اس فصل میں ہم ان نفسیاتی محرکات کا ذکر کریں گے ، جو ہمیں بدگمانی پر ابھارتے ہیں۔ ان محرکات کو جان کر ہمیں یہ فائدہ ہو گا کہ ہم یہ سمجھ سکیں گے کہ ہمارے گمان کس قدر خودساختہ ہوتے ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
دوسرے یہ کہ ہم ان مواقع سے بھی واقف ہو جائیں گے ، جن میں ہم گمانوں کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ واقفیت ہمیں ان مواقع پر خبردار کرے گی ، جس کی وجہ سے ہم چوکنے ہو کر گمانوں سے بچ سکیں گے۔
یہ انسانی ذہن کا خاصہ ہے کہ وہ سوچتا ہے۔اس کی سوچ کے دائروں میں سب سے مرغوب عمل چیزوں کو سبب اور مسبب، چھوٹے اور بڑے، اصل اور فرع اور اس طرح کے کئی رشتوں میں جوڑنا ہے۔دنیا کا ہر انسان چیزوں کے مابین یہ رشتے بناتا اور توڑتا رہتاہے۔ اگر آدمی کی سوچیں بلند نہ ہوں تو پھر وہ حقیر اور فضول چیزوں میں یہی کام کرے گا۔ مثلاً فلم بین فلمی کہانیوں پر اس طرح کی گفتگو اپنے اور اپنے دوستوں کے ساتھ کرتا رہے گا۔ اوراگر آدمی عام دنیوی امور جیسے کاروبار یاگھر چلانے جیسی عملی سوچیں بھی نہ رکھتاہو، تو پھر اس کا ذہن لوگوں کے محرکات و اعمال کی سوچوں میں گم رہے گا۔ ان کے جملوں ، تبصروں اور حرکات و سکنات پر وہ یہ عمل کرتا رہے گا۔ چنانچہ اس کی سوچوں کا محور یہ گمان ہوں گے۔وہ ہر عمل کا سبب ڈھونڈے گا، وہ اس کے محرکات تک پہنچے گا اور پھر ان گمانوں پر اپنے ذہن رسا کو داد دے گا کہ میں نے یہ بہت اعلیٰ نتیجہ نکالا ہے۔اور خود ہی بلا ثبوت دوسروں کو مجرم بناتا رہے گا۔
یہاں یہ واضح رہے کہ محض جسمانی کام ذہن کو ان سوچوں سے نہیں روکتا۔ آپ گاڑی چلا رہے ہوں،کھانا پکا رہے ہوں، یا کچھ اور اس طرح کا کام جس میں ذہن کا استعمال محض سرسری سا ہو تو ذہن ایسے کاموں کے موقع پر بھی چلتا رہتا ہے۔اور آپ کہانیوں پر کہانیاں سوچتے چلے جاتے ہیں۔ ذہن کویہ صلاحیت اللہ تعالیٰ نے تخلیقی عمل کے لیے دی ہے۔ ہم تجزیات کریں، حقائق کو جانیں ان پر غور کریں اور سبب اور مسبب کے رشتے تلاش کرتے کرتے خدا کو دریافت کریں، خدا کی اس کائنات میں سے اپنے لیے مفید مطلب چیزیں اور اصول ڈھونڈیں، جو ہمارے لیے نور اور روشنی بنیں ، اور ہم خدا کو پہچان سکیں اور اس دنیا کی حقیقت جان سکیں۔ لیکن ہم اپنی اس صلاحیت کو نہایت ہی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں صرف کرکے ضائع کردیتے ہیں۔
ان صلاحیتوں کو صحیح رخ پر لگانے کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا چاہیے وہ ہم بدگمانی سے بچنے کے طریقوں پر گفتگو کرتے ہوئے بتائیں گے۔ یہاں بس اتنا جان لیجیے کہ اللہ نے آپ کو ایک تیز، باصلاحیت ذہن دیا ہے، جسے آپ کو اعلیٰ اور مفید کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔
دماغ کی اسی فعالیت کا ایک دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ چونکہ اللہ نے ہمیں اس طرح سے بنایا ہے کہ ہم تجربات سے اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں، پھر ان اضافوں کا ہمارا ذہن تجزیہ کرتا اور ان کے اصول بناتا ہے کہ یہ اس وجہ سے ہوا اور وہ اس وجہ سے وغیرہ ۔چنانچہ ایک ہی ماں کے گھر پیدا ہونے والے بچے اپنے تجربات کے مختلف ہونے کی وجہ سے مختلف چیزیں سیکھتے چلے جاتے ہیں۔ذہن جو کچھ سیکھتا ہے، پھر اسی کے مطابق ہمیں مشورے دیتا ہے۔ مثلاً موٹر مکینک کی گاڑی خراب ہو تو اس کا ذہن اسے کچھ اور بتائے گا اور ہمارا ذہن ہمیں کچھ اور۔ ٹھیک ایسے ہی خدا سے اچھی طرح واقف اوراس کی صفات اور سنن کو جاننے والے کا ذہن رنج و غم میں اور طرح سے چلے گا اور ان چیزوں سے ناواقف آدمی کا ذہن اور طرح سے۔
میں نے یہ بات اس لیے کی ہے کہ بدگمانی کرنے والے کا ذہن اور طرح سے چلے گا اور بدگمانی نہ کرنے والے کا ذہن کچھ اور طرح سے۔چنانچہ بدگمانی کرنے والے نے اپنے گمانوں کے ذریعے سے جو ذہن دوسروں کے بارے میں بنا رکھا ہو گاوہ اس کے مطابق آپ کو رویہ اپنانے کا مشورہ دے گا۔ اگر آپ نے اس کے بارے میں کوئی برا گمان کر رکھا ہے تومثلاً ہو سکتا ہے کہ آپ اس سے خندہ پیشانی سے نہ ملیں۔ اس لیے کہ آپ کے گمانوں نے آپ کے دل کو اس کے بارے میں میلا کررکھا ہو گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنے ذہن کی اس فعالیت کو قابو میں رکھا جائے۔ اور خواہ مخواہ، بلابنیاد اور اپنے ہی خیالات پر مبنی آرا دوسروں کے بارے میں قائم نہ کریں اور نہ ذہن کو ایسے کاموں میں فعال ہونے دیں ورنہ وہ اسی سمت میں چلتا رہے گا۔ اور آپ کے اخلاق پر اثر انداز ہو کر آپ کو جہنمی بنا دے گا۔
گمان کے نفسیاتی محرکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی دوسروں کے بارے میں اس وقت بدگمانی کرتا ہے ، جب اسے ان سے نقصان پہنچے اور وہ غم و غصہ کا شکار ہو۔ غم اور غصہ ایک عام سی چیز ہے۔ مگر نفس کا شیطان اس غم و غصہ کی تسکین کے لیے ہمیں اس شخص کے بارے میں سوچنے پر ابھارتا ہے۔ ہم دل ہی دل میں اس کے فعل کے محرکات کو متعین کرنے لگ جاتے ہیں۔
چونکہ ہم غصہ میں اور اپنے نقصان پر غم زدہ ہوتے ہیں ،اس لیے عموماً اسی غم و غصہ کے تحت رائے بنا لیتے ہیں۔ حالانکہ اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ اس شخص نے وہ کام اس محرک کے تحت نہ کیا ہو۔ہم ایک مثال لیتے ہیں۔ عام طور سے اگر کسی سے ہمارا نقصان ہو جائے تو ہم اسے ایک انسانی غلطی ماننے کے بجائے فوراً یہ تبصرہ دل میں یا کسی کے سامنے ضرور کردیتے ہیں کہ میرا پیسا تھا اسے اس کی کیا پروا!یہ بظاہر ایک بے ضرر معمولی سا تبصرہ ہے، مگر حقیقت میں دیکھیں تویہ ایک بدگمانی ہے۔اس کے اثرات سنگین ہیں۔ یہ آپ کے اگلے رویوں کو متعین کردے گا۔ یہ بات آپ کو اس وقت تک نہیں کہنی چاہیے جب تک آپ کو اس کی باتوں اور اس کے عمل سے معلوم نہ ہو جائے کہ یہ غلطی اس نے بشری کمزوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس وجہ سے کی ہے کہ یہ پیسا اس کا نہیں آپ کا تھااوراپنے پیسے کے بارے میں وہ قطعی ایسا نہ کرتا۔
یہ نقصان اور رنج ہی سے پیدا ہوتا ہے، مگر یہ نقصان مال اور پیسے کا نہیں، بلکہ یہ وہ نقصان ہے جو آپ کی شخصیت کو لاحق ہوتا ہے ۔ کوئی آپ سے آگے بڑھ رہا ہے، کوئی آپ سے جیت رہا ہے۔ کوئی آپ سے زیادہ اچھا سمجھا جاتا ہے، کوئی خوب صورت زیادہ ہے۔ غرض بہت سارے پہلو ایسے ہیں، جن میں آپ حسد کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ حسد بدگمانی پیدا کرنے میں سب سے زیادہ موثر شیطان ہے۔یہ نیک سے نیک آدمی کے بارے میں آپ کی رائے بگاڑ کر رکھ دے گا۔اس کی ہر کامیابی کو آپ اپنے خلاف ایک سازش سمجھنے لگیں گے۔ یا اس کی کامیابی کو اس کی چال بازی کا مرہون منت قرار دیں گے۔ کبھی دوسروں کے بارے میں جو اس شخص کو پسند کرتے ہیں، کوئی منفی تبصرہ کردیں گے۔
یہ باتیں حسد کی صورت میں آپ کے دل کو سکون پہنچائیں گی۔ آپ ایسا سوچ کر دراصل اسے اپنی نظروں میں اس مقام سے گرائیں گے، جو اسے دنیا میں ملا، اس طرح آپ نے اپنے لیے جھوٹی تسکین حاصل کرلی۔لیکن درحقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہوا کہ آپ نے اس کے بارے میں کچھ گمان اور خیال دل ہی دل میں باندھے ہیں۔
