اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ میں نے اِس دین کو جس طرح سمجھا ہے، اُسے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ یہ اِسی کتاب کا خلاصہ ہے جس میں کتاب کا نفس مضمون اُس کے علمی مباحث اور اُن کے استدلالات سے الگ کر کے سادہ طریقے پر پیش کر دیا گیا ہے۔جاوید
ایمان ایک دینی اصطلاح ہے۔ کسی چیز کو دل کے پورے یقین کے ساتھ تسلیم کر لیا جائے تو اُسے ایمان کہا جاتا ہے۔ اِس کی اصل خدا پر ایمان ہے۔ انسان اگر اپنے پروردگار کو اِس طرح مان لے کہ تسلیم و رضا کے بالکل آخری درجے میں اپنے دل و دماغ کو اُس کے حوالے کر دے تو قرآن کی اصطلاح میں وہ مومن ہے۔ ایمان کی یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر قرآن تقاضا کرتا ہے کہ انسان کے قول و عمل کو بھی اُس پر گواہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہر نیکی کو وہ ایمان کا خاصہ اور ایمان والوں کا لازمی وصف بتاتا ہے۔
اِس میں شبہ نہیں کہ قانون کی نگاہ میں ہر وہ شخص مومن ہے جو زبان سے اسلام کا اقرار کرتا ہے۔ اُس کا یہ ایمان کم یا زیادہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن جہاں تک حقیقی ایمان کا تعلق ہے، وہ ہرگز کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ اللہ کے ذکر اور اُس کی آیتوں کی تلاوت اور انفس و آفاق میں اُن کے ظہور سے اُ س میں افزونی ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اُسے ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین کی گہرائیوں میں اتری ہوئی اور شاخیں آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہوں۔
یہی معاملہ ایمان میں کمی کا ہے۔ انسان اگر اپنے ایمان کو علم نافع اور عمل صالح سے برابر بڑھاتے رہنے کے بجائے اُس کے تقاضوں کے خلاف عمل کرنا شروع کر دے تو یہ کم بھی ہوتا ہے، بلکہ بعض حالات میں بالکل ختم ہو جاتا ہے۔
اِس سے واضح ہے کہ ایمان اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا جس طرح ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے، اِسی طرح عمل کے ساتھ ایمان بھی ضروری ہے۔ نجات کے لیے قرآن نے ہر جگہ اِسے شرط اولین قرار دیا ہے۔
یہ ایمان درج ذیل پانچ چیزوں سے عبارت ہے:
۱۔ اللہ پر ایمان
۲۔ فرشتوں پر ایمان
۳۔ نبیوں پر ایمان
۴۔ کتابوں پر ایمان
۵۔ روز جزا پر ایمان
اللہ اُس ہستی کا نام ہے جو زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کی خالق ہے۔ یہ نام ابتدا ہی سے پروردگار عالم کے لیے خاص رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی یہ اِسی مفہوم کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دین ابراہیمی کے جو باقیات عربوں کو وراثت میں ملے تھے، یہ لفظ بھی اُنھی میں سے ہے۔
اللہ کا اقرار ایک ایسی چیز ہے جو ازل ہی سے انسان کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ یہ معاملہ ایک عہدومیثاق کی صورت میں ہوا ہے۔ اِس عہد کا ذکر قرآن ایک امرواقعہ کی حیثیت سے کرتا ہے۔ انسان کو یہاں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے، اِس لیے یہ واقعہ تو اُس کی یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے، لیکن اِس کی حقیقت اُس کے صفحۂ قلب پر نقش اور اُس کے نہاں خانۂ دماغ میں پیوست ہے، اِسے کوئی چیز بھی محو نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانع نہ ہو اور انسان کو اِسے یاد دلایا جائے تو وہ اِس کی طرف اُسی طرح لپکتا ہے، جس طرح بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے، دراں حالیکہ اُس نے کبھی اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اِس یقین کے ساتھ لپکتا ہے، جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اِس کو جانتا تھا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کا یہ اقرار اُس کی ایک فطری احتیاج کے تقاضے کا جواب تھا جو اُس کے اندر ہی موجود تھا۔ اُس نے اِسے پالیا ہے تو اُس کی نفسیات کے تمام تقاضوں نے بھی اِس کے ساتھ ہی اپنی جگہ پالی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ نفس انسانی کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ جہاں تک خدا کی ربوبیت کا تعلق ہے، ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔
انسان کے باطن کی اِس رہنمائی کے ساتھ یہ صلاحیت بھی اُسے دی گئی ہے کہ اپنے ظاہری حواس سے جو کچھ وہ دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہے، اُس سے بعض ایسے حقائق کا استنباط کرے جو ماوراے حواس ہیں۔ اِس کی ایک سادہ مثال قانون تجاذب (Law of Gravitation) ہے۔ سیب درخت سے ٹوٹتا ہے تو زمین پر گر پڑتا ہے۔ پتھر کو زمین سے اٹھانا ہو تو اِس کے لیے طاقت خرچ کرنا پڑتی ہے۔ سیڑھیاں اترنے کے مقابلے میں چڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ چاند اور تارے آسمان میں گردش کرتے ہیں۔ انسان اِن چیزوں کو صدیوں سے دیکھ رہا تھا، یہاں تک کہ نیوٹن نے ایک دن انکشاف کیا کہ یہ سب قانون تجاذب کا کرشمہ ہے۔ یہ قانون بذات خود ناقابل مشاہدہ ہے، لیکن اِس وقت پوری دنیا اِس کو ایک سائنسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ تمام معلوم حقائق سے ہم آہنگ ہے۔ اِس سے تمام مشاہدات کی توجیہ ہو جاتی ہے اور دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اِس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔
یہ ظاہر ہے کہ محسوس سے غیر محسوس کا استنباط ہے۔ انسان جب اپنی اِس صلاحیت کو کام میں لا کر اپنا اور اپنے گردو پیش میں پھیلی ہوئی کائنات کا مطالعہ کرتا ہے تو اُس کا یہ مطالعہ بھی اُس کے باطن میں نہاں اِسی حقیقت کی گواہی دیتا ہے۔
چنانچہ وہ دیکھتا ہے کہ اِس دنیا کی ہر چیز حسن تخلیق کا معجزانہ اظہار ہے؛ ہر چیز میں اتھاہ معنویت ہے، غیرمعمولی اہتمام ہے؛ حکمت، تدبیر، منفعت اور حیرت انگیز نظم و ترتیب ہے؛ بے مثال اقلیدس اور ریاضی ہے جس کی کوئی توجیہ اِس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ اِس کا ایک خالق ہے اور یہ خالق کوئی اندھی اور بہری طاقت نہیں ہے، بلکہ ایک لامحدود ذہن ہے۔ اِس لیے کہ طاقت کا ظہور اگر کسی علیم و حکیم ہستی کی طرف سے نہ ہو تو اُسے جبرمحض ہونا چاہیے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اِس میں غایت درجہ موزونیت ہے، بے پناہ توافق ہے، اِس سے غیرمعمولی فوائد اور عجیب و غریب تغیرات پیدا ہوتے ہیں جو کسی اندھی اور بہری طاقت سے ہرگز پیدا نہیں ہو سکتے۔
یہ شواہد اگرچہ کافی تھے، مگر لوگوں پر اتمام حجت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مزید اہتمام یہ فرمایا کہ انسانیت کی ابتدا ایک ایسے انسان سے کی جس نے خدا کی بات سنی، اُس کے فرشتوں کو دیکھا اور اِس طرح حقیقت کے براہ راست مشاہدے کی گواہی دے کر دنیا سے رخصت ہوا تاکہ اُس کا یہ علم نسل در نسل اُس کی ذریت کو منتقل ہوتا رہے اور خدا کا تصور انسانی زندگی کے کسی دور، زمین کے کسی خطے، کسی بستی، کسی پشت اور کسی نسل کے لیے کبھی اجنبی نہ ہونے پائے۔
