عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ. قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ أَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہُ حَسَنًا وَنَعْلُہُ حَسَنَۃً. قَالَ: إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ یُحِبُّ الْجَمَالَ.الْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ.
حضرت عبد اللہ بن مسعود( رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔ ایک آدمی نے پوچھا: آدمی اچھے کپڑے اور اچھے جوتے پسند کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا: اللہ خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر حق کا انکار اور لوگوں کی تحقیر ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا یَدْخُلُ النَّارَ أَحَدٌ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِّنْ إِیْمَانٍ. وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ أَحَدٌ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِّنْ کِبْرِیَاءَ.
حضرت عبد اللہ( رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص جہنم میں نہیں جائے گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے، اور وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ.
حضرت عبد اللہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہے۔
’لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ‘:مراد ہے :وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گاجس نے ...۔ اس طرح کے عمومی اسلوب کی متعدد مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ اس طرح کے اسلوب کو حتمی یا کلی معنی میں لینا درست نہیں ہے۔یہ اسلوب شدت کے ساتھ متوجہ کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید سے واضح ہے کہ وہی تکبر باعث جہنم ہے جو حق کے انکار تک لے جانے کا باعث ہو۔
’بَطَرُ الْحَقِّ‘: ’بَطَرُ الْحَقِّ‘ سے مراد حق کی تضحیک اور اس کا ابطال ہے۔
’غَمْطُ النَّاسِ‘: ’ غَمْطُ النَّاسِ ‘ کا مطلب لوگوں کو حقیر یا کم تر سمجھناہے ۔
’مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِّنْ إِیْمَانٍ ‘: ’خردل‘ ایک سیاہ دانہ ہے جو بہت باریک ہوتا ہے۔ ’مثقال‘ کا لفظ مقدار بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔اس دانے کے برابر مقدار مراد ہے ۔ یہ کسی شے کی قلیل ترین مقدار کو بیان کرنے کا ایک اسلوب ہے۔
’إِنَّ اللّٰہَ جَمِیْلٌ‘: ’اللہ خوب صورت ہے ‘۔شارحین نے یہ بحث کی ہے کہ اللہ کے خوب صورت ہونے سے کیا مرادہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کا صفات حسن وکمال سے متصف ہونا مراد ہے یا اللہ تعالیٰ کا انسانوں کے ساتھ لطف وعنایات سے پیش آنا مراد ہے؟روایت کے دروبست ہی سے واضح ہے کہ یہاں پہلا پہلو مراد ہے۔
اس روایت میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں: ایک تکبر کا انجام اور دوسرے یہ تصریح کہ اچھا لباس پہننے میں تکبر نہیں ہے، بلکہ تکبر حق کے انکار اور لوگوں کی تحقیر میں ہے۔ تکبر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کی ذرہ برابر مقدار بھی آدمی کو جنت کا مستحق نہیں رہنے دیتی۔ سورۂ اعراف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْھَا لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ.(۷: ۴۰)
’’بے شک جنھوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور تکبر کی وجہ سے ان سے گریز کیا، ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے، یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو جائے۔ اورہم مجرموں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔‘‘
