بسم اللہ الرحمن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَھَلْ اَتٰکَ حَدِےْثُ مُوْسٰی(۹) اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِےْکُمْ مِّنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًی(۱۰)
فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ ےٰمُوْسٰی(۱۱) اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَےْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی(۱۲) وَاَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا ےُوْحٰی(۱۳) اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ(۱۴) اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِےَۃٌ اَکَادُ اُخْفِےْھَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا تَسْعٰی(۱۵) فَلَا ےَصُدَّنَّکَ عَنْہَا مَنْ لَّا ےُوْمِنُ بِھَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ فَتَرْدٰی(۱۶)
وَمَا تِلْکَ بِےَمِےْنِکَ ےٰمُوْسٰی(۱۷) قَالَ ھِیَ عَصَایَ اَتَوَکَّؤُا عَلَےْھَا وَاَھُشُّ بِھَا عَلٰی غَنَمِیْ وَلِیَ فِےْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی(۱۸) قَالَ اَلْقِھَا ےٰمُوْسٰی(۱۹) فَاَلْقٰھَا فَاِذَا ھِیَ حَےَّۃٌ تَسْعٰی(۲۰) قَالَ خُذْھَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِےْرَتَھَا الْاُوْلٰی(۲۱) وَاضْمُمْ ےَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَےْضَآءَ مِنْ غَےْرِ سُوْٓءٍ اٰےَۃً اُخْرٰی(۲۲) لِنُرِےَکَ مِنْ اٰےٰتِنَا الْکُبْرٰی(۲۳)
اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی(۲۴) قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ(۲۵) وَےَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ(۲۶) وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ(۲۷) ےَفْقَھُوْا قَوْلِیْ(۲۸) وَاجْعَلْ لِّیْ وَزِےْرًا مِّنْ اَھْلِیْ(۲۹) ھٰرُوْنَ اَخِی(۳۰) اشْدُدْ بِہٖٓ اَزْرِیْ(۳۱) وَاَشْرِکْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ(۳۲) کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِےْرًا(۳۳) وَّنَذْکُرَکَ کَثِےْرًا(۳۴) اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِےْرًا(۳۵) قَالَ قَدْ اُوْتِےْتَ سُؤْلَکَ ےٰمُوْسٰی(۳۶)
وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَےْکَ مَرَّۃً اُخْرٰٓی(۳۷) اِذْ اَوْحَےْنَآ اِلٰٓی اُمِّکَ مَاےُوْحٰٓی(۳۸) اَنِ اقْذِ فِےْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِ فِےْہِ فِی الْےَمِّ فَلْےُلْقِہِ الْےَمُّ بِالسَّاحِلِ ےَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہٗ وَاَلْقَےْتُ عَلَےْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَےْنِیْ(۳۹) اِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُکَ فَتَقُوْلُ ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ ےَّکْفُلُہٗ فَرَجَعْنٰکَ اِلٰٓی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَےْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ(۴۰)
وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰکَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنّٰکَ فُتُوْنًا فَلَبِثْتَ سِنِےْنَ فِیْٓ اَھْلِ مَدْےَنَ ثُمَّ جِءْتَ عَلٰی قَدَرٍ ےّٰمُوْسٰی(۰۴) وَاصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ(۴۱)
تمھیں کچھ موسیٰ کی سرگذشت بھی پہنچی ہے۹؎؟ جب اُس نے (دور) ایک شعلہ دیکھا تو اپنے گھر والوں سے کہا۱۰؎: تم لوگ ذرا ٹھیرو، مجھے آگ سی دکھائی دی ہے۱۱؎۔ (میں وہاں جاتا ہوں)، شاید اُس میں سے تمھارے لیے ایک آدھ انگارا لے آؤں یا آگ پر (بیٹھے ہوئے لوگوں سے) مجھے راستے کا کچھ پتا مل جائے۱۲؎۔۹-۱۰
