HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: النساء ۴: ۵۸-۷۰ (۱۴)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گزشتہ سے پیوستہ)  


اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا، وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ، اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا{۵۸}
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ، فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْْئٍ، فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ، اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، ذٰلِکَ خَیْْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً{۵۹}
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّہُمْ اٰمَنُوْا بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْکَ، وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ، یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ، وَقَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ، وَیُرِیْدُ الشَّیْْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلاً بَعِیْدًا{۶۰} وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ: تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ، رَاَیْْتَ الْمُنَافِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا{۶۱} فَکَیْْفَ، اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْْدِیْہِمْ، ثُمَّ جَآئُوْکَ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ اِنْ اَرَدْنَآ اِلاَّ ٓاِحْسَانًا وَّتَوْفِیْقًا{۶۲} اُولٰٓـئِکَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُ اللّٰہُ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ، فَاَعْرِضْ عَنْہُمْ وَعِظْہُمْ وَقُلْ لَّہُمْ فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ قَوْلاً بَلِیْغًا{۶۳} وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ، وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَہُمْ جَآئُوْکَ، فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا{۶۴} فَلاَ وَرَبِّکَ، لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ، ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْْتَ، وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا{۶۵} وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ، اَوِ اخْرُجُوْا مِنْ دِیَارِکُمْ، مَّا فَعَلُوْہُ اِلاَّ قَلِیْلٌ مِّنْہُمْ، وَلَوْ اَنَّہُمْ فَعَلُوْا مَا یُوْعَظُوْنَ بِہٖ لَکَانَ خَیْْرًا لَّہُمْ وَاَشَدَّ تَثْبِیْتًا{۶۶} وَاِذاً لَّاٰتَیْْنٰہُمْ مِّنْ لَّدُنَّـآ اَجْرًا عَظِیْمًا{۶۷} وَلَہَدَیْْنٰہُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا{۶۸} وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓـئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْْہِمْْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ، وَحَسُنَ اُولٰٓـئِکَ رَفِیْقًا{۶۹} ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا{۷۰}
(ایمان والو، اللہ نے تمھیں ایک عظیم بادشاہی عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس موقع پر) اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ نہایت اچھی بات ہے یہ جس کی اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ ۱۲۰  ۵۸
ایمان والو، (یہ خدا کی بادشاہی ہے، اس میں) اللہ کی اطاعت کرو اور (اُس کے) رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی بھی جو تم میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے جائیں۔ پھر اگر کسی معاملے میں اختلاف رائے ہو تو (فیصلے کے لیے) اُسے اللہ اور (اُس کے) رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔۱۲۱  ۵۹
تم نے دیکھا نہیں اُن لوگوں کو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اُس پر بھی ایمان لائے ہیں جو تم پر نازل کیا گیا اور اُس پر بھی جو تم سے پہلے نازل کیاگیا تھا، مگر چاہتے ہیں کہ (اللہ و رسول کو چھوڑ کر) اپنے معاملات کے فیصلے کے لیے اُسی سرکش کی طرف رجوع کریں جو بدی کا سرغنہ ہے،۱۲۲ دراں حالیکہ اُنھیں ہدایت کی گئی تھی کہ اُس کا انکار کر دیں۔ (یہ شیطان کے پیرو ہیں) اور شیطان چاہتا ہے کہ اِنھیں دور کی گمراہی میں ڈال دے۔ جب اِن سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی اتاری ہوئی کتاب اور اُس کے رسول کی طرف آئو تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ وہ تم سے صاف کترا جاتے ہیں۔ مگر اُس وقت کیا ہوگا جب اِن کے ہاتھوں کی لائی ہوئی کوئی مصیبت اِن پر آپڑے گی،۱۲۳ پھر یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہوئے تمھارے پاس آئیں گے کہ ہم نے تو صرف بہتری چاہی تھی اور ہم تو یہی چاہتے تھے کہ کچھ موافقت پیدا ہو جائے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ اِن کے دلوں میں ہے۔ سو اِن سے اعراض کرو اور اِنھیں نصیحت کرو اور ان کے بارے میں ان کے ساتھ اِس انداز سے بات کرو کہ دلوں میں اتر جائے۔۱۲۴  (اِنھیں بتائو کہ) ہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اِسی لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے اذن سے اُس کی اطاعت کی جائے۔۱۲۵ (اِنھیں بتائو کہ رسول کی عدالت کو چھوڑ کر اِنھوں نے ایک بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے)۔ اگر یہ اُس وقت تمھاری خدمت میں حاضر ہو جاتے، جب اِنھوں نے اپنی جان پر یہ ظلم ڈھایا تھا اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے معافی کی درخواست کرتا تو یقینا اللہ کو بڑا توبہ قبول کرنے والا اور بڑا مہربان پاتے۔ ۱۲۶ لیکن نہیں اے پیغمبر، تمھارے پروردگار کی قسم،۱۲۷ یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک اپنے اختلافات میں تمھی کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کر دو، اُس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس کیے بغیر اُس کے آگے سرتسلیم خم نہ کر دیں۔ ۱۲۸  (یہ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں) اور (حقیقت یہ ہے کہ) اگر ہم اِ ن پر فرض کر دیتے کہ اپنے لوگوں کو قتل کرو یا اپنے گھروں کو چھوڑ کر نکل آئو، (جس طرح ہم نے موسیٰ کے زمانے میں کیا تھا)، تو اِن میں سے کم ہی اس حکم کی تعمیل کرتے۔ اِس وقت جو نصیحت اِنھیں کی جارہی ہے، یہ اگر اُس پر عمل کرتے تو اِن کے حق میں بہتر ہوتا اور (اِس کے نتیجے میں) یہ (دین پر) زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ جمے رہتے۔ یہ ایسا کرتے تو اِنھیں ہم اپنی طرف سے بہت بڑا اجر عطا کرتے اور اِنھیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش دیتے۔ (اِنھیں بتائو کہ) جو اللہ اور (اُس کے) رسول کی اطاعت کریں گے، وہی ہیں جو اُن لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔۱۲۹ کیاہی اچھے ہیں یہ رفیق! یہ اللہ کی عنایت ہے اور (اِس کے لیے) اللہ کا علم کافی ہے۔۱۳۰ ۶۰-۷۰

۱۲۰؎  امانت کا لفظ ان چیزوں کے لیے آتا ہے جن کا کسی شخص کو امین بنایا جائے۔ یہاں اس سے مراد وہ مناصب اور ذمہ داریاں ہیں جو نظم اجتماعی سے پیدا ہوتی ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ تم سے پہلے یہ بادشاہی جن لوگوں کو دی گئی تھی، وہ تو اس میں چور ثابت ہوئے، مگر تمھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ تمھاری اولین ذمہ داری یہ ہے کہ اس نعمت عظمیٰ کو پانے کے بعد قوم کی امانتیں اہلیت کی بنیاد پر لوگوں کے سپرد کرو اور عدل وانصاف کو زندگی کے ہر شعبے میں اور اس کی آخری صورت میں قائم کر دینے کی جدوجہد کرتے رہو۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے یہ دوسری بات اپنی تفسیر میں اس طرح واضح فرمائی ہے:

’’۔۔۔یہ امانت کے سب سے اہم پہلو کی تفصیل بھی ہے اور اقتدار کے ساتھ جو ذمہ داری وابستہ ہے، اس کی وضاحت بھی۔ جن کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین میں اقتدار بخشتا ہے، ان پر اولین ذمہ داری جو عائد ہوتی ہے، وہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کو عدل و انصاف کے ساتھ چکائیں۔ عدل کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں امیروغریب، شریف و وضیع، کالے اور گورے کا کوئی فرق نہ ہو، انصاف خریدنی و فروختنی چیز نہ بننے پائے، اس میں کسی جنبہ داری، کسی عصبیت، کسی سہل انگاری کو راہ نہ مل سکے۔ کسی دبائو، کسی زورواثر اور کسی خوف و طمع کو اس پر اثرانداز ہونے کا موقع نہ ملے۔
جن کو بھی اللہ تعالیٰ اس زمین میں اقتدار بخشتا ہے، اسی عدل کے لیے بخشتا ہے۔ اس وجہ سے سب سے بڑی ذمہ داری اسی چیز کے لیے ہے۔ خدا کے ہاں عادل حکمران کا اجر بھی بہت بڑا ہے اور غیرعادل کی سزا بھی بہت سخت ہے۔ اس وجہ سے تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ بہت ہی اعلیٰ نصیحت ہے جو اللہ تعالیٰ تمھیں کر رہا ہے، اس میں کوتاہی نہ ہو۔ آخر میں اپنی صفات سمیع وبصیر کا حوالہ دیا ہے کہ یاد رکھو کہ خدا سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے، کوئی مخفی سے مخفی ناانصافی بھی اس سے مخفی رہنے والی نہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۳۲۳)

۱۲۱؎  یہ حکم اس وقت دیا گیا جب قرآن نازل ہو رہا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اور وہ اپنے نزاعات کے لیے جب چاہتے، آپ کی طرف اور آپ کی وساطت سے اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر سکتے تھے۔ لیکن صاف واضح ہے کہ اللہ ورسول کی یہ حیثیت ابدی ہے، لہٰذا جن معاملات میں کوئی حکم انھوں نے ہمیشہ کے لیے دے دیا ہے، ان میں مسلمانوں کے اولی الامر کو، خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوں یا پارلیمان کے ارکان، اب قیامت تک اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اولی الامر کے احکام اس اطاعت کے بعد اور اس کے تحت ہی مانے جا سکتے ہیں۔ اس اطاعت سے پہلے یا اس سے آزاد ہو کر ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ مسلمان اپنی ریاست میں کوئی ایسا قانون نہیں بنا سکتے جو اللہ و رسول کے احکام کے خلاف ہو یا جس میں ان کی ہدایت کو نظرانداز کر دیا گیا ہو۔

آیت کے سیاق سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اولی الامر کی اطاعت کا جو حکم اس میں بیان ہوا ہے، وہ صرف مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے۔ ان لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے جو کھلے کفر کے مرتکب ہوں، اللہ و رسول کے مقابلے میں سرکشی اختیار کریں یا خدا کے دین کو چھوڑ کر عملاً اپنے لیے کوئی اور دین پسند کر لیں۔ اس طرح کے لوگ قرآن کی یہ آیت سنا کر مسلمانوں سے اپنے لیے اطاعت کا مطالبہ نہیںکرسکتے ۔

۱۲۲؎  یہود کے بڑے لیڈر کی طرف اشارہ ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کعب بن اشرف تھا جسے اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ نے موت کی سزا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے یہ سزا اس پر نافذ کر دی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ کس قدر سرکش ہو چکا تھا۔

۱۲۳؎  استاذ امام نے اس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جس مصیبت کے پیش آنے کا یہاں ذکر ہے، وہ بعد میں اس طرح پیش آئی کہ جب اسلام نے طاقت پکڑ لی اور یہود کی سیاسی طاقت بالکل کمزور ہو گئی تو مسلمانوں کو یہ ہدایت کر دی گئی کہ اب منافقین کے معاملے میں چشم پوشی اور اغماض کی روش وہ بدل دیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے اپنی روش بدل لی اور قدم قدم پر منافقین کا احتساب شروع کر دیا۔ منافقین اس صورت حال سے بہت پریشان ہوئے۔ نہ یہود میں اتنا دم خم باقی رہا تھا کہ ان کی سرپرستی کر سکیں، نہ مسلمان اب ان کے چکموں میں آنے کے لیے تیار تھے۔ نہ جاے ماندن نہ پائے رفتن۔ نتیجہ یہ ہوا کہ منافقین بھاگ بھاگ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے اور قسمیں کھا کھا کے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ وہ یہود سے جو ربط ضبط اب تک رکھتے اور کبھی کبھی اپنے معاملات میں ان کی بالاتری تسلیم کرتے رہے ہیں اس میں کسی فساد نیت کو دخل نہیں تھا، بلکہ ان کی خواہش صرف یہ رہی ہے کہ اس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچے گا اور جو خلیج اختلاف و عناد یہود اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو گئی ہے وہ زیادہ وسیع نہ ہونے پائے گی۔ اس طرح وہ اپنی منافقت کو مصالحت کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے اور اس کو احسان اور توفیق کے خوب صورت الفاظ سے تعبیر کرتے، لیکن واقعات کے تشت ازبام ہو جانے کے بعد اس سخن سازی کا موقع نکل چکا تھا۔‘‘(تدبرقرآن ۲/ ۳۲۷)    

۱۲۴؎  یہ ہدایت اس لیے ہوئی کہ بڑی سے بڑی غلطی پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ نہایت نرم اور کریمانہ ہوتا تھا۔ قرآن نے فرمایا کہ اب زیادہ نرمی برتنے کا موقع نہیں ہے، اس لیے ان منافقوں کو نیک و بد اچھی طرح سمجھا دیا جائے اور واضح الفاظ میں تنبیہ کر دی جائے تاکہ یہ سنبھلنا چاہیں تو اللہ تعالیٰ کی آخری گرفت سے پہلے پہلے سنبھل جائیں۔

۱۲۵؎  یہ رسول کا صحیح مرتبہ واضح فرمایا ہے کہ رسول صرف عقیدت ہی کا مرکز نہیں، بلکہ اطاعت کا مرکز بھی ہوتا ہے۔ وہ اس لیے نہیں آتا کہ لوگ اسے نبی اور رسول مان کر فارغ ہو جائیں۔ اس کی حیثیت صرف ایک واعظ و ناصح کی نہیں، بلکہ ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ اس کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں جو ہدایت وہ دے، اس کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ براہ راست معاملہ نہیں کرتا۔ وہ اپنی ہدایت نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے دیتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اصلی مقصود تو خدا کی اطاعت ہے، مگر اس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ پھریہ اطاعت کوئی رسمی چیز نہیں ہے۔ قرآن کا مطالبہ ہے کہ یہ اتباع کے جذبے سے اور پورے اخلاص، پوری محبت اور انتہائی عقیدت و احترام سے ہونی چاہیے۔ انسان کو خدا کی محبت اسی اطاعت اور اسی اتباع سے حاصل ہوتی ہے۔

۱۲۶؎ آیت میں رسول کے استغفار کی جو شرط عائد کی گئی ہے، استاذ امام نے وضاحت فرمائی ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ایک تو یہ کہ رسول کا یہ استغفار ان کے لیے اس دنیا میں بمنزلۂ شفاعت ہے جس سے ان کے اس گناہ عظیم کے بخشے جانے کی توقع ہے، دوسرا یہ کہ رسول کی عدالت کے ہوتے ان کا ’تحاکم الی الطاغوت‘ رسول کی صریح توہین ہے۔ اس وجہ سے یہ ضروری ہوا کہ وہ رسول کی رضا اور ان کی دعا بھی حاصل کریں۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۳۲۹)

۱۲۷؎  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس التفات خاص میں جو دل نوازی ہے، اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی بلاغت کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے زبان وبیان کے ذوق سے کچھ بہرہ عطا فرمایا ہے۔

۱۲۸؎  منافقین کی جھوٹی قسم اوپر آیت ۶۲ میں مذکور ہے۔ یہ قرآن نے سچی قسم سے اس کی تردید کرتے ہوئے رسول کے مقام ومرتبہ کی آخری حد واضح کر دی ہے کہ دین وشریعت کے احکام تو ایک طرف، اپنے درمیان پیدا ہونے والی نزاعات تک میں رسول کے فیصلے کو بے چون وچرا اور پورے اطمینان کے ساتھ ماننا ضروری ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھا کر فرمایا کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے، جب تک یہ اپنے درمیان پیدا ہونے والی تمام نزاعات میں تمھی کو حکم نہ مانیں اور پھر ساتھ ہی ان کے اندر یہ ذہنی تبدیلی نہ واقع ہو جائے کہ وہ تمھارے فیصلے کو بے چون وچرا پورے اطمینان قلب کے ساتھ مانیں اور اپنے آپ کو بلا کسی استثنا و تحفظ کے تمھارے حوالے کر دیں۔ رسول کی اطاعت خود خدا کی اطاعت کے ہم معنی ہے، اس وجہ سے اس کا حق صرف ظاہری اطاعت سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے دل کی اطاعت بھی شرط ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۲/ ۳۲۹)

۱۲۹؎  ان میں ’صدیقین‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے علم وعمل میں سچے ہوں اور ہر موقع پر یہ سچائی اپنے قول و فعل سے ثابت کر دیں اور ’شہداء‘ ان لوگوں کو کہا گیا ہے جو جان کی بازی لگا کر بھی حق کی گواہی دینے والے ہوں۔

۱۳۰؎  یعنی اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے اللہ کا علم کافی ہے کہ کون اس کی عنایتوں کا مستحق ہے۔ وہ اپنے بندوں کو جانتا ہے، ان سے بے خبر نہیں ہے۔

              [باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B