ایک طرف آپ ایک رنج کا شکارہوئے ہیں اور دوسری طرف آپ بدگمانی سے خدا کی نظروں میں برے بن رہے ہیں۔ حسد اگر ان چیزوں میں پیدا ہوا جو دوسرے شخص کو اللہ نے دی ہیں تو اس میں اس شخص کا کوئی قصور نہیں ہے۔ مثلاً بولنے کی صلاحیت، شکل و صورت، خاندان، قد کاٹھ اور دولت وغیرہ۔ اگر وہ چیز یں ایسی ہیں جو اس نے اپنی محنت سے کمائی ہیں تواس میں ضروری نہیں ہے کہ آپ کو نقصان پہنچانے کے لیے ایسا کیا ہو۔ آپ کے لیے ان چیزوں میں جو اس نے اپنی محنت سے کمائی ہیں، دو طرح کی ہوں گی۔ ایک وہ جنھیں آپ بھی حاصل کرسکتے ہیں، اور دوسرے وہ جنھیں آپ حاصل نہیں کرسکتے۔
چنانچہ جو چیزیں آپ حاصل کر سکتے ہیں اسے حسد کا شکار ہوئے بغیر حاصل کریں، اوروہ چیزیں جو آپ حاصل نہیں کرسکتے تو کیا ہوا ا س کے لیے بھی بہت سی ایسی چیزیں ہوں گی جو اللہ نے آپ کو دی ہوں گی ،مگر اس کے پاس نہیں ہوں گی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ ان چیزوں میں ترقی کریں، جو اللہ نے آپ کو دی ہیں اور اس کا حسد ترک کردیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ یہ جائزہ لیں کہ کہیں آپ نے مقابلے کا میدان تو غلط متعین نہیں کرلیا ہے۔ یعنی جس سے آپ حسد کررہے ہیں، وہ میدان تجارت کی صلاحیتیں لے کر پیدا ہوا، مگر آپ میدان سیاست کے آدمی تھے، لیکن تجارت کے میدان میں قوت آزمائی کرنے لگے ہیں، تو جان لیجیے کہ آپ کبھی اس کے مقابلے میں پورے نہیں اتر سکتے۔اس صورت میں آپ کو اپنی شخصیت کا جائزہ لینا ہو گا۔ اور اپنی طبیعت اورمزاج کے مطابق میدا ن زندگی منتخب کرناہوگا۔
اور اگر آپ کسی وجہ سے یہ میدان نہیں چھوڑ سکتے تو پھر صبر کے ساتھ حسد سے نکل کر ہنسی خوشی رہنا ہوگا۔ ورنہ آپ دوسرے نقصانات کے ساتھ ساتھ بدگمانیوں کے چکروں میں ایسے الجھیں گے کہ جو کچھ آپ کرسکتے تھے وہ بھی نہیں کرپائیں گے۔ اور اسی طرح یہ چیز آپ کو کبھی اس شخص سے استفادہ کرنے کے قابل نہیں رہنے دے گی۔ جس کے نتیجے میں آپ اس کی خدا دادصلاحیتوں سے فائداٹھانے سے محروم رہ جائیں گے وغیرہ۔
یہود کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پرحسد پیدا ہوااور اس حسد میں وہ بڑھتے چلے گئے ۔ اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وہ خدا کے مقرب ترین فرشتے حضرت جبرائیل امین کے بارے میں بدگمانیاں کرنے لگے کہ یہ ہمارا دشمن ہے اس نے جان بوجھ کر عربوں کے ایک آدمی کو نبوت دے دی ہے۔
اس کے نتیجے میں وہ نہ صرف ان فوائد سے محروم ہوئے جو انھیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہو کر ملتے ، بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے اس نعمت سے محروم ہو گئے، جو ان کے لیے نجات کا ذریعہ بنتی۔
بدگمانی کا ایک اور سبب تکبر بھی ہے۔ تکبر کے معنی اپنے آپ کو دوسروں کے مقابل میں برتر و بالا سمجھنا اور انھیں حقیر سمجھنا ہے۔یہ دوسرا حصہ بدگمانی کی بنیاد بنتا ہے۔دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا، یہ بہت سارے برے گمانوں کو پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طورپر بعض بزرگ، جو محض اپنے آپ کو اچھے معنی میں بھی بڑا سمجھنے کی بنا پر (یعنی تکبر نہ بھی ہو، مگر اپنے آپ کو عمر وغیرہ میں بڑا سمجھ لینے والے بھی )اس طرح کی بدگمانیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی ان سے ملنے نہ جائے تو وہ اسے اس کے کسی منفی جذبے سے تعبیر کریں گے۔ جیسے وہ کہیں گے :’’وہ بڑا بنتا ہے‘‘ یا ’’اسے میری قدر نہیں ہے ‘‘وغیرہ ۔حالانکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے کوئی اور ہی مسائل ہوں ، جن کی وجہ سے وہ نہ آرہا ہو۔
ماں باپ ، بزرگ اعزہ ،اساتذہ اور وہ لوگ جو کسی نہ کسی معنی میں دوسروں سے بڑے ہوں، تو ان کو یہ شکایات بالعموم پیدا ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ یہ محض ان کے گمان ہوتے ہیں۔ جب ایک مثبت سطح کی حقیقی بڑائی بد گمانیوں کے اتنے گمان پیدا کرسکتی ہے تو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تکبر میں مبتلا شخص کس درجے میں اس مرض کا شکارہوگا۔
تکبر ایسا مرض ہے کہ اس کے بعد آدمی دوسروں کو حقارت سے دیکھنے لگتا ہے۔ ان کے عمل کی خوبی، ان کی نیک نیتی ، ان کی سیرت کی برتری ،سب ایسے شخص کے ہاں بے معنی قرار پاتی ہیں۔وہ ہمیشہ ان کے اعمال کو بری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ ان کی خدمت کررہے ہوں ، تو یہ مطلب پرستی ہوتی ہے، وہ اس سے اختلاف کررہے ہوں تو یہ ان کی کند ذہنی ہوتی ہے وغیرہ۔
مثلاًنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت غریبوں میں پھیلتی ہے تو سرداران قریش کے تکبرکو یہ چیز آپ کی دعوت کی کم تری کا ثبوت لگتی ہے۔ چنانچہ ایسا آدمی ہر چیز کو تکبر کی نگاہ سے دیکھ کر اس کی حقارت ہی کا فیصلہ کرتا ہے اور یہی چیز بدگمانی کا سبب بن جاتی ہے۔
گمانوں کاشکار کرنے والا ایک محرک ہماری کمزوری بھی ہے۔خواہ وہ دوسروں کے مقابلے میں ہو، یا محض ہمارا ایک نقص ہو۔ مثلاً کوئی مرض،کوئی نقص ہمیں اس جگہ رکھ دیتا ہے کہ ہم وہموں اور گمانوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اچھے برے خیالات ہمارے ذہن پر حملہ آور ہوتے ہیں، اور ہم اپنی کمزوری کی بنا پر ان کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ مریض بالعموم اپنے گھر والوں سے الجھ رہے ہوتے ہیں کہ میری کسی کو پروا نہیں ہے ۔ حالانکہ ان کی تیمارداری پوری طرح کی جار ہی ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے مرض کی وجہ سے ایک کمزور حالت میں ہوتے ہیں۔ ان کی توقعات بڑھ جاتی ہیں۔ دوسروں پر ان کاانحصار زیادہ ہو جاتاہے۔یہ محتاجی انھیں دوسروں کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کرتی ہے۔ چنانچہ انھیں اپنی طرف دوسروں کا عدم التفات ایک برا سلوک دکھائی دیتا ہے۔اور وہ ان کے بارے میں برا سوچنے لگ جاتے ہیں۔اس لیے اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ جو اس محتاجی میں آپ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کے اپنے بھی کام ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی ذات کے بھی
جو لوگ دھوکا ،حیلہ بازی اور مکر و فریب کے عادی ہوتے ہیں۔ وہ دوسروں کے بارے میں بھی یہی سوچتے ہیں کہ یہ لوگ بھی انھی وجوہات سے ایسا کرتے ہیں ، جن کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ ہم ایسے بہت سے لوگوں سے ملیں گے کہ وہ دوسروں کے بارے میں ایسے عجیب و غریب تبصرے کرتے دکھائی دیں گے کہ آدمی دنگ رہ جائے۔
ان تبصروں کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ ان کا اپنا سوچنے کا انداز ایسا ہوتاہے۔ وہ اپنی مطلب براری کے لیے کہیں خوشامد کررہے ہوں گے تو کہیں دھوکا و فریب کی بساط بچھا رہے ہوں گے۔ اس لیے جب دوسروں کو کسی کی تعریف کرتے دیکھیں گے تو انھیں گمان ہو گا کہ وہ خوشامد کررہا ہے۔ سارے لوگ ایسے نہیں ہوتے، ان کے جینے کا طریقہ لازم نہیں کہ آپ جیسا ہو۔ان کے مطلب براری کے گر ضروری نہیں کہ وہی ہوں جو آپ اختیار کرتے ہیں۔
