بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
وَاَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْٓا اِلٰی رَبِّھِمْ، لَیْسَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِیْعٌ، لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ{۵۱}
وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ، مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِھِمْ مِّنْ شَیْئٍ، وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْھِمْ مِّنْ شَیْئٍ، فَتَطْرُدَھُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ{۵۲} وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا: اَھٰٓؤُلَآئِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنْ بَیْنِنَا، اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ{۵۳} وَاِذَا جَآئَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا، فَقُلْ: سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ، کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئً ا بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۵۴} وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ، وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ{۵۵}
(اِنھیں اب اِن کے حال پر چھوڑو) اور اِس (قرآن) کے ذریعے سے اُن لوگوں کو خبردار کرو جو اندیشہ رکھتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے حضور میں اِس طرح پیش کیے جائیں گے کہ اُن کے لیے اُس کے سوا کوئی حامی اور کوئی سفارش کرنے والا نہ ہو گا تاکہ پرہیزگاری اختیار کریں۔ ۶۰؎ ۵۱
(اِن کے ایمان کی آرزو میں) تم اُن لوگوں کو اپنے سے دور نہ کرو۶۱؎ جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اُس کی خوشنودی کی طلب میں پکارتے ہیں۔ اِن کی ذمہ داری کا کوئی حصہ تم پر نہیں ہے اور نہ تمھاری ذمہ داری کا کوئی حصہ اِن پر ہے۶۲؎ کہ (اِن کی خواہش پر) تم اُن لوگوں کو دور کر کے ظالموں میں شامل ہو جاؤ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اِسی طرح ایک کو دوسرے سے آزمایا ہے تاکہ یہ (بدبخت اُن غریبوں کو دیکھ کر) کہیں: کیا یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ نے ہمارے درمیان سے اپنے فضل کے لیے چن لیا ہے۶۳؎ ؟ (اِن سے پوچھو)، کیا اللہ اپنے شکرگزار بندوں کو سب سے بڑھ کر نہیں جانتا؟۶۴؎ (اِن کی خواہش کے برخلاف) ہماری آیتوں کو ماننے والے یہ لوگ جب تمھارے پاس آیا کریں تو اُن سے کہو کہ تم پر سلامتی ہو۔۶۵؎ تمھارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم کر رکھی ہے کہ تم میں سے اگر کوئی نادانی کے ساتھ برائی کا ارتکاب کر بیٹھے گا، پھر اِس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لے گا تو اللہ بخشنے والا ہے، بڑا مہربان ہے۶۶؎۔ ہم اِسی طرح (اپنی) آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں تاکہ (نیکو کاروں کی روش بھی نمایاں ہو) اور مجرموں نے جو راستہ اختیار کیا ہے، وہ بھی بالکل واضح ہو جائے۔۶۷؎ ۵۲-۵۵
۶۰؎ اِس آیت سے تین باتیں واضح ہوتی ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’ایک یہ کہ انذار کے لیے فطری اور عقلی چیز یہ قرآن ہے نہ کہ عذاب کی نشانیاں۔
دوسری یہ کہ یہ قرآن بھی نافع اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے اندر فطرت کی صلاحیتیں زندہ ہیں۔ جن کی فطری صلاحیتیں مردہ ہو چکی ہیں، اُن کو قرآن سے بھی نفع نہیں پہنچے گا۔
تیسری یہ کہ تقویٰ اور خداترسی کے لیے سب سے بڑا حجاب شفاعت باطل کا عقیدہ ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۵۸)
