HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانعام ۶: ۵۶- ۶۷ (۵)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


قُلْ اِنِّیْ نُھِیْتُ اَنْ اَعْبُدَ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ، قُلْ: لَّآ اَتَّبِعُ اَھْوَآئَ کُمْ، قَدْ ضَلَلْتُ اِذًا، وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ{۵۶} قُلْ: اِنِّیْ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَکَذَّبْتُمْ بِہٖ مَا عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ یَقُصُّ الْحَقَّ وَھُوَ خَیْرُ الْفٰصِلِیْنَ{۵۷} قُلْ: لَّوْ اَنَّ عِنْدِیْ مَا تَسْتَعْجِلُوْنَ بِہٖ لَقُضِیَ الْاَمْرُ بَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالظّٰلِمِیْنَ{۵۸} وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ، وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ، وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُھَا، وَلَا حَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ{۵۹} 
وَھُوَ الَّذِیْ یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّیْلِ وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّھَارِ ثُمَّ یَبْعَثُکُمْ فِیْہِ لِیُقْضٰٓی اَجَلٌ مُّسَمًّی، ثُمَّ اِلَیْہِ مَرْجِعُکُمْ، ثُمَّ یُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ{۶۰} وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ وَیُرْسِلُ عَلَیْکُمْ حَفَظَۃً حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا، وَھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ{۶۱} ثُمَّ رُدُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ مَوْلٰھُمُ الْحَقِّ، اَلَا لَہُ الْحُکْمُ، وَھُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِیْنَ{۶۲} 
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ ھٰذِہٖ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ{۶۳} قُلِ: اللّٰہُ یُنَجِّیْکُمْ مِّنْھَا وَمِنْ کُلِّ کَرْبٍ، ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِکُوْنَ{۶۴} قُلْ: ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُمْ بَاْسَ بَعْضٍ، اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّھُمْ یَفْقَھُوْنَ{۶۵}
 وَکَذَّبَ بِہٖ قَوْمُکَ وَھُوَ الْحَقُّ قُلْ لَّسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ{۶۶} لِکُلِّ نَبَاٍ مُّسْتَقَرٌّ، وَّسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ{۶۷}
(اے پیغمبر)، کہہ دو ۶۸؎ کہ مجھے تو اُن کی عبادت سے روکا گیا ہے جنھیں تم خداکے سوا پکارتے ہو۔ ۶۹؎ کہہ دو: میں تمھاری خواہشوں کے پیچھے نہیں چل سکتا۔ ۷۰؎ اگر میں نے ایسا کیا تو گمراہی میں پڑا اور راستہ پانے والوں میں سے نہیں رہا۔ کہہ دو: میں اپنے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل۷۱؎ پر ہوں اور تم نے اُسے جھٹلا دیا ہے۔۷۲؎  تم جس چیز کے لیے جلدی مچائے ہوئے ہو، وہ میرے اختیار میں نہیں ہے۔ اُس کا فیصلہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ وہی حق کو واضح فرمائے گا اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ کہہ دو کہ جس چیزکے لیے تم جلدی مچائے ہوئے ہو، اگر وہ میرے ہاتھ میں ہوتی تو میرے اور تمھارے درمیان اِس معاملے کا فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ (یہ معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے) اور اللہ ظالموں سے خوب واقف ہے۔ غیب کی کنجیاں۷۳؎  اُسی کے پاس ہیں، اُنھیں اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بحروبر میں جو کچھ ہے، اُس کے علم میں ہے۔ درخت سے کوئی ایسا پتا اور زمین کی تہوں میں کوئی ایسا دانہ بھی نہیں گرتا اور نہ کوئی خشک و تر ایسا ہے جسے وہ نہ جانتا ہو۔ یہ سب (اُس کے ہاں) ایک کھلی کتاب میں درج ہے۔۷۴؎  ۵۶-۵۹
وہی ہے جو رات میں تمھاری روحیں قبض کر لیتا ہے اور جو کچھ دن میں کرتے ہو، اُسے بھی جانتا ہے۔ پھر اُسی میں تمھیں اٹھا کھڑا کرتا ہے تاکہ زندگی کی مقرر مدت پوری کی جائے۔ آخرکار تمھیں اُسی کی طرف لوٹنا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا جو کچھ کرتے رہے ہو۔ وہ اپنے بندوں پر پوری طرح حاوی ہے اور تم پر (اپنے) نگران مقرر رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے ہی اُس کی روح قبض کرتے ہیں اور (اِس کام میں) کبھی کوتاہی نہیں کرتے۔ پھر سب کے سب اپنے حقیقی مولا کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں۔ سنو، فیصلے کا سارا اختیار اُسی کے ہاتھ میں ہے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ حساب چکانے والا ہے۔ ۷۵؎ ۶۰-۶۲
اِن سے پوچھو کہ بحروبر (میں آفات و مصائب) کی تاریکیوں سے کون تمھیں بچاتا ہے، جبکہ تم گڑگڑا کر اور چپکے چپکے اُسے پکار رہے ہوتے ہو ۷۶؎ کہ اگر اُس نے اِس مصیبت سے ہمیں بچا لیا تو ہم اُس کے شکرگزار بندے بن کر رہیں گے؟ کہہ دو: اِس سے اور ہر مصیبت سے اللہ ہی تمھیں نجات دیتا ہے، لیکن اِس کے بعد پھر شرک کرنے لگتے ہو۔۷۷؎ کہہ دو: وہ پوری قدرت رکھتا ہے کہ تم پر تمھارے اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے یا تمھارے پائوں کے نیچے سے برپا کر دے یا تمھیں گروہ در گروہ کر کے گتھم گتھا کرے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو، کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف پہلوؤں سے پیش کر رہے ہیں تا کہ وہ سمجھ لیں۔ ۶۳-۶۵
تمھاری قوم نے (اے پیغمبر، ہماری اِس وعید کو) جھٹلا دیا ہے، دراں حالیکہ یہ بالکل حقیقت ہے۔ اِن سے کہہ دو کہ میں تمھارے اوپر کوئی داروغہ نہیں بنایا گیا ہوں (کہ تمھیں ضرور ہی سمجھا دوں)۔ ہر بات کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ (اِس کے باوجود عذاب ہی مانگتے ہو تو) عنقریب یہ حقیقت تمھیں بھی معلوم ہو جائے گی۔ ۶۶-۶۷

