HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف :

علامہ جاوید احمد غامدی کا تصور ’’فطرت‘‘

حافظ محمد زبیر

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


غامدی صاحب کے ماخذ دین ایک نظر میں

ماخذ دین سے مراد وہ شرعی دلائل ہیں جن سے شرعی احکام کو مستنبط کیا جاتا ہے۔ اہل سنت کے ہاں یہ چار ہیں: قرآن، سنت، اجماع اور قیاس۔ یہ وہ ماخذ دین ہیں جو فقہاے اہل سنت کے ہاں متفق علیہ ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ماخذ ایسے بھی ہیں جو فقہا کے درمیان اختلافی ہیں، مثلاً قول صحابی، استحسان، مصلحت مرسلہ، استصحاب، سد الذرائع، عرف وعادت، شرائع من قبلنا وغیرہ۔ اہل سنت کے ماخذ دین کے بالمقابل غامدی صاحب کے ماخذ علی الترتیب درج ذیل ہیں:

اہل سنت کے ماخذ دین

۱۔ قرآن

۲۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم

۳۔ اجماع

۴۔ قیاس

غامدی صاحب کے ماخذ دین

۱۔ دین فطرت کے بنیادی حقائق

۲۔ سنت ابراہیمی

۳۔ نبیوں کے صحائف

۴۔ قرآن

غامدی صاحب کے اصل اصول تو یہی چار ہیں، جبکہ ان چار کے علاوہ بھی غامدی صاحب کے کچھ اصول ہیں جن سے ضرورت پڑنے پر استدلال کرتے ہیں، لیکن ان کو مستقل ماخذ دین نہیں سمجھتے۔ یہ اصول درج ذیل ہیں:

۵۔حدیث

۶۔اجماع

۷۔امین احسن اصلاحی، جنھیں وہ امام کہتے ہیں۔

اس باب میں ہم غامدی صاحب کے اصول ’دین فطرت کے بنیادی حقائق‘ پر کچھ معروضات پیش کریں گے۔

غامدی صاحب کے نزدیک سب سے پہلا ماخذ جس سے دین حاصل ہوتا ہے، وہ فطرت انسانی ہے اور یہی ماخذ ان کے نزدیک اصل الاصول یعنی باقی تمام ماخذ کی بنیاد بھی ہے، جیسا کہ ہم آگے چل کر اس کو ثابت کریں گے۔ دین کا دوسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کی سنت ہے، یعنی ایسے اعمال جن پر تمام انبیا عمل کرتے چلے آئے ہیں، چونکہ یہ اعمال حضرت ابراہیم کی زندگی میں آکر ایک واضح شکل اختیار کر گئے تھے، اس لیے اب ان اعمال کی نسبت پچھلے انبیا کی بجائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف ہوگی۔ تیسرا ماخذ ان کے نزدیک نبیوں کے صحائف یعنی تورات، انجیل اور زبور وغیرہ ہیں۔ اور دین کا چوتھا اور آخری ماخذ ان کے نزدیک قرآن مجید ہے۔ اسی لیے وہ قرآن کو دین کی آخری کتاب کہتے ہیں، یعنی دین تو پہلے سے چلا آرہا ہے اور قرآن نے آکر اس کی تکمیل کی ہے۔ باقی جہاں تک حدیث رسول یا اجماع امت کا معاملہ ہے، اس کو غامدی صاحب دین کا کوئی مستقل ماخذ نہیں مانتے۔ لہٰذا غامدی صاحب کے اصل اصول چار ہی ہیں جن پر ان کی پوری فکر استوار ہے۔ غامدی صاحب نے اپنے ان چار اصولوں کو اپنی کتاب ’’میزان‘‘ (فصل اصول ومبادی) میں صفحہ ۴۷ سے ۵۲ تک تفصیلاً بیان کیا ہے۔ ’’المورد‘‘ کے ریسرچ سکالر اور غامدی صاحب کے شاگرد خاص جناب منظورالحسن صاحب غامدی صاحب کے ماخذ دین سے متعلقہ ’’میزان‘‘ کی اس طویل عبارت کا خلاصہ اپنے استاد محترم کی رہنمائی میں ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:

’’قرآن دین کی پہلی نہیں، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘ کے صفحہ ۴۷ پر ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیرعنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔‘‘(ماہنامہ اشراق، مارچ۲۰۰۴،۱۱)

ہم یہ مانتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ فطرت انسانی اس قابل ہے کہ اس سے دین اسلام، احکام الٰہی، اوامرونواہی یا حلال وحرام کا تعین ہو سکتا ہے۔ اسلام کے دین فطرت ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے بندوں کو جس فعل کے بھی کرنے کا حکم دیا ہے فطرت سلیمہ اس فعل کے کرنے کی طرف ایک فطری رجحان اپنے اندر محسوس کرتی ہے اور جس فعل کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی ہمیں روک دیا ہے فطرت سلیمہ بھی اس فعل سے ابا محسوس کرتی ہے۔ احکام الٰہی فطرت انسانی کے مطابق تو ہیں، لیکن فطرت انسانی سے ان کا تعین نہیں ہوسکتا۔ یہی غلط فہمی جس میں آج غامدی صاحب مبتلا ہیں، ایک دور میں معتزلہ کو لگی۔ معتزلہ کا کہنا یہ تھا کہ عقل سے شریعت کا تعین ہوسکتا ہے۔ عقل جس چیز کو اچھا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز مستحسن ہے اور عقل جس کو برا سمجھے گی، شریعت کی نظر میں بھی وہ چیز بری ہے۔ معتزلہ نے جو مقام عقل انسانی کو دیا تھا، غامدی صاحب اسی درجے پر فطرت انسانی کو رکھتے ہیں۔ غامدی صاحب کے بقول اللہ کے احکامات، شریعت اسلامیہ، حلال وحرام اور اوامرونواہی کا تعین کرنے کے لیے، فطرت انسانی سب سے بڑا اور بنیادی ماخذ ہے۔ قرون اولیٰ میں امام ابوالحسن الاشعری اور امام ابو منصور ماتریدی نے معتزلہ کے اس موقف کا کہ عقل سے بھی اللہ کے حکم کو معلوم کیا جا سکتا ہے، سختی سے رد کیا اور اہل سنت کے موقف کو واضح کیا، جس کی تفصیلات اصول کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہماری اس کتاب کا اصل مقصد بھی غامدی صاحب کے افکار کی روشنی میں سامنے آنے والے اعتزال جدید کی کج فہمیوں کو اہل سنت کے اصولوں کی روشنی میں واضح کرنا ہے۔ اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنی اصل بحث کی طرف آتے ہیں۔

