بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ اَیْنَ مَا تَکُوْنُوْا یَاْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعاً اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ {۱۴۸}
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ {۱۴۹}
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وَجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ اِلاَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَلاِتُِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ {۱۵۰} کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْکُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَّالَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ {۱۵۱}
اور (ان میں سے) ہر ایک نے (اپنے لیے قبلے کی) ایک سمت مقرر کر رکھی ہے ، ۳۷۱ وہ اُسی کا رخ کرتا ۳۷۲ ہے ۔ اِس لیے (تم اِنھیں چھوڑو اور) نیکیوں کی راہ میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو ۔ ۳۷۳ تم جہاں بھی ہو گے ، اللہ تم سب کو (فیصلے کے لیے ) ۳۷۴ اکٹھا کرے گا ۔ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔
۱۴۸
(اِنھیں چھوڑو) اور (سفر میں بھی ہمیشہ) جہاں سے نکلو ، (نمازکے لیے) اپنا رخ مسجدِ حرام ہی کی طرف کرو ۔ ۳۷۵ اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارے پروردگار کی طرف سے یہی حق ہے ، اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو ،
اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے ۔ ۳۷۶ ۱۴۹
اور (ایک مرتبہ پھر سنو کہ سفر میں بھی ہمیشہ ) جہاں سے نکلو ، (نماز کے لیے ) اپنا رخ مسجدِ حرام ہی کی طرف کرو ، اور (عام حالات میں بھی) تم جہاں کہیں ہو ، اپنا رخ اِسی (مسجد) کی طرف کرو ۳۷۷، اِس لیے کہ اِن لوگوں کو تمھارے خلاف کوئی حجت نہ ملے ۳۷۸ ــــــ ہاں جو ظالم ہیں ، (اُن کی زبان تو کوئی چیز بھی بند نہیں کر سکتی) ، سو تم اُن سے نہ ڈرو ، بلکہ مجھ سے ڈرو ـــــ اور اِس لیے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں ، ۳۷۹ اور اس لیے کہ تم صحیح راستہ پا لو ۔ ۳۸۰ چنانچہ ۳۸۱ (یہی مقاصد ہیں جن کے لیے ) ہم نے ایک رسول تم میں سے تمھارے اندر بھیجا ہے جو ہماری آیتیں تمھیں سناتا ہے ۳۸۲ اور تمھارا تزکیہ کرتا ہے ۳۸۳ اور (اِس کے لیے ) تمھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۳۸۴ اور (اِس طرح) وہ چیزیں تمھیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے ۔ لہٰذا تم مجھے یاد رکھو ، میں تمھیں یاد رکھوں گا ۳۸۵ا و رمیرے شکر گزار بن کر رہو ، ۳۸۶ میری ناشکری نہ کرو ۳۸۷ ۔ ۱۵۰ ۔ ۱۵۱
۳۷۱ اصل الفاظ ہیں : ’ولکل وجھۃ ھومولیھا‘ ۔ ان میں ’کل‘ کا لفظ اگرچہ نکرہ ہے ، لیکن یہ جب کسی شخص یا گروہ کا ذکر کرنے کے بعد آئے تو اس سے بالعموم وہی شخص یا گروہ مراد ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہاں بھی اس سے مراد یہودو نصاریٰ ہی ہیں جن کے بعض گروہوں کا ذکر اوپر ہوا ہے ۔
۳۷۲ یعنی اپنے تعصبات کو آسانی سے نہیں چھوڑتا۔ اِس لیے تم خواہ کتنا ہی زور لگاؤ ، یہ اپنی مقرر کردہ سمت کو چھوڑ کر حق کی پیروی کے لیے یتار نہ ہوں گے ۔