یہ اگر چہ خالص نفسیاتی محرک نہیں ہے ،مگر یہ حقیقت ہے کہ اکثر معاملات میں اوپر کے تمام اسباب و محرکات جو میں نے بیان کیے ہیں، وہ صرف اس وجہ سے عمل میں آتے ہیں کہ ان کے پیچھے ہماری غلط فہمی کارفرماہوتی ہے۔یعنی غلط فہمی اوپر کے تمام نفسیاتی محرکات کو جگا دینے کا باعث بن جاتی ہے۔
غلط فہمی یہ ہے کہ ہم اپنے کسی بھائی کے کسی قول یا عمل کو غلط سمجھ لیتے ہیں۔ جس کی کچھ مثالیں اوپر گزری ہیں۔ بعض اوقات آپ محض مذاق کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ دوسرے کے لیے طعنہ بن جاتا ہے۔ آپ ایک تنقید کرکے اصلاح کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں ،مگر وہ دوسرے کے لیے تکلیف دہ اہانت بن جاتی ہے۔ یہ سب اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آپ کی بات کو صحیح نہیں سمجھا گیا ہوتا۔اس کے اسباب کئی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً آپ کے الفاظ صحیح نہیں تھے، یا آپ کا لہجہ غلط تھا، یا آپ نے جو موقع اس بات کے لیے منتخب کیا وہ درست نہیں تھا، یا جو موضوع آپ نے چھیڑا وہ اس کے اور آپ کے تعلق کے لحاظ سے موزوں نہ تھا، غرض اس غلط فہمی کے پیدا کرنے کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔
اس لیے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم نے یہ سوال چھیڑ کر غلطی تو نہیں کی، اور اس کے رویے کی غلطی کو دیکھ کرمعافی مانگنی چاہیے۔ اس لیے کہ اگر اس کا رویہ خراب ہوا ہے تو اس میں ہمارا قصور بھی ہے۔ اسی طرح جس کو غلط فہمی ہوئی ہے اس کو بھی یہ خیال کرنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ شخص میری برائی ہی کررہا ہو۔ یہ میرا خیر خواہ بھی ہو سکتاہے۔
خوف بھی گمانوں کا محرک ہے ۔ آدمی جب اپنے آپ کو خطرے میں پاتا ہے تو طرح طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں۔ وہ ان لوگوں کے اقدامات کا جائزہ لیتا ہے جن کے ذریعے سے اس کو خیال ہوتا ہے کہ وہ اس مشکل میں پھنسا ہے اور پھر ان کے بارے میں طرح طرح کے خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں۔ سورۂ احزاب میں منافقین کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ غزوۂ احزاب نے کس طرح منافقین کے دلوں میں بدگمانیوں پر بدگمانیاں پیدا کیں کہ وہ اللہ کے بارے میں بھی برے گمان دل میں پالنے لگے(۳۳: ۱۰)۔
انسان کیا ہے؟
بدگمانی سے بچنے کا طریقہ جاننے سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ انسان کیا ہے۔انسان قرآن مجید کی روشنی میں کسی شیطان کا تخلیق کردہ نہیں ہے۔ اسے خالق کائنات نے وجود بخشا ہے۔ جو منبع خیر و صلاح ہے۔اس اعتبار سے سب انسان ایک ہی خالق کی مخلوق اور اس کی دی ہوئی فطرت پر بنائے گئے ہیں ۔
قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب انسان اچھے ہیں۔ان کے خمیر میں نیکی اور خیر و صلاح رکھی گئی ہے۔ کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں ہے جس کی سرشت میں شیطنت ہو۔ نہ کوئی انسان فتنہ و فساد کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔سب کو ایک جیسی صفات دی گئی ہیں۔ البتہ آزمایش کے لیے مزاج مختلف رکھے گئے ہیں۔ مثلاً غصہ سب میں ہے ،مگر کسی میں زیادہ ہے اور کسی میں کم۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ آدمی برا ہے۔ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما میں غصہ اور نرمی کا فرق نمایا ں تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ غصہ کی وجہ سے برے تھے۔ یہ صرف ان کے لیے آزمایش تھی جس میں وہ کامیاب ہوئے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نرمی ان کے لیے آزمایش تھی وہ بھی اس میں کامیاب ہوئے۔ انھوں نے غصہ کو حق کے لیے استعمال کیا، اور باطل کے خلاف فاروق بن گئے اور انھوں نے نرمی کو حق کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا اور صدیق کہلائے۔
بس سب انسانوں کا یہی معاملہ ہے ان کو سب کچھ دیا گیا ہے، مگر مقدار کا فرق ہے تاکہ ان کو آزمایا جائے۔ یہ آزمایش مزاج کی ان کم و بیش صلاحیتیوں کے ساتھ حق پر قائم رہنے اور اس پر عمل کرنے کی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ کسی انسان کو شر زیادہ دے دیا گیا ہو۔ یا اسے خیر اور فطرت سے بالکل خالی رکھا گیا ہو۔اس لیے کسی انسان کے بارے میں یہ خیال تو سرے سے ہی غلط ہے کہ ’’وہ تو ہے ہی شیطان‘‘ اس لیے کہ یہ سب رحمن کے تخلیق کردہ ہیں۔ ان کے اندر بھی نیکی ہوگی، مگر بس کبھی دب جاتی ہے۔
اس بات کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو خیرکی کیا کیا چیزیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں۔ اس تفصیل سے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مدد ملے گی کہ انسان دراصل خیر کے لیے پیدا کیا گیا۔ اور اسے نیکی کا سبق کبھی بھولتا نہیں ہے۔ یہ بس وقتی اشتعال یا جذبہ کی تحریک ہوتی ہے جو کبھی تھوڑی اور کبھی طویل مدت کے لیے انسان کو بھٹکا دیتی ہے۔
دنیا میں جتنے انسان پیدا ہوتے ہیں وہ فطرت پر پیدا ہوتے ہیں۔ وہ دین قیم کا سبق لے کر آتے ہیں۔ اس فطرت میں بنیادی چیز توحید اوراس کی بندگی ہے ۔یہی فطرت انسان کے مذہبی شعور کو وجود بخشتی ہے۔ ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اس فطرت کے مطابق جو دین ہو اس کو اختیار کریں اور اس میں تبدیلی کرنے سے گریزاں رہیں۔قرآن مجید کا فرمان ہے:
فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا، فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا، لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ، ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ، وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ. (الروم۳۰: ۳۰)
’’بس تم اپنا رخ، یکسو ہو کر ،اللہ کے دین کی طرف پھیر لو۔ اس فطرت کی پیروی کرو ، جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو بگاڑنا جائز نہیں ہے۔ یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘
یہ نہایت اہم اطلاع ہے ۔ ہمیں سب انسانوں کے بارے میں یہاں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ شر پر تخلیق نہیں کیے گئے ہیں ،بلکہ ان کی تخلیق میں خیر کو بنیادی جوہر اور فطرت کی حیثیت حاصل ہے۔دین قیم ان کے اندر موجود ہے۔ اس سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سب انسانوں میں، خواہ وہ پاکستانی ہوں یا ہندوستانی، مسلمان ہوں یا یہودی و عیسائی، ہندو ہوں یا مجوسی و پارسی یہ سب جب پیدا ہوئے تھے ، تو سب کو یہی فطرت عطا کرکے پیدا کیا گیا تھا۔ نہ کوئی کافر تھا اور نہ کوئی مشرک، سب کے پاس ایک ہی دین تھا ۔ لیکن جیسے جیسے ہم بڑے ہوئے ہم مسلمانوں نے اسلام کے رسوم و مناسک سیکھ لیے اور یہودیوں ،ہندووں اور نصرانیوں وغیرہ نے اپنے اپنے دین کے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب ان کی فطرت ان کے ساتھ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انبیا و صالحین کے ہاتھوں کوئی ایمان نہ لاتا ۔ ماحول مشرکانہ ہو، یا بداخلاقی سے بھرا ہوا یہ فطرت ہر شخص میں موجود رہتی اور اسے صلاح و خیر پر رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ایک ہندو، عیسائی اور یہودی ،بے دین اور دین دار ،ملحد اور موحد سب کے پاس یہ فطرت موجود ہوتی ہے۔ اسی کے مطابق چلنا نیکی و ہدایت ہے اور اس کی خلاف ورزی بے راہ روی اورگم راہی ہے۔ اس فطرت کے کچھ اجزا ہیں۔ ان کی تفصیل ہم ذیل میں کریں گے۔
