(۱)
روی۱ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الناس تبع ۲ لقریش فی ہذا الشأن. مسلمہم تبع لمسلمہم وکافرہم تبع لکافرہم.۳ تجدون من خیر الناس أشد الناس کراہیۃ لہذا الشأن۴ حتی یقع فیہ۵ وتجدون شر الناس ذا الوجہین الذی یأتی ہؤلاء بوجہ ویأتی ہؤلاء بوجہ.۶
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ لوگ (حکمرانی کے ) اس معاملے میں قریش کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کے مسلمان قریش کے مسلمانوں کے پیروکار ہیں اور ان کے کافر قریش کے کافروں کے پیروکار تھے۔۱ تم سب سے اچھے آدمی کودیکھو گے کہ (حکمرانی کا) یہ معاملہ اس کے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے یہاں تک کہ وہ اس میں ڈال دیا جائے، ۲ اور لوگوں میں سے سب سے برے آدمی تم منافقوں کوپاؤ گے جوبعض لوگوں میں ایک چہرہ لے کر آئیں اور بعض میں دوسرا ۔‘‘
(۲)
روی ۷ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یزال ہذا الأمر فی قریش ما بقی منہم اثنان.۸
’’روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک قریش کے دو آدمی بھی باقی ہیں ۴ (حکمرانی کا)یہ معاملہ انھی میں رہے گا۔‘‘ ۵
(۳)
روی ۹ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الأمراء من قریش، الأمراء من قریش، الأمراء من قریش. ۱۰ لی علیہم حق ولہم علیکم حق ۱۱ ما فعلوا ثلاثا: ۱۲ ما حکموا فعدلوا واسترحموا فرحموا وعاہدوا فوفوا. ۱۳ فمن لم یفعل ذلک منہم فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس أجمعین.
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حکمران قریش میں سے ہوں گے، حکمران قریش میں سے ہوں گے، حکمران قریش میں سے ہوں گے۔ ۶ میرا ان پر حق ہے اور اسی طرح ان کا تمھارے اوپر حق ہے ۷ جب تک کہ وہ یہ تین کام کرتے رہیں:جب فیصلہ کریں تو عدل کریں، جب ان سے رحم طلب کیا جائے تو رحم کریں، اور جب کوئی عہد کریں تو اسے پوراکریں۔ان میں سے جو ایسا نہیں کرے گاتو اس پر خدا، فرشتوں اورتمام لوگو ں کی لعنت ہوگی۔‘‘ ۸
(۴)
روی۱۴ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن ہذا الأمر فی قریش، لا یعادیہم أحد إلا کبہ اللّٰہ فی النار ۱۵ علی وجہہ، ما أقاموا الدین.۱۶
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(حکمرانی کا)یہ معاملہ قریش میں رہے گا۔ جب تک وہ دین پر قائم رہیں جوبھی اس معاملے میں ان کی مخالفت کرے گا ، اللہ اسے مونہہ کے بل جہنم کی آگ میں پھینک دے گا۔‘‘ ۹
(۵)
روی ۱۷ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:إن قریشا أہل صدق وأمانۃ فمن بغی لہا العواثر ۱۸أکبہ اللّٰہ ۱۹فی النار لوجہہ.۲۰
’’روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش (کے لوگ)سچے اور امین ہیں۔جوکوئی ان کی ہلاکت چا ہے گا اللہ اسے منہ کے بل جہنم کی آگ میں پھینک دے گا۔‘‘