۳۷۳ مطلب یہ ہے کہ ان ہٹ دھرموں کو ان کے حال پر چھوڑو اور جو قبلہ تمھارے لیے مقرر کیا گیا ہے ، اسے فلاح و سعادت کی جدوجہد میں خدا کا مقرر کردہ نشان سمجھ کر ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرو ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’قبلہ کے متعلق یہ بات کہ وہ فلاح و سعادت کے حصول کے لیے ایک نشان اور علم کی حیثیت رکھتا ہے ، محض کوئی استعارہ نہیں ، بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے لیے اس عظیم تاریخ کو حافظے میں از سرِ نو تازہ کرنے کی کوشش کیجیے جو اس گھر کے ایک ایک پتھر پر نقش ہے جس کو قبلہ قرار دیا گیا ہے ۔ یہ گھر وہ گھر ہے جس کی تعمیر ابراہیم خلیل اللہ اور اسمعٰیل ذبیح اللہ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے کی ہے ۔ یہ گھر وہ گھر ہے جو اس دنیا کے بت کدے میں خداے واحد کی عبادت کا اولین مرکز ہے ، اسی گھر کے پہلو میں مروہ پہاڑی ہے جس کے دامن میں چشمِ فلک نے رضاے الہٰی کے لیے بوڑھے باپ کو محبوب اور اکلوتے فرزند کی گردن پر چھری چلاتے اور اسلام کی حقیقت کا مظاہرہ کرتے دیکھا ہے ۔ یہی گھر ہے جس کے ارد گرد کے چٹیل میدانوں کو قدرت نے اس امتِ مسلمہ کی نشوونما کے لیے منتخب فرمایا جس کے ذریعے سے دنیا کی تمام قوموں کو خدا کی رحمت تقسیم ہونے والی تھی۔ یہی گھر ہے جو حضرت ابراہیم کے وقت سے لے کر برابر تمام قدوسیوں کا قبلہ رہا ہے اور جس میں طواف و اعتکاف اور رکوع و سجود کی سعادت اتنے انسانوں نے حاصل کی ہے کہ جس طرح زمین کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کا شمار ناممکن ہے ، اسی طرح ان نفوسِ قدسیہ کا شمار بھی ناممکن ہے ۔ اسی کے قرب میں وہ میدان ہے جس کی ریت کا ایک ایک ذرہ توبہ و استغفار کے سجدوں کا گواہ اور خوفِ خدا سے رونے والوں کے آنسووں کا امین ہے ۔ اسی گھر کے ایک کونے میں وہ مقدس پتھر ہے جس کو خدا کے دَہنے ہاتھ سے تشبیہ دی گئی ہے اور جس کو ہاتھ لگا کر یا بوسہ دے کر لاکھوں کروڑوں انبیا و صدیقین اور صلحاوابرار نے اپنے رب سے عہدِ بندگی و وفاداری استوار کیا ہے ۔ اسی کے پاس وہ جمرات ہیں جو اس گھر کے دشمنوں کی ذلت و پامالی کی یادگار ہیں اور جن پر سنگ باری کر کے اہلِ ایمان اپنے اندر برابر اعداے دین کے خلاف جہاد کی روح تازہ کرتے رہے ہیں ۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ اسی گھر کے سایے میں خدا کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پرورش پائی جن کے لائے ہوئے نور اور جن کی بخشی ہوئی ضیا نے تمام دنیا میں اجالا کر دیا ۔
ایک ایسی عظیم روایات کے امین گھر کو قبلہ بنانے کے معنی یقینا یہی ہیں کہ اس کو ایک نشان قرار دے کر ان روحانی خزانوں کے حصول کی جدوجہد کی جائے جو سیدنا ابراہیم سے لے کر حضور نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اس گھر کو ودیعت ہوئے یا دوسرے لفظوں میں اس کو ایک پاور ہاؤس سمجھیے جس سے پوری امت زندگی ، حرارت ، روشنی اور قوت حاصل کرتی ہے ۔ جن لوگوں پر قبلہ کی عظمت و اہمیت کا یہ پہلو واضح نہیں ہے ، وہ اکثر اس امر میں حیران ہوتے ہیں کہ اینٹ اور پتھر کے بنے ہوئے ایک مکان کو دین میں اس درجہ اہمیت کیوں دے دی گئی ہے ، لیکن اوپر کی تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ اصل اہمیت اینٹ پتھر کے مکان کی نہیں ،بلکہ ان عظیم روایات کی ہے جو اس گھر سے وابستہ ہیں اور جو اس دنیا کی روحانی و ایمانی زندگی کا واحد ذریعہ ہیں ۔ ان روایات کی وجہ سے ملت کے نظامِ اجتماعی میں اس گھر کو وہی اہمیت حاصل ہے جو ایک جسم کے نظام میں قلب کو حاصل ہوتی ہے ۔ جس طرح قلب کے بغیر جسم کا وجود نہیں ، اسی طرح قبلہ کے بغیر ملت کا کوئی تصور نہیں ۔ ‘‘ (تدبرِ قرآن ، ج ۱ ، ص ۳۷۳ ۔ ۳۷۴)
۳۷۴ یعنی اس فیصلے کے لیے کہ کون حق کی راہ پر چلنے والا تھا اور کس نے ضداور ہٹ دھرمی کا رویہ اختیار کیا۔