پھر جب وہ اُس کے پاس پہنچا تو آواز آئی: اے موسیٰ، یہ تو میں تمھارا پروردگار ہوں، سو اپنے جوتے اتار دو۱۳؎، اِس لیے کہ تم طویٰ۱۴؎ کی مقدس وادی میں ہو۔اورمیں نے تمھیں منتخب کر لیا ہے، لہٰذا جو وحی کی جا رہی ہے، اُس کو توجہ سے سنو۱۵؎۔ اِس میں شبہ نہیں کہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۱۶؎۔ سو میری ہی بندگی کرو ۱۷؎اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو۱۸؎۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت ضرور آنے والی ہے۱۹؎ میں اُس کو چھپائے رکھنے کو ہوں۲۰؎ اِس لیے آنے والی ہے کہ ہر شخص کو اُس کے عمل کا بدلہ دیا جائے۲۱؎۔ چنانچہ کوئی ایسا شخص جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشوں کا پیرو ہے، تم کو نماز سے۲۲؎ روک نہ دے کہ تم ہلاک ہو جاؤ۔۱۱-۱۶
اور یہ تمھارے ہاتھ ۲۳؎میں کیا ہے۲۴؎، اے موسیٰ!اُس نے کہا: یہ میری لاٹھی ہے، میں اِس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اِس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں۲۵؎ اور اِس میں میرے کچھ دوسرے کام بھی ہیں۲۶؎۔ فرمایا: اِس کو (زمین پر) ڈال دو، اے موسیٰ! اِس پر موسیٰ نے لاٹھی کو (زمین پر) ڈال دیا تو کیا دیکھتا ہے کہ وہ ایک سانپ ہے جو دوڑ رہا ہے۔ فرمایا: اِس کو اٹھا لو اور ڈرو نہیں، ابھی ہم اِس کو ویسا ہی کر دیں گے، جیسی یہ پہلے تھی۔ اور اپنے ہاتھ کو (ذرا)تم اپنے بازو کی طرف سکیڑو، وہ بغیر کسی بیماری کے۲۷؎ سفید ہو کر نکلے گا، ایک دوسری نشانی کے طور پر۲۸؎۔ یہ اِس لیے کہ (اِن کے ذریعے سے) ہم اپنی کچھ بڑی بڑی نشانیاں تمھیں دکھائیں۲۹؎۔۱۷-۲۳
(اچھا،اب) فرعون کے پاس جاؤ،۳۰؎وہ بہت سرکش ہو گیا ہے۳۱؎۔ موسیٰ نے عرض کیا۳۲؎: پروردگار، تو میرا سینہ کھول دے۳۳؎ اور میرے کام کو میرے لیے آسان بنا دے۳۴؎ اور میری زبان کی گرہ سلجھا دے کہ لوگ میری بات کو سمجھیں۳۵؎۔ اور میرے خاندان سے تو میرے لیے ایک وزیر مقرر کر دے۔ ہارون کو، جو میرا بھائی ہے۳۶؎۔ اُس کے ذریعے سے تو میری کمر کو مضبوط کر اور اُس کو میری ذمہ داری میں شریک بنا دے۳۷؎ کہ ہم زیادہ سے زیادہ تیری تسبیح و تقدیس کریں اور زیادہ سے زیادہ تیرا چرچا پھیلائیں۳۸؎۔ بے شک، تو برابر ہمارے حال پر نگران رہا ہے۳۹؎۔ فرمایا: تمھاری درخواست منظور ہوئی، اے موسیٰ!۴۰؎ ۲۴-۳۶
اور(یاد کرو)، ہم تمھارے اوپر ایک مرتبہ اور بھی احسان کر چکے ہیں، جب ہم نے تمھاری ماں کو وہ بات الہام کی تھی ۴۱؎جو (اِس وقت تمھیں) وحی کی جا رہی ہے۴۲؎ کہ اِس بچے کو صندوق میں رکھو، پھر صندوق کو دریا میں ڈال دو۴۳؎۔ پھر دریا اُس کو کنارے پر ڈال دے۴۴؎ کہ اُس کو وہ شخص اٹھا لے جو میرا بھی دشمن ہے اور اِس بچے کا بھی دشمن ہے۴۵؎۔ اور میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت کا ایک پرتو ڈال دیا تھا تاکہ وہ بھی شفقت کے لیے مجبور ہو جائے۴۶؎ اور تاکہ تم میری نگرانی میں پالے جاؤ۴۷؎۔ اُس وقت جب تمھاری بہن (اجنبی بن کر)بار بار جاتی، پھر اُن سے کہتی تھی۴۸؎ کہ (تم کہو تو) میں تمھیں اُن لوگوں کا پتا دوں جو اِس بچے کی پرورش کریں؟ اِس طرح ہم نے تم کو تمھاری ماں کی طرف لوٹا دیا کہ اُس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور اُس کو غم نہ رہے۴۹؎۔۳۷-۴۰
اور (یاد کرو کہ) تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا۵۰؎۔ پھر ہم نے تم کو اِس غم سے بھی نجات دی۵۱؎ اور تم کو خوب خوب جانچا۵۲؎۔ پھر (ہماری عنایت سے) تم کئی سال مدین کے لوگوں میں رہے۵۳؎۔ پھر ٹھیک ایک اندازہ کیے ہوئے وقت پر (یہاں) پہنچ گئے ہو، اے موسیٰ!۵۴؎ اور (اب اِن سب مراحل سے گزار کر) میں نے تمھیں اپنے (اِس کارِ خاص کے) لیے تیار کر لیا ہے۵۵؎۔۴۰-۴۱
۹؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر صفات الہٰی کے حوالے سے جو تسلی دی گئی ہے، یہ اُسی کے حقائق اب موسیٰ علیہ السلام کی سرگذشت سے سمجھنے کی تشویق ہے۔ مدعا یہ ہے کہ جو کچھ بتایا گیا ہے، اُسے آپ ایک جلیل القدر پیغمبر کی زندگی اور دعوت کی جدوجہد میں بھی دیکھ لیں جو آپ ہی کی طرح خدا کی کتاب اور شریعت کے ساتھ اپنے مخاطبین کے لیے خدا کا فیصلہ لے کر مبعوث ہوئے تھے۔