یہ عہد اللہ نے ہم سے ہماری تخلیق کے بعد ہمیں دنیا میں بھیجنے سے پہلے لیا ۔ قرآن مجید نے اس عہد الست کو یوں بیان کیا ہے:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ، مِنْ ظُہُوْرِہِمْ، ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلیٰٓ اَنْفُسِہِمْ: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰی، شَہِدْنَا، اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ: اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ، اَوْ تَقُوْلُوْٓا: اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ، وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ، اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ. (الاعراف۷: ۱۷۲۔۱۷۳)
’’(اس بات کو یاد رکھ)جب تیرے رب نے بنی آدم سے ، (یعنی) ان کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو نکالا، انھیں خود ان کے اپنے اوپر گواہ ٹھہرایا(اور پوچھا:) کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟وہ بولے ہاں(توہمارا رب ہے)ہم اس پرگواہ ہیں۔(یہ ہم نے اس لیے کیا کہ) کہیں قیامت کو یہ کہو کہ ہم تو اس سے بے خبر ہی رہے۔یا یہ عذر کرو، پہلے ہمارے باپ دادا نے شرک کیا، اورہم ان کی اولاد تھے،( چنانچہ انھی کی پیروی کی)تو کیا تو ہمارے ان باطل پرست (آبا)کے جرم میں ہمیں بھی ہلاک کر ڈالے گا۔‘‘
یہ عہد فطرت انسانی کا ایک بڑا حصہ ہے جس کی وجہ سے یہ بات ہماری فطرت کا حصہ ہے کہ ہمارا ایک رب ہے۔ جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارا رب اور مخلوق کا رشتہ ہے۔ اور اس رشتے کا تقاضا ہے کہ ہم اس کو اپنا آقا و رب مانیں۔ وہ ہمارے گلہ کا رکھوالا ہے ،وہ ہمارا رازق و مالک ہے ۔ ہم اس کے اطاعت گزارو فرماں بردار ہیں۔اس کے تخلیق کردہ ہونے اور اس کے رب ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم اس کے وفا دار رہیں۔
ہماری فطرت میں اس عہدالست کے ذریعے سے توحید اور رب واحد کا تصور رکھ دیا گیا ہے۔اس بات میں مشرک و موحد سب یکساں ہیں۔ سب کے سینوں میں اصل سبق توحید ہی کا ہے۔ کوئی شخص پیدایشی طور پر مشرک و منکر نہیں ہے۔ یہ اس کے اپنے خیالات ہیں، یا خارجی عوامل ہیں، جن کے زیر اثر وہ مشرک بنتا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ یہاں فرما رہے ہیں کہ یہ فطرت اتنی صحیح اور قوی ہے کہ اس کے بعد یہ بہانہ سنا نہیں جائے گا کہ ہمارے آبا نے ایسا کیا تو ہم بھی گم راہ ہو گئے۔اس سے نتیجہ خود بخود نکل رہا ہے کہ دنیا کے سب انسان فطرت توحید پر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی اس معاملے میں ایسا نہیں ہے کہ جس کی سرشت میں شرک و بت پرستی اور اپنے رب سے بے وفائی رکھ دی گئی ہو۔
سورۂ دھر میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ، نَّبْتَلِیْہِ، فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا، اِنَّا ہَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوْرًا.(۷۶: ۲۔۳)
’’یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو ایک ملی ہوئی بوند سے پیدا کیا ہے۔ ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے، یہاں تک کہ ہم نے اسے دیکھنے اور سننے والا بنا دیا(اس طرح کہ) ہم نے اسے خیر و شر کی راہ سجھا دی، اب وہ چاہے شکر یا کفر کرے‘‘۔
اسی مضمون کو سورۂ شمس میں بھی بیان کیا گیا ہے:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰہَا، فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰہَا، قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا.(۹۱: ۷۔۹)
’’نفس اور اس کا سنوارا جانا جسے سنوارنے کے بعد نیکی و بدی کی راہ سجھا دی گئی، گواہی دیتا ہے کہ جس نے اس کو پاک رکھا وہ مراد کو پا گیا اور جس نے اسے آلودہ کیا، وہ نامراد ہوا۔‘‘
ان آیات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عہد الست کے علاوہ ہمارے نفس کو بناتے وقت اللہ تعالیٰ نے اس میں خیرو شر کا سبق بھی سکھا دیا ہے۔ ہماری فطرت کا دوسرا حصہ یہ خیر و شر کا شعور ہے۔پیدایش ہی کے وقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان دنیوی علوم کے ساتھ جو اس دنیا میں رہنے کے لیے ضروری تھے، یہ علم بھی سکھادیاکہ خیر کیا ہے اور شر کیا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کو خیر کا بھی علم ہے اور شر کا بھی۔ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے صرف شر ہی سکھایا گیا ہو۔ اور نہ کوئی ایسا ہے کہ اسے صرف خیر ہی پڑھایا گیا ہو۔ سب کو دونوں چیزوں کی بصیرت عطا کی گئی ہے تاکہ وہ خارجی ہدایت کے بغیر بھی نیکی کو جانتا ہو، اور اس کے اچھے ہونے سے واقف ہواور وہ بدی کو جانتا ہو اور اس کے برے ہونے سے واقف ہو۔ خیر و شر کے بارے میں ہمارا امتحان اسی بات پر ہے۔
اس فطرت کے اندر جیسا کہ ہم نے عرض کیا توحید اور خیر و شر کا علم ہمیں دیا گیا ہے۔عہد الست ہی کی طرح ایک عہد ہم سے امانت کا لیا گیا ہے۔تاکہ یہ بات بھی ہماری فطرت کا حصہ بن جائے کہ جو کچھ اقتدار ا ور حق تصرف ہمیں حاصل ہے وہ اللہ کی ودیعت کردہ امانت ہے جس کا جواب دہ ہمیں ہونا ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا، وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا، وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ، اِنَّہُ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا.(الاحزاب۳۳: ۷۲)
’’ہم نے اپنی امانت آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی، تو انھوں نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا، اور اس سے ڈرے اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بے شک وہ ستم ایجاد اور جذباتی ہے۔‘‘
اس امانت کے اٹھانے
کے بعد یہ چیز بھی ہماری فطرت کا حصہ بن چکی ہے کہ ہم نے خدا کو اس امانت کا حساب دینا ہے۔ یہ امانت خدا نے ہمیں دی ہے۔ وہ اسے واپس لے گا۔ تو اس کے استعمال کا ہم سے پوچھے گا۔ اس سوال کی کیفیت یہ ہے کہ ہمارے سمع و بصر ، دل و دماغ اور دیگر صلاحیتوں کے بارے میں بھی بازپرس ہونی ہے۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ أُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْؤُوْلاً. (بنی اسرائیل۱۷: ۳۶)
’’بلاشبہ تمھارے کانوں،آنکھوں اور دل،ان سب سے متعلق تم سے سوال ہو گا۔‘‘
