HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۱۱۶-۱۲۶ (۱۸)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ، وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً بَعِیْدًا{۱۱۶} اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اِنٰثًا، وَاِنْ یَّدْعُوْنَ اِلاَّ شَیْْطٰنًا مَّرِیْدًا{۱۱۷} لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَقَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِکَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا{۱۱۸} وَّلَاُضِلَّنَّہُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ، وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَّیْْطٰنَ وَلِیًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِیْنًا{۱۱۹} یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیْہِمْ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْْطٰنُ اِلاَّ غُرُوْرًا{۱۲۰} اُولٰٓـئِکَ مَاْوٰہُمْ جَہَنَّمُ وَلاَ یَجِدُوْنَ عَنْہَا مَحِیْصًا{۱۲۱}
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ، خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، وَعْدَ اللّٰہِ حَقًّا، وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰہِ قِیْلاً{۱۲۲}
لَیْْسَ بِاَمَانِیِّکُمْ وَلَآ اَمَانِیِّ اَہْلِ الْکِتٰبِ، مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئً ا یُّجْزَ بِہٖ وَلاَ یَجِدْ لَہُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّلاَ نَصِیْرًا{۱۲۳} وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتَ مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓـئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ، وَلاَ یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا{۱۲۴}
وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلاً{۱۲۵} وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْئٍ مُّحِیْطًا{۱۲۶}
(چنانچہ یہی ہوا اور ایمان کا راستہ چھوڑ کر اب یہ مشرکوں سے جاملے ہیں۔ اِنھیں بتائو کہ) اللہ اِس چیز کو نہیں بخشے گا کہ اُس کے شریک ٹھیرائے جائیں۔ ۱۸۵ اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق)۱۸۶  بخش دے گا۔ (اِس لیے شرک سے دور رہو) اور (یاد رکھو کہ) جو اللہ کے شریک ٹھیرائے گا، وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا ہے۔ (اِن پر افسوس)، یہ اللہ کے سوا پکارتے بھی ہیں تو دیویوں۱۸۷  کو پکارتے ہیں۱۸۸ اور پکارتے بھی ہیں تو اُسی شیطان کو پکارتے ہیں۱۸۹ جو سرکش ہو چکا ہے، جس پر خدا نے لعنت کی اور جس نے کہہ رکھا ہے کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا،۱۹۰ میں اُنھیں بہکائوں گا، اُنھیں آرزوئوں میں الجھائوں گا،۱۹۱ اُنھیں سکھائوں گا۱۹۲ تو وہ چوپایوں کے کان پھاڑیں گے۱۹۳ اور اُنھیں سکھائوں گا تو وہ خدا کی بنائی ہوئی ساخت کو بگاڑیں گے۔۱۹۴  (اِنھیں بتائو کہ) اللہ کو چھوڑ کر جس نے شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا، وہ صریح نقصان میں پڑ گیا۔ وہ اُن سے وعدے کرتا اور اُنھیںامیدیں دلاتا ہے، مگر شیطان کے وعدے سراسر فریب ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور اُس سے بھاگنے کے لیے یہ کوئی راہ نہ پائیں گے۔۱۹۵ ۱۱۶-۱۲۱
(اِس کے برخلاف) جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہیں، اُنھیں ہم عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُن میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں سچا ہو سکتا ہے۔ ۱۲۲
(تم پر واضح ہونا چاہیے کہ نجات) نہ تمھاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔۱۹۶ (اِس لیے) جو برائی کرے گا، اُس کا بدلہ پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں وہ اپنے لیے کوئی حامی اور مددگار نہ پاسکے گا۔اور جو نیکی کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ایسے ہی لوگ ہیں جو (خدا کی) جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ ۱۲۳-۱۲۴
(ایمان والوں کے مقابلے میں یہ منافق مشرکوں کو ترجیح دیتے ہیں) اور (نہیں سمجھتے کہ) اُس شخص سے بہتر کس کا دین ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور اچھے طریقے سے عمل کرنے والا ہو اور ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرے جو بالکل یک سو تھا ـــــ اور (یہی سبب ہے کہ)ابراہیم کو اللہ نے اپنا دوست بنایا تھا۔۱۹۷ (اللہ کے سوا کون اِس کا حق دار ہے کہ اپنے آپ کو اُس کے حوالے کر دیاجائے، اِس لیے کہ) زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ۱۲۵-۱۲۶