۶۸؎ یہ لفظ اِس آیت میں بھی ہے اور آگے کی آیتوں میں بھی باربار آیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب باتیں اُن شبہات و اعتراضات کے جواب میں کہی گئی ہیں جو مخاطبین کی طرف سے پیش کیے جارہے تھے۔

۶۹؎ یعنی دعا و استرحام کے لیے پکارتے ہو۔ یہ اُسی بات کو منفی پہلو سے دہرایا ہے جو پیچھے بیان ہوئی ہے کہ خدا کی شہادت جو قرآن کی صورت میں مجھ پر نازل ہوئی ہے، وہ تو یہی ہے کہ زمین و آسمان کا پروردگار وحدہ لا شریک ہے۔

۷۰؎ اصل میں لفظ ’اَھْوَآئ‘ آیا ہے۔ اِس سے مراد مشرکانہ بدعات ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔’اَھَوَآئ‘ کے لفظ سے تعبیر کرکے قرآن نے اِن کے بے بنیاد ہونے کو واضح فرمایا ہے کہ اِن کے شریک خدا ہونے کی کوئی شہادت نہ تو عقل و فطرت کے اندر موجود ہے، نہ خدا کے کلام و الہام میں، محض اپنے جی سے تم نے یہ چیزیں گھڑی ہیں اور چونکہ اِن کی موہوم شفاعت کی امید نے تمھیں ایمان و عمل اور فکر آخرت کی تمام ذمہ داریوں سے فارغ کر دیا ہے، اِس وجہ سے یہ تمھارے نفس کو بہت پسند ہیں۔ بہرحال تمھیں پسند ہیں تو ہوں، لیکن حقیقت اور خواہش میں بڑا فرق ہے۔ میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں حقیقت کو نظرانداز کر کے تمھاری جھوٹی آرزوؤں، باطل خواہشوں اور بے سند بدعات کی پیروی کروں۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۶۶)

