HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : پروفیسر خورشید عالم

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ام الکتاب، کتاب مکنون، لوح محفوظ

[’’نقطۂ نظر‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس
میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


ماہنامہ ’’ضرب حق ‘‘کے مدیر مولانا سید عتیق الرحمان گیلانی نے ڈاکٹر اسرار احمد کی طرف ایک قول منسوب کیا ہے کہ ’’موجودہ قرآن اصل نہیں جس میں غلطیاں ہیں۔‘‘ڈاکٹر صاحب نے ہفت روزہ ’’ندائے خلافت ‘‘بابت ۱۹ تا ۲۵مئی کے سرورق پر وضاحت فرمائی ہے کہ قول کا پہلا حصہ تو میرے موقف کی غلط تعبیر ہے اور دوسرا حصہ سراسر بہتان ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف یہ ہے کہ اصل قرآن لوح محفوظ (سورۂ بروج ) کتاب مکنون (سورۂ واقعہ) اور ام الکتاب (سورۂ زخرف) میں ہے، ہمارے پاس جو مصاحف ہیں ، اسی کی مصدقہ نقول ہیں۔ ڈاکٹر صاحب اگرچہ بھارت کے ایک عالم دین کے کہنے پر ایسا کہنے سے رک گئے ہیں، مگر تین آیات مبارکہ کا جو حوالہ دیا گیا ہے ، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ علمی طور پر اپنے موقف کو درست سمجھتے ہیں۔ میں نے ان آیات مبارکہ کا تحقیقی مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کا موقف علمی طور پر درست نہیں۔

ام الکتاب کی ترکیب قرآن حکیم میں تین بار ۳: ۷، ۱۳: ۳۹، ۴۳ : ۴ا میں ستعمال ہوئی ہے۔

لفظ ام کے بارے میں امام راغب کا قول ہے کہ ہر اس چیز کو ام کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے وجود یا اس کی تربیت یا اس کی اصلاح یا اس کی ابتدا کے لیے بطور اصل اور بنیاد ہو۔پس ام درحقیقت وہ اصل ہے جس سے دوسری چیزیں نکلتی ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہاں اصل بمقابلہ نقل کے نہیں ہے، بلکہ اصل اساس اور بنیاد کے معنوں میں ہے۔ محکم آیات مقصود بالذات ہیں، وہ اصول دین ہیں اور متشابہات کو ان کی مدد سے سمجھا جاتا ہے ، اس لیے وہ متشابہات کے لیے بمنزلۂ ام ہیں۔سورۂ فاتحہ کو ام القرآن یا ام الکتاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے قرآن حکیم کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ محکمات یا سورۂ فاتحہ اصل ہے اور باقی آیات یا قرآن ان کی مصدقہ نقل ہے ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے عرب دماغ کو ’أم الرأس‘ کہتے ہیں۔

امام رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں کہ ’’ام الکتاب‘‘ (۱۹: ۶۶)کے بارے میں مفسرین کے دو بڑے قول ہیں:

پہلا قول یہ ہے کہ’’ اس سے مراد لوح محفوظ ہے۔ عالم علوی وسفلی کے تمام واقعات اس میں محفوظ ہیں اور قیام قیامت تک تمام واقعات کو اس میں درج کیا گیا ہے۔‘‘اکثر مفسرین نے ام الکتاب سے مراد لوح محفوظ (Preserved Tablet)لی ہے۔ اس اعتبار سے وہ نہ صرف قرآن، بلکہ تمام کتب سماویہ کی ماں ہے یعنی اصل اور بنیاد ہے۔ اس میں صرف آسمانی کتابیں ہی نہیں ہیں، بلکہ یہ اللہ کے فرامین و احکام اور ان واقعات کا مخزن ہے جو اللہ کی مشیت کے تحت پہلے ہوئے اور آیندہ ہونے والے ہیں۔ اللہ نے کیا پیدا کرنا ہے اور بندوں نے کیا کرنا ہے، سب اس میں موجود ہے۔ یہ کتاب ہر قسم کی در اندازی، کمی بیشی اور تغیر و تبدل سے محفوظ ہے۔ اس کا تعلق غیبیات سے ہے۔ اللہ کے سوا اس کی ’کنہ ‘کو کوئی نہیں جانتا۔ یہ ہمارے ادراک سے ماورا ہے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے۔ زیر بحث نکتے سے تعلق رکھنے والی اہم بات یہ ہے کہ لوح محفوظ صرف قرآن کی اصل نہیں، بلکہ یہ ماضی اور مستقبل کے سب واقعات کا ریکارڈ ہے ، اس لیے اسے قرآن مجید کی اصل اور موجودہ قرآن مجید کو اس کی مصدقہ نقل قرار دینا قرین قیاس نہیں ۔

لوح محفوظ پر سب سے بڑا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اللہ تو علام الغیوب ہے ، اسے کیا ضرورت ہے کہ عرش کے دائیں ہاتھ لوح محفوظ کو رکھے ۔ یہ ضرورت تو اسے پڑتی ہے جسے بھول چوک کا خدشہ ہو۔ اللہ تو ایسا ہے کہ ’لا یضلّ ربی ولا ینسیٰ‘، ’’میرا رب نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔‘‘ (۲۰:۵۲) امام رازی کہتے ہیں کہ جب اللہ نے مخلوقات کے واقعات کو اس میں درج کیا اور فرشتوں نے دیکھا کہ سب واقعات اس نوشتہ کے مطابق رونما ہو رہے ہیں تو ان کو اللہ کی کمال حکمت و علم کا پتا چلا۔گویا کہ لوح محفوظ میں حکمت یہ تھی کہ فرشتوں کو بتایا جائے کہ تمام واقعات تفصیلاً اللہ کے علم میں ہیں۔

دوسرا قول یہ ہے کہ ’’ام الکتاب سے مراد علم الٰہی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر موجود اور غیر موجود کے بارے میں علم رکھتا ہے۔ اس کا علم ابدی و ازلی ہے جو فنا و تغیر سے پاک ہے۔ سب احکام کا سرچشمہ علم خداوندی ہے اور وہ ہر قانون کی بنیاد اور اصل ہے۔‘‘ ابن عباس سے مروی ہے کہ انھوں نے ابی سے ام الکتاب کے بارے میں پوچھا : انھوں نے جواب دیا : ’’اللہ کا علم کہ وہ کیا پیدا کرنے والا ہے اور اس کی مخلوق کیا کرنے والی ہے۔ پھر اس نے اپنے علم سے کہا کہ کتاب بن جا ، پس وہ کتاب بن گئی۔‘‘ تفسیر قرطبی میں کعب الا حبار کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ام الکتاب سے مراد ان مخلوقات کے بارے میں اللہ کا علم ہے جو اس نے پیدا کیں یا پیدا کرنے والا ہے۔ تفسیر روح المعانی، تفسیر مراغی اور عبدالکریم الخطیب کی التفسیر القرآنی للقرآن میں اسی قول کو اختیار کیا گیا ہے۔

ان سب کا لب لباب یہ ہے کہ ام الکتاب سے مراد علم الہٰی ہے جو خارجی اثرات سے محفوظ اور فنا و تغیر سے پاک ہے۔ جو کچھ فرشتوں کے صحیفوں میں لکھا ہوتا ہے ، وہ اللہ کے علم کے مطابق ہوتاہے ، اس لیے وہ بمنزلۂ ام کے ہے، کیونکہ وہ ہر چیز کا مرجع ہے۔ اس قول کے مطابق اصل اور مصدقہ نقل کا سوال ہی سرے سے پیدا نہیں ہوتا، بلکہ مفہوم یہ نکلتا ہے کہ یہ کتاب صرف علم الہٰی میں محفوظ نہیں، بلکہ ہمارے پاس اصل صورت میں بھی محفوظ ہے۔