۱۸۵؎  اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔جس طرح تمام خیر کا منبع توحید ہے یعنی خدا کی ذات، صفات اور اُس کے حقوق میںکسی کو ساجھی نہ ٹھہرانا، اِسی طرح تمام شر کا منبع شرک ہے، یعنی خدا کی ذات، صفات اور اُس کے حقوق میں کسی کو شریک ٹھہرانا۔ توحید پر قائم رہتے ہوئے انسان اگر کوئی ٹھوکر کھاتا ہے تو وہ غلبۂ نفس و جذبات سے اتفاقی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی غلطی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ اِس وجہ سے وہ گرنے کے بعد لازماً اٹھتا ہے۔ برعکس اِس کے شرک کے ساتھ اگر کسی سے کوئی نیکی ہوتی ہے تووہ اتفاقی ہوتی ہے جس کا اصل منبع خیر یعنی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اس وجہ سے وہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ مشرک خدا سے کٹ جانے کی وجہ سے لازماً اپنی باگ نفس اور شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، اِس وجہ سے وہ درجہ بدرجہ صراط مستقیم سے اتنا دور ہو جاتا ہے کہ اُس کے لیے خدا کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا تاآنکہ وہ شرک سے توبہ کرے۔ اِس وجہ سے خدا کے ہاں شرک کی معافی نہیں ہے۔ البتہ توحید کے ساتھ اگر کسی سے گناہ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا معاف فرما دے گا۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۳۸۷)

۱۸۶؎  یعنی اپنے اُس قانون کے مطابق جو اُس نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے۔

۱۸۷؎  اصل میں لفظ ’اناث‘ آیا ہے۔ یہ ’انثیٰ‘ کی جمع ہے جس کے معنی عورت کے ہیں۔ آیت کے سیاق سے واضح ہے کہ یہاں اِس سے مراد دیویاں ہیں۔

۱۸۸؎   اِس آیت میں پکارنے سے مراد دعا، فریاد، استغاثہ، استعانت اور استرحام کے ارادے سے اُس معنی میں پکارنا ہے جس معنی میں کسی معبود کو پکارا جاتا ہے۔

۱۸۹؎   شرک جہاں کہیں اور جس صورت میں بھی پایا جاتا ہے، اُس کا امام اور پیشوا درحقیقت شیطان ہی ہے۔ اُس کے پکارنے کا ذکر یہاں اِسی حیثیت سے ہوا ہے۔

۱۹۰؎   یہ شیطان کی اُس دھمکی کا حوالہ ہے جو اُس نے اُس وقت دی، جب آدم کو سجدہ کرنے کے معاملے میں اُس کی سرکشی کے بعد اُسے راندۂ درگاہ قرار دیا گیا۔

۱۹۱؎   یہ اُن جھوٹی آرزوؤں کی طرف اشارہ ہے جن میں مشرک قومیں بالعموم مبتلا ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ عربوں کا یہ عقیدہ کہ دنیا اور آخرت کی نعمتیں اُن دیویوں اور دیوتاؤں کی سفارش سے ملتی ہیں جنھیں وہ پوجتے ہیں اور یہود کا یہ وہم کہ وہ ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد ہیں، اِس لیے جنت اُن کے حق میں لکھ دی گئی، اِنھی آرزوؤں کی مثالیں ہیں۔ یہی معاملہ نصاریٰ کا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا نے اپنے بیٹے کو انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ بنا دیا ہے۔

۱۹۲؎  اصل میں ’وَلَاٰمُرَنَّہُمْ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ جس طرح حکم دینے کے معنی میں آتے ہیں، اسی طرح بتانے، سکھانے اور ترغیب دینے کے معنی میں بھی آتے ہیں۔

۱۹۳؎  شیطان کی یہ بات اِس طرح پوری ہوئی کہ مشرک قوموں نے خاص خاص جانوروں کو اپنے فرضی معبودوں کی نذر کیا اور اِس کی علامت کے طور پر اُن کے کان چیرے تاکہ کوئی اُن سے تعرض نہ کرے۔