۱۰؎ یہ اُس وقت کا قصہ ہے جب موسیٰ علیہ السلام چند سال مدین میں گزارنے کے بعد اپنی بیوی کو لے کر مصر جا رہے تھے۔ قرآن میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ کے ہاتھوں ایک مصری ہلاک ہو گیا تھا اور وہ اِس اندیشے سے کہ اُن کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہیں ہو گا، مصر سے بھاگ کر مدین میں پناہ گزین ہو گئے تھے۔ وہاں اُن کی شادی ہوئی اور اپنے خسر کے ساتھ قراردادہ مدت پوری کرنے کے بعد اب اُن کے لیے ممکن ہو گیا تھا کہ وہ واپس اپنے لوگوں کے پاس چلے جائیں۔
۱۱؎ اصل میں لفظ ’اٰنَسْتُ‘ استعمال ہوا ہے۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اُنھوں نے آگ کا کوئی جلتا ہوا الاؤ نہیں، بلکہ ایک شعلہ سا دیکھا تھا جو اچانک چمکا اور غائب ہو گیا اور اُن کے سوا شاید کسی اور کو نظر بھی نہیں آیا۔
۱۲؎ دوسری جگہ تصریح ہے کہ وہ یہ انگارا اِس لیے لانا چاہتے تھے کہ اپنے اہل و عیال کو رات بھر گرم رکھنے کا کچھ سامان کر سکیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ یہ سردی کا زمانہ تھا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ جب وہ وادی طور کے پاس پہنچے تو رات ہو چکی تھی اور اُنھیں راستے کا بھی کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔
۱۳؎ اِس سے واضح ہے کہ خدا کی بارگاہ میں جوتے اتار کر حاضر ہونا تواضع کے آداب میں سے ہے، لہٰذا عام حالات میں اِسی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
۱۴؎ یہ اُس میدان کا نام ہے جو کوہ سینا کے دامن میں واقع ہے۔ اِس کو مقدس اِس لیے کہا گیا ہے کہ یہاں حضرت موسیٰ اپنے پروردگار کی تجلی اور اُس کے کلام سے نوازے گئے۔ اللہ تعالیٰ زمین کے کسی ٹکڑے یا کسی علاقے کو اپنے لیے خاص کر لیں تو اُس کو تقدس حاصل ہو جاتا ہے۔ سرزمین فلسطین کو قرآن کی سورۂ مائدہ (۵) میں اِسی بنا پر ’الْاَرْضُ الْمُقَدَّسَۃُ‘ کہا گیا ہے۔
۱۵؎ اِس لیے کہ جس منصب پر تم سرفراز کیے گئے ہو، وہ ایک عظیم ذمہ داری ہے اور تمھیں اُس ذمہ داری کو ہر حال میں پورا کرنا ہے۔
۱۶؎ ہر نبی کو سب سے پہلے یہی تعلیم دی گئی، اِس لیے کہ تمام دین کا انحصار اِسی عقیدے پر ہے۔
۱۷؎ توحید پر ایمان کے بعد دین کا پہلا حکم یہی ہے کہ جب اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں تو پھر عبادت بھی اُسی کی ہونی چاہیے۔ اِس عبادت کے بارے میں ہم جگہ جگہ بیان کر چکے ہیں کہ اِس کی حقیقت خضوع اور تذلل ہے جس کا اولین ظہور پرستش کی صورت میں ہوتا ہے۔ پھر انسان کے عملی وجود کی رعایت سے یہی پرستش اطاعت کو شامل ہو جاتی ہے۔ پہلی صورت کے مظاہر تسبیح و تحمید، دعا و مناجات، رکوع و سجود، نذر، نیاز، قربانی اور اعتکاف ہیں۔دوسری صورت میں آدمی کسی کے لیے خدائی اختیارات مانتا اور مستقل بالذات شارع و حاکم کی حیثیت سے اُس کے ہر حکم پر سرتسلیم خم کرتا ہے۔ اللہ، پروردگار عالم کا فیصلہ ہے کہ اِن میں سے کوئی چیز بھی اُس کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ہو سکتی۔
۱۸؎ ایمانیات میں جو حیثیت توحید کی ہے، وہی اعمال میں نماز کی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات الٰہی کی تذکیر سے خدا کی جو معرفت حاصل ہوتی اور اُس سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت اور شکر گزاری کے جو جذبات انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں یا ہونے چاہییں، اُن کا پہلا ثمرہ یہی نماز ہے۔
۱۹؎ اثبات قیامت کے پہلو بہ پہلو اُس کی قطعیت پر یہ زور اِس لیے ہے کہ بالعموم لوگ اُس کو مستبعد سمجھتے رہے ہیں۔ اُنھیں کسی طرح باور نہیں آتا کہ مرنے کے بعد جب مٹی ہو جائیں گے تو دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔
۲۰؎ یہ الفاظ آیت کے بیچ میں بطور جملۂ معترضہ کے آئے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... یہ جملۂ معترضہ نہایت بلیغ ہے۔ صرف یہ نہیں فرمایا کہ میں قیامت کو چھپائے رکھوں گا، بلکہ فرمایا کہ قریب ہے کہ میں اُس کو چھپا ئے ہی رکھوں۔ عربیت کاذوق رکھنے والے اندازہ کر سکتے ہیں کہ لفظ ’اَکَادُ‘ سے جملے کے اندر یہ مضمون پیدا ہو گیا ہے کہ ہرچند میں نے تو ابھی قیامت پر پردہ ڈال رکھا ہے اور یہ پردہ ابھی ڈالے ہی رکھوں گا، لیکن خود قیامت کا یہ حال ہے کہ وہ بے نقاب ہو جانے کے لیے بالکل بے قرار ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۳۳)
۲۱؎ یہ قیامت کا مقصد بیان کر دیا ہے کہ وہ اِس لیے اٹل اور شدنی ہے کہ لوگوں کو اُن کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ کارخانۂ ہستی کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے، اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پھر اِس میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے عمل ہی کا بدلہ پائے اور کسی کی سفارش و شفاعت یا رشتہ و پیوند اُس کے بارے میں خدا کے فیصلے پر اثر انداز نہ ہو سکے۔ آیت میں ’بِمَا تَسْعٰی‘کا لفظ اِسی حقیقت کو واضح کرتا ہے۔
۲۲؎ اصل میں ’ھَا‘کی ضمیر ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ اِس کا مرجع بھی قیامت ہی کو ہونا چاہیے، مگر زبان کا ذوق رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اِس کے لیے ’یَصُدَّنَّ‘ کا فعل کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ چنانچہ یہ اِس بات کا واضح قرینہ ہے کہ اِس کا مرجع نماز ہے جس کا ذکر پیچھے ہو چکا ہے۔ پھر روکنے والے کی جو صفات بیان ہوئی ہیں، وہ بھی ترک نماز کے ساتھ لازم و ملزوم کا رشتہ رکھتی ہیں۔ اِس طرح کے قرائن موجود ہوں تو ضمیر کا انتشار کوئی عیب نہیں ہے، بلکہ اِس سے، اگر غورکیجیے تو کلام میں ایجاز کا حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہودکی بدقسمتی ہے کہ اُنھوں نے نماز بھی ضائع کر دی اور آخرت کو بھی بھلا بیٹھے، دراں حالیکہ اُن کے پیغمبر کو سب سے پہلے اِنھی دو چیزوں کی تعلیم دی گئی تھی۔
۲۳؎ اصل میں لفظ ’یَمِیْن‘ آیا ہے۔ یہ دائیں بائیں کے مفہوم سے مجرد ہو کر محض ہاتھ کے معنی میں بھی آتا ہے۔ یہاں قرینہ دلیل ہے کہ یہ اِسی معنی میں ہے۔
۲۴؎ یہ سوال طلب علم کے لیے نہیں، بلکہ التفات و نوازش کے اظہار کے لیے ہے تاکہ حضرت موسیٰ اُس لاٹھی کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائیں جس سے حیرت انگیز معجزے ظہور میں آنے والے تھے۔
۲۵؎ پتے بالعموم درختوں سے اور بکریوں کے اوپر جھاڑے جاتے ہیں۔ آیت میں ’عَلٰی غَنَمِیْ‘ کے الفاظ اِسی رعایت سے آئے ہیں۔
۲۶؎ موسیٰ علیہ السلام جواب میں صرف اتنی بات بھی کہہ سکتے تھے کہ حضور، یہ لاٹھی ہے۔ مگر اُنھوں نے سوال کے انداز سے بھانپ لیا کہ التفات خاص کا موقع ہے، چنانچہ لمبا جواب دیا۔ گویا وہی صورت پیدا ہو گئی کہ ’لذیذ بود حکایت دراز تر گفتم‘۔استاذ امام کے الفاظ میں،مخاطب کرنے والا محبوب و مطلوب ہو تو گفتگو کو طویل کرنے کی خواہش ایک امر فطری ہے۔
۲۷؎ یہ اضافہ صاف واضح کر رہا ہے کہ یہاں بائیبل کی تردید مقصود ہے جس میں ہاتھ کی سفیدی کو برص بتایا گیا ہے۔
۲۸؎ یعنی اُسی طرح ایک نشانی کے طور پر جیسے عصا سانپ بن جائے گا۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ کسی بیماری کا شبہ نہیں ہو سکتا تھا، کیونکہ ہاتھ کی سفیدی مستقل نہیں تھی، بلکہ اُسی وقت ظاہر ہوتی تھی، جب اُسے ایک نشانی کے طور پر دکھانے کے لیے بغل میں ڈال کر نکالا جاتا تھا۔
