[ لال مسجد کے سانحے پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ ظلم وبربریت کے اس مظاہرے میں کس کا کتنا کردار ہے، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا، لیکن جو کچھ سامنے آیا ہے، اس کی بنا پر ان لوگوں کی رائے زیادہ قرین حقیقت معلوم ہوتی ہے جو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہیں اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس قوم کو ایسے حادثوں سے آیندہ محفوظ رکھے۔ آمین۔
یہ جناب خورشید ندیم کے دو ’’شذرات‘‘ ہیں جو انھوں نے اس حادثے کے موقع پر تحریر کیے تھے۔ ان میں انھوں نے اپنے زاویے سے اس حادثے پر تبصرہ کیا ہے۔ اس واقعے کے بارے میں ان کی کسی رائے یا کسی تجزیے سے اختلاف ہو سکتا ہے، مگر اس کے پس منظر اور پیش منظر کے حوالے سے جو سوالات انھوں نے اٹھائے ہیں، وہ ہم سب کے لیے قابل غور ہیں۔
قارئین کے افادے کے لیے یہ شذرات یہاں شائع کیے جا رہے ہیں۔مدیر]
اس حادثے کا ہر پہلو میرے لیے تکدر اور اضطراب کا باعث ہے۔ جواں سال طلبا اور طالبات کا یوں چپکے سے موت کی آغوش میں چلے جانا، میرے دل پر ایک قیامت ڈھا گیا۔ نہیں معلوم ان میں کتنے ایسے تھے جو آنے والے وقت میں اللہ کی کتاب کے مفسر ہوتے اور زمانے کے سامنے اس آخری وابدی الٰہی پیغام کے عجائب بے نقاب کرتے۔ کیا معلوم جوانی میں مرجانے والی کتنی بچیاں اپنی جلیل القدر ماں، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے نقوش قدم پر چلتے چلتے اقوال وافعال پیغمبر علیہ السلام کی شارح بنتیں۔ کون جانتا ہے کہ یہ جواں مرگ مستقبل میں مسند فقہ کی رونق ہوتے۔ میں ان نوجوانوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سب جنازے میرے گھر سے اٹھے ہوں۔
میں ٹیلی وژن کی سکرین پر مولانا عبدالعزیز کا تمسخر اڑتے دیکھتا اور سنتا ہوں تو لگتا ہے جیسے کسی نے میرے باپ کو سربازار رسوا کر دیا ہے۔ جو لوگ دینی شناخت کے ساتھ معاشرے میں جیتے ہیں، ان کی رسوائی ہمیشہ میرے لیے دل گرفتگی کا باعث بنی ہے۔ اسی طرح جب میں مذہبی سیاست دانوں کی اخلاقی پستی کے مظاہر دیکھتا ہوں تو اپنی ذات میں سمٹتا اور شرمندہ ہوتا رہتا ہوں۔ میں جب بھی کسی ایسے حادثے سے دوچار ہوتا ہوں تو مجھے رہ رہ کر یہ خیال آتا ہے کہ کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ دین سے محبت کرنے والے یہ سوچیں کہ ایسی شرمندگی، ناکامی اور رسوائی ان کا مقدر کیوں بنتی ہے؟ آخر ملاعمر اور صدام حسین جیسے لوگ ہماری صفوں میں کیوں ہوتے ہیں۔ یہاں کسی کا اخلاص یا اخروی انجام زیربحث نہیں ہے۔ یہ وہ امور ہیں جن کا علم صرف عالم الغیب کو ہے۔ ہمارے لیے تو صرف یہ سوال اہم ہے کہ جو لوگ دین کے نام پر مسلمانوں کی قیادت کے دعوے دار ہیں، ان کی حکمت عملی میں ہمیشہ شکست ہی کیوں لکھ دی گئی ہے؟
میرا خیال ہے کہ لال مسجد کے حادثے نے ہمیں ایک مرتبہ پھر انھی سوالات کی طرف متوجہ کیا ہے۔ آج ہم نے اگر اس پر غور نہ کیا تو مستقبل میں مجھے اندیشہ ہے کہ یہ حادثے دہرائے جاتے رہیں گے۔ میں نے ان سوالات کو اپنا موضوع بنانے کی جسارت کی ہے۔ یہ تلخ نوائی اگر آنے والے دنوں میں ہمیں کسی ایسے ہی حادثے سے محفوظ رکھ سکے تو شاید مجھ سے زیادہ کوئی اس پر خوش نہ ہو۔
اس ضمن میں پہلا سوال یہ ہے کہ دین کی اس تعبیر کا ماخذ کیا ہے جس نے مسلمان معاشروں کو آج انتشار میں مبتلا کر رکھا ہے؟ مسلمان اہل علم ہر دور میں موجود رہے ہیں جو حق بات کو بیان کرتے رہے ہیں، لیکن ان کا وجود کبھی فتنے اور انتشار کا باعث نہیں بنا۔ خلافت راشدہ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز کے استثنا کے ساتھ مسلمانوں کی تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں رہا جس میں فی الواقع دینی تعلیمات کی حکمرانی ہو۔ اس کے باوجود مسلمان اہل علم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے مسلمانوں کی زندگی خطرے میں پڑی ہو۔ لال مسجد کے ذمہ داران کا تعلق فقہ حنفی سے ہے۔ اس فقہ کی مستندکتاب ’’ہدایہ‘‘ میں یہ مسئلہ بیان ہوا ہے: ’الامر بالمعروف بالید الی الامراء وباللسان الی غیرہم‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ یعنی طاقت کے ساتھ برائی کو روکنا اور معروف کو قائم کرنا حکمرانوں کا کام ہے اور جن کے پاس اقتدار نہیں ہے، ان کی ذمہ داری محض یہ ہے کہ وہ زبان کے ساتھ برائی سے روکیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تو یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی مسلمان کے پاس ممنوعہ آلات موسیقی ہوں اور دوسرا مسلمان انھیں توڑ دے تو اسے تاوان دینا پڑے گا، کیونکہ اس نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ جب فقہی روایت یہ کہتی ہے تو سوال یہ ہے کہ روایت پسندی کی شہرت رکھنے والے ان علما کے اس طرز عمل کا ماخذ کیا ہے جس کے تحت وہ برائی کو ہاتھ سے روکنے کے لیے سرگرم ہیں اور اس مقصد کے لیے وہ ریاست کے اندر ایک ریاست بنانے کو جائز سمجھتے ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ جب ہم اسلام کے نام پر مسلمان معاشروں کو انتشار اور فساد میں مبتلا کرتے ہیں تو اس کا فائدہ کسے ہوتا ہے؟ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کا اسلام اور مسلمانوں کو کتنا فائدہ ہوا؟ مجھے اس سے اتفاق ہے کہ مسلمان حکمرانوں کا رویہ مثالی نہیں ہے، لیکن ان کو ہٹانے کے لیے مسلمان معاشروں کو مستقلاً اضطراب میں مبتلا رکھنا اسلام کی کون سی خدمت ہے؟ پاکستان میں اسلام کے نام پرمسلسل ایک تحریک برپا رہتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہاں نہ تو سیاسی اصلاحات ممکن رہی ہیں اور نہ ہی معاشی اصلاحات۔ حکمرانوں سے لے کر عامۃ الناس تک دین کی دعوت پہنچانا اور انھیں ان کی دینی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنا یہاں کبھی ممنوع نہیں رہا۔ اس مقصد کے لیے تمام جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا جاسکتاہے۔ اس کے باوجود اسلام کے نام پر عدم استحکام پھیلانے کا جواز کیاہے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقیات اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق باقی نہیں رہا؟ لال مسجد کے ذمہ داران نے جو طرزعمل اختیار کیا، اسے شرعی، اخلاقی، آئینی یا عقلی، کسی اعتبار سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی اور صدمہ بھی کہ ہمارے بعض رہنما اس طرزعمل کی مذمت پر آمادہ نہیں ہوئے۔ تاہم مجھے مولانا فضل الرحمن اس معاملے میں بہتر جگہ پر کھڑے نظر آئے۔ مولانا فضل الرحمن سے جب لال مسجد کے ذمہ داران کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے اسے غلط کہا۔ انھوں نے حکومت کی بھی مذمت کی، لیکن لال مسجد والوں کا دفاع نہیں کیا۔ بعض نے کہا کہ اس کی ذمہ دار حکومت ہے اور بعض نے ارشاد فرمایا کہ یہ آپریشن امریکا کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ میرے نزدیک اخلاق و کردار کے اعتبار سے یہ بہترین لوگ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب معاشرے میں اس سطح کے لوگ بھی گروہی مفادات کی اسیری میں سچ کو سچ کہنے کے لیے تیار نہیں تو اس معاشرے کے مستقبل کے بارے میں نیک تمناؤں کا کیسے اظہار کیا جا سکتا ہے؟
مسلمانوں کو کئی عشروں سے جس زوال کا سامنا ہے، مسلمان رہنماؤں اور اہل علم نے اس کے تجزیے میں بالعموم دو باتیں کہی ہیں: ایک تو یہ کہ مسلمانوں کی یہ حالت زار اغیار کی سازشوں کا نتیجہ ہے۔ دوسری یہ کہ ہماری زبوں حالی کا اصل سبب ہمارے حکمران ہیں۔ اس تجزیے کے نتیجے میں جو حکمت عملی سامنے آئی ہے، اس کے تحت کبھی انگریزوں اور کبھی امریکا کے خلاف اعلان جہاد ہوا۔ مزید یہ کہ مسلمان معاشروں کے اندر اصلاح کی ہر کوشش کا دائرہ سیاست رہی۔ یعنی یہ کہ اگر مسلمانوں کا اقتدار صالح لوگوں کے ہاتھ میں آجائے تو تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ یہ تجزیہ غلط تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی بنیاد پر جو حکمت عملی اختیار کی گئی وہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکی۔ ہم نے غیروں کے خلاف اعلان جہاد کیا تو ہمارا معاشرہ سید احمد اور شاہ اسماعیل جیسے جلیل القدر لوگوں سے خالی ہوگیا۔ مسلمان حکمرانوں کے خلاف اقدام کیا تو لال مسجد جیسے حادثات ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ اب ایک نئے تجزیے کو کسی حکمت عملی کی بنیاد بنایا جائے۔ اس تجزیے کے بھی بنیادی طور پر دو نکات ہیں: ایک یہ کہ ہماری اس حالت زار کے اسباب خارج میں نہیں، داخل میں ہیں۔ دوسرا یہ کہ اصلاح کا ہدف حکمران نہیں، عوام ہیں۔ اقتدار نہیں، سماج ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر اس زاویے سے درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے تو ہمیں ان سوالات کے جوابات مل سکتے ہیں جو میں نے اس کالم میں اٹھائے ہیں۔ اس کے بعد امید ہے کہ دین کا کوئی عالم تمسخر کا نشانہ بنے گا اور نہ ہی معصوم لوگوں کا لہو رائگاں بہ جائے گا۔
۱۰ جولائی کی شام کچھ اس طرح اتری کہ رنج و الم کے سایے اس کی تاریکی میں اضافہ کر گئے۔ میری زندگی میں ایسے لمحات بہت کم آئے ہیں، جب غم اور غصہ یوں باہم مل گئے ہوں۔ غم کے اسباب تو واضح تھے تا ہم اس کا تعین مشکل تھا کہ اس غصے کا مخاطب کون ہے۔ کوئی ایک یا وہ سب جنھوں نے اپنے نظریات، خیالات، طرز عمل، بے حسی یا پھر نا اہلی سے معصوم بچوں اور دین سے محبت رکھنے والوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ دو دن بعد جب میں نے ٹیلی وژن پر عبدالرشید غازی کو موت کی آغوش میں سوتے دیکھا تو یہ منظر اداسی میں اور اضافہ کر گیا۔ لال مسجد کے تناظر میں جنم لینے والے یہ مناظر، مدتوں اس قوم کی یادداشت سے محو نہ ہوسکیں گے۔ غم اور غصے کا یہ تاثر برسوں ان کا پیچھا کرے گا۔
اس حادثے کے بعد جنرل پرویز مشرف صاحب نے اپنے خطاب میں ہم سب کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی دعوت دی ہے۔ جب وہ تقریر فرما رہے تھے تو گمان یہی ہے کہ انھوں نے ’’ہم سب‘‘ میں خود کو شامل کیا ہو گا، لیکن ان کے خطاب میں اس کی کوئی شہادت موجود نہیں تھی۔ البتہ، دوسروں کے گریبان میں جھانکنے کے بے شمار شواہد ضرور موجود تھے۔ یہی آج اس قوم کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہر ریاستی ادارہ، حکومت، علما و مذہبی سیاست دان اور قومی رہنما سب دوسروں کا احتساب کر رہے ہیں اور’’ہم سب‘‘ سے خود کو مستثنیٰ سمجھتے ہیں۔
آج خود احتسابی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ریاستی ادارہ اور حکومت اس سوال پر غور کرے کہ اس حادثے کے وقوع پذیر ہونے میں اس کا کیا کردار تھا۔ جو ادارہ آج اللہ کے گھر کو اسلحے سے ’’پاک‘‘ کر کے مشرف صاحب کی تحسین کا مستحق بنا ہے، اس پر یہ سوال ابھی تک قرض ہے کہ اللہ کے اس گھر کو اسلحے سے ’’ناپاک‘‘ کس نے کیا تھا؟ ۱۸۶۵ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھنے سے لے کر ۱۹۷۹ء کے افغان جہاد تک، کوئی ایک واقعہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی دینی مدرسہ بحیثیت ادارہ کسی عسکری سرگرمی میں ملوث ہوا ہو۔ آخر اچانک وہ کیا تبدیلی آئی جس نے سو سالہ تاریخ کو پلک جھپکنے میں بدل دیا؟ ان بوریا نشینوں کے پاس راتوں رات دنیاوی وسائل اور اسلحہ کہاں سے آیا؟ آج مدرسہ کلچر میں جو غیرمعمولی تبدیلی آئی ہے، ریاستی ادارے کہاں تک اس کے ذمہ دار ہیں؟ اسی طرح اس سوال کا جواب بھی ابھی تک نہیں مل سکا کہ وہ غیر ملکی دہشت گرد کہاں ہیں، جو اس مدرسے میں پناہ گزین تھے ؟طارق عظیم صاحب اور عبدالرشید غازی صاحب کے مابین گفتگو کی جو ٹیپ حکومت نے جاری کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بات پر اتفاق تھا۔ اس کے باوجود قتل عام کو کیوں ناگزیر سمجھا گیا؟
آج خود احتسابی کا مطلب یہ ہے کہ علماے کرام اور دینی مدارس کے ذمہ داران اس پر غور کریں کہ جن لوگوں نے مدرسے کی سوسالہ تاریخ سے انحراف کیا، ان کے ساتھ انھیں کیا معاملہ کرنا چاہیے؟ مدرسے کے قیام کا بنیادی مقصد دینی روایت کی حفاظت اور ایک مسلمان معاشرے کی مذہبی ضروریات کی تکمیل ہے، جس میں دینی تعلیم کی ضرورت بھی شامل ہے۔ مدرسے نے اس ذمہ داری کو کہاں تک نبھایا؟ لال مسجد میں موجود اسلحے کے بارے میں حکومتی دعووں کی تکذیب کے باوجود، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عبدالرشید غازی صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلح تھے اور انھوں نے ہتھیار پھینکنے سے انکار کیا۔ جس نے ہتھیار اٹھائے ہی نہ ہوں، اس کی طرف سے پھینکنے سے انکار ایک بے معنی بات ہے۔ یہ طرز عمل کسی مدرسے کے ایک ذمہ دار کے کس حد تک شایان شان ہے اورآج اس صورت حال کو کیسے تبدیل کیا جائے کہ دینی مدارس ہمیشہ کی طرح اپنا اصل کردار ادا کرتے رہیں؟
