ فائدہ حاصل نہیں ہو رہا۔ ریاستی اداروں کے متبادل کے طور پر جو نج کی (پرائیویٹ) تنظیمیں سماج کی فلا ح کے لیے مسلمانوں کے مالی تعاون کو مربوط انداز میں استعمال کرنے کی صلاحیت کے ساتھ برسر عمل ہیں، ان کی افادیت اور دائرۂ عمل کو بھی زکوٰۃ سے متعلق فقہی قواعد و ضوابط نے نہایت محدود اور غیر موثر کر دیا ہے۔ انھیں بہت سیتکلفات برتنے پڑتے ہیں، جس سے نہ صرف ان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، بلکہ بعض اوقات صورت حال مضحکہ خیز ہو جاتی ہے، مثلاً حیلۂ تملیک کیا جاتا ہے جس میں زکوٰۃ کی رقم کسی شخص کے سپردیا مدارس میں عموماً کسی نوبالغ طالب علم (کیونکہ اس کے لیے بالغ ہونا شرط ہے، جسمانی بلوغت کے ساتھ عاقل ہونا لازم سمجھ لیا گیا ہے) کے حوالے کر کے اسے براے نام مالک بنا دیا جاتا ہے اور پھر اسے ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنی ’’مرضی‘‘ سے اتنے سارے پیسے تنظیم یا مدرسے کو دے دے۔ اس بے جا قانون سازی سے شریعت ایک مذاق بن جاتی ہے، یا پھر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شریعت سماج کے لیے مفید ہونے کے بجاے اس کی فلاح و بہبود میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہے۔ آگے کی سطور میں ہم یہ دیکھیں گے کہ شریعت کی پوزیشن واقعی یہی ہے یا فقہی تعبیرات اور قواعدنے اس کی یہ پوزیشن بنا دی ہے۔ ان فقہی قیود کا ایک نمونہ ذیل میں پیش کیا جاتا ہے، جس کے بعد دیکھا جا سکتا ہے کہ خود زکوٰۃ کی مد کس حد تک سماج کی بہبود میں مفید رہ جاتی ہے:

i۔ پہلی شرط یہ لگائی گئی ہے کہ زکوٰۃ کی تملیک کی جائے۔ یعنی ضرورت مند کو زکوٰۃ کی رقم یا چیزکا مالک بنانا ضروری ہے، حقیقی ضرورت مند سامنے نہ ہو تو ضرورت مندوں کے مجاز وکیل کو ادا کرنے سے زکوۃادا ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کو مفت سروسز کی شکل استعمال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی ایسے اجتماعی بہبود کے کام میں صرف کیا جا سکتا ہے جس کا کوئی شخصی مالک نہیں ہو سکتا۔ مالکانہ تصرف کے بغیر، مثلاً کھانا کھلانا بھی درست نہیں،خیراتی ہسپتال میں غربا کا علاج معالجہ جس میں علاج کا خرچ مریض کو دینے کے بجاے براہ راست ہسپتال کو دیا جائے یا بے گھر افراد کی رہایش کے لیے بلا ملکیت مفت یا رعایتی کراے پر رہایش کا بندوبست کرنا بھی جائز نہیں، یا غربا کو کوئی ایسا ذریعۂ آمد ن مہیا کرنا جس میں مالکانہ اختیار نہ ہو، اسی طرح مردہ کا کفن دفن کرنا، کوئی کنواں، واٹر فلٹر پلانٹ یا اسی قسم کا اجتماعی بہبود کا کوئی فلاحی کام کرنا جس میں کوئی شخص مالک نہیں ہوتا، یہ سب زکوٰۃ کے فنڈ سے کرنا درست نہیں۔ مساجد کی تعمیر میں، کسی مرنے والے کے قرض کی ادائیگی میں بھی زکوٰۃ کا پیسا استعمال نہیں ہو سکتا، وغیرہ۔ یعنی زکوٰۃ میں کسی حاجت مند کواس کا مالک بنانا ضروری ہے۔

ii۔ اسی طرح زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم کا بندوبست کرنے والی کوئی تنظیم اپنے ملازمین کو زکوٰۃ کے فنڈ سے تنخواہ بھی نہیں دے سکتی، کیونکہ زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم اصلاً حکومت کا کام ہے، وہی غربا کی مجاز وکیل ہے۔ جو تنظیمیں اپنے طور پر یہ کام کر رہی ہیں، انھیں یہ کام رضاکارانہ ہی کرنا ہوگا یا ان کی تنخواہ زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور فنڈ سے ادا کی جائے۔

iii۔ حاجت مندسید اور ہاشمی نہ ہو۔

iv۔ حاجت مند غیر مسلم نہ ہو۔

v۔ حاجت مند کے پاس سونا چاندی، رقم، مال تجارت اور زائد از ضروت کوئی چیز، مثلاً پلاٹ، دکان، ٹی وی، موبائل فون، ضرورت سے زائد سواری، کپڑے جوتے وغیرہ نہ ہوں جو حد نصاب کو پہنچیں۔نصاب کی حدچاندی کے نصاب ۶۴۲گرام ہے

vi۔ حاجت مند نے کوئی کمیٹی ڈالی ہوئی نہ ہو کہ وہ قابل وصول قرض میں آ جاتی ہے۔ اگر یہ بھی حد نصاب کے مساوی نہ ہو، ورنہ فقیر و مسکین کی تعریف سے خارج ہو جائے گا۔

vii۔ پراویڈنٹ فنڈ حد نصاب کے برابر نہ ہو کہ وہ بھی قابل وصول قرض کی مد میں آ جاتا ہے۔

اگر ان میں سے کوئی بھی چیز پائی جائے تو ایسا شخص ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے۔ اس کی مدد ضروری ہو تو زکوٰۃ کے علاوہ دیگر نفلی صدقات سے کی جا سکتی ہے، لیکن زکوٰۃ کی مد سے نہیں کی جا سکتی۔