اس آیت سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ متکبر کو جنت سے محرومی کی وعید کس وجہ سے دی جاتی ہے، یعنی جب تکبر تکذیب آیات پر منتج ہو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حق سے گریز وانکار میں تکبر کو ایک بڑے محرک کی حیثیت حاصل ہے۔ تکبر اپنی اصل میں احساس برتری کا نام ہے، لیکن یہ مرض کی صورت اس وقت اختیار کر جاتا ہے، جب دوسرے انسان حقیر نظر آنے لگیں اور حق کا اثبات آدمی کو اپنی انا توڑنے کے مترادف لگنے لگے۔ قرآن مجید میں تکبر کا یہ پہلو کئی مواقع پر زیر بحث آیا ہے۔ ابلیس کا سجدہ کرنے سے انکار کا معاملہ بھی تکبر ہی کی وجہ سے پیش آیا۔ وہ انسان کے مقابلے میں اپنی برتری کے ایسے احساس میں مبتلا ہوا کہ کائنات کے مالک کا حکم نہ ماننے پر تل گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تکبر کا جو پہلو جنت سے محرومی پر منتج ہوتا ہے، وہ اس کا کفر تک لے جانا ہے۔تکبر حقیقت میں دل کا مرض ہے۔ یہ اپنے بہتر یا بڑے ہونے کے تصور سے پیدا ہوتا اور بدرجۂ آخر دوسروں کی تحقیر اور حق قبول کرنے کی استعداد سے محرومی پر لے جاتا ہے،اس کی وجہ یہ ہے کہ حق کو قبول کرنا بندگی کو قبول کرنا ہے اور بندگی تکبر کی بالکل ضد ہے۔بندگی اپنے محتاج ہونے کا اقرار ہے۔ بندگی خدا کی کبریائی کا اقرار ہے۔ بندگی سرجھکانے کا نام ہے۔ بندگی اعتراف خطا کا نام ہے۔ یہ سارے عمل تکبر کی صورت میں نہیں ہو سکتے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ متکبر خدا کی آیات کی تکذیب کرے گا۔ وہ عبادت سے گریزاں رہے گا۔ وہ اپنی انا کی وجہ سے دوسروں کے لیے باعث آزار بنا رہے گا۔ یہ سارے جرائم جنت سے دور لے جانے والے جرائم ہیں۔یہ بات کہ ذرہ برابر تکبر بھی جنت سے محرومی کا سبب بنے گا، نتیجے کے اعتبار سے کہی گئی ہے اور پیش نظر تنبیہ ہے۔ اگر کوئی شخص جہنم سے بچنا چاہتا ہے تو اسے اپنے آپ کو تکبر سے بچانا ہے۔ تکبر کا شائبہ بھی اگر اس کا علاج بروقت نہ ہو تو تکبر کے ان نتائج تک لے جائے گا جن سے ان روایات میں خبردار کیا گیا ہے۔
متکبر کے جنت میں نہ جانے کی وعید کی نوعیت ہمارے نزدیک یہی ہے، لیکن شارحین نے اس اشکال کو دو طرح سے حل کیا ہے: ایک یہ کہ تکبر والے لوگ تکبر کی صفائی کرکے جنت میں داخل کیے جائیں گے اور اس حوالے سے وہ قرآن مجید کی آیت ’وَنَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ‘،’’اور ان کے سینے کی ہر خلش ہم کھینچ لیں گے‘‘ (الاعراف ۷:۴۳) سے استدلال بھی کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ صاحب تکبر بعد میں جنت میں جائے گا۔ ہم نے اس روایت کو تنبیہ اور انذار کے معنی میں لیا ہے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے کی نشان دہی کی ہے جو ذرہ برابر بھی تکبر کی موجودگی سے پیدا ہو سکتا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روایت میں تکبر کی جو توضیح کی ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ تکبر کا آخری درجہ ہے۔ ہر آدمی کے اندر اپنے بارے میں اچھی راے ہوتی ہے، لیکن یہ اچھی راے آگے بڑھ کر انا اور تکبر کی صورت بھی اختیار کر لیتی ہے۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جب لوگ حقیر لگنے لگیں اور حق کو قبول کرنے میں انا آڑے آنے لگے۔ ظاہر ہے اس طرح کا متکبر ان جرائم کا مرتکب ہونے سے بچ نہیں سکتا جو جہنم میں لے جانے کا باعث ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ دونوں چیزیں تکبر کی گھناؤنی حالت کی علامت بھی ہیں اور نتیجہ بھی۔
