HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانعام ۶: ۳۳- ۵۰ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


قَدْ نَعْلَمُ اِنَّہٗ لَیَحْزُنُکَ الَّذِیْ یَقُوْلُوْنَ فَاِنَّھُمْ لَا یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ یَجْحَدُوْنَ{۳۳} وَلَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْا عَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰٓی اَتٰھُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ وَلَقَدْ جَآئَ کَ مِنْ نَّبَاِی الْمُرْسَلِیْنَ{۳۴} 
وَاِنْ کَانَ کَبُرََ عَلَیْکَ اِعْرَاضُھُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْسُلَّمًا فِی السَّمَآئِ فَتَاْتِیَھُمْ بِاٰیَۃٍ وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ{۳۵} اِنَّمَا یَسْتَجِیْبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُوْنَ وَالْمَوْتٰی یَبْعَثُھُمُ اللّٰہُ ثُمَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ{۳۶}
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ اٰیَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قُلْ اِنَّ اللّٰہَ قَادِرٌ عَلٰٓی اَنْ یُّنَزِّلَ اٰیَۃً وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ{۳۷} وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ اِلَّآ اُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتٰبِ مِنْ شَیْئٍ ثُمَّ اِلٰی رَبِّھِمْ یُحْشَرُوْنَ{۳۸} وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُکْمٌ فِی الظُّلُمٰتِ مَنْ یَّشَاِ اللّٰہُ یُضْلِلْہُ وَمَنْ یَّشَاْ یَجْعَلْہُ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ{۳۹} 
قُلْ اَرَئَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللّٰہِ تَدْعُوْنَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ{۴۰} بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُوْنَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ اِلَیْہِ اِنْ شَآئَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُوْنَ{۴۱}
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰٓی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰھُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ{۴۲} فَلَوْلَآ اِذْ جَآئَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ{۴۳} فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْئٍ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ{۴۴} فَقُطِعَ دَابِرُالْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ{۴۵} 
قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَخَذَ اللّٰہُ سَمْعَکُمْ وَاَبْصَارَکُمْ وَخَتَمَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ مَّنْ اِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاْتِیْکُمْ بِہٖ اُنْظُرْ کَیْفَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ ثُمَّ ھُمْ یَصْدِفُوْنَ{۴۶} قُلْ اَرَئَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ بَغْتَۃً اَوْ جَھْرَۃً ھَلْ یُھْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الظّٰلِمُوْنَ{۴۷} وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّا مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ فَمَنْ اٰمَنَ وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ{۴۸} وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا یَمَسُّھُمُ الْعَذَابُ بِمَا کَانُوْا یَفْسُقُوْنَ{۴۹} 
قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَکُمْ اِنِّیْ مَلَکٌ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰٓی اِلَیَّ قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ اَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ{۵۰}
ہم اِس بات سے واقف رہے ہیں ۳۷؎ کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں،۳۸؎ اُ س سے تمھیں رنج ہوتا ہے۔ (ایسا نہیں ہونا چاہیے)، اِس لیے کہ یہ تمھیں نہیں جھٹلا رہے، یہ ظالم تو آیات الٰہی کا انکار کر رہے ہیں۔۳۹؎  تم سے پہلے بھی رسولوں کو (اِسی طرح) جھٹلایا گیا تھا تو اپنی تکذیب اور اپنی اذیتوں پر اُنھوں نے صبر کیا، یہاں تک کہ ہماری مدد اُنھیں پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں ہے اور (ہماری اِس سنت کو سمجھنے کے لیے) پیغمبروں کی کچھ سرگذشتیں تمھیں پہنچ ہی چکی ہیں۔۴۰؎  ۳۳-۳۴
اِن کا اعراض اگر (اِس کے باوجود) تمھیں گراں گزر رہا ہے تو زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی زینہ ڈھونڈ سکتے ہو تو ڈھونڈ لو کہ اِن کے پاس کوئی نشانی لے آئو۔۴۱؎  اللہ چاہتا تو اِن سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا، اِس لیے جذبات سے مغلوب ہو جانے والوں میں سے نہ بنو۔۴۲؎  (ہماری اِس دعوت کو) وہی قبول کریں گے جو سننے والے ہیں۔ رہے یہ مردے تو (اِن کا انجام اب یہی ہے کہ) اللہ اِنھیں اٹھائے گا، پھر یہ اُس کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔ ۳۵-۳۶
کہتے ہیں کہ اِس نبی پر اِس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہیں اتاری گئی؟۴۳؎ کہہ دو: اللہ پوری قدرت رکھتا ہے کہ (جب چاہے) کوئی نشانی اتار دے، مگر اِن میں سے اکثر (یہ مطالبہ اِس لیے کرتے ہیں کہ بعض حقائق سے) واقف نہیں ہیں۔۴۴؎ (دیکھتے نہیں ہو کہ) زمین پر جتنے جانور (اپنے پائوں سے چلتے ہیں) اور (فضا میں) جتنے پرندے اپنے دونوں بازوئوں سے اڑتے ہیں،۴۵؎  سب تمھاری ہی طرح امتیں ہیں اور (سمجھانے کی حد تک تو) ہم نے اپنی کتاب میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۴۶؎ ۔ اِس کے بعد (یہی باقی ہے کہ ایک دن) یہ اپنے پروردگار کے حضور میں اکٹھے کر دیے جائیں گے۔ ہماری آیتوں کو جن لوگوں نے جھٹلانے کا فیصلہ کر لیا ہے، وہ بہرے اور گونگے تاریکیوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ (حقیقت یہی ہے کہ) اللہ (اپنے قانون کے مطابق)۴۷؎  جسے چاہتا ہے، گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔ ۳۷-۳۹
اِن سے کہو: ذرا بتائو، اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت کی گھڑی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم (اپنے دعووں میں) سچے ہو؟ (نہیں)، بلکہ (ایسے ہر موقع پر) اُسی کو پکارتے ہو۔ پھر وہ چاہے تو اُس مصیبت کو ٹال دیتا ہے جس کے لیے پکارتے ہو اور اپنے (ٹھیرائے ہوئے) شریکوں کو (اُس وقت) تم بالکل بھول جاتے ہو۔۴۸؎  ۴۰-۴۱
تم ۴۹؎ سے پہلے بھی ہم نے بہت سی قوموں کی طرف اپنے رسول بھیجے اور اُنھیں مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ عاجزی اختیار کریں،۵۰؎  پھر جب ہماری طرف سے سختی آئی تو اُنھوں نے کیوں عاجزی اختیار نہ کی؟۵۱؎  بلکہ اُن کے دل (اور بھی) سخت ہو گئے اور شیطان نے اُن کے لیے (اُن کے) اُس عمل کو خوبی بنا کر پیش کر دیا جو وہ کر رہے تھے۔ پھر جس چیز سے اُنھیں یاددہانی کی گئی تھی، جب اُنھوں نے بھلا دی۵۲؎ تو ہم نے ہر طرح کی خوش حالیوں کے دروازے اُن پر کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ہماری اُن بخششوں پر اترانے لگے جو اُن پر کی گئی تھیں تو اچانک ہم نے اُنھیں پکڑ لیا، اب حال یہ تھا کہ بالکل ششدر ہو کر رہ گئے۔ اِس طرح اُن لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی۵۳؎ جنھوں نے (اپنی جان پر) ظلم ڈھایا تھا اور شکر اللہ ہی کے لیے ہے جو عالم کا پروردگار ہے (کہ اُس نے زمین کو اِن ظالموں سے پاک کر دیا)۔۵۴؎  ۴۲-۴۵
اِن سے پوچھو: کبھی سوچا ہے کہ اگر اللہ تمھاری سماعت و بصارت تم سے چھین لے اور تمھارے دلوں پر مہر کردے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو اُسے واپس لا دے گا؟۵۵؎  دیکھو، کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف پہلوؤں سے (اُن کے سامنے) پیش کر رہے ہیں، پھر بھی یہ اعراض کرتے ہیں۔ پوچھو: کبھی سوچا ہے کہ اگر اللہ کا عذاب۵۶؎  تم پر اچانک آدھمکے یا ہانکے پکارے آئے تو کیا ظالموں کے سوا کسی اور کو ہلاک کیا جائے گا؟ رسولوں کو تو ہم صرف اِس لیے بھیجتے ہیں کہ (لوگوں کے لیے) خوش خبری دینے والے اور (اُنھیں) خبردار کرنے والے ہوں۔۵۷؎  سو جنھوں نے مان لیا اور اصلاح کر لی تو اُنھیں کوئی اندیشہ اور کوئی غم نہ ہو گا۔ (اِس کے برخلاف) جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا دیا، اُن کی نافرمانیوں کی پاداش میں (ہمارا) عذاب اُنھیں پکڑے گا۔ ۴۶-۴۹
اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر): میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ یہ کہتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے کی جاتی ہے۔۵۸؎ کہہ دو: (میرا سوال صرف یہ ہے)، کیا اندھے اور دیکھنے والے، دونوں یکساں ہو جائیں گے؟ کیا تم غور نہیں کرتے؟۵۹؎  ۵۰

۳۷؎ اصل میں ’قَدْ نَعْلَمُ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ درحقیقت ’قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ‘ ہے۔ مضارع پر جب اِس طرح ’قَدْ‘ آتا ہے تو اِس میں فعل ناقص عربیت کے قاعدے پر محذوف ہوتا ہے۔یہاں اِس سے مضمون میں یہ اضافہ ہو گیا ہے کہ یہ بات برابر ہمارے علم میں رہی ہے اور ہے۔

۳۸؎ یہ اُنھی مطالبات کا ذکر ہے جو پیچھے بیان ہو چکے ہیں اور آگے بھی بیان ہوں گے۔

۳۹؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تسکین اور تسلی کے لیے یہ نہایت دل نواز جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم اپنی طرف سے کوئی بات لے کر نہیں اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ ہمارا کلام اور ہماری کتاب ہے جو ہمارے حکم سے اور ہماری ہدایت کے مطابق اِن کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔ یہ اگر جھٹلا رہے ہیں تو تم کو نہیں، بلکہ ہمیں جھٹلا رہے ہیں۔ اِ س لیے معاملے کو ہم پر چھوڑو، اِن ظالموں سے ہمیں نمٹیں گے۔

۴۰؎ یہ اُس سنت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے انبیا علیہم السلام اور اُن کے پیرووں کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔انبیا اور اُن کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ کی براہ راست مدد سے ہم کنار ہونے کے لیے ابتلا و امتحان کے ایک طویل اور صبر آزما مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اِس کے بغیر خدا کی نصرت ظاہر نہیں ہوتی۔ اِس دوران میں اِن انبیا کی قوموں کی طرف سے برابر اِن کی تکذیب ہوتی ہے۔ اِن کو ہر قسم کی ایذائیں دی جاتی ہیں اور ہر پہلو سے اِن کو زچ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اِس طرح جو کچھ حق کے مخالفین کے اندر ہوتا ہے، وہ بھی ابھر کر باہر آجاتا ہے اور جو جوہر نبی اور اُس کے ساتھیوں کے اندر ہوتا ہے، وہ بھی نکھر کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ وقت ہوتا ہے کہ منکرین حق پر خدا کی حجت تمام ہو جاتی ہے اور نبی اور اُن کے ساتھی سزاوار ہوتے ہیں کہ اُن کے لیے اللہ کی مدد ظاہر ہو۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی سنت ہے اور اللہ کی سنت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ تمام رسولوں کی سرگذشتیں اِس سنت اللہ پر شاہد ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۴۴)

۴۱؎ اِس جملے میں جواب شرط محذوف ہے۔ یہ عربی زبان کا ایک معروف اسلوب ہے۔ ترجمے میں ہم نے اُسے کھول دیا ہے۔

۴۲؎ مطلب یہ ہے کہ دنیا علم و عقل اور ارادہ و اختیار کے امتحان کے لیے بنی ہے۔ اللہ یہ کر سکتا تھا کہ بالجبر لوگوں کو ہدایت پر جمع کر دیتا یا کوئی ایسی صورت پیدا کرتا کہ سارے حجاب دور ہو جاتے اور لوگ حقیقت کو بچشم سر دیکھ لیتے، لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا۔ اُس کی اسکیم یہی ہے کہ لوگ اِس امتحان سے گزر کر کامیاب یا ناکام ہوں۔ لہٰذا اِن کے ایمان کی آرزو میں اِس طرح جذبات سے مغلوب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ سنت الٰہی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے۔

یہاں یہ امر ملحوظ رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جذبات کوئی جذبات نفس نہیں تھے، بلکہ سراسر جذبات خیر تھے، مگر حد مطلوب سے بڑھتے ہوئے محسوس ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو روک دیا۔ آیت میں بظاہر عتاب ہے، لیکن یہ عتاب بڑا محبت آمیز ہے۔ اِس میں اگر کوئی تلخی ہے تو اُس کا رخ اُنھی بدبختوں کی طرف ہے جن کے ایمان کے لیے آپ اِس قدر بے تاب تھے۔