۲۹؎ اشارہ ہے اُن بڑی بڑی نشانیوں کی طرف جو بعد میں اِنھی دو نشانیوں کے اندر سے ظاہر ہوتی رہیں۔ انبیا علیہم السلام کو معجزات بالعموم اُن کی دعوت کے مرحلہئ اتمام حجت میں دیے جاتے ہیں، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو یہ ابتدا ہی میں اِس لیے دے دیے گئے کہ وہ ایک منتقم و جبار اور سرکش بادشاہ کی طرف رسول بنا کر بھیجے جا رہے تھے جو آسانی کے ساتھ اُن کی کوئی بات سننے کے لیے آمادہ نہیں ہو سکتا تھا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...اللہ تعالیٰ نے شروع ہی میں اُن کو دو ایسے معجزوں سے مسلح کر دیا جن کی مدد سے وہ اپنے دشمن کی ہر تعدی سے محفوظ رہے اور اُنھوں نے فرعون کے سامنے جاتے ہی، جیسا کہ آگے کی آیات سے واضح ہو گا، اپنے اِن معجزات کا اظہار بھی کر دیا تاکہ وہ خبردار رہے کہ اگر اُس نے کوئی غلط اقدام کیا تو وہ بھی خالی ہاتھ نہیں آئے ہیں، بلکہ اُن کے ہاتھ میں بھی وہ عصا ہے جو ہر کبر و غرور کا سر پاش پاش کر دینے کے لیے بالکل کافی ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۳۶)
۳۰؎ مصر کے اصل باشندے قبطی تھے۔ اُن کی طرف بھیجنے کے بجاے یہ فرعون کی طرف جانے کی ہدایت اِس لیے کی گئی ہے کہ اُس وقت کے نظام میں بادشاہ کے دل و دماغ کو مفتوح کیے بغیر اُس کی رعایا تک دعوت پہنچانا کسی طرح ممکن نہیں تھا۔
۳۱؎ یہاں اجمال ہے، لیکن دوسرے مقامات میں قرآن نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ فرعون سورج دیوتا کے مظہر کی حیثیت سے خود رب اعلیٰ بنا ہوا تھا اور خدا کے بندوں پر اُس کے مظالم اِس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ بنی اسرائیل کے بیٹے قتل کر دیے جاتے تھے اور صرف لڑکیاں لونڈیوں کی خدمت انجام دینے کے لیے زندہ رکھی جاتی تھیں۔ موسیٰ علیہ السلام اِن سب چیزوں سے واقف تھے، بلکہ خود ظلم و عدوان ہی کے اندیشے سے جلا وطنی کی زندگی گزار کر آرہے تھے، اِس لیے قرآن نے صرف اشارے پر اکتفا کی ہے۔
۳۲؎ یہ اِس موقع پر موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے جس کی کوئی نظیر انبیا علیہم السلام کی تاریخ سے بھی پیش نہیں کی جا سکتی۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...اِس دعا کے لفظ لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اِس بوجھ کوکتنا بھاری محسوس کیا ہے اور کس دل سوزی کے ساتھ اِس بارگراں کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں اللہ تعالیٰ سے مدد و رہنمائی کے لیے التجا کی ہے۔ دنیا پرست لیڈروں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ لیڈری ہی کی ہوس میں جیتے اور اُسی کے عشق میں مرتے ہیں، لیکن حضرات انبیا علیہم السلام کا سینہ اِس ہوس سے بالکل پاک ہوتا ہے۔ اُن کو اللہ تعالیٰ جب امامت کے منصب پر مامور فرماتا ہے تو وہ اُس کی ذمہ داریوں کے تصور سے کانپ اٹھتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کہ جب اُس نے اُن پر یہ بوجھ ڈالا ہے تو وہی اُس کے اٹھانے کے لیے ہمت و قوت بخشے اور ہر قدم پر دست گیری و رہنمائی فرمائے۔“(تدبرقرآن۵/ ۳۷)
۳۳؎ موسیٰ علیہ السلام پر جس عظیم منصب کی ذمہ داری ڈالی جا رہی تھی، اُس کو سنبھالنے کے لیے جیسا کچھ اضطراب و تردد کسی فرض شناس آدمی کو ہو سکتا ہے، یہ اُس کو دور کرنے کی درخواست ہے اور اِس لیے کی گئی ہے کہ سینے کی یہ خلش اللہ تعالیٰ کے فضل و عنایت ہی سے دور ہوتی ہے۔
۳۴؎ پہلی درخواست دل و دماغ کے اندر کی خلش دور کرنے کے لیے تھی۔ یہ اب حالات کی مساعدت، راہ کی ہمواری اور پیش نظر مقصد کے حصول میں کامیابی کی درخواست ہے۔
