(مسلم، رقم ۲۸)
حدثنا عبادۃ بن الصامت قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: من قال أشہد أن لا إلہ إلا اﷲ وحدہ لا شریک لہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ وأن عیسی عبد اﷲ وبن أمتہ وکلمتہ ألقاہا إلی مریم وروح منہ وأن الجنۃ حق وأن النار حق وأدخلہ اﷲ من أی أبواب الجنۃ الثمانیۃ شاء.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کہا: میں برملا اقرار کرتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ اکیلاہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور یہ کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بندے ہیں اور اس کی لونڈی کے بیٹے ہیں، وہ اس کا کلمہ ہیں جس نے اسے مریم کو القا کیا تھا،اور اس کی روح ہیں، اور یہ کہ جنت حق ہے اور یہ کہ جہنم حق ہے، اللہ تعالیٰ اسے جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس دروازے سے وہ چاہے گا داخل کریں گے۔
ألقاہا: ’ألقی ‘ کا لفظی مطلب ’ڈالنا ‘ہے۔ اسی سے یہ دل میں بات ڈالنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہاں یہ کلمہ کی مناسبت سے آیا ہے۔مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کے پیدا ہونے کا حکم صادر فرما دیا اوریہ حکم اپنی تعمیل کے لیے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف بھیج دیا گیا۔
یہ روایت اس کے مضمون ہی سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسیحی حضرات کے ساتھ گفتگو کا حصہ ہے۔آپ نے اس گفتگو میں یہ حقیقت واضح کی ہے کہ خود آپ کی ذات کے بارے میں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں درست عقیدہ کیا ہے۔اس روایت کا پہلا حصہ اسی موضوع سے متعلق ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کو الوہیت حاصل نہیں تھی۔ بلکہ وہ خدا کی مخلوق اور اس کے بندے تھے۔ اس روایت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے، وہ قرآن مجید میں بھی بیان ہوا ہے۔ سورۂ نساء میں ہے:
یٰٓاَ ہْلَ الْکِتَابِ لاَ تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَلاَ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ إِلاَّ الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَکَلِمَتُہٗ أَلْقَاہَآ إِلٰی مَرْیَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ فَآمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ...(۴: ۱۷۱)
’’اے اہل کتاب، اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کوئی بات نہ ڈالو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو بس اللہ کے ایک رسول اور اس کا کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف القا کیا اور اس کی جانب سے ایک روح ہیں۔ چنانچہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ...۔‘‘
کلمہ اور روح سے کیا مراد ہے، شارحین نے ان کے حضرت مسیح پر اطلاق کے مختلف اسباب بیان کیے ہیں۔ہم یہاں ان کو نکات کی شکل میں بیان کرتے ہیں:
۱۔ کلمہ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حجت تھے۔ بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ وقت سے پہلے باتیں کیں۔ مردے زندہ کیے۔
۲۔ چونکہ آپ کی پیدایش کلمۂ کن سے براہ راست ہوئی ہے، اس لیے آپ کو کلمہ کہا گیا ہے۔
۳۔ چونکہ آپ کا کلام لوگوں کے لیے نافع ہوا، اس لیے آپ کو کلمۃ اللہ کہا گیا۔ جیسا کہ حضرت خالد بن ولید کو سیف اللہ کہا گیا ہے۔
۴۔ آپ نے بچپن ہی میں اپنے بارے میں کہا : ’انی عبد اللّٰہ‘۔ اسی کی مناسبت سے آپ کو کلمہ کہا گیا۔
۵۔ محض اللہ کے ارادے سے پیدا ہوئے، اس لیے روح کہا گیا۔
۶۔ چونکہ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے، اس مناسبت سے روح کہا گیا ہے۔
۷۔ کسی مادی ذریعے کے بغیر جسد وروح پائی، اس لیے روح قرار دیے گئے۔