یہ تینوں عہد معاہدے ہماری فطرت کی تشکیل کرتے ہیں۔ یعنی عہد الست، خیر وشر کا علم و شعوراور عہد امانت ہماری فطرت کا حصہ ہیں۔ دنیا کا کوئی شخص ان سے محروم و ناواقف نہیں ہے۔ کسی حقیر سی کٹیا میں پیدا ہونے والے بچے سے لے کرشاہی محلات میں پیدا ہونے والے بچے تک دنیاکا ہر شخص اس دولت سے مالا مال ہے۔ اسے خدا نے یہ ہدایات دے رکھی ہیں۔ کوئی شخص ان کے بغیر دنیا میں نہیں آتا۔ اسی فطرت کی آواز ہے کہ اوباش سے اوباش انسان بھی نیکی کی قدر کرتا۔ اور کم از کم دل میں اس کا احساس ضرور رکھتا ہے کہ یہ کوئی بہتر چیز ہے۔
قرآن کی یہ تعلیم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سب انسان اپنی سرشت میں نیک ہیں۔ اصل میں کوئی بھی فتنہ پسند اور برا نہیں ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ بات کسی طرح درست نہیں ہے کہ ہم انسانوں کے بارے میں، خواہ غیر مسلم ہوں، برے خیالات باندھیں اورانھیں بلاوجہ برا سمجھیں۔ اسی طرح غلطی کھانا ،انسان کی توجہ بٹنے اور بھول جانے سے متعلق ہے ۔ اس میں لازم نہیں ہے کہ آدمی برا تھا اس لیے اس نے برائی کرڈالی۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی کے ساتھ نیکی کرتے ہیں ، مگر دوسرے کو اس سے غصہ آجاتاہے۔
مثلاًآپ کسی کی مدد کررہے ہوں ، یا قرض ہی دے رہے ہوں اور آپ قرض دیتے وقت اس کے کسی جاننے والے کے سامنے یہ قرض دے دیں تو ہو سکتا ہے کہ قرض لینے والا اس کو پسند نہ کرے۔ مگر آپ کے دل میں بھی کوئی خیال نہ ہو کہ آپ لازماً اسی کے سامنے دینا چاہتے تھے تاکہ اسے اس کے جاننے والے کے سامنے خفت اٹھانے پر مجبور کریں۔یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آدمی اسی وقت آپ کے پاس آیا جب قرض لینے والے نے آنا تھا۔لیکن قرض والے کے ذہن میں اس قرض کے لیتے ہوئے اس کی غیرت و حمیت کا مسئلہ پیدا ہوگیا۔
میں نے یہ مثال اس لیے دی ہے کہ ہمارے سامنے یہ بات آئے کہ ہم سے یا دوسروں سے جب کوئی غلطی ہوجائے تو اس سے اس کا ناقص العقل ہونا، یا بدطینت و بدنیت ہونا ثابت نہیں ہوتا۔اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ آدمی معصومیت میں ایسی غلطی کر جاتا ہے جس سے ہمیں ایسا نقصان ہو سکتاہے ، جبکہ غلطی کرنے والے کی نیت نقصان پہنچانے کی نہ ہو۔
اس لیے گمانوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ یقین رکھیں کہ سب انسان اچھے ہیں۔ ان سے اکثر جذبات، بے علمی اورنسیان و خطا سے غلطی ہوتی ہے ۔ وہ اپنی سرشت میں برے نہیں ہیں۔
اوپر کی بحث سے یہ بات واضح ہے کہ انسان اصل میں نیک اور صالح ہے۔ جب تک کہ اس کی برائی ٹھوس دلائل سے ثابت نہ ہو جائے۔اس روشنی میں قرآن مجید کا ہم سے مطالبہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں بری بات سامنے آنے کے باوجود اسے دل میں کوئی جگہ نہ دیں۔ اس سے کھلے عام برأت کا اظہار کریں۔ یہ اعلان ہر مومن کے بارے میں ہونا چاہیے ۔ اور اس وقت تک ہونا چاہیے جب تک اس کی نیکی ہم پر ظاہر اور اس کی بدی ہم پر پوشیدہ ہے۔ سورۂ نور میں قرآن مجید کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وْ بِالْاِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ،لَا تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَکُمْ، بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ، لِکُلِّ امْرِیئ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِثْمِ، وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیْمٌ، لَوْ لَآ إِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِاَنْفُسِہِمْ خَیْرًا، وَّقَالُوْا ہَذَآ إِفْکٌ مُّبِیْنٌ.(۲۴: ۱۰۔۱۲)
’’جولوگ بہتان گھڑ لائے ہیں، وہ تمھارے ہی اندر کاایک گروہ ہے۔تم اس (فتنۂ افک) کو اپنے لیے برا خیال نہ کرو، یہ توتمھارے لیے بہت اچھا ہے، ان میں سے ہر ایک نے جو گناہ کمایا ،وہ اس کے حساب میں پڑا، اور اس فتنے کے سرخیل کے لیے تو بہت بڑی سزا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے یہ بات سنی ، تو مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے بارے میں نیک گمان کرتے، اور کہہ دیتے ہیںیہ تو صریح بہتان ہے، (ہم اس میں شریک نہیں ہوسکتے)۔‘‘
پہلی بات جو اس آیت سے معلوم ہو رہی ہے کہ دوسروں کے بارے میں دل میں برے خیال لانا تو درکناراگر کوئی اور شخص بھی کسی کے بارے میں بری بات آپ کے کان میں ڈالے تو قرآن کہتا ہے کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم سب سے پہلے یہ کام کریں کہ ہم اپنے بہن بھائی جن کے بارے میں بھی وہ بات کہی جارہی ہے اس سے دل میں برا خیال لانے کے بجائے اچھا خیال لائیں۔
دوسرے یہ کہ قرآن نے’ بانفسہم‘ کے الفاظ سے یہ بات نمایا ں کی ہے کہ تم ان میں سے ہو وہ تم میں سے ہیں۔ تو ایک دوسرے کے بارے میں ایسا کرنے کا مطلب ہے کہ تم اصل میں خود اپنے بارے میں ایسا کر رہے ہو۔ مومنین ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں۔ حدیث کے مطابق سب مومن ایسے ہیں ،جیسے ایک جسم کے اجزا، ایک کی تکلیف سب کی تکلیف ہے اسی طرح ایک کی برائی سب کی برائی ہے ۔ہم مسلمانوں کو یک جان ہو کر رہنا چاہیے ۔ اس لیے کہ اگرآج آپ کے سامنے کسی پر الزام لگا ہے تو کل آپ پر لگے گا۔
تیسرے یہ کہ اس طرح کی کسی بات میں جو ثابت شدہ نہیں ہے ، اس میں شریک ہونا بہتان لگانے میں شریک ہونا ہے۔ اس لیے بندۂ مومن کو فوراً اس سے گریز کرنا چاہیے اور اس بات کا اعلان کرنا چاہیے کہ کسی بندۂ مومن کے بارے میں یوں کہنا الزام لگانا ہے ۔ اس لیے میں تمھاری بات میں شریک نہیں ہو سکتا۔
ہرمسلمان کے ساتھ اصل میں ہمارا تعلق یہی ہے کہ وہ اصل میں نیک ہے اور برائی سے پاک ہے ۔ اگر اس کی برائی ثابت ہو گئی ہے تو پھر الگ بات ہے، مگر جب تک برائی ثبوت کے درجے تک نہیں پہنچی اس وقت تک کسی کے بارے میں ایسا سوچنا بدگمانی ہے اور اس کا منہ سے کہہ دینا بہتان ہے۔ یہ دونوں عمل آپ کے حساب میں مندرجہ بالا آیت کے مطابق گناہ کا اضافہ کردیں گے۔
اوپر ہم نے بنیادی مطالبہ کا ذکر کیا ہے، تاکہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ بدگمانی اصل میں کیا ہے، اور دین نے ہمیں اس سے روکا ہے ۔ یعنی ہر انسان بنیادی طور پر اچھاسمجھا جانا چاہیے اوردوسروں کواپنے دل میں یا دوسرے کے سامنے علانیہ برائی کی نسبت دینا گناہ ہے۔اس سے بچ کر رہنا لازم ہے ۔ آیندہ سطور میں ہم ان طریقوں کا ذکر کریں گے جو ہمیں بدگمانی سے بچانے میں مدد دیں گے۔ان طریقوں کو ہم نے دو قسموں میں تقسیم کیا ہے تاکہ بات کو سمجھنا اور آسان ہو جائے:
۱۔ نظری طریقے
۲۔ عملی طریقے
اوپر کی ساری بحث جو ہم نے کی ہے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ ہمارے بہن بھائی، دوست احباب، عزیزو اقارب، قرب و جوار میں رہنے والے سب لوگ ہمارے ساتھ جتنے معاملات کرتے ہیں ۔ ان کو ہم خیرپر محمول کریں۔ اپنے ذہن میں ان کی اچھی توجیہہ کریںیعنی یہ سوچیں کہ میرے بھائی نے یہ کام ، یہ بات ، یہ عمل ،یہ حرکت کسی اچھی وجہ سے کی ہو گی۔اس کا سبب اچھا ہوگا۔