غامدی صاحب کا تصور فطرت

غامدی صاحب اپنی کتاب ’’میزان‘‘ کی فصل ’’ اصول و مبادی‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو جانور پیدا کیے ہیں، ان میں سے بعض کھانے کے ہیں اور بعض کھانے کے نہیں ہیں۔ یہ دوسری قسم کے جانور اگر کھائے جائیں تو اس کا اثر چونکہ انسان کے تزکیہ پر پڑتا ہے، اس لیے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے اور وہ بغیر کسی تردد کے فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے کیا کھانا چاہیے اور کیا نہیں کھاناچاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ شیر، چیتے، ہاتھی، چیل، کوے، گدھ، عقاب، سانپ ،بچھو اور خود انسان کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے دستر خوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ان جانوروں کے بول و براز کی نجاست سے بھی وہ پوری طرح واقف ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی۔ چنانچہ خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت و حرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہاعقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا ممکن نہ تھا۔ سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے، لیکن درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے، پھر اسے کیاکھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا؟ وہ جانور جنھیں ہم ذبح کر کے کھاتے ہیں اگر تزکیے کے بغیر مر جائیں تو ان کا کیا حکم ہونا چاہیے؟ انھی جانوروں کا خون کیا ان کے بول و براز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال و طیب قرار دیا جائے گا؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اورکے نام پر ذبح کردیے جائیں تو کیا پھربھی حلال ہی رہیں گے؟ ان سوالوں کا کوئی واضح اور قطعی جواب چونکہ انسان کے لیے دینا مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے بتایاکہ سؤر ،خون،مردار اور خدا کے سواکسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیزکرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ‘ اور بعض جگہ ’اِنَّمَا‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں... بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں ،چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، درآں حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیاجائے۔‘‘(۳۷ ۔۳۹)

اسی طرح غامدی صاحب ایک اور جگہ اپنی کتاب ’’میزان‘‘ (اصول ومبادی) میں لکھتے ہیں:

’’قرآن کی دعوت اس کے پیش نظرجن مقدمات سے شروع ہوتی ہے، وہ یہ ہیں:
۱۔دین فطرت کے حقائق،
۲۔سنت ابراہیمی،
۳۔ نبیوں کے صحائف۔
پہلی چیز کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف و منکر سے تعبیر کرتا ہے ۔یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جس سے فطرت ابا کرتی اور انھیں برا سمجھتی ہے۔قرآن ان کی کوئی جامع و مانع فہرست پیش نہیں کرتا، بلکہ اس حقیقت کو مان کرکہ انسان ابتدا ہی سے معروف و منکر، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے، اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ...(التوبہ۹: ۷۱)
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ یہ باہم دگر معروف کی نصیحت کرتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں۔‘‘
اس معاملے میں اگر کسی جگہ اختلاف ہوتو زمانۂ رسالت کے اہل عرب کا رجحان فیصلہ کن ہوگا۔‘‘(۴۸۔۴۹)

’’المورد‘‘ کے ریسرچ سکالرجناب منظور الحسن صاحب غامدی صاحب کے ماخذ دین کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’قرآن مجید دین کی آخری کتاب ہے۔ دین کی ابتدا اس کتاب سے نہیں، بلکہ ان بنیادی حقائق سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے روز اول سے انسانی فطرت میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ اس کے بعد وہ شرعی احکام ہیں جو وقتاً فوقتاً انبیا کی سنت کی حیثیت سے جاری ہوئے اور بالآخر سنت ابراہیمی کے عنوان سے بالکل متعین ہو گئے۔ پھر تورات، زبور اور انجیل کی سورت میںآسمانی کتابیں ہیں جن میں ضرورت کے لحاظ سے شریعت اور حکمت کے مختلف پہلووں کو نمایاں کیا گیاہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہے اور قرآن مجید نازل ہواہے۔ چنانچہ قرآن دین کی پہلی نہیں، بلکہ آخری کتاب ہے اور دین کے مصادر قرآن کے علاوہ فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی کی روایت اور قدیم صحائف بھی ہیں۔ اس موضوع پر مفصل بحث استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کی تالیف ’’میزان‘‘کے صفحہ۴۷پر ’’دین کی آخری کتاب‘‘ کے زیر عنوان ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ‘‘(ماہنامہ اشراق، مارچ ۲۰۰۴، ۱۱)

اپنے اس اصول کے تحت غامدی صاحب نے فنون لطیفہ (موسیقی، مصوری اور مجسمہ سازی وغیرہ) کو جائز قرار دیا۔ اسی طرح انھوں نے اپنے اسی اصول کو استعمال کرتے ہوئے تمام سمندری جانوروں کو حلال قرار دیا۔ تفصیلات کے لیے ’’المورد‘‘ کی سائٹ (urdu.understanding-islam.org) میں سوال وجواب ملاحظہ فرمائیں۔

غامدی صاحب کے اصول فطرت کی غلطی

غامدی صاحب کا مذکورہ بالا اصول فطرت غلط ہے اور اس کی غلطی کی درج ذیل وجوہات ہیں:

کیا شریعت نے صرف چار چیزوں کو حرام قرار دیا ہے؟

غامدی صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں سؤر، خون، مردار اور خدا کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کو حرام قرار دیا ہے۔ غامدی صاحب ’’میزان‘‘ (اصول ومبادی) میں لکھتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے اسے بتایا کہ سؤر، خون، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پرذبح کیے گئے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں اور انسان کو ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جانوروں کی حلت وحرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔ چنانچہ قرآن نے بعض جگہ ’قُل لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ‘ اور بعض جگہ ’اِنَّمَا‘ کے الفاظ میں پورے حصر کے ساتھ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی حلت وحرمت کے باب میں صرف یہی چار چیزیں حرام قرار دی ہیں۔‘‘(میزان، جاوید احمد غامدی۳۷۔۳۸)

