عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ)، قَالَ: سُءِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: إِیمَانٌ باِللّٰہِ، قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، قَالَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: حَجٌ مَبْرُوْرٌ.وَفِیْ رَوَایَۃِ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرَ، قَالَ: اِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ.
حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سا عمل بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ پر ایمان، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: بہترین طریقے پر کیا ہوا حج؟
محمد بن جعفر کی روایت میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسول کا بھی ذکر ہے۔
عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، أَیُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَالْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِہِ، قَالَ: قُلْتُ: أَیُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَنْفَسُہَا عِنْدَ أَہْلِہَا وَأَعْلَاہَا ثَمَنًا، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنْ لَّمْ أَفْعَلْ؟ قَالَ: تُعِیْنُ صَانِعًا أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ، قَالَ: قُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ، أَرَأَیْتَ إِنْ ضَعُفْتُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ؟ قَالَ: تَکُفُّ شَرَّکَ عَنِ النَّاسِ، فَإِنَّہَا صَدَقَۃٌ مِنْکَ عَلٰی نَفْسِکَ.
حضرت ابو ذر (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: یارسول اللہ، کون سا عمل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اللہ پر ایمان اور اللہ کی راہ میں جہاد، کہا: پھر میں نے پوچھا: کون سا غلام آزاد کرنا بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا: جو مالکوں کے نزدیک سب سے بہتر ہو اور قیمت میں سب سے بڑھ کر ہو، کہا: میں نے پوچھا: اگر میں یہ نہ کر سکا؟ آپ نے فرمایا: تو کسی کام کرنے والے کی مدد کردو یا کسی کام نہ جاننے والے کا کام بنا دو، کہا: میں نے پوچھا: یارسول اللہ، اگر میں ان میں سے کسی عمل میں کمزور رہا تو؟ آپ نے فرمایا: اپنے شر کو دوسروں سے روک لو، یہ تمھارا اپنی ذات پر صدقہ ہے۔
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَیُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: الصَّلَاۃُ لِوَقْتِہَا، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ: بِرُّ الْوَالِدَیْنِ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَیُّ؟ قَالَ: الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ، فَمَا تَرَکْتُ أَسْتَزِیْدُہُ إِلَّا إِرْعَاءً عَلَیْہِ.
حضرت عبد اللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا عمل بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز، کہا: پھر میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ حضور نے فرمایا: والدین سے نیکی، کہا: میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد، پھر میں نے یہ سوچ کر کہ بار خاطر نہ ہو مزید جاننے کے لیے سوال کرنے چھوڑ دیے۔
’أی الأعمال أفضل‘: کون سا عمل بہترین ہے؟ یہ سوال اس فطری تصور پر مبنی ہے کہ تمام اعمال برابر نہیں ہو سکتے۔ کسی عمل پر زیادہ اجر ملے گا اور کسی پر اس کی نسبت سے کم۔ چنانچہ وہ آدمی جو زیادہ سے زیادہ اجر کمانے کے لیے کوشاں ہے، یہ ضرور جاننا چاہے گا کہ اللہ کے نزدیک زیادہ بڑے اعمال کون سے ہیں تاکہ وہ انھیں اختیار کرکے زیادہ سے زیادہ اجر کا مستحق بنے۔ یہ سوال دین کے اصل رخ کو جاننے میں بھی اہم ہے، اس لیے کہ دین میں وہی اعمال سب سے زیادہ قیمتی ہوں گے جو اس دین کے مجموعی مقصد کے حوالے سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوں گے۔
’صانع‘، ’أخرق‘: ’صانع‘ اور ’أخرق‘ کے الفاظ یہاں متضاد کی حیثیت سے استعمال ہوئے ہیں۔ ’صانع‘ کا لفظ اس شخص کے لیے مناسب ہے جو کسی ہنر سے واقف ہو، جبکہ ’أخرق‘ کا لفظ اس سے بالکل الٹ معنی میں استعمال ہوتا ہے، یعنی ایسا شخص جو کوئی کام نہ جانتا ہو۔ ان الفاظ میں ’أو‘ کے لفظ سے واضح ہے کہ حضور نے یا ’صانع‘ کی مدد کے لیے کہا تھا یا ’أخرق‘ کی مدد کے لیے۔ بہرحال کوئی بھی صورت ہو، یہ لوگوں کے بارے میں خیرخواہانہ رویہ اختیار کرنے کی تلقین ہے۔
ان روایات میں ایک ہی سوال ہے جو مترادف اسالیب میں کیا گیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے ان میں جو جواب نقل ہوا ہے، وہ کچھ پہلوؤں سے مختلف اور کچھ پہلوؤں سے ہم آہنگ ہے۔
پہلی روایت میں آپ نے اعمال اس ترتیب سے بیان کیے ہیں:
اس سے اگلی روایت میں حج کا ذکر نہیں ہے ۔ تیسری روایت میں وقت پر نماز ، والدین سے نیکی اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر ہے۔ غرض یہ کہ اس روایت اور پہلی دونوں روایتوں میں جہاد کے علاوہ کوئی چیز مشترک نہیں ہے۔ اس سے اگلی روایت میں صرف نماز اور جہاد کا ذکر ہے۔پھر ایک روایت میں نماز اور والدین کے ساتھ نیکی کا ذکر ہے۔ ان روایات میں سے ایک روایت میں ’’غلام آزاد کرنے کی سب سے بہتر صورت کیا ہے؟‘‘ کا سوال بھی منقول ہے۔ اسی روایت میں سائل نے پوچھا: اگر میں یہ نہ کر سکوں تو آپ نے کہا: کسی کی کام میں مدد کرو۔ سائل نے پھر پوچھا کہ اگر میں کمزور نکلوں تو آپ نے اسے اپنے شر سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کی تلقین کی۔
ان روایات کے بارے میں ایک سوال تو یہ ہے کہ جوابات میں فرق کیوں ہے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا اعمال کی ترتیب بھی کسی معنی پر دلالت کرتی ہے؟
عام طور پر شارحین نے فرق کی توجیہ مخاطب کے فرق سے کی ہے۔ یہ توجیہ بھی درست ہے، اس لیے کہ یہ بالکل فطری بات ہے کہ مخاطب کی رعایت سے بات کہی جائے۔ دوسری روایات سے بھی یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں مخاطب کے لحاظ سے فرق کیا ہے یا ایک ہی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اس کی تفصیل میں مخاطب کی شخصیت کو ملحوظ رکھا ہے، لیکن اس فرق کو ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے، یعنی دین کے اعمال فکری پہلو سے ایک ترتیب رکھتے ہیں اور عملی پہلو سے ایک اور ترتیب ہو سکتی ہے۔ اسی طرح دین و اخلاق اور ایمان وعمل کے پہلو سے بھی ترتیبیں قائم کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ بالکل ممکن ہے کہ حضور نے جواب دیتے ہوئے مختلف پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب دیے ہوں۔ ہم یہاں روایات کی ترتیب بیان پر بہت اعتماد نہیں کر سکتے، اس لیے کہ اس میں راویوں کے سبب سے فرق واقع ہو سکتا ہے۔ ہم جب قرآن مجید کو اس حوالے سے دیکھتے ہیں تو جہاد اور ہجرت کو ایک خصوصی مقام حاصل ہے۔ اسی طرح ایمان کے بعد نماز اور زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت برمیں ظاہری دین داری کے مظاہر کی نفی کے بعد ایمانیات اور ایمانیات کے بعد خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا ذکر ہوا ہے، پھر نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ اس کے بعد عہد کی پاس داری اور آخر میں ثابت قدمی کا ذکر ہے۔ جہاں بہترین اہل ایمان کا ذکر ہوا ہے، وہاں اعمال کے بیان میں نماز کوپیش وعقب میں رکھتے ہوئے خدا کی راہ میں خرچ کرنے، شرم گاہوں کی حفاظت ، امانت داری اور وعدہ وفائی کو نمایاں ترین اعمال کی حیثیت دی گئی ہے۔اسی طرح جہاں صفات کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، وہاں مثلاً آل عمران میں صبر، صدق، قنوت، انفاق اور سحرگاہی کی صفات بیان ہوئی ہیں۔ پھر سورۂ احزاب میں اسی اسلوب کی آیت ہے، مگر اس میں صفات مذکر مونث کی تصریح اور کچھ حک و اضافے کے ساتھ آئی ہیں: مسلمین اور مسلمات، مومنین اور مومنات، قانتین اور قانتات، صادقین اور صادقات، صابرین اور صابرات، خاشعین اور خاشعات، متصدقین اور متصدقات، صائمین اور صائمات، حافظین فروج اور حافظات، ذاکرین اور ذاکرات۔ آل عمران کی آیت اور اس آیت میں ترتیب بھی مختلف ہے اور صفات کی تعداد میں بھی فرق ہے۔ مزید یہ کہ ان آیات سے یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان ترتیبوں میں کوئی درجے کا پہلو بھی ملحوظ ہے، بلکہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام صفات بہ یک وقت مطلوب ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دین میں ایمان وعمل اور اخلاق وطاعات بہ یک وقت مطلوب ہیں۔ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی فرد کو انھیں پانے میں کچھ مراحل سے گزرنا پڑے یا افراد میں رنگ شخصیت کے پہلو سے اظہار میں کچھ فرق نظر آئے، لیکن ان کے مطلوب ومحمود ہونے میں کچھ فرق نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ان روایات کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً سب سے پہلی روایت میں پہلے ایمان کا ذکر ہے، پھر جہاد کا ذکر ہے اور تیسری بار حج مبرور کا بیان ہے۔ ایمان تمام دین کی بنیاد ہے، اس لیے اس کی اولیت اسی پہلو سے بیان ہوئی ہے۔ اس کے بعد جہاد کا ذکر ہے۔ یہ دین کے ساتھ تعلق کا تقاضا ہے۔ سورۂ توبہ میں اس سے گریز کا جو نتیجہ بیان ہوا ہے، اس سے واضح ہے کہ دین کو جب جان ومال کی ضرورت پیش آجائے، اس سے گریز ایک مسلمان کو بھی فاسقین کی صف میں کھڑا کر دیتا اور وہ خدا کے غضب کا مستحق ہو جاتا ہے۔ تیسری چیز حج مبرور ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کے لیے کچھ عرصے کے لیے گھر بار بھی چھوڑنا پڑتا ہے اور مال اور سعی و جہد کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ پھر حج کی جہاد سے بھی ایک مناسبت ہے، اس لیے کہ اس کے مناسک خدا کے ساتھ وابستگی اور بندگی کے سب سے بڑے دشمن شیطان کے خلاف سعی کی علامت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حج اور جہاد، دونوں میں سے کون سی چیز نمایاں حیثیت اختیار کر سکتی ہے؟ اس کا تعلق حالات سے ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ یہاں ترجیح حالات کے تحت ہے، مطلق نہیں ہے۔
ایک دوسرے موقع پر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اسی سوال کے جواب میں سب سے پہلے نماز کو بیان کیا۔ نماز کے بعدوالدین کے ساتھ نیکی اور آخر میں جہاد کا ذکر ہے۔ نماز ایمان کا سب سے بڑا مظہر ہے، لیکن یہاں وقت پر نماز پڑھنے کی قید سے اس پر عمل میں مستعدی کو نمایاں کیا گیا ہے۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک کو سورۂ بنی اسرائیل میں توحید کے بعد رکھا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے بڑا حق جو انسان پر عائد ہوتا ہے، وہ توحید کا ہے اور اس کے بعد والدین کا حق ہے۔ اس کے بعد جہاد ہے جو دین کے ساتھ وابستگی کا حق ہے۔
اس تجزیے سے واضح ہے کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان وعمل کی فطری ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے اور وہاں ایمان محض قول وقرار کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ پوری طرح دین میں داخل ہونے کے معنی میں ہے۔ اعمال میں آپ نے اس زمانے کے حالات میں جو تقاضا سامنے تھا، اس کو بیان کیا اور سورۂ توبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد ہجرت کے بعد دین کے ساتھ وابستگی کے سب سے بڑے تقاضے کی حیثیت سے سامنے آیا ہوا تھا۔ حج عمومی حالات میں سب سے بڑی عبادت اپنی مخصوص نوعیت کی وجہ سے بن جاتا ہے۔دوسری روایت میں نماز، والدین کے ساتھ نیکی اور جہاد کا ذکر ہے۔ یہاں حقوق کا پہلو ملحوظ ہے۔
قرآن مجید اور ان روایات کو سامنے رکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید کے پیش نظر مطلوب ومقصود کو واضح کرنا ہے، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمل کرنے والے کے حالات سامنے رکھ کر جواب دے رہے ہیں۔ قرآن مجید کے متعدد مقامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالات، نیت اور سعی وجہد کے فرق سے اعمال کے اجر میں فرق پیدا ہو جاتا ہے، ان روایات میں یہ پہلو بھی ملحوظ ہے۔
امام مسلم ان روایات میں ایک ایسی روایت بھی لائے ہیں جس میں اس سوال کے علاوہ دو اور سوال بھی کیے گئے ہیں۔ اس روایت کے مطابق حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے حضور سے یہ بھی پوچھا تھا کہ سب سے بہتر گردن چھڑانا کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: جو سب سے قیمتی اور قابل قدر ہو۔ یہ جب اس اصول پر مبنی ہے کہ دین پر عمل کرنے میں سب سے بہتر طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس پر حضرت ابوذر نے پوچھا کہ اگر میں ایسا نہ کر سکوں تو؟ آپ نے کہا: کسی کام کرنے والے کی مدد کرو یا کرنے کی اہلیت نہ رکھنے والے کا کام بنا دو۔ یہ معاشرے میں ایک خیر خواہ انسان کی حیثیت سے جینے کی تلقین ہے۔ اس پر حضرت ابوذر نے پوچھا: اگر میں عمل کرنے میں اس درجے پر نہ پہنچ پاؤں تو؟ آپ نے فرمایا: اپنے شر سے دوسروں کو بچاؤ، یہ خود ایک صدقہ ہے۔ پہلی بات آگے بڑھ کر مدد کرنے کی تھی تو دوسری بات منفی رویوں سے دوسروں کو بچانے کی ہے۔
ان روایات میں زیادہ سے زیادہ اجر کمانے کا پہلو ملحوظ ہے۔ یہی ان روایات کا مرکزی نکتہ ہے۔
امام مسلم نے جو روایات منتخب کی ہیں، ان میں چند اعمال کا ذکر ہے، جو ’’کون سا عمل بہترین ہے‘‘ کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے تھے۔ دوسری کتب روایت میں ان کے علاوہ اعمال بھی بیان ہوئے ہیں۔ مثلاً کسی روایت میں ترک دنیا اور زبان سے ذکر کو ،کسی میں صبر کو، کسی میں حسن خلق کو، کسی میں عمل پر مداومت کو، کسی میں طول قیام کواور کسی میں حج کی قربانی اور بہ آواز بلند تلبیہ پڑھنے کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔
وہ روایات جن کے متن امام مسلم کے متون سے ملتے جلتے ہیں، ان میں کچھ فرق بھی ہیں۔ مثلاً بعض روایات میں پانچ نمازوں کی تصریح ہے۔ نمازوں ہی کے حوالے سے کسی میں وقت پر اور کسی میں اول وقت پر پڑھنے کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔ کسی میں ایمان کے شک سے پاک ہونے کی وضاحت ہے۔ کسی میں حج مبرور کے ساتھ عمرے کا بھی ذکر ہے۔جہاد کے بجاے کچھ متون میں غزوے کا لفظ اختیار کیا گیا ہے ۔ کسی میں حج مبرور کی فضیلت اس تمثیل سے بیان کی گئی ہے کہ جیسے مغرب اور مشرق کا فاصلہ۔کسی میں ایمان باللہ کے ساتھ ایمان بالرسالت کا بھی ذکر ہے۔
عام طور پر روایات میں سوال والے جملے میں ’افضل‘ کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے، لیکن بعض متون میں اس کی جگہ ’خیر‘ کا لفظ بھی آیا ہے، اور بعض میں ’أحب إلی اللّٰہ ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔اسی طرح کچھ روایات میں جہاد کا ذکر نہیں ہے۔ کچھ روایات میں ایمان کا ذکر نہیں ہے اور کچھ میں حج کا ذکر نہیں ہے۔ بعض متون میں صرف ان میں سے کسی ایک عمل ہی کا بیان ہے۔
مسلم، رقم۸۳۔ ۸۵؛ بخاری، رقم۲۶، ۱۴۴۷، ۲۳۸۲، ۷۰۹۶؛ ابوداؤد، رقم۴۲۶، ۱۳۲۵، ۱۴۴۹؛ ترمذی، رقم۱۷۰، ۱۷۳، ۱۶۵۸، ۱۸۹۸؛ نسائی، رقم۲۵۲۶، ۲۶۲۴، ۳۱۳۰، ۴۹۸۵، ۴۹۸۶؛ مصنف عبد الرزاق، رقم ۲۰۲۹۵، ۲۰۲۹۶، ۲۰۳۰۴؛ مسند ابن الجعد، رقم۳۴۳۱؛ ابن ابی شیبہ، رقم ۷۶۳۷، ۳۰۳۹۳؛ احمد، رقم۸۳، ۳۷۹، ۷۵۰۲، ۷۵۸۰، ۷۶۲۹، ۷۸۵۰، ۸۵۶۳، ۹۰۲۶، ۹۶۹۸، ۱۰۷۶۷، ۱۰۸۹۱، ۱۵۴۳۷، ۱۷۸۴۷، ۱۹۰۳۲، ۱۹۰۳۳، ۲۱۳۶۹، ۲۱۴۸۷، ۲۳۸۳۴، ۲۷۱۳۹، ۲۷۱۴۱؛ مسند عبد بن حمید، رقم۱۵۱۵؛ دارمی، رقم۱۴۲۴، ۲۳۹۳، ۲۷۳۸، ۲۷۳۹؛ السنن الکبریٰ، رقم۲۳۰۵، ۳۶۰۳، ۴۳۳۸، ۱۱۷۱۶، ۱۱۷۱۷؛ ابن خزیمہ، رقم۲۶۳۱؛ ابن حبان، رقم۱۵۲، ۱۵۳، ۸۱۸، ۱۴۷۵، ۱۴۷۹، ۴۵۹۵، ۴۵۹۷، ۴۵۹۸؛ المعجم الکبیر، رقم۸۱۰؛ دارقطنی، رقم۴؛ المستدرک، رقم۶۷۶، ۲۳۸۶؛ بیہقی، رقم۴۴۶۶، ۷۵۶۲، ۱۰۱۶۹، ۱۱۲۲۱، ۱۲۳۷۵، ۱۸۲۶۴، ۱۸۳۰۷، ۱۸۸۶۱، ۲۱۱۰۳۔
_________________