HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

کاروانِ زندگی

[ دینِ اسلام پر کیسے عمل ہو؟ یہ شریعت اور قانون کاموضوع ہے ۔یہ دین کیسا ہو ؟ یہ حقیقت صرف قرآنِ مجیدہی سے معلوم ہو سکتی ہے۔کاروانِ زندگی میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے ۔اس کتاب کی ہر صحیح بات استاذِ گرامی اور الامام الاستاذکی علمی مجلسوں اور تصنیفات سے ماخوذ ہے ‘میری حیثیت بس ایک ناقل کی ہے۔]


اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ ایک ایسی مخلوق پیدا کرے جسے بقائے دوام(ہمیشہ کی زندگی ) حاصل ہو‘ اور اس کی یہ زندگی ہر طرح کے غم و آلام سے پاک اور ہر قسم کے عیش و عشرت اور آرام وسکون سے مالا مال ہو۔انسان کی تخلیق اﷲ تعالیٰ کے اسی منصوبے کا مظہر ہے۔

حیاتِ انسانی

حیاتِ انسانی کی ترکیب کچھ اس طرح سے ہے کہ اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ان حصوں کے درمیان میں موت کی دیوار حائل ہے ۔دیوار کے اِ س پار دنیا کی زندگی ہے اور اُ س پار حیاتِ اُ خروی اس کی منتظر ہے ۔یہ دنیا جس میں ہم جی رہے ہیں ‘ یہ آزمائش کے اصول پر بنائی گئی ہے (۷: ۱۱‘ ٰ۲: ۶۷)اور آخرت عدل کے اصول پر قائم ہوگی (۴۷: ۲۱‘ ۴: ۱۰)

