(گذشتہ سے پیوستہ)
یہ دن کب آئے گا؟ قرآن نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس کا وقت اسی کے علم میں ہے اور اپنے کسی نبی یا فرشتے کو بھی وہ اس پر مطلع نہیں کرتا ۹۲ ۔ اس کے آثار و علامات، البتہ قرآن و حدیث اور قدیم صحیفوں میں بیان ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض عمومی نوعیت کے ہیں اور بعض کی نوعیت متعین واقعات و حوادث کی ہے۔ پہلی قسم کی علامات میں سے کوئی چیز قرآن میں بیان نہیں ہوئی۔ ان کا ذکر روایتوں ہی میں ہوا ہے۔ دوسری قسم کی علامتوں میں سے بھی ایک ہی چیز قرآن میں بیان ہوئی ہے اور وہ یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔ لہٰذا یقینی علامت تو یہی ہے۔ اس کے علاوہ جو علامات بالعموم بتائی جاتی ہیں، ان میں سے بعض ان روایتوں میں بیان ہوئی ہیں جو محدثین کی اصطلاح کے مطابق صحیح کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ظاہر ہو چکی ہیں اور باقی اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی نسبت میں کوئی غلطی نہیں ہوئی تو لازماًظاہر ہو جائیں گی۔
پہلی قسم کی علامات اس اخلاقی انحطاط کا ذکر کرتی ہیں جو قیامت سے پہلے پورے عالم میں پیدا ہو گا۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہالت بڑھ جائے گی، زنا، شراب نوشی اور قتل و غارت گری عام ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کو بغیر کسی جرم کے مارا جائے گا؛ مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں اتنی کم ہو جائے گی کہ پچاس عورتوں کے معاملات ایک مرد کے سپرد ہوں گے؛ دنیا میں صرف اشرار باقی رہ جائیں گے، خدا کا نام لینے والوں سے دنیا خالی ہو جائے گی۔ ۹۳
دوسری قسم کی علامات میں سے اہم ترین یاجوج و ماجوج کا خروج ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
حَتّٰی اِذَا فُتِحَتْ یَاْجُوْجُ وَمَاْجُوْجُ، وَہُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّنسِلُوْنَ، وَاقْتَرَبَ الْوَعْدُ الْحَقُّ فَإِذَا ہِیَ شَاخِصَۃٌ اَبْصَارُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا. یٰوَیْْلَنَا، قَدْ کُنَّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا، بَلْ کُنَّا ظٰلِمِیْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۹۶۔ ۹۷)
’’یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے، جب یاجوج و ماجوج کھول دیے جائیں اور وہ ہر بلندی سے پل پڑیں، اور قیامت کا شدنی وعدہ قریب آ پہنچے تو نا گہاں دیکھیں کہ اِن منکروں کی نگاہیں ٹنگی رہ گئی ہیں۔ اُس وقت کہیں گے: ہم اِس سے غفلت میں پڑے رہے، بلکہ ہم نے تو اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا تھا۔‘‘
یہ دونوں نوح علیہ السلام کے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں جو ایشیا کے شمالی علاقوں میں آباد ہوئی۔ پھر انھی کے بعض قبائل یورپ پہنچے اور اس کے بعد امریکہ اور آسٹریلیا کو آباد کیا۔ صحیفۂ حزقی ایل میں ان کا تعارف روس، ماسکو اور توبالسک کے فرماں روا کی حیثیت سے کرایا گیا ہے۔ حزقی ایل فرماتے ہیں:
’’اور خدا وند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد، جوج کی طرف جو ماجوج کی سر زمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرماں روا ہے متوجہ ہو او راس کے خلاف نبوت کر۔‘‘ (حزقی ایل۳۸: ۱۔۲)
’’پس اے آدم زاد تو جوج کے خلاف نبوت کر او رکہہ: خدا وند یوں فرماتا ہے: دیکھ اے جوج، روش ، مسک اور توبل کے فرماں روا، میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دوں گا اور تجھے لیے پھروں گا اور شمال کے دور اطراف سے چڑھا لاؤں گا۔‘‘ (حزقی ایل۳۹: ۱۔۲)
یوحنا عارف کے مکاشفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ا ن کے خروج کی ابتدا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ایک ہزار سال بعد کسی وقت ہو گی۔ اس زمانے میں یہ زمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں گے۔ ان کا فساد جب انتہا کو پہنچے گا تو ایک آگ آسمان سے اترے گی او رقیامت کا زلزلہ برپا ہو جائے گا:
’’اور جب ہزار برس پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور ان قوموں کو جو زمین کی چاروں طرف ہوں گی، یعنی جوج و ماجوج کو گمراہ کر کے لڑائی کے لیے جمع کرنے کو نکلے گا۔ ان کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہو گا، اور وہ تمام زمین پر پھیل جائیں گی اور مقدسوں کی لشکر گاہ اور عزیز شہر ۹۴ کو چاروں طرف سے گھیر لیں گی اور آسمان سے آگ نازل ہو کر انھیں کھا جائے گی۔‘‘ (مکاشفہ۲۰: ۷۔۹)
یہی زمانہ قرب قیامت کی ان علامتوں سے بھی متعین ہوتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین کے ایک سوال کے جواب میں بیان فرمائی ہیں، جب وہ لوگوں کی تعلیم کے لیے انسانی صورت میں آپ کے پاس آئے۔ آپ نے فرمایا:
ان تلد الامۃ ربتہا، وان تری الحفاۃ العراۃ العالۃ، رعاء الشاء، یتطاولون فی البنیان. (مسلم، رقم۸)
’’ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جن دے گی اور دوسری یہ ہے کہ تم (عرب کے) اِن ننگے پاؤں، ننگے بدن پھرنے والے کنگال چرواہوں کو بڑی بڑی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے دیکھو گے۔‘‘
ان میں سے دوسری علامت تو بالکل واضح ہے۔ پچھلی صدی سے اس کا ظہور سر زمین عرب میں ہر شخص بچشم سر دیکھ سکتا ہے۔ پہلی علامت کا مصداق متعین کرنے میں لوگوں کو دقت ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک اس کا مفہوم بھی بالکل واضح ہے۔ اس سے مراد ایک ادارے کی حیثیت سے غلامی کا خاتمہ ہے۔ یہ دونوں واقعات ایک ہی زمانے میں ہوئے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ پیشین گوئی قرب قیامت کا زمانہ بالکل متعین کر دیتی ہے۔
اس کے بعد جو علامتیں ظاہر ہوں گی، وہ نبی صلی ا للہ علیہ وسلم نے یاجوج و ماجوج کے خروج کو شامل کر کے ایک ہی جگہ بیان کر دی ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
ان الساعۃ لاتکون حتی تکون عشر آیات: خسف بالمشرق، وخسف بالمغرب، وخسف فی جزیرۃ العرب، والدخان، والدجال، ودابۃ الارض، و یاجوج و ماجوج، وطلوع الشمس من مغربہا، ونار تخرج من قعرۃ عدن ترحل الناس، وریح تلقی الناس فی البحر.(مسلم، رقم ۲۹۰۱)
مدعا یہ ہے کہ قیامت کی دس علامتیں ہیں۔ یہ جب تک ظاہر نہ ہو جائیں، قیامت برپا نہ ہو گی:
۱۔ مشرق میں زمین کا دھنس جانا۔
۲۔ مغرب میں زمین کا دھنس جانا۔
۳۔ جزیرہ نماے عرب میں زمین کا دھنس جانا۔
۴۔ دھواں، اس سے مراد کوئی بڑا ایٹمی انفجار بھی ہو سکتا ہے۔
۵۔ دجال، یہ بڑے دغا باز، فریبی اور مکار کے معنی میں اسم صفت ہے۔ اس کا ذکر ’المسیح الدجال‘ کے نام سے بھی ہوا ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ قیامت سے پہلے کوئی شخص مسیح ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا اور مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کے اندر سیدنا مسیح علیہ السلام کی آمد کے تصور سے فائدہ اٹھا کر اپنے بعض کمالات سے لوگوں کو فریب دے گا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ یہ ایک آنکھ سے اندھا ہو گا اور ایمان والوں کے لیے اس کا دجل اس قدر واضح ہو گا کہ اس کی پیشانی پر گویا کفر لکھا ہوا دیکھیں گے۔ ۹۵
۶۔ زمین کا جانور، جو غالباً اسی طرح زمین کے پیٹ سے براہ راست پیدا ہو جائے گا، جس طرح تمام مخلوقات ابتدا میں پیدا ہوئی ہیں۔
۷۔ یاجوج و ماجوج کا خروج ، یہ شروع ہو چکا اور اب بتدریج اپنے نقطۂ عروج کی طرف بڑھ رہا ہے۔
۸۔ سورج کا مغرب سے طلوع۔
۹۔ آگ جو عدن کے گڑھے سے نکل کر لوگوں کو ہانکے گی۔
۱۰۔ ہوا جو انھیں اٹھا کر سمندر میں پھینک دے گی۔
ان کے علاوہ ظہور مہدی اور مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نزول کو بھی قیامت کی علامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہم نے ان کا ذکر نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ظہور مہدی کی روایتیں محدثانہ تنقید کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ان میں سے کچھ ضعیف اور کچھ موضوع ہیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض روایتوں میں جو سند کے لحاظ سے قابل قبول ہیں، ایک فیاض خلیفہ کے آنے کی خبر دی گئی ہے، ۹۶ لیکن دقت نظر سے غور کیا جائے تو صاف واضح ہو جاتا ہے کہ اس کا مصداق سیدنا عمر بن عبدالعزیز تھے جو خیر القرون کے آخر میں خلیفہ بنے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی ان کے حق میں حرف بہ حرف پوری ہو چکی ہے۔ اس کے لیے کسی مہدی موعود کے انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔ نزول مسیح کی روایتوں کو اگرچہ محدثین نے بالعموم قبول کیا ہے، لیکن قرآن مجید کی روشنی میں دیکھیے تو وہ بھی محل نظر ہیں۔
اولاً، اس لیے کہ مسیح علیہ السلام کی شخصیت قرآن مجید میں کئی پہلووں سے زیر بحث آئی ہے۔ ان کی دعوت اور شخصیت پر قرآن نے جگہ جگہ تبصرہ کیا ہے۔ روز قیامت کی ہلچل بھی قرآن کا خاص موضوع ہے۔ ایک جلیل القدر پیغمبر کے زندہ آسمان سے نازل ہو جانے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ لیکن موقع بیان کے باوجود اس واقعے کی طرف کوئی ادنیٰ اشارہ بھی قرآن کے بین الدفتین کسی جگہ مذکور نہیں ہے۔ علم و عقل اس خاموشی پر مطمئن ہو سکتے ہیں؟ اسے باور کرنا آسان نہیں ہے۔
ثانیاً، اس لیے کہ سورۂ مائدہ میں قرآن نے مسیح علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے جو قیامت کے دن ہو گا۔ اس میں اللہ تعالیٰ ان سے نصاریٰ کی اصل گمراہی کے بارے میں پوچھیں گے کہ کیا تم نے یہ تعلیم انھیں دی تھی کہ مجھ کو اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بناؤ۔ اس کے جواب میں وہ دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہیں گے کہ میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا آپ نے حکم دیا تھا اور جب تک میں ان کے اندر موجود رہا، اس وقت تک دیکھتا رہا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ لیکن جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو میں نہیں جانتا کہ انھوں نے کیا بنایا اور کیا بگاڑا ہے۔ اس کے بعد تو آپ ہی ان کے نگران رہے ہیں۔ اس میں دیکھ لیجیے، مسیح علیہ السلام اگر ایک مرتبہ پھر دنیا میں آ چکے ہیں تو یہ آخر ی جملہ کسی طرح موزوں نہیں ہے۔ اس کے بعد تو انھیں کہنا چاہیے کہ میں جانتا ہوں اور ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کی گمراہی پر انھیں متنبہ کر کے آیا ہوں۔ فرمایا ہے:
مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلاَّ مَآ اَمَرْتَنِیْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ، رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ، وَکُنْتُ عَلَیْْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ، فَلَمَّا تَوَفَّیْْتَنِیْ، کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْْہِمْ، وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَیْْءٍ شَہِیْدٌ.(المائدہ۵: ۱۱۷)
’’میں نے تو اِن سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔ اور میں ا ن پر گواہ رہا، جب تک میں ان کے اندر موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو ان پر تو ہی نگران رہا ہے اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘
ثالثاً، اس لیے کہ سورۂ آل عمران کی ایک آیت میں قرآن نے مسیح علیہ السلام کے بارے میں قیامت تک کا لائحۂ عمل بیان فرمایا ہے۔ یہ موقع تھا کہ قیامت تک کے الفاظ کی صراحت کے ساتھ جب اللہ تعالیٰ وہ چیزیں بیان کر رہے تھے جو ان کے اور ان کے پیرووں کے ساتھ ہونے والی ہیں تو یہ بھی بیان کر دیتے کہ قیامت سے پہلے میں ایک مرتبہ پھر تجھے دنیا میں بھیجنے والا ہوں۔ مگر اللہ نے ایسا نہیں کیا۔ سیدنا مسیح کو آنا ہے تو یہ خاموشی کیوں ہے؟ اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ آیت یہ ہے:
اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ، وَرَافِعُکَ اِلَیَّ، وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا، وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ، فَاَحْکُمُ بَیْْنَکُمُ فِیْمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ.(۳: ۵۵)
’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تجھے وفات دوں گا اور اپنی طرف اٹھا لوں گا اور (تیرے) اِن منکروں سے تجھے پاک کروں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت کے دن تک ان منکروں پر غالب رکھوں گا۔ پھر تم سب کو بالآخر میرے پاس آنا ہے۔ سو اُس وقت میں تمھارے درمیان اُن چیزوں کا فیصلہ کروں گا جن میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔‘‘
قیامت کس طرح برپا ہو گی؟ اس کی تفصیلات قرآن میں کئی مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ زمین و آسمان پر کیا گزرے گی، مہ و آفتاب اور نجوم و کواکب کے ساتھ کیا ہو گا، زمین پر بسنے والی مخلوقات کس صورت حال سے دو چار ہوں گی، لوگ کس طرح قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کے حضور میں جمع ہوں گے، قرآن میں جگہ جگہ اس کی تصویریں ہیں۔ ادب جاہلی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عربوں کا ذوق تشبیہ سے زیادہ تصویر کا رہا ہے۔ قرآن نے اس کی رعایت کی ہے اور انذار قیامت کے لیے اس کی ہلچل کا ایسا مرقع کھینچ دیا ہے کہ اس کا قاری گویا اسے اپنی آنکھوں کے سامنے برپا ہوتے دیکھتا ہے۔ اس سے حوادث کی جو ترتیب سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے:
۱۔ لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کاروبار چلا رہے ہوں گے۔ ان میں سے کوئی راستے میں ہو گا، کوئی بازار میں، کوئی مجلس میں اور کوئی اپنے گھر میں، کسی کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہو گا کہ نظم عالم درہم برہم ہونے والا ہے کہ اچانک صور پھونکا جائے گا اور زلزلۂ قیامت برپا ہو جائے گا:
وَیَوْمَ یُنْفَخُ فِی الصُّوْرِ، فَفَزِعَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ، اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰہُ.(النمل۲۷: ۸۷)
’’اور اس دن کا خیال کرو، جب صور پھونکا جائے گا اور وہ سب جو زمین و آسمان میں ہیں، ہول کھا جائیں گے، سوائے اُن کے جنھیں اللہ چاہے گا۔‘‘
یہ صور کیا ہے؟ ہماری زبان میں اسے نرسنگھا، بوق یا قرنا کہا جاتا ہے۔ اس کی اصل حقیقت کو جاننا تو کسی کے لیے ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ اس کا تعلق امور متشابہات سے ہے۔ تاہم جو لفظ اس کے لیے اختیار کیا گیا ہے، اس کا کچھ تصور اس سے قائم کیا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی کائنات کے نظم کو سمجھانے کے لیے وہی الفاظ و اصطلاحات استعمال کرتے ہیں جو خود انسانوں کے ہاں اسی سے ملتے جلتے نظم کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ اس سے مقصود ہمارے تصور کو اصل چیز کے قریب لے جانا ہوتا ہے، نہ یہ کہ ہم اس چیز کو بعینہٖ اس طرح سمجھ لیں، جس طرح وہ دنیا میں پائی جاتی ہے۔ قدیم ایام میں شاہی جلوس یا اعلان جنگ وغیرہ کے موقع پر نرسنگھا پھونکا جاتا تھا، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہی ایک چیز قیامت برپا کرنے کے لیے بھی پھونکی جائے گی، جس کی نوعیت ہمارے نرسنگھے جیسی ہو گی۔ اس سے تمام مخلوقات پر شدیدگھبراہٹ اور ہول کی کیفیت طاری ہو گی، لوگوں کو اپنی عزیز ترین چیزوں تک کا ہوش نہ رہے گا، جنگلوں کے جانور بد حواس ہو کر اکٹھے ہو جائیں گے۔ ۹۷ یہاں تک کہ اس کی ہول ناک آواز سے تمام مخلوقات بے ہوش ہو جائیں گی:
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ، اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰہُ.(الزمر۳۹: ۶۸)
’’اور صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں، سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے، سوائے اُن کے جنھیں اللہ چاہے گا۔‘‘
زمین کی آبادی پر اس کے نتیجے میں جو کچھ گزرے گی، اس کا نقشہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کھینچا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ایک کے بعد زلزلے کا دوسرا جھٹکا آئے گا اور زمین کی حالت اس کشتی کی سی ہو جائے گی جو موجوں کے تھپیڑے کھا کر ڈگمگار ہی ہو تو دل کانپ رہے ہوں گے، نگاہیں خوف زدہ ہوں گی اور لوگ ایسے مدہوش اور متوالے ہو جائیں گے کہ گویا عذاب الٰہی کی ہولناکی نے سب کو پاگل بنا کر رکھ دیا ہے۔ فرمایا ہے:
یٰٓاَ یُّہَا النَّاسُ، اتَّقُوْا رَبَّکُمْ، اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْْءٌ عَظِیْمٌ، یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَۃٍ عَمَّآ اَرْضَعَتْ، وَتَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَہَا، وَتَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی، وَمَا ہُمْ بِسُکٰرٰی، وَلَکِنَّ عَذَابَ اللّٰہِ شَدِیْدٌ.(الحج۲۲: ۱۔۲)
’’لوگو، اپنے پروردگار سے ڈرو۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا زلزلہ بڑی ہول ناک چیز ہے۔ جس دن تم اسے دیکھو گے، اُس دن ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ اپنا حمل ڈال دے گی اور لوگ تمھیں مدہوش نظر آئیں، دراں حالیکہ وہ مدہوش نہیں ہو ں گے،بلکہ اللہ کا عذاب ہی کچھ ایسا سخت ہو گا۔‘‘
۲۔ یہی وہ وقت ہے جب نظم عالم درہم برہم ہونا شروع ہو گا۔ پوری کائنات میں ایک ایسا زلزلۂ عظیم برپا ہو جائے گا جس سے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، سمندر پھوٹ بہیں گے، تمام کہکشانیں اور اجرام فلکی اپنی جگہ چھوڑ کر ایک دوسرے میں جا پڑیں گے۔ ہر طرف ایسا اختلال ہو گا کہ خیال اس کے تصور سے اور الفاظ اس کے بیان سے قاصر ہوں گے۔ یہ سلسلہ ایک ایسی مدت تک جسے خدا ہی جانتا ہے، جاری رہے گا:
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ، وَاِذَا النُّجُوْمُ انکَدَرَتْ، وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ، وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ، وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ، وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ.. .عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ. (التکویر۸۱: ۱۔۶، ۱۴)
’’اُس وقت، جب سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی، اور جب تارے ماند پڑ جائیں گے، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے، اور جب دس ماہہ گابھن اونٹنیاں چھٹی پھریں گی، اور جب وحشی جانور (اپنی سب دشمنی بھول کر ایک ہی جگہ) اکٹھے ہو جائیں گے، اور جب سمندر ابل پڑیں گے... اُس وقت، (لوگو، تم میں سے) ہر شخص جان لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔‘‘
اِِذَا السَّمَآءُ انْشَقَّتْ، وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ، وَاِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ، وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ، وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ. (الانشقاق۸۴: ۱۔۵)
’’وہ دن، جب آسمان پھٹ جائے گا اور اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے گا، اور اُسے یہی زیبا ہے۔ اور وہ دن جب زمین تان دی جائے گی اور جو کچھ اُس کے اندر ہے، اُسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی اور اپنے پروردگار کے حکم کی تعمیل کرے گی، اور اُسے یہی چاہیے۔ (وہ دن تمھارے پروردگار سے ملاقات کا دن ہو گا)۔‘‘
۳۔ اس کے بعد وہ مرحلہ شروع ہو گا جسے قرآن میں اعادۂ خلق سے تعبیر
کیا گیا ہے۔ چنانچہ اسی اختلال سے بتدریج ایک نیا نظام طبیعت وجود میں آئے گا:
یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ، کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ،وَعْدًا عَلَیْْنَا، اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ.(الانبیاء۲۱: ۱۰۴)
’’اُس دن کا خیال کرو، جب ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے، جس طرح طومار میں اوراق لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی، اسی طرح اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ایک وعدہ ہے ہمارے ذمے، اور ہم یہ کر کے رہیں گے۔‘‘
اس کی صورت کیا ہو گی؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمام اجرام فلکی، زمین، سورج، چاند، تارے اور اربوں ستاروں اور سیاروں سے بنی ہوئی کہکشانیں نئے قوانین اور نئے نوامیس کے ساتھ ایک نئی زمین اور نئے آسمان میں تبدیل ہو جائیں گی: ’یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ‘۹۸ (اُس دن کو یاد رکھو، جب یہ زمین دوسری زمین میں بدل دی جائے گی اور آسمان بھی)۔ قرآن کا بیان ہے کہ اس موقع پر ایک مرتبہ پھر نفخ صور ہو گا جس سے تمام لوگ جی اٹھیں گے اور اپنی قبروں سے نکل کر پروردگار عالم کی عدالت میں پیشی کے لیے حاضر ہو جائیں گے:
ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ.(الزمر۳۹: ۶۸)
’’پھر ایک دوسرا صور پھونکا جائے گا اور یکایک سب کے سب اٹھ کر دیکھنے لگیں گے۔‘‘
وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَاِذَا ہُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰی رَبِّہِمْ یَنْسِلُوْنَ.(یٰس۳۶: ۵۱)
’’اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل پڑیں گے۔‘‘
———————
۹۲ الاعراف۷: ۱۸۷۔ طہٰ۲۰: ۱۵۔ حٰم السجدہ۴۱: ۴۷۔
۹۳ بخاری، رقم ۸۰، ۸۱۔ مسلم، رقم ۲۶۷۱، ۲۹۰۸، ۱۴۸۔
۹۴ مقدسوں کی لشکر گاہ سے مراد مدینہ اور عزیز شہر سے مراد شہرامین مکہ ہے۔ یہ تعبیرات اتنی واضح ہیں کہ الہامی صحائف کے اسالیب اور ان شہروں کی تاریخ سے واقف کسی شخص کو انھیں سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی۔
۹۵ بخاری، رقم ۱۸۸۲، ۳۴۳۹، ۷۱۳۱۔ مسلم، رقم۱۶۹، ۲۹۳۳، ۲۹۳۸۔
۹۶ مسلم، رقم ۲۹۱۴۔
۹۷ التکویر۸۱: ۴۔۵۔
۹۸ ابراہیم۱۴:۴۸۔
__________________