۴۳؎ آگے کی آیات سے بتدریج واضح ہو جائے گا کہ یہ مطالبہ کسی ایسی نشانی کے لیے تھا جو یہ ثابت کر دے کہ اگر یہ لوگ پیغمبر کی تکذیب پر قائم رہے تو اِن پر عذاب آجائے گا۔

۴۴؎ اِس اجمال میں بڑی تفصیل پوشیدہ ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس سے ایک تو یہ بات نکلتی ہے کہ یہ نادان اور مغرور لوگ اِس طرح کی نشانی کے ظہور کے نتائج سے آگاہ نہیں۔ اِن کے نزدیک یہ محض ایک کھیل تماشا ہے، حالاں کہ یہ نشانی اگر ظاہر ہو گئی تو سب کی کمر توڑ کر رکھ دے گی۔ دوسری یہ کہ یہ خدا کی اُس حکمت اور سنت سے واقف نہیں ہیں جو انبیا اور اُن کے مکذبین کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے پسند فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے رسولوں کی تکذیب کرنے والوں کو فوراً پکڑ لے، بلکہ وہ اُن کو ایک خاص مدت تک مہلت دیتا ہے جس میں اُن پر ہر پہلو سے خدا کی حجت پوری کر دی جاتی ہے۔ جب یہ حجت پوری ہو چکتی ہے، تب خدا اُن کو پکڑتا ہے اور جب پکڑتا ہے تو پھر اُن کو کوئی چھڑا نہیں سکتا۔ تیسری یہ کہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ پیغمبر کی دھمکی جھوٹی ہے یا خدا کے ہاتھ ہی بے بس ہیں، حالاں کہ خدا سرکشوں کو جو ڈھیل پر ڈھیل دیتا ہے تو اِس وجہ سے کہ اُس کی تدبیر بڑی محکم ہوتی ہے۔ وہ رسی کتنی ہی دراز کردے، لیکن اِس کا کوئی امکان نہیں ہوتا کہ کوئی اُس کے قابو سے باہر نکل سکے۔ چوتھی یہ کہ یہ بدقسمت لوگ اُس رحمت سے ناآشنا ہیں جو اِس مہلت کے اندر مضمر ہے، بشرطیکہ اُس سے فائدہ اٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ رحمت میں سبقت کرتا ہے،غضب میں سبقت نہیں کرتا۔ وہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ وہ توبہ اور اصلاح کے دروازے اُس وقت تک کھلے رکھتا ہے، جب تک بندے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے خود اُن کو اپنے اوپر بند نہ کر لیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۴۷)

۴۵؎ اصل الفاظ ہیں: ’وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا طٰٓئِرٍ یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ‘۔ اِن میں مقابل کے بعض الفاظ عربیت کے اسلوب پر حذف ہو گئے ہیں۔ مثلاً جملے کے پہلے حصے میں ’فِی الْاَرْضِ‘ ہے تو دوسرے حصے میں ’فی السمآئ‘ کا لفظ نہیں آیا۔ اِسی طرح دوسرے حصے میں ’یَّطِیْرُ بِجَنَاحَیْہِ‘ کے الفاظ ہیں تو پہلے حصے میں ’تدب علی رجلیہا‘ یا ’ارجلہا‘ کے الفاظ محذوف ہیں۔ ہم نے ترجمے میں اُنھیں کھول دیا ہے۔

۴۶؎ مطلب یہ ہے کہ تم ایک نشانی مانگتے ہو، دیکھنے والی آنکھیں ہوں تو زمین پر چلنے والا ہر جاندار اور فضا میں اڑنے والا ہر پرندہ خدا کی ایک عظیم نشانی ہے۔ پھر قرآن میں بھی ہم نے اِن حقائق کو سمجھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حقیقت یہ ہے کہ نشانیوں سے تو صحیفۂ عالم بھی بھرا ہوا ہے اور صحیفۂ قرآن بھی، لیکن جو کسی بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہی نہ ہوں، اُن کا کیا کیا جائے؟