۳۷۵ اوپر آیت ۱۴۳ میں یہ بات اگرچہ واضح کر دی گئی تھی کہ آدمی جہاں کہیں بھی ہو ، اسے قبلہ ہی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنی چاہیے ، لیکن یہودونصاریٰ جس گمراہی میں مبتلا ہوئے ، اس کے پیشِ نظرضروری ہوا کہ پوری صراحت کے ساتھ یہ بتا دیا جائے کہ حضر کی طرح سفر میں بھی قبلے کا اہتمام لازم ہے تاکہ مسجدِ حرام سے اس امت کا تعلق کسی حالت میں منقطع نہ ہونے پائے ۔
۳۷۶ یہ تنبیہ اس لیے فرمائی ہے کہ عذرِ سفر کی بنا پر کوئی شخص اس معاملے میں بے پروائی اور سہل انگاری کا رویہ اختیار نہ کرے ۔ واحد کے صیغے سے خطاب کا اسلوب اس سلسلہء بیان کی دوسری آیات کی طرح اس آیت کے شروع میں بھی
ہے ، لیکن ’ عما تعملون‘ کے الفاظ سے یہاں واضح کر دیا ہے کہ مخاطب سب مسلمان ہی ہیں ۔
۳۷۷ سفر اور حضر دونوں حالتوں سے متعلق یہ احکام اس سے متصل پہلے بیان ہو چکے ہیں ۔ یہاں انھیں اکٹھے اور بعینہٖ انھی الفاظ میں دہرانے سے کیا مقصود ہے ؟ آیت پر تدبر کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ اس سے مقصود ان کی وہ تین عظیم حکمتیں بیان کرنا ہے جن کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔ یہ حکمتیں ان دونوں ہی حکموں سے متعلق ہیں۔ قرآن نے ان کے بیان سے پہلے تمہید کے طور پر ان حکموں کو دہرا کر ذہنوں کو ان کی طرف ایک مرتبہ پھر متوجہ کر دیا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ اس شدومد کے ساتھ سفر اورحضر میں ، اندر باہر ، ہر جگہ اور ہر صورت میں بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا یہ حکم کوئی معمولی حکم نہیں ہے ۔ یہ نہایت عظیم حکمتوں اور مصلحتوں پر مبنی حکم ہے ۔ اس وجہ سے اس کا پورا اہتمام ہونا چاہیے اور اس کی یہ حکمتیں بھی ہر شخص کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں ۔
۳۷۸ یہ پہلی حکمت بیان ہوئی ہے ۔ اصل الفاظ ہیں : ’لئلا یکون للناس علیکم حجۃ‘ ۔ ان میں ’الناس‘ سے مراد اہلِ کتاب ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ قبلہ کے بارے میں ان کی سہل انگاری اور مشرق و مغرب کے اختلافات پر جو کچھ ہم نے کہا ہے ، وہی کچھ انھیں کہیں تمھارے متعلق کہنے کا موقع نہ مل جائے اور اس سے حجت پکڑ کر یہ اس دعوت کے خلاف کوئی وسوسہ اندازی نہ کریں ۔
۳۷۹ یہ دوسری حکمت ہے اور اس میں نعمت سے مراد وہی نعمت ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے اس وقت فرمایا تھا جب وہ اپنے بیٹے کی قربانی کے امتحان میں کامیاب ہوئے تھے ۔ اُس وقت ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اُن کے اس بیٹے کی نسل سے ایک عظیم امت برپا ہو گی جس سے دنیا کی تمام قومیں دین کی برکت پائیں گی ۔ مدعا یہ ہے کہ تحویلِ کعبہ سے جس اتمامِ نعمت کی ابتدا ہو رہی ہے ، اس کے پیشِ نظر تمھیں پوری طرح متنبہ رہنا چاہیے کہ تم سے اس معاملے میں کوئی ایسی غلطی نہ ہو جو تمھارے لیے کسی محرومی کا باعث بن جائے۔
۳۸۰ اس سے مراد وہ راستہ ہے جسے قرآن میں ’ملۃ ابراہیم‘ سے تعبیر کیا گیا اور جس کے متعلق سورۂ انعام (۶) کی آیت ۱۶۱ میں ارشاد ہوا ہے : قل اننی ھدبنی ربی الی صراط مستقیم ، دینا قیما ملۃ ابراہیم حنیفا ۔ (کہہ دو ، میرے پرورگار نے میری رہنمائی ایک سیدھی راہ کی طرف فرمائی ہے، وہی دینِ قیم ، یعنی ابراہیم کی ملت جو بالکل یک سو تھا )۔ بیت اللہ اسی ملت کی طرف رہنمائی کا نشان ہے ، لہٰذا فرمایا کہ قبلے کے معاملے اس اہتمام کی ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ خدا تک پہنچانے والا یہ سیدھا اور فطری راستہ تمھاری نگاہوں سے کبھی اوجھل نہ ہو ۔