آزمائش

قرآنِ مجیدکے مطالعہ سے اس تقسیم کی جو وجہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان دنیا میں کچھ وقت گذارے ۔اس دوران میں وہ( آخرت میں) عیش و آرام کی ابدی زندگی کے لیے اپنا استحقاق ثابت کرے۔یہ استحقاق ثابت کرنے کے لیے اسے جو آزمائش درپیش ہے وہ حسنِ عمل کی آزمائش ہے: اور(اﷲ ) وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا( آسمانوں اور زمین کی تخلیق کو ئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ یہ عالم کے پروردگار کے ارادہ‘ سکیم اور حکمت کا نتیجہ ہے۔ان کی تخلیق سے پہلے اس کی حکومت پانی پر قائم تھی ) اور اس کا عرش پانی پر تھا(یہ دنیا بازیچہ اطفال یا کسی کھلنڈرے کا کھیل نہیں ہے اور اس کی تخلیق بے مقصد نہیں ہے ‘بلکہ یہ خیر و شرکی امتحان گاہ ہے ۔اور یہ معرکہ برپا کیا گیا ہے) تاکہ تمہیں جانچے کہ کون اچھے عمل والا ہے (۷: ۱۱) بڑی ہی عظیم اور فیض رساں ہے وہ ذات جس نے موت او رزندگی کو پیداکیا ہے(ان میں سے کسی پر بھی کسی دوسرے کو کوئی اختیار نہیں ہے۔اور اس نے عدم کے بعدزندگی پر قدرت کے ثبوت کے لیے موت کو زندگی پر مقدم کیا) تاکہ تمھارا امتحان کرے کہ تم میں سے کون اچھے عمل والا بنتا ہے(اور اس امتحان کا لازمی تقاضاہے کہ وہ ایک ایسا دن بھی لائے جس میں لوگوں کو پھر سے زندہ کرے ‘ ہر شخص کی نیکی او ربدی کا حساب ہواور وہ اپنے عمل کے مطابق جزا اور سزا پائے)( ۲: ۶۷)۔اس کے لیے اسے ارادے کی آزادی اوراختیار عطا ہوا ہے ۔اس آزمائش میں اسے پورا اترنا ہے :اوراﷲ ہی ہے جس نے تمھیں زمین پر ایک دوسرے کا جانشین بنایا اور (اور دنیوی اسباب ووسائل میں کمی بیشی کرکے ) ایک کے درجے دوسرے پر بلند کیے ( لیکن یہ پیشِ نظر رہے کہ وسائل اور ذرائع کی دستیابی تمھاری قابلیتوں کا ثمرہ نہیں ہے بلکہ تمھیں یہ بے مانگے اور بغیر استحقاق کے ملی ہیں ۔ وسائل میں تفاوت اس دنیا میں انسان کو درپیش آزمائش کا لازمی تقاضا ہے ۔ایک توآزمائش کے لیے یہ اونچ نیچ ضروری تھی اور دوسرے اس اونچ نیچ کے بغیر اس دنیا کا نظام چلانا ممکن نہ تھا‘ لہٰذا اس نے یہ سب کام کیا) تاکہ جو کچھ اس نے تمھیں بخشا ہے اس میں تم کو آزمائے (کہ تم خدا کے شکر گذار بندے بنتے ہو یا شیطان کی پیروی کرکے نا شکری کی روش اختیار کرتے ہو) بے شک تیرا رب جلد اعمال کا بدلہ دینے والا بھی ہے اور وہ بخشنے والا اور مہر بان بھی ہے ( وہ دن جلد آنے والا ہے ‘ جس دن ہرمجرم پنی بدی کی سزا پائے گا اور نیکو کاروں کو ان کی نیکی کی جزاملے گی اور اﷲ تعالیٰ ان کو اپنی رحمت اورمغفرت سے نوازے گا)(۱۶۵: ۶):(اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ) روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اس کو زمین کے لیے سنگار بنایاہے ‘تاکہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ ان میں (سے اپنی عقل و تمیز سے کام لے کر) کون اچھے عمل کرنے والا کون بنتا ہے( اور کو ن اپنی خواہشات کا غلام بن کر اسی دنیا کا ہو کر رہ جاتاہے) اور (ہم نے اس دنیا کے چہرے پر حسن و زیبائی کا ایک پر فریب غازہ مل دیاہے۔اس کے مال و اولاد‘ کھیت اورکھلیان‘دولت وشہرت ‘عزت و اقتدار‘ محلات اور ایوانوں میں بڑی کشش اور دل فریبی ڈال دی ہے۔ اس کی لذتیں نقد اور آخرت کی کامرانیاں ادھار اور پسِ پردہ ہیں ۔ یہ بے وقوف اور عقل و دل کے اندھے لوگ آخرت کو بھلا کر دنیا کی جن چیزوں پرریجھے ہوئے ہیں ‘ ایک وقت آئے گا کہ) ہم بالآخر اس پر جو کچھ ہے اس کوچٹیل میدان کرکے چھوڑیں گے(۸۔۷: ۱۸):پس یاد رکھو( ظہورِ قیامت کے وقت) جب صور میں ایک ہی بار پھونک ماری جائے گی ( توقیامت برپا ہو جائے گی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا) اور زمین اور پہاڑوں کو اٹھا کر ایک ہی بار میں پاش پاش کردیا جائے گا تو اس دن واقع ہونے والی ( جس قیامت کو تم بعید از امکان سمجھ کر بے پروا اور سرکش ہوئے بیٹھے ہو ‘وہ)واقع ہو جائے گی اور آسمان پھٹ جائے گا اور ( آج جو آسمان تمھیں دیکھنے میں ٹھوس اورمستحکم نظر آتا ہے) اس دن وہ نہایت پھس پھسا ہوگااو ر فرشتے( بھی سراسیمہ حالت میں) اس کے کناروں پر ہوں گے( قیامت برپا ہونے کے بعد سارے کار کشایانِ قدرت اپنی ذمہ داریوں سے فارغ جائیں گے‘بس عرش الہٰی پر مامور فرشتے رہ جائیں گے) اور تیرے رب کے عرش کو اس دن آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ۔اس دن(زمین وآسمان کی ساری بساط لپیٹ دی جائے گی ‘ کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اور) تمھاری( اللہ رب العالمین کے حضور) پیشی ہوگی ۔تمھاری کوئی بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہے گی ۔