معاشرے قانون اور اخلاق، دونوں کی مدد سے چلتے ہیں۔ قانون سے وہ کم سے کم معیار حاصل کیا جاتا ہے جو معاشرے کی بقا کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ زکوٰۃ قانونی معاملہ ہے۔ یہ وہ کم سے کم حق ہے جس کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو بس خدا کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب ہی دی جا سکتی ہے، مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ درج بالا فقہی قیود کے بعد دیکھا جا سکتا ہے کہ زکوٰۃ کا دائرہ اس قدر محدود ہو جاتا ہے کہ فقہی تعریف پر پورا نہ اترنے والے حاجت مندوں اور اجتماعی نوعیت کے فلاحی کاموں کے لیے رقم کا بندوبست کرنے کے لیے مسلمانوں کے نظم اجتماعی (حکومت) کے لیے زکوٰۃ کے علاوہ بھی ٹیکس لگانا ناگزیر ہو جاتا ہے، جب کہ ایک مسلم حکومت زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور ٹیکس عائد کرنے کی مجاز نہیں، یا پھر ان کاموں کے لیے عوام سے اپیلیں کرنا پڑتی ہیں۔ ’’زکوٰۃ اسلامی معاشرے کے لیے بمنزلہ ریڑھ کی ہڈی کے ہے، لیکن اگر یہ واقعہ ہے کہ اس کے ذریعے سے کوئی اجتماعی نوعیت کا کام نہیں کیا جا سکتا اور غریبوں کی مجموعی بہبود کی اسکیمیں اس سے بروے کار نہیں لائی جاسکتیں، بلکہ ختم کی دیگ کی طرح اس کا وہیں تقسیم کر دیا جانا لازمی ہے جہاں یہ پکائی گئی ہے تو اس کی افادیت کم ازکم موجودہ زمانہ کے اقتصادی ماحول میں تو بمنزلۂ صفر ہو کے رہ جاتی ہے۔‘‘ (مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی ۱۲)

مسئلۂ تملیک

ہمارے فقہا زکوٰۃ میں تملیک کی شرط عائد کرتے ہیں، بلکہ وہ اسے زکوٰۃ کا رکن قرار دیتے ہیں۔ مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی لکھتے ہیں:

’’’’تملیک فقیر‘‘ زکوٰۃ کے لیے شرط ہی نہیں، بلکہ رکن ہے، بلکہ زکوٰۃ کی حقیقت ہی’’تملیک فقیر‘‘ہے۔ زکوٰۃ میں تملیک کا ضروری ہونا متفق علیہ ہے۔ کسی امام کا اس میں اختلاف بیان نہیں کیا گیا، بلکہ امام شافعی کی طرف تو یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ میں ’لام‘ ملک کے لیے ہے۔‘‘(مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی ۸) 

حیرت اس پر ہے کہ تملیک کے اس استدلال کے لیے دین و شریعت میں کوئی ماخذ موجود نہیں۔ اِس وجہ سے ہمارے نزدیک زکوٰۃ جس طرح فرد کے ہاتھ میں دی جاسکتی، اُسی طرح اُس کی بہبود کے کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے۔

تملیک کے استدلال پر زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکا ہے تو وہ یہ ہے کہ سورہ توبہ (۹) کی آیت ۶۰ میں ’لِلْفُقَرَآءِ‘ میں لام تملیک یا عاقبت، یعنی انجام فعل کے لیے آیا ہے جو تملیک کا ہی فائدہ دیتا ہے، یعنی زکوٰۃ فقرا و مساکین کی ملک بنانے کے لیے ہے یا زکوٰۃ اس لیے ہے کہ فقرا و مساکین وغیرہ کو دی جائے تاکہ وہ اس کے مالک بن سکیں۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ ’ایتاء‘ اور ’تصدق‘، یعنی دینا یا صدقہ کرنا، اس کا نتیجہ تملیک ہی ہوتا ہے، جب آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں تو تملیک کر دیتے ہیں۔ گویا، ہم کہہ سکتے ہیں کہ تملیک کا یہ استدلال ایک فقہی استنباط ہے۔ قرآن و سنت یا حدیث میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی اس پر استدلال درست نہیں۔ آپ اورآپ کے عمال زکوٰۃ کی وصولی کے بعد اکثر اسے فوراً تقسیم کر دیتے یا یہ بیت المال میں لا کر تقسیم کر دی جاتی تھی۔ اُس دور میں زکوٰۃ کا مال زیادہ تر اجناس ہوتی تھیں۔ ان کا مصرف یہی تھا کہ جلد ہی مستحقین کے حوالے کر دی جائیں۔ نیز تمام محاصل بیت المال میں جمع کیے جاتے تھے، لیکن ایسی کوئی تصریح نہیں ملتی کہ زکوٰۃ کے محصول کو الگ رکھا اور برتا جاتا تھا۔ چنانچہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زکوٰۃ کی تملیک کرنا کوئی شرعی قاعدہ ہے، نہ اس کا کوئی قانونی بیان موجود ہے۔

انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک استنباط کو استنباط ہی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے، جو درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اسے اس مسئلہ کی واحد شرعی تعبیر کی صورت میں پیش کرنا حد سے تجاوز ہے۔ دوسری بات یہ کہ کوئی اگر دلیل کی بنیاد پر اس سے اختلاف کرے تو اسے شریعت سے انحراف نہیں سمجھا جا سکتا۔

اس بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ سورۂ توبہ کی آیت مذکورہ میں آنے والا لام دو وجہ سے تملیک کے لیے نہیں ہے: ایک تو اس لیے کہ لام کے دیگر استعمالات بھی ہیں، اسے لام تملیک قرار دینے کے لے جو مضبوط قرینہ درکار ہے، وہ یہاں دستیاب نہیں۔ بلکہ سیاق و سباق اس کے خلاف جاتے ہیں۔ متعلقہ آیت اپنے سیا ق و سباق کے ساتھ ملاحظہ کیجیے:

وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْھَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْھَآ اِذَاھُمْ یَسْخَطُوْنَ. وَلَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَرَسُوْلُہٗٓ اِنَّآ اِلَی اللّٰہِ رٰغِبُوْنَ. اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ.(التوبہ ۹: ۵۸۔۶۰) 
’’اِن میں ایسے بھی ہیں، (اے پیغمبر) جو صدقات (کی تقسیم)کے معاملے میں تم پر عیب لگاتے ہیں۔ (یہ وہ لوگ ہیں جنھیں لالچ نے تمھارے ساتھ باندھ رکھا ہے)۔ چنانچہ اگر اُس مال میں سے اِنھیں دیا جائے تو راضی رہتے ہیں اور نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ (اِن کے لیے کہیں بہتر ہوتا)، اگر یہ اُس پر راضی رہتے جو اللہ اور اُس کے رسول نے اِنھیں دیا تھا اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے۔ اللہ آگے اپنے فضل سے ہم کو بہت کچھ دے گا اور اُس کا رسول بھی۔ ہمیں تو اللہ چاہیے۔ اِنھیں بتا دو کہ) صدقات تو درحقیقت فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن کے لیے جو اُن کے نظم پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے۔ نیز اِس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان زدوں کے سنبھالنے میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘
’’دیکھیے، یہاں اوپر والی آیت میں ذکر ان منافقین کا تھا جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن ظن اور سوء ظن تمام تر اغراض پر مبنی تھا۔ اگر خیرات کے مال میں سے ان کی خواہش کے بقدر انھیں مل جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب خوب تعریفیں کرتے اور خواہش کے بقدر نہ ملتا تو آپ کو متہم کرنے سے بھی باز نہ رہتے۔ آپ پر بے جا جانب داری اور ناروا پاس داری کا الزام لگاتے اور لوگوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کرتے پھرتے۔ غور کیجیے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات کیا ہو سکتی ہے، یہ کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کسی فقیر کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے یا یہ کہ زکوٰۃ و خیرات کی رقموں کے اصلی حق دار اور مستحق فلاں فلاں قسم کے لوگ ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات یہ دوسری ہی ہو سکتی ہے، نہ کہ پہلی۔ چنانچہ مفسرین میں سے جن لوگوں کی نظر سیاق و سباق پر رہتی ہے، انھوں نے آیت کی یہی تاویل کی بھی ہے۔ صاحب کشاف ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قصر لجنس الصدقات علی الاصناف المعدودۃ وانھا مختصۃ بھا لا تتجاوزھا الی غیرھا کانہ قیل انما ھی لہم لا لغیرھم ونحوہ قولک انما الخلافۃ لقریش ترید لا تتعداھم ولا تکون لغیرھم.(الکشاف ۲/ ۲۶۹) 
’’یہاں صدقات و زکوٰۃ کو مذکورہ اقسام پر محدود کر دیا گیا ہے اور یہ کہ یہ انھی کے لیے خاص ہے۔ دوسروں کی طرف یہ چیز منتقل نہیں ہو سکتی۔ گویا یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ چیز انھی کے لیے ہے، ان کے ماسوا لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ تم کہو: ’اِنَّمَا الْخِلَافَۃُ لِقُرَیْشٍ‘ (خلافت تو بس قریش کے لیے ہے) یعنی یہ ان کے سوا دوسروں کا حق نہیں ہے۔‘‘‘‘(مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی ۱۹۔۲۰)