پھر یہی نہیں، پہلے انسان کی حیثیت سے آدم و حوا کو دنیا میں بھیجنے کے بعد ایک عرصے تک یہ اہتمام بھی کیا گیا کہ بنی آدم اگر اپنے ایمان و عمل کی قبولیت یا عدم قبولیت اِسی دنیامیں جاننا چاہیں تو جان لیں۔ یہ گویا حقیقت کو اُس زمانے کے ہر شخص کے لیے تجربے اور مشاہدے کے درجے تک پہنچا دینا تھا تاکہ اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی اِس گواہی میں شامل ہو جائے۔ اِس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرتے، پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور قبولیت کی علامت کے طور پر اُسے کھالیتی تھی۔
اِس سے واضح ہے کہ خدا کا وجود ایک بدیہی حقیقت ہے جس کا تصور انسان اپنے آبا سے لے کر آیا ہے اور جس کی گواہی نفس اور مادہ، دونوں اپنے وجود سے دیتے ہیں۔ لیکن خدا کی ذات کیا ہے؟ اُس کی صفات کیا ہیں؟ وہ سنن کیا ہیں جو اُس نے اپنی ذات کے لیے مقرر کر رکھے ہیں؟ انسان اگر اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرنا چاہے تو یہ سوالات اُ س کے ذہن میں لازماً پیدا ہوتے ہیں۔ ایمان کے لیے یہ معرفت ضروری ہے۔ قرآن نے جب اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مطالبہ کیا ہے تو اِن سوالوں کا جواب بھی دیا ہے۔ یہ جواب کیا ہے؟ ہم یہاں اِس کی وضاحت کریں گے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی طرح انسان کے حیطۂ ادراک میں نہیں آسکتی۔ اِس لیے کہ ادراک کے ذرائع جس ہستی نے پیدا کیے ہیں، وہ تو یقیناًاُنھیں پاسکتی اور اُن کا احاطہ بھی کر سکتی ہے، لیکن یہ ذرائع کسی طرح اُس کا احاطہ نہیں کر سکتے جو خود اُن کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات، البتہ کسی نہ کسی درجے میں انسان کی گرفت میں آتی ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ صفات سے متعلق کچھ چیزیں، خواہ وہ کتنی ہی حقیر ہوں، انسان کے پاس بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم و خبر، قدرت، ربوبیت اور رحمت و حکمت کا کچھ حصہ ہمیں بھی عطا فرمایا ہے۔ اُس پر قیاس کر کے خدا کی اِن صفات کا کچھ تصور ہم قائم کر سکتے ہیں۔ چنانچہ قرآن جب کہتا ہے کہ وہ خالق ہے، قدیر ہے، رحمن و رحیم ہے، علیم و حکیم ہے، حی و قیوم ہے، اول و آخر اور ظاہر وباطن ہے تو اِس سے خدا کی صفات کا ایک تصور یقیناًقائم ہو جاتا ہے۔
اِن صفات کے سمجھنے میں جو چیزیں ملحوظ رہنی چاہییں، اُن میں سے ایک اِن کی جہت حسن ہے۔ اِس لیے کہ قدرت اُسی وقت مدح کی مستحق ہے، جب وہ رحمت، کرم اور عدالت کے ساتھ ہو۔ غصے، انتقام اور قہروغضب کا ظہور بھی ظلم و عدوان کے خلاف ہو تو قابل تحسین ہے۔ رحمت، مغفرت اور جودوکرم بھی اپنے محل ہی میں تعریف کے مستحق ہوتے ہیں۔ قرآن مجید میں غنی کے ساتھ حمید، علیم کے ساتھ حکیم اور عزیز کے ساتھ غفور کی صفات اِسی جہت حسن کی طرف رہنمائی کے لیے آئی ہیں۔
اِسی طرح یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا جو تصور بھی قائم کیا جائے گا، وہ جلال وجمال اور کمال سے خالی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ’الواحد‘، ’الاحد‘، ’الصمد‘ مثال کے طور پر صفات کمال ہیں۔ ’القدوس‘، ’السلام‘، ’المومن‘ صفات جمال اور ’الملک‘، ’العزیز‘، ’الجبار‘ صفات جلال ہیں۔ انسان کے دل میں صفات جلال سے خوف، تعظیم اور مدح کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور صفات جمال سے حمد، رجا اور محبت کے۔ پھر صفات جلال حواس کے لیے زیادہ ظاہر اور صفات جمال عقل و دل کے زیادہ قریب ہوتی ہیں۔ پروردگار کو سامنے رکھا جائے تو صفات جمال کا غلبہ محسوس ہوتا ہے اور نفس انسانی نگاہوں کے سامنے ہو تو جلال کا پہلو نمایاں ہو جاتا ہے۔ انسان خدا سے ڈر کر اِسی بنا پر خدا کی طرف لپکتا اور اُس کی صفات جمال کے دامن میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن مجید جب یہ کہتا ہے کہ تمام اچھے نام اُسی کے ہیں تو اِس کے معنی اُس کے نزدیک یہی ہوتے ہیں کہ ہر وہ نام جو خدا کے جلال و جمال اور اُس کے کمال کو بیان کرتا ہے، وہ اچھا ہے اور اُس سے خدا کو پکارا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اِس لحاظ سے اہمیت کی حامل ہیں کہ اُن سے اُس کی عظمت نمایاں ہوتی ہے۔ انسان جب اُن کا صحیح تصور قائم کر لیتا ہے تو اِس کے نتیجے میں ایک ایسے خدا پر ایمان لاتا ہے جو یگانہ، یکتا اور بے ہمتا ہے؛ سب کے لیے پناہ کی چٹان ہے؛ زمین و آسمان اور اُن کے درمیان کی ہر چیز کا تنہا مالک ہے؛ اُس کی بادشاہی میں کوئی دوسرا شریک نہیں، اُس کے کارخانۂ قدرت میں کوئی دوسرا ساجھی نہیں؛ دنیا کی کوئی چیز اُس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں؛ عالم کا کوئی معاملہ اُس کے حکم سے باہر نہیں؛ ہر چیز اُس کی محتاج ہے، مگر اُس کو کسی کی احتیاج نہیں؛ جمادات، نباتات، حیوانات، سب اُس کے حضور میں سجدہ ریز اور اُس کی تسبیح و تہلیل میں مشغول ہیں؛ اُس کی قدرت بے انتہا، اُس کی وسعت غیر محدود اور اُس کی مشیت کائنات کے ذرے ذرے میں کار فرما ہے؛ وہ جب چاہے اور جس چیز کو چاہے فنا کرے اور جب چاہے اُس کو پھر پیدا کر دے؛ عزت و ذلت، سب اُسی کے ہاتھ ہے؛ سب فانی ہیں، وہی باقی ہے؛ وہ وراء الوراء ہے، مگر رگ جاں سے قریب ہے؛ اُس کا علم اور اُس کی قدرت ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے؛ وہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے؛ اُس کا ارادہ ہر ارادے میں نافذ اور اُس کا حکم ہر حکم سے بالاتر ہے؛ وہ ہر عیب سے پاک، ہر برائی سے منزہ اور ہر الزام سے بری ہے۔
اِن صفات کمال میں اہم ترین اللہ تعالیٰ کی توحید ہے۔ قرآن مجید نے سب سے زیادہ تاکید اور وضاحت کے ساتھ اِسے ہی بیان کیا ہے۔ یہاں تک کہ اِس صحیفۂ آسمانی کا آخری باب اپنے مضمون کے لحاظ سے جس سورہ پر ختم ہوا ہے، اُس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت فرمائی ہے کہ لوگوں کے سامنے برملا اعلان کر دیا جائے کہ اللہ یکتا ہے، سب کا سہارا ہے، وہ نہ کسی کا باپ ہے نہ بیٹا اور اُس کا کوئی ہم سر بھی نہیں ہے۔
توحید کی یہی اہمیت ہے جس کے پیش نظر قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ اِس کے بغیر انسان کا کوئی عمل مقبول نہیں ہے اور اِس کے ساتھ ہر غلطی کے بخشے جانے کی توقع ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ توحید پر ایمان کے ساتھ بندہ نہ گناہ پرسرکش ہو سکتا ہے اور نہ اُس کا ارتکاب کر لینے کے بعد توبہ و استغفار کی توفیق سے محروم رہ سکتا ہے۔ وہ لازماً پروردگار کی طرف لوٹتا ہے اور اِس طرح قیامت کی پیشی سے پہلے ہی اپنے لیے عفو ودر گزر کا استحقاق پیدا کر لیتا ہے۔
