[المورد کے پیش نظر مقاصد میں سے ایک مقصد ایسی خانقاہوں کا قیام ہے جہاں آکر لوگ دین سیکھیں اور ذکر و عبادت میں مشغول رہ کر اپنے لیے پاکیزگئ قلب و نظر کا سامان کریں۔اس پس منظر میں ایک ابتدائی کاوش کراچی میں کی گئی ہے جہاں ایک تربیت گاہ کے ذریعے سے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ قارئین اشراق کی خدمت میں ریحان احمد یوسفی صاحب کی ایک تحریر پیش ہے جو فروری 2010میں ہونے والی ایک تربیتی نشست میں لوگوں کے درمیان تقسیم کی گئی تھی۔]
درخت کی لچکتی شاخ سے ایک پتی جھڑی اور ہوا کے دوش پر میرے دامن میں آگری۔ میں نے اس پتی کو ہاتھ میں اٹھایا۔ خدائے ذولجلال کی اس بے مثل صناعی کو دیکھ کر میرے دل سے بے اختیار اُس کی حمد کی صدا نکل گئی۔ پھر میری نگاہیں اٹھیں اور مجھے انسانی دنیا سے نکال کر درختوں کی اُس دنیا میں لے گئیں جو شاید خدا کی قدرت اور رحمت کا سب سے بڑا تعارف ہے۔
درخت بلاشبہ زمین کا زیور ہیں اور درختوں کا زیور پتے ہوا کرتے ہیں۔ پتے درختوں کا لباس ہوتے ہیں۔ یہ برہنہ شاخوں کو عریانی کے عیب سے تو بچاتے ہی ہیں مگر ساتھ میں سبز ریشم کی قبائے دلربا سے ان شاخوں کو آراستہ بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں زیادہ تر درخت سبز ہوتے ہیں، مگر امریکہ اور کینیڈا کے موسم خزاں کی آمد پر میں نے اس قبائے دل نواز کو سبز کے علاوہ سرخ، پیلے اور براؤن رنگوں میں بھی بکثرت دیکھا ہے۔
خزاں کی رُت کے ساتھ یہ رنگ برنگے پتے جھڑتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ موسم سرما میں درخت بالکل برہنہ ہوجاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اگلے موسم بہار میں نئی کونپلوں سے نئے پتے پھوٹتے ہیں اور ایک دفعہ پھر سے زمین ’سبزہ‘ کا سنگھار کرکے آسمان کو لبھانے لگتی ہے۔ آسمان یہ منظر دیکھ کر محبت کی گرمی میں سلگنے لگتا ہے اور آخر کار ساون کی رُت میں وہ اپنی محبت کی بارش اس پر نچھاور کردیتا ہے۔
موسموں، رنگوں اور درختوں کی یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی حیثیت کسی بے وقعت پتے سے زیادہ نہیں ہے۔ مگر خدائے کریم نے انسان کو مخلوقات پر ترجیح دے کر اسے اپنی ہم کلامی کا شرف بخشا۔ ارادہ و اختیار کی بادشاہی دی۔ عقل و شعور کی نعمت سے نوازا۔ جنت میں اپنی ابدی رفاقت کا موقع عطا کیا۔ آہ! مگر انسان ان سارے مواقع اور انعامات کو نظر انداز کرکے جانوروں کی سی غفلت بھری زندگی گزارتا ہے۔ کھایا پیا، موج مستی کی، جوڑا بنایا، گھونسلا بنایا، بچے پیدا کیے اور ایک روز کسی پتے کی طرح شاخِ ہستی سے جھڑگیا۔
درخت کی لچکتی شاخ سے ایک اور پتی جھڑی اور ہوا کے دوش پر میرے دامن میں آگری۔ میں نے اس پتی کو ہاتھ میں اٹھایا اور سوچا کہ ہر انسان شاخِ ہستی پر ایک پتی کی طرح نمودار ہوا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آرہا ہے کہ جب انسان کا وجود خزاں کی کسی شام میں موت کی پت جھڑ کی نذر ہوجائے گا۔ اس کا وجود زمین کی مٹی میں رل مل جائے گا۔