آیت میں ’اِلَّا ٓاُمَمٌ اَمْثَالُکُمْ‘ کے الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ یہ بتاتے ہیں کہ یہاں جانوروں اور پرندوں کی زندگی کے جس پہلو کو نمایاں کر کے پیش کرنا مقصود ہے، وہ اُن کا نظم اجتماعی ہے۔ اِس کی ایک بہترین مثال شہد کی مکھی اور چیونٹی کا اجتماعی شعور ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِن کا مشاہدہ کیجیے تو آپ کی عقل دنگ رہ جائے گی۔ اِن کے اندر اولاد کی پرورش کا کیسا انتظام ہے، خطرات سے بچائو کے لیے کیسی بیداری ہے، مستقبل کے حالات سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کیسی پیش بینی ہے، جماعتی فرائض کا کیسا شدید احساس ہے، کیسی اعلیٰ تقسیم کار ہے، کس درجہ مضبوط نظام امروطاعت ہے، ضروریات کی فراہمی کے لیے کیسی انتھک سرگرمی ہے، رہایش اور اپنے ذخائر کی حفاظت کے لیے تعمیر کا کیسا کمال فن ہے، تلاش و جستجو کا کیسا عمیق جذبہ اور حصول مطلوب کے لیے کیسی زیرکی و ہوشیاری اور پھر کتنی جان بازی و قربانی ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۴۸)

یہ اجتماعی شعور کسی نہ کسی درجے میں تمام جانوروں اور پرندوں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اِس سے جو حقیقت واضح ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ زمین و آسمان کی مخلوقات کسی اندھے بہرے قانون فطرت سے وجود پذیر نہیں ہوئیں، بلکہ ایک غایت ہے جس کو سامنے رکھ کر تخلیق کی گئی ہیں۔ یہ غایت ہر فرد نوع کی انفرادی زندگی سے بھی سمجھی جا سکتی ہے، لیکن اجتماعی زندگی کے لیے جب یہ جوڑے کا انتخاب کرتے، خاندان بناتے، دوسرے خاندانوں سے متعلق ہوتے اور اپنے بقا و تحفظ کا اہتمام کرتے ہیں تو اِس کا ظہور ایسا واضح ہوتا ہے کہ انسان کی عقل مفلوج نہ ہو گئی ہو تو کبھی اِس کا انکار نہیں کر سکتا۔ یہ چیز کسی اندھے بہرے قانون فطرت سے ہرگز پیدا نہیں ہو سکتی۔ قرآن اِس کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اِس کے بعد بھی نہیں سمجھتے ہو کہ اِس کے پیچھے ایک خالق و مدبر کا ہاتھ ہے اور یہ کائنات مختلف ارادوں، متضاد قوتوں اور تمھارے مزعومہ دیوی دیوتائوں کی رزم گاہ نہیں ہے، بلکہ اُسی وحدہ لا شریک خالق و مدبر کے علم و حکمت اوررحمت و ربوبیت کی جلوہ گاہ ہے۔

۴۷؎ یعنی اِس قانون کے مطابق کہ ہدایت وہی پائیں گے جو اپنے طرز عمل کی بنا پر اُس کے مستحق ہوں گے اور جو غلط روی پر اصرار کریں گے، وہ اُسی کے حوالے کر دیے جائیں گے، پھر کبھی راستہ نہ پا سکیں گے۔

۴۸؎ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت تو بڑے طنطنے کے ساتھ عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو، لیکن وہ آپہنچا تو اپنے سب شریکوں کو بھول جاؤ گے اور اُسی ایک خدا کو پکارو گے جس کے شریک ٹھیرا رہے ہو۔ تم جانتے ہو کہ نفس انسانی میں صرف اُس کی شہادت ثبت ہے۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ جب زندگی میں کوئی ایسا مرحلہ آتا ہے جو اصل آزمایش کا ہوتا ہے تو اپنے تمام فرضی معبودوں کو بھول کر اُسی کو پکارتے ہو۔ 

۴۹؎ یہاں سے آگے اُس سنت الٰہی کا حوالہ ہے جس کے تحت رسولوں کے مکذبین ہلاک کر دیے گئے۔ اِس سے مقصود قریش کو توجہ دلانا ہے کہ جن قوموں نے عذاب کی نشانی کا مطالبہ کیا ہے، اُنھیں کبھی ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی، بلکہ جس عذاب کا مطالبہ وہ کر رہے تھے، اُسی نے اُن کی جڑ کاٹ دی۔

۵۰؎ اصل میں لفظ ’تَضَرُّع‘ آیا ہے۔ یہ قرآن کی خاص تعبیر ہے جو دل کی خشیت اور انابت و عبدیت کے احساس کے ساتھ خدا کے آگے جھک جانے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔

۵۱؎ یہ حسرت و افسوس کا جملہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سختی سے مقصود تو تنبیہ تھی، مگر کتنے بدقسمت تھے یہ لوگ کہ متنبہ ہونے کے بجاے اور سرکش ہو گئے۔

۵۲؎ یعنی اُن مصائب و آلام سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا جن میں مبتلا کیے گئے تھے، بلکہ اُنھیں بھلا کر بالکل نچنت ہو گئے۔

۵۳؎ یہ نہایت لطیف تعبیر ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس سے پہلے اِس طرح کے مجرموں پر ابتلا کے جو جھونکے آتے ہیں، اُن سے اُن کے شجرہستی کے صرف برگ و بار متاثر ہوتے ہیں اور وہ بھی وقتی طور پر، اُن کی جڑ محفوظ رہتی ہے، لیکن جب یہ وقت آجاتا ہے تو خدا اُن پر عذاب بھیجتا ہے جو اُن کے وجود قومی ہی کو جڑ پیڑ سے اکھاڑ کے پھینک دیتا ہے۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۵۲)

۵۴؎ یہ اُس احساس کا اظہار ہے جو خدا سے سرکشی کرنے والوں کے انجام پر ہر بندۂ مومن کے دل میں پیدا ہونا چاہیے۔

۵۵؎ مطلب یہ ہے کہ یہی وقت ہے کہ اِن قوتوں سے وہ کام لیا جائے جس کے لیے یہ دی گئی ہیں۔ اگر اللہ نے اِنھیں سلب کر لیا تو دوبارہ کہاں سے حاصل کرو گے؟ اِس کے بعد تو صرف حسرتیں باقی رہ جائیں گی۔

۵۶؎ اِس سے مراد وہ عذاب ہے جو رسولوں کی تکذیب کرنے والوں پر اتمام حجت کے بعد آتا ہے اور صرف اُنھی کو ہلاک کرتا ہے۔ اہل ایمان اُس سے لازماً بچا لیے جاتے ہیں۔

۵۷؎ یعنی وہ عذاب لانے یا معجزے دکھانے کے لیے نہیں بھیجے جاتے جس کا مطالبہ تم شب و روز کرتے ہو، بلکہ انذار و بشارت کے لیے بھیجے جاتے ہیں۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے مضمرات کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔اِس سے ایک حقیقت تو یہ واضح ہوئی کہ اللہ کے رسول خدا کی رحمت کے مظہر ہوتے ہیں، عذاب اُن کی بعثت کے مقاصد میں سے نہیں، بلکہ اُن کی تکذیب کے لوازم و نتائج میں سے ہے۔ دوسری یہ کہ رسولوں سے لوگوں کو چاہنی وہ چیز چاہیے جس کے لیے وہ آتے ہیں، یعنی ایمان اور عمل صالح کی ہدایت نہ کہ وہ چیز جس سے وہ لوگوں کو بچانے کے لیے بھیجے جاتے ہیں، تیسری یہ کہ یہ خوارق و عجائب نہ رسولوں کے خصائص میں سے ہیں اور نہ اُن کی تعلیم و دعوت کے لوازم میں سے، بلکہ اِن کا ظہور اگر ہوتا ہے تو محض اتمام حجت کے طور پر ہوتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ چوتھی یہ کہ اِس میں رسول کے لیے پیام تسکین ہے کہ وہ اپنا تعلق اپنے اصل مقصد بعثت ــــ بشارت اور انذار ــــ سے رکھے، جو باتیں اُس کے فرائض سے غیرمتعلق ہیں، اُن کو خدا پر چھوڑے، بلاوجہ اُن کے لیے پریشان نہ ہو۔‘‘ (تدبرقرآن ۳/ ۵۴)

۵۸؎ مطلب یہ ہے کہ بحث کرنی ہے تو اُس چیز پر کرو جو میں تمھارے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ میں غیب نہیں جانتا یا فرشتہ نہیں ہوں، اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میری بحث کا موضوع اِن میں سے کوئی چیز کبھی نہیں رہی۔ میں تو وہی کہتا ہوں جو وحی کے ذریعے سے مجھے کہنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔

۵۹؎ یعنی سمع و بصر کی صلاحیتوں سے کام لینے والوں اور آنکھیں بند کر کے زندگی بسر کرنے والوں کا انجام خدا کے ہاں الگ الگ ہوگا یا دونوں برابر ہو جائیں گے؟ میں تم سے صرف یہ پوچھتا ہوں کہ تم اِس بات پر غور کیوں نہیں کرتے؟

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B