حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا: کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عید کی نماز میں موجود تھے؟ انھوں نے کہا: ہاں، اگر میں چھوٹا نہ ہوتا تو عید میں موجود نہ ہوتا(آپ عید کے لیے نکلے) یہاں تک کہ کثیر بن الصلت کے گھر کے پاس اس جگہ پہنچے جہاں عید گاہ کا نشان تھا۔ پھر آپ نے نماز پڑھی (راوی کا قول ہے کہ پھر آپ نیچے اترے۔ گویا کہ میں انھیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے نیچے بٹھا رہے ہیں پھروہ ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے عورتوں تک آئے اور آپ کے ساتھ بلال تھے۔ (پھر کہا: ’’اے نبی، جب تمھارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کے لیے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی‘‘ (الممتحنہ ۶۰: ۱۲)) پھر آپ یہ آیت پڑھنے کے بعد فارغ ہوئے تو پوچھا: کیا تم اس بات پر ہو؟ (یعنی اس بات پر بیعت کرتی ہو)۔ ایک عورت کے سوا کسی نے آپ کو جواب نہ دیا۔ اس نے کہا: ہاں، اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم، (راوی کا قول ہے کہ آپ نے ان کو وعظ و نصیحت کی اور صدقہ و خیرات کا حکم دیا) (راوی کا قول ہے: پھر بلال نے کپڑا پھیلا دیا اور کہا: آئو۔ میرے ماں باپ تم پر فدا ہوں)، پھر میں نے انھیں دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ بڑھا بڑھا کر صدقہ کو (ایک روایت میں ہے کہ وہ چھلے اور انگوٹھیاں ڈالنے لگیں) بلال کے کپڑے میں ڈال رہی ہیں۔ پھر آپ بلال کے ہمراہ اپنے گھر چلے گئے)۔
تخریج: اس کی تخریج بخاری (۲/ ۲۷۲) اور اسی سند سے ابن حزم (۲/ ۲۱۷)نے؛ ابودائود (۱/ ۱۷۴) اور اسی سند سے بیہقی (۳/ ۳۰۷)؛ نسائی (۱/ ۲۲۷)؛ احمد (۱/ ۳۳۱) اور اضافہ انھی کی ایک اور روایت کا ہے۔ اسی طرح ابن جارود نے المنتقیٰ (رقم ۲۶۳)؛ اور ابن خزیمہ نے اپنی صحیح(۲/ ۳۵۶، رقم ۱۴۵۸) میں روایت کی ہے۔
ابن حزم نے ’’المحلیٰ‘‘ (۳/ ۲۱۶- ۲۱۷) میں سینوں پر اوڑھنیاں جمانے والی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ نص گردن اور سینے کو چھپانے کے لیے ہے اور لازمی طور پر چہرہ ننگا رکھنے کے جواز کے لیے ہے۔ اور پھر کہتے ہیں: ’’یہ ابن عباس ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ان کے ہاتھوں کو دیکھ رہے ہیں۔ پس صحیح یہ ہے کہ عورت کے ہاتھ اور چہرہ ستر میں داخل نہیں اور ان دونوں کے علاوہ جو کچھ ہے، اسے چھپانا فرض ہے۔‘‘
علامہ البانی کاقول ہے کہ ’’اس روایت میں عورتوں کی بیعت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ واقعہ فرضیت جلباب کے بعد کا ہے، کیونکہ جلباب ۳ ھ میں فرض ہوا، جبکہ بیعت والی آیت ۶ھ میں نازل ہوئی۔‘‘ مزید تحقیق کرتے ہوئے علامہ البانی فرماتے ہیں کہ ’’الدر‘‘ (۶/ ۳۰۹) میں ہے کہ ’’مقاتل کے قول کے مطابق بیعت والی آیت فتح مکہ کے دن نازل ہوئی۔‘‘ پھر ’’الدر‘‘ (۶/ ۲۱۱) میں ہے کہ ابن مردویہ نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ یہ آیت امتحان کے بعد نازل ہوئی اور بخاری میں مسور بن مخرمہ سے روایت ہے کہ آیت امتحان صلح حدیبیہ کے دن نازل ہوئی جو صحیح روایت کے مطابق ۶ھ میں ہوئی۔اور آیت حجاب ۳ھ میں نازل ہوئی اور ایک روایت میں ہے ۵ھ میں نازل ہوئی، جیسا کہ ’’الاصابہ‘‘ میں ام المومنین زینب بنت جحش کے ترجمہ میں ہے، اس کی تائید حافظ ابن حجر کی ’’فتح الباری‘‘ (۲/ ۳۷۷) میں موجود قول سے ہوتی ہے کہ عید میں ابن عباس کی حاضری فتح مکہ کے بعد ہوئی۔
عورتیں عید کی نماز ادا کرنے کے بعد اسی حالت میں عید گاہ میں بیٹھی ہوئی تھیں جبھی تو ان کو پتا چلا کہ بلال کپڑا پھیلائے صدقات اکٹھے کر رہے ہیں۔ اگر چہرے چھپے ہوتے تو کیسے پتا چلتا صدقات کپڑے میں گر رہے ہیں یا زمین پر، پھر ہاتھ بڑھا بڑھا کر صدقات ڈال رہی تھیں ہاتھ ننگے تھے جن کو ابن عباس دیکھ رہے تھے۔ عہد نبوت کی مسجد اور عید گاہ کو پاکستان کی مسجدوں اور عید گاہوں پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ جہاں عورتوں کو اوٹ کے پیچھے بٹھایا جاتا ہے۔ اس حدیث کا مضمون وہی ہے جو اس مضمون میں مذکور پہلی حدیث کا ہے۔
سبیعہ بنت حارث سے روایت ہے کہ وہ سعد بن خولہ کی بیوی تھیں جس کی وفات حج وداع میں ہو گئی اور وہ بدری صحابی تھے۔ ان کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن سے پہلے ہی بیوی نے بچے کو جنم دیا۔ جب وہ نفاس سے فارغ ہوئیں تو ابوسنابل بن بعکک کی ان سے ملاقات ہوئی اس حالت میں، جبکہ بیوہ نے سرمہ ڈالا ہوا تھا (اور مہندی لگا کر تیاری کی ہوئی تھی) ابو سنابل نے کہا: اپنے آپ پر مہربانی کرو یا اس قسم کی بات کہی شاید تو نکاح کرنا چاہتی ہے؟ یہ تو تیرے شوہر کی وفات سے چار ماہ اور دس دن کے بعد ممکن ہے۔ سبیعہ کا قول ہے: ’’پس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور ان سے ابو سنابل بن بعکک کے قول کا تذکرہ کیا، آپ نے فرمایا: جب تونے بچہ جن لیا تو نکاح حلال ہو گیا۔
تخریج: امام احمد (۶/ ۴۲۲) نے راویوں کے دو سلسلوں سے اس حدیث کی تخریج کی ہے، انھی سے ایک سلسلہ صحیح، جبکہ دوسرا حسن ہے۔ اس کی اصل صحیحین وغیرہ میں ہے اور ان کی روایت میں ’تجملت للخطاب‘ (منگنی کے لیے وہ بنی سنوری) کے الفاظ ہیں اور ان میں یہ بھی ہے کہ ابو سنابل نے اس کا ہاتھ مانگا تھا، مگراس نے نکاح سے انکار کر دیا تھا۔ نسائی کی روایت میں ہے: ’تشوقت لأزواج‘ یعنی وہ شادی کی خاطر بنی ٹھنی تھی۔
حدیث اس بات پر واضح دلالت کرتی ہے کہ صحابہ کی بیویوں کے دستور میں کم از کم ہاتھ اور اسی طرح چہرہ اور آنکھیں ستر میں داخل نہیں تھے، وگرنہ سبیعہ ان مقامات کو ابوسنابل کے سامنے ظاہر نہ کرتی اور خاص طور پر، جبکہ اس نے اس کا ہاتھ مانگا تھا اور وہ راضی نہ ہوئی تھی۔ اس سلسلہ میں حافظ ابن القطان فاسی کی ’’النظر فی احکام النظر‘‘ (۲/ ۶۷، ۲/ ۶۸) کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کرنے آئی۔ اس کے ہاتھوں کو مہندی نہیں لگی ہوئی تھی، آپ نے اس سے بیعت اس وقت تک نہ لی، جب تک اس نے ہاتھوں کو مہندی نہ لگا لی۔
تخریج: یہ حدیث حسن ہے یا صحیح جس کی تخریج ابو دائود (۲/ ۱۹۰) نے کی ہے اور ان سے بیہقی (۷/ ۸۶) اور (طبرانی المعجم الاوسط ۱/ ۲۱۹، رقم ۳۹۱۸) نے کی ہے۔ اس کے بہت سے شواہد ہیں جنھیں میں نے ’’الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ و الکتاب‘‘ میں بیان کیا ہے۔
حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ہاتھ ستر میں شامل نہیں۔
عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ مجھے ابن عباس نے کہا: کیا میں تمھیں جنتی عورت نہ دکھائوں؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: یہ کالی عورت۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی: مجھے مرگی کادورہ پڑتا ہے تو میں ننگی ہو جاتی ہوں۔ میرے لیے دعا کیجیے، آپ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر لے تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں اللہ سے دعا کروں کہ تجھے عافیت عطا کرے۔ تو اس نے کہا: میں صبر کروں گی، پھر کہنے لگی کہ میں ننگی ہو جاتی ہوں، اللہ سے دعا کریں کہ میں ننگی نہ ہوں تو آپ نے اس کے لیے دعا کی۔
تخریج: بخاری (۱۰/ ۹۴)؛ مسلم (۸/ ۱۶) اور احمد (رقم ۳۲۴۰) نے اس کی تخریج کی ہے۔
(حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا نے جس عورت کی طرف اشارہ کیا، اس کا چہرہ ننگا تھا جبھی تو ان کو پتا چلا کہ اس کا رنگ کالا ہے)۔
حضرت ابن عباس ہی سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی، وہ حسین تھی اور حسین ترین لوگوں میں اس کا شمار ہوتا تھا (ابن عباس نے کہا: نہیں اللہ کی قسم، میں نے اس جیسی عورت کبھی نہیں دیکھی تھی)۔ کچھ لوگ آگے بڑھ کر پہلی صف میں چلے جاتے تھے کہ کہیں ان کی نظر اس پر نہ پڑ جائے اور کچھ لوگ پیچھے رہ کر آخری صف میں کھڑے ہو جاتے تھے جب رکوع کرتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے دیکھتے (وہ اپنے دونوں بازووں کو ہٹا کر رکھتے تھے تو اللہ نے یہ آیت نازل کی: ’’ہم تم میں سے آگے بڑھنے والوں کو بھی جانتے ہیں اور پیچھے ہٹنے والوں کو بھی۔‘‘الحجر ۱۵: ۲۴)
تخریج: حاکم کی طرح اصحاب سنن نے اسے روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ اور اس کا مرتبہ بھی وہی ہے جو انھوں نے بتایا ہے۔ میں نے ’’الثمر المستطاب فی فقہ السنۃ والکتاب‘‘ (الصلوٰۃ) میں اور ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘‘ (رقم ۲۴۷۲) میں اس کی تخریج کی ہے اور شیخ احمد شاکر نے اسے صحیح گردانا ہے اور یہ بات شیخ تویجری کے قول کو قطعی باطل قرار دیتی ہے۔ اس کا قول ہے: ’’جو عورت اجنبی مردوں کے سامنے ہو، اس پر واجب ہے کہ اپنا چہرہ چھپا لے، خواہ وہ حالت نماز میں ہو۔‘‘ اور انھوں نے یہی بات امام احمد سے نقل کی ہے کہ انھوں نے فرمایا: عورت نماز پڑھ رہی ہو تو اس کی کوئی چیز یہاں تک کہ ناخن بھی نظر نہیں آنے چاہییں (میں نے اپنی کتاب ’’چہرے کا پردہ: واجب یا غیر واجب‘‘ کے صفحہ ۳۳۶ پر امام احمد کے اس قول کا تفصیلی تجزیہ کیا ہے)۔ اے اللہ کے بندو، کیا یہ ممکن ہے۔ اسے لازمی طور پر تکبیر کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھانے پڑیں گے اور رکوع، سجود اور تشہد میں ان کو نیچے کرنا پڑے گا۔ یہ اس اجماع کے منافی ہے جس کی طرف ابن بطال نے خثعمیہ کے قصہ میں یہ کہہ کر کیا ہے کہ ’’اس قصہ میں یہ دلیل ہے کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ ڈھانپنا فرض نہیں، کیونکہ اس بات پر علما کا اجماع ہے کہ عورت نماز میں اپنا چہرہ کھلا رکھے گی، خواہ اجنبی اس کی طرف دیکھ رہے ہوں۔‘‘
ابن مسعود سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کو دیکھا، وہ آپ کو اچھی لگی وہ اپنی بیوی سودہ کے پاس آئے جو خوشبو بنا رہی تھیں اور ان کے پاس عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں جنھوں نے آپ کو تنہائی فراہم کی۔ آپ نے اپنی حاجت کو پورا کیا، یعنی مجامعت کی۔ پھر فرمایا: جو آدمی کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے اچھی لگے تو وہ اٹھ کر اپنی بیوی کے پاس آئے، کیونکہ اس کے پاس بھی وہی کچھ ہے جو اس عورت کے پاس ہے۔
تخریج: دارمی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس کی تخریج کی ہے۔ یہ الفاظ اسی کے ہیں۔ مسلم اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے۔ ابن قطان نے ’’النظر‘‘ (ق ۱۸/ ۱۲) میں اس کی تصحیح کی ہے۔ احمد نے اسے ابی کبشہ الانماری سے روایت کیا ہے اور میں نے ’’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ‘‘ (رقم ۲۳۵) میں اس کی تخریج کی ہے۔
عبداللہ بن محمد نے اپنے قبیلے کی ایک عورت سے روایت کی ہے کہ اللہ کے رسول میرے یہاں آئے تو میں بائیں ہاتھ سے کھا رہی تھی اور میں بایاں ہاتھ استعمال کرنے والی عورت تھی۔ آپ نے میرے ہاتھ پر ضرب لگائی تو لقمہ نیچے گر گیا۔ آپ نے فرمایا: بائیں ہاتھ سے مت کھائو، اللہ تعالیٰ نے تمھارا دایاں ہاتھ بنایا ہے یا یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے دائیں ہاتھ کو کھلا چھوڑا ہے۔
تخریج: احمد نے مسند (۴/ ۶۹، ۵/ ۳۸۰) میں تخریج کی ہے اور ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد‘‘ (۵/ ۲۶) میں کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور احمد کے راوی سب ثقہ ہیں۔ میں کہتا ہوں: اس کے راوی، جیسا کہ اس نے کہا ثقہ ہیں، وہ سب شیخین کے راوی ہیں سوائے عبداللہ بن محمد کے، وہ ابن عقیل المدنی ہے جو میرے خیال میں حسن الحدیث ہے۔