۳۵؎ اُس زمانے میں دوسروں تک اپنی بات پہنچانے کا موثر ترین ذریعہ خطابت تھی۔ دوسری جگہ وضاحت ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کوئی زبان آور خطیب نہیں تھے۔ چنانچہ اُنھوں نے درخواست کی کہ جس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے اُنھیں بھیجا جا رہا ہے، اُس کے لیے اظہار و بیان کی قوت بھی عطا فرمائی جائے تاکہ اپنی دعوت کو وہ اِس طرح پیش کر سکیں کہ مخاطبین اُن کی بات کو سمجھیں اور وہ اُن کے دل و دماغ پر اثر انداز ہو۔ اُنھوں نے یہ درخواست، اگر غور کیجیے تو غایت درجہ تواضع کے اسلوب میں پیش کی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...حضرت موسیٰ نے یوں نہیں فرمایا کہ مجھے دلوں کو تسخیر کرنے والا ایک جادو بیان خطیب بنا دے، بلکہ نہایت خاکسارانہ انداز میں فرمایا کہ میری زبان کو وہ روانی عطا فرما کہ لوگ میری بات سمجھیں۔ یہ دعا کرنے کے لیے لکنت کا مریض ہونے کی ضرورت نہیں ہے،(جیسا کہ لوگوں نے بالعموم سمجھا ہے)، بلکہ ایک قادر الکلام بھی یہ دعا کرتا ہے اور اُسے کرنی چاہیے۔ بسااوقات معانی و حقائق کا جوش اِس طرح سینے میں امنڈتا ہے کہ ایک قادرالکلام آدمی بھی اپنی زبان اور اپنے قلم کو اُس کی تعبیر سے قاصر محسوس کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ کوعام لیڈروں کی طرح صرف نعرہ نہیں لگانا تھا، بلکہ دین کے حقائق و اسرار کی تفہیم کرنی تھی اور وہ بھی ایسے لوگوں کے سامنے جو نہ صرف اُن کی تکذیب پر ادھار کھائے بیٹھے تھے، بلکہ اُن کی جان کے دشمن تھے۔ پھر یہ بات بھی تھی کہ حضرت موسیٰ کو صرف چھدا اتارنے کی خواہش نہیں تھی، بلکہ وہ اپنے مخالفوں کے دل میں اتر جانے کا ارمان رکھتے تھے۔ مخالفوں سے تو یہ امید نہ تھی کہ اُن کے دل اور ہو جائیں گے،اِس لیے اُنھوں نے اپنے رب سے زبان ہی اور مانگی تاکہ اُن کو اپنی بات سمجھا سکیں۔“ (تدبرقرآن۵/ ۴۰)
۳۶؎ قرآن کے دوسرے مقامات میں تصریح ہے کہ یہ درخواست بھی اصلاً اُسی قوت کی تلافی کے لیے کی گئی تھی جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ یہودی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون علیہ السلام اپنی قوم میں فصاحت بیان کے لیے بڑی شہرت رکھتے تھے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی کہ جب میرا بڑا بھائی اُن تمام صفات سے متصف ہے جو پیش نظر ذمہ داری کو ادا کرنے میں معاون ہو سکتی ہیں تو اُسی کو میرا وزیر بنا دیا جائے۔ اِس سے واضح ہے کہ اپنے بھائی کو اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی وہ پوری طرح اِس منصب کا اہل سمجھتے تھے۔
۳۷؎ یعنی میں صرف ایک ساتھی نہیں چاہتا، بلکہ اپنے ساتھ ایک شریک نبوت چاہتا ہوں تاکہ اُسے بھی میری طرح براہ راست آپ کی رہنمائی اور آپ کی طرف سے عصمت حاصل ہو اور اِس فریضہئ نبوت کو وہ بھی اپنے آپ کو مسؤل اور ذمہ دار سمجھ کر ادا کرے۔ یہ درخواست غیر معمولی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کسی نبی کے بارے میں معلوم نہیں ہے کہ ایک دوسرا نبی اُس کا وزیر بنایا گیا ہو۔
۳۸؎ مدعا یہ ہے کہ اپنے علم و عمل اور انذار و تبلیغ میں صبح و شام ہر جگہ، خلوت ہو یا جلوت اِسی ذکرو تسبیح میں لگے رہیں، اِس لیے کہ یہی ایمان کا اظہار اور یہی فریضہئ نبوت کی ادائی ہے۔آیت میں اِس کے لیے دو لفظ، ایک تسبیح اور دوسرا ذکر استعمال ہوئے ہیں۔ استاذ امام نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”... تسبیح میں تنزیہہ کا پہلو غالب ہے اور ذکر میں اثبات کا اور یہ نفی و اثبات، دونوں خدا کے ساتھ صحیح تعلق کو استوار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ جو چیزیں خدا کی شان، اُس کی صفات اور اُس کی مرضیات و احکام کے منافی ہیں، اُن کی نفی کی جائے اور جو چیزیں اُس کی شان، اُس کی صفات اور اُس کے احکام کے موافق ہیں، اُن کا اثبات و اظہار کیا جائے۔ اِن دونوں چیزوں سے مل کرمومن کا عقیدہ اور کردار بنتا ہے۔ اور نفی اثبات پرمقدم ہے۔ جب تک آپ ماسوی اللہ سے بغاوت کا اعلان نہیں کرتے، اُس وقت تک آپ اللہ کے وفادار نہیں ہو سکتے۔ ’اِلَّا اللّٰہ‘ سے پہلے ’لَا اِلٰہَ‘ کا اعلان ضروری ہے۔“(تدبرقرآن۵/ ۴۱)