ہمیں یہ اپنی عادت بنا لینی چاہیے کہ ہم ہر کام کی اچھی توجیہہ کریں۔ کسی عارف کا قول ہے کہ کسی کے کام کی بری توجیہہ کے سو امکان ہوں اور اس کی اچھی توجیہہ کا ایک امکان ہوتو تب بھی اچھی توجیہہ ہی کرنی چاہیے۔ہمارے شب و روز میں چند واقعات ہی ایسے ہوتے ہیں، جو ہمیں دوسروں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ تو ان کے بارے میں فوراً سوچ کر یہ فیصلہ کریں کہ یہ یقیناًاچھے مقصد ہی کے لیے کیا گیا ہوگا۔
چنانچہ ہمیں اپنے ارد گرد رہنے والوں کے تمام
۱۔ اقوال(باتیں اور تبصرے)
۲۔افعال(کاموں)
۳۔اشارات(اشارہ بازی)
کو اچھے معنی میں لینا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو یہیں سے بدگمانی کا عمل شروع ہوگا۔اگرچہ ہم سب کو بات کرتے وقت، حرکات و افعال اور اشارے کرتے وقت اس بات کا پورا خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کے لیے اس میں خرابی نہ ہو۔لیکن جس نے وہ اشارہ برا محسوس کیا ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اسے اچھے معنی میں لے۔
ہمارے ساتھیوں اور رشتہ داروں سے جو کچھ صادر ہوتاہے اگر وہ برائی بھی کررہا ہے تو آپ کی اچھی توجیہہ سے اس کی برائی ختم ہو جائے گی۔آپ کی تکلیف کم ہو جائے گی اور اس کی برائی بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔مثلاً اس نے اگر آپ کو چڑانے کے لیے ایسا کیا ہے ، مگر آپ نے اس کی توجیہہ اچھی کر لی ہے تو اس کی شرارت ناکام ہو جائے گی۔
غلطی سب سے ہوتی ہے ۔قرآن مجید میں آیا ہے کہ’ خلق الانسان ضعیفا‘،’’ انسان کو کمزور تخلیق کیا گیا ہے۔‘‘ یہ کمزوری اس کے اندر اس لیے رکھی گئی ہے کہ وہ اکڑکر خدا بننے کی کوشش نہ کرے۔ تکبر میں مبتلا نہ ہو، خدا کے سہارے کو تلاش کرے۔ مگر اسی وصف کی بنا پر اس سے غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ ہم سب غلطی کرتے ہیں۔ ہمارے ساتھ یہ اکثر ہوتا ہے کہ ہم ہم دردی جتانا چاہتے تھے ،مگر اس ہم دردی کے اظہار میں لفظوں کا غلط انتخاب ہو جاتا ہے۔ جس سے وہ آدمی ناراض ہوجاتا ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ سب غلطیا ں کرتے ہیں۔ اس لیے جب کسی کی کوئی بات بری لگے تو اس کی ایک وجہ محض یہ بھی ہوتی ہے کہ اس سے غلطی سے ایسا ہواہو۔ ہر چیزجو ہمیں تکلیف دیتی ہے لازم نہیں ہے کہ وہ دوسرے نے ہمیں تکلیف دینے ہی کے لیے کی ہو۔ اس میں سو فی صد امکانات اس بات کے ہوتے ہیں کہ اس سے وہ عمل غلطی سے ہو گیا ہو۔
غلطی سے برائی ہوجانے کو قرآن مجید نے بھی قابل معافی قرار دیا ہے(البقرہ ۲: ۲۸۶)ہمیں بھی قرآن مجید کی روشنی میں یہ عام اخلاقی ضابطہ اپنانا چاہیے کہ جو کام دوسروں سے غلطی سے ہو جائیں وہ قابل مواخذہ نہ ہوں۔ اس لیے کہ ان کے معاملے میں یہ غلطی کبھی ہم سے بھی ہو سکتی ہے۔
بدگمانی کے موقع پر ہر معاملے میں بدگمانی میں مبتلا ہونے سے بہتر ہے کہ ہم اگر اس کے قول و فعل کو خیر و صلاح پر محمول نہیں کرسکتے تو کم از کم اتنا تو سمجھ سکتے ہیں کہ اس سے یہ غلطی ہو گئی ہوگی۔ وہ کچھ اور کہنا چاہتا تھا ، مگر اس کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے ہوں گے۔وغیرہ۔
بدگمانی سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کی برائی کی شدت آپ پر واضح ہو۔ بدگمانی محض بدگمانی نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ ہم اوپر ذکر کرآئے ہیں یہ ہمارا اپنے بھائی پر ظلم بھی ہے ۔جس طرح قرآن مجید نے غیبت کو مردہ بھائی کے گوشت نوچنے سے تشبیہ دی ہے ۔اسی طرح اس میں بھی یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ یہ بات انصاف کے خلاف ہے کہ آپ اپنے بھائی کے بارے میں بلاجواز بری رائے قائم کرلیں۔
چنانچہ جب آپ اپنے بھائی کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ناانصافی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ناانصافی گناہ والا عمل ہے اس سے ہمیں بچ کررہنا چاہیے۔
اس جرم کی شناعت اس پہلو سے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ بدگمانی اپنی حقیقت میں چغلی اور غیبت جیسی ہے ۔ چغلی اور غیبت میں ایک آدمی دوسرے آدمی کے ساتھ کسی کی برائی کررہا ہوتا ہے اور اس میں آپ کے ساتھ آپ کا نفس برائی کررہا ہوتا ہے۔ بدگمانی بھی کسی ایسے نفسیاتی محرک سے شروع ہوتی ہے جس سے چغلی شروع ہوتی ہے۔ آدمی کو اپنے اوپر قابو رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ بھی اپنے بھائی کی چغلی نہ کرے۔ بس اتنا ہی اپنے بھائی کے بارے میں سوچے جتنے اس کے پاس حقیقی شواہد موجود ہوں۔ اس کے بعد جب ہمارا ذہن اپنے لام لگانے لگ پڑے تو ہمیں رک جانا چاہیے۔
دنیا میں ہونے والے ہر واقعہ کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہمارے سامنے ہوتے ہیں اور کچھ دوسروں کے سامنے۔ ہم بالعموم انھی پہلووں کا لحاظ کرتے ہیں، جو ہمارے سامنے ہوتے ہیں، یا ہمیں سمجھ میں آرہے ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ میرے پاس ایک قیمتی چیزتھی، اس کے بارے میں ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کتنے کی لی ہے؟ میں نے اس کی قیمت بتا دی۔ دوسرے شخص نے پوچھا کہ کہاں سے لی ہے؟ میں نے کہا کہ تحفہ میں ملی ہے۔ ان دونوں کی کسی ملاقات میں میری اس چیزکا ذکر آگیا۔ تو دونوں کو میرے جواب میں تضاد نظر آیا۔ اب میرے ہی بیانات سے دو مختلف باتیں ان کے سامنے آتی ہیں۔ جس سے ان کے دل میں میرے جھوٹا ہونے کا خیال آیا۔ ان میں سے ایک نے مجھ سے کسی موقع پر پوچھا کہ تم نے اس کے بارے میں دو متضاد بیانات دیے ہیں۔ میں نے اسے بتایا کہ یہ دونوں بیانات سچے ہیں۔ کیونکہ میرا ایک دوست میرے ساتھ تھا ،میں نے جب یہ چیز خریدی تو پیسے اس نے دے دیے تھے۔اب اس کی قیمت بھی مجھے پتا ہے اور یہ میرے لیے تحفہ بھی ہے۔یوں ایک واقعہ سے ہمیں پتا چلا کہ اپنے بیانات کی روشنی میں ایک آدمی جھوٹا لگ رہا ہوتا ہے ۔ مگر حقیقت میں وہ سچا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہمیں ایک تیسرا اور حقیقی رخ اس واقعہ کا معلوم نہیں ہوتا۔
اس لیے بری رائے بنانے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے سامنے ایک واقعہ کے بیس پہلو ہیں ،مگر وہ حقیقی پہلو آپ کے سامنے موجود ہی نہ ہو جو آپ کی رائے کو مثبت بنا سکتا ہے۔ اس لیے جب بھی آپ کے سامنے کوئی واقعہ ہو جو آپ کو منفی رائے بنانے پر اکسا رہا ہو۔ تو اسی وقت یہ سوچیں کہ شاید کوئی ایسا رخ اس واقعہ کا ہو جو ہم پر نہ کھلا ہو۔
ہم نے نفسیاتی محرکات میں دیکھا کہ ہمارا ذہن ہمہ وقت کام کرتاہے ۔ وہ چیزوں کے بارے میں سوچتا ہے۔ان کا تجزیہ کرتا اور ان میں باہمی رشتہ اور تعلق جوڑتا ہے۔چنانچہ وہ اپنا یہی کام، اگرہمارے پاس سوچنے کی اچھی چیزیں نہ ہوں، تو وہ ارد گرد رہنے والوں کے متعلق شروع کردیتاہے ۔ ان کے رویوں کی وجوہات تلاش کرتا ہے۔جس کے نتیجہ میں ہم بدگمانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم اپنی سوچوں کو صحیح رخ پرلگائیں۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن کو کچھ دوسری طرح کی معلومات فراہم کریں تاکہ وہ سوچوں میں ان چیزوں کو لے آئے جو لوگوں سے متعلق نہ ہوں۔
