HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : محمد رفیع مفتی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

متفرق سوالات

[المورد میں خطوط اور ای میل کے ذریعے سے دینی موضوعات پر سوالات موصول ہوتے ہیں۔ المورد کے شعبۂ علم و تحقیق اور شعبۂ تعلیم و تربیت کے رفقا ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان میں سے منتخب سوال و جواب کو افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔]

اسلام میں تصویر او رموسیقی

سوال: تصویر اور موسیقی کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟(عدنان اکرم)

جواب:اسلام میں تصویر اور موسیقی بذات خود حرام نہیں ہیں۔ البتہ، ان کے ساتھ اگر کوئی آلایش لگی ہوئی ہو تو وہ انھیں مکروہ یا حرام بنا دیتی ہے۔مثلاً، فحش تصاویر بنانا حرام ہے۔ مشرکانہ تصاویر اور مجسمے بنانا حرام ہے۔ اسی طرح وہ موسیقی جو سفلی جذبات پیدا کرتی ہے یا وہ جس کے ساتھ شراب و کباب کی محفلیں برپا ہوتی ہیں، وہ حرام ہے۔

تصویر اور موسیقی کے بارے میں حدیثوں میں جو کچھ آیا ہے، وہ اسی حوالے سے آیا ہے۔


اسلام میں سود کی حیثیت

سوال: اسلام میں سود کی کیا حیثیت ہے؟ (منصور احمد)

جواب:اسلام میں سود کھانا صریحاً حرام ہے۔ اس کی حرمت پر استدلال کرتے ہوئے غامدی صاحب نے اپنی کتاب ’’میزان ‘‘ کے باب’’قانون معیشت‘‘ میں لکھا ہے:

’’سود بھی ایک ایسی ہی اخلاقی نجاست ہے جس میں ملوث افراد اور ادارے دوسرے کے نفع و نقصان سے قطع نظر ہر حال میں منافع بٹانے کے لیے اپنے مقروض کے سر پر سوار رہتے ہیں۔ عربی زبان میں اس کے لیے ’ربٰوا‘ کا لفظ مستعمل ہے ۔قرآن نے اِس کے لیے یہی لفظ استعمال کیا ہے ۔ عربی زبان سے واقف ہرشخص جانتا ہے کہ اِس سے مراد وہ معین اضافہ ہے جو قرض دینے والا اپنے مقروض سے محض اس بنا پر وصول کرتا ہے کہ اس نے ایک خاص مدت کے لیے اُس کو روپے کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ قرآن مجید نے اِسے پوری شدت کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے ۔ چنانچہ سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے :
اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ، ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْآ: اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا، وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبآوا. فَمَنْ جَآءَ ہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَاسَلَفَ وَاَمْرُہٓٗ اِلَی اللّٰہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓءِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنََ.(۲ : ۲۷۵)
’’جو لوگ سود کھاتے ہیں ،وہ قیامت کے دن اٹھیں گے تو بالکل اُس شخص کی طرح اٹھیں گے جس کو شیطان نے اپنی چھوت سے پاگل بنا دیا ہو ۔ یہ اِس وجہ سے ہو گا کہ انھوں نے کہا : بیع بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے اور تعجب ہے کہ اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرایا ہے۔ چنانچہ جس کو اُس کے پروردگار کی یہ تنبیہ پہنچی اور وہ باز آ گیا تو جو کچھ وہ لے چکا ،سو لے چکا اور اُس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے، اور جو اب اِس کا اعادہ کریں گے تو وہی اہل دوزخ ہیں، وہ اُس میں ہمیشہ رہیں گے ۔‘‘
اِسی سورہ میں آگے فرمایا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا، اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ. فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ، وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ، لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ.(۲: ۲۷۸۔۲۷۹)
’’ایمان والو ، اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود باقی رہ گیا ہے ، اسے چھوڑ دو۔ پھراگر تم نے ایسا نہیں کیا تو اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے جنگ کے لیے خبردار ہو جاؤ۔ اور اگر تم توبہ کر لو تو اصل رقم کا تمھیں حق ہے ،نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘
اِن آیات میں سود خواروں کے قیامت میں پاگلوں کی طرح اٹھنے کی وجہ قرآن نے یہ بتائی ہے کہ وہ اِس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ نے بیع و شرا کو حلال اور سود کو حرام ٹھیرا دیا ہے ، دراں حالیکہ اِن دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب ایک تاجر اپنے سرمایے پر نفع لے سکتا ہے تو ایک سرمایہ دار اگر اپنے سرمایے پر نفع کا مطالبہ کرے تو وہ آخر مجرم کس طرح قرار پاتا ہے؟ قرآن کے نزدیک یہ ایسی پاگل پن کی بات ہے کہ اِس کے کہنے والوں کو جزا اور عمل میں مشابہت کے قانون کے تحت قیامت میں پاگلوں اور دیوانوں ہی کی طرح اٹھنا چاہیے ۔ ‘‘ (میزان۵۰۸۔۵۰۹)


متعین مدت میں متعین اضافہ لینا

سوال: کیا ہر شے پر متعین مدت میں متعین اضافہ لینا حرام ہے میری مراد یہ ہے کہ مکان کا کرایہ بھی تو متعین مدت میں متعین اضافہ ہی ہوتا ہے؟(منصور احمد)

جواب: مکان کا کرایہ لینا حرام نہیں ہے ،جبکہ روپے کا کرایہ، یعنی سود لینا حرام ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ان اشیا پر کرایہ لینا جائز ہوتا ہے جو استعمال کی جاتی ہیں، صرف نہیں کی جاتیں۔ مثلاً جب آپ گھر کرایے پر لیتے ہیں تو آپ اسے بیچ کر اس کے عوض کوئی اور مال نہیں لیتے، بلکہ مکان جیسے ہوتا ہے ویسے کا ویسا پڑا رہتا ہے، بس آپ اس میں رہایش اختیار کرتے ہیں اور جب آپ روپیہ قرض پر لیتے ہیں تو آپ اسے مکان کی طرح ایک جگہ پر پڑا نہیں رہنے دیتے، بلکہ اسے مارکیٹ میں صرف کر کے اس کے بدلے میں کوئی اور شے لیتے ہیں، پھر اسے کہیں لے جا کربیچتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے کاروبار میں ہو سکتا ہے کہ جو چیز آپ نے روپے کے عوض خریدی ہے، وہ کہیں ضائع ہو جائے، اس میں کوئی کمی واقع ہو جائے، اسے کوئی آفت لاحق ہو جائے یا وہ مطلوبہ قیمت پر نہ بکے۔ بہرحال اب آپ کو قرض خواہ کی رقم یہ شے بیچ کر اس کی قیمت میں سے ادا کرنی ہے۔ اس صورت میں معاملہ مکان کے کرایے والا نہیں رہتا، بلکہ اس میں کئی طرح کے خطرات شامل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ اس پر متعین مدت میں متعین اضافہ بالکل ناجائز ہے۔

_________________

B