دوسرا یہ کہ عطا یا صدقہ کرنے سے تملیک کرنا لازمی نہیں ہوجاتا۔ مثلاً کھانا پکا کر کھلانا، یا حاجت مندوں کے مفت علاج کے لیے خدمات مہیا کرنا۔ یہ بھی دوسروں پر ’ایتاء‘ اور ’تصدق‘ ہی دینا اور صدقہ کرنا ہی ہے اور اس میں شخصی تملیک بھی نہیں۔ اگر حقیقت میں ایسا ہوتا تو ’اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ‘ (اور ہم نے ان کو کتاب دی)، اور ’اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا‘ (اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی) میں تملیک کا مفہوم لینا پڑتا جو کہ درست نہیں۔(ملخص مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی ۲۳)

تیسری وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں پہلے چار مصارف زکوٰۃ حرف لام کے تحت آئے ہیں، لیکن بقیہ چار حرف ’فِیْ‘ کے ساتھ آئے ہیں۔ ’فی‘ میں تملیک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس میں افادیت اور خدمت و مصلحت کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’واللّٰہ في عون العبد ما کان العبد في عون أخیہ‘ (جب تک کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے کام میں یا اس کے مصالح کی خدمت میں لگا رہتا ہے، اللہ اس کے مصالح میں اس کی مدد کرتا رہتا ہے)۔ چنانچہ پوری آیت کی ایسی تاویل ہی درست ہوسکتی ہے جو لام اور ’فی‘ کے مدلول میں کوئی تضاد پیدا نہ کرے۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے چار مصارف میں تو تملیک سمجھی جائے اور دوسری چار میں تملیک نہ سمجھی جائے۔ اس بنا پر لام کا بھی وہی مطلب درست ہو سکتا ہے جو ’فی‘ کے مخالف نہ ہوں، اور لام کے استعمالات میں یہ مفہوم موجود ہے۔ ہمارے نزدیک یہاں لام استحقاق کے مفہوم کے لیے ہے یا انتفاع و افادہ کے مفہوم کے لیے۔ یعنی زکوٰۃ فقرا و مساکین وغیرہ کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ کلام کا سیاق و سباق بھی جیسا کہ پیشتر عرض کیا گیا،اسی کی تائید کرتا ہے۔(ملخص مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی ۲۰ا۔۱۲۱)

چوتھی دلیل یہ ہے کہ یہاں ’الصَّدَقٰت‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس میں زکوٰۃ اور عام صدقات، سب شامل ہیں۔ یہ دراصل حکومت کو حاصل ہونے والا ریوینیو ہے، نہ کہ محض زکوٰۃ۔ یہ مصارف بھی صرف زکوٰۃ کے نہیں، بلکہ تمام صدقات کے ہیں۔ عام صدقات میں تملیک فقیر کو ضروری نہیں سمجھا گیا، زکوٰۃ کے معاملے میں بھی یہ ضروری نہیں سمجھا جائے گا۔

یہ مسئلہ حل ہو جانے کے بعد وہ تمام فقہی تکلفات برتنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو زکوٰۃ کے انتظامات کرنے والے اداروں کو نہایت درجے انتظامی مشکلات سے گزرنا پڑتاہے، اور دوسری طرف بہت سے اجتماعی نوعیت کے ایسے فلاحی کام بھی وجود پذیر نہیں ہو پاتے جن میں فرد کی تملیک ممکن نہیں ہوتی اور پھر ان کے لیے الگ سے ٹیکسز یا اپیلیں کرنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح حاجت مندوں کو مفت سروسز بھی فراہم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ تملیک کی شرط کے بغیر زکوٰۃ کے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال سے عوامی بہبود زیادہ موثر طریقے سے ممکن ہے۔ خدا کے دین کا منشا بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔

مصارف زکوٰۃ

سورۂ توبہ کی آیت ۶۰ میں جو لفظ ’الصَّدَقٰت‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں عام صدقات کے علاوہ زکوٰۃ بھی شامل ہے۔ یہ دراصل مملکت کا وہ تمام ریوینیو ہے جو مملکت کو حاصل ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے زکوٰۃ اور دیگر صدقات کے مصارف میں کوئی فرق نہیں ہے۔

i۔ فقیر و مسکین

مصارف زکوٰۃ میں فقیر اور مسکین کی تعریف میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے، لیکن یہ بات مشترک ہے کہ دونوں سے مراد سماج کے حاجت مند طبقات ہیں۔ ہمارے نزدیک اس کی سادہ تعریف یہ ہے:

