[پاکستان کی تاریخ کے بدترین زلزلے میں ہونے والی تباہی نے جہاں ہر دل کو افسردہ کر دیا ہے ، وہاں ذہن میں بہت سے سوال ہیں جو خود اللہ تعالیٰ اور اس دنیا کے ساتھ اس کے تعلق کے بارے میں پیدا ہو رہے ہیں ۔ یہ مضمون انھی سوالوں کا جواب ہے ۔ یہ مضمون کشف و الہام پر نہیں ، قرآن و حدیث کے محکمات پر مبنی ہے ۔ تاہم تمثیلی اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ یہ دلوں کے قریب ہوتا ہے۔]
یہ ماہ اکتوبر کی آٹھ تاریخ ہے ۔ صبح کے آٹھ بج چکے ہیں۔ ہفتہ کا دن ہے۔ بائیبل کہتی ہے کہ اس دن کائنات کو بنانے کے بعد خداوند نے آرام کیا۔لیکن قرآن کہتا ہے کہ خداوند پاک ہے۔وہ کبھی آرام نہیں کرتا۔ ہر روز وہ ایک نئی شان کے ساتھ ظہور کرتا ہے۔سواس روز خداوند تمام جہانوں کے خالق نے زمین کو دیکھا، وہ اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز حمد کے ترانے پڑھ رہی تھی۔ اس نے آسمان کو دیکھا، وہ بھی اپنے مالک کے حضور رکوع کی حالت میں جھکا اس کی تسبیح کررہا تھا۔ اس نے پہاڑوں کو دیکھا،وہ بھی اپنی تمام تر بلندی کے ساتھ قیام کی حالت میں تکبیر مسلسل دے رہے تھے۔
خداوند خداے عظیم نے نظر کی اور دیکھا کہ جس ہستی کو اس نے خلیفہ بنایا تھا، وہ سرکش اور غافل ہوچکی ہے۔ زمین، آسمان اور پہاڑو ں نے ڈر کر جس امانت کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا تھا، انسان نے اس بوجھ کو اٹھا تو لیا، لیکن بھول گیا کہ وہ کس قدر سخت آزمایش میں ہے۔
خداوند خداے کریم نے نظر کی اور دیکھا کہ جہنم کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔آگ کی ہر لپٹ ’ہل من مزید ‘کی صدا بلند کررہی ہے۔وہ بھوکی تھی اور اس روز قیامت کی منتظر تھی جب اسے اس کی خوراک ’’آدمی اور پتھر‘‘پیٹ بھر کر ملنی تھی۔
خداوند خداے رحیم نے نظر کی اور دیکھا کہ جنت کی حوریں اس کی ویرانی پر نوحہ خواں ہیں۔فردوس کی بستی جسے اس نے اپنی تمام نعمتوں اور رحمتوں کا مرکز بنایا ہے، چیخ چیخ کر اس کے حضور فریاد کررہی ہے کہ جس انسان کو تونے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا، وہ اس جنت کی بربادی پر آمادہ ہے۔
خداوند خداے قدیر نے نظر کی اوراپنے بندے اسرافیل کو دیکھا۔و ہ صور لیے بیٹھا مالک کے حکم کا منتظر تھا۔ وہ بھی دوسرے آسمان والوں کی طرح اہل زمین کی حالت پر سخت افسردہ تھا۔اسے معلوم تھا کہ انسان کی آزمایش کی گھڑیاں اب ختم ہونے کو ہیں۔ زلزلۂ قیامت برپا ہونے کو ہے۔ اہل زمین پر بربادی کے سائے بڑھتے جارہے ہیں۔ہمیشہ کی طرح وہ اہل زمین کے لیے استغفار کرنے کو مالک کی طرف متوجہ ہوا تو اسے خود کو دیکھتے پایا۔وہ لرز اٹھاا ور بے اختیار سجدہ میں گرگیا ۔پوچھا :آقا کیا سورج مغرب سے طلوع ہوگیا ہے؟