مولانا امین احسن اصلاحی محولہ بالا آیت کے ضمن میں کلمہ اور روح کہنے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’(حضرت مسیح) کی ولادت اللہ کے کلمہ ’کن‘ سے ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم کی طرف القا فرمایااور ان کو روح بھی خدا کی جانب سے عطا ہوئی۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی خارق عادت ولادت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر ان کو خدائی کا درجہ دے دیا جائے۔ ان کی ولادت اسی طرح خدا کے کلمہ ’کن‘ سے ہوئی ہے جس طرح آدم کی ولادت کلمہ ’کن‘ سے ہوئی ہے اور ان کے اندر بھی خدا نے اسی طرح روح پھونکی ہے جس طرح آدم کے اندر روح پھونکی۔ اسباب تو محض ظاہر کا پردہ ہیں، وجود اور زندگی تو جس کو بھی ملتی ہے، خدا ہی کے حکم اور اسی کی عطا کردہ روح سے ملتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۴۳۶)
اس سے واضح ہے کہ مولانا کے نزدیک کلمہ اور روح حضرت مسیح کے اختصاص کو بیان نہیں کرتے، بلکہ ان کے خدا کی مخلوق ہونے کو واضح کرتے ہیں۔ہمارے نزدیک قرآن کا مدعا یہی ہے اور اس کی روشنی میں ان الفاظ کا یہی پہلو درست محسوس ہوتا ہے۔حضرت مسیح کی خارق عادت پیدایش کے لیے یہ تعبیرات ان کے مخلوق ہونے کی نفی نہیں کرتیں اور نہ ان سے یہ مطلب لینا چاہیے۔
اس روایت کے آخر میں اس ایمان کا ثمرہ بیان ہوا ہے۔ ہم قرآن کی روشنی میں یہ بات پچھلی روایات کی شرح میں بیان کر چکے ہیں کہ درست ایمان کے ساتھ ساتھ عمل صالح بھی ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح کے بیانات سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ یہ محض ایمان پر نجات کو موقوف کر رہے ہیں۔ خدا کے صالح بندے ہی خدا کے انعامات کے مستحق ہوں گے۔’ علی ماکان من العمل‘ کا ٹکڑا حدیث ابو ذر کے ’ إن زنی وان سرق‘ کے محل میں ہے ۔قرآن مجید میں بتا دیا گیا ہے کہ نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔گویا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ جو شخص اپنے عقیدہ وعمل کی اصلاح کرلیتا ہے، وہ اللہ کی مغفرت کا حق دار بن جاتا ہے۔
امام مسلم کی یہ روایت ایک آدھ چیز کو چھوڑ کر ان تمام اجزا کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جو اس روایت کے مختلف متون میں نقل ہوئے ہیں۔ مثلاً اس روایت میں ’ عبدہ ‘ کے بعد ’ رسولہ ‘ نہیں ہے، لیکن بعض متون میں اس جملے میں حضرت مسیح کا رسول ہونا بھی بیان ہوا ہے۔یہ اضافہ بھی یہود کی نسبت سے ایک اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ یہود حضرت مسیح کی رسالت کے قائل نہیں تھے۔اسی طرح ایک روایت میں جہاں ’ النارحق ‘ اور ’ الجنۃ حق‘ کے الفاظ آئے ہیں وہاں ’ البعث حق ‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہ اضافہ جنت اور جہنم کے ساتھ ایک مناسبت تو رکھتا ہے، لیکن اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ ممکن ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ نہ کہا ہو۔ اس خیال کو یہ بات موکد کر دیتی ہے کہ اس روایت کے زیادہ متون اس جملے کے بغیر ہیں۔زیر نظر روایت میں آخری جملہ ’ علی ما کان من العمل ‘ کی توضیح سے خالی ہے۔ جبکہ خود امام مسلم رحمہ اللہ نے اس سے اگلی روایت میں اور بعض دوسرے محدثین نے اس جملے کو روایت کیا ہے۔
ان کے علاوہ اس روایت کے متون میں کچھ چھوٹے چھوٹے لفظی فرق بھی ہیں۔ مثلاً زیادہ تر روایات میں ’ من قال أشہد...‘ کے بجائے ’ من شہد ‘ روایت ہوا ہے۔اسی طرح ’ أن الجنۃ حق‘ والا جملہ بعض روایات میں ’ان‘ کے بغیر روایت ہوا ہے۔علاوہ ازیں بعض روایات میں ’ ابن أمتہ‘ کے الفاظ بھی نہیں ہیں۔جن روایات میں یہ الفاظ نہیں ہیں، ان میں کسی راوی سے سہو ہوا ہے۔ اس لیے کہ یہ متن کے مقصود سے گہری مناسبت رکھتے ہیں۔جس طرح حضرت مسیح کے بارے میں الوہیت کا عقیدہ رائج ہے، بعینہٖ حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں بھی اسی طرح کے مزعومات رائج تھے۔ چنانچہ ان کے بارے میں یہ بیان کہ وہ خدا تعالیٰ کی بندی تھیں، موقع کلام کا واضح تقاضا ہے۔
بخاری، رقم ۳۲۵۲۔ احمد، رقم۲۲۷۲۷۔ ابن حبان، رقم ۲۰۷۔ مسند الشامیین، رقم۵۵۵۔ سنن کبریٰ، رقم۱۰۹۶۹، ۱۰۹۷۰، ۱۱۱۳۲۔
________________