غامدی صاحب نے اپنے ایک غلط اصول (کہ حدیث کے ذریعے سے قرآن پر اضافہ یا اس کا نسخ نہیں ہو سکتا) کو سیدھا کرنے کے لیے یہ سارا فلسفہ گھڑا۔ غامدی صاحب کے نزدیک گدھا حرام ہے، لیکن اس لیے نہیں کہ شریعت نے اسے حرام قرار دیا ہے، بلکہ ان کی فطرت انھیں یہ بتلاتی ہے کہ گدھا سواری کرنے کا جانور ہے نہ کہ کھانے کا، اس لیے یہ فطری محرمات میں سے ہے۔ غامدی صاحب ’’میزان‘‘ (اصول ومبادی) میں لکھتے ہیں:

’’وہ (یعنی انسان) جانتا ہے کہ گھوڑے، گدھے دسترخوان کی لذت کے لیے نہیں، سواری کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔‘‘ (میزان، جاوید احمد غامدی ۳۷)

غامدی صاحب کی فطرت کا اونٹ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وہ بھی تو سواری کا جانور ہے! امرواقعہ تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب میں سواری کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا جانور اونٹ تھا، اس کے بعد گھوڑا، جبکہ گدھے کا استعمال سواری کے لیے تو نہ ہونے کے برابر تھا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ غامدی صاحب کی فطرت گدھے کو حرام اور اونٹ کو حلال قرار دیتی ہے؟ اگر غامدی صاحب یہ کہتے ہیں کہ اونٹ کو قرآن نے حلال قرار دیا ہے تو پھر غامدی صاحب کے اس بیان کا کیا مطلب ہے کہ:

’’جانوروں کی حلت و حرمت میں شریعت کا موضوع اصلاً یہ چار ہی چیزیں ہیں۔‘‘(میزان، جاوید احمد غامدی۳۸)

فطری محرمات کا اصول وضع کر کے غامدی صاحب نے دین میں ایک نئے فتنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اوریہ فتنہ کس طرح آگے بڑھ رہا ہے، اس کا اندازہ ’’المورد‘‘ کے ایک ریسرچ سکالر امیر عبد الباسط صاحب کے شراب سے متعلقہ ایک سوال کے جواب سے ہوتا ہے:

’’اپنے پچھلے جواب میں ہم نے (شراب کے لیے) ناپسندیدہ کا لفظ حرمت کے مقابلے میں اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ اس سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ شراب پینا شرعی حرمتوں میں سے نہیں ہے، بلکہ وہ تو اس سے بھی زیادہ بنیادی یعنی فطری حرمتوں میں سے ہے .. .آپ (سائل) نے فرمایا کہ ہماری رائے نصوص شریعہ کے خلاف ہے۔ اگر آپ قرآن کی کوئی ایسی آیت پیش کر دیں جس میں اللہ تعالیٰ نے شراب کو واضح لفظوں میں حرام قرار دیا ہے تو ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ہر گز کوئی تامل نہیں ہو گا۔‘‘ (urdu.understanding-islam.org)

یہ فتاویٰ جات غامدی صاحب کی نگرانی میں قائم شدہ ’’المورد‘‘ کی سرکاری ویب سائٹ (urdu.under standing-islam.org) پر جاری کیے جا رہے ہیں۔ کیاشراب کی حرمت کے بارے میں قرآن کے چارمختلف انداز سے تاکیدی اور صریح بیانات ’رِجْسٌ‘ اور ’ مِنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ‘ اور ’فَاجْتَنِبُوْہُ‘ اور ’فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ‘ سے بھی اس کی شرعی حرمت ثابت نہیں ہوتی؟ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ۔

کیا فطرت انسانی سے حلال وحرام کا تعین ہوسکتا ہے؟

غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں حلال و حرام کے تعین میں فطرت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’خدا کی شریعت نے بھی ان جانوروں کی حلت وحرمت کو اپنا موضوع نہیں بنایا، بلکہ انسان کو اس کی فطرت ہی کی رہنمائی پر چھوڑ دیا ہے۔ اس باب میں شریعت کا موضوع صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات ہیں جن کی حلت و حرمت کا فیصلہ تنہا عقل وفطرت کی رہنمائی میں کر لینا ممکن نہ تھا۔‘‘ (میزان، جاوید احمد غامدی ۳۷)

غامدی صاحب کے نزدیک شریعت نے کھانے کے جانوروں میں صرف چار چیزوں کو حرام کیا ہے۔ اس کے علاوہ حرام جانوروں کے بارے میں ہم اپنی فطری رہنمائی کی روشنی میں ایک جامع فہرست تیار کر سکتے ہیں۔ ایک جگہ ’’میزان‘‘ (اصول ومبادی) میں لکھتے ہیں:

’’بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔ (میزان، جاوید احمد غامدی ۳۸)

ذرا غور کریں تو معلوم ہو گا کہ غامد ی صاحب کی یہ مذکورہ بالا عبارات کس قدر گمراہ کن افکار پر مشتمل ہیں۔ کسی چیز کو حلال وحرام ٹھہرانے کا اختیاراصلاً اللہ کے پاس اور تبعاً اس کے رسول کے پاس ہوتا ہے۔ غامدی صاحب کا عام انسانوں کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کرنا خدائی دعویٰ کرنے کے مترادف ہے۔ غامدی صاحب کو یہ اختیار کس نے دیاہے کہ وہ عام انسانوں کے بارے یہ کہیں کہ وہ اپنی فطرت سے جس کو چاہیں حلال بنا لیں اور جس کو چاہیں حرام ٹھہرا لیں؟ قرآن نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیا ہے کہ تحلیل و تحریم کا اختیار کسی انسان کے پاس نہیں ہے۔ مشرکین مکہ نے جب اپنی طرف سے بعض کھانے کی چیزوں کو حرام ٹھہرا لیا تو قرآن نے ان کے اس اقدام پر تنقید کی۔ سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَحَرَّمُوْا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افْتِرَاءً عَلَی اللّٰہِ قَدْ ضَلُّوْا وَمَا کَانُوْا مُہْتَدِیْنَ.(۶ :۱۴۰)
’’اور انھوں نے اللہ کے عطا کردہ رزق کو حرام ٹھہرا لیا، اللہ پر جھوٹ بولتے ہوئے۔ تحقیق وہ گمراہ ہوئے اور وہ ہدایت پانے والوں میں سے نہ تھے ۔‘‘

اگر شریعت نے بقول غامدی صاحب کھانے کے جانوروں میں صرف چار کو ہی حرام قرار دیا تھا اور باقی جانوروں کی حلت و حرمت کا فیصلہ انسانی فطرت پر چھوڑ دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کے اس فعل پر تنقید کیوں کی کہ انھوں نے اپنی مرضی سے بعض جانوروں کو حرام ٹھہرا لیا؟ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ ءٰٓ الذَّکَرَیْْنِ حَرَّمَ أَمِ الأُنْثَیَیْْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْْہِ أَرْحَامُ الأُنْثَیَیْْنِ.(الانعام۶ :۱۴۳)
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ سلم)ان سے کہہ دیں کیا اللہ تعالیٰ نے دونوں مذکر (نر) کو حرام کیا ہے یا دونوں مونث (مادہ) کویا اس کو جو دونوں مونث (مادہ) کے رحم میں ہو؟‘‘

یہ آیت بھی اس بات کی صریح دلیل ہے کہ تحلیل وتحریم کا اختیار اللہ کے پاس ہے نہ کہ انسانی فطرت کے پاس۔

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ ہَلُمَّ شُہَدَآءَ کُمُ الَّذِیْنَ یَشْہَدُوْنَ أَنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ ہٰذَا.(الانعام۶ :۱۵۰)
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) آپ ان سے کہہ دیں کہ تم اپنے گواہوں کو لے آؤ جو یہ گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حرام ٹھہرایاہے۔‘‘

اگر صرف فطرت سے محرمات کا تعین جائز ہوتا تو اللہ تعالیٰ مشرکین سے یہ مطالبہ نہ کرتا کہ ان جانوروں کی حرمت پراللہ کی نازل کردہ شریعت سے کوئی دلیل پیش کرو۔ ایک اور جگہ مشرکین مکہ سے خطاب ہے:

وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلاَلٌ وَّہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ.(النحل۱۶ :۱۱۶)
’’اور تم مت کہو جو کہ تمھاری زبانیں جھوٹ بکتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تا کہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکو۔‘‘

یہ آیت بھی اس مسئلے میں نص ہے کہ انسانی فطرت سے حلال و حرام کا تعین کرنا اللہ پر جھوٹ باندھنے کے مترادف ہے۔

کس کی فطرت کا اعتبار ہوگا؟

غامدی صاحب کے نزدیک کھانے کے جانوروں میں انسانی فطرت سے حلال وحرام کا تعین ہوگا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ اختلاف فطرت کی صورت میں کس کی فطرت معتبر ہوگی؟ مثلاً غامدی صاحب نے موسیقی کو مباحات فطرت میں شامل کیا ہے جبکہ علما اس کو محرمات میں شمار کرتے ہیں۔ اب کس کی فطرت کو لیں گے اور کس کی فطرت کو چھوڑیں گے؟ غامدی صاحب اس مسئلے کا حل تجویز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کسی کھانے کے جانور کے بارے میں انسانی فطرت کی آرا مختلف ہو جائیں تو جمہور کی رائے پر عمل کیا جائے گا۔ غامدی صاحب ’’میزان‘‘ (اصول و مبادی) میں لکھتے ہیں:

’’اس میں شبہ نہیں کہ اس کی یہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان کی ایک بڑی تعداد اس معاملے میں عموماً غلطی نہیں کرتی۔‘‘ (میزان، جاوید احمد غامدی ۳۷)

غامدی صاحب کے اس سنہری اصول کی روشنی میں دنیا کے انسانوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے سؤر تک کو اپنی فطرت سے حلال کر رکھا ہے۔ اور کچھ بعید نہیں کہ مستقبل قریب میں ’’المورد‘‘ کا کوئی ریسرچ اسکالر یہ تحقیق پیش کر دے کہ قرآن نے جس سؤر کو حرام قرار دیا ہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کا سؤر ہے، رہا آج کا سؤر جس کی مغرب میں باقاعدہ فارمنگ کی جاتی ہے، وہ فطرتاً حلال ہے۔ اہل مغرب کو تو چھوڑیے، مسلمانوں کو دیکھ لیں، ان کی اکثریت کے ہاں حلال وحرام کا کیا معیار ہے جسے غامدی صاحب اپنے اصول فطرت میں اختلاف کی صورت میں بطوردلیل پیش کر رہے ہیں؟

غامدی صاحب نے انسان کو شارع بنادیا

غامدی صاحب نے انسانی فطرت کو تحلیل و تحریم کا اختیار تفویض کر کے اس کو شارع بنا دیا ہے اور اللہ کے بالمقابل لا کھڑا کیا ہے۔ اگر انسان کی فطرت کے پاس کسی چیز کو حلال یا حرام ٹھہرانے کا اختیار ہے تو انسان بھی شارع ہے۔ اور انسان کو شارع بنانا اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنے کے مترادف ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰہُ مَآ أَشْرَکْنَا وَلاَ اٰبَآؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِنْ شَیْْءٍ. (الانعام۶ :۱۴۸)
’’عنقریب وہ لوگ کہیں گے جنھوں نے شرک کیا، اگراللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا شرک نہ کرتے اور نہ ہی ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔‘‘