’’فقیر سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جو کمانے، ہاتھ پاؤں مارنے، زندگی کے لیے جدوجہد کرنے کا دم داعیہ تو رکھتے ہیں، لیکن مالی احتیاج ان کے راستہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہوتی ہے۔ اور مسکین سے وہ طبقہ مراد ہوتا ہے جو مسلسل غربت اور احتیاج کا شکار رہنے کے سبب سے جدوجہد کرنے اور مشکلات پر قابو پانے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھتا ہے اور اس کے اوپر دل شکستگی اور مسکنت طاری ہو جاتی ہے۔
زکوٰۃ کا اولین مصرف یہ ہے کہ سوسائٹی کے ان دونوں طبقات کو اٹھانے کی کوشش کی جائے۔اس اٹھانے میں جس طرح یہ بات شامل ہو گی کہ ان کی جسمانی ضروریات کھانا، کپڑا، اور مسکن فراہم کی جائیں، اسی طرح ان کی عقلی اور اخلاقی ترقی کے لیے یہ بھی ضروری ہو گا کہ ان کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ جس طرح یہ لازمی ہے کہ ان کی وقتی احتیاج رفع کی جائے، اسی طرح یہ بھی غالباً ضروری ہے کہ ان کو مفلسی اور بدحالی کی دلدل سے نکالنے کی مستقل تدبیریں اختیار کی جائیں تاکہ وہ اپنی ذاتی جدوجہد اور اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر سوسائٹی کے اندر با عزت زندگی بسر کر سکیں اور مستقلاً دوسروں پر بار بنے رہنے کے بجائے دوسروں کے بوجھ اٹھانے کے قابل ہو سکیں۔ ان مقاصد کے پیش نظر زکوٰۃ کی مد سے ان کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان بھی مہیا کیا جاسکتا ہے، ان کے لیے تعلیمی اور تربیتی ادارے بھی کھولے جا سکتے ہیں، ان کے لیے دارالمطالعے اور کتب خانے بھی قائم ہو سکتے ہیں، ایسے صنعتی ادارے بھی ان کے لیے جاری کیے جا سکتے ہیں، جن میں ان کے بچے مختلف قسم کی صنعتیں سیکھ کر مستقبل میں اپنے اوپر اعتماد کرنے کے قابل بن سکیں۔ اسی طرح ان کے علاج کے لیے ایسے شفاخانے بھی کھولے جا سکتے ہیں جہاں بوقت ضرورت ان کو مفت دوا حاصل ہو سکے۔ جہاں ان کی عورتوں کو ولادت کے موقع پر مفت طبی امداد حاصل ہو سکے۔ علیٰ ہٰذا القیاس، ان کے مردوں کی تجہیز و تکفین کا انتظام بھی کیا جا سکتا ہے اور ان کے زندوں اور مردوں کے قرضے بھی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض صورتوں میں تملیک ہو گی، بعض صورتوں میں نہیں ہو گی، لیکن زکوٰۃ کا نفع ہر صورت میں اصلاً غربا ہی کو پہنچے گایا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ اجتماعی تملیک بہرحال غربا ہی کی ہو گی۔ اور اوپر ہم بتا چکے ہیں کہ اگر استدلال کی بنیاد ’ایتاء‘ کے لفظ پر ہے تو یہ لفظ اجتماعی تملیک کے لیے قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے۔‘‘ (مسئلۂ تملیک، مولاناامین احسن اصلاحی ۳۷ ۔ ۳۸)

فقہی ضوابط کی بے جا قانون سازی نے صورت حال یہ پیدا کر دی ہے کہ جب تک کوئی شخص مفلسی کی آخری حد نہ چھو لے، ہمارے فقہا کے نزدیک زکوٰۃ کا مستحق قرار نہیں پاتا۔آج ہم جس سماج میں رہتے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ موبائل فون اور ٹی وی، جیسی چیزیں ضروریات میں شامل ہو چکی ہیں، لیکن ہمارے فقہا ابھی تک انھیں ضروریات کے زمرے میں شامل کرنے پر تیار نہیں۔

ٹی وی کے معاملے کو دیکھیے، اس کے تین بڑے مقاصد ہیں: تفریح، تعلیم اور معلومات تک رسائی۔ یہ تینوں چیزیں انسان کی بنیادی ضرورت ہیں۔ اگر طلبا کی تعلیم پر خرچ کرنا زکوٰۃ کا جائز مصرف ہے تو ٹی وی بھی اب یہی کردار ادا کر رہا ہے۔ ٹی وی کی اسی افادیت کی بنا پر علما اب خود بھی درس اور وعظ کے لیے اس پر رونق افروز رہتے ہیں۔ رہا اس کے سوء استعمال کا مسئلہ، تو اس کا امکان کس چیز میں نہیں؟ مثلاً سواری کی گاڑی جسے نصاب سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، کیا اسے کسی برے مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا؟

یہی حال موبائل فون کا ہے، وہ اب صرف حال احوال پوچھنے یا گپ شپ لگانے کا ذریعہ ہی نہیں، اپنوں کے ساتھ جڑے رہنے اور ان کی خیریت کے بارے میں باخبر رہنے کا ذریعہ ہے۔ کسی مشکل یا مصیبت میں پھنس جائیں تو اپنوں یا پولیس یا ایمبولنس وغیرہ کی بروقت مدد اس سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

زیورات اور زائد از ضرورت مالیت رکھنے والی دیگر چیزیں جو بعض اوقات کسی فوری ضرورت کے رفع کرنے میں صرف نہیں کی جا سکتیں، ان کے ہوتے ہوئے بھی ایسی حاجت مندی پیدا ہو جاتی ہے کہ ایسے افراد کی مدد زکوٰۃ کی مد سے کی جا سکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدمیں اپنے عمال کو یہ حکم دیا تھا کہ:

’’أعطوا من الصدقۃ من ابقت لہ السنۃ غنمًا ولا تعطوھا من ابقت لہ السنۃ غنمین.(کتاب الاموال۱/ ۶۶۹) 
’’صدقہ کے مال سے ان کی مدد کرو جن کا قحط سے صرف ایک ریوڑ بچ رہا ہو۔ ان کی مدد نہ کرو جن کے پاس دو ریوڑ بچ رہے ہوں۔‘‘
روایت میں لفظ ’غنم‘ کاہے۔ ’غنم‘ سے مراد بکریوں کا ایک ریوڑ ہوتا ہے جو کم و بیش سو بکریوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ سو بکریاں اس حد احتیاج سے بہت زیادہ ہیں جن میں آدمی زکوٰۃ کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اتنی بکریوں کی موجودگی میں تو اس سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے، لیکن اگر قحط یا سیلاب یا کسی دوسری آفت کے سبب سے کسی کا گلہ یا اس کے مویشی تباہ ہو جائیں اور اس کے پاس صرف سو بکریاں بچ رہیں تو وہ بحیثیت ایک غارم کے مستحق ہے کہ حکومت اسلامی صدقات کے فنڈ سے اس کو سہارا دے تاکہ وہ اپنے کاروبار کو سنبھالے رکھ سکے۔‘‘ (مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی ۴۸) 

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی پرکوئی آفت آ پڑے تو اس کے پاس موجود مال یا قابل وصول قرض، کمیٹی اور پراویڈنٹ فنڈ تک کا حساب کرنے نہیں بیٹھ جانا چاہیے، کہ جب تک وہ اپنی زائد از ضرورت اشیا سے دست کش یا محروم ہو کر بالکل محتاج نہ ہو کر رہ جائے، اس کی مدد نہ کی جائے۔ ایسے ریاضیاتی فارمولے دینی معاملات اور دینی امور کے اطلاقات میں تباہ کن اور دین کے مزاج کے خلاف ہیں۔ سماج کوئی ریاضیاتی مسئلہ ہے اور نہ شریعت اس کے مسائل اس انداز میں حل کرتی ہے۔ مسئلہ انسان کی مجبوری اور ضرورت کو رفع کرنا ہے۔ اگر آپ کا ضمیر اس پر اطمینان محسوس کرتا ہے کہ ایسے کسی ضرورت مند کو زکوٰۃ کے بجاے عام صدقہ سے مدد کی جا سکتی ہے تو جان لیجیے کہ اس کی مدد زکوٰۃ سے کرنا بھی اسی طرح درست ہے۔ البتہ زکوٰۃ لینے والے کو حتی المقدور خود داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنے وسائل کو کام میں لانا چاہیے تاکہ سماج کے زیادہ محروم طبقات محروم نہ رہ جائیں۔

مسلم اور غیر مسلم فقیر کا امتیاز

قرآن مجید کے الفاظ ’الْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰکِیْنِ‘ کی تعمیم مسلم و غیر مسلم کے استثنیٰ کو بھی قبول نہیں کرتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ایک روایت کے الفاظ سے ایسا سمجھ لیاگیا ہے، مگر ہمارے نزدیک وہ بھی ایسے کسی قانون کا بیان نہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:

تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ وَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِم. (بخاری، رقم ۱۳۹۵) 
’’زکوٰۃ ان کے اغنیا سے لی جائے گی اور ان کے فقرا کی طرف لوٹا دی جائے گی۔‘‘

اس روایت سے یہ سمجھا گیا ہے کہ چونکہ زکوٰۃ مسلمانوں سے ہی لی جاتی ہے، اس لیے جب لوٹانے کی بات کی گئی ہے تو اس سے بھی مسلمان ہی مراد ہیں، لیکن روایت میں ایسی کوئی تصریح نہیں، نہ روایت کا اسلوب اس کی کوئی قطعی شہادت دیتا ہے۔ اس روایت میں جب یہ کہا گیا کہ ان کے خوش حال لوگوں سے زکوٰۃ لی جائے تو اس میں تو یہ پہلے سے طے ہے کہ وہ مسلمانوں سے لی جائے گی، کیونکہ یہ فرض ہی مسلمان پر ہوتی ہے، لیکن جب یہ کہا گیا کہ زکوٰۃ ان کے فقرا کی طرف لوٹائی جائے گی تو اس میں زیرِ بحث فقر ہے مسلمانی نہیں۔ ان کے فقرا میں غیر مسلم بھی شامل ہو سکتے ہیں، اگر ان کا استثنیٰ بتانا ہوتا تو اس موقع پر واضح کر دیا جاتا۔ یہ استثنیٰ ان الفاظ سے نہیں نکلتا۔ دوسری بات یہ کہ اسلام کے عمومی مزاج سے بھی یہ بات ہم آہنگ نہیں کہ وہ دنیاوی منفعت کے معاملات میں غیر مسلموں سے امتیاز برتے۔ تیسری بات یہ کہ جب اجتماعی بہبود کے کاموں میں بھی زکوٰۃ خرچ کی جائے گی، جیسا کہ ہم نے ثابت کیا کہ تملیک فقیر کی کوئی شرط نہیں ہے، تو اس کا فائدہ غیر مسلم شہریوں کو بھی لامحالہ ملے گا۔

سید اور ہاشمی کی تمیز

قرآن مجید میں مصارف زکوٰۃ کی آیت کے الفاظ کی تعمیم سید اور ہاشمی خاندان کے افراد کے استثنیٰ کو بھی قبول نہیں کرتی۔ درست بات یہ ہے کہ ان کے حاجت مندوں کی مدد بھی زکوٰۃ کی مد سے کی جا سکتی ہے۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے اور اپنے خاندان کے لوگوں کے لیے زکوٰۃ کے مال میں سے کچھ لینے کی ممانعت فرمائی تھی تو اِس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ تھی کہ اموال فے میں سے ایک حصہ آپ کی اور آپ کے اعزہ واقربا کی ضرورتوں کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔ اس وجہ سے زکوٰۃ کی مد سے ان کے حاجت مندوں کے لیے مزید فائدہ حاصل کرنا ریاست کے انتظامی اختیار کے تحت منع کر دیا گیا تھا۔ یہ حصہ بعد میں بھی ایک عرصے تک باقی رہا، اس لیے وہ زکوٰۃ وصول نہیں کرتے تھے۔ لیکن اِس طرح کا کوئی اہتمام، ظاہر ہے کہ ہمیشہ کے لیے نہ ہوسکتا ہے اور نہ اُسے کرنے کی ضرورت ہے۔لہٰذا بنی ہاشم کے فقرا و مساکین کی ضرورتیں بھی زکوٰۃ کے اموال سے اب بغیر کسی تردد کے پوری کی جاسکتی ہیں۔‘‘ (میزان، جاوید احمد غامدی ۳۵۰)

ii۔ ’عاملین علیہا

ہمارے فقہا نے اس مد کو عموماً محکمہ زکوٰۃ و عشر کے ملازمین، جو زکوٰۃ کی جمع و تقسیم پر مامور ہوتے ہیں، تک محدود کیا ہے کہ ان کا حق خدمت، یعنی تنخواہ زکوٰۃ کی مد سے ادا کی جائے گی۔ اس کام کا مجاز محکمہ حکومت کے زیر انتظام ہی چل سکتا ہے، اور وہی ان ملازمین کو زکوٰۃ کی مد سے تنخواہ دے سکتی ہے۔ اس بنا پر فقہا ایسی غیر سرکاری تنظیموں کے ملازمین کو زکوٰۃ کی مد سے تنخواہ دینے کو درست نہیں سمجھتے جو اپنے اعتماد پر لوگوں سے زکوٰۃ وصول کر کے عوام کی فلاح میں خرچ کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کا کام، یعنی زکوٰۃ اکٹھا کرنا اور اسے اس کے مصارف میں خرچ کرنا، درست ہے تو ان خدمات پر تنخواہ لینا کس بنا پر درست نہیں؟ جس بنیاد پر انھیں اس خدمت کے لیے جواز دیا گیا ہے، اسی بنا پر حق خدمت لینا جائز کیوں نہیں ہو سکتا؟ ایسے کتنے رضاکار مل سکتے ہیں جو بلا معاوضہ کام کریں۔ معیشت کی تنگی کے اس دور میں لوگ ایک ملازمت اور ایک تنخواہ سے اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں، وہاں یہ شرط عائد کرنا کہ اس دینی فریضہ کی ادائیگی کے لیے وہ اپنا وقت تو لگائیں، لیکن اپنی روزی روٹی کے لیے کوئی دوسرا ذریعہ اختیار کریں، یہ نہ صرف زیادتی ہے، بلکہ اس دینی فریضہ کی تکمیل میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔ یہ مطالبہ تو صحابہ سے نہیں کیا گیا۔ انھیں بھی اپنے اس کام کا معاوضہ دیا جاتا تھا، کجا آج اس کے لیے رضاکار ڈھونڈے جائیں۔