۳۸۱ اصل میں لفظ ’کما‘ استعمال ہوا ہے ۔ یہ جس طرح تشبیہ کے لیے آتا ہے ، اسی طرح اس موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے جس موقع پر ہم ’چنانچہ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں ۔ یہاں ، اگر غور کیجیے تو یہ اسی مفہوم میں آیا ہے ۔
۳۸۲ ’ آیۃ‘ عربی زبان میں اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جائے ۔ قرآن کا ہر جملہ کسی نہ کسی حقیقت کے لیے دلیل و برہان کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اس کے لیے ’آیۃ‘ کا لفظ اسی رعایت سے اختیار کیا گیا ہے ۔ آیتیں سنانے کے لیے اصل میں ’یتلوا علیکم‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ یہ اُس زور و اختیار کو ظاہر کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ کا رسول اس کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو اس کا فرمان پڑھ کر سناتا ہے اور پھر خدا کی عدالت بن کر اس کا فیصلہ ان پر نافذ کرتا ہے ۔
۳۸۳ تزکیہ کے معنی کسی چیز کو آلایشوں سے پاک کرنے کے بھی ہیں اور نشوونما دینے کے بھی ۔ انبیا علیہم السلام انسانوں کو جس قانون و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں ، اس سے یہ دونوںہی چیزیں حاصل ہوتی ہیں ۔ آیت میں اس کا ذکر جس طریقے سے ہوا ہے ، اس سے واضح ہے کہ پورے دین کا مقصد درحقیقت یہی ہے ۔ چنانچہ تزکیہ کوئی الگ چیز نہیں ، بلکہ قانون و حکمت کا حاصل ہے ۔ انسان جب انھیں پوری طرح اختیار کر لیتا ہے تو تزکیہ اس کے لازمی نتیجے کے طور پر اسے حاصل ہو جاتا ہے ۔ اس کے لیے کہیں اور جانے اور کچھ اور کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔
۳۸۴ اصل میں ’یعلمکم الکتاب والحکمۃ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ ’الکتاب‘ قرآن کی زبان میں جس طرح خط اور کتاب کے معنی میں آتا ہے ، اسی طرح قانون کے معنی میں بھی مستعمل ہے ۔ قرآن کے نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اور ’الحکمۃ‘ جب اس طرح عطف ہو کر آتے ہیں تو ’الکتاب‘ سے شریعت اور ’الحکمۃ‘ سے دین کی حقیقت اور ایمان و اخلاق کے مباحث مراد ہوتے ہیں ۔ یہاں بھی یہی صورت ہے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت واضح ہوتی ہے کہ آپ کی دعوت قانون و حکمت ، دونوں کی جامع ہے ۔ اس کے لیے ’یعلمکم‘ کا فعل بالکل اسی طرح آیا ہے جس طرح ’الرحمن ، علم القرآن‘ (۵۵: ۱۔۲) میں ہے ، یعنی تمھارے اندر وہ رسول بھیجا ہے جو تمھیں قانون و حکمت کا علم دے گا ۔ یہ یہاں اردو زبان کے لفظ تعلیم کے معنی میں نہیں ہے۔
۳۸۵ اس یاددہانی کی نوعیت ایک معاہدے کی ہے ۔ اللہ کو یاد رکھنے اور اس کے جواب میں اللہ کے یاد رکھنے سے مقصود اس جگہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرائض اور ذمہ داریاں تمھارے سپرد کی ہیں ، تم انھیں پورا کرو گے تو اس کے صلے میں دنیا اور آخرت میں کامیابی کے جو وعدے اس نے تم سے کیے ہیں ، وہ انھیں پورا کرے گا ۔
۳۸۶ یعنی دنیا کی امامت اور اس کے لیے دین وشریعت کی جو نعمت میں نے تمھیں دی ہے ، اس کا صحیح صحیح حق ادا کرو ۔ یہی اس نعمت کا شکر ہے ۔
۳۸۷ یعنی یہود کی طرح اس نعمت کی نا شکری نہ کرو ۔ ورنہ جس طرح وہ اس سے محروم ہوئے ہیں ، اسی طرح تم بھی اس نعمت سے محروم کر دیے جاؤ گے ۔ اللہ کا قانون بالکل بے لاگ ہے ، اس کی زد سے کوئی بھی بچ نہیں سکتا ۔
(باقی )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــ