HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: المائدہ ۵: ۳۲-۳۴ (۱۰)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا، وَمَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا،وَلَقَدْ جَآئَ تْہُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ{۳۲} 
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہََ وَ رَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْتُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَ اَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضَََِ۔ ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ{۳۳} اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ،فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہََ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ{۳۴}
(انسان کی) یہی (سرکشی) ہے جس کی وجہ سے ہم نے (موسیٰ کو شریعت دی تو اُس میں) بنی اسرائیل پر فرض کردیا کہ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔ ۸۴ (پھر یہی نہیں، اِس کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ (اِن پر اتمام حجت کے لیے) ہمارے پیغمبر اِن کے پاس نہایت واضح نشانیاں لے کر آئے، لیکن اِس کے باوجود اِن میں سے بہت سے ہیں جو حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔۸۵ ۲ ۳
(اِنھیں بتا دیا جائے کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور زمین میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کریں گے،۸۶ اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کیے جائیں۸۷یا سولی پر چڑھائے جائیں۸۸یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں ۸۹یا اُنھیں علاقہ بدر کردیا جائے۔۹۰  یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے ۹۱ اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے، مگر اُن کے لیے نہیں جو تمھارے قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کرو اور) اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔۹۲  ۳۳-۳۴

۸۴؎  انبیا علیہم السلام کی شریعت میں یہ قانون ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ یہود کا حوالہ محض اُن کی شقاوت و شرارت کو نمایاں کرنے کے لیے آیا ہے۔ اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ بنی اسرائیل کے لیے خاص کوئی قانون ہے۔ چنانچہ نوح علیہ السلام اور اُن کی ذریت کو جو ہدایت اِس معاملے میں کی گئی تھی، وہ بائیبل کی کتاب پیدایش میں اِس طرح مذکور ہے:

’’۔۔۔آدمی کی جان کا بدلہ آدمی سے اور اُس کے بھائی بند سے لوں گا۔ جو آدمی کا خون کرے، اُس کا خون آدمی سے ہوگا، کیونکہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا ہے۔‘‘ (۹: ۵-۶)

اِس قانون کی وضاحت آگے سلسلۂ بیان کے آخر میں ہوگی۔ قتل نفس کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے قصاص کا اصل فلسفہ یہاں بیان کردیا ہے۔ اِس فلسفے کی رو سے جو فرائض اِس قانون کے ماننے والوں پر عائد ہوتے اور جن ذمہ داریوں کے وہ مکلف ٹھیرتے ہیں، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہیں:

’’ایک یہ کہ ہر حادثۂ قتل پوری قوم میں ایک ہلچل پیدا کردے۔ جب تک اُس کا قصاص نہ لے لیا جائے، ہر شخص یہ محسوس کرے کہ وہ اُس تحفظ سے محروم ہوگیا ہے جو اُس کو اب تک حاصل تھا۔ قانون ہی سب کا محافظ ہوتا ہے۔ اگر قانون ہدم ہوگیا تو صرف مقتول ہی قتل نہیں ہوا، بلکہ ہر شخص قتل کی زد میں ہے۔
دوسری یہ کہ قاتل کا کھوج لگانا صرف مقتول کے وارثوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ پوری جماعت کی ذمہ داری ہے، اِس لیے کہ قاتل نے صرف مقتول ہی کو قتل نہیں کیا، بلکہ سب کو قتل کیا ہے۔
تیسری یہ کہ کوئی شخص اگر کسی کو خطرے میں دیکھے تو اُس کو پرایا جھگڑا سمجھ کر نظر انداز کرنا اُس کے لیے جائز نہیں ہے، بلکہ اُس کی حفاظت و حمایت تابہ حد مقد ور اُس کے لیے ضروری ہے، اگرچہ اِس کے لیے اُسے خود جوکھم برداشت کرنی پڑے۔ اِس لیے کہ جو شخص کسی مظلوم کی حمایت و مدافعت میں سینہ سپر ہوتا ہے، وہ صرف مظلوم ہی کی حمایت میں سینہ سپر نہیں ہوتا، بلکہ تمام خلق کی حمایت میں سینہ سپر ہوتا ہے جس میں وہ خود بھی شامل ہے۔ 
چوتھی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی قتل کو چھپاتا ہے یا قاتل کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے یا قاتل کا ضامن بنتا ہے یا قاتل کو پناہ دیتا ہے یاقاتل کی دانستہ وکالت کرتا ہے یا دانستہ اُس کو جرم سے بری کرتا ہے، وہ گویا خود اپنے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے قاتل کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے، کیونکہ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے۔ 
پانچویں یہ کہ کسی مقتول کے قصاص کے معاملے میں مقتول کے وارثوں یا حکام کی مدد کرنا بھی، درحقیقت مقتول کو زندگی بخشنا ہے۔ اِس لیے کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن۲/ ۵۰۳)

۸۵؎  یعنی پہلے بھی حدود سے تجاوز کرتے رہے ہیں، اب بھی کر رہے ہیں اور خدا کے پیغمبروں کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود سرکشی اور فساد کی وہ روش چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں جو اِنھوں نے ہمیشہ سے اختیار کر رکھی ہے۔

۸۶؎  اللہ کا رسول دنیا میں موجود ہو اور لوگ اُس کی حکومت میں اُس کے کسی حکم یا فیصلے کے خلاف سرکشی اختیار کرلیں تو یہ اللہ و رسول سے لڑائی ہے۔ اِسی طرح زمین میں فساد پیدا کرنے کی تعبیر ہے۔ یہ اُس صورت حال کے لیے آتی ہے ، جب کوئی شخص یا گروہ قانون سے بغاوت کر کے لوگوں کی جان و مال، آبرو اور عقل و راے کے خلاف برسر جنگ ہوجائے۔ چنانچہ قتل دہشت گردی، زنا زنا بالجبر اور چوری ڈاکا بن جائے یا لوگ بدکاری کو پیشہ بنالیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و آبرو کے لیے خطرہ بن جائیں یا نظم ریاست کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یا اغوا، تخریب، ترہیب اور اِس طرح کے دوسرے سنگین جرائم سے حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ پیدا کردیں تو وہ اِسی فساد فی الارض کے مجرم ہوں گے۔

آیت میں اِس کے لیے ’یَسْعَوْنَ‘ اوریُحَارِبُوْنَ‘ وغیرہ کی صورت میں جمع کاا سلوب اختیار کیا گیا ہے۔ یہ اِس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جرم اگر جتھا بنا کر ہوا ہے تو اُس کی سزا بھی انفرادی حیثیت سے نہیں، بلکہ اُس جتھے کو جتھے ہی کی حیثیت سے دی جائے گی۔ چنانچہ مجرموں کا کوئی گروہ اگر فساد فی الارض کے طریقے پر قتل، اغوا، زنا، تخریب، ترہیب اور اِس طرح کے دوسرے جرائم کا مرتکب ہوا ہے تو اِس کی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ متعین طور پر جرم کا ارتکاب کن ہاتھوں سے ہوا اور کن سے نہیں ہوا ہے، بلکہ جتھے کا ہر فرد اِس میں شریک سمجھا جائے گا اور اُس کے ساتھ معاملہ بھی لازماً اِسی حیثیت سے ہوگا۔

۸۷؎  اصل میں ’اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن کے معنی یہ ہیں کہ اللہ و رسول سے محاربہ اور فساد فی الارض کے یہ مجرم صرف قتل ہی نہیں، بلکہ عبرت ناک طریقے سے قتل کردیے جائیں۔ اِس کی دلیل یہ ہے کہ ’قتل‘ یہاں ’تقتیل‘ کی صورت میں آیا ہے۔ بنا میں یہ زیادت نفس فعل میں شدت اور مبالغہ کے لیے ہوئی ہے۔ اِس وجہ سے ’تقتیل‘ یہاں ’شر تقتیل‘ کے مفہوم میں ہے۔ چنانچہ حکم کا تقاضا یہ ہوگا کہ اِن مجرموں کو ایسے طریقے سے قتل کیا جائے جو دوسروں کے لیے عبرت انگیز اور سبق آموز ہو۔ رجم، یعنی سنگ ساری بھی اِسی کے تحت داخل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں اوباشی کے بعض مجرموں کو یہ سزا اِسی آیت کے حکم کی پیروی میں دی ہے۔

۸۸؎  یہ سزا ’صلب‘ سے ’تفعیل‘ میں بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ’اَوْ یُصَلَّبُوْٓا‘، یعنی ایسے لوگوں کو صرف سولی ہی نہ دی جائے، بلکہ عبرت ناک طریقے سے سولی دی جائے۔ یہ سولی وہ چوبی آلہ ہے جس پر مجرم کے ہاتھوں اور پاؤں میں میخیں ٹھونک کر اُسے لٹکا دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اُسی پر لٹکا ہوا جان دے دیتا ہے۔ سزا کی یہ صورت کچھ کم عبرت انگیز نہیں ہے، لیکن آیت میں لفظ  ’یُصَلَّبُوْٓا‘ کا تقاضا ہے کہ اِس کے لیے بھی وہ طریقے اختیار کیے جائیں جو زیادہ دردناک اور زیادہ عبرت انگیز ہوں۔

۸۹؎  بے ترتیب کاٹ دینے کا یہ حکم بھی عبرت انگیزی ہی کے نقطۂ نظر سے ہے اور اِس کا مقصود یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس طرح کے کسی مجرم کی اگر جان بخشی بھی کی جائے تو اِس طرح کی جائے کہ اُسے عبرت کا ایک نمونہ بنا کر اُس کی شر انگیزی کے تمام اسلحہ بالکل بے کار کردیے جائیں۔ 

۹۰؎  یہ سب سے کم سزا ہے جو اِن مجرموں کے لیے بیان ہوئی ہے۔ پہلی دو سزائیں مجرم کا خاتمہ کردیتی ہیں۔ تیسری سزا کے نتیجے میں وہ ہاتھ پاؤں سے محروم ایک نمونۂ عبرت کے طور پر زندہ رہتا ہے اور یہ چوتھی اور آخری سزا اُس کے جسم و جان کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر محض اُس کے وطن اور گھردر سے اُسے محروم کرتی ہے۔ قرآن کے الفاظ کا تقاضا ہے کہ عام حالات میں یہ سزا اِسی صورت میں دی جائے، لیکن کسی وجہ سے اگر یہ ممکن نہ ہو تو مجرم کو کسی خاص علاقے میں پابندیا اُس کے گھر میں نظر بند کردینے سے بھی حکم کا منشا یقیناً پورا ہوجائے گا۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ اور اِس سے پہلے مذکور تمام سزائیں حرف ’اَوْ‘ کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ قرآن مجید نے حکومت کو اختیار دیا ہے کہ وہ جرم کی نوعیت، مجرم کے حالات اور جرم کے موجود اور متوقع اثرات کے لحاظ سے اِن میں سے جو سزا مناسب سمجھے، اِس طرح کے مجرموں کو دے سکتی ہے۔ تقتیل اور تصلیب جیسی سزاؤں کے ساتھ اِس میں نفی کی سزا اِس لیے رکھی گئی ہے کہ سزا میں انتہائی سختی کے ساتھ حالات کا تقاضا ہو تو مجرم کے ساتھ نرمی کے لیے بھی گنجایش باقی رکھی جائے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے:

’’۔۔۔اِس طرح کے حالات میں صرف اِسی امر کو ملحوظ نہیں رکھنا پڑتا ہے کہ جرم کرنے والے جتھے نے صرف مال کو نقصان پہنچایا ہے، بلکہ اِس سے بڑھ کر زمانہ، مقام اور جتھا بندی کرنے والے مجرموں کے عزائم اور اُن کے اثرات پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے۔ مثلاً، زمانہ جنگ یا بد امنی کا ہو تو اُس میں لازماً سخت اقدام کی ضرورت ہوگی۔ اِسی طرح مقام سرحدی یا دشمن کی سازشوں کا آماج گاہ ہو، تب بھی موثر کارروائی ضروری ہوگی۔ اگرشرارت کا سرغنہ کوئی بڑا خطرناک آدمی ہو اور اندیشہ ہو کہ اُس کو ڈھیل ملی تو بہتوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کو خطرہ پیش آجائے گا، تب بھی حالات کے لحاظ سے موثر قدم اٹھانا پڑے گا۔ غرض اِس میں اصلی اہمیت جزوی واقعات کی نہیں، بلکہ بغاوت کے مجموعی اثر اور ملک و ملت کے مصالح کی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۰۶)

۹۱؎  یہ الفاظ اِس تنبیہ کے لیے آئے ہیں کہ اِس طرح کے مجرموں کو سزا دیتے وقت کسی شخص کے دل میں ہم دردی کے کوئی جذبات پیدا نہ ہوں۔ وہ پروردگار جو اُن کا خالق ہے، اِن جرائم کے بعد اُس کا فیصلہ یہی ہے کہ اُنھیں اِس دنیا میں بالکل رسوا کردیا جائے۔ اِس سزا کا مقصد یہی ہے اور اِسے ہر حال میں پیش نظر رہنا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔دنیا میں اِن کی یہ رسوائی دوسروں کے لیے ذریعۂ عبرت و بصیرت ہوگی اور اِس کے اثر سے اُن لوگوں کے اندر بھی قانون کا ڈر اور احترام پیدا ہوگا جو یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ مجرد قانون کی افادیت اور عظمت کی بنا پر اُس کا احترام کریں۔ موجودہ زمانے میں جرم اور مجرمین کے لیے فلسفہ کے نام سے جو ہمدردانہ اور رحم دلانہ نظریات پیدا ہوگئے ہیں، یہ اُنھی کی برکت ہے کہ انسان بظاہر جتنا ہی ترقی کرتا جاتا ہے، دنیا اتنی ہی جہنم بنتی جارہی ہے۔ اسلام اِس قسم کے مہمل نظریات کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔ اُس کا قانون ہوائی نظریات پر نہیں، بلکہ انسان کی فطرت پر مبنی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۰۷)

۹۲؎  یعنی اِس طرح کے مجرم اگر حکومت کے کسی اقدام سے پہلے خود آگے بڑھ کر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیں تو اُن سے پھر عام مجرموں کا معاملہ کیا جائے گا۔ اِس صورت میں اُنھیں محاربہ یا فساد فی الارض کا مجرم قرار نہیں دیا جائے گا۔ استاذ امام نے لکھا ہے:

’’۔۔۔یہ خاص اختیارات صرف اُن باغیوں کے خلاف استعمال کیے جائیں گے جو حکومت کے حالات پر قابو پانے سے پہلے تک اپنی بغاوت پر اڑے رہے ہوں اور حکومت نے اپنی طاقت سے اُن کو مغلوب و مقہور کیا ہو۔ جو لوگ حکومت کے ایکشن سے پہلے ہی توبہ کر کے اپنے رویے کی اصلاح کر چکے ہوں، اُن کے خلاف اُن کے سابق رویے کی بنا پر اِس قسم کا کوئی اقدام جائز نہیں ہوگا، بلکہ اب اُن کے ساتھ عام قانون کے تحت معاملہ ہوگا۔ اگر اُن کے ہاتھوں عام شہریوں کے حقوق تلف ہوئے ہیں تو حتی الامکان اُن کی تلافی کرادی جائے گی۔
آیت میں ’فَاعْلَمُوْٓا‘ کے لفظ کے زور کو اگر ذہن میں رکھیے تو یہ بات صاف نکلتی ہے کہ قابو میں آنے سے پہلے ہی توبہ اور اصلاح کرلینے والوں کے معاملے میں حکومت کے لیے کوئی انتقامی کارروائی جائز نہیں ہے۔ خدا غفور اور رحیم ہے، جب وہ پکڑ سے پہلے توبہ و اصلاح کرلینے والوں کو معاف کردیتا ہے تو اُس کے بندوں کا رویہ اِس سے الگ کیوں ہو؟‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۰۸)

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــ

B