اس مسئلے کو ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ غیر سرکاری تنظیمیں حکومت کی اجازت سے کام کرتی ہیں، اس لحاظ سے اس معاملے میں وہ حکومت کی نائب ہیں۔ چنانچہ جس طرح وہ زکوٰۃ کی جمع و تقسیم میں حکومت کی نائب ہیں، اسی طرح زکوٰۃ کی مد سے اپنے ملازمین کے حق خدمت مقرر کرنے میں بھی اس کی نائب ہو سکتی ہیں۔ اس معاملے میں انھیں خدا سے ڈرنے کی نصیحت ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ حدود سے تجاوز نہ کریں۔

جیسا کہ پیش تر عرض کیا گیا، ایک مسلم ریاست کی اصل اور مستقل آمدنی زکوٰۃ و عشر اور زمین کا کرایہ ہی ہے، اوراس کا کام حاصل شدہ آمدنی کو عوام کی بہبود پر خرچ کرنا ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کی آٹھوں مدات دراصل سماجی فلاح کے تمام زمروں کو شامل ہیں، جیسا کہ آگے کی سطور میں بھی ہم دکھائیں گے،اس لحاظ سے ریاست کے تمام ادارے اور اس کے تما م ملازمین دراصل ’عاملین علیہا‘ میں شامل ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں سماج کی بہبود میں حکومت کو حاصل ہونے والی آمدنی خرچ کرتے ہیں۔ ’’ریاست کے تمام ملازمین درحقیقت ’العاملین علی أخذ الضرائب وردھا إلی المصارف‘ (ٹیکس وصول کرنے والے اور اس آمدنی کو اس کے مصارف میں خرچ کرنے والے) ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ نہایت بلیغ تعبیر ہے جو قرآن نے اِس مدعا کو ادا کرنے کے لیے اختیار کی ہے۔اِس میں شبہ نہیں کہ لوگ بالعموم اِسے سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، لیکن اِس کی جو تالیف ہم نے بیان کی ہے، اُس کے لحاظ سے دیکھیے تو اِس کا یہ مفہوم بادنیٰ تامل واضح ہوجاتا ہے۔‘‘ (میزان، جاوید احمد غامدی ۳۴۹)

iii۔ ’الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ

’’زکوٰۃ کا تیسرا مصرف مؤلفۃ القلوب ہیں۔ ابن کثیر نے مؤلفۃ القلوب کی مندرجہ ذیل قسمیں گنائی ہیں:
۱۔ ایسے غیر مسلم لیڈر اور سردار جن کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو۔
۲۔ ایسے با اثر نو مسلم جن کے اسلام سے پھر جانے کا اندیشہ ہو اور جن کا ارتداد اسلام اور مسلمانوں کے لیے مضر ہو سکتا ہو۔
۳۔ ایسے با اثر لیڈر جن کی تالیف قلب ان کے ہم چشموں کو اسلام کی طرف مائل کرنے میں مددگار ہو سکتی ہو۔
۴۔ ایسے سردار جو اپنے علاقہ میں اسلامی حکومت کو مالیہ کی وصولی میں مدد دیں اور سرحدی علاقوں کو دشمن کے خطرات سے محفوظ رکھنے میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں۔
...صفوان بن امیہ کو تو کفر پر باقی رہتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے عطیے دیے،یہاں تک کہ خود ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ حنین کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا اور اس وقت میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی دوسرا مبغوض نہ تھا، لیکن آپ برابر دیتے رہے، یہاں تک کہ پھر آپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی دوسرا محبوب نہ رہا۔
مذکورہ ناموں اور مذکورہ مقاصد پر ایک نظر ڈال کر ہر شخص خود اندازہ کر سکتا ہے کہ یہ خرچ ایک بالکل پولیٹیکل خرچ ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو جو سیاسی اہمیت اور پولیٹیکل اثر و اقتدار رکھتے ہیں، اسلام اور اسلامی حکومت کے حق میں ہموار کیا جائے اور اگر وہ اسلام کے اندر(کسی نوعیت سے سہی) داخل ہو چکے ہیں تو ان کو اسلام پرمضبوط کیا جائے۔‘‘ (مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی۳۹۔ ۴۰)

یعنی ہم یہ نتیجہ اطمینان قلب سے نکال سکتے ہیں کہ زکوٰۃ کی مد اسلام اور مسلمانوں کے مفادمیں تمام سیاسی اخراجات کے لیے ادا کی جائے گی۔ یعنی ’’وہ لوگ ہیں جن کی اسلامی حکومت کے مصالح کے تحت دل داری پیش نظر ہو۔ بسا اوقات حکومت کو بعض ایسے ذی اثر لوگوں سے معاملہ کرنا پڑتا ہے جو حکومت کی پوری رعیت نہیں ہوتے، بلکہ ایسی پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ اگر ان کو بزور قابو میں رکھنے کی کوشش کی جائے تو ڈر ہوتا ہے کہ وہ دشمن سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچائیں۔ خاص طور پر سرحدی علاقوں میں اس طرح کے لوگوں سے بڑے خطرے پہنچ سکتے ہیں اگر یہ دشمن بنے رہیں یا دشمن ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ اس طرح کے لوگوں کو اپنی حمایت میں رکھنا اسلامی حکومت کے مصالح کا تقاضا ہوتا ہے اور اس کی شکل یہی ہوتی ہے کہ ان کی کچھ مالی سرپرستی کی جاتی رہے تاکہ ان کی ہمدردیاں اسلام کے دشمنوں کی بجائے اسلامی حکومت کے ساتھ رہیں۔ یہ ایک پولیٹیکل مصرف ہے جس پرحکومت اپنی دوسری مدوں سے بھی خرچ کرسکتی ہے اور اگر ضرورت محسوس کرے تو اس پر صدقات کی مد سے بھی خرچ کر سکتی ہے۔ یہ مؤلّفۃ القلوب غیر مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور نام کے مسلمان بھی۔ اس تالیف قلب سے ایک فائدہ یہ بھی متوقع ہوتا ہے کہ یہ غیر مسلم یا نام کے مسلمانوں سے وابستہ رہنے کے سبب سے اسلام سے قریب تر ہو جائیں۔ ہمارے فقہاء کا ایک گروہ اس مصرف کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یا بالفاظ دیگر اسلام کے غلبہ کے بعد ساقط قرار دیتا ہے، لیکن ہمارے نزدیک یہ بات کچھ زیادہ قوی نہیں ہے۔ یہ مصرف، جیسا کہ ہم نے اشارہ کیا، ایک پولیٹیکل مصرف ہے جو حالات کے تابع ہے، جس کی ضرورت کبھی پیش آتی ہے، کبھی نہیں۔ ایک مضبوط سے مضبوط حکومت بھی بعض اوقات دفع شر کے اس طریقے کو اختیار کرتی ہے، اس لیے کہ جبر اور طاقت کا ذریعہ اختیار کرنے میں نہایت پیچیدہ بین الاقوامی جھگڑے اٹھ کھڑے ہونے کے اندیشے ہوتے ہیں جن میں بروقت الجھنا حکومت کے مصالح کے خلاف ہوتا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۵۹۱)

