HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانعام ۶: ۱- ۶ (۱)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ، ثُمَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ۔{۱} ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ طِیْنٍ ثُمَّ قَضٰٓی اَجَلًا وَاَجَلٌ مُّسَمًّی عِنْدَہٗ، ثُمَّ اَنْتُمْ تَمْتَرُوْنَ{۲} وَھُوَ اللّٰہُ فِی السَّمٰوٰتِ وَفِی الْاَرْضِ، یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَھْرَکُمْ، وَ یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْن{۳} وَمَا تَاْتِیْھِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ مِّنْ اٰیٰتِ رَبِّھِمْ اِلَّا کَانُوْا عَنْھَا مُعْرِضِیْنَ{۴} فَقَدْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ھُمْ، فَسَوْفَ یَاْتِیْھِمْ اَنْبٰٓؤُا مَاکَانُوْا بِہٖ یَسْتَھْزِئُ وْنَ{۵} اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَھْلَکْنَا مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ قَرْنٍ، مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّنْ لَّکُمْ، وَاَرْسَلْنَا السَّمَآئَ عَلَیْھِمْ مِّدْرَارًا وَّجَعَلْنَا الْاَنْھٰرَ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمْ، فَاَھْلَکْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَاَنْشَاْنَا مِنْ م بَعْدِھِمْ قَرْنًا اٰخَرِیْنَ{۶}
شکر اللہ ہی کے لیے ہے۱؎ جس نے زمین و آسمان بنائے، روشنی اور تاریکیاں پیدا کیں۔ پھر تعجب ہے کہ یہ منکرین اپنے پروردگار کے ہم سر ٹھیراتے ہیں۲؎ ! وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر (تمھارے لیے) ایک مدت ٹھیرا دی اور ایک دوسری مدت بھی ہے جو اُس کے ہاں مقرر ہے۳؎ ۔تعجب ہے کہ اِس کے بعد بھی کج بحثیاں کرتے ہو! وہی اللہ آسمانوں میں بھی ہے اور زمین میں بھی۔ وہ تمھارے کھلے اور چھپے سے واقف ہے اور جو کمائی تم کر رہے ہو، اُسے بھی جانتا ہے۴؎۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اُن کے پاس اُن کے پروردگار کی نشانیوں میں سے جو نشانی بھی آتی ہے، وہ اُس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ سو اُنھوں نے (اِس وقت بھی) حق کو جھٹلادیا ہے۵؎ ، جب کہ وہ اُن کے پاس آگیا ہے۔ اِس لیے عنقریب اُس چیز کی خبریں اُن کے پاس آجائیں گی جس کا وہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۶؎۔ کیا اُنھوں نے نہیں دیکھا کہ اُن سے پہلے کتنی قومیں ہم نے ہلاک کر دیں جنھیں زمین پر ہم نے وہ اقتدار بخشا تھا جو تمھیں نہیں بخشا ہے۷؎، اُن پر ہم نے خوب مینہ برسائے اور اُن کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر وہ جھٹلانے پر مصر رہے) تو اُن کے گناہوں کی پاداش میں بالآخر ہم نے اُنھیں ہلاک کر دیا اور اُن کے بعد اُن کی جگہ دوسری قوموں کو اٹھا کھڑا کیا۔۱-۶

 ۱؎ اصل میں لفظ ’اَلْحَمْدُ‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں یہ کسی کی خوبیوں اور کمالات کے اعتراف کے لیے بولا جاتا ہے۔ پھر اِن خوبیوں اور کمالات کا فیض اگر حمد کرنے والے کو بھی پہنچ رہا ہو تو اِس میں شکر کا مفہوم آپ سے آپ شامل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ سورۂ اعراف (۷) آیت ۴۳، سورۂ یونس (۱۰) آیت ۱۰ اور سورۂ ابراہیم (۱۴) آیت ۳۹ میں اِس کے نظائرسے واضح ہوتا ہے کہ ’اَلْحَمْدُلِلّٰہِ‘ کی ترکیب میں یہ بالعموم اُسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے ہم لفظ شکر سے ادا کرتے ہیں۔

۲؎ یہ مشرکین عرب کے مسلمہ سے استدلال فرمایا ہے کہ جب وہ زمین و آسمان اور نور و ظلمت سب کا خالق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے ہیں تو پھر کیسی عجیب بات ہے کہ اُسی کے شریک ٹھیرانے کی جسارت کرتے ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔شرک پر اظہار تعجب کا ایک پہلو تو یہی ہے کہ جب ساری چیزوں کا خالق خدا ہی ہے تو پھر شرک کی گنجایش کہاں سے نکلی؟ دوسرا پہلو یہ ہے کہ اِس کائنات کی چیزوں میں بظاہر جو تضاد نظر آتا ہے، مثلاً زمین اور آسمان، روشنی اور تاریکی، سردی اور گرمی ، تو اِس تضاد کے اندر اِس کائنات کے مجموعی مقصد کے لیے ایسی حیرت انگیز سازگاری بھی ہے کہ کوئی عاقل تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اِن میں سے ہر ایک کے خالق و مالک الگ الگ ہیں۔ بلکہ ہر صاحب نظر یہ ماننے پر مجبور ہے کہ پوری کائنات ایک ہی کارفرما کے ارادے اور مشیت کے تحت حرکت کر رہی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۱۷)

۳؎ مطلب یہ ہے کہ وہی خدا ہے جس نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا تم انکار نہیں کر سکتے۔ پھر یہ بھی جانتے ہو کہ ہر ایک کے لیے جینے کی ایک مدت مقرر کر دی گئی ہے۔ اِن حقائق کو سمجھتے ہو تو اِس بات میں شک کی گنجایش کہاں سے پیدا ہو جاتی ہے کہ جس خدا کو پہلی مرتبہ تمھیں مٹی سے پیدا کر دینے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی، وہ مرنے کے بعد اِسی مٹی سے تمھیں دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا؟ تم میں سے ہر ایک کے لیے موت ہے تو اِس بعث و نشر کے لیے بھی ایک دوسری مدت ہے جو اُسی نے مقرر کر رکھی ہے۔

۴؎ یعنی تمھارا یہ رویہ اگر اِس بھروسے پر ہے کہ زمین کا نظم و نسق کچھ دوسرے خدائوں کے سپرد ہے، تم اُن کے پرستار ہو، اِس لیے وہ تمھیں بخشوا لیں گے تو یہ غلط فہمی دور کر لو۔ زمین و آسمان دونوں کا خدا ایک ہی ہے اور دونوں میں اُسی کا حکم چل رہا ہے۔ تمھارے کھلے اور چھپے، سب احوال بھی اُس کے علم میں ہیں اور تمھارے اعمال سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ کسی میں یارا نہیں کہ اُس کے علم میں کوئی اضافہ کرسکے۔ متنبہ ہو جائو، اُس کی بارگاہ میں کسی شفاعت باطل کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔

۵؎  یہاں ’حق‘ سے قرآن مجید مراد ہے۔

۶؎ یعنی خدا کا عذاب جس کی وعید تمام رسولوں نے اپنی قوموں کو سنائی ہے۔

۷؎ اوپر جو دعویٰ کیا گیا ہے، یہ اُس پر تاریخ کی شہادت پیش کر دی ہے۔ سورئہ اعراف میں اِس کی تفصیلات آئیں گی جو اِس سورہ کے مثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔

[باقی]   

ـــــــــــــــــــــــــ

B