نفی کے سیاق میں اگرنکرہ آئے تو وہ عبارت اپنے عموم میں نص بن جاتی ہے۔ لہٰذا مذکورہ بالا آیت بھی اپنے عموم میں نص ہے، یعنی کسی چیز کو بھی حرام قرار دینے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ہے۔ ایک آیت میں اس سے بھی زیادہ صراحت سے ’مِنْ دُوْنِہٖ ‘کے الفاظ کے ساتھ اس مفہوم کو بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَقَالَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْْءٍ نَّحْنُ وَلآ اٰبَاآُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْْءٍ.(النحل۱۶ :۳۵)
’’اور کہاان لوگوں نے جنھوں نے شرک کیا اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادا اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرتے اور ہم اس کے بغیر کسی چیز کو بھی حرام نہ ٹھہراتے۔‘‘

یہ آیات اس مسئلے میں صریح نص کا درجہ رکھتی ہیں کہ شارع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور کوئی چیز اس وقت حلال ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حلال قرار دے اور اس وقت حرام ہو گی جبکہ اللہ تعالیٰ اس کو حرام قرار دے اور انسان کے پاس کسی بھی چیز کو حرام قرار دینے کا اختیار نہیں ہے ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تحلیل وتحریم

غامدی صاحب نے ہر انسان کو تو یہ حق دے دیا کہ اپنی فطرت سے حلال وحرام کی فہرست تیار کرے، لیکن وہ اللہ کے رسول کے پاس یہ اختیار ماننے سے انکاری ہیں۔ غامدی صاحب ’’اصول ومبادی‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں اور پالتو گدھے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ اوپر کی بحث سے واضح ہے کہ یہ اسی فطرت کا بیان ہے جس کا علم انسان کے اندر ودیعت کیا گیا ہے۔ ہم اگر چاہیں تو ممنوعات کی اس فہرست میں بہت سی دوسری چیزیں بھی اس علم کی روشنی میں شامل کر سکتے ہیں۔ لوگوں کی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے اسے بیان فطرت کے بجائے بیان شریعت سمجھا، دراں حالیکہ شریعت کی ان حرمتوں سے جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں، اس کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے کہ اس کی بنیاد پر حدیث سے قرآن کے نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی کا کوئی مسئلہ پیدا کیا جائے۔‘‘(میزان، جاویداحمد غامدی ۳۸۔۳۹)

غامدی صاحب اپنی فطرت کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ قرآنی محرمات (اربعہ) کی فہرست میں جتنا چاہے، اضافہ کر لے۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان کا یہ خیال ہے کہ آپ کے کسی فرمان سے ان چار قرآنی محرمات کی فہرست میں اضافہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس سے قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم آتی ہے، جو کہ جائز نہیں ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی محرمات میں جو اضافہ کر رہے ہیں تو اس سے کیا قرآن کا نسخ یا اس کے مدعا میں تبدیلی لازم نہیں آتی؟ غامدی صاحب اپنی فطرت سے قرآنی حکم کے نسخ، اس میں اضافے اور اس کے مدعا میں تبدیلی کے قائل ہیں، لیکن احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مقام دینے کو تیار نہیں، کیوں؟ کیا انسانی فطرت کا رتبہ معاذ اللہ، نبوت و رسالت سے بڑھ کر ہے؟

مقدم کون، نورفطرت یا نور وحی؟

غامدی صاحب کے نزدیک انسانی ہدایت و رہنمائی کے دو بڑے ذریعے ہیں، ایک انسانی فطرت اور دوسرا وحی۔ لیکن ان میں بھی غامدی صاحب فطرت کی رہنمائی کو وحی کی رہنمائی پر مقدم رکھتے ہیں۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’دین کی تاریخ یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھیجا تو اس (یعنی دین) کے بنیادی حقائق ابتدا ہی سے اس کی فطرت میں ودیعت کر دیے، پھر اس کے ابو الآبا حضرت آدم کی وساطت سے اسے بتا دیا گیاکہ... اس کی ضرورتوں کے پیش نظر اس کا خالق وقتاً فوقتاً اپنی ہدایت اسے بھیجتارہے گا... چنانچہ پروردگار نے اپنا یہ وعدہ پورا کیااور انسانوں ہی سے کچھ ہستیوں کو منتخب کر کے ان کے ذریعے سے اپنی یہ ہدایت بنی آدم کو پہنچائی، اس میں حکمت (یعنی ایمانیات اور اخلاقیات) بھی تھی اور شریعت بھی۔‘‘ (میزان، جاویداحمدغامدی۴۷)

غامدی صاحب کا یہ نقطۂ نظر قرآنی آیات کے مخالف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب سے آدم کو اس دنیا میں بھیجا ہے اس دن سے ہی اس کی رہنمائی کے لیے وحی کا سلسلہ جاری فرما دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْنَا اہْبِطُوْا مِنْہَا جَمِیْعًا فاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنْ تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِآیَاتِنَا اُولٰءِکَ اَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُوْنَ.(البقرہ۲ :۳۸۔۳۹)
’’ہم نے کہا: تم سب (یعنی آدم اور ان کی ہونے والی ذریت) اس جنت سے اُتر جاؤ، پس اگر تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو اس پر نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا اور میری آیات کوجھٹلایا وہ لوگ آگ والے ہیں اوروہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔ ‘‘

ایک اور جگہ ارشاد ہے:

قَالَ اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیْعًا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ہُدًی فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی.(طٰہٰ۲۰ :۱۲۳)
’’فرمایا (اللہ تعالیٰ نے) کہ تم دونوں (یعنی سب) اس جنت سے اترو، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ پس اگر تمھارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت آئے تو جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو نہ تو وہ (دنیا میں) گمراہ ہوگا اور نہ ہی (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔‘‘

اس انتہائی اہم موقع پر جبکہ حضرت آدم کو اور ان کی آنے والی ذریت کوجنت سے اتار کر اس دنیامیں بھیجا جا رہا ہے تو اس وقت انھیں صرف ایک ہی چیز کی پیروی کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے اور وہ اللہ کی بھیجی ہوئی ہدایت ہے۔ اور دونوں جگہ قرآن کے الفاظ ’مِنِّیْ ھُدًی‘ اور اس کا سیاق وسباق بتلاتا ہے کہ اس ہدایت سے مراد کوئی فطری ہدایت نہیں، بلکہ اللہ کی آیات اور اس کی طرف سے نازل کردہ وحی کی رہنمائی مراد ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ پہلے ہی دن سے اس دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے حضرت آدم اور ان کی آنے والی ذریت کو جو رہنمائی دی جا رہی ہے وہ وحی کی رہنمائی ہے اور جس نے بھی اللہ کی دی ہو ئی ا س وحی کی رہنمائی سے استفادہ کرنے سے انکار کیا تو وہی لوگ اللہ کے عذاب کے مستحق ہیں۔