۱۹۴؎   یعنی خدا نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے، اُس کو مسخ کریں گے۔ چنانچہ توحید کے بجائے شرک کے داعی اور علم بردار ہوں گے، پھر اِسی کے تحت وہ سب چیزیں اختیار کرلیں گے جو فطرت کی تبدیلی کے حکم میں ہیں۔ مثلاً، رہبانیت، برہمچرج، عورتوں کا مرد اور مردوںکا عورت بننا اور اِس طرح کی دوسری خرافات۔

۱۹۵؎   اوپر بیان ہو اہے کہ شرک کی مغفرت نہیں ہو سکتی۔ قرآن نے یہ اِسی موقع کلام کی رعایت سے شرک کا بودا پن اور اُس کا حسب و نسب بھی واضح کر دیا ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’بودے پن کا ذکر دو پہلووں سے فرمایا: ایک تو یہ کہ شرک کا یہ سارا کارخانہ دیویوں کے بل بوتے پر قائم ہے، اول تو یہی پرلے سرے کی حماقت ہے کہ خداے واحد کے سوا کسی اور کا سہارا انسان ڈھونڈے، پھر حماقت در حماقت یہ کہ سہارا بھی فرضی عورتوں کا جن کی بے بسی اور ناتوانی خود ضرب المثل ہے۔ دوسرا یہ کہ اِس کی تمام تربنیاد شیطان کی پیدا کی ہوئی جھوٹی آرزوؤں اور اُس کے پرفریب وعدوں پر ہے اور شیطان کے سارے وعدے بالکل بے حقیقت ہیں۔ جب حقیقت کھلے گی تو نظر آئے گا کہ نہ ابراہیم کا حسب و نسب کچھ نافع ہے اور نہ لات و منات اور اُن کی شفاعت کا کوئی وجود ہے، بلکہ سارا معاملہ ایمان و عمل صالح پر منحصر ہے۔ جن کے پاس یہ متاع نہیں ہے، اُن کے لیے صرف جہنم ہے جس سے فرار کی کوئی راہ نہیں ہے۔
اُس کے حسب و نسب کا بیان اِس طرح فرمایا کہ اُس کا موجد اور امام ابلیس لعین ہے جس نے جوش حسد میں پہلے ہی روز یہ دھمکی دی تھی کہ میں تیرے بندوں میں سے اپنا حصہ بٹا کر رہوں گا، میں اُن کو گمراہ کروں گا، اُن کو طرح طرح کی جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کروں گا، وہ میرے حکم سے بتوں کو نذرانے پیش کریں گے اور میرے القا سے فطرت اللہ کو مسخ کریں گے۔ فرمایا کہ جو لوگ اِس شیطان لعین و متمرد کو اپنا مرجع اور کارساز بنائیں، اُن سے زیادہ بدبخت اور نامراد کون ہو سکتا ہے۔ فرمایا کہ شیطان اُن کو وعدوں کے سبز باغ دکھا رہا ہے اور آرزوؤں کے جال اُن کے آگے بچھا رہا ہے، حالانکہ شیطان کے سارے وعدے محض فریب ہیں۔ نہ شفاعت اُن کے کام آنی ہے نہ بزرگوں سے نسبت۔ اُن کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے کوئی مفر نہ ہو گا۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۳۹۱)

۱۹۶؎  یہ اُنھی آرزوؤں کا ذکر ہے جن کی وضاحت اوپر ہو چکی ہے۔

۱۹۷؎   یعنی اصل دین یہ ہے۔ ابراہیم اِسی کے پیرو تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کو اپنا دوست بنایا تو اِسی وجہ سے بنایا کہ ہر چیز سے الگ ہو کر اُنھوں نے اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیا تھا۔ مسلمان اِسی امام توحید کی پیروی کر رہے ہیں۔ اِس کے برخلاف اِن مشرکوں کا حال یہ ہے کہ ابراہیم کے طریقے کو چھوڑ کر اِنھوں نے امام شرک ابلیس کی پیروی اختیار کر لی ہے۔

[              باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B