پس(جس نے آخرت میں خدا کے حضور پیشی کے ڈر سے دنیا میں خدا کا بندہ بن کر زندگی گذاری ہوگی ‘وہی ہوگا) جس کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تووہ( وہ اپنا اعمال نامہ دیکھتے ہی خوشی سے اچھل پڑے گااور) کہے گاکہ پڑھو میرا اعمال نامہ ‘ میں نے(دنیا میں) گمان رکھا ( اور میرا دل گواہی دیتا تھا) کہ مجھے اپنے حساب سے دوچار ہوناہے ۔پس( اسے وہ سب کچھ ملے گا جووہ چاہے گااور) وہ تو ایک دل پسند عیش میں ہوگا‘ ایک بلند و بالا باغ میں ۔اس کے پھل قریب لٹک رہے ہوں گے ۔(اور اس سے کہاجائے گا)کھاؤ پیؤ بے غل و غش( دنیا کی نعمتوں کے استعمال میں اگر اعتدال ملحوظ نہ رہتا یا ان کا صحیح شکر ادا نہ ہوتا تو وہ وبال بن سکتی تھیں لیکن ان نعمتوں میں جو تمھیں اب مل رہی ہیں‘ ان کے استعمال میں ایسا کوئی خدشہ نہیں ہے ۔اور تمھیں یہ سب کچھ حاصل ہوا ہے) اپنے ان اعمال کے صلے میں جو تم نے گزرے دنوں( یعنی دنیا کی زندگی ) میں کیے (تم اس کے پورے حق دار ہو ‘ یہ تمھارے لیے ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتیں ہیں ۔ان میں وقتاًفوقتاً اضافہ توہوتا رہے گا لیکن ان میں اب کمی کا کوئی امکان نہیں ہے ۔جو محنت تم نے یہ نعمتیں حاصل کرنے کے لیے کرنی تھی وہ کرچکے‘ اب توبس ان سے بہرہ مند ہونا ہے) رہا وہ جس کا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گاتو وہ( اسے دیکھتے ہی اپنا سر پیٹے گا اور کہے گا )کاش میر ا اعمال نامہ مجھے دیا ہی نہ گیا ہوتا اور میں جانتا ہی نہ کہ میرا حساب کتا ب کیا ہے ‘ اے کاش کہ وہی موت فیصلہ کن ہوئی ہوتی( جو دنیا میں ہمیں آئی تھی) میرا مال( جو میں نے نہایت اہتمام سے جمع کیا اور اسے گن گن کر رکھاوہ) میرے کیا کام آیا !میرا اقتدار( جس پر مجھے بہت ناز تھا اور جس نے دنیا کی زندگی میں مجھے آخرت سے غافل کرکے اندھا بنائے رکھا‘ وہ بھی) مجھ سے چھن گیا ‘(اسی دوران میں اللہ کی طرف سے حکم ہوگا کہ)اس کو پکڑو پھر اس کی گردن میں طوق ڈالو ‘ پھر اسکو جہنم میں جھونک دو‘ پھر ایک زنجیر میں ‘ جس کی پیمائش ستر ہاتھ ہے ‘اس کو جکڑ دو( اس کے جملہ جرائم میں سے سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ) یہ خدائے عظیم پر ایمان نہیں رکھتاتھا( اگر خدائے عظیم پر اس کا ایمان ہوتا تو یہ خدا کے حضور پیشی سے اندیشہ ناک ہوتا کہ اسے ایک روز عالم کے پروردگارکی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے اور اپنے ایک ایک عمل کا حساب دیناہے ۔اسے اللہ نے دولت دی مگر یہ نہ خود اسے مسکینوں پر خرچ کرتا تھا ) اور نہ مسکینوں کوکھانا کھلانے پر لوگوں کو ابھارتاتھا ۔پس آج اس کا یہاں کوئی ہمدرد نہیں( کیوں کہ جس نے نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ مخلوق کا ‘ قیامت کے دن بھلا اس کے ساتھ کون ہمدردی کرنے والا ہوگا) اور غسالہ ( یعنی گندی اور ناپاک چیزوں کے دھووَن) کے سوا اس کے لیے کوئی کھانا نہیں ہے۔یہ کھانا صرف گنہ گار ہی کھائیں گے( کیوں کہ انھوں نے دنیا میں دولت کامصرف صرف تن پروری اور کام ودہن کی لذت ہی کو قرار دیا اور اس ہوس میں غربا اور مساکین کے حقوق ہڑپ کرکے اپنے سارے مال کو نجس بنایا) (۶۹: ۱۳۔۳۷):مجرم تمنا کرے گا کہ اے کاش اس دن کے عذاب سے چھوٹنے کے لیے اپنے بیٹوں ‘ اپنی بیوی ‘ اپنے بھائی ‘ اپنے اس خاندان کو‘ جس کی وہ پناہ میں رہا ہے ‘اور تما م اہلِ زمین کو فدیہ میں دے کراپنے آپ کو بچا لے ۔( اس کی یہ خواہش بس خواہش ہی رہے گی اور )ہر گز (ایسا ) نہیں (ہوگا‘ بلکہ وہ جہنم کی دہکتی آگ کے حوالے کردیا جائے گا اور) وہ ایسی آگ ہوگی جس کی لپٹ چمڑی ادھیڑ دے گی ۔وہ ان سب کو کھینچ بلائے گی جنہوں نے پیٹھ پھیری اور اعراض کیا ‘مال جمع کیا اور اس کو سینت سینت کررکھا (۷۰: ۱۱۔۱۸)