فطرت انسانی سے معروف ومنکر کا تعین

غامدی صاحب کے نزدیک امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ’معروف ‘ اور ’منکر ‘ کا تعین شریعت نہیں، بلکہ فطرت انسانی کرے گی۔ غامدی صاحب لکھتے ہیں:

’’پہلی چیز کو وہ اپنی اصطلاح میں معروف ومنکر سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی وہ باتیں جو انسانی فطرت میں خیرکی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں اور وہ جس سے فطرت ابا کرتی اور انھیں برا سمجھتی ہے۔ قرآن ان کی کوئی جامع ومانع فہرست پیش نہیں کرتا، بلکہ اس حقیقت کو مان کر کہ انسان ابتدا ہی سے معروف ومنکر، دونوں کو پورے شعور کے ساتھ بالکل الگ الگ پہچانتا ہے، اس سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ معروف کو اپنائے اور منکر کو چھوڑ دے۔‘‘(میزان، جاوید احمد غامدی ۴۸ ۔ ۴۹)

اگر معروف ومنکر شریعت کا موضوع نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ. (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب کون النہی عن المنکر من الایمان)
’’جو بھی تم میں سے کسی منکر کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے تبدیل کر دے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا تو اپنے دل سے۔‘‘

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منکر کو ہاتھ سے روکنے کا حکم دے رہے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے منکرات کا تعین کر دیا ہے۔ اگرغامدی صاحب کا یہ نظریہ مان لیا جائے کہ معروف اور منکر کا تعین فطرت انسانی سے ہوگا تو شریعت اسلامیہ ایک کھیل تماشا بن جائے گی۔ ایک شخص کے نزدیک ایک فعل معروف ہو گا جبکہ دوسرے کے نزدیک وہی فعل منکر ہوگا۔ مثلاً غامدی صاحب کے نزدیک موسیقی معروف کے تحت آئے گی۔ اب غامدی صاحب کوقرآ ن کا یہ حکم ہے کہ وہ امر بالمعرو ف کا فریضہ سر انجام دیں یعنی لو گوں کوموسیقی سننے کا حکم دیں جبکہ علما موسیقی کو منکرات میں شامل کرتے ہیں اور علما کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ وہ منکرات کو بزور بازو روکیں، یعنی غامدی صاحب کو موسیقی کے جواز کا فتویٰ دینے سے بزور بازو روکیں۔

امام رازی، امام ابوبکرجصاص، علامہ سید آلوسی، علامہ ابن حجر ہیثمی، علامہ مناوی، ملا علی القاری، علامہ ابو حیان الاندلسی، امام طبری، امام ابن تیمیہ، امام شوکانی، علامہ ابن الاثیر الجزری، علامہ صاوی اور علامہ عبد القادر عودہ نے واضح اور صریح الفاظ میں اپنے اس موقف کو بیان کیا ہے کہ معروف و منکر کا تعین شریعت سے ہو گا۔ ان علما وائمہ کی آرا کا تفصیل سے مطالعہ کرنے کے لیے سید جلال الدین عمری کی کتاب ’معروف و منکر‘کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (معروف و منکر، سید جلال الدین عمری ۹۸ ۔ ۱۱۳ )

کیا فطرت انسانی ما خذ شریعت ہے؟

غامدی صاحب عالم اسلام کے وہ پہلے نامور اسکالرہیں جنھوں نے فطرت انسانی کو مصادر شریعت میں شمار کیا اور اسے حلال و حرام کی تمیز میں میزان قرار دیا۔ امام شافعی سے لے کر امام شوکانی تک کسی بھی اصولی (اصول فقہ کے ماہرین) نے اپنی کتاب میں مصادر شریعت کی بحث میں ’فطرت انسانی ‘کا تذکرہ نہیں کیا۔ علما اور فقہا نے ہر دور میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس وغیرہ جیسے ماخذ شریعت کے ذریعے سے شرعی احکام تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور کسی بھی فقیہ یا عالم نے امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ میں ’ فطرت انسانی‘ کو کبھی بھی استنباط احکام کے لیے بطور اصول یا ماخذشریعت بیان نہیں کیا۔ محسوس یہی ہوتا ہے کہ غامدی صاحب نئی فقہ کے ساتھ ساتھ نئی اصول فقہ بھی مرتب کرنے کا شوق پورا فرما رہے ہیں۔ غامدی صاحب اپنا یہ شوق ضرور پورا فرمائیں، لیکن علم وتحقیق کی روشنی میں۔ غامدی صاحب نے ’فطرت انسانی‘ کو مصدر شریعت تو بنا دیا، لیکن اس کی ان کے پاس دلیل کیا ہے کہ ’فطرت انسانی‘مصدر شریعت ہے؟ بلکہ دلیل تو غامدی صاحب کے خلاف قائم ہو رہی ہے۔ عام انسان تو کجا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ اللہ کی مرضی کے بغیر اپنی فطرت سے کسی چیز کو حرام قرار دیتے۔ آپ کھانے کی بعض اشیا کو فطرتاً ناپسند کرتے تھے اور انھیں کھانے سے اجتناب کرتے تھے، لیکن آپ نے ان کو حرام قرار نہیں دیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے:

اُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ مَشْوِیٍّ فَأَہْوٰی اِلَیْہِ لِیَأْکُلَ فَقِیْلَ لَہٗ اِنَّہٗ ضَبٌّ فَأَمْسَکَ یَدَہٗ فَقَالَ خَالِدٌ اَحَرَامٌ ہُوَ قَالَ لَا وَلٰکِنَّہٗ لَا یَکُوْنُ بِأَرْضِ قَوْمِیْ فَأَجِدُنِیْ أُعَافَہٗ فَأَکَلَ خَالِدٌ وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَنْظُرُ.(صحیح البخاری، کتاب الأطعمہ، باب الشواء)
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بھنی ہوئی گوہ لائی گئی۔ آپ اس کو کھانے کے لیے جھکے تو آپ سے کہا گیا کہ یہ گوہ ہے۔ پس آپ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ حضرت خالد بن ولید نے سوال کیا کہ کیا یہ حرام ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: ’’نہیں، لیکن چونکہ یہ جانور میری قوم کی سرزمین (یعنی مکہ) میں نہیں پایا جاتا، اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔‘‘ پس حضرت خالد نے اس کو کھایا اور آپ حضرت خالد کو دیکھ رہے تھے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عباس کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:

اَہْدَتْ خَالَۃُ ابْنِ عَبَّاسٍ اِلَی النَّبِّی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقِطًا وَسَمْنًا وَأَضُبًّا فَاَکَلَ الَّنَّبِّیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْاَقِطِ وَالسَّمْنِ وَتَرَکَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَأُکِلَ عَلٰی مَاءِدَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَوْ کَانَ حَرَامًا مَا أُکِلَ عَلٰی مَاءِدَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ. (صحیح البخاری، کتاب الہبہ و فضلاہا، باب قبول الہدیہ)
’’حضرت عبداللہ بن عباس کی خالہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کچھ پنیر، گھی اور گوہ ہدیہ کے طور پر بھیجے۔ پس آپ نے پنیر اور گھی کھا لیا اور گوہ سے کراہت کرتے ہوئے اسے چھوڑ دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ گوہ آپ کے دسترخوان پر کھائی گئی، اگر وہ حرام ہوتی تو آپ کے دسترخوان پر نہ کھائی جاتی۔‘‘

مذکورہ بالا روایات سے درج ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:

۱۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گوہ کے گوشت کو ناپسند فرمایا۔

۲۔آپ کے سامنے گوہ کا گوشت کھایا گیا اور آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔

۳۔کھانے کے ایک جانور سے آپ کی فطرت ابا کر رہی تھی، لیکن آپ نے اسے اپنی فطری ناپسندیدگی کی وجہ سے حرام قرار نہیں دیا۔

۴۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے (یعنی وحی کے بغیر) کسی چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتے۔

۵۔فطرت انسانی اگر ایک چیز سے ابا کرتی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حرام ہے، جیسا کہ غامدی صاحب کہتے ہیں۔

۶۔تحلیل وتحریم کی اصل بنیاد وحی ہے نہ کہ فطرت انسانی۔

غامدی صاحب کے اصول فطرت کی دلیل کا تجزیہ

غامدی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی میں اپنے ایک لیکچر کے دوران میں اپنے تصور فطرت کے حق میں جو دلیل بیان کی ہے۔ وہ سورۃ الشمس کی درج ذیل آیات ہیں:

وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاہَا فَأَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوَاہَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاہَا.(۹۱ :۷۔۱۰)

غامدی صاحب اس آیت کا یہ مفہوم بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کا علم رکھ دیا ہے۔ لیکن یہ مفہوم بوجوہ غلط ہے:

۱۔ یہ مفہوم قرآن کی واضح نص کے خلاف ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَاللّٰہُ أَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ شَیْْءًا.(النحل۱۶ :۷۸)
’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے۔‘‘

اسی لیے امام ابن قیم لکھتے ہیں:

لیس المراد بقولہ ’یولد علی الفطرۃ‘ أنہ خرج من بطن أمہ بعلم الدین لأن اللّٰہ تعالیٰ یقول واللّٰہُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْءًا ولکن المراد أن فطرتہ مقتضیۃ معرفۃ دین الاسلام و محبتہ. (صحیح البخاری مع فتح الباری، کتاب اللباس، باب قص الشارب)
’’’یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ‘ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے دین کا علم لے کر آیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا، اس حال میں کہ تم کچھ بھی نہ جانتے تھے ‘‘بلکہ حدیث سے مراد یہ ہے کہ انسان کی فطرت دین اسلام کی معرفت اور اس کی محبت کا تقاضا کرتی ہے۔‘‘

۲۔ یہ مفہوم حدیث کے خلاف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

اَللّٰھُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَزَکِّھَا اَنْتَ خَیْرٌ مَنْ زَکَّاھَا.(صحیح مسلم، کتاب الذکر و الدعاء، باب التعوذ من شر ما عمل)
’’اے اللہ تعالیٰ، تو میرے نفس کو اس کا تقویٰ (یعنی تقویٰ کی رہنمائی) عنایت فرما دے اور اس کو پاک کر دے، بے شک تو پاک کرنے والوں میں بہترین پاک کرنے والاہے۔‘‘

اگر ’فجور‘ اور ’تقویٰ ‘ انسانی فطرت میں داخل ہیں تو اللہ تعالیٰ سے اس تقویٰ کو مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا اس آیت کے مفہوم کو واضح کر رہی ہے کہ اس آیت میں ’تَقْوٰی‘ سے مراد اس (تقویٰ) کی رہنمائی اور ’فجور‘ سے مراد اس (فجور)کی پہچان ہے ۔

۳۔ یہ مفہوم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

قولہ: فاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا یقول: بین الخیر و الشر.
’’ابن عباس ’ فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے خیر اور شر کو واضح کر دیا ہے۔‘‘

۴۔ یہ مفہوم جلیل القدر تابعین اور تبع تابعین کی تفسیر کے خلاف ہے۔ امام طبری اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں تابعین وتبع تابعین کے اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عن مجاہد: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا قال: عرفہا.
’’حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ ’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو گناہ اور تقویٰ بتلادیا ہے۔‘‘
عن قتادۃ: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا فبین لہا فجورہا.
’’حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ ’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے تقویٰ اور فجور کو واضح کر دیا ہے۔‘‘
الضحاک یقول فی قولہ تعالیٰ فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا بین لہا الطاعۃ والمعصیۃ.
’’حضرت ضحاک فرماتے ہیں کہ ’فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا‘ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے اطاعت اور معصیت کو واضح کر دیا۔‘‘
عن سفیان فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا قال اعلمہا المعصیۃ والطاعۃ.
’’حضرت سفیان سے روایت ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اطاعت اور معصیت کے بارے میں بتلایا۔‘‘