لوح محفوظ اور علم الہٰی، دونوں اصل میں ایک ہی ہیں۔ لوح محفوظ علم الہٰی کا تمثیلی بیان ہے۔ سید قطب شہید سورۂ زخرف کی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’ہم ام الکتاب کے لفظی مدلول کی بحث میں نہیں پڑتے ۔ آیا اس سے مراد لوح محفوظ ہے یا علم ازلی، دونوں ایک ہیں۔ دونوں اس کلی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں قرآن بلند و برتر اور حکمت والا ہے ۔‘‘ قرآن مجید کی دو آیات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ علم الہٰی ہی لوح محفوظ ہے۔ سورۂ انعام میں ہے : ’’اس کے پاس غیب کے خزانے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کو کوئی نہیں جانتا اور وہ جانتا ہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے اور کوئی پتا نہیں گرتا، مگر وہ اسے جانتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز گرتی ہے، مگر یہ سب ایک کھلی کتاب میں ہے۔‘‘ ۱؂

امام رازی کہتے ہیں کہ کھلی کتاب سے مراد علم الہٰی ہے اور بعض مفسرین اس سے مراد لوح محفوظ بھی لیتے ہیں۔ سورۂ حج میں ہے:’’اے مخاطب! کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ سب چیزوں کو جانتا ہے جو زمین و آسمان میں ہیں اور بے شک ، یہ بات ایک کتاب میں ہے۔‘‘ (۲۲: ۷۰) امام راغب کا قول ہے کہ لوح محفوظ کو کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ابو مسلم اصفہانی کے قول کے مطابق کتاب سے مراد حفظ وضبط ہے۔ مراد یہ ہے کہ اللہ کا علم محفوظ ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ اسے علم الہٰی کہیں یا لوح محفوظ ایک ہی بات ہے ۔ ان آیات میں پہلے اللہ کے علم کا بیان ہے ، پھر اسے کتاب سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بتانا مقصود ہو کہ جس طرح لکھی ہوئی چیز قطعی ، یقینی اور محفوظ ہوتی ہے بالکل اس طرح علم ازلی قطعی ، یقینی اور تغیر و تبدل سے محفوظ ہے۔

لغوی لحاظ سے ’لاح‘’ یلوح‘’ لوحاً‘ کے معنی ہیں ظاہر ہونا ۔یعنی لوح سے مراد وہ چیز ہے جو فرشتوں پر ظاہر ہوتی ہے اور انھیں اوامرو نواہی کا پتا بتاتی ہے ، پھر وہ ان کو نافذ کرتے ہیں۔ چنانچہ فیوّمی نے ’’المصباح المنیر‘‘ میں لوح محفوظ کے بارے میں ایک قول نقل کیا ہے کہ ’انہ نور یلوح للملائکۃ فیظہر لہم ما یؤمرون فیأتمرون ۔‘(یہ ایک نور ہے جو فرشتوں کو دکھائی دیتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ ان کو کس بات کا حکم دیا گیا ہے پس وہ حکم بجا لاتے ہیں)۔

ام الکتاب کے بارے میں یہ دو بڑے اقوال ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ علما نے اس سے مراد قرآن لیا ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ ام الکتاب سے مراد بذات خود قرآن ہے۔ امام طبری نے ابن جریج کاقول نقل کیا ہے کہ اس سے مراد الذکر ہے۔ لسان العرب میں ابن عباس کا قول نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد اول سے لے کر آخر تک قرآن ہے۔