متاعِ دنیا کے غرور نے مکہ کے سرداروں کو اپنے خالق و فاطر سے بیگانہ کرکے بڑائی کے خبط میں مبتلا کر دیاتھا اور وہ یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ جب اس دنیا کی ساری شوکت و عظمت ہم کو حاصل ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے خدا ہمارے سوا کسی اور پر کتاب اتارتا ۔ : (خدا کے یہ منکر دنیا میں شہرت ‘دولت اور اقتدار کو شرافت ‘ عظمت اور کامیابی کا معیار بنائے ہوئے ہیں مگر اللہ کے نزدیک اس دنیا کی حیثیت پرِ کاہ کے برابر بھی نہیں ہے): اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے ( اوردنیا سے محرومی کے باعث ان کی آزمائش کی مشکلات چند در چند بڑھ جائیں گی ) تو جو لوگ خدائے رحمٰن کے منکر ہیں (اللہ فرماتے ہیں ہم اس بے وقعت دنیا کو کوڑے کرکٹ کی طرح ان کے آگے پھیلا دیتے کہ) ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کر دیتے اور زینے بھی چاندی کے ‘جن پر وہ چڑھتے ۔اور ان کے گھروں کے کواڑ اور ان کے تخت بھی چاندی کے جن پر وہ ٹیک لگا کر بیٹھتے ‘اور یہ چیزیں سونے کی بھی کر دیتے ۔ اور یہ چیزیں تو بس دنیا کی زندگی کی متاع ہیں اور آخرت تیرے رب کے پاس متقیوں کے لیے ہے(۴۳: ۳۳۔۳۵)

دنیا کی زندگی میں انسان کو علم ‘ عمل اور عقل تینوں کی آزمائش ہے ۔عقلی تقاضوں اور علمی مطالبات دونوں کا ظہور اعمال کی صورت میں ہوتاہے۔قیامت میں اعمال تولے جائیں گے :اس روز وزن صرف حق ہی کا ہوگا( باطل کا کوئی وزن نہ ہوگا) تو جن کے پلڑے بھاری ٹھہریں گے( یعنی حق کی مقدار ان کے ساتھ زیادہ ہوگی) وہی لوگ فلاح پانے والے بنیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوئے( وہ ناکام ونامراد ٹھہریں گے) یہ وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گھاٹے میں ڈالااس وجہ سے کہ وہ ہماری آ ئیتوں کا انکار کرتے اور اپنے اوپر ظلم کرتے رہے(۷: ۸۔۹)