توحید کے جو دلائل قرآن میں آئے ہیں، وہ نہایت دل نشیں اور علم و عقل کے مسلمات پر مبنی ہیں۔ یہاں اتنی بات کافی ہے کہ خدا کی خدائی میں شریک ٹھیرانے کے لیے کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ قرآن نے اپنے مخاطبین سے ایک سے زیادہ مقامات پر مطالبہ کیا ہے کہ عقل و نقل سے اِس کی دلیل پیش کر سکتے ہو تو ضرور کرو۔ خدا کا کوئی شریک ہے یا نہیں، اِس کے لیے اصلی گواہی خود خدا ہی کی ہو سکتی ہے اور خدا کی گواہی کو جاننے کا واحد ذریعہ اُس کی نازل کردہ کتابیں اور وہ روایات و آثار ہیں جو اُس کے نبیوں اور رسولوں سے نسلاً بعد نسلٍ انسانیت کو منتقل ہوئے ہیں۔ اُن میں شرک کی تائید کے لیے کوئی شہادت موجود نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ جو معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ کرتے اور جس طریقے سے کرتے ہیں، اُسے قرآن میں سنت الٰہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ یہ سنن ناقابل تغیر ہیں، اِن میں ہر گز کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ چنانچہ خدا کی معرفت کے لیے جس طرح اُس کی صفات کا علم ضروری ہے، اِسی طرح اِن سنن الٰہیہ کا علم بھی ضروری ہے۔ یہ سنن درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے۔ خدا کے ایک عالمگیر قانون کی حیثیت سے یہ امتحان تمام عالم انسانیت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انسان کی طبیعت میں جو کچھ ودیعت ہے، وہ اِسی امتحان سے نمایاں ہوتا، نفس کے اسرار اِسی سے کھلتے اور علم و عمل کے درجات اِسی سے متعین ہوتے ہیں۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ موت و حیات کا یہ کارخانہ وجود میں آیا ہی اِس لیے ہے کہ اِس کا پروردگار دیکھ لے کہ کون سرکشی اختیار کرتا اور کون اُس کی پسند کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، لیکن اُس نے یہ سنت ٹھیرائی ہے کہ لوگوں کے ساتھ جزا و سزا کا معاملہ وہ مجرد اپنے علم کی بنیاد پر نہ کرے گا۔ یہ امتحان اِسی مقصد سے برپا کیا گیا ہے۔
اِس دنیا میں رنج و راحت، غربت و امارت، دکھ اور سکھ کی جو حالتیں انسان کو پیش آتی ہیں، وہ اِسی قانون کے تحت ہیں۔ اِن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا اور اِن کے کھوٹے اور کھرے میں امتیاز فرماتا ہے۔ وہ کسی کو مال و دولت او رعز و جاہ سے نوازتا ہے تو اُس کے شکر کا امتحان کرتا ہے اور کسی کو فقر و مسکنت میں مبتلا کرتا ہے تو اُس کے صبر کا امتحان کرتا ہے۔
اِس ابتلا میں انسان سے تقاضا کیا گیا ہے کہ گمراہی سے بچے اور اپنے لیے ہدایت کا راستہ اختیار کرے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ ہدایت اُس کی فطرت میں ودیعت ہے۔ پھر شعور کو پہنچنے کے بعد زمین و آسمان کی نشانیاں اِس کی طرف اُسے متوجہ کرتی ہیں۔ انسان اگر اِس ہدایت کی قدر کرے، اِس سے فائدہ اٹھائے اور خدا کی اِس نعمت پر اُس کا شکر گزار ہو تو خدا کی سنت ہے کہ وہ اِس کی روشنی کو اُس کے لیے بڑھاتا، اُس کے اندر مزید ہدایت کی طلب پیدا کرتا اور اِس کے نتیجے میں انبیا علیہم السلام کی لائی ہوئی ہدایت سے اُس کو بہرہ یاب ہونے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔
انسان اِس فطری ہدایت سے اعراض کا فیصلہ کر لے، اپنی عقل سے کام نہ لے اور جانتے بوجھتے حق سے انحراف کرے تو قرآن کی اصطلاح میں یہ ظلم اور فسق ہے اور خدا کسی ظالم اور فاسق کو کبھی ہدایت نہیں دیتا، بلکہ اُسے گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔
انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے جو شریعت انسانوں کو دی گئی ہے، اُس میں اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی ایسا حکم کبھی نہیں دیتا جو انسان کے تحمل سے باہر ہو۔ اُس کے تمام اعمال میں یہ معیار ہمیشہ سے قائم ہے کہ لوگوں کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ اُن پر نہ ڈالا جائے اور جو حکم بھی دیا جائے، انسان کی فطرت کے مطابق اور اُس کی صلاحیتوں کو تول کر دیا جائے۔ چنانچہ بھول چوک، غلط فہمی اور بلا ارادہ کوتاہی پر اِس شریعت میں کوئی مواخذہ نہیں ہے اور لوگوں سے اُس کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ظاہر و باطن میں وہ پوری صداقت اور دیانت داری کے ساتھ اُس کے احکام کی تعمیل کریں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بندے اگر سرکشی اختیار کر لیں تو اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ اُنھیں کوئی ایسی تکلیف نہیں دیتے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ تادیب و تربیت کے لیے، تعذیب کے لیے یا لوگوں کے برے اعمال کا نتیجہ اُن کو دکھانے یا خدا کے مقابلے میں اُن کا عجز اُن پر ظاہر کردینے کے لیے اِس طرح کی تکلیف یقیناًدی جاتی ہے۔
ابتلا کا جو قانون اِس سے پہلے بیان ہوا ہے، اُس کے تحت اللہ تعالیٰ جس طرح افراد کو صبر یا شکر کے امتحان کے لیے منتخب کرتا ہے، اِسی طرح قوموں کو بھی منتخب کرتا ہے۔ اِس انتخاب کے نتیجے میں جب کوئی قوم ایک مرتبہ سرفرازی حاصل کر لیتی ہے تو اللہ اُس کے ساتھ اپنا معاملہ اُس وقت تک نہیں بدلتا،جب تک وہ علم و اخلاق کے لحاظ سے اپنے آپ کو پستی میں نہیں گرا دیتی۔ یہ خدا کی غیر متبدل سنت ہے اورا پنی اِس سنت کے مطابق جب کسی قوم کے لیے بار بار کی تنبیہات کے بعد وہ ذلت و نکبت کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کا یہ فیصلہ کسی کے ٹالے نہیں ٹلتا اور دنیا کی کوئی قوت بھی خدا کے مقابلے میں اُس قوم کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ انسان کی پوری تاریخ قوموں کے عزل و نصب میں اِس سنت کے ظہور کی گواہی دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ جب اپنا کوئی مشن کسی فرد یا جماعت کے سپرد کرتا اور اُس کو اِسے پورا کرنے کا حکم دیتا ہے تو اُس کی مدد بھی فرماتا ہے۔ یہ مشن دعوت کا بھی ہو سکتا ہے اور جہاد و قتال کا بھی۔ اِس طرح کے کسی مشن کو پورا کرنے میں ایمان والوں کی مدد اللہ نے اپنے اوپر لازم کر رکھی ہے۔ یہ مدد الل ٹپ نہیں ہوتی، اِس کا ایک ضابطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ قرآن میں بیان فرمایا ہے۔ اُس کے بندوں کو یہ مدد اِ س ضابطے کے مطابق حاصل ہوتی ہے۔
انسان جب کوئی گناہ کر بیٹھتا ہے تو اِس کے لیے توبہ و استغفار کی گنجایش ہے۔ اِس معاملے میں قاعدہ یہ ہے کہ وہ اگر گناہ کے فوراً بعد توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے لازماً معاف کر دیتا ہے۔ لیکن اُن لوگوں کی توبہ ہر گز قبول نہیں کرتا جو زندگی بھر گناہوں میں ڈوبے رہتے اور جب دیکھتے ہیں کہ موت سر پر آن کھڑی ہوئی ہے تو توبہ کا وظیفہ پڑھنے لگتے ہیں۔ اِسی طرح جانتے بوجھتے حق کا انکار کر دینے والوں کی توبہ بھی قبول نہیں ہوتی، اگر وہ موت کے وقت تک اِس انکار پر قائم رہے ہوں۔
موت کے بعد جزا و سزا تو ایک اٹل حقیقت ہے، لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات یہ اِ س دنیا میں بھی دی جاتی ہے۔ خدا کی عدالت کا جو ظہور قیامت کے دن اُس کے منتہاے کمال پر ہونے والا ہے، یہ اُسی کی تمہید ہے۔ اِس کی جو صورتیں اللہ تعالیٰ نے بالکل متعین طریقے پر بیان فرمائی ہیں، وہ یہ ہیں:
اولاً، جو لوگ دنیا کے طالب ہوتے ہیں، اُسی کے لیے جیتے، اُسی کے لیے مرتے اور آخرت سے بالکل بے پرو ا ہو کر زندگی بسر کرتے ہیں، اُن کا حساب اللہ تعالیٰ جس کو جتنا چاہتا ہے، دے کر اِسی دنیا میں بے باق کر دیتا ہے اور اُن کی تمام کار گزاریوں کا پھل اُنھیں یہیں مل جاتا ہے۔
ثانیاً، رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد اُن کے منکرین پر اِسی دنیا میں عذاب آجاتا ہے او رماننے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔
ثالثاً، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کے لیے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اگر حق پر قائم ہو تو اُسے قوموں کی امامت حاصل ہو گی اور انحراف کرے تو اِس منصب سے معزول کر کے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دی جائے گی۔
اللہ تعالیٰ جن ہستیوں کے ذریعے سے مخلوقات کے لیے اپنا حکم نازل کرتے ہیں، اُنھیں فرشتے کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اُن کے لیے ’الملٰئکۃ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ ’ملک‘ کی جمع ہے جس کے معنی پیام بر کے ہیں۔ چنانچہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم لاہوت کے ساتھ اِس عالم ناسوت کا رابطہ اُن کی وساطت سے قائم ہوتا اور اِس کا تمام کاروبار اللہ تعالیٰ اُنھی کے ذریعے سے چلاتے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بارگاہ خداوندی سے جو حکم اُنھیں القا کیا جاتا ہے، اُس کو وہ ایک محکوم محض کی طرح اُس کی مخلوقات میں جاری کر دیتے ہیں۔ اِس میں اُن کا کوئی ذاتی اختیار اور ذاتی ارادہ کارفرما نہیں ہوتا۔ وہ سر تا پا اطاعت ہیں، ہر وقت اپنے پروردگار کی حمد و ثنا میں مصروف رہتے ہیں اور اُس کے حکم سے سرِ مو انحراف نہیں کرتے۔
بنی آدم کے لیے اتمام ہدایت کا اہتمام اللہ تعالیٰ نے جن ہستیوں کے ذریعے سے کیا ہے، اُنھیں نبی کہا جاتا ہے۔ یہ انسان ہی تھے، لیکن اللہ نے اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر اُنھیں اِس منصب کے لیے منتخب فرمایا۔ یہ ایک موہبت ربانی ہے، تعلیم و تربیت اور اخذ و اکتساب سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس حیثیت سے وہی لوگ منتخب کیے جاتے ہیں جو نفس اور شیطان کی ترغیبات سے اپنے آپ کو بچاتے، گناہوں سے محفوظ رہتے اور ہر لحاظ سے اپنی قوم کے صالحین و اخیار ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے یہ نبی ہر قوم کی طرف بھیجے ہیں۔ آدم علیہ السلام سے اللہ نے وعدہ کیا تھا کہ اُن کی ذریت کی رہنمائی کے لیے وہ خود اپنی طرف سے ہدایت نازل کرے گا۔ یہ ہدایت اِنھی نبیوں کے ذریعے سے بنی آدم کو دی گئی۔ وہ آسمان سے وحی پا کر لوگوں کو حق بتاتے ، اُس کے ماننے والوں کو اچھے انجام کی خوش خبری دیتے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرتے تھے۔
نبیوں کی ضرورت اِس لیے نہیں تھی کہ انسان اپنے پروردگار کو پہچانے اور اُسے خیر و شر میں امتیاز کا شعور دیا جائے۔ یہ سب چیزیں تو اُس کی خلقت کا حصہ اور اُس کی تخلیق کے پہلے دن ہی سے اُس کی فطرت میں ودیعت ہیں۔ لہٰذا یہ ضرورت اِن چیزوں سے واقف کرانے کے لیے نہیں، بلکہ دو وجوہ سے پیش آئی ہے:
ایک، اتمام ہدایت کے لیے۔ یعنی انسان کی فطرت میں جو کچھ بالاجمال ودیعت ہے اور جو کچھ وہ ہمیشہ سے جانتا ہے،اُس کی یاددہانی کی جائے او راُس کی ضروری تفصیلات کے ساتھ اُس کے لیے اُسے بالکل متعین کر دیا جائے۔
دوسرے، اتمام حجت کے لیے۔ یعنی انسان کو غفلت سے بیدار کیا جائے اور علم و عقل کی شہادت کے بعد اِن نبیوں کے ذریعے سے ایک دوسری شہادت بھی پیش کر دی جائے جو حق کو اِس درجہ واضح کر دے کہ کسی کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے یہ دونوں چیزیں عالمی سطح پر او ربالکل آخری درجے میں حاصل ہو گئی ہیں،اِس لیے نبوت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا ہے۔ قرآن نے اعلان کیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں۔ آپ کے بعد اب کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔
ان نبیوں کو پہچاننے میں کسی سلیم الفطرت شخص کو کوئی دقت نہیں ہوتی۔ انسان کے دل و دماغ بیدار ہوں تو روے و آواز پیمبر معجزہ ست۔ تاہم اِس کے ساتھ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی بینات بھی عطا فرماتے ہیں کہ معاندین اگرچہ زبان سے اقرار نہ کریں، لیکن اُن کی صداقت پر یقین کے سوا اُن کے لیے بھی کوئی راستہ باقی نہیں رہتا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بینات ہر نبی کو اُس کے زمانہ اور حالات کے لحاظ سے دی جاتی ہیں۔ اِن میں سے چند کا ذکر ہم یہاں کریں گے۔
۱۔ نبی بالعموم اپنے سے پہلے نبی کی پیشین گوئی کے مطابق اور اُس کا مصداق بن کر آتا ہے۔ اِس لحاظ سے وہ کوئی اجنبی شخصیت نہیں ہوتا۔ لوگ اُس سے متعارف بھی ہوتے ہیں اور اُس کے منتظر بھی۔ مسیح علیہ السلام کے بارے میں صراحت ہے کہ سیدنا یحییٰ نے اُن کی بعثت سے پہلے یروشلم میں اُن کی منادی کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت تورات و انجیل، دونوں میں بیان ہوئی ہے، بلکہ سیدنا مسیح کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ نبی امی کی بشارت کے لیے آئے تھے۔ قرآن نے اپنی صداقت کے لیے اِسے ایک برہان قاطع کی حیثیت سے پیش کیا ہے کہ بنی اسرائیل کے علما اُس کو اِس طرح پہچانتے ہیں، جس طرح ایک مہجور باپ اپنے موعود و منتظَر بیٹے کو پہچانتا ہے۔ اِس کے معنی یہ تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خوب پہچانتے تھے۔
۲۔ نبی جو کچھ خدا کی طرف سے اور خدا کے کلام کی حیثیت سے پیش کرتا ہے، اُس میں کوئی تضاد و تخالف نہیں ہوتا۔ دنیا میں آخری درجے کا کوئی عبقری بھی، خواہ وہ سقراط و فلاطوں ہو یا کانٹ اور آئن اسٹائن، غالب و اقبال ہو یا رازی و زمخشری، اپنی تخلیقات کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن قرآن نے یہ بات اپنے بارے میں کہی ہے اور پورے زور کے ساتھ کہی ہے کہ اُس میں فکر و خیال کا کوئی ادنیٰ تناقض بھی تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ کیا دنیا میں کوئی ایسا انسان بھی ہو سکتا ہے جو سال ہا سال تک مختلف حالات میں اور مختلف موقعوں پر اِس طرح کے متنوع موضوعات پر تقریریں کرتا رہے اور شروع سے آخر تک اُس کی یہ تمام تقریریں جب مرتب کی جائیں تو ایک ایسے ہم رنگ اور متوافق مجموعۂ کلام کی صورت اختیار کر لیں جس میں نہ خیالات کا کوئی تصادم ہو، نہ متکلم کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی کیفیات کی کوئی جھلک دکھائی دے اور نہ رائے اور نقطۂ نظر کی تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دیکھے جا سکتے ہوں؟ یہ تنہا قرآن ہی کی خصوصیت ہے۔
۳۔ نبی کو اللہ تعالیٰ معجزات و خوارق عطا فرماتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور سیدنا مسیح کو جو غیر معمولی معجزات دیے گئے، اُن کے بارے میں خود قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ وہ جن چیزوں پر دلالت کے لیے دیے گئے، اُن میں سے ایک اِن نبیوں کی رسالت بھی تھی۔ اِن معجزات کو کوئی شخص سحرو ساحری یا علم و فن کا کمال کہہ کر رد نہیں کر سکتا۔ اِس لیے کہ اِس طرح کے علوم و فنون کی حقیقت اُس کے ماہر ین سے بہتر کوئی نہیں سمجھ سکتا اور وہ بھی اِن کے سامنے اعتراف عجز پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو معجزہ اِس حیثیت سے دیا گیا، وہ قرآن ہے۔ عربی زبان کے اسالیب بلاغت او رعلم و ادب کی روایت سے واقف ادبی ذوق کے حاملین اِسے پڑھتے ہیں تو صاف محسوس کرتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ایک سے زیادہ مقامات پر اِس نے خود اپنے مخاطبین کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اگر اپنے اِس گمان میں سچے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے، بلکہ محمد اِسے اپنی طرف سے گھڑ کر پیش کر رہے ہیں تو جس شان کا یہ کلام ہے، اِس شان کی کوئی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں۔ اُن کی قوم کا ایک فرد اگر اُن کے بقول بغیر کسی علمی اور ادبی پس منظر کے یہ کام کر سکتا ہے تو اُنھیں بھی اِس میں کوئی دقت نہ ہونی چاہیے۔
خدا کی یہ کتاب اِس وقت بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ اِس پر کم و بیش چودہ صدیاں گزر چکی ہیں۔ اِس عرصے میں دنیا کیا سے کیا ہو گئی۔ بنی آدم نے نظریہ و خیال کے کتنے بت تراشے اور پھر خود ہی توڑ دیے۔ انفس و آفاق کے بارے میں انسان کے نظریات میں کتنی تبدیلیاں آئیں اور اُس نے ترک و اختیار کے کتنے مرحلے طے کیے۔ وہ کس کس راہ سے گزرا اور بالآخر کہاں تک پہنچا، لیکن یہ کتاب جس میں بہت سی وہ چیزیں بھی بیان ہوئی ہیں جواِن پچھلی صدیوں میں علم و تحقیق کا خاص موضوع رہی ہیں، دنیا کے سارے لٹریچر میں بس ایک ہی کتاب ہے جو اِس وقت بھی اُسی طرح اٹل اور محکم ہے، جس طرح اب سے چودہ سو سال پہلے تھی۔ علم و عقل اِس کے سامنے جس طرح اُس وقت اعتراف عجز کے لیے مجبور تھے، اُسی طرح آج بھی ہیں۔ اِس کا ہر بیان آج بھی پوری شان کے ساتھ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ دنیا اپنی حیرت انگیز علمی دریافتوں کے باوجود اِس میں کسی ترمیم و تغیر کے لیے کوئی گنجایش پیدا نہیں کر سکتی۔
۴۔ اللہ تعالیٰ بعض ایسے امور پر نبی کو مطلع کر دیتے ہیں جن کا جان لینا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اِس کی ایک مثال وحی الٰہی کی پیشین گوئیاں ہیں جو حیرت انگیز طور پر بالکل صحیح ثابت ہوئیں۔ اِن میں سے بعض قرآن میں ہیں اور بعض کا ذکر ر وایتوں میں ہوا ہے۔ سر زمین عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ، فتح مکہ اور لوگوں کے جوق در جوق اللہ کے دین میں داخل ہونے کی پیشین گوئی سے قرآن کا ہر طالب علم واقف ہے۔ ایرانیوں سے مغلوب ہو جانے کے بعد رومیوں کی دوبارہ فتح کی پیشین گوئی بھی ایسی ہی غیر معمولی تھی۔
یہ پیشین گوئی جب کی گئی تو ’’زوال روما‘‘ کے مصنف ایڈورڈگبن کے الفاظ میں: ’’ کوئی بھی پیشگی خبر اتنی بعید از وقوع نہیں ہو سکتی تھی، اِس لیے کہ ہرقل کے پہلے بارہ سال رومی سلطنت کے خاتمہ کا اعلان کر رہے تھے۔‘‘ لیکن یہ ٹھیک اپنے وقت پر پوری ہو گئی اور مارچ ۶۲۸ میں رومی حکمران اِس شان سے قسطنطنیہ واپس آیا کہ اُس کے رتھ کو چار ہاتھی کھینچ رہے تھے اور بے شمار لوگ دار السلطنت کے باہر چراغ اور زیتون کی شاخیں لیے اپنے ہیرو کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
۵۔ نبیوں میں سے جو رسول کے منصب پر فائز ہوتے ہیں، وہ خدا کی عدالت بن کر آتے ہیں اوراپنی قوم کا فیصلہ کر کے دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ کے یہ پیغمبر اپنے پروردگار کے میثاق پر قائم رہتے ہیں تو اِس کی جزا اور انحراف کرتے ہیں تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو اُن کی قوموں کے لیے دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو غلبہ عطا فرماتے اور اِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتے ہیں۔
اِن نبیوں کے بارے میں اللہ کا حکم ہے کہ اِن کی اطاعت کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنی کتاب میں خود واضح فرما دی ہے کہ نبی صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں، بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اِس لیے نہیں آتا کہ لوگ اُس کو نبی اور رسول مان کر فارغ ہو جائیں۔ اُس کی حیثیت صرف ایک واعظ و ناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ اُس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایت وہ دے، اُس کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے۔ پھریہ اطاعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ قرآن کامطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اور پورے اخلاص، پوری محبت اور انتہائی عقیدت و احترام سے ہونی چاہیے۔
انسان کی ہدایت کے لیے جس طرح نبی بھیجے گئے ، اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے ساتھ اپنی کتابیں بھی نازل کی ہیں۔ یہ کتابیں اِس لیے نازل کی گئیں کہ خدا کی ہدایت لکھی ہوئی اور خود اُس کے الفاظ میں لوگوں کے پاس موجود رہے تاکہ حق و باطل کے لیے یہ میزان قرار پائے، لوگ اِس کے ذریعے سے اپنے اختلافات کا فیصلہ کر سکیں اور اِس طرح دین کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں۔
اِس وقت جو مجموعۂ صحائف بائیبل کے نام سے موجود ہے، اُس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتابیں کسی نہ کسی صورت میں تمام پیغمبروں کو دی گئیں۔ قرآن جس طرح تورات و انجیل کا ذکر کرتا ہے، اُسی طرح صحف ابراہیم کا ذکر بھی کرتا ہے۔ یہ سب کتابیں خدا کی کتابیں ہیں۔ چنانچہ بغیر کسی تفریق کے وہ بالاجمال اِن پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے۔
اِن میں سے چار کتابیں غیر معمولی اہمیت کی حامل ہیں، تورات، زبور، انجیل اور قرآن۔ تورات موسیٰ علیہ السلام ، زبور داؤد علیہ السلام اور انجیل مسیح علیہ السلام پر نازل کی گئی۔ قرآن خدا کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے۔ دنیا کے الہامی لٹریچر میں اب تنہا یہی کتاب ہے جس کے بارے میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ یہ جس طرح دی گئی، بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے بالکل اُسی طرح، اُسی زبان میں اور اُسی ترتیب کے ساتھ اِس وقت ہمارے پاس موجود ہے۔
دین جن حقائق کو ماننے کا مطالبہ کرتا ہے، اُن میں روز جزا کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت میں اِسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ تمام شریعت، نیکی اور خیر کی اساس یہی عقیدہ ہے۔ نبوت و رسالت کی بنا اِسی پر قائم ہے۔ نبی اِس لیے نبی ہے کہ وہ اِس نبأ عظیم کی خبر دیتا ہے۔ رسول اِس لیے رسول ہے کہ وہ اِس کا پیغام لے کر آتا ہے۔ قرآن اِسی روزجزا کے لیے ایک صیحفۂ انذار و بشارت ہے۔ وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ جس طرح تم سو کر اٹھ جاتے ہو؛ جس طرح مردہ زمین پر پانی برستا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے زندہ ہو جاتی ہے؛ جس طرح تم کچھ نہیں ہوتے، مگر ایک قطرۂ آب سے جیتے جاگتے انسان بن جاتے ہو، اِسی طرح ایک دن قبروں سے اٹھا کر زندہ کر دیے جاؤ گے۔ اِس میں تمھارے پروردگار کو ذرا بھی مشکل پیش نہ آئے گی۔ اُس کے مخاطبین اِسے مستبعد سمجھتے اور کہتے ہیں کہ اِن سڑی ہوئی بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہی جس نے پہلی مرتبہ انھیں بنایا تھا۔ ایک لفظ بولنا جتنا آسان ہے، اُس کے لیے یہ اتنا ہی آسان ہے۔
اِس کے شواہد، علامات اور احوال و مقامات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیے گئے ہیں۔
پہلی چیز انسان کے اندر خیرو شر کا شعور ہے۔ یہ اِسی شعور کا نتیجہ ہے کہ اُس کے ضمیر میں ایک نگران ہر وقت اُس کی برائیوں پر اُسے متنبہ کرتا رہتا ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی عدالت ہے جوانسان کے اندر قائم ہے اور ہر موقع پر اپنا بے لاگ فیصلہ سناتی ہے۔ انسان اِس فیصلے کو مانے یا نہ مانے ، وہ فکر و خیال اور علم و عمل کی ہر لغزش کے بعد اِسے سنتا ضرور ہے، یہاں تک کہ اُس کی بد نفسی اِس قدر بڑھ جائے کہ اعمال کی سیاہی اُس کے دل کا احاطہ کر کے اُس کو بالکل اندھا بہرا کردے۔ یہ انسان کے اوپر خود اُس کے باطن کی گواہی ہے جسے نفس لوامہ کی شہادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن اِسے پیش کرتا اور انسان کو بتاتا ہے کہ تم کوئی شتر بے مہار نہیں ہو کہ جو چاہے کرتے رہو، تم سے کوئی باز پرس نہیں ہو سکتی۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح یہ قیامت صغریٰ خود تمھارے اندر برپا ہے، اِسی طرح پوری کائنات کے لیے بھی ایک قیامت لازماً برپا ہو گی جس میں تم اپنے پروردگار کے حضور میں جواب دہ ٹھیرائے جاؤ گے اور جو کچھ تم نے کیا ہو گا، اُس کے لحاظ سے تمھارے لیے جزا و سزا کا فیصلہ ہو گا۔ تم اِسے نہیں مانتے تو اپنے آپ کو جھٹلاتے اور اپنے ضمیر کے رو برو شرارت کرتے ہو۔
دوسری چیز انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ عدل کو چاہتا اور ظلم سے نفرت کرتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس کے باوجود وہ ظلم کرتا ہے۔ لیکن اِس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان ظلم اور عدل میں فرق کرنے سے قاصر ہے یا ظلم سے محبت کرتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ جذبات و خواہشات سے مغلوب ہو کر وہ اپنے نفس کا توازن کھو بیٹھتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ انسان دوسروں کے گھر میں نقب لگاتا ہے، مگر کبھی نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اُس کے گھر میں نقب لگائے؛ دوسروں کو قتل کرتا ہے، مگر کبھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی اُس کی یا اُس کے اعزہ و اقربا میں سے کسی کی جان لے؛ دوسروں کے لیے کم تولتا ہے، مگر کم تلوانے کے لیے کبھی راضی نہیں ہوتا۔ اِنھی چوروں، قاتلوں اور ڈنڈی مارنے والوں سے پوچھیے تو وہ اعتراف کریں گے کہ اِن میں سے ہر چیز ایک جرم ہے اور اِسے ختم ہونا چاہیے۔ لہٰذا کوئی انسان بہ قائمی ہوش و حواس اِس بات پر راضی نہیں ہو سکتا کہ نیک و بد کو یکساں سمجھا جائے اور دونوں سے ایک ہی معاملہ کیا جائے۔ قرآن یہ حقائق سامنے رکھتا اور منکرین قیامت سے پوچھتا ہے کہ کیا ہم فرماں برداروں اورمجرموں کو برابر کر دیں گے؟ تمھیں کیا ہو گیا ہے، تم کیسا حکم لگاتے ہو؟
تیسری چیز انسان اور کائنات دونوں کی ناتمامی ہے۔ اِنھیں جس پہلو سے دیکھیے، صاف نظر آتا ہے کہ ایک طرف اِن کے ایک ایک جزو سے اِن کے بنانے والے کی عظیم قدرت اورعظیم حکمت نمایاں ہے۔ ہر چیز میں اتھاہ معنویت، بے نظیر نظم و ترتیب، بے مثال ریاضی اور اقلیدس، غیر معمولی اہتمام اور بے پناہ تخلیقی حسن علم و عقل کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ دوسری طرف بحیثیت مجموعی اِن دونوں کو سمجھنے کی کوشش کیجیے تو آخری درجے میں مایوس کر دینے والی ناتمامی اور بے مقصدیت سامنے آتی ہے۔ اِس کے بعد دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ اِس کارخانۂ ہستی کو عبث قرار دے کر فیصلہ کیا جائے کہ یہ کسی کھلنڈرے کا کھیل ہے، اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دوسری یہ کہ اِس کو ایک روز جزا اور خدا کی اُس ابدی بادشاہی کے ساتھ ملا کر سمجھا جائے جس کی منادی انبیا علیہم السلام نے کی ہے۔ علم و عقل کا فیصلہ کیا ہے؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔
چوتھی چیز صفات الٰہی ہیں، جن کے آثار کائنات کے ذرے ذرے میں نمایاں ہیں۔ ربوبیت او ررحمت کی صفات اِن میں بالخصوص قابل توجہ ہیں۔ عالم کے پروردگار کی طرف سے انسان کی پرورش کا جو غیر معمولی اہتمام کیا گیا ہے، اُسے دیکھنے کے بعد کوئی عاقل کس طرح باور کر سکتا ہے کہ اُس کا خالق اُسے غیر مسؤل چھوڑ دے گا اور رحمن و رحیم خدا سے یہ توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ جن لوگوں نے دنیا کو ظلم و عدوان کا گھر بنا دیا ہے، وہ اُنھیں کوئی سزا نہ دے گا؟ قرآن نے اِسی بنا پر جگہ جگہ توجہ دلائی ہے کہ قیامت اللہ تعالیٰ کی رحمت، ربوبیت اور قدرت و حکمت کا تقاضا ہے۔ خدا کو ماننے کے بعد کوئی شخص اِس کا انکار نہیں کر سکتا۔
پانچویں چیز دنیا میں خدا کی دینونت کا ظہور ہے۔ یہ اُن ہستیوں کے وجود سے ہوا ہے جنھیں نبیوں میں سے رسالت کے منصب پر فائز کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں غیر معمولی معجزات دیے، روح القدس سے اُن کی تائید کی، پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دی۔ اِس سے مقصود یہ تھا کہ آخرت کا تصور بھی اُسی معیار پر ثابت کر دیا جائے جس معیار پر سائنسی حقائق معمل (laboratory) کے تجربات سے ثابت کیے جاتے ہیں۔ اِس کے بعد، ظاہر ہے کہ کسی کے پاس کوئی عذر اللہ کے حضور میں پیش کرنے کے لیے باقی نہیں رہ سکتا تھا۔
اِس کا طریقہ یہ اختیار کیا گیا کہ اِن رسولوں نے حق کی دعوت پیش کی، پھر اعلان کیا کہ اپنی قوم کے لیے وہ خدا کی عدالت بن کر آئے ہیں۔ ایمان و عمل کی بنیاد پر جزا و سزا کے جس معاملے کی خبر دی گئی ہے، وہ اُن کی قوم کے ساتھ اِسی دنیا میں ہونے والا ہے۔ طبعی قوانین جس طرح اٹل ہیں او رہر حال میں نتیجہ خیز ہو جاتے ہیں، خدا کا اخلاقی قانون بھی اُن کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اِسی طریقے سے نتیجہ خیز ہو جائے گا۔ لہٰذا اُن کی قوم کے جو لوگ اُن کی دعوت قبول کریں گے، وہ دنیا اور آخرت، دونوں میں نجات پائیں گے اور اُن کے مخالفین پر اُنھیں غلبہ حاصل ہو گا۔ اور جو نہیں کریں گے، وہ ذلیل ہوں گے اور اُن پر خدا کا عذاب آجائے گا۔
یہ پیشین گوئی جس وقت اور جس قوم میں بھی کی گئی، اِس سے زیادہ نا ممکن الوقوع اور ناقابل یقین کوئی چیز نہیں تھی، مگر یہ ہر مرتبہ پوری ہوئی اور اِس طرح پوری ہوئی کہ لوگوں نے خدا کو عدالت کرتے ہوئے دیکھا اور زمین و آسمان اُس کے جلال سے معمور ہو گئے۔
قرآن نے بتایا ہے کہ آخری مرتبہ یہ دینونت ساتویں صدی عیسوی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے برپا ہوئی۔ انسانی تاریخ کا یہ حیرت انگیز واقعہ اِس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ تاریخ کی روشنی میں ہوا ہے۔ چنانچہ اِس کے جزئیات تک بالکل محفوظ اور اِس کے تمام مراحل گویا آنکھوں کے سامنے ہیں جنھیں کوئی شخص جب چاہے ، تاریخ کے اوراق کو الٹ کر دیکھ سکتا ہے۔
یہ دن کب آئے گا؟ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اِس کا وقت اُسی کے علم میں ہے اور اپنے کسی نبی یا فرشتے کو بھی وہ اِس پر مطلع نہیں کرتا۔ اِس کے آثار و علامات، البتہ قرآن و حدیث اور قدیم صحیفوں میں بیان ہوئے ہیں۔ اِن میں سے بعض عمومی نوعیت کے ہیں اور بعض کی نوعیت متعین واقعات و حوادث کی ہے۔ پہلی قسم کی علامات میں سے کوئی چیز قرآن میں بیان نہیں ہوئی۔ اِن کا ذکر روایتوں میں ہوا ہے۔ دوسری قسم کی علامتوں میں سے بھی ایک ہی چیز قرآن میں بیان ہوئی ہے اور وہ یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔ لہٰذا یقینی علامت تو یہی ہے۔ اِس کے علاوہ جو علامات بالعموم بتائی جاتی ہیں، اُن میں سے کچھ ظاہر ہو چکی ہیں اور باقی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اُن کی نسبت میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو لازماً ظاہر ہو جائیں گی۔
پہلی قسم کی علامات اُس اخلاقی انحطاط کا ذکر کرتی ہیں جو قیامت سے پہلے پورے عالم میں پیدا ہو گا۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی، زنا، شراب نوشی اور قتل و غارت گری عام ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کو بغیر کسی جرم کے مارا جائے گا؛ مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں اتنی کم ہو جائے گی کہ پچاس عورتوں کے معاملات ایک مرد کے سپرد ہوں گے؛ دنیا میں صرف اشرار باقی رہ جائیں گے، خدا کا نام لینے والوں سے دنیا خالی ہو جائے گی۔
دوسری قسم کی علامات میں سے اہم ترین یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔ یہ دونوں نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں جو ایشیا کے شمالی علاقوں میں آباد ہوئی۔ پھر اِنھی کے بعض قبائل یورپ پہنچے اور اِس کے بعد امریکا او رآسٹریلیا کو آباد کیا۔ یوحنا عارف کے مکاشفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن کے خروج کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ایک ہزار سال بعد کسی وقت ہو گی۔ اُس زمانے میں یہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ اِن کا فساد جب انتہا کو پہنچے گا تو ایک آگ آسمان سے اترے گی او رقیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا۔
یہی زمانہ قرب قیامت کی اُن علامتوں سے بھی متعین ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین کے ایک سوال کے جواب میں بیان فرمائی ہیں، جب وہ لوگوں کی تعلیم کے لیے انسانی صورت میں آپ کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا: ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جن دے گی اور دوسری یہ ہے کہ تم عرب کے اِن ننگے پاؤں ، ننگے بدن پھرنے والے کنگال چرواہوں کو بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دیکھو گے۔
اِن میں سے دوسری علامت تو بالکل واضح ہے۔ پچھلی صدی میں اِس کا ظہور سر زمین عرب میں ہر شخص بچشم سر دیکھ سکتا ہے۔ پہلی علامت سے مراد ہمارے نزدیک ایک ادارے کی حیثیت سے غلامی کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں واقعات ایک ہی زمانے میں ہوئے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ پیشین گوئی قرب قیامت کا زمانہ بالکل متعین کر دیتی ہے۔
یاجوج و ماجوج کے خروج کو الگ کر دیا جائے تو اِس کے بعد جو علامتیں ظاہر ہوں گی، وہ یہ ہیں:
۱۔ مشرق میں زمین کا دھنس جانا۔
۲۔ مغرب میں زمین کا دھنس جانا۔
۳۔ جزیرہ نماے عرب میں زمین کا دھنس جانا۔
۴۔ دھواں، اِس سے مراد کوئی بڑا ایٹمی انفجار بھی ہو سکتا ہے۔
۵۔ دجال، یہ بڑے دغا باز، فریبی اورمکار کے معنی میں اسم صفت ہے۔ اِس کا ذکر ’المسیح الدجال‘ کے نام سے بھی ہوا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت سے پہلے کوئی شخص مسیح ہو نے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا اور مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے اندر سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد کے تصور سے فائدہ اٹھا کر اپنے بعض کمالات سے لوگوں کو فریب دے گا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ یہ ایک آنکھ سے اندھا ہو گا اور ایمان والوں کے لیے اِس کا دجل اِس قدر واضح ہو گا کہ اِس کی پیشانی پر گویا کفر لکھا ہوا دیکھیں گے۔
۶۔ زمین کا جانور، جو غالباً اُسی طرح زمین کے پیٹ سے براہ راست پیدا ہو جائے گا، جس طرح تمام مخلوقات ابتدا میں پیدا ہوئی ہیں۔
۷۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔
۸۔ آگ جو عدن کے گڑھے سے نکل کر لوگوں کو ہانکے گی۔
۹۔ ہوا جو اُنھیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گی۔
قیامت کس طرح برپا ہو گی؟ اِس کی تفصیلات قرآن میں کئی مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ زمین و آسمان پر کیا گزرے گی، مہ و آفتاب او رنجوم و کواکب کے ساتھ کیا ہو گا، زمین پر بسنے والی مخلوقات کس صورت حال سے دو چار ہوں گی، لوگ کس طرح قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کے حضور میں جمع ہوں گے، قرآن میں جگہ جگہ اِس کی تصویریں ہیں۔ ادب جاہلی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کا ذوق تشبیہ سے زیادہ تصویر کا رہا ہے۔ قرآن نے اِس کی رعایت کی ہے اور انذار قیامت کے لیے اُس کی ہلچل کا ایسا مرقع کھینچ دیا ہے کہ اُس کا قاری گویا اُسے اپنی آنکھوں کے سامنے برپا ہوتے دیکھتا ہے۔ اِس سے حوادث کی جو ترتیب سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے:
۱۔ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کاروبار چلا رہے ہوں گے۔ اُن میں سے کوئی راستے میں ہو گا، کوئی بازار میں، کوئی مجلس میں اور کوئی اپنے گھر میں۔ کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہو گا کہ نظم عالم درہم برہم ہونے والا ہے کہ اچانک صور پھونکا جائے گا اور زلزلۂ قیامت برپا ہو جائے گا۔ زمین کی آبادی پر اِس کے نتیجے میں جو کچھ گزرے گی، اُس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک کے بعد زلزلے کا دوسرا جھٹکا آئے گا اور زمین کی حالت اُس کشتی کی سی ہو جائے گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگا رہی ہو تو دل کانپ رہے ہوں گے، نگاہیں خوف زدہ ہوں گی او رلوگ ایسے مدہوش اور متوالے ہو جائیں گے کہ گویا عذاب الٰہی کی ہولناکی نے سب کو پاگل بنا کر رکھ دیا ہے۔