۱۔بنی اسماعیل کے تمام قبائل قریش کو مذہبی اور سیاسی معاملات میں اپنانمائندہ اور رہنما تسلیم کرتے تھے ۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصاً ان کی سیاسی حیثیت کاحوالہ دیا ہے۔
۲۔آخرت میں آدمی نہ صرف یہ کہ اپنے ذاتی اعمال کے بارے میں جواب دہ ہو گا، بلکہ اجتماعیت سے متعلق اس کی جو ذمہ داریاں ہیں، ان کے بارے میں بھی اس سے پوچھا جائے گا۔ اجتماعیت سے متعلق ایک حکمران کی ذمہ داریوں کا بوجھ چونکہ عام آدمی کی نسبت زیادہ ہوتاہے اس لیے خدا کے سامنے جواب دہی سے ڈرنے والا آدمی یہ کبھی پسند نہیں کرے گا کہ وہ حکمران بن کے اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ میں اضافہ کرلے۔اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بہترین آدمی اقتدار میں آنا ناپسند کرتا ہے، تاہم اگر اسے یہ ذمہ داری سونپ دی جائے تواللہ تعالیٰ اس منصب کے تقاضے نبھانے میں اس کی مدد کرتے ہیں۔
۳۔اس خاص سیاق میں یہاں سیاسی منافقت مرادہے۔ یعنی وہ لوگ جو حکمرانوں کے سامنے تو اپنی اطاعت و فرماں برداری ظاہر کرتے ہیں، مگردوسروں کو اپنی مدد کا یقین دلاکراس بات پرقائل کرتے ہیں کہ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی جائے۔
۴۔قریش کو چونکہ بنی اسماعیل کے دوسرے قبائل کاسیاسی اعتماد حاصل تھا اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی اصول ’أمرہم شوریٰ بینہم‘(ان کے آپس کے معاملات مشاورت پر مبنی ہیں)کے تحت لوگوں کوآگاہ کیا ہے کہ بنی اسماعیل کا اقتدار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قریش کو منتقل ہوجائے گا۔
۵۔یعنی جب تک قریش کو بنی اسماعیل کے دوسرے قبائل کا اعتماد حاصل ہے، ان کی حکمرانی کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے، خواہ ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہوجائے، کیونکہ ایسا کرنے سے مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو نقصان پہنچے گااور ان میں سیاسی انتشار پھیلے گا۔
۶۔ایک ہی بات کی یہ تکرار تاکید کے لیے ہے۔
۷۔یعنی جیسے میرا تمھارے اوپر یہ حق ہے کہ تم میرے وفادار رہو ایسے ہی ان کا یہ حق ہے کہ تم ان کے فرماں بردار رہو، کیونکہ انھیں یہ خصوصی منصب اللہ نے عطاکیا ہے۔
۸۔یعنی خدا کی طرف سے شہادت علی الناس کے منصب پر فائز ہونے کے سبب بنی اسماعیل جب تک خدا کے عدل کے گواہ رہیں گے انھیں اپنے مخالفین پر طاقت اور غلبہ حاصل رہے گا اور جب وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد کی خلاف ورزی کریں گے تونہ صرف ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوجائے گا، بلکہ سزا کے طور پروہ دوسروں کے مغلوب کر دیے جائیں گے۔
۹۔یعنی جب تک انھیں بنی اسماعیل میں سے اکثریت کی حمایت حاصل رہے کوئی اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے ان کی حکومت ختم نہ کرے۔
پہلی روایت:
۱۔یہ روایت بخاری، رقم ۳۳۰۵ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پرنقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم ۳۳۰۴۔ مسلم، رقم ۱۸۱۸، ۱۸۱۹، ۲۵۲۶۔ احمدبن حنبل، رقم ۱۸، ۷۹۰، ۷۳۰۴، ۷۵۴۷، ۸۲۲۶، ۹۱۲۱، ۹۴۰۲، ۹۵۹۱، ۱۰۸۰۱،۱۴۵۸۵، ۱۵۰۹۱، ۱۵۰۹۲، ۱۵۱۵۱۔ ابن حبان، رقم ۶۲۶۳، ۶۲۶۴۔ بیہقی ، رقم ۵۰۷۸، ۱۶۳۰۸،۱۶۳۰۹۔ ابویعلیٰ،رقم۱۸۹۴، ۲۲۷۲،۶۲۶۴، ۶۴۳۹۔ حمیدی،رقم۱۰۴۴۔ عبدالرزاق،رقم۱۹۸۹۴، ۱۹۸۹۵۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۳۸۲، ۳۲۳۸۴، ۳۲۳۸۷، ۳۲۳۹۳، ۳۲۳۹۴،۳۲۴۰۰۔
۲۔بعض روایات مثلاً احمد بن حنبل ، رقم ۹۱۲۱میں ’تبع‘(پیروکار)کے بجائے ’أتباع‘(پیروکار)کا لفظ روایت ہوا ہے، جبکہ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۸۱۹میں ’الناس تبع لقریش فی ہذا الشأن‘(یہ لوگ اس معاملے میں قریش کے پیروکار ہیں)کے بجائے ’الناس تبع لقریش فی الخیر والشر‘(یہ لوگ اچھائی اور برائی میں قریش کے پیروکار ہیں)کے الفاظ، اور احمدبن حنبل، رقم ۱۵۰۹۲میں ’الناس لقریش تبع فی الخیر والشر‘ (یہ لوگ قریش ہی کے پیروکار ہیں اچھائی اور برائی میں)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۳۔بعض روایات مثلاً مسلم ، رقم ۱۸۱۸میں ’مسلمہم تبع لمسلمہم وکافرہم تبع لکافرہم‘(ان کے مسلمان قریش کے مسلمانوں کے پیروکار ہیں اور ان کے کافر قریش کے کافروں کے پیروکار تھے)کے الفاظ ’تبع‘ (پیروکار) کے بغیر روایت ہوئے ہیں، جبکہ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۹۱۲۱میں ان الفاظ کے بجائے ’کفارہم أتباع لکفارہم ومسلموہم أتباع لمسلمیہم‘(ان کے کافر قریش کے کافروں کے پیروکار تھے اور ان کے مسلمان قریش کے مسلمانوں کے پیروکار ہیں)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل ، رقم ۷۹۰میں ’مسلمہم‘(ان کے مسلمان )کے بجائے ’صالحہم‘(ان کے نیکوکار)کے الفاظ، جبکہ احمدبن حنبل، رقم ۷۵۴۷میں ’خیارہم‘(ان کے بہترین)کے الفاظ، ابن حبان، رقم ۶۲۶۴ میں ’مؤمنہم‘ (ان کے مومن)کے الفاظ اور ابن ابی شیبہ رقم ۳۲۴۰۰ میں ’برہم‘(ان کے فرماں بردار)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۷۵۴۷میں ’کافرہم‘(ان کے کافر)کے بجائے ’شرارہم‘(ان کے بدترین)کے الفاظ، جبکہ ابن حبان، رقم ۶۲۶۴میں ’فاجرہم‘(ان کے نافرمان)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۴۔بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۲۵۲۶میں ’تجدون من خیر الناس أشد الناس کراہیۃ لہذا الشأن‘ (تم دیکھو گے کہ سب سے اچھا آدمی اسے سب سے زیادہ ناپسندکرے گا)کے بجائے ’تجدون من خیر الناس فی ہذا الأمر أکرہہم لہ‘(تم اس معاملے میں سب سے بہتر آدمی اس کو پاؤ گے جواسے سب سے زیادہ ناپسند کرتا ہو)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں، جبکہ مسلم کی اسی روایت کے ایک متن میں ’تجدون من خیر الناس فی ہذا الشأن أشدہم لہ کراہیۃ‘(تم اس معاملے میں سب سے بہتر آدمی اس کو پاؤ گے جواسے سب سے زیادہ ناپسند کرتا ہو)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۵۔بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۲۵۲۶میں ’حتی یقع فیہ‘(یہاں تک کہ وہ اس میں جا پڑے)کے بجائے ’قبل أن یقع فیہ‘(اس سے پہلے کہ وہ اس میں جاپڑے )کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۶۔’وتجدون شر الناس ذا الوجہین الذی یأتی ہؤلاء بوجہ ویأتی ہؤلاء بوجہ‘(اور لوگوں میں سے سب سے برے آدمی تم منافقوں کوپاؤ گے جوبعض لوگوں میں ایک منہ لے کر آئیں اور بعض میں دوسرا منہ لے کر)کے الفاظ بخاری، رقم۳۳۰۴میں روایت ہوئے ہیں، جبکہ بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۲۵۲۶ میں ’یأتی‘(آنا)دوبارہ روایت نہیں ہوا۔
ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۳۸۷میں ’واللّٰہ لو لا أن تبطر قریشا لأخبرتہا بما لخیارہا عند اللّٰہ‘ (بخدااگر قریش کے متکبر ہو جانے کا خدشہ نہ ہوتاتو میں انھیں ان کی اس خوبی سے آگاہ کرتا جس کے سبب وہ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں)کے الفاظ کااضافہ روایت ہوا ہے۔
بعض روایات مثلاً بخاری، رقم ۳۳۰۵میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ راوی نے ایک دوسری روایت ’والناس معادن: خیارہم فی الجاہلیۃ خیارہم فی الإسلام إذا فقہوا‘(اور لوگ کانوں کی مانند ہیں:ان میں سے جو دور جاہلیت میں بہترین تھے وہ اب دور اسلام میں بھی بہترین ہوں گے اگر وہ گہری سمجھ بوجھ حاصل کرلیں)کے الفاظ کو سہواً اس روایت سے ملا دیا ہے۔
بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۸کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قریش ولاۃ ہذا الأمر فبر الناس تبع لبرہم وفاجرہم تبع لفاجرہم.
’’قریش اس معاملے کے نگران ہیں۔ (بنی اسماعیل کے)لوگوں میں سے نیک ان کے نیکوکاروں کے پیرو ہیں اور ان کے نافرمان ان کے نافرمانوں کے پیرو تھے۔‘‘
دوسری روایت:
۷۔یہ روایت بخاری، رقم ۳۳۱۰ہے۔بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پرنقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم ۶۷۲۱۔ مسلم، رقم ۱۸۲۰۔ احمدبن حنبل، رقم ۴۸۳۲، ۵۶۷۷،۶۱۲۱۔ ابن حبان، رقم ۶۲۶۶، ۶۶۵۵۔ بیہقی، رقم ۵۰۷۹، ۱۶۳۱۰۔ ابویعلیٰ، رقم ۵۵۸۹۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۳۹۱۔
۸۔بعض روایات مثلاً مسلم، رقم ۱۸۲۰میں ’ما بقی منہم اثنان‘(یہاں تک کہ ان کے صرف دو لوگ ہی باقی ہوں)کے بجائے ’ما بقی من الناس اثنان‘(یہاں تک کہ اگر دو لوگ ہی باقی ہوں)کے الفاظ ، جبکہ احمدبن حنبل، رقم ۶۱۲۱میں ’ما بقی فی الناس اثنان‘(یہاں تک کہ لوگوں میں ان کے دو ہی باقی ہوں)کے الفاظ اور بیہقی، رقم ۱۶۳۱۰میں ’ما کان فی الناس اثنین‘(جب تک لوگوں میں ان کے دوبھی باقی ہوں)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
تیسری روایت:
۹۔یہ روایت احمدبن حنبل، رقم ۱۹۸۱۸ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پرنقل ہوئی ہے:
احمدبن حنبل،رقم ۷۶۴۰،۱۲۳۲۹،۱۲۹۲۳، ۱۷۸۴۱، ۱۹۵۵۹، ۱۹۷۹۲، ۱۹۷۹۷۔ ترمذی، رقم ۲۲۲۷۔ ابن حبان، رقم ۴۵۸۱، ۴۵۸۴۔ بیہقی، رقم ۵۰۸۱، ۱۶۳۱۷، ۱۶۳۱۸،۱۶۳۱۹، ۱۶۳۲۰، ۱۶۳۲۱، ۱۶۳۲۲، ۱۶۳۲۳۔ ابویعلیٰ، رقم ۵۶۴، ۳۶۴۴، ۳۶۴۵، ۴۰۳۲، ۴۰۳۳۔ سنن الکبریٰ، رقم ۵۹۴۲۔ عبدالرزاق، رقم ۱۹۹۰۲۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۳۸۸، ۳۲۳۸۹، ۳۲۳۹۰، ۳۲۳۹۷، ۳۷۷۱۹۔
۱۰۔بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۹۵۵۹میں ’الأمراء من قریش‘(حکمران قریش میں سے ہوں گے)کی تکرار کے بجائے ’إن ہذا الأمر فی قریش‘(یہ معاملہ قریش میں رہے گا)کے الفاظ ، جبکہ بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۹۷۹۲میں ’الأئمۃ من قریش‘(حکمران قریش میں سے ہوں گے)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۱۱۔بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۷۶۴۰میں ’لی علیہم حق ولہم علیکم حق‘(میرا ان پر حق ہے اور ان کا تمھارے اوپر حق ہے)کے بجائے ’إن لی علی قریش حقا وإن لقریش علیکم حقا‘(میرا قریش پر حق ہے اور قریش کا تمھارے اوپر حق ہے)کے الفاظ، بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۲۳۲۹میں ’إن لہم علیکم حقا ولکم علیہم حقا مثل ذلک‘(ان کا تمھارے اوپر حق ہے اور اسی طرح تمھارا ان پر حق ہے)کے الفاظ، بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۳۱۸میں ’ولی علیکم حق عظیم ولہم‘(میرا تمھارے اوپر ایک بڑا حق ہے اور اسی طرح ان کابھی)کے الفاظ، بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۳۲۱میں ’ولی علیکم حق ولہم علیکم حق‘(میرا تم پر حق ہے اور ان کا بھی تمھارے اوپرحق ہے)کے الفاظ، بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۳۲۲میں ’ولی علیہم حق ولکم علیہم حق‘(میرا ان پر حق ہے اور تمھارا بھی ان پر حق ہے) کے الفاظ، جبکہ بعض روایات مثلاً ابویعلیٰ، رقم ۴۰۳۳میں ’لی علیکم حق ولہم علیکم مثل ذلک‘( میرا تم پر حق ہے اوراسی طرح ان کا تمھارے اوپرحق ہے)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۱۲۔بعض روایات مثلاً ابویعلیٰ، رقم ۵۶۴میں ’ما فعلوا ثلاثا‘(جب تک وہ تین کام کرتے رہیں)کے بجائے ’ما أقاموا بثلاث‘(جب تک وہ تین چیزوں پر عمل پیرا رہیں)کے الفاظ نقل ہوئے ہیں۔
۱۳۔بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۷۶۴۰میں ’وعاہدوا فوفوا‘(جب وہ عہد کریں تو اسے پورا کریں)کے بجائے ’وائتمنوا فأدوا‘(جب انھیں امانت سونپی جائے تواسے لوٹائیں)کے الفاظ، جبکہ بعض روایات مثلاً بیہقی، رقم ۱۶۳۲۲میں ’وأقسطوا إذا أقسموا ‘(جب وہ تقسیم کریں توانصاف کریں)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۹۵۵۹کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن ہذا الأمر فی قریش ما داموا .إذا استرحموا رحموا وإذا حکموا عدلوا وإذا قسموا أقسطوا فمن لم یفعل ذلک منہم فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس أجمعین، لا یقبل منہ صرف ولا عدل.