عام سوچیں، جیسے کاروبار ، سماجی خدمت وغیرہ کے علاوہ کچھ دینی مشاغل بھی ایسے ہیں جنھیں قرآن مجید نے ہمارے سامنے رکھا ہے انھیں اپنانے سے ہمارے ذہن کو اپنی اس فعالیت کے لیے بہتر چیزیں مل جاتی ہیں۔ مثلاً قرآن مجید نے تفکر فی آیات اللہ کا حکم دیا ہے۔یہ ذہن کی سب سے اعلیٰ مصروفیت ہے۔ اس سے ذہن یقیناًاچھی چیزوں میں غور کرے گا۔ہونے والا ہر واقعہ دراصل خدا کی یاد کو تازہ کرنے اس کی قدرتوں اور حکمتوں کو ہم پر واضح کرنے کے لیے ایک نشانی ہوتاہے۔ وہ ہماری تعلیم اور آزمایش کے لیے ہوتا ہے اگر ہم ان چیزوں کو سمجھیں تو ہر اچھے برے واقعہ میں ہمارے لیے تفکر اور غور و خوض کا اتنا سامان ہے کہ ہماری بصیرت دن دوگنی رات چگنی ترقی کرسکتی ہے۔پرانے حکما جن میں لقمان کا نام قرآن مجید نے بھی دیا ہے، انھوں نے جو حکمت حاصل کی وہ کتابیں پڑھ کر حاصل نہیں ہوئی تھی، بلکہ وہ انھی واقعات اور کائنات پر غور و خوض سے حاصل ہوئی تھی۔اس عادت سے آپ ہر واقعہ میں خدا تک پہنچیں گے نہ کہ دوسروں کی بدگمانی تک۔
سوچوں کے اس دھارے کو مزید پاکیزہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ہمہ وقت اس احساس کو تازہ رکھیں کہ ہم امتحان میں ہیں۔اگر ہم اس احساس کو زندہ رکھیں تو ہر قدم پر یہ احساس ہمارا محسن بن کر نمودار ہوگا۔نہ صرف ہماری سوچوں کو درست رکھے گا، بلکہ ہمارے اعمال کو بھی صحیح نہج پر رکھے گا۔ سورۂ بقرہ میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کے بارے میں جو یہ بات آئی ہے کہ’ وبالآخرۃ ہم یوقنون ،‘’’اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔یہ اسی بات کا بیان ہے کہ ان کا عمل اورسوچ آخرت کے لیے ہوتی ہے۔آخرت پر یقین ہی ہے جو ہمیں نیکی پر ابھارتا اور اس پر قائم رکھتا ہے ۔ اگرآخرت نہ ہو تو شاید ہم نیکی سے جلد پھر جائیں۔
اس عادت کو اپنانے کے بعد ، ایک اور عادت ہمیں پختہ کرنی چاہیے کہ ہم دوسروں کے بجائے اپنے نفس کواپنی تنقیدکا نشانہ بنائیں۔اس کی خامیوں کو تلاش کریں۔ اسے سنواریں، اس کی غلطیوں کو دور کریں۔ ہمیں اپنے نفس کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہیے جو اچھے والدین اپنے بچوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان کی تربیت کرتے ، انھیں آداب سکھاتے ، انھیں تعلیم دلاتے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے نفس کے ساتھ یہی کرنا چاہیے۔
جب بھی کوئی غلطی کریں تو ضمیر کی سرزنش کو کافی نہ سمجھیں۔خدا کے حق میں گناہ کیا ہو، تو توبہ و تلافی کریں، بندوں کے حق میں کیا ہو توتلافی کریں تلافی نہ کرسکیں تو معاف کرالیں۔ ان چیزوں کو متعین کریں، جن کی وجہ سے وہ غلطی ہوئی تھی۔یعنی یہ جانیں کہ یہ غلطی بھول چوک سے ہوئی ہے یا کسی نفس کے خبث کی وجہ سے ۔اگر نفس کا کوئی خبث اس غلطی کا سبب ہے، تو اسے درست کرنے کی کوشش کریں۔
بندۂ مومن اپنے اوپر سختی کرنے والا اور دوسروں کی غلطیوں سے درگزر کرنے والا ہوتا ہے۔اسے لوگوں کی غلطیوں سے زیادہ اپنی غلطیوں سے سرو کار ہوتاہے۔وہ کوشش میں رہتا ہے کہ اسے صالح بننا چاہیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کل قیامت کے دن پکڑا جائے۔
تیسری بات جو آپ کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس بات سے آپ کو تکلیف ہوئی اور آپ اس آدمی کے بارے میں، جس نے وہ بات کی ہے، غلط سوچنے لگے ہیں تو بجائے اس کے کہ آپ خود سوچیں اور بلاثبوت کوئی رائے قائم کریں، بہتر یہ ہے کہ آپ اس آدمی سے اس کی اصل وجہ پوچھ لیں۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اس کی بات کا وہ حقیقی پہلو جو آپ سے پوشیدہ تھا، سامنے آجائے گا۔جب حقیقت آپ پر کھل جائے گی تو آپ بدگمانی کے بجائے حقیقت پر کھڑے ہو جائیں گے۔
جب آپ اس سے پوچھیں تو وہ جو وجہ بتائے اسے مان لیں۔ اگر آپ کو خیال ہو رہا ہو کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے تو مزید تسلی کرلیں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کی کہی ہوئی بات کو تسلیم کریں۔ اگر دل ہی دل میں یہ سوچیں کہ اس نے جھوٹ بولا ہے تو یہ پھر وہی بد گمانی ہے،جس سے آپ کو باز رہنا ہے۔
اس دنیا میں سارے لوگ بد طینت نہیں ہیں۔ اور اگر کوئی آدمی جھوٹ بولتا ہے تو یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ ہی جھوٹ بولتا ہو۔ اسی طرح اگر فرض کرلیجیے کہ اس نے آپ کا سامنا نہ کرسکنے کی وجہ سے بات پلٹ لی ہے ،تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ آپ کی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے یہ بات کافی ہونی چاہیے کہ اس نے اس بات کے اس مفہوم کا اقرار نہیں کیا جو آپ کو تکلیف دے رہاتھا۔
یہ بات اچھی معاشرت کے لیے لازم ہے کہ ہم ایک دوسرے کی باتوں کااعتبار کریں۔ ان کی توجیہہ اور ان کی صفائی میں کہی ہوئی بات کو اہمیت دیں، اور اسے تسلیم کریں۔ ورنہ یہ زندگی ایک عذاب کی صورت میں ڈھلنے لگتی ہے۔جہاں بھائی بھائی سے نالاں ہوتا ہے ، بہن بہن سے،ماں بیٹے سے اوربیٹا ماں سے ۔
اگر ایک دوسرے کا یہ اعتبار باقی نہ رہے تو اس بات کا کوئی امکان ہی نہیں رہتا کہ معاشرتی نظام چلتا رہے۔بات کرنی، سمجھانی اور منوانی اسی صورت ممکن ہے کہ جب لوگوں پر اعتبار باقی رہے۔ایک دوسرے پر اعتبار کرنا ہی شرف انسانیت ہے۔یہی حسن معاشرت کی پہلی بنیاد ہے۔ اگر فرض کریں کہ بیوی کو میاں پر اور میاں کو بیوی پر کسی وجہ سے شک ہو جائے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس گھر کی صبح صبح نہیں رہے گی اور شام شام نہیں۔اس لیے اس اعتماد کو اس وقت تک باقی رکھنا چاہیے جب تک ٹھوس ثبوت سے وہ بات ثابت نہ ہو جائے۔
رائے سازی سے پہلے تحقیق
قرآن مجید نے دوسروں کے خلاف اقدام کرنے سے پہلے یہ لازم قرار دیا ہے کہ ہم تحقیق کرلیں (سورہئ حجرات)۔ اس سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ بندہئ مومن اپنے اقدامات میں ایسی حماقت نہیں کرتا کہ وہ جیسے ہی کوئی بات سنے تو فوراً اقدام کرڈالے اور یہ جانے ہی نہ کہ اصل بات کیا ہے۔
اس تعلیم سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ ہر اس عمل میں ہمیں تحقیق کرنی چاہیے جہاں ہم کسی سے کوئی معاملہ کرنے میں غلطی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ بدگمانی اگرچہ دل میں ہوتی ہے، مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ ہمارے تعلقات، رویوں اور لین دین کے معاملات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہم جب کسی کے بارے میں بری رائے بنانے لگیں تو اس کے بارے میں تحقیق کرلیا کریں اور اگر بات کی تہہ تک پہنچنے کا موقع نہ ہو تو رائے بھی بری نہ بنایا کریں۔
بدگمانی کے برخلاف عمل
بد گمانی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی آدمی کے بارے میں آپ کے دل میں برے خیالات پائے جاتے ہیں، تو آپ جب بھی اس سے ملیں، آپ کا رویہ آپ کے خیالات کے الٹ ہونا چاہیے۔ آپ اس سے اچھی رائے رکھنے والے کی طرح ملیں۔اس سے آپ کو ایک ترفع حاصل ہو گا۔ آپ کی بدگمانی کی حقیقت بے معنی سی ہو کر رہ جائے گی۔اس سے کبھی کبھار یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کا دل یہ کہتا ہے کہ تم نے ایسے ہی اسے برا بنا رکھا تھا وہ تو اچھا بھلا شریف آدمی ہے۔