آخرت میں اعمال کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ عمل کرنے والا صاحبِ ایمان بھی ہو‘ ورنہ ایمان کے بغیر پورے اخلاص اور دیانت داری سے کیاہوا عمل بھی قیامت میں بے وزن (اور ناقابلِ اعتنا) قرار پائے گا:(اے بنی ﷺ) انھیں کہیے کہ کیا ہم تمھیں بتائیں کہ اپنے اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے میں کون لوگ ہیں؟وہ لوگ جن کی ( تمام بھاگ دوڑ اس دنیا کے حصول کے لیے ہے ۔اور اسے پا کر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی کامیاب بازی کھیل رہے ہیں ۔آخرت میں جب اس سعیء نامراد کی حقیقت واضح ہوگی تو انھیں معلوم ہوگا کہ ان کی) تمام سعی اس دنیا کے پیچھے اکارت گئی اور وہ گمان کرتے رہے کہ وہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔یہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا ۔پس ان کے اعمال اکارت گئے اور قیامت کے دن ہم ان کو ذرابھی وزن نہ دیں گے(۱۸: ۱۰۳۔۱۰۵)

اعمال کو وزن دار بنانے کے لیے دوسری چیز یہ ہے کہ اس کی بنیاد صحیح علم پر ہو ۔ اس سے مراد بندے کے خیر وشر اور اس کی عاقبت کے تقاضوں کا علم ہے۔ یہ علم بندہ مومن کو صرف اور صرف قرآنِ مجید سے حاصل ہو سکتاہے ۔بنی ﷺ کا اسوہ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تعامل اس کا بہترین ذریعہ ہیں ۔ اور اس کی معتبر ترین تعبیر وہ ہے جو صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہے ۔

اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں کو ہدایت ہے کہ:اے ایمان والو‘جانتے بوجھتے اللہ اور رسول سے بے وفائی اوراپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو(۸:۲۷) اللہ اوررسول سے بے وفائی کے جرم سے ہم اسی وقت بچ سکتے ہیں جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ ان کے حقوق کیا ہیں؟

اللہ کاحق اس کا شکرگذار بندہ بن کر جینا ہے۔ شکر کی اصل حقیقت اللہ کا حق پہچاننا ‘ اس کا اعتراف کرنا اور خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اسے ادا کرنا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ان کے لائے ہوئے دین کو جاننا ‘ ماننا اور اس پر دل و جان کے ساتھ عمل پیرا ہوناہے۔ اسی حقیقت کی یاددہانی کراتے ہوئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہدایت فرماتے ہیں کہ:اے ایمان والو ( ہر طرح کے حالات میں اپنے ذاتی مفادات و مصالح سے بے پروا ہو کر ) اللہ کی اطاعت کرو اوررسول کی اطاعت کرو ( یہ تمھارے ایمان کا لازمی تقاضاہے) اوراپنے اعمال کو رائگاں نہ کرو(کیوں کہ اسی طرح کی بے ریا اور بے آمیز اطاعت ہی سے تمھا رے اعمال آخرت میں باوزن او رنتیجہ خیز ہوں گے۔اور اگر تم نے اللہ اور رسول کی اطاعت پر اپنی دنیوی مصلحتوں کو ترجیح دی تو یاد رکھو کہ تمھارے سارے اعمال برباد ہو جائیں گے خواہ وہ دین ہی کے اعمال کیوں نہ ہوں)(۴۷: ۳۳)

یہی وہ دین کا ضروری علم ہے جس کا حصول نبی ﷺ نے ہر مسلمان مر د اور عورت کے لیے لازم قرار دیا ہے ۔ (طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم و مسلمۃ۔الحدیث)

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت کے روز وہ ایمان معتبر ہوگا جواس کے بتائے ہوئے معیار پر پورا اترے گا۔جو لوگ اپنی شرائط پر ایمان لاتے ‘ اپنی مصلحتوں کی حد تک اس کے تقاضوں کو پورا کرتے اور اسے اپنے دنیوی مفادات کے تابع رکھتے ہوئے اس پر پر عمل پیرا ہوتے ہیں ‘ ہو سکتا ہے کہ ان کی یہ دین داری قیامت کے روز ان کے منہ پر دے ماری جائے۔پس جب وہ بڑا ہنگامہ برپا ہوگا(یعنی قیامت قائم ہوگی تو سب کچھ درہم برہم ہو جائے گا)اس دن انسان اپنے کیے کو یاد کرے گا (آج تو وہ آخرت سے بے پرواہو کر دنیاہی کے حصول کواپنا ہدف بنائے ہوئے ہے۔اور اسے اگر آخرت کے ہولناک انجام سے ڈرایا جاتاہے تو نہ صرف یہ کہ وہ اس کی پروا نہیں کرتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس کا مذاق اڑاتاہے ‘لیکن اس دن اسے ہوش آئے گا اور پھر پچھتاوے ‘ محرومی اور نامرادی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا) اور دوزخ ان لوگوں کے لیے بے نقاب کردی جائے گی جن کو اس سے دو چار ہونا ہے( وہ بالکل تیار ہے ۔بس پردہ اٹھنے کی دیر ہے ۔اور پردہ اٹھتے ہی وہ ان کے سامنے ہوگی جسے وہ آنکھوں سے دیکھے بغیر ماننے کے لیے تیار نہیں تھے) ۔تو جس نے سرکشی کی اورآخرت کے مقابلے میں دنیاکی زندگی کو ترجیح دی( وہ آخرت کو نظر انداز کرکے اسی دنیا کے پجاری بن گئے اور اس سے الگ ہو کر کسی چیز کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار ہی ہی نہیں تھے ) اس کا ٹھکانہ تو بس جہنم ہی بنے گی( ایک مرتبہ اس میں داخل ہو جانے کے بعد اسے پھر اس میں سے نکلنا نصیب نہ ہوگا) ۔اور وہ جو اپنے رب کے حضور پیشی سے ڈرا اور جس نے اپنے نفس کوخواہشات کی پیروی سے روکے رکھا تواس کا ٹھکانہ لاریب جنت ہے (۷۹: ۳۴۔۴۱)

آخرت میں بامراد ہونے کے لیے ‘ جیساکہ اوپر بیان ہوا‘ ضروری ہے کہ عمل کی بنیاد صحیح علم پر ہو ۔ صحیح علم قرآن و سنت سے حاصل ہوتاہے ۔قرآن مجید ہی کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں سبھی کو دین میں تفقہ (پوری مہارت حاصل کرنے ) کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا : (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی سارے اہلِ ایمان کے لیے) ایسا ممکن نہ تھا کہ سبھی مسلمان (دین میں تفقہ حاصل کرنے کی غرض سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اختیار کرنے کے لیے)نکل کھڑے ہوتے تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت حاصل کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو بھی آگاہ کرتے جب کہ وہ ان کی طرف لوٹتے تا کہ وہ بھی احتیاط کرنے والے بنتے(۹: ۱۲۲)۔مستند روایات سے معلوم ہوتاہے کہ بعض صحابہ نے مجلسِ نبوی میں حاضری کے لیے باریاں مقرر کررکھی تھیں ۔اس طرح باہمی تعاون سے اپنے روزمرّہ کے معمولات بھی جاری رکھتے اور مجلسِ نبوی کے فیوض وبرکات سے بھی برابر فائدہ اٹھاتے رہتے ۔اس بحث سے اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ صحیح علم ہر بندہ ء مومن کی ناگزیر ضرورت ہے ۔بہترین صورت تو یہی ہے کہ ہر مسلمان براہِ راست دین کاصحیح علم حاصل کرے ۔اگر یہ ممکن نہ ہو تو اس کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے وہ صحیح علم کے حامل اور دین میں تفقہ کے حامل علماء کو تلاش کرکے اپنی ضرورت پوری کرے۔اس معاملے میں کوتاہی ‘غفلت ‘بے پروائی قیامت میں غلط اعمال کے برے انجام سے بچنے کے لے عذر نہ بن سکے گی۔ دین میں سب سے بڑ ا جرم اللہ (اور اس کے رسول) پر جھوٹ باندھنا (یعنی ایسی بات کوجس کا قرآن و سنت ‘ اسوہ ء حسنہ اور صحابہ کرام کے قول و فعل سے کوئی ثبوت نہ ملتاہواسے ایک دینی حقیقت کے طور پر پیش کرنا اور اس پر عمل کی بنا رکھنا)ہے۔:تو ان سے بڑھ کرظالم (اور بد قسمت) کون ہوگاجواللہ پر جھوٹ بہتان باندھیں یا اس کی آیات کو جھٹلائیں۔ان لوگوں کو ان کے نوشتہ کا حصہ پہنچے گا یہاں تک کہ جب ان کے پاس ہمارے فرشتے ان کو وفات دینے کے لیے آئیں گے تو ان کو پوچھیں گے کہ اللہ کے سوا جن کو تم پکارتے تھے ‘وہ کہاں ہیں؟وہ جواب دیں گے کہ وہ سب ہم سے کھوئے گئے اوریہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ لا ریب وہ کفر میں رہے۔حکم ہوگا جاؤ. پڑودوزخ میں ان امتوں کے ساتھ جو تم سے پہلے جنوں اور انسانوں میں سے گذریں۔جب جب کوئی امت داخل ہوگی اپنی ساتھی امت پر لعنت کرے گی ‘ یہاں تک کہ جب سب اس میں اکھٹے ہو لیں گے توان کے پچھلے اگلوں کے بارے میں کہیں گے‘اے ہمارے رب یہی لوگ ہیں جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تو ان کو آگ کا دہرا عذاب دیجیو۔ارشاد ہو گا‘ تم سب کے لے دہرا(عذاب )ہے‘پر تم جانتے نہیں ۔اور ان کے اگلے اپنے پچھلوں سے کہیں گے‘تم کو بھی ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوئی تم بھی اپنے کیے کی پاداش میں عذاب چکھو(۷: ۳۷۔۳۹)

تیسری چیز عقل ہے جو انسان ہی کو عطا ہوئی ہے او ر دنیا کے دوسرے جان داروں کے مقابلے میں اس کے لیے باعثِ شرف ہے ۔جانور وغیرہ جو بعض اوقات محیر العقول کارنامے سر انجام دیتے ہیں ‘وہ عقل کا شاخسانہ نہیں بلکہ ان کی جبلتوں کی تربیت و پرداخت کی کارفرمائیاں ہوتی ہیں۔

عقل انسان کا سب سے بڑا شرف ہے ۔اپنی اسی صلاحیت کی بنیا د پر وہ دین کا مخاطب قرار پاتاہے ۔یہ دین کا مسلمہ ہے کہ بچے پر ‘ سوئے ہوئے شخص پر اور پاگل آدمی پر دین کے احکام لاگو نہیں ہوتے ۔ غور کیجیے تو اس کی وجہ صرف اور صرف عقل ہے ۔

بچے کی عقل (بلوغت سے پہلے ) چونکہ ناقص ہوتی ہے اس لیے وہ دین کے احکام (مثلاً نماز وغیرہ) کی پابندی کا مکلف نہیں ہوتا۔سویا ہوا بالغ شخص اگرچہ صاحبِ عقل ہوتاہے مگر نیند میں ہونے کی وجہ سے چونکہ وقتی طور پر اس کی عقل معطل ہوجاتی ہے ‘اس لیے حالتِ نیند میں اس سے مثال کے طور پر کلمہ ء کفر بھی صادر ہو جائے تو اس کے ایمان پر کوئی حرف نہیں آتا۔اسی طرح مثلاُ اگر کوئی شخص رات کو اخلاصِ نیت کے ساتھ یہ ارا دہ کرکے سویاکہ وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرے گا لیکن ‘ کسی وجہ سے اگر اسے جاگ نہ آئی ‘وہ سویا رہا اور سورج نکل آیا تو اہلِ علم فقہا کے نزدیک اس وقت وہ فجر کی جو نماز پڑھے گا وہ (قضا نہیں ) ادا تصور ہوگی۔

