HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ریحان احمد یوسفی

زلزلہ محض اتفاقی حادثہ یا اللہ تعالیٰ کی جانب سے انتباہ

زلزلے اور اس طرح کے دیگر حوادث کے دیکھنے کا ایک انداز تو یہ ہے کہ انسان اس خدا سے بے زار اور اس کا منکر ہو جائے جو اپنی مخلوق پر اتنی شدید تباہیاں بھیجتا ہے یا پھر اس کی صفات عدل و رحمت کی طرف سے شک و شبہے میں مبتلا ہو جائے۔ اس لیے کہ جو خدا بلاتفریقنیک و بد، اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکت کا بازار گرم کر دے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس کے بعد ایک حساس انسان کے لیے بہتمشکل ہو جاتا ہے کہ وہ ایسے خدا سے کوئی حسن ظن رکھ سکے (نعوذ باللہ)۔ مذکورہ معاملے کو ہم اگر اسلام کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب کی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے، تو لامحالہ ہم درج بالا نتائج تک ہی پہنچیں گے۔ تاہم اسلام ہمیں خدا کی صفات کا ایک ایسا تصور دیتا ہے جو ہمیں ہر معاملے کو درست انداز سے دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ پیش نظر مضمون کا مقصد یہی ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں زلزلے کے مظہر پر غور کیا جائے۔

قرآن کے مطابق اگرچہ خدا کا حقیقی تعارف یہی ہے کہ وہ ایک رحیم و کریم ہستی ہے، لیکن اس کی ذات کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ حکیم بھی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ ہرحکیم بہت سے ایسے کام بھی کر جاتا ہے جو سرسری نگاہوں سے عبث، بلکہ نامناسب لگتے ہیں اور اپنے اندر کئی نقصان دہ پہلو لیے ہوئے نظر آتے ہیں، لیکن غور کرنے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ کام سرتاپا خیر ہی ہوتا ہے۔ اللہ جو سب سے بڑا حکیم ہے، جب اس کی کریم ذات کی طرف سے زلزلے جیسی ہول ناک مصیبت کا ظہور ہوتا ہے تو اسے خدا کی صفت حکمت کے تحت ہی دیکھنا چاہیے۔ اس پس منظر میں جب ہم غور کرتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ زلزلہ بھی دراصل اللہ کی اس رحمت کا ہی اظہار ہے جس کے تحت اس نے اپنے رسولوں کو اس دنیا میں بھیجا۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے بارے میں خدا کے تخلیقی منصوبے کو پیش نظر رکھا جائے۔ قرآن کے مطابق اللہ نے انسان کو اس دنیا میں عارضی طو رپر آزمایش کے لیے پیدا کیا ہے۔ جب انسان کی موت آتی ہے تو وہ اس کی زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا، بلکہ دراصل وہ اس کی آزمایش کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس آزمایش کے دوران میں انسان کو فکر و عمل کی مکمل آزادی دی گئی ہے اور اس دوران میں وہ مادی طور پر جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے، وہ اس کی کامیابی نہیں ہوتی اور جو کھوتا ہے وہ اس کی ناکامی نہیں ہوتی، بلکہ اس کی کامیابی یا ناکامی کا اصل فیصلہ قیامت کے روز ہوگا جب اللہ تمام انسانوں کو اپنے حضور جمع کرے گا۔ پھر جن لوگوں نے اچھے اعمال کیے ہوں گے، اللہ انھیں جنت کی ابدی کامیابی سے سرفراز کرے گا اورجنھوں نے برے کام کیے ہوں گے، انھیں سزا کے طور پر جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔

اللہ نے انسانوں کو اس آزمایش میں تنہا نہیں چھوڑا، بلکہ ان کی ہدایت کے لیے متعدد انتظامات کئے ہیں۔ اللہ نے ان کے وجدان میں اپنی توحید، آخرت کی جواب دہی اور خیروشر کے بنیادی تصورات ودیعت کیے۔ انھیں فطرت سلیمہ پر پیدا کیا۔ انھیں عقل وفہم کی دولت عطا کی کہ وہ صحیح و غلط کی تمیز کر سکیں، ان کے اندر اور باہر اپنی نشانیاں پھیلا دیں اور سب سے بڑھ کر انبیاو رسل کو ہر دور میں انسانیت کی رہنمائی کے لیے بھیجا۔

مگر انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس عارضی دنیا کی رنگینیوں اور مسائل میں ایسا الجھتا ہے کہ قیامت کے آنے والے سنگین حادثے کو فراموش کر بیٹھتا ہے۔ فکر و وجدان کے اشارے نظر انداز کر دیتا ہے۔ عقل کو دنیاوی مصالح کے استعمال تک محدود کر دیتا ہے۔ رسولوں کی کھلی پکار سن کر بھی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا ہے۔ حتیٰ کہ انبیا کے ماننے والے بھی ان کی تعلیمات سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ جب بے حسی اتنی عام ہو جاتی ہے تو ایسے میں خداے حکیم دھرتی کو حکم دیتا ہے تو وہ اپنی آغوش میں سوئے ہوئے زلزلے اگل دیتی ہے۔ پھر یہ زلزلے ہی ہوتے ہیں جو انسان کو یاددہانی کراتے ہیں، اس بڑے زلزلے کی، جسے قیامت کے دن آنا ہے۔ وہ دن جب زمین پے درپے زلزلوں سے ہلا دی جائے گی یہاں تک کہ پہاڑ کوٹ کوٹ کر برابر کر دیے جائیں گے، وہ دن جو پوری انسانیت کی موت کا دن ہوگا۔

جس طرح زلزلہ ا چانک آتا ہے، اسی طرح قیامت اچانک آئے گی، جس طرح زلزلہ مکمل تباہی کا پیغام ہے، اسی طرح قیامت مکمل تباہی کا نام ہے۔ جس طرح زلزلہ آنے پر زلزلے کے علاوہ ہر دوسرا مسئلہ ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح قیامت آنے پر ہر دوسرا مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ جس طرح زلزلہ آنے پر انسان خوف و گھبراہٹ میں اپنی عزیز ترین متاع کو بھول جاتا ہے، اسی طرح قیامت آنے پر انسان ہر چیز بھول جائے گا حتیٰ کہ ماں اپنے دودھ پیتے بچے کو بھی بھول جائے گی۔ جس طرح زلزلہ زمین کی رنگینیوں کو، وہ رنگینیاں جن میں مشغول ہو کر لوگ خدا اور آخرت کو بھول جاتے ہیں، تہہ وبالا کر دیتا ہے، اسی طرح قیامت کے دن زمین اپنی ہر رنگینی سے محروم ایک ہموار میدان بنا دی جائے گی۔

زلزلہ اللہ کے ظلم کا نام نہیں، وہ اللہ کی بھیجی ہوئی آخری یاددہانی کا نام ہے۔ وہ لوگ جو دنیا کے زلزلے آنے پر بھی نصیحت حاصل نہ کریں، انھیں قیامت کے زلزلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہ دن جب کسی کے لیے نصیحت حاصل کرنا کچھ بھی کارآمد نہ ہوگا۔

_____________

B