خداوند خداے بصیر نے نظر کی اور دیکھا کہ سورج مشرق سے طلوع ہورہا ہے۔لوگ روزے کی حالت میں اپنے کام کاج کی جگہوں پر روانہ ہوچکے ہیں۔ بچے اسکولوں میں کلاس لے رہے ہیں۔ عورتیں مردوں اور بچوں کو رخصت کرنے کے بعد سحری کی تھکان مٹانے نیند بھرنے کو لیٹی ہیں۔
خدواند خداے حکیم نے نظر کی اورعزرائیل کو دیکھا۔وہ اپنے ان داتا کی نظر کا اشارہ سمجھ گیا۔عزرائیل اور اس کے ساتھی فرشتے قطار در قطار مملکت خداداد کی ان وادیوں میں اترنے لگے جو زمین پر جنت کا نقشہ تھیں۔
کچھ دیر نہ گزری تھی کہ زمین پر قیامت صغریٰ برپا ہوگئی۔ پہاڑ لرزنے لگے۔مکانات زمین بوس ہونے لگے۔ہر طرف آہ و زاری اور شورو فغاں برپا ہوگیا۔جن لوگوں کو کبھی بھولے سے خدا یاد نہ آیا تھا، وہ رب کی تکبیر بیان کرنے اور اس سے معافی مانگنے لگے۔چند لمحوں میں زمین تھم گئی، مگر اس پر بربادی کے وہ آثار رقم ہوگئے کہ جس آنکھ نے دیکھا نم ہوگئی۔
جبرائیل اور میکائیل نے بارگاہ اقدس میں قدم بوسی کی اجازت چاہی۔اذن ہوا۔ جن کی عظمت کا سکہ آسمانوں پر بیٹھا ہے، وہ خداوند خداے بزرگ کے حضور پیش ہوئے تو خوف سے لرز رہے تھے۔ دل میں سوال تھا، مگر لب پر لانے کی ہمت نہ تھی۔آنکھوں میں تعجب تھا، مگر اس کے اظہار کی جرات نہ تھی۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو سجدے میں گرگئے۔دلوں کے حال جاننے والے نے کہا :اٹھو اور کہوکیا بات ہے۔جبریل کی حیثیت بڑی تھی۔ بولے: آقا تیرا انسان... اس سے زیادہ ایک لفظ زبان سے نہ نکل سکا۔
جواب ملا: ہاں میرا انسان۔
میکائیل نے حوصلہ پاکر کہا:مالک بڑی بربادی ہوئی ہے۔
زمین وآسمان کے بادشاہ نے ایک شان بے نیازی سے دونوں کو دیکھا اورپوچھا: کیا بربادی ہوئی ہے؟
’’تو پاک ہے ‘‘کہہ کر دونوں خاموش ہوگئے۔ یہ کسی عام ہستی کی بارگاہ نہیں تھی، یہ عالم الغیب کا دربار تھا۔وہ سب جاننے والے کو کیا بتاتے کہ کیا ہوا ہے۔
آسمان و زمین کے پالنے والے نے دونوں کا سکوت دیکھا تو پوچھا:لوگوں کا ایسا کیا نقصان ہوا ہے جو میں پورا نہیں کرسکتا ؟
دونوں کی زبان سے جاری تسبیح ، رب کی حمد میں بدل گئی۔وہ جانتے تھے کہ ان کا مالک جب مصیبت کا بدلہ دیتا ہے، تو نہال کردیتا ہے۔وہ سینے کی ہر پھانس کھینچ کرنکال دیتا ہے۔
پھر ایک اشارہ ہوا۔ دونوں کی نگاہ کا پردہ اٹھ گیا ۔
خداوند خداے رحمن نے نظر کی اور دیکھا کہ ایک اور خطۂ زمین جہاں سورج طلوع ہورہا ہے، ایک ماں اپنے بچے کو نیند سے اٹھارہی ہے۔ اسے جھنجھوڑ رہی ہے کہ وہ اٹھے اور اسکول جائے تاکہ اس کا مستقبل بہتر ہوسکے۔ وہ امتحان میں ناکام نہ ہوجائے۔ جب بچہ نہ اٹھا تو ماں نے تھپڑ مار کر اسے اٹھایا اور اس کے باپ نے روتے ہوئے بچے کو زبردستی اسکول چھوڑ ا۔ استاد سے کہا: میرے بچے کو دیر ہوگئی، لیکن زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے، اس لیے اسے کلاس میں بیٹھنے دیا جائے۔ استاد کو بھی رحم آیا، اس نے بچے کو اندر آنے دیا۔بچہ اپنے دوستوں میں بیٹھا اور کچھ دیر میں ہنسی خوشی پڑھائی میں مشغول ہوگیا۔خداوندتمام جہانوں کا خدا مسکرایا۔ اسے ماں باپ کی محبت کا یہ انداز اور استاد کی درگزر کی یہ ادا، دونوں پسند آئے۔اس نے ہر مخلوق کو اپنے علم سے سکھایا ہے، سو یہ بھی اسی کا سکھایا ہوا سبق تھا۔
جبریل و میکائیل نے یہ منظر دیکھا اور دوبارہ سجدے میں گرگئے اور رب کی تسبیح بیان کرنے لگے۔
بارگاہ اقدس سے صدا آئی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت ختم ہوگئی۔ قیامت سر پر کھڑی ہے۔جنھیںیہ دنیا کو بتانا ہے، وہ بتانہیں رہے۔دوسروں کی طرح وہ بھی دنیا کے فریب کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں۔مجھے اپنی رحمت کی قسم میں ستر ماؤں سے بڑھ کر انسان کو چاہتاہوں۔یہ زلزلہ نہیں تھا۔ میں نے انسانیت کو جھنجھوڑا تھا۔ وہ اٹھیں اور قیامت کے بعد کی ابدی زندگی کی تیاری کریں۔ مجھے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قسم جو قیامت کا سب سے بڑا نشان ہے،اگر اس کی امت نہیں بتائے گی تو میں خود دنیا کو بتاؤں گاکہ یہ دنیا پانے اور کھونے کی ابدی جگہ نہیں، آزمایش کی عارضی جگہ ہے۔
دنیا کی بربادی پر رونے والو، آخرت کی بربادی کے خوف سے روؤ۔ لوگوں کی بربادی پر رونے والو، اپنی بربادی کے غم میں آنسو بہاؤ۔ میراعذاب ناقابل برداشت ہے۔ابھی سورج مغرب سے طلوع نہیں ہوا۔تمھارے پاس وقت ہے۔ واپس آجاؤ۔ مجھے سب سے بڑھ کر معاف کرنے والا پاؤ گے۔دنیا کی محبت سے نکلو اور میر ے پاس آؤ۔ جو میں دے سکتا ہوں،و ہ کسی اور سے نہیں مل سکتا۔ جو جنت میں ہوگا،وہ دنیا میں کبھی نہیں مل سکتا۔پانے اور کھونے،ہنسنے اور رونے کی جگہ دنیا نہیں آخرت ہے۔یہ بات خود بھی جان لو اور دنیا کو بھی بتاؤ:
’’ اے انسانو، اپنے پروردگار سے ڈرو۔ بے شک، قیامت کا زلزلہ بہت ہی ہول ناک چیز ہے۔ جس روز تم اسے دیکھوگے ،(حال یہ ہوگا کہ دہشت کے مارے )ہر دودھ پلاتی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ (خوف سے) اپنا حمل ڈال دے گی۔تم دیکھو گے کہ لوگ(ایک دوسرے سے ایسے بے پروا ہوجائیں گے کہ گویا وہ) نشے میں ہیں ۔ وہ ہر گز نشے میں نہیں ہوں گے، مگر اللہ کا عذاب بہت شدید ہوگا۔‘‘ (الحج۲۲: ۱۔۲)
____________