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنت ہبیرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس کے ہاتھ میں سونے کی بڑی انگوٹھی تھی۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھڑی سے اس کے ہاتھ کو مارنے لگے اور کہنے لگے: کیا تمھیں اس بات سے مسرت ہو گی کہ اللہ تیرے ہاتھ میں آگ کی انگوٹھی ڈال دے۔
تخریج: میں کہتا ہوں کہ اپنی خواہش کی پیروی کرنے والے لوگوں کی ناگواری کے باوجود اس کی سند صحیح ہے۔ ابن حزم، حاکم، ذہبی، منذری اور عراقی نے اسے صحیح قرار دیا ہے، جیسا کہ میں نے ’’آداب الزفاف‘‘ (صفحہ ۱۷- ۳۰) میں تحقیق کی ہے، پھر میں نے ابن القطان کی ’’الوہم والایہام‘‘ (۱/ ۲۷۸) دیکھی، ان کا میلان بھی اس کی تصحیح کی طرف ہے۔
’’جلباب المرأۃ المسلمہ‘‘ میں ان تیرہ احادیث کو بیان کرنے کے بعد امام البانی فرماتے ہیں کہ یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ اور ہاتھ ننگے کرنا جائز ہے اور یہ پہلے دی گئی عائشہ کی حدیث کی تائید کرتی ہیں۔ پس واضح ہو گیا کہ اللہ کے قول ’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘ (النور۲۴: ۳۱) سے مراد بھی یہی ہے اور اللہ کا قول ’وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ‘،’’اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر جما لیں‘‘ (النور ۲۴: ۳۱) اسی بات پر دلالت کرتا ہے جس پر مذکورہ احادیث دلالت کرتی ہیں کہ عورت کے لیے اپنا چہرہ چھپانا واجب نہیں۔
اب آتے ہیں اس بنیادی حدیث کی طرف جس کی تائید میں علامہ البانی نے مذکورہ تیرہ احادیث پیش کی ہیں۔ یہ حدیث بنیادی اس لیے ہے کہ اکثر و بیش تر مفسرین نے اسی حدیث کو ابن عباس کے اس قول کی تائید میں پیش کیا ہے جو انھوں نے ’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘ کی تفسیر میں کہا ہے۔ اپنی کتاب ’’چہرے کا پردہ: واجب یا غیرواجب‘‘ میں صفحہ ۲۷۶ سے ۲۸۳ تک میں نے قدیم و جدید ان بیس تفسیروں کا حوالہ دیا ہے جن میں قدر مشترک یہ ہے کہ سب نے ابو دائود کی حضرت عائشہ سے روایت اور ابن عباس کے قول سے استدلال کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہر مکتب فکر کے فقہا نے اپنی کتابوں میں ستر کی بحث میں اس روایت اور ابن عباس کے قول کا حوالہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اس حدیث کو بنیادی قرار دیا ہے۔ یہ حدیث یوں ہے:
سنن ابی دائود ’’کتاب اللباس‘‘ میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں تو انھوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا اور فرمایا: جب عورت حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کے لیے مناسب نہیں کہ اس کے بدن کا کوئی حصہ اس کے سوا نظر آئے اور آپ نے چہرے اور ہتھیلیوں کی طرف اشارہ کیا۔
تخریج: ابو دائود (۲/ ۱۸۲-۱۸۳)؛ بیہقی (۲/ ۲۲۶، ۷/۸۶)؛ طبرانی مسند الشامیین (صفحہ ۵۱۱-۵۱۲) میں، ابن عدی الکامل (۳/ ۱۲۰۹)میں سعید بن بشیر نے قتادہ سے، اس نے خالد بن دریک سے، اس نے عائشہ سے۔ ابودائود نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے: یہ روایت مرسل ہے، کیونکہ خالد بن دریک نے حضرت عائشہ کا زمانہ نہیں پایا۔ میں کہتا ہوں: سعید بن بشیر ضعیف ہے، جیسا کہ حافظ ابن حجر نے ’’تقریب التہذیب‘‘ میں کہا ہے۔
علامہ البانی کا قول ہے کہ اس حدیث کی تقویت مندرجہ ذیل روایات سے ہوتی ہے:
۱۔ قتادہ نے سند صحیح کے ساتھ اسے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کو ابودائود نے ’’مراسیل‘‘ میں رقم ۴۳۷ کے تحت بیان کیا ہے۔ ہشام نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک، لڑکی جب حیض کی عمر کو پہنچ جائے تو مناسب نہیں کہ اس کے چہرے اور جوڑ تک ہاتھوں کے سوا کوئی اور چیز دکھائی دے۔‘‘ یہ ہشام ثقہ اور ثبت ہے اور شیخین کے راویوں میں سے ہے۔ قتادہ جلیل القدر تابعی ہیں، حافظ ابن حجر نے ’’تقریب التہذیب‘‘ میں ان کو ثقہ اور ثبت کہا ہے۔ میں کہتا ہوں: یہ مرسل صحیح ہے جس کو بعد میں آنے والی روایت تقویت دیتی ہے، اس میں نہ راوی خالد بن دریک ہے نہ سعید بن بشیر۔
۲۔ طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۴/ ۱۴۳، رقم ۳۷۸) اور ’’المعجم الاوسط‘‘ (۲/ ۴۳۰، رقم ۸۹۵۹) میں اور بیہقی نے ابن لہیعہ سے، اس نے عیاض بن عبداللہ سے، اس نے ابراہیم بن عبید بن رفاعہ انصاری سے سنا کہ اس نے اپنے باپ سے اور میرا خیال ہے اس نے اسماء بنت عمیس سے خبردی کہ انھوں نے کہا: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ کے پاس آئے اور ان کے پاس ان کی بہن اسماء بنت ابی بکر موجود تھیں جنھوں نے کھلی آستینوں والے شامی کپڑے پہنے ہوئے تھے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو اٹھ کر باہر نکل گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پرے ہٹ جائو، کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات دیکھی ہے جو ان کو ناگوار گزری ہے تووہ پرے ہٹ گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے تو حضرت عائشہ نے پوچھا: آپ کیوں اٹھ کھڑے ہوئے؟ تو آپ نے فرمایا: اس کی ہیئت کی طرف نہیں دیکھ رہی ہو؟ مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ اس کے سوا اس کی کوئی چیز نظر آئے اور آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو پکڑا (بیہقی میں ہے کہ درست یہ ہے کہ اپنی دونوں آستینوں کو پکڑا، تخریج کے دوسرے مآخذ میں یہی ہے) اور ان سے اپنی ہتھیلیوں کے اوپر والے حصے کو ڈھانپ دیا یہاں تک کہ ہتھیلیوں کی انگلیوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا، پھر آپ نے دو ہتھیلیوں کو اپنی دونوں کنپٹیوں پر نصب کیا یہاں تک کہ چہرے کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اس روایت میں ابن لہیعہ ہے جس کا نام ابو عبدالرحمان عبداللہ الحضرمی ہے اور وہ مصر کے قاضی تھے، وہ ثقہ اور فاضل انسان تھے۔ وہ اپنی کتابوں سے حدیث روایت کیا کرتے تھے، وہ کتابیں جل گئیں توحافظہ سے روایت کرنے لگے جس کی وجہ سے اختلاط ہو جاتا تھا، بعض متاخرین ان کی روایت کو حسن مانتے ہیں اور بعض صحیح۔ ہیثمی نے طبرانی کی ’’المعجم الکبیر‘‘ اور ’’المعجم الاوسط‘‘ کی اس روایت کے بعد ’’مجمع الزوائد‘‘ (۵/ ۱۳۷) میں لکھا ہے کہ اس میں ابن لہیعہ ہے جس کی مروی حدیث حسن ہے اور اس کے باقی راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں۔ امام ابن تیمیہ نے ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ (۱۸/ ۲۵-۲۶) میں ابن لہیعہ کے بارے میں انھی خیالات کا اظہار کیا ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ متابعات اور شواہد میں اس کی روایت حسن کے مرتبہ سے گرتی نہیں۔ حضرت عائشہ کی حدیث اور ’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘ کے بارے میں ابن عباس کی تفسیر بیان کرنے کے بعد ایک اور پہلو سے بیہقی نے حدیث کو قوی ثابت کیا ہے، ان کا قول ہے کہ اس حدیث کے ساتھ اگر صحابۂ کرام کے اس قول کو دیکھا جائے جو زینت ظاہرہ میں سے ان اعضا کے بارے میں ہیں جن کا دیکھنا اللہ نے جائز قرار دیا ہے تو حدیث قوی ہو جاتی ہے۔ امام ذہبی نے ’’تہذیب سنن البیہقی‘‘ (ا /۸۳) میں بیہقی کے قول کی تائید کی ہے۔ جن صحابہ کی طرف بیہقی نے اشارہ کیا ہے، ان سے مراد عائشہ، ابن عباس اور ابن عمر ہیں۔ ابن عمر کے الفاظ یہ ہیں کہ زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں۔ پھر ذہبی کا قول ہے: ’’اس کے مفہوم کو ہم نے عطاء بن ابی رباح اور سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے اور یہی امام اوزاعی کا قول ہے۔‘‘
ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ (۴/ ۲۸۳) میں روایت بیان کی ہے کہ زیاد بن ربیع نے ہمارے سامنے حدیث بیان کی، اس نے صالح الدہان سے سنی، اس نے جابر بن زید سے اور اس نے ابن عباس سے کہ انھوں نے فرمایا کہ ’’’لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘ سے مراد ہتھیلی اور چہرے کی ٹکڑی ہے۔‘‘ اسی طرح ابن القطان (النظر۱/ ۲۰) کے مطابق اسماعیل القاضی نے اسے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ پھر اس کے ساتھ ہی ابن ابی شیبہ نے عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے مذکورہ اثر کو روایت کیا ہے جس کی سند بھی صحیح ہے۔
ابن نجیم نے ’’البحر الرائق‘‘ (۱/ ۲۸۴) میں لکھا ہے کہ اسماعیل قاضی نے ابن عباس کے قول کو جید سند کے ساتھ مرفوعاً روایت کہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ قتادہ کی روایت کی سند صحیح اور نظیف ہے۔ حضرت عائشہ کی مرسل روایت اور قتادہ کی مسند روایت ایک دوسرے کے متن کی تائید کرتی ہیں اور مرسل روایت کی تائید اگر مسند روایت سے ہو تو وہ قابل حجت ہوتی ہے۔ اور تیسری حدیث جو اسماء بنت عمیس سے مروی ہے، وہ ان دونوں کی شاہد ہے۔
تقویت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ تینوں حدیثوں کے راویوں نے جو کہا ہے، اس پر عمل بھی کیا ہے۔ چنانچہ:
۱۔ حضرت عائشہ نے احرام والی عورت کے بارے میں فرمایا ہے: ’’اگر وہ چاہے تو کپڑا اپنے چہرہ پر اس طرح لٹکاسکتی ہے کہ وہ چہرے سے نہ لگے (یعنی سدل کر سکتی ہے)۔‘‘ اسے بیہقی نے ’’سنن‘‘ میں روایت کیا ہے۔ علامہ البانی کا قول ہے کہ احرام والی عورت کو حضرت عائشہ کی طرف سے سدل کی آپشن دینا، اس بات کی واضح دلیل ہے کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں، وگرنہ وہ سدل کو احرام والی عورت کے لیے واجب قرار دیتیں۔
۲۔ قتادہ نے ’اِدْنَائ‘ والی آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ نے عورتوں پر لازم قرار دیا ہے کہ اپنے ابرووں کو نہ کہ چہروں کو ڈھانپ لیں۔ طبری نے اسے روایت کیا ہے۔
۳۔ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کے بارے میں صحیح روایت ہے کہ قیس بن ابی حازم اپنے باپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر کے یہاں آئے تو حضرت ابوبکر کے پاس اسماء بیٹھی ہوئی تھیں جو سفید رنگ کی تھیں اور ان کے ہاتھ گودے ہوئے تھے اور وہ پنکھا ہلا کر اپنے شوہر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مکھیاں ہٹا رہی تھیں۔
علماے حدیث کا مسلمہ اصول ہے کہ جب شواہد سے مرسل روایت کی تقویت ہو جائے تووہ قابل حجت ہو جاتی ہے۔ امام احمد کا قول ہے کہ مرسلات میں ضعیف ترین روایات حسن اور عطاء بن ابی رباح کی ہیں۔ اس کے باوجود امام شافعی نے حسن کی مرسل ’لا نکاح الا بولی وشاہدی عدل‘ (ولی اور دو عادل گواہوں کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں) کو قوی قرار دیا ہے، ان کا قول ہے کہ اگر جمہور علما مرسل پر عمل کریں تو وہ قوی ہو جاتی ہے۔ جو بات حسن کی مرسل کے بارے میں کہی گئی ہے، وہ قتادہ کی مرسل کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے، کیونکہ اکثر علما اس پر عمل پیرا ہیں۔ جن میں امام احمد بھی شامل ہیں، جیساکہ ابن قدامہ نے ’’المغنی‘‘ (۷/ ۴۶۲) میں لکھا ہے کہ امام احمد نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔
بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں، منذری نے ’’الترغیب والترہیب‘‘ میں اور ابن حجر نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں اس حدیث کی تقویت کی ہے۔ حافظ ابن حجر کا ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں قول ہے کہ اس حدیث کا ایک شاہد ہے جسے بیہقی نے روایت کیا ہے۔ زیلمی اور امام شوکانی نے بھی اس کی تقویت کی ہے۔
اسی اصول کے پیش نظر سنن ترمذی ان احادیث سے بھری پڑی ہے جو حسن لغیرہٖ ہیں۔
حاکم ’’مستدرک‘‘ (۱/ ۳۱۹) میں صلوٰۃ تسبیح کی حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تبع تابعین کے زمانہ سے لے کر ہمارے زمانہ تک ائمہ اس حدیث پر مسلسل عمل کرتے آرہے ہیں۔ اور لوگوں کواس کی تعلیم دیتے رہے ہیں، انھی میں عبداللہ بن مبارک ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ (۱۳/ ۳۴۷) میں اس اصول پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے جسے علامہ البانی نے اپنی کتاب ’’الردالمفحم‘‘ کے صفحہ ۹۶-۱۰۰ پر نقل کیا ہے۔
ایک طرف تو حضرت عائشہ کی روایت کا یہ حال ہے کہ امام طبری سے لے کر ڈاکٹر وہبہ الزحیلی تک ہر مفسر اس سے استدلال کرتا ہے اور امام ابوحنیفہ سے لے کر یوسف القرضاوی تک ہر فقیہ اسے بطور دلیل پیش کرتا ہے تودوسری طرف تویجری، سندی اور عدوی جیسے سعودی علما اس حدیث پر ٹوٹے پڑے ہیں۔ اس حدیث پر ان کا سب سے بڑا اعتراض اس کے دو راویوں خالد بن دریک پر ہے، اس اعتراض کے جواب میں علامہ نے ایسے شواہد پیش کیے ہیں جن میں دونوں راوی موجود نہیں ہیں۔ پھر ان دونوں راویوں کو ضعیف ثابت کرنے کے لیے معترضین نے جو حوالے دیے ہیں، ان میں ان کی علمی دیانت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ’’الرد المفحم‘‘ کے صفحہ ۸۰ پر فرماتے ہیں کہ ’’مخالفین کے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ وہ ناقدین حدیث کے صرف ان اقوال کا ذکر کریں جن میں راویوں پر جرح کی گئی ہے اور ان اقوال کو چھپا لیں جن میں ان راویوں کو ثقہ قرار دیا گیا ہے‘‘۔ مثال کے طور پر عبدالقادر السندی نے اپنی کتاب ’’الحجاب‘‘ میں امام ذہبی کی ’’میزان الاعتدال‘‘ کا حوالہ دیا ہے کہ سعید بن بشیرمنکر الحدیث ہے، مگر اسی ’’میزان الاعتدال‘‘ میں محدثین کے درج ذیل اقوال کو قلم زد کر دیا ہے جس سے تنقید کا توازن بگڑ گیا ہے:
۱۔ ابو حاتم کا قول ہے: ’محلہ الصدق‘ (وہ سچائی کے مقام پر ہے)۔
۲۔ شعبہ کا قول ہے کہ وہ ’صدوق اللسان‘ (زبان کا بہت سچا ہے)۔
۳۔ ابن الجوزی کاقول ہے: شعبہ اور دحیم نے اسے ثقہ گردانا ہے۔
۴۔ ابن عدی کا قول ہے: ’’مجھے ان کی روایت میں حرج نظر نہیں آتا اور اس پر صدق غالب ہے۔‘‘ ہمارے نزدیک تعدیل جرح پر مقدم ہے، خاص طور پر اگر وہ شعبہ اور دحیم جیسے سخت گیروں کی طرف سے ہو۔
ابو حاتم کا قول ہے: ’’کتاب الضعفائ‘‘ میں سے اسے نکال دیا جائے۔
شیخ سندی نے ان اقوال کو تو لے لیا جو اس کی مرضی کے تھے اور مذکورہ بالا اقوال کو چھوڑ دیا جن سے ان کی راے کی نفی ہوتی تھی۔ اس نے ابن عدی کی ’’الکامل‘‘ کے علاوہ اور مآخذ کے حوالے دیے ہیں جن میں ایسے اقوال ہیں جو سعید بن بشیر کے شدید ضعف کی نفی کرتے ہیں۔
۱۔ ’’التاریخ الکبیر‘‘ للبخاری (۲/ ۱/ ۴۶۰)۔ بخاری کا قول ہے کہ لوگ اس کے حافظے کے بارے میں کلام کرتے ہیں۔
ابن عساکر نے ’’التاریخ‘‘ (۷/ ۲۱۵) اور ابن حجر نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں کہا ہے کہ وہ گوارا ہے۔
۲۔ اگر آپ ابن ابی حاتم کی ’’الجرح و التعدیل‘‘ کی طرف رجوع کریں تو اس میں آپ کو یہ اقوال ملیں گے:
ا۔ ابن عیینہ کا قول ہے کہ وہ حافظ ہے (زیادہ صحت کی موجودگی میں معمولی سی غلطی معاف ہوتی ہے، جیسا کہ ابن حبان کا قول ہے کہ بڑے بڑے ثقہ ائمہ بھی وہم اور غلطی سے مبرا نہیں)۔ اتقان (پختگی میں تھوڑی سی کوتاہی راوی کو صحیح سے حسن کے درجہ تک تو اتار سکتی ہے، مگر ضعف کے درجہ تک ہرگز نہیں)۔
ب۔ ابو زرعہ دمشقی سے روایت ہے کہ ’’میں نے دحیم سے پوچھا: جن لوگوں کا تو نے زمانہ پایا ہے، ان کا سعید بن بشیر کے بارے میں کیا قول ہے؟ تو اس نے جواب دیا: وہ اسے ثقہ گردانتے ہیں اور وہ حافظ ہے۔‘‘
ج۔ میرے باپ اور ابوزرعہ نے کہا ہے کہ ’’ہمارے یہاں اس کا مقام سچائی کا ہے۔‘‘
د۔ میں نے اپنے باپ سے ان لوگوں کا انکار سنا ہے جو اسے ’’کتاب الضعفائ‘‘ میں داخل کرتے ہیں۔ اس کا قول ہے کہ ’’اسے اس کتاب سے نکالا جائے۔‘‘
۳۔ ابن عدی نے ’’الکامل‘‘ (۳/ ۳۷۶) میں اس کے حالات کے آخر میں کہا ہے: ’’ولید بن مسلم اس سے جو روایت کرتا ہے، اس میں کوئی مضایقہ مجھے نظر نہیں آتا۔‘‘
۴۔ ابن الجوزی نے ’’الضعفائ‘‘ (۱/ ۳۱۵) میں ان لوگوں کے اقوال نقل کرنے کے بعد، جو اسے ضعیف سمجھتے ہیں، لکھا ہے: ’’شعبہ اور دحیم نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔‘‘
اور بھی بہت سے مآخذ ہیں جن کی طرف شیخ سندی نے ’وغیرہا‘ کہہ کر اشارہ کیا ہے۔ وہ یہ ہیں:
۵۔ ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں بزار کا قول ہے: ’’وہ ہمارے نزدیک صالح ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
۶۔ ذہبی نے ’’الکاشف‘‘ میں کہا ہے: ’’بخاری کا قول ہے کہ لوگ اس کے حافظے کے بارے میں کلام کرتے ہیں، حالاںکہ وہ گوارا ہے۔ دحیم کا قول ہے کہ وہ ثقہ ہے۔ ہمارے مشائخ اسے ثقہ مانتے ہیں۔ امام ذہبی نے سعید بن بشیر پر جرح کرنے والوں کا ایک قول بھی بیان نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ وہ اس کے یہاں مقبول ہے۔ اس کے علاوہ سعید بن بشیر اس روایت کے متن میں منفرد نہیں ہے، بلکہ ابودائود نے ’’المراسیل‘‘ (۳۱/ ۴۳۷) میں اسے صحیح سند کے ساتھ ہشام سے اور اس نے قتادہ سے روایت کیا ہے۔ اور ہشام ثقہ اور ثبت ہے اور بخاری و مسلم کا راوی ہے۔ اس قوی متابعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سعید کو روایت کا متن حفظ تھا۔ قتادہ کے بارے میں حافظ ابن حجر ’’تقریب التہذیب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’وہ ثقہ اور ثبت ہیں۔ یاد رہے کہ قتادہ جلیل القدر تابعی ہیں۔‘‘
(علامہ نے خالد بن دریک کے بارے میں ائمہ کے اقوال کا ذکر نہیں کیا۔ اگرچہ اس کا تعلق تیسرے طبقے سے ہے، لیکن حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ سے اس کا سماع کچھ بعید نہیں، جیسا کہ مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں اس پر تحقیق کی ہے کہ اس کا کافی امکان موجود ہے۔ ائمہ میں سے ایوب سختیانی، ابن عون اور اوزاعی نے اس سے روایت کی ہے۔ ابن معین اور نسائی نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر کا قول ہے کہ وہ ثقہ ہے اور حضرت عائشہ اور ابن عمر سے مرسل روایت کرتا ہے اور ثقہ کی مرسل روایت مقبول ہوتی ہے)۔
جرح اور تعدیل کی کتابوں میں راوی کے بارے میں موافق اور مخالف اقوال موجود ہوتے ہیں، اپنے مطلب کے اقوال کو لے کر دوسرے اقوال کو ترک کرنا نہ قرین انصاف ہے اور نہ اہل علم کا شیوہ۔ اہل علم دونوں قسم کے اقوال کا تقابلی مطالعہ کر کے پھر اپنی راے پیش کرتے ہیں، جیسا کہ زیلعی نے ’’نصب الرایہ‘‘ (۱/۷۴) میں کہا ہے: ’وأقل احوال مثل ہٰذا أن یستشہد بہ‘ (ایسی صورت میں اور اس قسم کے حالات میں کم از کم استشہاد تو کیا جا سکتا ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین، مفسرین اور فقہا نے اس حدیث سے استشہاد کیا ہے۔
صحابیات اپنے وقت کی دینی، ثقافتی، تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں میں کھلے چہرے کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں، وہ نخلستانوں میں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی رہی ہیں۔ علامہ البانی ’’الردالمفحم‘‘ کے صفحہ ۱۴۹ پر رقم طراز ہیں: ’’صحابیات عہد نبوت میں مہمان نوازی کے فرائض سر انجام دیتی تھیں، جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں، ان کو پانی پلاتی تھیں اور بعض اوقات جنگ میں عملی حصہ لیتی تھیں۔ کیا وہ عورتیں جو اس خوف میں مبتلا ہوں کہ اگر کھلے چہروں کے ساتھ انھوں نے نماز پڑھ لی یا حج کر لیا تو وہ گنہگار ہوں گی، اس قسم کی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں؟ قسم بخدا، ایسے کام چہرہ کھلا رکھے بغیرسرانجام نہیں دیے جا سکتے۔‘‘
عہد نبوت میں بے شمار عورتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے چہرے اور ہاتھ کھلے رکھتی تھیں۔ آپ نے ان کو کبھی منع نہیں کیا۔ اس بارے میں علامہ البانی نے ’’الردالمفحم‘‘ صفحہ ۱۵۰ -۱۵۳ پر ۹ احادیث پیش کی ہیں جو ان احادیث کے علاوہ ہیں جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔
فاطمہ بنت قیس کی عدت کے بارے میں ہے جس کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔
سہل بن سعد سے مروی ہے، جب ابو اسید ساعدی نے شادی کی تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم او ر ان کے صحابہ کو دعوت دی۔ اس کی بیوی نے ان کے لیے کھانا بنایا اور پیش کیا۔۔۔ اس کی بیوی دلہن بنی ان کی خدمت کر رہی تھیں۔
تخریج: ’’آداب الزفاف‘‘ میں علامہ نے اس کی تخریج یوں کی ہے:
بخاری (۹/ ۲۰۰، ۲۰۵- ۲۰۶)؛ الادب المفرد (رقم ۷۴۶)؛ مسلم (۶/۱۰۳)؛ صحیح ابی عوانہ (۸/ ۱۳۱)؛ ابن ماجہ (رقم ۵۹۰)؛ مسند الرویانی (۲۸: ۱۸۹/ ۱-۱۹۰/۱)؛ طبرانی ’’المعجم الاوسط‘‘ میں (۱/ ۱۳۲)؛ شرح السنہ للبغوی (۳/ ۱۹۷)؛ بخاری نے جو باب باندھا ہے، اس کا عنوان یہ ہے: ’باب قیام المرأۃ علی الرجال فی العرس وخدمتہم بالنفس‘ (یہ باب اس بارے میں ہے کہ عورت ولیمہ کے کھانے میں مردوں کی خدمت سرانجام دے اور بنفس نفیس ان کی خدمت کرے)۔ حافظ ابن حجر کا قول ہے کہ ’’اس حدیث میں اس بات کا جواز ہے کہ عورت اپنے شوہر اور ان کی جن کو اس نے دعوت میں بلایا ہے، خدمت کرے بشرطیکہ فتنہ کا ڈر نہ ہو اور جن اعضا کا چھپانا واجب ہے، انھیں چھپائے رکھے۔‘‘
اس دعویٰ کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ واقعہ پردے کے واجب ہونے سے پہلے کا ہے اوراس بات کی طرف معمولی سا اشارہ بھی نہیں ہے کہ عورت نے جلباب نہیں پہنا ہوا تھا جس سے معلوم ہوا کہ یہ جلباب کی فرضیت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں بھی ہم کسان عورتوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ چادر اوڑھے ہوئے مہمانوں کی بہترین خدمت سر انجام دیتی ہیں۔ یہ حدیث محکم ہے اور اس کا کوئی ناسخ نہیں۔
اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے، جب زبیر نے مجھ سے شادی کی اس کے پاس نہ زمین تھی اور نہ غلام۔ گھوڑے کے سوا اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ میں ہی گھوڑے کا چارہ بناتی تھی۔ اس کے آگے چارہ ڈالتی تھی اور اس کی دیکھ بھال کرتی تھی اور کنویں سے پانی نکالنے والے اونٹ کے لیے گٹھلیاں کوٹتی تھی، اس کے آگے چارہ ڈالتی تھی اور کنویں سے پانی لاتی تھی اور چمڑے کے بڑے ڈول کو سیتی تھی او رآٹا گوندھتی تھی۔۔۔ اور میں گٹھلیوں کو زبیر کی زمین سے، جو اللہ کے رسول نے انھیں عطا کی ہوئی تھی اور جو مدینہ سے دو تہائی فرسخ (تقریباً دو میل) کے فاصلہ پر تھی، سر پر اٹھا کر لاتی تھی۔ اسی حالت میں اللہ کے رسول سے میری ملاقات ہوئی اور آپ کے ساتھ کچھ صحابہ تھے۔ آپ نے مجھے بلایا اور اونٹ کو بیٹھنے کے لیے اخ اخ کی آواز نکالی تاکہ اونٹ پر مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیں تو میں شرما گئی۔
تخریج: بخاری (رقم ۵۲۲۴)؛ مسلم (۷/ ۱۱)؛ احمد (۶/ ۳۴۷)؛ ابن سعد (۸/ ۲۵۰) (وجہ دلالت یہ ہے کہ حدیث میں جو کام حضرت اسماء سر انجام دیتی تھیں، وہ کام صرف اور صرف کھلے چہرے سے ممکن ہیں اور یہی وہ کام ہیں جو عورتیں پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے دیہاتوں میں مرد کے شانہ بشانہ کھلے چہرے کے ساتھ انجام دیتی ہیں اور انھی کاموں کو امام طبری، زمخشری اور رازی نے چہرے کو کھلا رکھنے کی حکمت کی بنیاد بنایا ہے۔ گائوں کی معیشت کا انحصار اس بات پر ہے کہ عورت کھلے چہرے کے ساتھ مرد کے ساتھ مل جل کر کام کرے۔ شہروں میں بھی محنت کش عورت، جو گھروں کے اندر جھاڑو پوچا لگاتی ہے، سڑک پر روڑی کوٹتی ہے، بھٹوں پر اینٹیں تیار کرتی ہے اور سر پر اینٹیں اٹھا کر تعمیراتی کاموں میں حصہ لیتی ہے، کیا چہرہ اور ہاتھ کھولے بغیر وہ یہ کام کر سکتی ہے؟ ہاں، یہ الگ بات ہے کہ فقہی موشگافیوں سے کام لیتے ہوئے آپ ان کو لونڈیاں قرار دے دیں اور کہیں کہ ان کا ستر مرد کے برابر ہوتا ہے، کیونکہ خریدتے وقت ان کا سینہ دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ استغفراللہ!)
حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری عورت کے یہاں گئے۔ اس نے کھجوروں کے جھنڈ کے پاس کچھ بچھا دیا اور اس کے ارد گرد پانی چھڑک دیا اور ایک بکری ذبح کی اور آپ کے لیے کھانا بنایا۔ آپ نے بھی کھایا اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ کھایا۔ پھر آپ نے ظہر کی نماز کے لیے وضو کیا۔ عورت نے کہا: اے اللہ کے رسول، ہمارے یہاں بکری کا کچھ گوشت بچا پڑا ہے، کیا آپ شام کا کھانا کھائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، پس آپ نے بھی کھایا اور ہم نے بھی کھایا، پھر آپ نے عصر کی نماز پڑھی، لیکن وضو نہ کیا۔
تخریج: مسند ابو یعلیٰ (۴/ ۱۱۶، رقم ۲۱۶۰)؛ طحاوی فی شرح المعانی (۱/ ۳۹) محمد بن المنکدر نے جابرسے روایت کی ہے۔ میرا قول ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور اس کی تخریج حمیدی نے اپنی مسند (۵۳۳/ ۱۲۶۶) عبداللہ بن محمد بن عقیل کی روایت سے کی ہے کہ انھوں نے جابر بن عبداللہ سے سنا، بریکٹ میں اضافہ انھی کا ہے۔
علامہ کا قول ہے کہ اس کی سند حسن ہے اور اس طریقے سے احمد (۳/ ۳۷۴-۳۷۵) نے اس کی بغیر اضافہ کے تخریج کی ہے۔ وجہ دلالت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ہمراہ نخلستان میں انصاری عورت کے یہاں گئے۔ انصاری عورتیں نخلستانوں میں کام کرتی تھیں! اس عورت نے دو دفعہ کھانا بنایا اور پیش کیا۔ نخلستان میں کام کرنے والی عورت فطرتی طور پر کھلے چہرے کے ساتھ کام کر رہی تھی۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ احد کی جنگ میں ۔۔۔ میں نے عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا، ان دونوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھایا ہوا تھا اور مجھے ان کی پازیب نظر آرہی تھی۔ وہ اپنی پیٹھوں پر پانی کے مشکیزے اٹھا کر تیزی سے لوگوں کے منہ میں انڈیل رہی تھیں، پھر وہ واپس جا کر مشکیزوں کو بھرتیں اور آکر ان کو لوگوں کے منہ میں انڈیلتیں۔
تخریج: بخاری (۷/ ۲۹۰)؛ مسلم (رقم۱۵،۱۹)۔
ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں، لوگوں کو پانی پلایا کرتی تھیں، ان کی خدمت کرتی تھیں اور زخمیوں اور شہدا کو مدینہ منتقل کرتی تھیں۔
تخریج: بخاری (رقم۲۸۸۳)؛ احمد (۶/۳۵۸) ۔
ام عطیہ سے مروی ہے، میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شرکت کی۔ میں ان کے سامان کے پاس پیچھے رہتی، ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی تیمارداری کرتی۔
تخریج: مسلم (۵/ ۱۹۹)؛ مصنف ابن ابی شیبہ (۱۲/ ۵۲۵)؛ احمد (۵/ ۸۴، ۶/۴۰۷)؛ ابن سعد (۸/ ۴۵۵)؛ طبرانی (۵/ ۵۵) اور بخاری میں (رقم ۳۲۴) اسی قسم کی حدیث ہے۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ حنین کی جنگ میں ام سلیم نے خنجر پکڑا ہوا تھا۔ حضرت ابو طلحہ نے انھیں دیکھ لیا تو آپ نے کہا: اے اللہ کے رسول، یہ رہی ام سلیم اس کے پاس خنجر ہے تو اللہ کے رسول نے پوچھا: یہ خنجر کس لیے ہے؟ تو انھوں نے کہا: میں نے اسے اس لیے پکڑا ہوا ہے کہ اگر مشرکوں میں کوئی میرے قریب ہوا تو میں اس کا پیٹ چاک کر دوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر ہنسنے لگے۔۔۔۔
تخریج: مسلم (۵/۱۹۶)؛ احمد (۳/ ۱۱۲، ۱۹۰، ۱۹۸، ۲۸۶)؛ ابن سعد (۸/۴۲۵)؛ طبرانی (۲۵/ ۱۱۹-۱۲۰) اور اس نے احمد سے ایک اور سلسلہ سے روایت کی ہے (۳/ ۱۰۸-۱۰۹، ۲۷۹)۔
احمد اور طبرانی (۲۵/ ۱۲۳-۱۲۴) نے روایت کی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ میں جاتے تو آپ کے ساتھ ام سلیم اور انصاری عورتیں ہوتیں، وہ پانی پلاتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ اسے ترمذی نے صحیح قرار دیا ہے اور ابن حبان نے بھی۔ میں نے اس کی تخریج صحیح ابی دائود (رقم ۲۲۸۴) کی ہے۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو ساتھ لے کر غزوہ میں جاتے تھے۔ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور ان کو مال غنیمت میں سے حصہ دیا جاتا تھا۔
تخریج: مسلم وغیرہ نے اس کی تخریج کی ہے۔ ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کی تخریج میں نے ’’ارواء الغلیل‘‘ (۵/ ۶۹، رقم۱۲۳۶) اور ’’سنن ابی دائود‘‘ (رقم۲۴۳۸-۲۴۳۹) میں کی ہے۔
مذکورہ پانچ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ وہ ہر غزوہ میں امہات المومنین اور عورتوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ وہ مجاہدین کے سامان کی حفاظت کرتیں، ان کے لیے کھانا تیار کرتیں، مشکیں بھر بھر کر زخمیوں کو پانی پلاتیں، ان کی مرہم پٹی کرتیں، بیماروں کی تیمارداری کرتیں، زخمیوں اور مقتولین کو مدینہ منورہ منتقل کرتیں اور مال غنیمت سے حصہ وصول کرتیں۔ بعض اوقات تو وہ خنجر بدست باقاعدہ لڑائی میں حصہ لیتیں۔ ظاہر ہے، یہ سب کام کھلے چہرے اور ہاتھوں کے ساتھ ممکن تھے۔ (’’سیرت ابن ہشام‘‘ میں ہے کہ احد کی جنگ میں جب مسلمانوں کو شکست ہوئی تو ام عمارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سینہ سپر تھیں۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ میں ان کو اپنے دائیں اور بائیں لڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ ابن قمیہ کا وار ام عمارہ نے روکا۔ چنانچہ ان کے کاندھے پر زخم آیا)۔
(’’الاصابہ‘‘ (۸/ ۲۳۲،۴۲۳) میں حضرت ام حرام کا واقعہ نقل ہوا ہے، اس مقام پر اس کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی قبا کی طرف جاتے تو حضرت ام حرام (جو ام سلیم کی بہن تھیں) کے گھر آتے اور کھانا کھاتے تھے۔ حجۃ الوداع کے بعد ایک روز آپ تشریف لائے اور کھانا کھا کر آرام فرمایا تو حضرت ام حرام نے جوئیں دیکھنا شروع کیں۔ آپ کو نیند آگئی، لیکن تھوڑی دیر بعد مسکراتے ہوئے اٹھے اور فرمایا: میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ میری امت کے کچھ لوگ سمندر میں غزوہ کے ارادہ سے سوار ہیں۔ حضرت ام حرام نے کہا کہ اے اللہ کے رسول، دعا کیجیے کہ میں بھی ان میں شامل ہوں۔ آپ نے دعا کی، پھر آرام فرمایا: کچھ دیر کے بعد مسکراتے ہوئے اٹھے اور اسی خواب کو دہرایا۔ حضرت ام حرام نے پھر شرکت کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پہلی جماعت کے ساتھ ہو۔ ۲۸ھ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں امیر معاویہ نے قبرص پر حملہ کے لیے بحری بیڑا تیار کیا۔ اس حملہ میں بہت سے صحابہ کے ساتھ ام حرام بھی شریک تھیں۔ اس واقعہ کو صاحب ’’اسد الغابہ‘‘ (۵/ ۵۷۵) نے بھی نقل کیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ عورتوں کو جہاد میں شرکت کی کس قدر شدید تمنا ہوتی تھی)۔
عہد نبوت کے بعد چہرے اور ہاتھوں کو کھلا رکھنے کا عمل جاری رہا۔ اس کی شہادت درج ذیل آثار دیتے ہیں جن کو دور حاضر کے سب سے بڑے محدث امام ناصر الدین البانی نے صحت کی شرط پر بیان کیا ہے۔ ان میں ۱۶ آثار ’’جلباب المرأۃ المسلمہ‘‘ کے صفحہ ۹۶ سے ۱۰۳ پر درج ہیں، جبکہ چار آثار ’’الردالمفحم‘‘ کے صفحہ ۱۵۴-۱۵۵ پر درج ہیں۔ یہ ملا کر کل بیس آثار بنتے ہیں۔
۱۔ قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ میں اور میرا باپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے یہاں آئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سفید رنگ اور ہلکے جسم کے آدمی ہیں، ان کے پاس اسماء بنت عمیس بیٹھی مکھیاں ہٹا رہی تھیں۔ وہ (سفید رنگ) کی عورت تھیں جن کے دونوں ہاتھ گدے ہوئے تھے لوگ زمانۂ جاہلیت میں اپنے ہاتھ مغربی افریقہ کے بربریوں کے مانند گودا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرکے سامنے دو گھوڑے لائے گئے، ان میں سے ایک پر آپ نے مجھے اور دوسرے پر میرے باپ کو سوار کر دیا۔
تخریج: ابن جریر طبری نے ’’تہذیب الآثار‘‘ (مسند عمر ۱/۱۱۴، رقم۱۸۷) میں تخریج کی ہے، یہ عبارت اسی کی ہے۔ ’’طبقات ابن سعد‘‘ (رقم ۲۸۳۸) طبرانی کی المعجم الکبیر‘‘ (۲۴/۱۳۱، رقم۳۰۹) اس میں ’کانوا وشموہا‘ کی عبارت نہیں۔
اس کی سند صحیح ہے۔
۲۔ ابوالسلیل سے روایت ہے کہ ابوذر کی بیٹی آئی۔ اس نے دواونی چادریں اوڑھ رکھی تھیں، اس کے رخسار سرخی مائل سیاہ تھے اور ان کے پاس ٹوکرا تھا۔ وہ ابوذر کے سامنے کھڑی ہوگئی، جبکہ آپ کے پاس ان کے دوست بھی تھے اور کہنے لگی: ابا جان، کھیتی باڑی کرنے والے کسان یہ کہتے ہیں کہ یہ فضول کام تجھے مفلس کر دے گا۔ ابوذر کہنے لگے: پیاری بیٹی چھوڑو ان باتوں کو تیرے باپ کے پاس الحمد للہ کوئی سونا اور چاندی نہیں کہ یہ بات اسے مفلس بنا دے۔
تخریج: ابن سعد (۱/ ۱۶۴)، ابو نعیم، ’’حلیۃ الاولیائ‘‘ (۱/۱۶۴)۔ علامہ کہتے ہیں کہ شواہد میں اس کی سند جید ہے۔
۳۔ عمران بن حصین سے روایت ہے کہ میں اللہ کے رسول کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور آپ کے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ میں نے ان کو دیکھا، ان کے چہرے سے خون غائب تھا۔ آپ نے فرمایا: فاطمہ، قریب آئو۔ پس وہ قریب آئیں یہاں تک کہ آپ کے بالکل سامنے کھڑی ہو گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا کر ہار کی جگہ ان کے سینے پر رکھا اور اپنی انگلیوں کو پھیلا کر فرمایا: اے میرے اللہ، اے بھوکوں کا پیٹ بھرنے والے، اے پست کو بلند کرنے والے، فاطمہ بنت محمد کو بھوکا نہ رکھ۔ عمران کہتا ہے: میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا، ان کے چہرے پر خون غالب آگیا اور زردی جاتی رہی، حالاںکہ پہلے زردی سرخی پر غالب تھی۔
تخریج: ابن جریر ’’تہذیب الآثار‘‘ (مسند ابن عباس ۱/۲۸۶،۴۸۱، الدولابی، ’’الکنیٰ‘‘ (۲/ ۱۲۲)۔ ایسی سند کے ساتھ جس کا شواہد میں کوئی حرج نہیں۔
عمران کا قول ہے کہ میں حضرت فاطمہ سے بعد میں ملا اور ان سے پوچھا، انھوں نے فرمایا: اے عمران، اس کے بعد میں کبھی بھوکی نہیں رہی۔
۴۔ قبیصہ بن جابر سے روایت ہے کہ ہم ایک عورت کے ساتھ شریک ہو کر قرآن کی سورت سیکھا کرتے تھے۔ وہ بنواسد کی ایک بڑھیا کو لے کرابن مسعود کے پاس ان کے گھر گئی۔ ہم تین تھے۔ عبداللہ بن مسعود نے اس کی پیشانی کو دیکھا کہ وہ چمک رہی ہے تو آپ نے پوچھا: کیا تو اسے مونڈتی ہے؟ وہ غصہ میں آگئی اور کہنے لگی: تمھاری بیوی مونڈتی ہو گی۔ آپ نے کہا: اندر اس کے پاس چلی جائو اگر وہ مونڈتی ہو تو وہ میری طرف سے آزاد ہے۔ پس وہ اندر گئی اور واپس آکر کہنے لگی: نہیں، بخدا میں نے اسے ایسا کرتے نہیں پایا۔ عبداللہ بن مسعود نے کہا کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ گودنے والیوں (Tatooing) اور گودنے کے لیے کہنے والیوں پر اللہ کی لعنت ہو۔
تخریج: اس کی سند حسن ہے اور اس کی تخریج علامہ نے ’’آداب الزفاف‘‘ کے صفحہ ۱۱۵ پر کی ہے جوبہت طویل ہے۔ مختصر یہ کہ اسے بخاری (۱۰/ ۳۰۶، ۳۱۰-۳۱۲)؛ مسلم (۶/۱۶۶-۱۶۷)؛ ابو دائود (۲/ ۱۹۱) اور ترمذی (۳/ ۱۶) نے روایت کیا ہے۔
۵۔ ابو اسماء الرحبی سے روایت ہے کہ وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا جب وہ ربذہ میں رہتے تھے اور ان کے پاس ان کی سیاہ رنگ کی بھوکی بیوی تھی۔ راوی کا قول ہے کہ ابوذر نے کہا: کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ یہ کالی مجھے کیا حکم دے رہی ہے؟
تخریج: احمد (۵/ ۱۹۵)؛ ابن سعد (۴/ ۲۳۶)؛ ابو نعیم (۱/ ۱۶۱) صحیح سند کے ساتھ اور اس نے اسے اور سلسلہ سے بھی روایت کیا ہے۔
۶۔ ’’تاریخ ابن عساکر‘‘ (۱۹: ۷۳/۲) میں مصعبابن الزبیر کے قصہ میں ہے کہ ’’اس کی ماں (اسماء بنت ابی بکر) مسکراتی ہوئی ننگے چہرے کے ساتھ آئیں۔‘‘
۷۔ حضرت انس سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب کے پاس ایک لونڈی آئی جو ان کی پہچان کے مطابق کسی مہاجر یا انصار کی تھی۔ اس نے اپنے سر کو جلباب سے ڈھانپ رکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا: آزاد ہوگئی ہو کیا؟ اس نے جواب دیا: نہیں، آپ نے فرمایا: پھر یہ جلباب کیسا؟ اسے سر سے اتار دو۔ یہ تو مومنوں کی آزاد عورتوں کے لیے ضروری ہے۔ اس نے پس و پیش کیا۔ آپ درہ لے کر کھڑے ہو گئے اور اس کے سر پر مارا یہاں تک کہ اس نے جلباب اپنے سر سے اتار دیا۔
تخریج: ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ (۲/ ۲۳۱) میں اسے یوں روایت کیا ہے: یہی حدیث روایت کی علی بن مسہر نے، اس نے مختار بن فلفل سے، اس نے انس بن مالک سے۔
علامہ کہتے ہیں کہ اس کی سند جید ہے اور مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔ حافظ نے اسے ’’الدرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ‘‘ (۱/۱۲۴) میں صحیح قرار دیا ہے۔
پھر ابن ابی شیبہ اور عبدالرزاق نے ’’المصنف‘‘ (۳/ ۱۲۶) میں اسے قتادہ کی روایت سے بیان کیا ہے۔
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہماری ایک لونڈی کو سر ڈھانپے دیکھا اور اسے مار کر کہا: آزاد عورتوں کی مشابہت نہ کرو۔‘‘ حافظ کا قول ہے کہ اس کی سند صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں: وہ بخاری اور مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔
پھر ابن ابی شیبہ نے اسے زہری کی روایت سے حضرت انس سے بیان کیا ہے۔ اور اس کی سند بھی صحیح ہے۔
امام محمد نے اسے ’’کتاب الآثار‘‘ (صفحہ ۳۹۰) میں ابراہیم کے واسطے سے روایت کیا ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ لونڈیوں کو سر ڈھانپنے پر مارا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ آزاد عورتوں کی مشابہت نہ کرو۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی سند متصل ہے۔ حضرت انس سے مروی مذکورہ متصل اسناد کافی ہیں۔
پھر علامہ کو ’’سنن سعید بن منصور‘‘ (۳/۲/۷۴) میں اس اثر کا چوتھا سلسلۂ روایت بھی ملا۔
وجہ دلالت یہ ہے کہ حضرت عمر نے اس لونڈی کو پہچان لیا، حالاںکہ وہ جلباب میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ اس کا چہرہ کھلا تھا، وگرنہ وہ اسے پہچان نہ پاتے۔
اگر بات یوں ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ جلباب صرف آزاد عورتوں پر واجب ہے، اس بات کی انتہائی واضح دلیل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک چہرہ چھپانا جلباب کی شرط نہیں۔ اگر عہد اول کی سب عورتیں اپنے چہرے کو جلباب سے چھپاتی ہوتیں تو حضرت عمر یہ بات نہ کہتے جو انھوں نے کہی۔ پس اس اثرکوان کے بیٹے عبداللہ بن عمر، ابن عباس اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے آثار سے ملایا جائے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چہرہ ستر میں شامل نہیں۔
نوٹ: ’تقنع‘ کے معنی سر کو اوڑھنی سے ڈھانپنا ہے اور ’المقنعۃ ما تغطی بہا المرأۃ راسہا‘، ’’’مقنعۃ‘ اسے کہتے ہیں جس سے عورت اپنا سر ڈھانپتی ہے‘‘ (لسان العرب ۸/ ۳۰۰)۔
۸۔ عمر بن محمد سے روایت ہے کہ اس کے باپ نے سعید بن زید بن عمرو بن نفیل سے روایت کی ہے کہ ارویٰ نے اس کے کسی گھر کے بارے میں اس سے جھگڑا کیا۔ اس نے کہا کہ اروی اور اس کے باپ کو رہنے دو۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے: ’’جس نے ناحق بالشت بھر زمین لے لی تو قیامت کے دن سات گنا زمین کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔‘‘
(زید نے کہا) اے اللہ، اگر یہ جھوٹی ہے تو اسے اندھا کر دے اور اس کی قبر اس کے گھر میں بنا دے۔
راوی کہتا کہ میں نے اسے اندھے پن کی وجہ سے دیواروں کو ٹٹولتے دیکھا اور وہ کہتی تھی: مجھے سعید بن زید کی بددعا لگی ہے۔ گھر میں چلتے چلتے وہ گھر کے کنویں کے پاس سے گزری اور اس میں گر گئی اور وہیں اس کی قبر بنی۔
تخریج: مسلم (۵/ ۵۸) ؛ مسند ابو یعلیٰ (۲/ ۲۵۰، رقم ۹۰۱)
علامہ کہتے ہیں کہ یہ اثر ان لوگوں کی تردید کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ چہرہ ستر میں شامل ہے اور عورت کی کسی چیز کو کھلا رکھنا جائز نہیں، مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت کی حسین ترین چیز اس کی آنکھیں ہوتی ہیں اور جب ارویٰ کی آنکھیں اندھی ہو گئیں تواس کی خوبصورتی جاتی رہی اور مردوں کے لیے اس کے جمال کی وجہ سے فتنہ میں پڑنے کی گنجایش نہ رہی۔ یہ نقطۂ نظر ان کے اس استدلال کے منافی ہے جو وہ حدیث ’افعمیاوان انتما؟‘(کیا تم دونوں تو اندھی نہیں ہو؟) سے کرتے ہیں۔ یہ حدیث ہمارے نزدیک ضعیف ہے، مگر تم کس اصول کے تحت ایک بینا کو اجازت دیتے ہو کہ وہ اپنے چہرے پر نقاب ڈال لے، جبکہ چہرے کی حسین ترین چیز کھلی ہوئی ہو۔
۹۔ عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ وہ حج میں قربانی کے لیے بکریوں کے پٹے بٹ رہی ہیں۔
تخریج: عبدالرزاق نے اسے عمر بن زر کے واسطے سے بیان کیا ہے۔ اس نے کہا: میں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا ہے، اسی طرح ابن عبدالبر کی ’’التمہید‘‘ (۱۷/ ۳۲۱) میں ہے، اس کی سند صحیح ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مبالغہ آرائی کرنے والے یہ کہیں کہ دونوں ہاتھ ستر میں شامل نہیں یا انھوں نے دستانے پہن رکھے تھے۔
۱۰۔ عبداللہ بن محمد بن عقیل سے روایت ہے کہ مجھے علی بن حسین نے ربیع بنت معوذ کی طرف بھیجا کہ میں ان سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں پوچھوں، کیونکہ آپ ان کے یہاں وضو بنایا کرتے تھے۔ پس میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے میرے لیے ایک برتن نکالا جو ایک مد (قدیم پیمانہ دو پائونڈ کے برابر) تھا، انھوں نے کہا: اسی برتن کو میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے لیے نکالا کرتی تھی۔۔۔۔
تخریج: حمیدی نے اپنی ’’مسند‘‘ (۱/ ۱۶۳) اور طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۴/ ۲۶۷،۲۷۷) میں اس کی تخریج کی ہے اور اس کی سند ابن عقیل کے قول کے خلاف حسن ہے۔ یہی بات ابن القطان (۲: ۳۵/ ۲) نے کہی ہے۔
علامہ نے اس کی تخریج سنن ابی دائود (رقم ۱۱۷) میں اسی طرح کی ہے اور اس روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے کہا: ’’میرے وضو کے لیے پانی بہائو۔‘‘ اور طبرانی کی روایت میں ہے کہ ’’میرے مقامات وضو پر پانی بہائو۔‘‘ اور ایک اور روایت میں ہے کہ ’’میں آپ کی دونوں ہتھیلیوں پر تین مرتبہ پانی بہاتی تھی۔‘‘
۱۱۔ عروہ بن عبداللہ بن قشیر سے روایت ہے کہ میں فاطمہ بنت علی بن ابی طالب کے یہاں گیا، اس نے کہا: میں نے اس کے دونوں ہاتھوں میں دو دو موٹے کنگن دیکھے۔ اس نے کہا: میں نے اس کے ہاتھ میں انگوٹھی دیکھی۔۔۔۔
۱۲۔ عیسیٰ بن عثمان سے روایت ہے کہ میں فاطمہ بنت علی کے پاس تھا کہ ایک آدمی آکر ان کے باپ کی تعریف کرنے لگا تو انھوں نے راکھ لے کر اس کے منہ پر ڈال دی۔
تخریج: دونوں مذکورہ آثار کی تخریج ابن سعد (۸/۴۶۶) اور ان سے ابن عساکر (۱۹/ ۵۰۳) نے کی ہے۔ پہلی سند صحیح ہے اور دوسری جید (بہت اچھی)۔ عیسیٰ بن عثمان کا ذکر ابن حبان نے اپنی ’’کتاب الثقات‘‘ (۷/ ۲۲۳) میں کیا ہے، اس سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
۱۳۔ یحییٰ بن ابی سلیم سے روایت ہے کہ میں نے سہراء بنت نہیک کو دیکھا ہے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا، انھوں نے موٹی قمیص پہنی ہوئی تھی، سر پر موٹی اوڑھنی تھی، ہاتھ میں کوڑا تھا اور لوگوں کو ادب سکھلاتی تھیں، نیکی کا حکم دیتی تھیں اور برائی سے منع کرتی تھیں۔
تخریج: طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۴/ ۳۱۱، رقم ۷۸۵) میں جید سند کے ساتھ تخریج کی ہے۔
۱۴۔ میمون بن مہران سے روایت ہے کہ میں ام الدرداء کے ہاں گیا۔ میں نے اسے دیکھا کہ اس نے موٹی اوڑھنی سر پر لی ہوئی ہے اور اسے کس کر ابرووں پر باندھا ہوا ہے۔ وہ اوڑھنی چھوٹی تھی، اس لیے انھوں نے اسے تسمہ (رسی) سے باندھا ہوا تھا۔ راوی کا قول ہے کہ میں جب بھی نماز کے اوقات میں گیا، میں نے انھیں نماز پڑھتے ہوئے پایا۔
تخریج: ابن عساکر نے ’’تاریخ دمشق‘‘ (۱۱/ ۵۶۲) میں بغوی کے واسطہ سے عیسیٰ بن عالم الشاشی سے اس نے ابوالملیح سے، اس نے میمون سے روایت کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اس کی سند صحیح ہے۔ ابوالملیح کا نام حسن بن عمرا لرقی ہے۔ وہ ثقہ ہے اور ’’التہذیب‘‘ کے راویوں میں سے ہے۔ شاشی کو ابن حبان (۸/ ۴۹۴) نے ثقہ قرار دیا ہے، اسی طرح خطیب نے ’’تاریخ بغداد‘‘ (۱۱/ ۱۶۱) میں اسے ثقہ کہا ہے۔
ام درداء ابو دردا ء کی بیوی تھی۔ اس کا نام ہجیمہ تھا اور ایک قول ہے کہ جہیمہ تھا۔ وہ ثقہ، فقیہ اور عبادت گزار تھیں۔ خطیب کی ’’تاریخ بغداد‘‘ میں ان کے تفصیلی حالات زندگی ملتے ہیں۔
۱۵۔ معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے باپ کے ہمراہ ابوبکر کے یہاں گیا۔ میں نے دیکھا کہ اسماء ان کے سرہانے کھڑی تھیں، ان کا رنگ سفید تھا اور میں نے ابوبکر کوسفید رنگ اور نحیف جسم کا پایا۔
تخریج: طبرانی نے اس کی تخریج ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱:۳/۲۵) میں ایسی سند سے کی ہے جو بطور شاہد جید ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ماسوائے طبرانی کے شیخ قاسم بن عباد الخطابی کے جن کی انھوں نے ’’المعجم الاوسط‘‘ (۳: ۳/ ۱) میں چار روایات نقل کی ہیں۔ ہیثمی (مجمع الزوائد ۱/ ۴۲) کا قول ہے کہ اس کے راوی صحیح احادیث کے راوی ہیں۔
۱۶۔ عیینہ بن عبدالرحمن نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ ایک عورت سمرہ بن جندب کے پاس آئی اور کہا کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ انھوں نے اس آدمی سے پوچھا تو اس نے اس بات سے انکار کیا۔ تو انھوں نے اس بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا۔ انھوں نے لکھا: اس کی شادی بیت المال سے ایک ایسی عورت سے کر دیں جو صاحب جمال اور دین دار ہو۔ راوی کاقول ہے کہ حضرت معاویہ نے ایسا ہی کیا، راوی کا قول ہے کہ وہ عورت اس حالت میں آئی، جبکہ اس نے اپنا سر اوڑھنی سے ڈھانپا ہوا تھا۔
تخریج: بیہقی (۷/ ۲۲۸) نے اس کی تخریج کی ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
علامہ کا قول ہے کہ ’تقنع‘ سے مراد چہرے کو چھوڑ کر سر ڈھانپنا ہے (میں نے اپنی کتاب ’’چہرے کا پردہ:واجب یا غیرواجب‘‘ کے صفحہ ۱۴۰ پر ’’الصحاح‘‘، ’’القاموس المحیط‘‘ اور ’’المعجم الوسیط‘‘ کے حوالہ سے ’قناع‘، ’مقنع‘ اور ’مقنعۃ‘ کے معانی کو واضح کر دیا ہے)۔
امام البانی فرماتے ہیں کہ ’’بہت سے دلائل میں سے یہ ایک ایسی دلیل ہے جو ان لوگوں کو بھاتی نہیں جو اپنے مسلک میں تعصب سے اور اپنے اقوال میں تشدد سے کام لیتے ہیں۔‘‘
ان سولہ آثار کے علاوہ علامہ نے ’’الردالمفحم‘‘ صفحہ۱۵۴-۱۵۵ پر چار اور آثار کا یہ کہتے ہوئے اضافہ کیا ہے کہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی چہرہ کھلا رکھنے کا یہ طریقہ جاری رہا جس کی شہادت درج ذیل آثار سے ملتی ہے:
پہلا اثر: مہاجر الانصاری سے روایت ہے کہ اسماء بنت یزید انصاری جنگ یرموک میں لوگوں کے ساتھ موجود تھیں۔ انھوں نے اپنے خیمے کے ستون کے ساتھ سات رومیوں کو قتل کیا۔
تخریج: سعید بن منصور نے ’’السنن‘‘ (۳/۲/۳۰۷، رقم ۲۷۸۷) میں، طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۲۴: ۱۵۷/ ۴۰۳) میں جید سند کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے۔
دوسرا اثر: خالد بن سیحان سے روایت ہے کہ میں ابو موسیٰ کے ساتھ تستر کے معرکہ میں موجود تھا اور ہمارے ساتھ چار عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ ابو موسیٰ نے ان کو غنیمت کا حصہ دیا۔
تخریج: ابن ابی شیبہ (۱۲/ ۵۲۷) اور بخاری نے ’’التاریخ‘‘ (۲/۱/۱۵۳) میں ایسی سند کے ساتھ تخریج کی ہے جس کے حسن ہونے کا احتمال ہے۔
تیسرا اثر: عبداللہ بن قرط آزری سے روایت ہے کہ میں نے خالد بن ولید کے ساتھ رومیوں سے جنگ کی میں نے خالد بن ولید کی بیویوں اور ان کے ساتھیوں کی بیویوں کو دیکھا کہ وہ اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اٹھائے مہاجرین کے لیے پانی لا رہی تھیں اور رجز گا رہی تھیں۔
تخریج: سعید (۳/ ۲/ ۳۰۷، رقم ۲۷۸۸) نے صحیح سند کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے۔ اسے اس نے ایک اور سند (رقم ۲۷۸۵) سے بھی روایت کیا ہے جو ضعیف اور معضل ہے۔
چوتھا اثر: اس اثر کا ذکر اوپر تیرہویں اثر کے طورپر ہو چکا ہے۔
تخریج: میں علامہ نے یہ اضافہ کیا ہے کہ ہیثمی (مجمع الزوائد ۹/۲۶۴) نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
حاشیہ میں علامہ لکھتے ہیں کہ طبرانی نے اس اثر کا ذکر سمراء کے حالات زندگی میں کیا ہے۔ یہ سمراء صحابیہ تھیں۔ ذہبی نے ’’التجرید‘‘ (۲/ ۲۷۸) میں ان کا ذکر کر کے لکھا ہے: انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا اور لمبی عمر پائی۔ حافظ نے قسم اول میں ان کی طرف اشارہ کرنے کے بعد انھیں قسم ثالث کی طرف منتقل کر دیا، پھر بھول گئے اور نہ قسم ثالث میں ان کا ذکر کیا اور نہ کسی اور قسم میں۔
ان آثار کو نقل کرنے کے بعد بحث کو سمیٹتے ہوئے علامہ لکھتے ہیں کہ یہ آثار اس بات پر قطعاً دلالت کرتے ہیں کہ سلف صالحین کی عورتیں عالی ظرفی اور حسن تربیت کے درجۂ کمال تک پہنچی ہوئی تھیں جبھی تو انھوں نے نیکی میں تعاون کے بارے میں اپنے واجب کو بطریق احسن سر انجام دیا۔ انھوں نے اپنے آپ کا دفاع کیا، جیسا کہ ام سلیم نے غزوۂ حنین میں خنجر بدست کیا اور جیسا کہ اسماء بنت ابی بکر سعد بن عاص کے زمانہ میں اپنے سر کے نیچے خنجر رکھا کرتی تھیں، کیونکہ چوروں نے مدینہ میں ڈیرہ ڈالا ہوا تھا (ابن سعد ۸/۲۵۳)۔ یہ وہی اسماء ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی تھی کہ جب عورت جوان ہو جائے تو چہرے اور ہاتھوں کے سوا کوئی چیز نظر نہیں آنی چاہیے۔ یہ افراط و تفریط سے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا اثر تھا۔ ہمارے علما و مشائخ کو بھی منہاج نبوت پر عمل کرتے ہوئے مردوں اور عورتوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح اقوال، افعال اور تقریر کو پیش نظر رکھ کر سلف صالحین کے عمل اور مجتہد ائمہ اور محقق علما کے اقوال سے مدد لینی چاہیے، وگرنہ وہ جادۂ مستقیم سے ہٹ جائیں گے۔ میرے خیال میں اگر علما یہ روش اپنا لیں اور خلوص نیت سے راہ حق کی تلاش کریں تو ان کے بہت سے باہمی اختلافات مٹ جائیں گے۔ علامہ ناصر الدین البانی نے کل ملا کر ۲۲ احادیث اور ۲۰ آثار پیش کیے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عورتیں عہد نبوت اور خلافت راشدہ کے دور میں چہرے کھلے رکھ کر دینی، ثقافتی اور اجتماعی سرگرمیوں میںحصہ لیتی تھیں۔ انھوں نے صرف ان روایات پر اکتفا کیا ہے جو علم حدیث کی کسوٹی پر پورا اترتی ہیں، وگرنہ ابن سعد کی ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ کی آٹھویں جلد، قاضی ابن عبدالبر کی ’’الاستیعاب‘‘، ابن اثیر جزری کی ’’اسدالغابہ‘‘ اور حافظ ابن حجر عسقلانی کی ’’تہذیب التہذیب‘‘ (بارہویں جلد) اور ’’الاصابہ فی تمییز الصحابہ‘‘ (آٹھویں جلد) اس قسم کی روایات سے بھری پڑی ہیں۔ دور حاضر میں عمر رضا کحالہ کی کتاب ’’اعلام النسائ‘‘ اور مولانا سعید انصاری کی کتاب ’’سیر الصحابیات‘‘ کے صفحات پر ایسی روایات کثرت سے ملتی ہیں۔
اس موقع پر ان روایات کا تذکرہ بے محل نہ ہو گا جن کو سعودی علما چہرہ چھپانے کے حق میں خاص طور پر پیش کرتے ہیں۔ علامہ نے ’’الردالمفحم‘‘ کی ساتویں بحث (صفحہ ۴۸ - ۷۸) میں ایسی پانچ روایات کو نقل کر کے علم حدیث کی روشنی میں فاضلانہ تنقید کی ہے جس کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
ابن عباس سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: اللہ نے مومن عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے چہرے ڈھانپ لیا کریں۔۔۔ اور اپنی ایک آنکھ ننگی رکھیں۔
اس اثر کو مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’’الحجاب‘‘ میں آیت جلباب کی تفسیر کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ ابن عباس سے اس کی روایت درست نہیں، کیونکہ طبری نے اسے علی کی سند سے ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ یہ علی ابن ابی طلحہ ہے، جیسا کہ ابن کثیر نے اس سے معلق روایت کی ہے۔ اس پر بعض ائمہ نے تنقید کی ہے اور ابن عباس سے اس کا سماع ثابت نہیں، بلکہ اس نے انھیں دیکھا تک نہیں۔ ایک قول ہے کہ ان دونوں کے درمیان مجاہد ہے۔ اگر یہ درست ہو تو پھر اثر متصل ہو جاتا ہے، لیکن اس سے پہلے راوی ابو صالح ہے جس کا نام عبداللہ بن صالح ہے جو ضعیف ہے۔ ابن جریر (اور صاحب ’’الدرالمنثور‘‘) نے ابن عباس سے ایک اور اثر پیش کیا ہے جو اس اثر سے متصادم ہے۔ ابن جریر نے یہ کہہ کر کہ ’’دوسروں کا قول ہے کہ عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جلباب کو اپنی پیشانیوں پر کس کر باندھ لیں۔‘‘ ابن عباس کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’جلباب کو نیچا کرنا یہ ہے کہ اسے اپنی پیشانی پر کس کر باندھ لیا جائے۔‘‘ اگرچہ اس اثر کی سند بھی ضعیف ہے، مگر یہ اثر چار باتوں کی وجہ سے ہمارے نزدیک قابل ترجیح ہے:
۱۔ یہ لفظ ’ادنائ‘ (قریب کرنا) کے مفہوم سے قریب تر ہے۔ ابن ابی شیبہ نے ’’المصنف‘‘ (۴/۲۸۳) میں صحیح سند سے جابر بن زید کے حوالہ سے بیان کیا ہے کہ ’’زینت ظاہرہ ہتھیلی اور چہرے کی ٹکڑی ہے۔‘‘
۲۔ سات طریقوں سے ثابت ہے کہ ابن عباس کا قول ہے کہ ’’زینت ظاہرہ سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں۔‘‘
۳۔ یہ جابر بن زید بصری ابو السغناء کے قول کے مطابق ہے کہ ’’جلباب کو عورت کے چہرے سے قریب کیا جائے، لیکن وہ اسے ڈھانپے گی نہیں۔‘‘ اسے ابو دائود نے ’’مسائل‘‘ (صفحہ۱۱۰) میں صحیح سند سے بیان کیا ہے۔
۴۔ یہ بات ابن عباس کے بعض شاگردوں سے بھی منقول ہے۔
سعید بن جبیر نے ’ادنائ‘ کی تفسیر کی ہے: ’’دوپٹے کے اوپر چادر پہننا۔‘‘
ابن ابی حاتم نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ ’’مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ کوئی اجنبی اسے دیکھے، مگر یہ کہ اس کے دوپٹا پر چادر ہو جو اس نے سر اور سینے پر لپیٹی ہو۔‘‘
یہی بات ابوبکر جصاص نے ’’احکام القرآن‘‘ (۳/ ۳۷۲) میں مجاہد سے روایت کی ہے: ’’آزاد عورت جب باہر نکلے تو اپنی پیشانی اور سر ڈھانپ لے۔‘‘
یہی بات قتادہ نے مجاہد سے روایت کی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر واجب قرار دیا ہے کہ جب وہ باہر نکلیں تو اپنے ابرووں کو ڈھانپ لیں۔‘‘ ابن جریر نے اسے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ ایک آنکھ کے سوا سارے چہرے کو ڈھانپنے والا اثر ضعیف ہے اور اس کے مقابلہ میں جلباب کو پیشانی پر کسنے والا اثر قوی ہے۔ اس سلسلہ میں علامہ نے شیخ تویجری، صالح بن ابراہیم اصلحی اور مصطفی العدوی جیسے سعودی علما کے قول کی تردید کی ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ سعودی علما کے علاوہ عالم اسلام کے تمام عربی علما نے چہرے کے پردے کے بارے میں علامہ البانی کے موقف کی تائید کی ہے۔ دو دن ہوئے میں نے روزنامہ جنگ میں ایک سعودی عالم کافتویٰ پڑھا کہ دونوں آنکھوں کا کھولنا خلاف شریعت ہے، صرف ایک آنکھ کھلی ہونی چاہیے۔ پاکستان کے علما کو اس فتویٰ کی طرف دھیان دینا چاہیے۔ ویسے میں نے آج تک کسی مسلمان ملک بشمول سعودی عرب نہیں دیکھا کہ کسی خاتون نے صرف ایک آنکھ کھلی رکھی ہو۔ یہ منظر مضحکہ خیز سا لگتا ہے۔ معنی کے اعتبار سے یہ اثر معلول ہے، کیونکہ امام طبری نے بعینہٖ اسی سند سے سورۂ نور کی آیت ’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘ کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ ابن عباس چہرے کو آنکھوں کے سرے اور ہاتھوں کی مہندی اور انگوٹھی کو زینت ظاہرہ میں شمار کرتے ہیں۔