تکبر کے حوالے سے ایک سوال بھی اس روایت میں بیان ہوا ہے۔ یہ سوال حضور سے بھی کیا گیا اور آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہے۔ کیا اچھا لباس، اچھی خوراک، اچھی رہایش بھی تکبر ہی کا اظہار ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب نفی میں دیا ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے زیر بحث آئی ہے۔ سورۂ اعراف ہی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ.(الاعراف ۷: ۳۲)
’’کہہ دو: اللہ کی زینت کس نے حرام ٹھہرائی ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے، اور پاکیزہ رزق بھی۔کہہ دو:یہ(نعمتیں) دنیوی زندگی میں اہل ایمان کے لیے ہی ہیں، اور قیامت کے روز صرف انھی کے لیے ہوں گی۔ ہم جاننے والوں کے لیے اسی طرح آیات کو واضح کرتے ہیں۔‘‘
اس آیت میں اہل ایمان کے لیے نعمتوں اور زینتوں سے لطف اندوز ہونے کو جس زور اور شان سے بیان کیا گیا ہے، اس سے ان تمام نظریات کی نفی ہو جاتی ہے جو ترک لذات کو دین داری کی معراج قرار دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں جس چیز کی مذمت ہوئی ہے، وہ دنیا پرستی ہے۔بطن و فرج کی غلامی ہے۔ دین کے تقاضوں کے مقابلے میں دنیوی مفادات کو ترجیح دینا ہے۔ اچھا لباس پہننا اور چیز ہے اور اچھے لباس ہی کو اپنی ساری تگ ودو کا ہدف بنا لینا اور چیز۔ پہلی چیز محمود ہے اور دوسری مذموم۔
اس روایت میں اللہ تعالیٰ کی طرف صفت جمال کی نسبت کی گئی ہے۔ شارحین نے اس نسبت دینے کو بھی موضوع بنایا ہے اور اس کے معنی پر بھی کلام کیا ہے۔ سوال یہ زیر بحث ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی صفت کی نسبت کی جا سکتی ہے جو قرآن میں بیان نہ ہوئی ہو۔ ہمارے نزدیک اس باب میں شارحین کی وہی وضاحت درست ہے جو انھوں نے سورۂ اعراف (۷) کی آیت ۱۸۰’ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی‘(تمام اچھے نام اللہ کے ہیں) کی روشنی میں کی ہے۔ ’تمام اچھے نام اللہ کے ہیں‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات کمال سے متصف ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہر اس صفت کی نسبت درست ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کاملیت کو ظاہر کرتی ہے۔
دوسرا زیر بحث پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے صاحب جمال ہونے سے کیا مراد ہے؟ کچھ شارحین نے اس سے اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ رحمت وکرم کے برتاؤ کا پہلو مراد لیا ہے، لیکن اس روایت میں جس چیز پر استشہاد کیا گیا ہے، اس سے اس معنی کی مناسبت نہیں ہے۔ چنانچہ شارحین نے بالعموم اس معنی کو قبول نہیں کیا ہے۔ دوسرے معنی یہ کیے گئے ہیں کہ جمیل یہاں مجمل کے معنی میں ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اشیا کو حسن بخشتے ہیں۔ یہ معنی بھی کھینچ تان کر ہی پیدا کیے گئے ہیں کہ لفظ جمیل کے معروف معنی کسی شے کے خود خوب صورت ہونے ہی کے ہیں۔ کسی بھی فعل یا صفت کی اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت اس میں خصوصی معنی پیدا کر دیتی ہے۔ شارحین کی مشکل یہ ہے کہ ذات باری کے بارے میں کوئی بات کیسے کہی جا سکتی ہے۔ یہ بات درست ہے، مگر وہ ذات جس نے اس کائنات کو جس طرح حسن بخشا ہے، یہ حسن خود اس کے صاحب جمال ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ ہم نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں ہی سے سمجھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تخلیق سے دونوں باتوں پر روشنی پڑتی ہے، اس پر بھی کہ وہ کیا پسند کرتا ہے اور اس پر بھی کہ وہ خود کیسا ہو گا۔
اوپر روایت میں ذرہ برابر ایمان کو بھی یقینی نجات کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔ یہ بات قرآن مجید کے تقابل میں محل نظر دکھائی دیتی ہے، اس لیے کہ قرآن مجید اصرار کے ساتھ ایمان اور عمل صالح بہ یک وقت دونوں کو یقینی نجات کے لیے شرط ٹھہراتا ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وضاحت اس طرح کریں گے کہ اس میں ایمان سے مراد وہ ایمان ہے جو محض قول کی حیثیت نہیں رکھتا ،بلکہ ایک حقیقی فیصلے کی حیثیت رکھتا ہے اور جس کا لازمی نتیجہ اعمال صالح ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب اس ایمان کا کوئی تصور نہیں رکھتے تھے جو بعد میں نسلی مسلمانوں میں اب ظاہر ہوا ہے کہ یہ محض نام کے مسلمان ہیں، ان کے اعمال پر اس اسلام کا کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔
زیر بحث روایت کے تین متن امام مسلم نے اپنی کتاب کے لیے منتخب کیے ہیں: ایک متن میں ذرہ برابر تکبر کا انجام بیان ہوا ہے۔ دوسرے متن میں ذرہ برابر ایمان کا اجر بیان ہوا ہے۔ تیسرے متن میں دونوں جمع ہو گئے ہیں۔اسی طرح ایک متن میں تکبر کی توضیح بھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت جمال کے حوالے سے حسن وخوبی کو پسندیدہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ کتب روایت میں اس روایت کے یہی متون الفاظ کے فرق کے ساتھ روایت کیے گئے ہیں۔ ایک اعتبار سے دیکھیں تو امام مسلم نے اختلاف متن کے تمام پہلو جمع کر دیے ہیں۔ باقی کتب روایت میں ایسا کوئی فرق روایت نہیں ہوا جو روایت کے معنی پر اثر انداز ہوتا ہو یا اس کے کسی پہلو کو سمجھنے میں مددگار ہو۔
بعض روایات میں انجام بیان کرنے کے لیے ’أکبہ اللّٰہ علی وجہہ فی النار‘ یا ’ ما من رجل... تحل لہ الجنۃ أن یریح ریحہا ولایراہا‘ کی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں۔ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نوح علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو وصیت کا ذکر کیا تھا جس میں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو یہ بات بھی بتائی تھی۔
آدمی کی پسند کا ذکر بالعموم اسی انداز میں ہوا ہے، جس طرح امام مسلم کی روایت میں درج ہے، لیکن بعض روایات میں ذرا تفصیلی انداز بیان بھی منقول ہے۔ ایک روایت میں مثال کے طور پر یہ بات ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: ’إنی لیعجبنی أن یکون ثوبی غسیلاً، ورأسی دہینًا، وشراک نعلی جدیدًا، وذکر أشیاء حتی ذکر علاقۃ سوطہ‘۔ایک اور روایت میں اسی بات کے لیے یہ مثالیں بیان کی گئی ہیں: ’إنی أحب أن أتجمل بنقاء ثوبی، وبطیب طعامی، وبحسن مرکبی‘۔
تکبر کی وضاحت میں امام مسلم کی روایت میں ’بطر الحق‘ اور ’غمط الناس‘ کی تعبیرات اختیار کی گئی ہیں۔ دوسری روایت میں ’بطر‘ کے لیے ’سفہ‘ کا لفظ آیا ہے۔ اسی طرح ’غمط‘ کی جگہ اسی کامترادف ’غمص‘ یا ’ازدراء‘ آیا ہے۔بعض روایات میں یہ تصریح بھی آئی ہے کہ وہ شخص متکبر نہیں ہو سکتا جو غریبوں کے ساتھ بیٹھ جاتا ہو۔ گدھے پر سواری کر لیتا ہو اور بکری کا دودھ پی لیتا ہو۔
مسلم، رقم۹۱؛ ترمذی، رقم ۱۹۹۸، ۱۹۹۹؛ ابوداؤد، رقم۴۰۹۱؛ ابن ماجہ، رقم۵۹، ۴۱۷۳؛ابن ابی شیبہ، رقم۲۶۵۷۸، ۲۶۵۸۰، ۲۶۵۸۱؛ احمد، رقم۳۷۸۹، ۳۹۱۳، ۳۹۴۷، ۴۳۱۰، ۶۵۲۶، ۷۰۱۵، ۱۷۴۰۷؛ مسند عبد بن حمید، رقم۱۱۵۱؛ التواضع والخمول، رقم۱۹۲، ۱۹۶، ۲۱۸؛ الآحاد والمثانی، رقم۲۸۲۱؛ مسند ابو یعلٰی، رقم۵۰۱۳، ۵۰۶۵، ۵۰۶۶، ۵۲۸۹، ۵۳۳۰؛ ابن حبان، رقم۲۲۴، ۵۴۶۶، ۵۶۸۰؛ مسند شامیین، رقم۶۲، ۷۴۵؛ المعجم الکبیر، رقم۶۶۶۸، ۱۰۰۰۰، ۱۰۰۶۶، ۱۰۵۳۳؛ مستدرک، رقم۶۹، ۵۷۵۷۔
________________