۷۱؎ یعنی قرآن مجید جو توحید کی حقیقت کو ہر لحاظ سے واضح کر دیتا ہے۔

۷۲؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَکَذَّبْتُمْ بِہٖ‘۔ اِن میں ضمیر کا مرجع لفظ ’بَیِّنَۃ‘ ہے جس کا ترجمہ ہم نے روشن دلیل کے الفاظ سے کیا ہے۔ اِس کے لیے ضمیر مونث آنی چاہیے تھی، لیکن یہ لفظ کے بجاے مفہوم و مصداق کے لحاظ سے آگئی ہے۔ اِس کا فائدہ یہ ہے کہ اِس سے قرآن کا ایک قطعی حجت اور واضح شہادت ہونا بھی واضح ہوا اور یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ ’بَیِّنَۃ‘ سے مراد قرآن ہی ہے۔

۷۳؎ یعنی وہ کنجیاں جن سے تمام غیب کے دروازے کھل جائیں۔

۷۴؎ اوپر والے مضمون کی تقریب سے یہ علم الٰہی کی وسعت اور اُس کے احاطہ کو بیان فرمایا ہے جس سے ضمناً یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ خدا صرف کلیات ہی کا نہیں، بلکہ جزئیات کا بھی عالم ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اللہ تعالیٰ کے علم کی اِس وسعت کا اعتقاد ہی ہے جو اہل ایمان کے اندر کامل تفویض، کامل اعتماد اور کامل رضا بالقضا کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ اِس میں معمولی غلط فہمی بھی شرک کی راہیں کھول دیتی ہے۔ یہی چیز آخرت پر سچے اور پکے ایمان کی بنیاد ہے اور اِسی کے صحیح تصور و تذکر سے انسان کے اندر وہ خشیت بھی پیدا ہوتی ہے جو زندگی میں اُس کو صحیح روش اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۶۸)

۷۵؎ بعث و نشر اور جزا و سزا کے بارے میں لوگوں کے مغالطے کی بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ علم الٰہی کا صحیح تصور نہیں رکھتے۔ اوپر کی آیتوں میں اُس کی وضاحت فرمائی تو موقع پیدا ہو گیا کہ موت کے بعد زندگی اور حساب کتاب کی یاددہانی کر دی جائے۔ اِس کے لیے اُس تمثیلی مشاہدے کا حوالہ دیا ہے جو ہم میں سے ہر شخص کو ہر روز کرایا جا رہا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔قرآن نے یہاں ہر شب میں سونے کو ’وفات‘ سے اور ہر صبح کے اٹھنے کو ’بعث‘ سے تعبیر کرکے توجہ دلائی ہے کہ مرنا اور اٹھنا تو ہر روز ہو رہا ہے، جس طرح تمھارا سونا اور جاگناہے، اُسی طرح تمھارا مرنا اور اٹھنا ہے اور جس طرح تم میں سے کسی سونے والے کے دن کے اعمال سے خدا لاعلم نہیں ہوتا، اُسی طرح جب تم موت کی نیند سوؤ گے تو خدا تمھاری زندگی کے اعمال بھول نہیں جائے گا اور جس طرح تمھاری ہر شب کی نیند کے بعد صبح ہوتی ہے اور تم آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھ بیٹھتے ہو، اُسی طرح موت کی نیند کے بعد قیامت کی صبح آئے گی اور تم ایسا محسوس کرو گے کہ یہ جو کچھ ہوا، سب صبح و شام کا قصہ ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۶۹)

۷۶؎ اصل الفاظ ہیں: ’تَدْعُوْنَہٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً‘۔ ’تَدْعُوْنَ‘ ’یُنَجِّیْکُمْ‘ کی ضمیر مفعول سے حال واقع ہوا ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔

۷۷؎ یہ اُن حقائق کی طرف متوجہ فرمایا ہے جو خدا کی توحید سے متعلق خود انسان کے اندر موجود ہیں۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B