کتاب مکنون(۵۶: ۷۸) سے مراد لوح محفوظ بھی لی گئی ہے، مگر تفسیر قرطبی میں مجاہد کا قول نقل ہوا ہے کہ اس سے مراد وہ مصحف ہے جو مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔اس صورت میں اس کی مثال یہ عربی محاورہ ہے: ’انہ کریم فی بیتہ‘یعنی ’انہ رجل کریم وھو فی بیتہ‘ یعنی وہ سخی ہوتا ہے ، جبکہ وہ اپنے گھر میں ہوتا ہے۔ اسی طرح اس آیت کی تقدیر عبارت یوں ہے:’ انہ لقرآن کریم وھو فی کتاب مکنون‘(بے شک وہ ایک مکرم قرآن ہے، جبکہ وہ محفوظ کتاب میں ہو)۔ اس اعتبار سے واحدی کی رائے میں کتاب مکنون قرآن ہی کی صفت ہے۔ عکرمہ کا قول ہے کہ کتاب مکنون سے مراد تورات و انجیل ہے ۔ گویاکہ کہا یہ گیا ہے کہ اس کا ذکر اس کتاب میں ہے جس کا شرف محفوظ ہے یعنی آسمانی کتابیں اس کی شہادت دیتی ہیں۔ تفسیر ابن قیم میں جسے اویس ندوی نے مرتب کیا ہے ، کتاب مکنون کے بارے میں ایک اور رائے دی ہے کہ اس سے مراد وہ صحیفے ہیں جو فرشتوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنی رائے کی تائید میں بہت سے دلائل دیے ہیں۔ ایک دلیل یہ بھی ہے کہ امام مالک نے موطا میں کہا ہے کہ ’ کتاب مکنون... لایمسہ الاالمطہرون‘ کی بہترین تفسیر جو میں نے سنی ہے وہ یہ ہے کہ اس جیسی آیت سورۂ عبس (۸۰: ۱۳۔۱۶) میں موجود ہے ۔ اگر کتاب مکنون سے مراد قرآن کریم یا فرشتوں کے صحیفے لیے جائیں تو اس بات کا کوئی امکان نہیں رہتا کہ اصل لوح محفوظ میں ہے۔ لوح محفوظ کے بارے میں اوپر واضح ہو چکا ہے کہ وہ ماضی کے اور مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا ایک دیوان ہے۔ اللہ کا سارا علم اسی کی طرف منسوب ہے۔ اس میں واقعات کا ایک تسلسل ہے ۔ وہاں علیحدہ علیحدہ کتب سماویہ کی اصل نہیں رکھی ہوئی ہے کہ ہم اس کی مصدقہ نقل کا تصور کریں۔ محترم ڈاکٹر صاحب نے خلق خدا کے خوف سے اگر اپنے قول سے رجوع کیا ہے تو اچھا کیا ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ، علمی طور پر بھی وہ اس سے رجوع کر لیں، کیونکہ پیش کردہ آیات میں سے کوئی آیت ان کے نظریہ کی تائید نہیں کرتی۔ قرآن کریم علم الہٰی میں بھی محفوظ ہے اور ہمارے پاس کتابی شکل میں اپنی اصلی حالت میں بھی محفوظ ہے۔

میں محترم ڈاکٹر صاحب کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ اصل اور نقل کے اس مسئلہ نے امام داؤد ظاھری کو عجیب و غریب رائے اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ جو قرآن ہمارے سامنے ہے ، وہ محدث اور مخلوق ہے ، اس لیے اسے جنابت والا ناپاک آدمی بھی چھو سکتا ہے ، جبکہ وہ قرآن جو لوح محفوظ میں ہے ، وہ قدیم اور غیرمخلوق ہے اور اس پر ’لایمسہ الاالمطہرون‘ (۵۶: ۷۹) ’’سوائے پاک لوگوں کے اسے کوئی نہیں چھوتا ‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ دیکھا بات کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی۔ امام احمد بن حنبل نے اس رائے کی سختی سے مخالفت کی۔ وباللّٰہ تعالیٰ التوفیق۔

_________

۱؂ ۶: ۵۹۔

________________________

B