نفس کا تزکیہ
اپنے نفس کو ان بیماریوں سے صاف کر کے رکھنا چاہیے، جو اس بدگمانی کاسبب بنتی ہیں۔مثلاً حسد، تکبر، حقد و کینہ وغیرہ ایسی بیماریاں ہیں، جو مزید بیماریوں کو پیدا کرتی ہیں۔ اس لیے انھیں پورے زور سے اپنے اندر سے کھرچ کھرچ کر صاف کردینا چاہیے۔
اس کے لیے کسی جادو، چلوں یا عملیات کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ آپ کا اپنا پختہ اور مضبوط فیصلہ ہے جو کسی بھی بیماری کو ختم کرسکتا ہے اور کسی بھی بیماری کو پنپنے کا موقع دیتا ہے۔ آپ کو پوری قوت ارادی سے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آپ نے یہ کام آج کے بعد سے نہیں کرنا۔ بس یہی نفس کی ہر بیماری کا علاج ہے۔ایمان کی دولت بھی اسی فیصلے سے حاصل ہوتی اور اسی فیصلے کی پختگی کی بنا پر ہمارے پاس رہتی ہے۔ کہیں اس فیصلے میں ڈھیلا پن آیا وہیں خرابی شروع ہو جائے گی۔
میری بات کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اب آپ سے غلطی نہیں ہوگی۔ ہو سکتا ہے اس فیصلے کے فوراً بعد آپ سے غلطی ہو جائے یہ آپ کے فیصلے کی خلاف ورزی ضرور ہے،مگر اس لغزش کو اگلے مواقع پرپختگی کے حصول کے لیے زینہ بنائیں۔ آپ ان شا ء اللہ جلد یا بدیر بہتری کی طرف بڑھنے لگیں گے۔بہتری کی طرف بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں آپ کا فیصلہ زیادہ مستحضر رہنے لگے گا۔بس یہی وہ چیز ہے، جسے ایمان اور خدا کی یاد کہنا چاہیے۔ جب ایک شخص کو خدا کا خوف یاد رہنے لگے تو وہ تزکیہ کا ایک بڑا سفر طے کرآیا ہے۔ اس نے کہاں بچنا ہے یہی خوف اسے بچائے گا۔ اسے کہاں جھکنا ہے،یہی یاد اسے جھکائے گی۔
اس یاد کو تازہ رکھنے کے لیے قرآن مجید نے دو طر ح کی ذمہ داریاں ہم انسانوں کو سونپی ہیں۔ علما پر انذار اور خبردار کردینے کی ذمہ اری۔ یعنی ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ لوگوں کو آخرت کے بارے میں خبردار کریں۔ انھیں آخرت یاد دلائیں۔ اس ذمہ داری کا دوسرا حصہ’تواصی بالحق‘اور’تواصی بالصبر‘ہے، یہ ذمہ داری ہم عام لوگوں کی ہے،جو عالم دین پر بھی ہے اس لیے کہ وہ اپنی علمی زندگی سے باہر ایک عام آدمی بھی ہوتا ہے۔وہ یہ ہے کہ دین، اخلاق اور خیر کی وہ معروف و معلوم باتیں جو ساری انسانیت میں مانی ہوئی اور دین اسلام کی جاری کی ہوئی چیزیں ہیں، ان پر آپ ایک دوسرے کو پھسلتے دیکھ کر اور لغزش کے وقت اصلاح کریں۔ یہ وہ تذکیرو نصیحت ہے اگر ہمارے معاشرے میں یا کم ازکم ہمارے گھروں میں زندہ عمل بن جائے تو یہ چیز بھی ہمار ے تزکیہ میں ممد و معاون ہے۔
دوسری ذمہ داری نماز روزہ کا اہتمام ہے۔ قرآن مجید نے نمازکے بارے میں بتایا ہے کہ اسے میری یاد کے لیے پڑھو۔’اقم الصلاۃ لذکری‘،یہ وہی یاد ہے جس کا ہم نے اوپر ذکرکیا ہے۔ یہ یاد ہماری زندگی کے سفر میں ایک نگہبان کی طرح ہے جوہمیں بھٹکنے سے بچاتی ہے۔اسی لیے قرآن مجید نے نماز کے بارے میں کہا ہے کہ’ان الصلوٰۃ تنہٰی عن الفحشاء والمنکر‘ ”نماز ہمیں منکر اور فحشا سے روکتی ہے“۔
تسامح اوردرگزر
ہم سب انسان ہیں، اور ہم غلطیاں نیت و ارادے سے بھی کرتے ہیں اور تسامح سے بھی۔نیت اور ارادے کی غلطی قابل مواخذہ ہے۔ جو غلطی نسیان و خطا یعنی تسامح سے ہوئی ہے، وہ قابل معافی ہے۔ہم آپس میں معاملات کرتے ہوئے اکثر کوئی غلط بات کہہ جاتے یا کر جاتے ہیں، تو جس طرح ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اس غلطی پر ہمیں برا نہ کہا جائے، یہ تو محض غلطی سے ایسا ہوا تھا، اسی طرح ہمیں یہ چاہیے کہ ہم دوسروں کی غلطی پر ان کو ہمیشہ ’برا‘قرار نہ دیں۔ بلکہ یہ امکان مانیں کہ اس سے جو غلطی ہوئی ہے وہ بھی تسامح سے ہو ئی ہے۔ یہ خیال آپ کے دل میں پیدا ہونے والی بدگمانی کو ختم کردے گا۔
حسن ظن کی مشق
ہم آپ کو یہ عادت بھی پختہ کر لینی چاہیے کہ اگر ہمارے کسی بھائی کے عمل اور بات کے پیچھے سو شر نظر آرہے ہوں اور بس ایک امکان خیر کا ہو تو ہمیں خیر کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس کی ممارست اور مشق کرنی چاہیے۔ ہمیں روزانہ ایسے بیسیوں معاملات پیش آتے ہیں، جن کو ہمارا دل برا محسوس کرتا اور ہم دوسروں کے بارے میں گمان کرنے لگتے ہیں۔ان مواقع پر ضروری ہے کہ ہم پوری دل جمعی کے ساتھ ان خیالات کو ذہن سے خارج کریں، اور اگر خارج نہ کرسکتے ہوں تو ان کو اخلاقی طور پر درست رکھیں، تاکہ ہم سے ناانصافی نہ ہو۔ اور ہم اپنے بھائی کے ساتھ حسن سلوک سے محروم نہ ہوں۔یہ چیز انسان کے لیے اپنے اخلاق کو درست رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اس کا دل دوسرے کے بارے میں نہایت صاف ہو۔جو عام طور سے دوسروں کی چغلی و غیبت اور ہمارے برے گمانوں کی وجہ سے صاف نہیں رہتا۔
خلاصہ
قرآن مجید ہم سے مطالبہ کرتاہے کہ سب مومن بھائی بھائی بن کررہیں۔ مگر اس مطالبہ میں بداخلاقی کے دوسرے مظاہر کی طرح بدگمانی بھی ایک نہایت موثر رکاوٹ ہے۔
ہم نے یہ جاناہے کہ سب انسان اچھے ہیں، سب سے غلطی ہوتی ہے۔کبھی ارادے سے اور کبھی بھول چوک سے۔ ان سب صورتوں میں ہمیں اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے دوسروں کے بارے میں رائے بنانی ہے۔ اگر ہمارے پاس ثبوت موجود نہ ہوں تو ہمیں رائے بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر ہمارے سامنے بات کا ایک رخ ہو تو دوسرے رخ کو جانے بغیر رائے نہیں بنانی چاہیے۔اگر ہم اس کے بغیر رائے بنائیں گے تو یہ بدگمانی ہے۔اوران کے ساتھ ناانصافی ہے۔
قرآن مجید کے اس مطالبہ کے لیے کہ ہم بھائی بھائی بن کررہیں ضروری ہے کہ ہمارے اخلاق اچھے ہوں۔ اخلاق پر قائم رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا دل دوسروں کے بارے میں صاف رہے۔اس سلسلے میں لازم ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں اچھا سوچیں اور جو چیزیں برا سوچنے پر مجبور کررہی ہوں ان کی غلطی کی حقیقت معلوم کریں، ان کی توجیہہ اور پیش کردہ صفائی کو تسلیم کریں۔یہ سب کچھ ہم اس لیے کریں گے کہ ہم سب پرلازم ہے کہ ہم بھائی بھائی بن کررہیں۔یہ رشتہ اس وقت تک وجود میں نہیں آسکتا،جب تک ہمارے دل دوسروں کے بارے میں صاف نہ ہوں۔ یا ہم خود آگے بڑھ کر حالات کی تحقیق کرکے اپنے دل کو صاف نہ کرلیں۔
بدگمانی ہماری اندرونی حالت کی خرابی سے بھی پیدا ہوتی ہے۔ حسد و کینہ وغیرہ جیسی بیماریوں پر ہمیں نگاہ رکھنی چاہیے اور بیدار آدمی کی طرح ان کا علاج کرنا چاہیے۔ یہ تزکیہئ نفس کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کی مشق کرکے عادت ڈالنی چاہیے کہ ہم ہمیشہ مثبت رخ سے سوچ سکیں۔
دعا
اللہ تعالیٰ ہمیں بدگمانی جیسی اس بیماری سے بچائے۔ ہمیں ایسا انسان بنادے جو شکوک و شبہات کے بجائے یقینی باتوں پر عمل کرتا ہو۔ہمیں دوسروں کی خیرخواہی کی توفیق دے اوردوسروں کے بارے میں اچھے خیالات کی توفیق دے۔
__________________