جلیل القدر مفسرین امام طبری، امام قرطبی، امام بیضاوی، امام سیوطی، علامہ زمخشری، امام نسفی، امام شوکانی، امام ابن کثیر اور علامہ ابن عطیہ نے بھی اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے جو کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے حوالے سے اوپر بیان ہو چکا ہے۔

غامدی صاحب کا اپنے اصول فطرت سے انحراف

جس طرح غامدی صاحب کا اصول فطرت غلط ہے، اسی طرح بعض مقامات پر اس اصول کی تطبیق میں انھوں نے اپنے ہی وضع کردہ اس اصول سے انحراف بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک کو ہم قارئین کے لیے بطورمثال بیان کیے دیتے ہیں۔

مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں ڈاڑھی بھی شامل ہے۔ کسی چیز کی فطرت سے مراد اس کی وہ اصل تخلیق ہے جس پر اس کو پید اکیا گیا ہے۔ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جس حالت پر پید اکیا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ ان کے چہرے پر ڈاڑھی کے بال ہوتے ہیں جبکہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں یہ ہے کہ ان کے چہرے پر بال نہیں ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں کی تخلیق میں یہ فطری فرق رکھا ہے۔ ڈاڑھی غامدی صاحب کے اصول فطرت سے ثابت ہے۔ لیکن غامدی صاحب نے اپنی ہی فطرت اور اپنے ہی اصول فطرت، دونوں کی مخالفت اختیار کرتے ہوئے ڈاڑھی کو دین سے خارج قرار دیا۔ ڈاڑھی انسانی فطرت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَۃِ: قَصُّ الشَّارِبِ وَاِعْفَاءُ اللِّحْیَۃِ وَالسِّوَاکُ وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ وَقَصُّ الْاَظْفَارِ وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ وَنَتْفُ الْاِبِطِ وَحَلْقُ الْعَانَۃِ وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ قَالَ زَکَرِیَّا قَالَ مُصْعَبٌ وَنَسِیْتُ الْعَاشِرَۃَ اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ الْمَضْمَضَۃَ.(صحیح مسلم،کتاب الطہارۃ،با ب خصال الفطرۃ )
’’دس چیزیں فطرت میں سے ہیں: مونچھوں کو کاٹنا، ڈاڑھی کو چھوڑنا، مسواک کرنا، ناک میں پانی چڑھانا، ناخنوں کو کاٹنا، انگلیوں کے جوڑوں کا خلال کرنا، بغل کے بال اکھیڑنا، زیر ناف کے بال مونڈنا اور استنجا کرنا۔ زکریا نے کہا کہ مصعب نے کہا کہ میں دسویں چیز بھول گیا اور میرا خیال ہے کہ وہ کلی کرنا ہے۔‘‘

اس حدیث میں ڈاڑھی رکھنے کو فطرت قرار دیا گیا ہے۔تمام انبیا کی ڈاڑھی تھی، اس لحاظ سے ڈاڑھی انسانی فطرت ہونے کے ساتھ ساتھ تمام انبیا کی سنت بھی ہے۔ ابن حجر فطرت کی تشریح میں امام بیضاوی کا قول نقل کرتے ہیں:

قال ھی السنۃ القدیمۃ التی اختارھا الأنبیاء واتفقت علیھا الشرائع وکأنھا أمر جبلی فطروا علیھا.(صحیح البخاری مع فتح الباری، کتاب اللباس، باب قص الشارب)
’’امام بیضاوی کہتے ہیں کہ فطرت سے مراد وہ سنت قدیمہ ہے جسے تمام انبیا نے اختیار کیا ہے اور جس پر تمام شریعتوں کا اتفاق ہو گویا کہ فطرت ایک ایسا جبلی معاملہ ہے جس پر انسانوں کی پیدایش ہوئی ہے۔‘‘

ڈاڑھی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ’’المورد‘‘ کے ایک ریسرچ اسکالر لکھتے ہیں:

’’عام طور پر اہل علم ڈاڑھی رکھنا ضروری قرار دیتے ہیں، تاہم ہمارے نزدیک ڈاڑھی رکھنے کا حکم دین میں کہیں بیان نہیں ہوا۔ لہٰذا دین کی رو سے ڈاڑھی رکھنا ضروری نہیں ہے۔ البتہ اس معاملے میں اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے برعکس مردوں کے چہرے پر بال اگائے ہیں اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ڈاڑھی رکھنا اپنے لیے پسند کیا۔‘‘(www.urdu.understanding-islam.org)

  یہ عبارت اس لحاظ سے قابل غور ہے کہ ایک طرف تو اس میں کس ڈھٹائی کے ساتھ اس بات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ڈاڑھی رکھنے کاحکم دین میں کہیں بھی بیان نہیں ہوا، حالانکہ بیسیوں احادیث ایسی ہیں جن میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین، یہود اور مجوسیوں کی مخالفت میں مسلمانوں کو ڈاڑھی چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ کیا حدیث دین نہیں ہے؟ اگر غامدی صاحب ڈاڑھی کی احادیث کو اس بنا پر رد کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک حدیث سے دین ثابت نہیں ہوتا تو ڈاڑھی تو ان کے اصول سنت سے بھی ثابت ہے اورا صول فطرت سے بھی۔ دوسری طرف ’’المورد‘‘ کے مفتی صاحب اس بات کا بھی اقرار کر رہے ہیں کہ مردوں اور عورتوں میں ایک بنیادی فرق ڈاڑھی کا بھی ہے جو کہ پیدایشی اور فطری فرق ہے۔ تعجب ہے اس انداز فکر پر! جب چاہتے ہیں اپنے مزعومہ افکار کی تائید کے لیے اصول وضع کر لیتے ہیں اور اپنی خواہش نفس کی تکمیل کے لیے جب چاہتے ہیں اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کی بھی مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ 

____________

B