HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

اخلاقیات

انبیا کی محبت میں غلو کی نفی
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ سَمِعَ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ عَلَی الْمِنْبَرِ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَا تُطْرُونِی کَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُہُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّہِ وَرَسُولُہُ۔ (بخاری،رقم۳۴۴۵)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ انھوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: مجھے میرے مرتبے سے نہ بڑھاؤ جیسے کہ نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو ان کے مرتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو بس اللہ کا بندہ ہوں، چنانچہ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو۔‘‘
توضیح:

انبیا اور صالحین کے ساتھ انسانوں کی حد سے بڑھی ہوئی محبت انھیں شرک کی وادی میں دھکیل دیتی ہے، چنانچہ آپ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص خود آپ کو آپ کے اصل مقام و مرتبہ سے بلند خیال کرے۔

مشرکانہ کلمات کی نفی
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ سَمِعَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَقُولُ مَا شَاءَ اللَّہُ وَشِءْتَ فَقَالَ: بَلْ مَا شَاءَ اللَّہُ وَحْدَہُ۔ (احمد،رقم۱۹۶۵)
’’ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ’ما شاء اللہ و شئت‘(جو اللہ چاہے اور آپ چاہیں ) کہتے ہوئے سنا تو آپ نے فرمایا:بلکہ جو اللہ اکیلا چاہے۔‘‘
توضیح:

وہ باتیں جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، آپ نے ان کے حوالے سے لوگوں کو متنبہ کیا کہ ان میں کسی اور کو شریک کرنا جائز نہیں۔ اس کائنات میں چونکہ صرف ایک ہی مشیت جاری و ساری ہے، لہذاآپ نے اس میں کسی بھی دوسرے کو شریک کرنے سے منع فرمایا۔

مشرکانہ عمل کی ممانعت
عَنْ عَبْدُ اللَّہِ بْنَ عَبَّاسٍ قَالَا لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَفِقَ یَطْرَحُ خَمِیصَۃً لَہُ عَلَی وَجْہِہِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِہَا کَشَفَہَا عَنْ وَجْہِہِ فَقَالَ وَہُوَ کَذَلِکَ: لَعْنَۃُ اللَّہِ عَلَی الْیَہُودِ وَالنَّصَارَی اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَاءِہِمْ مَسَاجِدَ یُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا۔ (بخاری، رقم ۴۳۶)
’’عائشہ اور عبداللہ ابن عباس کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو آپ اپنی چادر کو بار بار چہرے پر ڈالتے پھر جب کچھ افاقہ ہوتا تو اسے اپنے چہرے سے ہٹا دیتے، آپ نے ۱ضطراب کی اسی حالت میں فرمایا: یہود و نصاریٰ پر خدا کی پھٹکار ہو کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ آپ (یہ فرما کر اپنی امت کو) ان کاموں سے بچنے کو کہہ رہے تھے جو انھوں نے کیے تھے‘‘۔
عَنْ أَبِی مَرْثَدٍ الْغَنَوِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَجْلِسُوا عَلَی الْقُبُورِ وَلَا تُصَلُّوا إِلَیْہَا۔ (مسلم،رقم۲۲۵۰)
’’ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ قبروں پر بیٹھا کرو اور نہ ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرو۔‘‘
توضیح:

قبروں پر بیٹھنا اس لیے منع فرمایا کہ یہ صاحب قبر کی توقیر کے خلاف ہے اور ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے اس لیے منع فرمایا کہ اس میں اُن کی عبادت کرنے سے مشابھت پائی جاتی ہے اور اس لیے بھی کہ پھر کہیں رفتہ رفتہ انھیں عبادت گاہیں نہ بنا لیا جائے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا تھا۔ آپ نے اُن کے اسی کام کی وجہ سے ان پر لعنت کی اور اپنی امت کو متنبہ کیا کہ وہ ایسا ہرگز نہ کریں۔

والدین سے حسن سلوک کا حکم
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی قَالَ: أُمُّک، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ: ثُمَّ مَنْ، قَالَ: ثُمَّ أَبُوکَ۔ (بخاری،رقم۵۹۷۱)، (مسلم، رقم ۶۵۰۱)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے۔ آپ نے فرمایا: تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھاری ماں، اس نے کہا پھر کون ہے آپ نے فرمایا: پھر تمھارا باپ۔‘‘
قَالَ (عبدُاللہِ) سَأَلْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَیُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَی اللَّہِ قَالَ: الصَّلَاۃُ عَلَی وَقْتِہَا قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ: ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قَالَ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ: الْجِہَادُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ۔ (بخاری، رقم۵۲۷) ، (مسلم، رقم۲۵۲)
’’عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا ، پوچھا اس کے بعد ، آپ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، پھر پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ ثُمَّ رَغِمَ أَنْفُ قِیلَ مَنْ یَا رَسُولَ اللَّہِ قَالَ: مَنْ أَدْرَکَ أَبَوَیْہِ عِنْدَ الْکِبَرِ أَحَدَہُمَا أَوْ کِلَیْہِمَا فَلَمْ یَدْخُلْ الْجَنَّۃ۔ (مسلم،رقم ۶۵۱۰)
’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے، اُس شخص کے لیے ذلت ہے۔لوگوں نے پوچھا: کس کے لیے، یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا: جس کے ماں باپ یا اُن میں سے کوئی ایک اُس کے پاس بڑھاپے کو پہنچا اور وہ اِس کے باوجود (اُن کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو سکا۔
عَبْدُ اللَّہِ بْنُ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا یَقُولُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْذَنَہُ فِی الْجِہَادِ فَقَالَ: أَحَیٌّ وَالِدَاک قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَفِیہِمَا فَجَاہِدْ۔ (بخاری، رقم ۳۰۰۴)
’’عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے جہاد کی اجازت چاہی۔ آپ نے پوچھا: تمھارے والدین زندہ ہیں؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: پھر اُن کی خدمت میں رہو ، یہی جہاد ہے۔‘‘
عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَجُلًا ہَاجَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ الْیَمَنِ فَقَالَ: ہَلْ لَکَ أَحَدٌ بِالْیَمَنِ قَالَ أَبَوَایَ قَالَ: أَذِنَا لَک قَالَ لَا قَالَ: ارْجِعْ إِلَیْہِمَا فَاسْتَأْذِنْہُمَا فَإِنْ أَذِنَا لَکَ فَجَاہِدْ وَإِلَّا فَبِرَّہُمَا۔ (ابو داود، رقم۲۵۳۰)
’’ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ یمن کے لوگوں میں سے ایک شخص (جہاد کی غرض سے) ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا۔ آپ نے پوچھا : یمن میں کوئی عزیز ہے؟ عرض کیا: میرے ماں باپ ہیں۔ فرمایا: اُنھوں نے اجازت دی ہے؟ عرض کیا:نہیں ۔ فرمایا: جاؤ اور اُن سے اجازت لو، اگر دیں تو جہاد کرو، ورنہ اُن کی خدمت کرتے رہو۔‘‘
عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاہِمَۃَ السَّلَمِیِّ أَنَّ جَاہِمَۃَ جَاءَ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِءْتُ أَسْتَشِیرُکَ فَقَالَ: ہَلْ لَکَ مِنْ أُمٍّ قَالَ نَعَمْ قَالَ: فَالْزَمْہَا فَإِنَّ الْجَنَّۃَ تَحْتَ رِجْلَیْہَا۔ (نسائی،رقم ۳۱۰۶)
’’معاویہ اپنے باپ جاہمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ ، جہاد کے لیے جانا چاہتا ہوں اور آپ سے مشورے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے پوچھا: تمھاری ماں زندہ ہے؟ عرض کیا: جی ہاں۔ فرمایا: تو اُس کی خدمت میں رہو، اِس لیے کہ جنت اُس کے پاؤں کے نیچے ہے۔‘‘
عَنْ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: رِضَی الرَّبِّ فِی رِضَی الْوَالِدِ وَسَخَطُ الرَّبِّ فِی سَخَطِ الْوَالِدِ۔ (ترمذی،رقم ۱۸۹۹)
’’عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں اور اُس کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔‘‘
توضیح:

یہ احادیث ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ خدا اور اس کے رسول کے نزدیک انسان کے لیے اُس کے والدین کی کیا حیثیت اور اہمیت ہے۔

۱۔ان میں یہ بتایا گیا ہے کہ حسن سلوک کے حوالے سے ماں کا درجہ باپ سے تین گنا ہے۔

۲۔ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ جہاد جیسے عظیم عمل سے بھی افضل ہے، لہذا، اگر انھیں اولاد سے خدمت کی ضرورت ہے تو پھر انھیں تنہا چھوڑ کر جہاد پر چلے جانا صحیح نہیں ہے۔

۳۔ انسان اپنے بوڑھے والدین کی خدمت کرکے آسانی سے جنت حاصل کر سکتا ہے۔ اگر کسی شخص کے ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک پڑھاپے کی حالت میں اُس کے پاس موجود ہو اور وہ ان کی خدمت کرکے جنت حاصل نہیں کرتا تو وہ یقیناً بد نصیب ہے۔

۴۔ انسان کی جنت اس کی ماں کے قدموں تلے ہے۔

۵۔ اللہ کی خوشی باپ کی خوشی میں اور اُس کی ناراضی باپ کی ناراضی میں ہے۔

والدین سے حسن سلوک کا صلہ
عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ أَنَّ رَجُلًا أَتَاہُ فَقَالَ إِنَّ لِیَ امْرَأَۃً وَإِنَّ أُمِّی تَأْمُرُنِی بِطَلَاقِہَا قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ فَإِنْ شِءْتَ فَأَضِعْ ذَلِکَ الْبَابَ أَوْ احْفَظْہُ۔ (ترمذی، رقم ۱۹۰۰)
’’ابو دردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: باپ جنت کا وسطی دروازہ ہے، خواہ تو اسے ضائع کر دے یا اس کی حفاظت کرے۔‘‘
توضیح:

یہاں باپ سے مراد والدین ہیں۔ فرمایا کہ یہ جنت کا وسطی یعنی بہترین دروازہ ہیں، انسان ان کی خدمت کرکے نہایت آسانی سے جنت کا اعلیٰ درجہ حاصل کر سکتا ہے۔ چنانچہ یہ بات خود اُس پر منحصر ہے کہ وہ اپنی ابدی زندگی سنوارنے کے لیے کیا کرتا ہے اور کیا نہیں کرتا۔

والدین کا حق
عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عمروٍ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّ لِی مَالًا وَوَلَدًا وَإِنَّ وَالِدِی یَحْتَاجُ مَالِی قَالَ: أَنْتَ وَمَالُکَ لِوَالِدِکَ إِنَّ أَوْلَادَکُمْ مِنْ أَطْیَبِ کَسْبِکُمْ فَکُلُوا مِنْ کَسْبِ أَوْلَادِکُمْ۔ (ابوداود، رقم ۳۵۳۰)
’’عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرے باپ کو میرے مال کی ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے باپ ہی کا ہے۔ (اے لوگو) بے شک تمھاری اولاد تمھاری پاکیزہ کمائی ہے، چنانچہ (تمھارے لیے یہ جائز ہے کہ) تم اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔‘‘
توضیح:

انسان کی اولاد اُس کی کمائی ہے۔ چنانچہ والدین اپنی اولاد کی کمائی میں سے اپنی ضروریات کے بقدر بلا ججھک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کا مال ان کے لیے کسی غیر کا مال نہیں ہوتا۔

 ______________

B