آج خود احتسابی کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اس سوال پر غور کرے کہ وہ دینی مدارس کو جو وسائل فراہم کر رہا ہے، کیا وہ انھی مقاصد کے لیے صرف ہوتے ہیں، جن کے لیے وہ ایثار کرتا ہے؟ ہمیں معلوم ہے کہ ان مدارس کے زیادہ تر وسائل اس معاشرے سے جمع ہوتے ہیں۔ معاشرہ یہ خیال کرتا ہے کہ لوگوں کو دینی تعلیم دی جانی چاہیے اور یہاں ایسے ادارے موجود ہوں جو اس کی مذہبی ضروریات کی تکمیل کریں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے سماج میں کوئی ایک فرد ایسا نہیں ہو گا جو ان مدارس کی اس لیے معاونت کرتا ہو کہ وہ برائی کو ہاتھ سے مٹانے کے لیے نکلیں یا ملک میں اسلام کے سیاسی غلبے کی جدوجہد کریں۔ کیا معاشرہ اس بارے میں سوچنے کے لیے تیار ہے کہ وہ انھی مدارس کی مدد کرے جو اپنا اصل فریضہ سر انجام دے رہے ہیں اور ان مدارس سے تعاون نہ کرے جو اس فریضے سے انحراف کر رہے ہیں؟سماج کو اس سوال پر بھی غور کرنا ہو گا کہ آج کس طرح کی دینی تعلیم اس کی ضرورت ہے۔
آج حکومت اور ریاستی اداروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس حادثے کی تمام تر ذمہ داری غازی برادران اور اہل مدرسہ پر ڈال رہے ہیں۔ وہ تمام سوالات جن کا میں نے ذکر کیا اور جو آج قومی میڈیا میں تواتر اورشدت کے ساتھ اٹھائے جا رہے ہیں، حکومتی ایوانوں میں ان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کا قوم سے خطاب اس کی سب سے بڑی گواہی ہے۔ اس بارے میں حکومتی تکبر کا یہ عالم ہے کہ وہ کسی مطالبے کو اہمیت دینے پر آمادہ نہیں۔ ۱۲ مئی کو جب کراچی میں قتل عام ہوا اور تمام سول سوسائٹی نے اس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیا تو مشرف صاحب نے حقارت کے ساتھ بیک جنبش قلم اسے مسترد کر دیا۔ اب ایک بار پھر یہ مطالبہ ہو رہا ہے کہ لال مسجد کے حادثے کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کے لیے بھی ایک عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ تا دم تحریر حکومت خاموش ہے اور امکان یہی ہے کہ اس مطالبے کا انجام بھی پہلے مطالبے کی طرح ہو گا ، یعنی
یہ خون خاک نشیناں تھا جو رزق خاک ہوا
علما اور دینی مدارس کے منتظمین بھی حکومت ہی کو اس سانحے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور اس کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ میرے علم کی حد تک علما اور وفاق المدارس کا کوئی ایک اجلاس ایسا نہیں ہوا جو اس پر غور کرتا کہ اس حادثے نے دینی مدارس کے مستقبل پر کیا اثرات ڈالے ہیں اور ان اداروں کو خالصتاً مذہبی تعلیم کے ادارے بنانے کے لیے کیا اقدام کیے جائیں۔ اسی طرح مستقبل میں اس نوعیت کے واقعات کا کیسے سد باب ہو سکتا ہے۔ علما اور دینی مدارس کے منتظمین نے یہ موقف اختیار کیا کہ لال مسجد والوں کے مطالبات درست ہیں، لیکن طریقۂ کار غلط ہے۔ میں اس نقطۂ نظر کو کبھی سمجھ نہیں سکا۔ کوئی فرد یا گروہ جب اپنی حدود سے تجاوز کر کے کوئی مطالبہ کرتا ہے، تو وہ درست کیسے ہو سکتا ہے؟ دینی مدارس کا کام دینی تعلیم کا فروغ اور اس کی روایت کا علمی دفاع ہے۔ اسلام کا سیاسی غلبہ یانفاذ اسلام، ان کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ اگر دینی مدرسے سے متعلق کوئی آدمی سمجھتا ہے کہ اس وقت یہ کام ضروری ہے تو اسے مدرسہ چھوڑ کر کوئی سیاسی جماعت بنانی چاہیے یا پہلے سے موجود کسی سیاسی جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے۔ مدرسے کا فورم اس کام کے لیے نہیں ہوتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کل قائداعظم یونیورسٹی یا پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کا کوئی گروہ اٹھے اور یہ مطالبہ شروع کر دے کہ پاکستان کو ایک سیکولر ریاست ہونا چاہیے۔ یا وہ طلبا کا ایک جتھا منظم کرے اور کسی مدرسے یا دینی دعوت کے ادارے پر پل پڑے جو اس کے خیال میں ملک کے سیکولر تشخص کو مجروح کر رہا ہے۔ اگر کوئی ایسا پروفیسر ہو گا تو ہم اس سے بھی یہی کہیں گے کہ یہ تمھارا منصب نہیں ہے۔ تمھیں اگر اس کام سے دل چسپی ہے تو درس و تدریس کو خیر باد کہو اور کوئی سیاسی جماعت بناؤیا پھر پیپلز پارٹی میں شامل ہو جاؤ۔ دنیا میں ہر کام کے آداب اور حدود ہوتے ہیں۔ ان سے تجاوز ہی کسی موقف کے غلط ہونے کے لیے کافی ہے۔ نفاذ اسلام کا مطالبہ قاضی حسین احمد اور مولانا فضل الرحمن کر رہے ہیں۔ وہ اسی کام کے لیے بننے والی جماعتوں میں شامل ہیں اور ان کے اس حق سے کسی کو اصولی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ماضی میں جب شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے ملت کے سیاسی وجود کے لیے کام کرنا چاہا تو جمعیت علماے ہندکے فورم کو استعمال کیا، دارلعلوم دیوبند کو اس کا مرکز نہیں بنایا۔ آج مسئلہ یہ نہیں ہے کہ نفاذ اسلام کا مطالبہ غلط ہے یا صحیح ہے، مسئلہ یہ ہے کہ جو یہ مطالبہ کر رہا ہے، کیا ملکی قانون، سماجی اخلاقیات اور شریعت نے اسے یہ حق دیا ہے؟
سول سوسائٹی بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابہام کا شکار ہے۔ کوئی حکومت کا حامی ہے اور کوئی لال مسجد والوں کا۔ آج اس کا اصل کام یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے دینی مدارس کس حد تک وہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں، جن کے لیے وہ وجود میں آئے ہیں اورکیا سماجی سطح پر کوئی ایسا طریقۂ کار وضع کیا جا سکتا ہے، جس سے معاشرہ ان کی نگرانی کی ذمہ داری ادا کرے تا کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے انحراف نہ کریں۔ اسی طرح آج معاشرے کو جس دینی تعلیم کی ضرورت ہے، اس کے لیے اسے کیا کرنا چاہیے۔
جنرل مشرف صاحب نے اگر آج ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیا ہے تو ہم سب کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے، لیکن اس پر عمل کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنی مثال پیش کریں اور اس کا آغاز اس ادارے کے احتساب سے کریں جس کے وہ اس وقت آئینی سربراہ ہیں اور جس نے انھیں وردی پہنا رکھی ہے۔
________________