’’جب تک قریش موجود ہیں(حکمرانی کا)یہ معاملہ انھی میں رہے گا۔جب ان سے رحم طلب کیا جاتا ہے تو وہ رحم کرتے ہیں، جب وہ فیصلہ کرتے ہیں تو عدل کرتے ہیں اور جب وہ تقسیم کرتے ہیں توانصاف سے کام لیتے ہیں۔ ان میں سے جو ایسا نہ کرے گا تواس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوگی، اس سے نہ کوئی معاوضہ قبول کیا جائے گا اور نہ کوئی فدیہ۔‘‘
بعض روایات مثلاً احمدبن حنبل، رقم ۱۹۷۹۲میں ’وإذا قسموا أقسطوا‘(جب وہ تقسیم کریں توانصاف کریں) کے بجائے ’وإذا عاہدوا وفوا‘(جب وہ عہد کریں تو اسے پورا کریں)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
بعض روایات مثلاً ترمذی، رقم ۲۲۲۷کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قریش ولاۃ الناس فی الخیر والشر إلی یوم القیامۃ.
’’خیر ہو یا شر، قریش قیامت تک ان لوگوں کے نگران ہیں۔‘‘
معلوم یہی ہوتا ہے کہ راوی نے اس روایت کو پہلی روایت کے مضمون سے ملا دیا ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا مدعابالکل تبدیل ہو کے رہ گیا ہے۔ مزیدبرآں یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس روایت میں ’إلی یوم القیامۃ‘ (قیامت کے دن تک)کے الفاظ کا اضافہ راوی سے سہواً ہو گیاہے۔
چوتھی روایت:
۱۴۔یہ روایت بخاری، رقم ۶۷۲۰ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پرنقل ہوئی ہے:
بخاری، رقم ۳۳۰۹۔ احمدبن حنبل، رقم ۱۶۸۹۸۔ بیہقی، رقم ۱۶۳۱۱۔ سنن الکبریٰ، رقم ۸۷۵۰۔ دارمی، رقم ۲۵۲۱۔
۱۵۔بعض روایات مثلاً بخاری، رقم۳۳۰۹میں ’فی النار‘(آگ میں)کے الفاظ روایت نہیں ہوئے۔
۱۶۔عبدالرزاق، رقم۱۹۸۹۷کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ قریش کے حق میں ایک دعا مانگتے ہوئے ارشاد فرمائے۔
پانچویں روایت:
۱۷۔یہ روایت ابن ابی شیبہ، رقم۳۲۳۸۳ہے۔ بعض اختلافات کے ساتھ یہ درج ذیل مقامات پرنقل ہوئی ہے:
احمدبن حنبل، رقم ۱۹۰۱۵۔ عبدالرزاق، رقم ۱۹۸۹۷، ۱۹۹۰۵۔
۱۸۔عبدالرزاق، رقم ۱۹۸۹۷میں ’فمن بغی لہا العواثر‘(جوکوئی ان کی ہلاکت چا ہے گا)کے بجائے ’فمن أرادہا أو بغاہا العواثر‘(جو کوئی ان کی ہلاکت چا ہے گا یااس کی کوشش کر ے گا)کے الفاظ، جبکہ ابن ابی شیبہ، رقم ۳۲۳۸۳میں ’فمن بغی لہم العواثر‘(جوان کی ہلاکت چا ہے گا)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
۱۹۔عبدالرزاق، رقم ۱۹۸۹۷میں ’أکبہ اللّٰہ‘(اللہ اسے الٹا گرادے گا)کے بجائے ان کے ہم معنی الفاظ ’کبہ اللّٰہ‘ نقل ہوئے ہیں۔
۲۰۔عبدالرزاق، رقم ۱۹۸۹۷میں ’لوجہہ‘(اس کے منہ پر)کے بجائے ’لمنخرہ‘( اس کے نتھنوں پر)کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔
عبدالرزاق، رقم۱۹۹۰۵کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من یہن قریشا یہنہ اللّٰہ.
’’جو قریش کی توہین کرے، اللہ اس کی توہین کرے گا۔‘‘
تخریج : محمد اسلم نجمی
کوکب شہزاد
ترجمہ و ترتیب : اظہار احمد
___________