پروردگار! یہی کچھ بہت جلد میرے ساتھ ہونے جارہا ہے۔ میرا وجود بھی خاک سے اٹھا اور بہت جلد موت کی ہوا اسے شاخِ زندگی سے جدا کرکے قبر کی مٹی میں ملادے گی۔ میں اس حقیقت کو یاد رکھوں یا بھول جاؤں، یہ واقعہ ہوکر رہے گا۔ اس سے پہلے کہ یہ ہو مجھے معاف کردے۔ اغفرلی یارب۔۔۔ اغفرلی۔
ہم نے جب اس تربیت گاہ میں پہلا قدم رکھا تو یہاں کیکر کا ایک جنگل اگا ہوا تھا۔ اس جھاڑ جھنکاڑ میں بنے راستوں اور پگڈنڈیوں سے گزرنے کی کوشش میں ہم میں سے ہر شخص کے ہاتھوں، پیروں اور کپڑوں سے ان جھاڑیوں اور کانٹوں نے اپنا ’خراج‘ یا دورِ جدید کی اصطلاح میں ’ٹول ٹیکس‘ وصول کیا تھا۔ ہم وقفے وقفے سے کانٹے نکالتے رہے اور ٹیکس دیتے رہے۔
یہ کیکر بڑی عجیب چیز ہے۔ اسے اگانا نہیں پڑتا۔ یہ خودبخود اگتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے۔ مگر جب یہ پھیل جائے تو اسے نکالنا اتنا ہی مشکل ہوا کرتا ہے۔ اس کو کاٹ ڈالیے، اس کی جڑوں میں تیزاب ڈالیے یا کیکر کے جنگل کو آگ لگادیں۔ یہ اتنی آسانی سے زمین کی جان نہیں چھوڑتا۔ مگر انسان جہاں آباد ہونا چاہتا ہے وہاں اس سے لازماً جان چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ کیونکہ کیکر کے کانٹوں کے ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا۔ اس کی شاخیں بے ہنگم اور اس کے پتے کم سایہ دار ہوتے ہیں۔ اس کی لکڑی بھی کم اور غیر مفید ہوا کرتی ہے۔
کیکر مجھے ہمیشہ سے اخلاقی خرابیوں اور بری عادات کا نمائندہ درخت لگتا ہے۔ یہ انھی کی طرح بے ثمر اور کانٹے دار ہوتا اور انھی کی طرح تیزی سے پھیلتا ہے۔ بری عادتوں کی طرح اسے بھی زمین سے مٹانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مگر بہت عجیب بات ہے کہ انسان کیکر کو جتنا ناپسند کرتا اور اپنے رہنے سہنے کی جگہ سے جس تندہی سے اسے اکھاڑ پھینکتا ہے، اپنے وجود میں وہ اخلاقی کیکروں کو اتنے ہی شوق و رغبت سے اگاتا ہے۔ حسد، تکبر، اسراف، نمود و نمائش، خود پسندی، لالچ، کینہ، بغض، عداوت، نفسانیت، ہوسِ زر، غفلت، غیبت، چغل خوری، بہتان، جھوٹ۔۔۔ یہ اور ان جیسے ان گنت کیکروں کا ایک درخت ہے جسے ہم اپنے باطن کی زمین پر اُگنے دیتے ہیں۔ ان کے کانٹوں سے ہم دوسروں کو لہولہان کردیتے ہیں۔ اس کی جھاڑیوں سے ہم خیر اور صلہ رحمی کی راہیں مسدود کردیتے ہیں۔ ہم اس کے بیجوں کی آبیاری اپنے بچوں اور دیگر لوگوں میں کرکے انھیں بھی کیکر کا جنگل بنادیتے ہیں۔ مگر ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا۔ ہمیں بالکل برا نہیں لگتا۔ کتنا عجیب ہے یہ تضاد جو انسانوں نے اپنے اندر پیدا کررکھا ہے۔ باہر کے کیکر سے دشمنی اور اپنے اندر کے کیکر سے اتنی بے توجہی۔
ہم نے یہ تربیت گاہ اسی بنیادی خیال کو سامنے رکھ کر بنائی ہے کہ ہم سب لوگ اپنے اندر اپنے اپنے’ کیکرجنگل‘ لیے پھر رہے ہیں۔ یہ حال خالی جاہل عوام الناس ہی کا نہیں، ہمارے جیسے دینی اور دنیوی طور پر باشعور اور تعلیم یافتہ لوگوں کا بھی ہے۔ مولانا رومی نے کہا ہے:
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر من زنی یارے بود