پاگل شخص اگر دین کے مطالبات کوپورا نہیں کرتا تو شرعی طور پر اس پر بھی کوئی گرفت نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ بھی سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ وہ انسانیت کے اصل شرف (یعنی عقل) سے محروم ہے۔ انسانی ذرائع علم میں سے عقل انسان کے پاس ایک جانب سب سے بڑا ذریعہء علم ہے اور دوسری طرف یہ اسے میسر دوسرے ذرائع علم کو بامعنی بناتاہے۔

انسان کو عقل کے علاوہ حواس‘ تجربہ ‘تاریخ اور وجدان کی صورت میں دوسرے ذرائع علم بھی عطا ہوئے ہیں ۔لیکن غور کیجیے تو ان سب کو قابلِ اعتبار اور بامعنی بنانے والی چیز صرف اور صرف عقل ہے۔ مثلاً آپ کسی سے گفتگوکررہے ہیں ۔آپ کواگر معلوم ہو جائے کہ آپ کے مخاطب کی سماعت کے پیچھے اس کا حصہء عقل موجود نہیں ہے تو آپ فوراً اپنی گفتگو بند کردیں گے اور ایسا شخص پاگل (یا احمق) قرار پائے گا ۔ اسی طرح آپ کے مخاطب کو اگر معلوم ہو جائے کہ آپ جو کچھ ارشاد فرمارہے ہیں ‘آپ کے نطق کے پیچھے اس کا حصہ ء عقل موجود نہیں ہے تو آپ کی بظاہر انتہائی بامعنی گفتگو بھی لاحاصل قرار اپائے گی۔ یہی حال دوسرے حواسِ خمسہ کاہے۔

تجربہ اور تاریخ (جو کہ تجربے ہی کا امتداد ہے)کو بامعنی بنانے والی چیزبھی عقل ہی ہے ۔سب جانتے ہیں کہ تجربات سیانوں کی عقل کا نچوڑاور تاریخ عاقل اہلِ علم محققین کی بے پناہ کاوشوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان میں بے عقلی کا شائبہ بھی موجود نہیں ہوتا۔

وہ علم جو وجدانی طور پر ہمیں حاصل ہوتاہے ‘اس کا اعتبار بھی عقل ہی سے قائم ہوتاہے۔شرفِ انسانی کے اس سب سے بڑے مظہر یعنی عقل سے کا م نہ لینا اور یا اسے معطل کردیناانسان کوانسان کے درجے سے گرا کر ڈھور ڈنگروں کی صف میں لا کھڑا کرتاہے ‘اسی لیے:اللہ کے نزدیک بدترین جانور یہ بہر ے گونگے لوگ ہیں جوعقل سے کام نہیں لیتے( اور جو لوگ اپنے آپ کو سننے اور سمجھنے کے اوصاف سے محروم کرلیتے ہیں تو پھر وہ محض دو ٹانگوں پر چلنے والے بدترین جانور بن کر رہ جاتے ہیں) (۸: ۲۲)اور شرفِ عقل سے محروم ہو جانے کے بعدان کا حال یہ ہوتاہے کہ:ان کے دل (ہوتے ہیں لیکن وہ سمجھتے نہیں ‘ان کی آنکھیں (ہوتی ) ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں (اور) ان کے کان (ہوتے) ہیں لیکن وہ سنتے نہیں ۔یہ چوپایوں کی مانند ہیں( کیوں کہ چوپایوں کی جستجو بھی پیٹ اور تن کے مطلوبات تک ہی محدود ہوتی ہے ‘اسی طرح اس کی دوڑ دھوپ بھی اپنی مادی ضروریات اور خواہشات تک محدود ہوتی ہے) بلکہ اس سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ( کیوں کہ چوپائے بہر حال اپنی جبلتوں کی تمام صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس میں وہ کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے ‘لیکن انسان کی فطرت کے اندر قدرت نے جو اعلیٰ صلاحیتیں رکھی ہیں ان سے نہ صرف یہ کہ وہ حقیقی فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ بسا اوقات وہ انھیں معطل کرکے بیل اور گدھے جیسی حرکتیں کرنے لگتاہے)یہی لوگ ہیں جو بالکل بے خبر ہیں( کیوں کہ ایسی بے خبری کاتو چوپایوں میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا) (۷: ۱۷۹)

(باقی)

__________________________

B