۳۹؎ یہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی دعا کے حق میں خود اپنے پروردگار ہی کے فضل و کرم کو سفارش میں پیش کر دیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تیری شفقت بن مانگے ہم دونوں کو حاصل رہی ہے اور تو برابر ہمارے حال پر نگران رہا ہے۔پھر تیری عنایتوں سے اب کس طرح محروم ہو سکتے ہیں، جب کہ ہم تیری ہی دعوت لے کر اٹھ رہے ہیں؟
۴۰؎ سبحان اللہ، کیا شان کریمی ہے! استاذ امام لکھتے ہیں:
”...یہاں موسیٰ کے خطاب میں بھی بڑا پیار ہے اور منظوری کے الفاظ میں بھی بڑی شان جھلک رہی ہے۔ دعا کے ختم ہوتے ہی بشارت سنا دی گئی کہ تمھاری عرضی منظور! گویا بہ یک جنبش قلم، بلاکسی توقف اور بلا کسی استثنا کے سب منظور! ظاہر ہے کہ اِس منظوری میں اُن کی وہ دعا بھی شامل ہے جو اُنھوں نے اظہار و بیان کی قوت بخشے جانے کے لیے کی۔ وہ بھی اُن کو عطا ہوئی اور حضرت ہارون اُن کے وزیر بھی بنا دیے گئے۔“(تدبرقرآن۵/ ۴۲)
۴۱؎ اِس الہام کی نوعیت، ظاہر ہے کہ یہی رہی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بات اُن کے دل میں ڈال دی اور اُنھیں اطمینان بھی ہو گیا کہ یہ خدا کی ڈالی ہوئی بات ہے، ورنہ ایک ماں کے لیے اِس طرح کا اقدام آسان نہیں تھا۔ اِس کے بعد بھی، نہیں کہا جا سکتا کہ اُنھوں نے کس دل و جگر سے اور کس طرح کلیجے پر پتھر رکھ کر اپنی اِس متاع عزیز کو دریا کی موجوں کے سپرد کیا ہو گا۔
۴۲؎ موسیٰ علیہ السلام کو یہ بات اُن کی والدہ ماجدہ نے ضرور بتائی ہو گی، لیکن اِس کے اندر دست غیب کی جو کارفرمائیاں تھیں، اُن کی طرف اب اُنھیں وحی کے ذریعے سے توجہ دلائی جا رہی ہے۔
۴۳؎ یہ ہدایت اِس لیے کی گئی کہ فرعون نے اُس زمانے میں اسرائیلی بچوں کے قتل کا حکم دے رکھا تھا۔ سورۂ قصص (۲۸) کی آیت ۴ میں قرآن نے اِس کی صراحت فرمائی ہے۔ یہاں اِس واقعے کی یاددہانی سے مقصود یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کا اضطراب رفع کیا جائے کہ بغیر کسی تردد کے وہ فرعون کے پاس جائیں اور اطمینان رکھیں کہ جس خدا نے اُس وقت اُنھیں بچا لیا تھا، وہی اب بھی حفاظت فرمائے گا۔ وہ اُن کے ساتھ ہے، اِس لیے اُنھیں اِس مہم سے ہرگز کوئی اندیشہ محسوس نہیں کرنا چاہیے۔
۴۴؎ یعنی ایک طرف تمھاری ماں کے دل میں وہ بات ڈالی گئی اور دوسری طرف دریا کو بھی یہ حکم دے دیا گیا۔
۴۵؎ یہ حوالہ اِس لیے دیا گیا ہے کہ اب خدا اِسی دشمن سے موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کرانے والا تھا۔ چنانچہ قرآن اور بائیبل، دونوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی ہوا اور فرعون اور اُس کی بیوی نے نیل کے کنارے سیر کرتے ہوئے بچے کو صندوق میں دیکھا اور اِس خیال کے باوجود کہ یہ غالباً کوئی اسرائیلی بچہ ہے جسے قتل کے اندیشے سے تن بہ تقدیر دریا کی موجوں کے حوالے کر دیا گیا ہے، اُن کے دل میں ایسا رحم پیدا ہوا کہ اُنھوں نے اُسے اٹھا لیا۔
۴۶؎ یہ جملہ معللہ کا معطوف علیہ ہے جو اصل میں محذوف ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بچہ یوں بھی موہنا ہی ہوتا ہے، لیکن ہم نے مزید عنایت یہ کی کہ تمھاری حفاظت کے لیے تم پر اپنی طرف سے محبت کا ایک پرتو بھی ڈال دیا۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”... کون اندازہ کر سکتا ہے اُس بچے کے موہنے پن کا جس پر محبت الہٰی کا پرتو ہو! ایک ایسا موہنا بچہ جب وہ سرکنڈوں کی ایک ٹوکری میں، دریا کی موجوں کا پھینکا ہوا، یکہ و تنہا، معصومیت و دل آویزی کی مورت بنا ہوا پڑا ہو تو آخر کس کا دل اُس کو دیکھ کر تڑپ نہیں جائے گا! فرعون آخر فرعون ہی تھا، کوئی پتھر تو نہیں تھا۔“(تدبرقرآن۵/ ۴۴)
۴۷؎ یعنی محبت کا جوپرتو تم پر ڈالا گیا، وہ تمھارا محافظ بن جائے اور فرعون جیسا دشمن بھی شفقت کے لیے مجبور ہو جائے۔ آیت میں ’لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ‘ کے الفاظ سے اِسی حفاظت اور نگرانی سے تعبیر فرمایا ہے۔
۴۸؎ اصل میں مضارع کے صیغے استعمال ہوئے ہیں اور مضارع سے پہلے ایک فعل ناقص عربیت کے قاعدے سے محذوف ہے۔ ترجمے میں بار بار جانے کی صراحت اِسی بنا پر کی گئی ہے۔
