بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَاْکُلُوا الرِّبٰٓو اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ{۱۳۰} وَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْٓ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ{۱۳۱} وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ، لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ{۱۳۲} وَسَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ، وَجَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ، اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ{۱۳۳} الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ، وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ، وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ، وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ{۱۳۴} وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً، اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ، ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِہِمْ، وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ، وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا، وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ{۱۳۵} اُوْلٰٓـئِکَ جَزَآؤُہُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ، وَجَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ، خٰلِدِیْنَ فِیْہَا، وَنِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ{۱۳۶}
ایمان والو، (آگے بھی خدا کی مدد چاہتے ہو تو) یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو ۱۹۹ اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم فلاح پاؤ اور اُس آگ سے بچو جو منکروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور اللہ ورسول کے فرماں بردار رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے، ۲۰۰ اور اپنے پروردگار کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھو جس کی وسعت زمین وآسمان جیسی ہے، اُن پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے جو ہر حال میں خرچ کرتے ہیں، ۲۰۱ خواہ تنگی ہو یا کشادگی، اور (جن پر خرچ کرتے ہیں، اُن کی طرف سے زیادتی بھی ہوتو) غصے کو دبا لیتے اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں ۲۰۲ ـــ(یہی خوب کار ہیں) اور اللہ اِن خوب کاروں کو دوست رکھتا ہے ـــ اور جن کا معاملہ یہ ہے کہ جب کوئی بدکاری اِن سے ہو جاتی ہے یا اپنے حق میں کوئی برا کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ـــ اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخش دے ـــاور جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ۲۰۳ یہی ہیں کہ جن کا صلہ اُن کے پروردگار کی مغفرت ہے اور وہ باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور کیا ہی اچھا صلہ ہے یہ نیک عمل کرنے والوں کے لیے۔۱۳۰۔۱۳۶
۱۹۹؎ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ ممنوع صرف سود درسود ہے، بلکہ صورت حال کی تصویر اور اس کے نفرت انگیز ہونے کو ظاہر کرنے کے لیے یہ اسلوب اختیار کیاگیاہے۔ سورۂ بقرہ (۲)کی آیت ۲۷۳ ’لا یسئلون الناس الحافاً‘ میں بھی یہی اسلوب ہے۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’...اصل مقصود سوال کرنے کی نفی ہے، ’الحافاً‘ کی قید اس کے ساتھ صرف سوال کرنے والوں کی عام حالت کی تصویر اور اس کے گھنونے پن کے اظہار کے لیے لگائی ہے۔ مثلاً فرمایا ہے کہ ’لاَ تَقْتُلُوْآ اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ‘* (اپنی اولاد کو فقر کے اندیشے سے قتل نہ کرو)۔ اس میں ممانعت درحقیقت قتل کی ہے، ’خشیۃ املاق‘کی قید محض اس کے گھنونے پن کو واضح تر کرنے کے لیے ہے۔ یا فرمایا ہے کہ ’لاَ تَاْکُلُوا الرِّبٰٓو اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً ‘ (اور سود نہ کھاؤ دوگنا چوگنا کر کے)۔ اس میں ممانعت دراصل سود کھانے کی ہے۔ ’اضعافاً مضاعفۃ‘ کی قید محض اس کی کراہت کو نمایاں کرنے کے لیے ہے۔ یا فرمایا ہے: ’لَا تُکْرِہُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّناً‘* (اور اپنی لونڈیوں کو بد کاری پر مجبور نہ کرو، اگر وہ قید نکاح میں آنا چاہتی ہیں)۔ اس میں بھی مقصود مطلق اکراہ کی ممانعت ہے، ’ان اردن تحصناً‘ کی قید محض اس کے گھنونے پن کے اظہار کے لیے ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۶۲۴)
پھر یہاں چونکہ انفاق میں سبقت کی دعوت دی گئی ہے، اس لیے یہ واضح کرنا بھی پیش نظر ہے کہ مسابقت کا میدان اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کی جنت ہے نہ کہ سود کی زیادہ سے زیادہ مقدار جس کو سمیٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے دنیا کے یہ طلب گار سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں۔
۲۰۰؎ اس سے معلوم ہوا کہ اس تنبیہ کے بعدبھی جو لوگ سود کھانے پر مصر رہیں گے، وہ منکر ہیں اور ان کا انجام وہی ہو گا جو قرآن میں منکروں کے لیے بیان ہوا ہے۔
۲۰۱؎ یعنی اس وسعت کے باوجود انسان اگر چاہے تو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس جنت کو خرید سکتا ہے جس کی یہ تمثیل بھی کہ وہ زمین و آسمان جیسی ہے، بہرحال ایک تمثیل ہی ہے۔
۲۰۲؎ یہ اس لیے فرمایا ہے کہ اکثر مال داروں کے پاس مال تو ہوتا ہے، لیکن اس کی نسبت سے ظرف نہیں ہوتا، لہٰذاوہ سائلوں کے غلط رویے پر ان کو جھڑک کر یا ان پر غصے کا اظہار کر کے اپنے انفاق سے ثواب کمانے کے بجائے الٹا گناہ کمالیتے ہیں۔
۲۰۳؎ یہ انفاق کے راستے کی ایک نہایت اہم مزاحمت کا بیان ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...جس طرح سود خوری کی علت روپے کی ایسی تونس پیدا کر دیتی ہے کہ آدمی کے لیے کسی اچھے کام میں خرچ کرنا پہاڑ ہو جاتاہے ، اسی طرح بدکاری اور عیاشی کی چاٹ بھی کسی نیکی کے کام میں خرچ کرنے کی راہ بند کر دیتی ہے۔ جو لوگ اس راہ پر چل پڑتے ہیں، وہ اپنی خواہشوں کے ہاتھوں اس طرح بے بس ہو جاتے ہیں کہ ان کو کسی اور طرف نگاہ کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ اس وجہ سے قرآن نے انفاق کی تعلیم کے سلسلے میں جہاں سود خوری سے روکا ہے، وہیں بدکاری وبے حیائی اور اس کے لازمی نتیجہ اسراف و تبذیر سے بھی روکا ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۱۷۹)
[ باقی]
ـــــــــــــــــــ
* بنی اسرائیل ۱۷: ۳۱
* النور ۲۴: ۳۳۔