وہ ضعیف اثر جس کا مخالفین نے سہارا لیا ہے، یہ ہے کہ ابن سیرین نے عبیدہ سلمانی سے آیت جلباب (ادنائ) کے بارے میں پوچھا تو عبیدہ نے چادر سر پر اوڑھی اس نے ابرووں تک سارا سر ڈھانپ لیا اور اپنے چہرے کو بھی ڈھانپا اور بائیں آنکھ باہر رہنے دی۔
تخریج: سیوطی نے اسے ’’الدرالمنثور‘‘ (۵/ ۴۲۱) میں روایت کیا ہے۔ (یہ تفسیر طبری ۱۰/ ۳۳۲ میں بھی مروی ہے)۔
یہ حدیث مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:
۱۔ یہ مقطوع موقوف ہے، اس لیے قابل حجت نہیں۔ اس بات پر اتفاق ہے کہ عبیدہ سلمانی تابعی ہیں۔ اگر وہ حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً بھی روایت کرتے، تب بھی مرسل ہونے کی وجہ سے یہ قابل حجت نہ ہوتی، لیکن موقوف کا تو مسئلہ ہی اور ہے۔ اور پھر یہ ترجمان القرآن ابن عباس اور ان کے شاگردوں (مجاہد اور قتادہ) کی تفسیر کے خلاف ہے۔
۲۔ کھلی آنکھ کون سی تھی، اس بارے میں روایات میں اضطراب ہے۔ کبھی کہا گیا ہے کہ بائیں تھی، جیسا کہ مذکورہ روایت میں ہے اور کبھی کہا گیا ہے کہ دائیں تھی، جیسا کہ طبری کی روایت میں ہے۔ کبھی کہا گیا ہے کہ دونوں میں سے ایک تھی۔ جصاص کی ’’احکام القرآن‘‘ (۳/ ۳۷۷) اور ’’تفسیر البغوی‘‘ (۳/۴۴۴) میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
۳۔ ابن تیمیہ نے ’’مجموع الفتاویٰ‘‘ (۱۵/ ۳۷۱) میں اسے ایسے سیاق و سباق میں بیان کیا ہے جو اوپر والے سیاق و سباق سے سراسر مختلف ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’عبیدہ سلمانی وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ مومنوں کی عورتیں جلباب کو اپنے سروں سے اتنا نیچا کر لیتی تھیں کہ دونوں آنکھوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آتا تھا۔‘‘ یہ اس لیے تھاکہ راستہ نظر آتا رہے۔
علماے حدیث کے نزدیک روایت کے متن میں اضطراب ایک ایسی علت ہے جس کی وجہ سے روایت قابل حجت ہونے کے مرتبہ سے گرجاتی ہے، خواہ وہ اس روایت کی طرح شکلی اضطراب ہو، کیونکہ اس سے پتا چلتا ہے کہ راوی اسے ضبط نہیں کر سکا۔
ابن تیمیہ کا سیاق و سباق شکلی نہیں، کیونکہ وہ آیت جلباب کی تفسیر کے سلسلہ میں نہیں ہے، اس سے عصر اول میں عورتوں کے بارے میں ایک قسم کی صورت حالت کی خبر ملتی ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عصر اول میں ایسی عورتیں موجود تھیں جو (ازواج مطہرات کی پیروی کرتے ہوئے) چہرہ ڈھانپ لیتی تھیں، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ چہرہ ڈھانپنا واجب تھا۔
۴۔ ابن عباس نے سورۂ نور کی آیت ’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘ کی جو تفسیر کی ہے۔ یہ اثر اس سے متصادم ہے۔ ابن عباس کا قول زیادہ قوی ہے (جبھی تو ہر مفسر اور ہر فقیہ نے اس کا حوالہ دیا ہے۔)
تیسری حدیث
پہلی حدیث میں مذکور ابن عباس کے قول کے مانند محمد بن کعب القرضی کی روایت ہے۔ ’یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ‘ کی تفسیر میں اس کا قول ہے: ’’ وہ اپنے چہرے پر اوڑھنی ڈال لے گی۔ سوائے ایک آنکھ کے۔‘‘
تخریج: ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ (۸/ ۱۷۱-۱۷۷) میں اسے یوں روایت کیا ہے: ہمیں خبر دی محمد بن عمر نے ابن ابی سیرۃ، سے اس نے ابو صخر سے اور اس نے محمد بن کعب سے۔
علامہ کا قول ہے کہ یہ سند موضوع ہے۔ اس کی وجہ ابو سیرۃ ہے جس کے بارے میں امام احمد ’’العلل‘‘ (۱/۲۰۴) میں فرماتے ہیں: ’’وہ جھوٹ بولتا ہے اور حدیث وضع کرتا ہے۔‘‘
اس سے محمد بن عمر الواقدی نے روایت کی ہے جو اسی جیسا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ’’تقریب التہذیب‘‘میں کہا ہے:
’’وہ متروک ہے اور احمد نے کہا ہے کہ کذاب ہے۔‘‘
پھر اس ضعف کے ساتھ یہ روایت مرسل بھی ہے۔
چوتھی حدیث
فضل بن عباس سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا اور ایک بدو کے ساتھ اس کی خوب صورت بیٹی تھی، وہ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنے لگا اس امید پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے شادی کر لیں تو میں مڑ کر اسے دیکھنے لگا اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا سرپکڑ کر اسے موڑنے لگے۔
ابو یعلیٰ نے اپنی ’’مسند‘‘ (۱۲/ ۹۷) میں اس کی تخریج یوں کی ہے: یونس بن ابی اسحاق نے اپنے باپ ابی اسحاق سے، اس نے سعید بن جبیر سے، اس نے ابن عباس سے۔
علامہ کا قول ہے کہ یہ سند ضعیف ہے، اس کے راوی ثقہ ہیں اور اس کا متن منکر ہے۔ اس میں پانچ علتیں ہیں:
۱۔ ابو اسحاق شبیعی کا عنعنہ۔ وہ مدلّس بھی ہے۔
۲۔ اس کا اختلاط۔ اس کی وہی حدیث قابل حجت ہے جو اختلاط سے پہلے کی ہو اور جس میں صراحتاً ’حدثنا‘ کے الفاظ موجود ہوں اور یہ بات یہاں نہیں پائی جاتی۔
۳۔ اس کے بیٹے یونس کی نرمی۔ اور یہ نرمی بطور خاص ان روایات میں ہے جو وہ اپنے باپ سے نقل کرتا ہے۔ وہ اپنے باپ کے اختلاط کے بعد اس سے روایت نقل کرتا ہے، جیسا کہ ابن نمیر نے حافظ ابن رجب حنبلی کی ’’شرح علل الترمذی‘‘ سے نقل کرتے ہوئے حتمی طور پر کہا ہے۔
۴۔ یہ اس روایت کے خلاف ہے جو یونس کے بیٹے اسرائیل نے روایت کی ہے۔ وہ ثقہ ہے اور اپنے باپ سے بڑھ کر حافظ ہے۔ اس نے یہ حدیث اپنے دادا سے سنداً اور متناً روایت کی ہے، مگر اس میں ’واعرابی معہ ابنۃ۔۔۔ رجاء ان یتزوجہا‘ (ایک بدو کے ساتھ اس کی خوب صورت لڑکی تھی۔۔۔ وہ اسے اللہ کے رسول پر اس امید پر پیش کرنے لگا کہ آپ اس سے شادی کر لیں) والا اضافہ نہیں ہے۔
اسرائیل کی روایت کی تخریج احمد (۱/۳۱۳) اور طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ (۱۸/ ۲۸۸) میں کی ہے۔
علامہ کا قول ہے کہ اختلاف کی صورت میں اسرائیل یونس سے افضل ہے، اسی لیے امام احمد کا قول ہے: ’’اسرائیل کی حدیث میرے نزدیک یونس کی حدیث سے محبوب تر ہے۔‘‘
علامہ کا قول کہ اس مخالفت کی وجہ سے یہ اضافہ منکر ہے۔ اور یہ اس صورت میں ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ ابو اسحاق کے اختلاط کا نتیجہ نہیں ہے اور اس نے اسے روایت نہیں کیا، وگرنہ یہ روایت شاذ ہو گی۔
۵۔ یہ روایت ان تمام ثقہ راویوں کی مخالف ہے جنھوں نے اسے ابن عباس سے اضافہ کے بغیر روایت کیا ہے۔ میری اطلاع کے مطابق ان کی تعداد چار ہے اور وہ سب ثقہ ہیں:
ا۔ سلیمان بن یسار، جس سے بخاری، مسلم وغیرہ نے روایت کی ہے۔
ب۔ حکم بن عتیبہ، جس سے احمد نے صحیح سند سے روایت کی ہے۔
ج۔ عطاء بن ابی رباح، جس سے احمد نے جید سند سے روایت کی ہے۔
د۔ مجاہد، جس سے طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں صحیح سند سے روایت کی ہے۔
اس کے شاذ ہونے کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ یہ اضافہ ترمذی میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی وارد نہیں۔
علم حدیث سے آشنا لوگ یہ جانتے ہیں کہ مذکورہ علتوں میں سے ایک علت بھی اس کو ضعیف ٹھہرانے کے لیے کافی ہے چہ جائیکہ پانچوں علتیں ایک ساتھ اکٹھی ہو جاتیں۔
ابو اسحاق کے اختلاط کا تذکرہ ابن کیال نے اپنی کتاب ’’الکواکب النیرات فی معرفۃ من اختلط من الرواۃ الثقات‘‘ (صفحہ ۳۴۱-۳۵۶) میں کیا ہے۔ اسی طرح ابن صلاح اور ابن کثیر وغیرہ نے اس کا تذکرہ کیا ہے اور ان راویوں کے بارے میں بتایا ہے جنھوں نے اختلاط سے پہلے اس سے روایت کی ہے اور ان راویوں کے بارے میں بھی جنھوں نے اختلاط کے بعد اس سے روایت کی ہے اور انھی میں یونس بن ابی اسحاق کا شمار ہوتا ہے۔ علامہ نے اسے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۵۹۵۹) میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے۔
حافظ ابن القطان نے ’’الوہم والایہام‘‘ (۲/ ۲۰۸) میں کہا ہے: ’کان یدلّس کثیرًا‘ (وہ بہت زیادہ تدلیس سے کام لیتا تھا)۔ معترضین کاقول ہے کہ اس حدیث میں ہاتھ مانگنے والے کے لیے چہرے پر نظرڈالنے کا جواز ہے، گویا وہ اس روایت کو بھی خثعمیہ کی روایت کی طرح چہرہ کھلا رکھنے کے جواز کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں، گویا وہ اس روایت میں منکر اضافہ کے باوجود صحیح حدیث کے دلائل کو توڑنا موڑنا چاہتے ہیں۔ اس روایت میں یہ بات بالکل موجود نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت سے رشتہ کرنے کے خواہش مند تھے، اس میں تو صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ بدو نے اپنی لڑکی کو اس امید پر پیش کیا کہ آپ اس سے شادی کر لیں گے۔
یہ حدیث بھی خثعمیہ کی حدیث کی طرح چہرے کے کھلا رکھنے کے لیے واضح دلیل ہے، کیونکہ آپ نے فضل کا سر تو موڑا، مگر بدو کو حکم نہ دیا کہ بیٹی کا چہرہ ڈھانپ لے۔اس کے باوصف امام البانی نے کمال دیانت داری سے کام لیتے ہوئے اس حدیث کافنی تجزیہ پیش کیا، کیونکہ وہ اپنے موقف کے حق میں وہی حدیث پیش کرتے ہیں جو فنی اعتبار سے مضبوط ہو۔
پانچویں حدیث
ام سلمہ سے روایت ہے کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور ان کے پاس میمونہ بھی تھی۔اتنے میں ابن ام مکتوم آئے۔ اور یہ اس زمانہ کی بات ہے جب ہمیں حجاب کا حکم دیا جا چکا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے حجاب کرو تو ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول، کیا وہ نابینا نہیں جو نہ ہمیں دیکھ سکتا ہے اور نہ ہمیں پہچان سکتا ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ کیا تم اسے دیکھ نہیں رہی ہو؟
تخریج: ابن ماجہ کے سوا دوسرے اصحاب سنن نے زہری کے واسطہ سے اس کی تخریج کی ہے کہ مجھے نبہان ام سلمہ کے آزاد کردہ غلام نے حدیث بتائی۔ علامہ نے اس کی تخریج ’’ارواء الغلیل‘‘ (۶/۲۱۰، رقم ۱۸۰۶) اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۵۹۵۸) میں کی ہے۔ جو تفصیل چاہتا ہے، وہ ان کتابوں کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