۴۹؎ یہاں اجمال ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے دریا میں ڈالے جانے کے بعد اُن کی ماں کی طرف لوٹائے جانے کے لیے اللہ تعالیٰ کی یہ تدبیر سورۂ قصص (۲۸) کی آیات ۷-۱۳میں تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
”...جب فرعون کی بیوی نے بچے کو دیکھا تو اُنھوں نے فرعون سے کہا کہ بڑا موہنا بچہ ہے۔ اِس کو قتل نہ ہونے دو۔ یہ میری اور تمھاری، دونوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ یہ ہمارے کام آئے گا یا ہم اِس کو لے پالک بنا لیں گے۔ اِدھر والدہئ حضرت موسیٰ کا یہ حال تھا کہ اُنھوں نے بچے کو ایماے خداوندی سے دریا میں ڈال تو دیا، لیکن غم سے کلیجا پھٹا جا رہا تھا۔ اُنھوں نے حضرت موسیٰ کی بہن سے کہا کہ وہ دیکھتی رہیں کہ صندوق کدھر بہ کے جاتا ہے۔ وہ لوگوں کی نظر بچا کر اُس کو دیکھتی رہیں۔ بالآخر اُن کو معلوم ہو گیا کہ صندوق فرعون کے محل کے پاس پہنچا اور وہاں دریا نے اُس کو کنارے پر ڈال دیا اور فرعون اور اُس کی بیوی نے بچے کو اٹھا لیا۔ حضرت موسیٰ کی بہن فرعون کے محل میں پہنچیں۔ وہاں اُنھوں نے دیکھا کہ بچے کو کسی دایہ کا دودھ پلانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن بچہ مچلاہوا ہے، وہ کسی کی چھاتی منہ ہی سے نہیں لگاتا۔ حضرت موسیٰ کی بہن نے فرعون کی بیوی کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ اگر آپ لوگ کہیں تو میں ایک ایسے گھر والوں کا پتا دے سکتی ہوں جو اِس بچے کی نہایت اچھی طرح دیکھ بھال کریں گے اور بچے کو مانوس کر لیں گے۔ چونکہ حضرت موسیٰ کے دودھ نہ پینے کے سبب سے فرعون اور اُس کے گھر والوں کو نہایت پریشانی تھی، اِس وجہ سے یہ تجویز مان لی گئی اور اِس طرح حضرت موسیٰ پھر اپنی ماں کی آغوش میں پہنچ گئے۔“ (تدبرقرآن۵/ ۴۶)
۵۰؎ سورۂ قصص (۲۸) میں ہے کہ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے، جب حضرت موسیٰ جوانی کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور گاہے گاہے اپنی قوم کے حالات کو دیکھنے کے لیے فرعون کے محلات سے نکل کر شہر میں جاتے رہتے تھے۔ ایک دن اِسی طرح جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک اسرائیلی اور ایک قبطی آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ سے فریاد کی۔ وہ اُس کی مدد کے لیے آگے بڑھے تو قبطی اُن سے الجھ پڑا۔ اِس پر اُنھوں نے اُس کو ایک گھونسا مارا جو کہیں ایسا بے ڈھب پڑا کہ قبطی وہیں ڈھیر ہو کے رہ گیا۔
۵۱؎ یہ قتل اگرچہ بلا قصد ہوا تھا، مگر حضرت موسیٰ ایک خدا ترس آدمی تھے، لہٰذا سخت غم زدہ ہوئے کہ یہ کیا حادثہ ہو گیا ہے جس پر ہو سکتا ہے کہ مجھے خدا کے ہاں مسؤل ٹھیرایا جائے۔ پھر اُنھیں یہ تردد بھی تھا کہ ممکن ہے جس کو مظلوم سمجھ کر اُس کی حمایت میں یہ فعل اُن سے صادر ہوا، زیادتی اُسی کی رہی ہو۔ اِسی طرح یہ چیز بھی باعث غم ہوئی ہو گی کہ فرعونیوں سے انصاف کی توقع نہیں ہے، وہ لازماً اِسے قتل عمد ٹھیرائیں گے۔ چنانچہ سورۂ قصص (۲۸) ہی میں ہے کہ اُنھوں نے بہت استغفار کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی غلطی معاف کر دی اور وہ غم کی اِس حالت سے نکل آئے۔
۵۲؎ یعنی ہر طرح کی آزمایشوں سے گزارا تاکہ جس عظیم ذمہ داری کے لیے اُن کو منتخب کرنا مقصود ہے، وہ اُس کے پوری طرح اہل بن جائیں۔
۵۳؎ یعنی تم کو وہاں پناہ مل گئی، تمھارا گھر آباد ہوا اور تم فرعونیوں کی نگاہ میں ایک مجرم قرار پا جانے کے باوجود اُن کے تعاقب سے بچے رہے۔
۵۴؎ یعنی ٹھیک ہماری اسکیم اور ہمارے مقرر کیے ہوئے پروگرام کے مطابق پہنچ گئے ہو۔
۵۵؎ مطلب یہ ہے کہ اتنی بھٹیوں سے تپا کر اور اتنے امتحانوں میں ڈال کر تیار کر لیا ہے تو اب یہ ذمہ داری تم کو اٹھانی ہی ہے۔ اِن سب مراحل سے تم اِسی کے لیے گزارے گئے ہو۔
[باقی]
______________