[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔]
سوال:میں اپنی جائداد پر واجب زکوٰۃ کیسے طے کروں۔ مزید براں کیا مجھے اپنے مکانوں پر زکوٰۃ دینا ہو گی اور میری بیوی کو اپنے مکان اور اپنے زیورات پر بھی زکوٰۃ دینا ہو گی؟(افتخار صدیقی)
جواب:اگر میاں کی جائداد بھی ہے اور بیوی کی بھی تو دونوں کو اپنی اپنی جائداد پر زکوٰۃ دینا ہو گی۔
غامدی صاحب کے نقطۂ نظر کے مطابق اسلام نے ہم پر درج ذیل شرح سے زکوٰۃ عائد کی ہے:
’’ پیداوار ،تجارت اورکاروبار کے ذرائع ، ذاتی استعمال کی چیزوں اور حد نصاب سے کم سرمایے کے سوا کوئی چیزبھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہرمال ، ہر قسم کے مواشی اور ہر نوعیت کی پیداوارپر عائد ہوگی اور ہر سال ریاست کے ہر مسلمان شہر ی سے لازماً وصول کی جائے گی ۔
اس کی شرح یہ ہے :
مال میں ۲ /۱ ۲ فی صدی سالانہ (اگر وہ مال ۶۴۲گرام چاندی کی مالیت سے زیادہ ہے)۔
پیداوار میں اگر وہ اصلاً محنت یا اصلاً سرمایے سے وجود میں آئے تو ہر پیداوارکے موقع پراُس کا ۱۰فی صدی ، اور اگرمحنت اورسرمایہ ، دونوں کے تعامل سے وجود میں آئے تو۵ فی صدی ، اور دونوں کے بغیر محض عطےۂ خداوندی کے طور پر حاصل ہو جائے تو ۲۰ فی صدی ۔‘‘(میزان ۳۵۰)
اس اصول کے مطابق آپ کو ان مکانوں پر کوئی زکوٰۃ نہیں دینا جن میں آپ رہ رہے ہیں یا وہ آپ کے زیر استعمال ہیں۔ جو مکان کرایے پر اٹھے ہیں تو ان کے کرایے کا دس فی صد دینا ہو گا اور اگر وہ محض جائداد کی صورت میں قیمت بڑھنے پر بیچنے کے لیے روکے ہوئے ہیں تو پھر ہر سال ان کی حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد دینا ہو گا۔
زیورات پر مال کی زکوٰۃ (حاضر مالیت کا ڈھائی فی صد) لگے گی۔اپنے کاروبار سے (جس میں آپ کا سرمایہ اور آپ کی محنت، دونوں صرف ہوتے ہیں اس سے) ہونے والی آمدنی اگر آپ کی حقیقی ضروریات کے بقدر رقم سے زیادہ ہے تو پھر کل آمدنی کا پانچ فی صد آپ کو دینا ہو گا۔
سوال: یوسف علیہ السلام اپنے زمانۂ حکومت میں کیا حکومت مصر کے ملازم تھے یا وہ ملک چلانے کے لیے پورے اختیارات رکھتے تھے؟(عبدالحمید)
جواب:یوسف علیہ السلام کو مصر میں ملک چلانے کے پورے اختیارات حاصل تھے ۔ اس کی دلیل درج ذیل آیات ہیں:
’’اور بادشاہ نے کہا، اُس کو میرے پاس لاؤ، میں اُس کو اپنا معتمد خاص بناؤں گا۔ پھر جب اُس سے بات چیت کی تو کہا: اب تم ہمارے ہاں بااقتدار اور معتمد ہوئے۔ اس نے کہا: مجھے ملک کے ذرائع آمدنی پر مامور کیجیے، میں متدین بھی ہوں اور با خبر بھی۔ اور اِس طرح ہم نے یوسف کو ملک میں اقتدار بخشا، وہ اُس میں جہاں چاہے متمکن ہو۔‘‘(سورۂ یوسف۱۲: ۵۴۔۵۶)
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ وہ مصری حکومت کے ملازم نہیں، بلکہ مصر کے با اقتدار فرماں روا تھے۔
_______________