iv۔’فِی الرِّقَابِ

’’اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس سے مراد ہر طرح کے غلام ہیں یا صرف وہ غلام مراد ہیں جو اپنے آقاؤں سے ایک متعینہ رقم کی ادائیگی کی شرط پر اپنی آزادی کا اقرار حاصل کر لیتے ہیں،جن کو اصطلاح میں مکاتب کہتے ہیں۔ احناف اور شوافع کے نزدیک اس سے صرف مکاتب مراد ہیں۔ لیکن ابن عباس، حسن بصری، امام مالک، امام احمد بن حنبل، ابوثور، ابو عبید اور امام بخاری وغیرہ کے نزدیک یہ دونوں قسم کے غلاموں کے لیے عام ہے۔ ان کے نزدیک صدقات کی رقم سے ایک غلام کو خرید کر آزاد کرنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ مکاتب کی اعانت کے مقابل میں اولیٰ و افضل ہے۔ لیکن احناف اور شوافع کے نزدیک صدقات کی مد سے مکاتب کی اعانت تو کی جا سکتی ہے، لیکن کسی غلام کو مستقلاً خرید کر آزاد نہیں کیا جا سکتا۔مجھے اس معاملہ میں امام مالک اور امام احمد بن حنبل کا مذہب زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے۔ اول تو اس سبب سے کہ اس بحث میں سارا مدار سخن حرف لام پر ہے، تھوڑی دیر کے لیے مان لیجیے کہ وہ تملیک ہی کے مفہوم کے لیے خاص ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ ’الرقاب‘ پر وہ کہاں داخل ہے۔ یہاں سے تو اب ’فی‘ کا دخل شروع ہو جاتا ہے اور اس کے بعد جتنے مصارف بیان ہوئے ہیں، سب ’فی‘ ہی کے تحت ہیں۔ ’فی‘ کے متعلق یہ دعویٰ کوئی بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے اندر بھی تملیک کے مفہوم کا کوئی شائبہ پایا جاتا ہے۔ اس کے اندر تو جیسا کہ اوپر گزرا مصلحت، مفاد اور بہبود کا مفہوم پایا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ زکوٰۃ غلاموں کی بہبود اور ان کو آزاد کرنے کے لیے صرف کی جا سکتی ہے، قطع نظر اس سے کہ تملیک پائی جائے یا نہیں۔ ثانیاً ،یہ کہ ہم مانے لیتے ہیں کہ تملیک کا مفہوم ’فی‘ کے اندر بھی گھسا ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک غلام کو اس کے مالک سے خرید کر آزاد کر دیتے ہیں تو اس میں تملیک کیوں نہیں پائی جاتی؟ اگر ایک مسکین کو زکوٰۃ کے پیسوں سے روٹی خرید کر دے دیں تو اس صورت میں تملیک پائی جائے گی یا نہیں۔ اسی طرح اگر ایک شخص کو ہم اس کی آزادی خرید کر اس کے حوالہ کر دیتے ہیں تو آخر اس میں تملیک کیوں نہیں پائی گئی؟ یہ ہم نے اس مفروضہ پر عرض کیا ہے کہ تملیک کا مفہوم ’فی‘ کے اندر بھی لے لیا جائے، لیکن ہمارے نزدیک، جیسا کہ عرض کیا گیا ، یہ صحیح نہیں ہے۔ ’فی‘ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ صدقات و زکوٰۃ غلاموں کی بہبود اور ان کی آزادی کی مہم میں صرف کیے جا سکتے ہیں۔اگر کوئی مکاتب اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے کے لیے اعانت کا طالب ہے تو آپ اس کو بھی دے سکتے ہیں اور اگر آپ خود کسی غلام کو خرید کر اس کو آزاد کرنا چاہیں تو یہ بھی بے تکلف کر سکتے ہیں، بلکہ خدانخواستہ کسی جنگ کے نتیجہ کے طور پردنیا میں پھر غلامی کا مسئلہ ہو جائے اور خدمت انسانیت کے نصب العین کو سامنے رکھ کر ایسی انجمنیں قائم ہوں جو ان غلاموں کی آزادی اور ان کی سود وبہبود کے لیے وسیع پیمانہ پر تحریک چلائیں تو اس تحریک پر بھی صدقات و زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنے میں کوئی مضایقہ نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ (مسئلۂ تملیک، مولانا امین احسن اصلاحی ۴۴)

v۔ ’الْغَارِمِیْنَ

’’زکوٰۃ و صدقات کا مال غارمین کی امداد میں بھی خرچ کیا جا سکتا ہے۔ غارمین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی کاروباری اتار چڑھاؤ یا حالات کی نا مساعدت کے سبب سے قرضے کے نیچے دب گئے ہوں۔ یا کسی آفت ارضی و سماوی، سیلاب یا قحط نے ان کے گلہ یا باغ یا کھیتی یا سرمایہ یا مکانات یا کاروبار کو تباہ کر دیا ہو یا انھوں نے اصلاح ذات البین (فریقین کے درمیان صلح کرانے) کے ارادہ سے دوسروں کی کوئی مالی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہو۔
اس طرح کے لوگوں کی امداد اس نقطۂ نظر سے کی جائے گی کہ یہ معاشرہ کے کماؤ اور قابل افراد ہیں، ان کو گرنے اور تباہ ہونے سے بچایا جائے تاکہ یہ جس چکر میں آگئے ہیں، اس سے نکل کر پھر اپنی صلاحیتوں سے قوم اور معاشرہ کو بہرہ مند کر سکیں۔ ان کی امداد ان کے فقر یا ان کی مسکنت کی بنا پر نہیں کی جائے گی۔ اگر اس بنا پر کی جانی ہوتی تو ان کا ذکر ایک مستقل عنوان سے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ پھر تو یہ فقرا اور مساکین کے زمرہ میں آپ سے آپ آجاتے ۔ اس وجہ سے ان لوگوں کی احتیاج کے ناپنے کا پیمانہ اس سے بالکل مختلف ہو گا جو فقرا اور مساکین کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے دلائل ملاحظہ ہوں:
کتب عمر بن عبد العزیز أن اقضوا عن الغارمین فکتب إلیہ إنا نجد الرجل لہ المسکن، والخادم والفرس والأثاث فکتب عمر أنہ لا بد للمرء المسلم من مسکن یسکنہ، وخادم یکفیہ مھنتہ، وفرس یجاھد علیہ عدوہ ومن أن یکون لہ الأثاث في بیتہ. نعم فاقضوا عنہ. (کتاب الاموال ۵۵۶) 
’’حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے عمال کو یہ فرمان لکھا کہ زیر باروں (غارمین) کے قرضے ادا کیے جائیں۔ ان کے عمال کی جانب سے ان کو یہ اطلاع دی گئی کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس مکان موجود ہے، نوکر موجود ہے، گھوڑا موجود ہے، گھر میں فرنیچر اور اثاثہ موجود ہے۔ کیا ایسے لوگوں کے قرضے بھی اتارے جائیں؟ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جواب میں لکھا کہ ایک مسلمان کے لیے ایک مکان جس میں وہ رہ سکے، ایک نوکر جو اس کا ہاتھ بٹا سکے، ایک گھوڑا جس پر وہ اپنے دشمن سے مقابلہ کر سکے اور گھر میں کچھ سروسامان تو ناگزیر چیزیں ہیں۔ اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ ہاں، ان لوگوں کے قرضے بھی ادا کرو۔‘‘
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عمال کو یہ شبہ ہوا تھا کہ غارمین جب تک فقر کی اس حد کو نہ پہنچ جائیں جو فقرا و مساکین کے لیے مقرر ہے، اس وقت تک صدقات کی مد سے ان کے قرضے یا ان کی ذمہ داریاں نہیں ادا کی جا سکتی ہیں، لیکن حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے جواب سے یہ بات صاف کر دی کہ اس طبقہ کا صرف فقر دور کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ اس کو اٹھانا مقصود ہے۔ اس وجہ سے اس کی احتیاج کو اس پیمانہ سے نہ ناپو جس پیمانہ سے فقرا و مساکین کی احتیاج کو ناپتے ہو۔‘‘(مسئلۂ تملیک ۴۶)