اس حدیث پر علامہ کی فنی بحث اوپر دی ہوئی ’’جلباب المرأۃ المسلمہ‘‘ کی پانچویں حدیث میں گزر چکی ہے، اس لیے میں یہاں صرف ان نکات کا ذکر کروں گا جو علامہ نے اپنی جدید ترین کتاب ’’الردالمفحم‘‘ (منہ توڑ جواب) میں شیخ حمود التویجری کے اعتراضات کی تردید میں بیان کیے ہیں۔
شیخ حمود التویجری اور عبدالقادر سندی جیسے سعودی علما نے علامہ کے تبصرے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا ہے کہ حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘ میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ ’اسنادہ قوی‘ (اس کی اسناد قوی ہیں)۔ اس اعتراض کا جواب علامہ نے ’’الردالمفحم‘‘ صفحہ۶۴-۷۲پر دیا ہے، اس بحث کا خلاصہ درج ذیل ہے:
حافظ نے ’’تقریب التہذیب‘‘ میں نبہان کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ’’مقبول‘‘ ہے۔ یہ حافظ صاحب کی اصطلاح ہے جس کی وضاحت انھوں نے ’’تقریب التہذیب‘‘ کے مقدمہ میں یوں کی ہے کہ ’’متابعت کی صورت میں وہ مقبول ہے، مگر تفرد کی صورت میں وہ لیّن الحدیث (حدیث میں نرم) یا غیر مقبول ہے، موجودہ روایت میں وہ منفرد ہے، اس لیے غیر مقبول ہے۔‘‘
پھر حافظ صاحب نے ’’فتح الباری‘‘ کے ایک اور مقام (۱/ ۵۵۰) میں کہا ہے: ’’یہ حدیث ایسی ہے جس کی صحت میں اختلاف ہے۔ پھر حافظ ابن حجر نے ’’تلخیص الحبیر‘‘ (۳/۱۴۸) میں اس توجیہ کو سراہا ہے جو ابو دائود نے پیش کی ہے کہ ام سلمہ والی روایت امہات المومنین کے لیے خاص ہے، جبکہ فاطمہ بنت قیس کی روایت عام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں: ’’منذری نے اپنے حواشی میں دونوں روایتوں کے درمیان یہی جمع اختیار کی ہے اور ہمارے شیخ نے اسے سراہا ہے۔‘‘ حافظ صاحب کے یہی اقوال قابل حجت ہیں، کیونکہ ’’فتح الباری‘‘ میں مذکور قول امام احمد، امام ابودائود، امام قرطبی، ابن قدامہ، شیخ منصور بن یونس البہوتی کی کتاب ’’شرح منتہی الارادات‘‘ (۳/۶) اور شیخ محمد تقی الدین کی کتاب ’’المنہی‘‘ کے اقوال سے متصادم ہے، اس لیے قابل حجت نہیں۔ اس کے علاوہ یہ قول ابن ام مکتوم کے گھر میں فاطمہ بنت قیس کی عدت گزاری اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عید کے دن حبشہ کا کھیل دیکھنے والی متفقہ روایات کے بھی منافی ہے۔
شیخ عبدالقادر سندی ایک اور سعودی عالم نے نبہان کا ترجمہ مزی اور عسقلانی کی کتاب سے نقل کیا ہے کہ ابن حبان نے اس کا ذکر ثقات میں کیا ہے اور قاری کو اس وہم میں مبتلا کیا ہے کہ ان دونوں نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے، حالاںکہ علماے حدیث کا یہ اندازبیان ہے کہ وہ کسی راوی کا ترجمہ جرح و تعدیل کے اعتبار سے محض نقل کرتے ہیں، اپنی راے نہیں دیتے۔ حافظ ابن حجر اپنی کتاب ’’تقریب التہذیب‘‘ میں ایک مجتہد کی حیثیت سے بات کرتے ہیں، جبکہ ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں وہ صرف ناقل ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں نبہان کے بارے میں ابن حبان کی جس توثیق کا ذکر کیا ہے، ’’تقریب التہذیب‘‘ میں اس کی وضاحت کیے بغیر اسے لیّن (نرم) قرار دیتے ہوئے صرف متابعہ کی صورت میں اسے مقبول قرار دیا ہے۔
اس کے بعد علامہ نے ان چار بہتانوں کو ذکر کیا ہے جو سندی نے حافظ مزی پر باندھے ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حافظ مزی نے اس حدیث کا سند کے ساتھ ذکر کیا ہے، ان سے حجت نہیں پکڑی، دوسرے سندی نے حافظ مزی پر یہ بہتان باندھا ہے کہ انھوں نے اس کی تخریج اور راویوں سے کی ہے، حالاںکہ حافظ مزی نے لکھا ہے: ’من وجوہ أخری عن الزہری‘ (یعنی زہری سے دوسرے طریقوں سے)۔ زہری کا نام دیدہ و دانستہ قلم زد کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے قلم کی لغزش قرار دیا جاتا، مگراسی صفحہ پر اس غلطی کا ارتکاب دوسری دفعہ کیا گیا ہے۔ زہری سے روایت تو مخالفین کے خلاف حجت ہے، کیونکہ اس سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ نبہان اس روایت میں منفرد ہے۔ پھر یہ حدیث واضح طور پر فاطمہ بنت قیس کی صحیح روایت سے متصادم ہے۔
علامہ فرماتے ہیں کہ مذکورہ پانچ روایات ان ضعیف احادیث میں سے ہیں جن کا چرچا وہ لوگ کرتے ہیں جو عورت کے چہرے اور ہاتھوں کا کھلا رکھنا حرام تصور کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں سے شیخ حمود التویجری ہیں جنھوں نے اپنی کتاب ’’الصارم المشہور‘‘ میں ایسی پچاس سے زائد روایات کو بھر دیا ہے۔ ان میں سے کچھ ضعیف ہیں کچھ بہت ہی منکر ہیں اور کچھ موضوع۔
قرآن اکیڈمی میں شعبۂ ریسرچ کے حافظ محمد زبیر نے ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ بابت مارچ ۲۰۰۶ء میں شیخ تویجری کی مذکورہ پچاس روایات میں سے اٹھارہ روایات بغیر حوالہ کے نقل کی تھیں جن کا مدلل جواب میری کتاب ’’چہرے کا پردہ: واجب یا غیر واجب‘‘ کے صفحہ ۱۶۴ -۱۹۲ پر موجود ہے۔
علامہ نے شیخ تویجری کی کتاب ’’الصارم المشہور‘‘ میں اپنے موقف کے حق میں پیش کردہ احادیث میں سے صرف دس احادیث کو بطور مشتے از خروارے (القلیل یدل علی الکثیر) کو پیش کیا ہے تاکہ قارئین کو پتا چلے کہ شیخ اور اس کے ہم نوا کس طرح کی احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ احادیث ’’الردالمفحم‘‘ کے صفحہ ۷۳ - ۷۷ پر یوں مذکور ہیں۔ تخریج کے لیے علامہ نے فن حدیث پر اپنی دوسری کتابوں کا حوالہ دینے پر اکتفا کیا ہے۔
۱۔ ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے جب بہترین عورتوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: جو نہ مردوں کو دیکھتی ہیں اور نہ مرد انھیں دیکھتے ہیں۔‘‘
یہ ضعیف حدیث ہے جو ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۶۱۰۲) میں موجود ہے۔
۲۔ ’’جو عورت اپنے شوہر کے گھر کے علاوہ اپنی اوڑھنی اتارتی ہے، وہ اپنے اور رب کے درمیان اپنا ستر کھول دیتی ہے۔‘‘
یہ ضعیف حدیث ہے جو ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۶۲۱۶) میں موجود ہے۔
صحیح حدیث وہ ہے جس میں ’خمارہا‘ کے بجاے ’ثیابہا‘ کا لفظ ہے۔ جب شیخ نے لفظ منکر ’خمارہا ‘ روایت کیا تو کیا اسے پتا نہ چلا کہ یہ حدیث نہ صرف روایات سے متصادم ہے، بلکہ سورۂ نور میں اللہ کے اس قول سے بھی متصادم ہے۔ حدیث سے مراد حمام میں سب کپڑے اتارنے سے ہے۔ رہی بات خاوند کے علاوہ کسی اور کے گھر میں مسلمان عورتوں کے سامنے دوپٹا اتارنے کی تو آیت میں صریحاً اس کا جواز ہے۔
۳۔ ’’مرد کا ستر مرد کے لیے۔۔۔ اور عورت کا ستر عورت کے لیے ایسا ہے، جیسے عورت کا ستر مرد کے لیے۔‘‘
یہ حدیث ضعیف ہے اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۳۹۲۳) میں موجود ہے۔
شیخ نے اس کے مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مرد کا ستر مرد کے سامنے ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور یہی ستر عورت کا عورت کے سامنے ہے۔
یہ ایسی عجیب بات ہے جو ایک مسلمان کے لیے حیران کن ہے اور سورۂ نور کی مذکورہ آیت کے خلاف ہے، کیونکہ آیت کی رو سے عورت ان مواقع زینت کو عورت کے سامنے ظاہر کر سکتی ہے جن میں کانوں کی بالیاں، بازوبند، پازیب اور ہار کی زینت موجود ہو، مگر شیخ عورت کے سینے، پیٹھ اور کمر کو بھی عورت کے سامنے کھولنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایک طرف تو اتنی سختی کہ چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی اجازت نہیں اوردوسری طرف اتنی نرمی کہ سینہ بھی کھول دیا۔ اس سے بڑا تناقض کیا ہو گا؟ اور یہ بات تو عبداللہ بن مسعود کی روایت کے بھی خلاف ہے۔
۴۔ ’’عورتیں بے وقوف ہیں سوائے ان کے جو اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہیں۔‘‘
یہ حدیث ضعیف ہے اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۶۰۵۱) میں موجود ہے۔
۵۔ ’’مرد ہلاک ہو گئے اگر انھوں نے اپنی عورتوں کی اطاعت کی۔‘‘
یہ حدیث ضعیف ہے اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۴۳۶) میں موجود ہے۔
۶۔ ’’ہر صبح دو فرشتے منادی کرتے ہیں کہ ہلاکت ہے مردوں کی عورتوں کی وجہ سے اور ہلاکت ہے عورتوں کی مردوں کی وجہ سے۔‘‘
یہ حدیث ضعیف ہے اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۲۰۱۸) میں موجود ہے۔
۷۔ ’’دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ ابلیس جال انداز کرنے والا اور گھات لگانے والا ہے۔ نیکو کار لوگوں کے بارے میں اس کا مضبوط جال عورتیں ہیں۔‘‘
یہ حدیث موضوع ہے اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۲۰۶۵) میں موجود ہے۔
۸۔ ’’پہلی نظر خطا ہے، دوسری قصداً ہے اور تیسری تباہی ہے۔ مومن کا عورت کے خوبصورت مقامات کو دیکھنا ابلیس کے تیروں میں سے زہر میں بجھا ہوا تیر ہے۔‘‘
یہ حدیث بھی موضوع ہے اور پوری حدیث ضعیف ہے جو ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۵۹۷۰) میں موجود ہے۔
۹۔ ’’اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ آدمی صفا چٹ (بے ریش) لونڈے کو گھور کر دیکھے۔‘‘
یہ حدیث موضوع ہے۔ ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۵۹۶۹) میں موجود ہے۔
۱۰۔ ’’تم عورتوں میں سے جو کوئی اپنے گھر میں بیٹھی رہے، وہ ان لوگوں کے عمل کو پالیتی ہے جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں۔‘‘
یہ حدیث ضعیف ہے اور ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ‘‘ (رقم ۲۷۴۴) میں موجود ہے۔
یہ ان ضعیف اور موضوع احادیث کا نمونہ ہے جو شیخ تویجری نے اپنی کتاب ’’الصارم المشہور‘‘میں بھری ہوئی ہیں۔
خلاصۂ مبحث
علامہ البانی کی راے کے مطابق چہرے اور ہاتھوں کو نہ عادتاً چھپایا جا سکتا ہے، نہ عبادتاً۔ اس سلسلہ میں سورۂ نور کی آیت ’اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا‘ اور ابو دائود میں حضرت عائشہ کی مروی روایت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مفسر اور ہر فقیہ نے اس آیت کے بارے میں ابن عباس کے قول اور حضرت عائشہ کی حدیث کو ان دونوں کے استشہاد کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہے۔
_________________