۲۔ یہی وہ وقت ہے جب نظم عالم درہم برہم ہونا شروع ہو گا۔ پوری کائنات میں ایک ایسا زلزلۂ عظیم برپا ہو جائے گا جس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، سمندر پھوٹ بہیں گے، تمام کہکشانیں او راجرام فلکی اپنی جگہ چھوڑ کر ایک دوسرے میں جا پڑیں گے۔ ہر طرف ایسا اختلال ہو گا کہ خیال اُس کے تصور سے اور الفاظ اُس کے بیان سے قاصر ہوں گے۔ یہ سلسلہ ایک ایسی مدت تک جسے خدا ہی جانتا ہے، جاری رہے گا۔
۳۔ اِس کے بعد وہ مرحلہ شروع ہوگا جسے قرآن میں اعادۂ خلق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چنانچہ اِسی اختلال سے بتدریج ایک نیا نظام طبیعت وجود میں آئے گا۔ تمام اجرام فلکی، زمین، سورج، چاند، تارے اور اربوں ستاروں اور سیاروں سے بنی ہوئی کہکشانیں نئے قوانین اور نئے نوامیس کے ساتھ ایک نئی زمین اور نئے آسمان میں تبدیل ہو جائیں گی۔ قرآن کا بیان ہے کہ اِس موقع پر ایک مرتبہ پھر نفخ صور ہو گا جس سے تمام لوگ جی اٹھیں گے اور اپنی قبروں سے نکل کر پروردگار عالم کی عدالت میں پیشی کے لیے حاضر ہو جائیں گے۔
انسان اِس دن کی حاضری کے لیے جن مراحل سے گزرتا ہے، اور اِس کے بعد جن مقامات پر ٹھیرایا جائے گا، اُس کی تفصیلات بھی قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ وہ کشاں کشاں اُسی طرف بڑھ رہا ہے۔ اِس سفر کا پہلا مرحلہ موت ہے۔ دنیا کی چند روزہ زندگی کے بعد یہ مرحلہ ہر انسان پر لازماً آتا ہے۔ اِس سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ یہ صبح آ سکتی ہے، شام آ سکتی ہے، انسان اپنی پیدایش سے پہلے اور پیدا ہوتے ہی اِس سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔ بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں یہ جس وقت چاہے، آ جاتی ہے اور ہر شخص کو چار و ناچار اِس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ اِس کی حقیقت قرآن میں یہ بیان ہوئی ہے کہ انسان کی اصل شخصیت کو، جسے قرآن میں نفس سے تعبیر کیا گیا ہے اور جو اُس کی حیوانی زندگی سے الگ ایک مستقل وجود ہے، اُس کے جسم سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ اِس کے لیے ایک خاص فرشتہ مقرر ہے جس کے ماتحت فرشتوں کا ایک پورا عملہ ہے۔ وہ آ کر باقاعدہ اُس کو ٹھیک اُسی طرح وصول کرتا ہے، جس طرح ایک سرکاری امین کسی چیز کو اپنے قبضے میں لیتا ہے۔
اِس موقع پر جو معاملہ انسان کے ساتھ کیا جاتا ہے، اُس کا ذکر بھی قرآن میں ہوا ہے۔ انبیا علیہم السلام کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اُن کے منکرین کی روحیں فرشتے اُنھیں مارتے ہوئے قبض کرتے ہیں اور موت کے وقت ہی بتا دیتے ہیں کہ اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے اب اُن کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ دوسری طرف جو لوگ رسولو ں پر ایمان لاتے اور کفر و شرک اور ظلم و عدوان کی ہر آلایش سے بالکل پاک ہوتے ہیں، اُنھیں فرشتے سلام بجا لاتے اور جنت کی بشارت دیتے ہیں۔
اِس کے بعد وہ مقامات ہیں جنھیں برزخ، محشر، دوزخ اور جنت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
برزخ سے مراد وہ حد فاصل ہے، جہاں مرنے والے قیامت تک رہیں گے۔ روایتوں میں ’قبر‘ کا لفظ مجازاً اِسی عالم کے لیے بولا گیا ہے۔ اِس میں انسان زندہ ہو گا، لیکن یہ زندگی جسم کے بغیر ہو گی او ر روح کے شعور، احساس اور مشاہدات و تجربات کی کیفیت اِس میں کم و بیش وہی ہو گی جو خواب کی حالت میں ہوتی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوںکا معاملہ بالکل واضح ہو گا، خواہ وہ درجۂ کمال میں وفاداری کا حق ادا کرنے والے ہوں یا سرکشی اور تکبر سے جھٹلانے والے اور کھلے نافرمان، اُن کے لیے ایک نوعیت کا عذاب و ثواب اِسی عالم سے شروع ہو جائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اُن سے حساب پوچھنے اور اُن کے خیر و شر کا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہ ہو گی۔
روایتوں میں قبر کے جس عذاب و ثواب کا ذکر ہے، وہ یہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید بتایا ہے کہ آپ کی بعثت جن لوگوں میں ہوئی، اُن کے لیے اِس کی ابتدا اِس سوال سے ہو گی کہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اِس کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ اپنی بعثت کے بعد رسول ہی اپنی قوم کے لیے حق و باطل کے امتیاز کا واحد ذریعہ ہوتا ہے۔ اِس لیے اُس پر ایمان کے بعد پھر کسی سے اور کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں رہتی۔
اِس سے اگلا مقام محشر ہے۔ دوسری مرتبہ نفخ صور کے بعد تمام انسان اُس میں زندہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ زندگی روح و جسم کے ساتھ ہو گی۔ قرآن میں اِسی کو دوسری مرتبہ کی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اِس میں انسان کے دنیوی جسم کو ایک ایسے جسم میں تبدیل کر دیا جائے گا جو خدا کی ابدی بادشاہی میں نعمت و نقمت کی ہر حالت میں رہنے کے لیے موزوں ہو گا، لیکن ٹھیک اُسی شخصیت کے ساتھ جس کے ساتھ وہ آج زندہ ہے۔
تمام نوع انسانی اُس روز تین گروہوں میں بانٹ دی جائے گی: ایک حق کے لیے سبقت کرنے والے، دوسرے عام صالحین جن کا نامۂ اعمال اُن کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، تیسرے وہ مجرم جن کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے اور پیچھے ہی سے اُن کا نامۂ اعمال اُن کے بائیں ہاتھ میں پکڑا دیا جائے گا۔
یہی موقع ہے، جب حساب ہو گا اور اتمام حجت کے لیے گواہ پیش کیے جائیں گے۔ انبیا علیہم السلام بھی گواہی کے لیے بلائے جائیں گے۔ لوگوں کی زبانیں، ہاتھ، پاؤں، کان، آنکھیں اور جسم کے رونگٹے تک گواہی دیں گے۔ اِس کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا اور لوگ دوزخ او رجنت میں بھیج دیے جائیں گے۔
دوزخ کے بارے میں قرآن کا بیان ہے کہ یہ بدترین جاے قرار ہے۔ اِس میں آگ کا عذاب ہو گا۔ یہ آگ چہروں کو جھلس دے گی، صورتیں بگاڑ دے گی، کھال ادھیڑ دے گی، دلوں تک پہنچے گی۔ مجرموں کے گلے میں طوق اور پاؤں میں زنجیریں ہوں گی، ہر چیز حسرت بن جائے گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگ اِس میں اللہ تعالیٰ کے جلوے اور اُس کی نگاہ التفات سے محروم ہوں گے، وہ اِن میں سے بعض مجرموں کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔
جنت اِس کے برخلاف صالحین کی اقامت گاہ ہے۔ اِس کی وسعت پوری کائنات کی وسعت ہے۔ یہ عیش دوام کی جگہ ہے، جہاں زندگی کے ساتھ موت، لذت کے ساتھ الم، خوشی کے ساتھ غم، اطمینان کے ساتھ اضطراب، راحت کے ساتھ تکلیف اور نعمت کے ساتھ نقمت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اِس کا آرام دائمی ہے، اِس کی لذت بے انتہا ہے، اِس کے شب و روز جاوداں ہیں، اِس کی سلامتی ابدی ہے، اِس کی مسرت غیر فانی ہے، اِس کا جمال لازوال اور کمال بے نہایت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اِس میں وہ کچھ مہیا کیا ہے جسے نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اُس کا خیال کبھی گزرا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