علم جب ظاہر تک محدود رہے تو سانپ بن جاتا ہے اور جب قلب میں اترے دوست بن جاتا ہے۔ یہی اس تربیت گاہ کا بنیادی خیال ہے کہ اپنے علم کو آستین کا سانپ نہ بننے دیا جائے بلکہ اسے قلب کی زمین میں اتارا جائے۔ غور و فکر، ذکر، عبادت اور ذاتی محاسبے کے لیے کچھ وقت نکالا جائے۔ اپنی شخصیت کے اندر اتر کر اس کی زمین پر موجود جھاڑ جھنکاڑ کی نشاندہی کی جائے اور پھر انھیں اکھاڑ کر اخلاق عالیہ کے خوبصورت بیل بوٹوں، رنگ و گل، سبز زمین اور سایہ دار درختوں سے اسے آراستہ کیا جائے۔
پچھلے کچھ عرصے سے عملاً یہی کام یہاں ہورہا ہے۔ ہمارے تین بزرگوں اور دوستوں یعنی شفیق الزماں صاحب، ڈاکٹر حبیب الرحمان اور زبیر زندانی صاحب نے کل وقتی طور پر اس کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے جبکہ دیگر کئی ساتھیوں نے بہت تعاون کیا ہے۔ جس کے نتیجے میں کیکر اور حشرات الارض کا یہ جنگل ایک خوبصورت باغ میں بدل رہا ہے۔ پہلے کیکر کے جنگل کو آگ لگائی گئی۔ پھر ایک ایک جھاڑ جھنکاڑ کو کاٹا گیا۔ ان کی جڑوں تک کو نکال دیا گیا۔ ٹریکٹر چلا کر زمین کو ہموار اور صاف کیا گیا۔ پانی کا انتظام کیا گیا۔ پھر آہستہ آہستہ سبزگھاس، تیزی سے بڑھنے والے درخت، رنگ برنگی بیلیں، خوشنما رنگ والے پھول اور پودے لگائے گئے اور انشاء اللہ چند مہینوں میں یہ جگہ جنت کے باغ کا ایک منظر پیش کرنے لگے گی۔
یہاں جو کچھ ہوا وہی یہاں آنے والوں کو کرنا ہے۔ انھیں بھی اپنے اندر موجود اخلاقی کیکر کے جنگل کو اعلیٰ اخلاق کے باغ سے بدلنا ہے۔ کیونکہ جو لوگ اپنے اندر یہ باغ اگاتے ہیں کل قیامت کے دن یہی وہ لوگ ہوں گے جو جنت کے ابدی باغوں میں داخل کیے جائیں گے۔ رہے وہ لوگ جنھوں نے اپنے اندر اخلاقی جھاڑ جھنکاڑ کو بڑھنے دیا، کل قیامت کے دن ان کو جہنم کی آگ میں پھینک دیا جائے گا۔
تاہم جیسا کہ یہاں کے جھاڑ جھنکاڑ کو باغ سے بدلنا ایک بہت مشکل کام تھا اسی طرح اپنے اندر کے جھاڑ جھنکاڑ کو صاف کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ ایک کل وقتی کام ہے۔ ذرا سی بے توجہی سے دوبارہ جھاڑ جھنکاڑ اگ جاتا ہے۔ ہمیں یہاں بھی اس کا تجربہ ہوا ہے۔ ہم نے کافی بڑے حصے پر سے جنگل صاف کیا تھا۔ مگر وسائل کی کمی کی بنا پر صرف ایک چھوٹے سے حصے ہی پر باغ بنانے کا عمل شروع ہوسکا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ باقی حصے پر ڈھیٹ کیکر پھر نمودار ہوگیا۔ اگر ہمیں وسائل میسر نہیں ہوئے تو پھر تھوڑے ہی عرصے میں ’کیکر‘ یہ جنگ جیت جائے گا۔
تاہم یہ بھی یہاں آنے والوں کے لیے ایک بہترین سبق ہے۔ ’اخلاقی کیکر‘ بھی ذرا سی بے توجہی سے پھر بڑھنے لگتا ہے۔ ہم اگر ایک عادت کی اصلاح کریں اور دوسری برائی سے بے توجہی برتیں تو تھوڑے ہی عرصے میں وہ برائی اپنا جھاڑ جھنکاڑ ہر طرف پھیلادے گی۔
ہم نے یہاں ایک کل وقتی مالی رکھا ہوا ہے۔ یہ مالی نہ ہو تو جانور، موسم اور حالات چھوٹے چھوٹے پودوں اور کونپلوں کو پروان ہی نہ چڑھنے دیں گے۔ کہیں سے کیکر نمودار ہوجائے گا۔ کوئی بکری ان کو چر جائے گی۔ پانی کا نہ ملنا انھیں مرجھادے گا وغیرہ۔
انسان کے ساتھ بھی یہ سب کچھ ہوسکتا ہے۔ اس کا اخلاقی وجود حالات کے بے رحم موسموں کی تاب نہ لاکر مرجھا سکتا ہے۔ ظلم و ناانصافی، معاش کی تنگی، حالات کا جبر اور ماحول کی سختی غرض ہر چیز انسان کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی بچاسکتا ہے تو وہ پروردگار عالم ہے۔ وہی ہمارا مالی، ہمارا نگہبان ہے۔ ہمیں اُس سے مدد مانگنی چاہیے۔ وہی ہے جو کھاد کی گندگی سے سبزے کی خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ وہی ہے جو منوں مٹی میں دبی نازک کونپلوں کو آسمان کی سی بلندی اور رفعت عطا کرتا ہے۔ وہی ہے جو بدرنگ درختوں کو سبزے کی قبا، سائے کی ردا، پھولوں کا جمال، پھلوں کا کمال، خوشبو کی مہک اور رنگوں کی رونق عطا کرتا ہے۔ جو انسان اُس کریم کے قدموں میں گر کر، اس کے جمال و کمال کا واسطہ دے کر، اس کی قدرت اور صناعی کا اعتراف کرکے اس مانگتا ہے۔۔۔ رب رحیم اسے خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ خدا ایسے انسان کا مالی بن جاتا ہے۔ اس کا پانی، اس کی دھوپ، اس کے موسم، اس کا روپ۔۔۔ سب خداوند خود سنوارتا ہے اور آخرکار مالی اپنے محبوب پودے کو ہمیشہ کے لیے اپنی جنت میں بسادیتا ہے۔
جنت کیا ہے؟ اس کائنات میں جس طرح اندھیروں، آگ، چٹانوں اور گیسوں کے درمیان زمین کی جنت آج بنادی گئی ہے، کل اسی طرح باقی کائنات کو بھی گل و گلزار کرکے جنت بنادی جائے گی۔ اس جنت میں اعلیٰ اخلاق کے انسانوں کو بسایا جائے گا۔ ان کے اعمال کے بدلے میں ان کے باہر بھی حسن ہوگا اور ان کے اندر بھی۔ دنیا میں حیا ان کا لباس تھی، جنت میں ریشم و دیبا ان کا لباس ہوگا۔ دنیا میں مسجد اور عبادت ان کی پسند تھی، جنت میں لعل و موتی کے بنے محلات ان کے گھر ہوں گے۔ دنیا میں تقویٰ اور پرہیزگاری ان کا چلن تھا، جنت میں ہر دکھ، بیماری اور پریشانی سے بچاکر خوشیاں اور راحتیں ان کا نصیب کردی جائیں گی۔ وہ دنیا میں اچھی گفتگو کرتے تھے، جنت میں ان کی سانس کے ساتھ خوشبو آیا کرے گی۔ دنیا میں ان کے اندر کینہ کی جگہ محبت، حسد کی جگہ خیر خواہی اور تکبر کی جگہ انکساری ہوتی تھی، جنت میں ان کے خون کی جگہ مشک، فضلات کی جگہ عنبر اور رگوں، پٹھوں کی جگہ نور بھردیا جائے گا۔
یہ سب شاید عجیب محسوس ہو۔ مگر نظر اٹھاکر دیکھیے۔ جو ہستی آج کھاد کی گندگی سے پھولوں اور سبزے کا رنگ پیدا کررہی ہے، اس کے لیے وہ سب کچھ کرنا کیا مشکل ہے جو پیچھے ہم نے بیان کیا ہے۔ اللہ پاک ہے۔ ہر تعریف اُسی کے لیے ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہی سب سے بڑا ہے۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس تربیت گاہ میں لوگ درختوں کی ’اونر شپ‘ (Ownership) لیں۔ مطلب یہ کہ ہر شخص کم از کم ایک درخت خود لگائے اور پھر وقفے وقفے سے آکر اس کی نگہبانی کرتا رہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ درخت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہے گا اور اس کی گروتھ یا نشو و نما ہمارے سامنے یہ مشن زندہ رکھے گی کہ ہمیں اپنے اخلاقی وجود کی بھی اسی طرح نشو و نماکرنی ہے۔
درخت انسان کے لیے ایک بہترین اخلاقی معلم ہے۔ قرآن پاک کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اعلیٰ اخلاقی کردار ہی دین کا مطلوب و مقصود ہے۔ کوئی انسان اگر اس کردار کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اسے درخت کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہیے۔ درخت کے دو پہلو اس معاملے میں انسان کے لیے بہترین رہنما ہیں۔
ایک درخت کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو، ہر قسم کے تعصب سے خالی ہونا ہوتا ہے۔ درخت ایک آفاقی پروڈکٹ ہے، جس کی نشو و نما میں پوری کائنات حصہ لیتی ہے۔ درخت اپنے وجود کو بڑھاتا ہے اور اس عمل میں وہ کسی سے تعصب نہیں برتتا۔ وہ ایک دوسرے درخت کے بیج سے جنم لیتا ہے، مگر اس کے بعد وہ بلاتعصب سورج سے روشنی قبول کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی تعصب کے آسمان اور بادلوں سے پانی وصول کرتا ہے۔ وہ بغیر کسی تعصب کے فضا سے ہوا کو جذب کرتا اور زمین سے زرخیزی اور مٹی اخذ کرتا ہے۔ ان سب چیزوں کی مدد سے وہ اپنے وجود کو بڑھاتا اور ایک چھوٹے سے بیج سے، ایک طاقتور اور سایہ دار درخت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اگر وہ تعصب کا مظاہرہ کرتا تو کبھی کوئی بیج درخت نہ بن پاتا۔
درخت کی زندگی میں ہمارے لیے ایک دوسرا نمونہ اس اعتبار سے ہے کہ جب اس کے ساتھ برائی کا معاملہ ہوتا ہے، تب بھی وہ بھلائی ہی کا معاملہ کرتا ہے۔ اس کی زندگی کے آغاز ہی پر اسے زمین میں دبا دیا جاتا ہے، لیکن وہ شکایت نہیں کرتا۔ بلکہ شکایت کیے بغیر وہ کوشش اور جدوجہد کرتا اور زمین سے باہر نکل آتا ہے۔ جب وہ باہر نکلتا ہے تو یہ فضا اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ دیتی ہے، لیکن وہ انسانوں کو پلٹ کر آکسیجن دیتا ہے۔ اس کے وجود کو زمین بدشکل جڑ اور بے روپ تنے کی شکل میں جنم دیتی ہے۔ لیکن وہ پلٹ کر لوگوں کو سبزہ، پھول اور پھل کی بہاریں دیتا ہے۔ لوگ اسے پتھر مارتے ہیں، لیکن وہ اپنے پھل ان پر نچھاور کردیتا ہے۔ اسے دھوپ ملتی ہے، لیکن وہ انسانوں کو سایہ دیتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک وقت آتا ہے کہ اسے کاٹ دیا جاتا ہے۔ مگر پھر بھی یہ لوگوں کے فائدے کے لیے ان کے گھر کا فرنیچر، ان کے بیٹھنے کا صوفہ اور ان کے لیٹنے کی مسہری بن جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جب اسے آگ میں جلادیا جاتا ہے تب بھی وہ جواب میں لوگوں کو روشنی اور حرارت مہیا کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ درخت کی طرح جو انسان ہر طرح کے تعصب سے پاک ہو اور یکطرفہ طور پر مخلوقِ خدا کا خیر خواہ ہو، کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے صبر کا بہترین بدلہ دیں گے اور اسے جنت کے ابدی باغوں میں ہمیشہ کے لیے بسادیا جائے گا۔
_______________