۶۱؎ اصل میں لفظ ’تَطْرُد‘ آیا ہے۔ یہ معنی کے لحاظ سے ایک سخت لفظ ہے، لیکن سرداران قریش کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر اِس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ اُن کی خواہش یہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اُن ساتھیوں کو دھتکار دیں جو بالکل غربا اور عوام کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اِن غریبوں کے ساتھ بیٹھنا اُن کے شایان شان نہیں ہے۔ چنانچہ اُنھیں اراذل و اجلاف قرار دیتے اور کہتے تھے کہ اسلام اگر کوئی فضیلت کی چیز ہے تو اِس طرح کے لوگ اُس کے مستحق کیسے ہو سکتے ہیں۔ آیت میں روے سخن اِنھی مغروروں کی طرف ہے، لیکن بات اِن کو مخاطب کر کے کہنے کے بجاے پیغمبر کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات اِس قابل بھی نہیں تھی کہ اِن کو مخاطب کر کے اِس کا جواب دیا جائے۔
۶۲؎ مطلب یہ ہے کہ اپنے اِس تکبر کے نتیجے میں یہ اگر جہنم کا ایندھن بنتے ہیں تو اِس کی کوئی ذمہ داری تم پر نہیں ہے۔ اِسی طرح اِن کے کہنے پر تم اگر اُن لوگوں کے حقوق تلف کرتے ہو جو تمھاری شفقت و محبت کے اصلی حق دار ہیں تو خدا کے حضور میں تمھاری طرف سے یہ اُس کے ذمہ دار نہیں ہو جائیں گے۔ خدا کا قانون یہی ہے کہ کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
۶۳؎ آیت میں ’لِیَقُوْلُوْا‘ آیا ہے۔ اِس میں لام عاقبت کا ہے جو علت کو نہیں، بلکہ نتیجے کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اُس سنت الٰہی کا بیان ہے جس کے تحت لوگوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ اِس طرح کی باتیں کر کے اپنی بدبختی کا سامان کرنا چاہتے ہیں تو کر لیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا امتحان کے لیے بنائی ہے اور امتحان کے تقاضے سے یہ موقع دینا ضروری ہے۔
۶۴؎ یہ اُن کے تمرد کا جواب ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔مطلب یہ ہے کہ خدا کا دین سونا اور چاندی، ریشم اور مخمل نہیں ہے جس کی کاٹھی اور جس کے جھول گدھوں اور خچروں، گھوڑوں اور اونٹوں پر بھی نظر آجاتے ہیں۔ یہ تو آسمانی نعمت اور یزدانی رحمت ہے جو صرف اُن کا حصہ ہے جو ہر حال میں اپنے رب کے شکرگزار رہے، جنھوں نے خدا کی نعمتوں کی قدر کی، جنھوں نے اپنی صلاحیتوں کا حق ادا کیا، جنھوں نے اپنے کان کھلے رکھے، جنھوں نے اپنی آنکھوں پر غرور کی پٹی نہیں باندھی اور جنھوں نے اپنے دلوں کو مردہ نہیں ہونے دیا۔ رہے وہ نابکار و ناشکرے لوگ جنھوں نے خدا کی بخشی ہوئی تمام ظاہری و باطنی نعمتوں کو خدا ہی کے خلاف استعمال کیا، اُ ن کے لیے اِس نعمت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ دنیا نیک و بد، دونوں کو مل جاتی ہے، لیکن دین کی نعمت صرف اُنھی کو ملتی ہے جو خدا کے شکرگزار ہوتے ہیں۔ ‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۶۱)
۶۵؎ یہ جس طرح ملاقات یا رخصت کا کلمہ ہے، اُسی طرح خیرمقدم کا کلمہ بھی ہے۔ موقع کلام سے واضح ہے کہ یہاں اِسی دوسرے مقصد سے آیا ہے۔
۶۶؎ یہ بشارت بتا رہی ہے کہ جن لوگوں کو دی گئی، وہ مال و جاہ کے نہیں، بلکہ اُسی رحمت و مغفرت کے طلب گار تھے جس کا ذکر بشارت میں ہوا ہے۔ دنیا کے سروسامان سے اُن کو کوئی دل چسپی نہ تھی۔ اُن کے دل کی لگن یہی تھی کہ گناہ بخش دیے جائیں اور اُن کے پروردگار کی رضا اُنھیں حاصل ہو جائے۔
۶۷؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَلِتَسْتَبِیْنَ سَبِیْلُ الْمُجْرِمِیْنَ‘۔ اِس میں لام علت کا ہے اور اُس سے پہلے ’و‘ دلالت کر رہی ہے کہ ’لِتَسْتَبِیْنَ‘ کا معطوف علیہ محذوف ہے۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