vi۔ ’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ

’’یہ ایک جامع اصطلاح ہے جس کے تحت جہاد سے لے کر دعوت دین اور تعلیم دین کے سارے کام آتے ہیں۔ وقت اور حالات کے لحاظ سے کسی کام کو زیادہ اہمیت حاصل ہو جائے گی، کسی کو کم جس کام سے بھی اللہ کے دین کی کوئی خدمت ہو، وہ ’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ کے حکم میں داخل ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۳/ ۵۹۳)

قرآن میں ’فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ‘ کن مفاہیم میں استعمال ہوا ہے، ملاحظہ کیجیے:

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ.(البقرہ۲: ۱۵۴)

یہاں جہاد و قتال فی سبیل اللہ مراد ہے۔

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ. قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّ مَغْفِرَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ یَّتْبَعُھَآ اَذًی وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ.(البقرہ۲: ۲۶۲۔۲۶۳) 
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ، پھر جو کچھ خرچ کیا ہے ، اُس کے پیچھے نہ احسان جتاتے ہیں ، نہ دل آزاری کرتے ہیں، اُن کے لیے اُن کے پروردگار کے ہاں اُن کا اجر ہے اور اُن کے لیے نہ وہاں کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ کبھی غم زدہ ہوں گے۔ ایک اچھا بول اور (ناگواری کا موقع ہو تو) ذرا سی چشم پوشی اُس خیرات سے بہتر ہے جس کے ساتھ اذیت لگی ہوئی ہو۔ اور (تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ اِس طرح کی خیرات سے) اللہ بے نیاز ہے۔ (اِس رویے پر وہ تمھیں محروم کر دیتا، لیکن اُس کا معاملہ یہ ہے کہ اِس کے ساتھ) وہ بڑا بردبار بھی ہے۔‘‘

اس سے مراد عام لوگوں پر صدقہ و خیرات کرنا ہے۔

لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ.(البقرہ۲: ۲۷۳) 
’’یہ (صدقہ و خیرات، بالخصوص)اُن غریبوں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں گھرے ہوئے ہیں ، (اپنے کاروبار کے لیے) زمین میں کوئی دوڑ دھوپ نہیں کر سکتے۔‘‘

یہ اشارہ ان مہاجرین کی طرف ہے جن کے ٹھکانے اور ذریعۂ معاش کا بندوبست نہ ہو سکا تھا۔ ان کی یہ مجبوری ہجرت کے سبب ہوئی تھی جو خدا کے دین کے لیے کی گئی تھی۔ اسی طرح دین کی نشرو اشاعت اور تعلیم و تعلم کی مصروفیات میں وقف مستحق افراد کی مالی مدد بھی زکوٰۃ سے کی جا سکتی ہے۔ یہ سب سبیل اللہ میں شامل ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ لِیَصُدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ.(الانفال ۸: ۳۶)
’’جن لوگوں نے کفر کیا، وہ اپنا مال اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے روکیں۔‘‘

یہاں ’سبیل اللہ‘ سے مراد اسلام بہ حیثیت مجموعی مراد ہے۔

گویا سبیل اللہ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے۔اس میں دینی امور سے متعلق نیکی اور بھلائی کے تمام کام شامل ہیں۔

vii۔ ’وَابْنِ السَّبِیْلِ

’’’وَابْنِ السَّبِیْلِ‘ اس کا مستقل ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ مسافر، مجرد مسافر ہونے کی بنا پر اس بات کا حق دار ہوتا ہے کہ صدقات سے اس کو فائدہ پہنچایا جائے۔ مسافرت اس کو ایسی حالت میں ڈال دیتی ہے کہ قانونی اور اصطلاحی اعتبار سے فقیر نہ ہونے کے باوجود بھی وہ ایک اجنبی جگہ میں اپنی بعض ضروریات کے لیے ایسا محتاج ہوتا ہے کہ اگر اس کی دست گیری نہ کی جائے تو وہ اپنے ذاتی ذرائع سے غریب الوطنی میں ان کا کوئی انتظام نہیں کر سکتا۔ اس طرح کے لوگوں کے لیے سرائیں، مسافر خانے، قیام و طعام، سڑکیں، پلیں وغیرہ کی تعمیر اور رہنمائی کے مراکز قائم کرنا بھی ان کاموں میں شمار ہے جن پر صدقات سے خرچ کیا جا سکتا ہے، یہ امر ملحوظ رہے کہ یہ بھی ’فی‘ کے تحت بیان ہوا ہے جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ مسافروں کی سہولت اور آسائش کے تمام ضروری کام اس میں شامل ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن ۳/ ۵۹۳) 

امید کی جاتی ہے کہ علما اور عوام زکوٰۃ کی اس تفہیم پر غور کریں گے اور اس کے درست استعمال کی طرف متوجہ ہوں گے تاکہ خدا کا دین اور زکوٰۃ کے بارے میں اس کی اسکیم پوری طرح فعال ہو کر فرد اور سماج کی بہبود میں کام آ سکے۔

____________

B