قارئینِ ’’اشراق‘‘ کے خطوط و سوالات پر مبنی جوابات کا سلسلہ
سوال: سماعِ موتی ٰکے متعلق احادیث کیا صحیح ہیں ؟ جبکہ قرآنِ مجید میں صاف الفاظ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’لا تسمع الموتٰی‘۔ (محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: سماعِ موتیٰ سے متعلق روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دو باتیں بیان ہوئی ہیں : ایک یہ کہ جب تم مردے کو دفن کرکے جاتے ہو تو وہ تمھارے قدموں کی چاپ بھی سنتے ہیں ۔ پھر ان کے پاس فرشتے آتے ہیں اور ان سے سوالات کرتے ہیں ۔ دوسرا واقعہ مقتولینِ بدر سے متعلق ہے جس میں آپ نے ان سے کہا کہ کیا تم نے وہ وعدہ دیکھ لیا جو تمھارے بارے میں بیان کیا گیا تھا ۔
جہاں تک پہلی روایت کا تعلق ہے ، وہ عالمِ برزخ سے متعلق ہے ۔ برزخی زندگی کیا خصوصیات رکھتی ہے؟ اس کے بارے میں ہماری معلومات قرآن و حدیث تک محدود ہیں ۔ اس معاملے میں حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے ، اس کے متعلق ہم قرآن کی روشنی میں نفیاً یا اثباتاً کوئی بات کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ حدیث کا پہلا جز بظاہر قرآنِ مجید کے خلاف ہی لگتا ہے ۔
البتہ دوسری روایت حضرت عائشہ کے سامنے جب بیان ہوئی تو انھوں نے اس میں بیان کیے گئے سماع کے پہلو کی نفی کردی ۔حضرت عائشہ کے اس بیان سے مردوں کے سننے کی کامل نفی ہو جاتی ہے۔اس نفی کے بعد سماعِ موتیٰ کے حق میں کوئی بات پیش کرنا محض جسارت ہے ۔(طالب محسن)
________
سوال: آپ کی رائے میں موسیقی مطلقاً حرام نہیں ہے ۔ حالانکہ سورۂ لقمان کی آیت : ۶ میں ’لہو الحدیث‘ سے اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ’لہو‘ ایک وسیع معنی رکھنے والی اصطلاح ہے۔ طرطوسی نے ’’تاج العروس ‘‘ میں اس سے وہ لذت مراد لی ہے جو نا پائدار ہو اور انسان کی توجہ اہم کاموں سے ہٹا کر غیر اہم کاموں کی طرف منعطف کر دے یا ایسے کاموں میں لگا دے جوعبث ہوں۔ امام راغب نے ’’المفردات‘‘ میں بھی اسی قسم کی رائے کا اظہار کیا ہے ۔ سورۂ انبیا میں اس کیفیت کو ’لاھیۃ قلوبھم‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ گویا ہر وہ کام جو اللہ کی یاد سے غافل کرنے والا ہو ، خواہ وہ موسیقی ہو ، دولت جمع کرنے کی دوڑ ہو ، بے مقصد ادب یا شاعری ہو ، ممنوع ہے ؟ (محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: موسیقی کے بارے میں حلت و حرمت کی بحث بعض روایات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ موسیقی کوئی ایسی چیز نہیں جو عربوں کے لیے اجنبی ہو۔ ہزاروں سال سے لوگ موسیقی کی مختلف صورتوں سے لطف اندوز ہوتے آ رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ بائیبل میں حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ وہ بربط بجاتے ہوئے مزامیر پڑھتے تھے ۔اسی طرح مسیحی عبادت گاہوں میں بھی موسیقی کے ساتھ مناجات پڑھنے کا رواج بہت قدیم ہے ۔ قرآنِ مجید کے نزول سے پہلے کے اس مذہبی پس منظر کے باوجود قرآنِ مجید اس معاملے میں بالکل خاموش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موسیقی کے بارے میں روایت کیے گئے ارشادات کسی خاص سیاق وسباق سے متعلق ہیں ۔
قرآنِ مجید میں ’لھو الحدیث‘ کے الفاظ کا موسیقی پر اطلاق محض ایک استنباط ہے اور اس اصول کے تحت بہت سے کھیلوں ، رسوم ، فنون کو ممنوع قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ظاہر ہے ، اگر ایسا کر دیا جائے تو انسانی تمدن سکڑ کر رہ جائے گا ۔ ہم دین کی حرمتوں اور ناپسندیدہ امور کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت پوری طرح متعین ہو جاتی ہے کہ ان احکام کے پس منظر میں اخلاق و عقیدے کی کو ئی خرابی موجود ہے ۔ دین کی اسی حکمت کا اطلاق فنونِ لطیفہ اور دوسرے ثقافتی امور پر کیا جائے گا اور ان کی ہروہ صورت ممنوع یا ناپسندیدہ قرار دے دی جائے گی جو اخلاق یا عقائد میں قباحت کا باعث بن رہی ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت کا اصول بھی محلِ نظر ہے ۔ ذرا تأمل کریں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تعبدی امور کے سوا ہر عمل میں خدا سے غافل کر دینے کا باعث بننے کی اہلیت ہے ۔ چنانچہ اس کا علاج نماز اور قرآنِ مجید سے تعلق سے کیا گیا ہے ۔ اس کے باعث کسی شے کو ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔(طالب محسن )
________
سوال: میں ایک ڈاکٹر ہوں ۔ میں اپنی پرائیویٹ پریکٹس کرتا ہوں ۔ میری آمدنی فیس کی شکل میں ہوتی ہے ۔ اس معاملے میں کیا زکوٰۃ میری آمدنی پر لاگو ہو گی یا میری بچت پر؟ اسی طرح میرے ایک دوست ہیں ۔ ان کی تنخواہ سات ہزار روپے ماہانہ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے اخراجات میری آمدنی سے بہت زیادہ ہیں ۔ مہینے کے آخر میں مجھے قرض لینا پڑتا ہے ۔ میں تو خود کو زکوٰۃ کا مستحق سمجھتا ہوں ۔ ایسے شخص کی آمدنی پر زکوٰۃ لاگو ہو گی یا نہیں ؟ (ڈاکٹر خالد جمیل ،سرگودھا )
جواب: اپنا کلینک ہونے کی وجہ سے آپ کی فیس پر نصف عشر یعنی تمام آمدنی پر پانچ فی صد زکوٰۃ عائد ہو گی۔ آپ حکومت کے ٹیکسز کو اس سے منہا کر کے باقی رقم ضرورت مندوں کو دے سکتے ہیں ۔
سات ہزار روپے تنخواہ کی صورت میں حکومت کے استثنا کو معیار مانا جائے گا ۔ حکومت نے جتنی سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے ،اگر اس کے بعد کچھ رقم بچ جائے تو اس پر عشر یعنی دس فی صد زکوٰۃ عائد ہو گی۔ (طالب محسن)
________
سوال: کیا امتِ مسلمہ میں تفسیری اور تعبیری اختلافات ، روایت پرستی ، فقہی استیلا ، عصبیتِ جاہلی، تصوف کا غلبہ ؛اس پر مستزاد امت کی اکثریت کی بے شعوری و بے عملی ؛ یہ تمام قباحتیں ہوتے ہوئے اتحادِ امت کی توقع کی جا سکتی ہے ؟ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہو تو براہِ کرام عملی تجاویز سے نوازیں؟ (منظور حسین، وہاڑی)
جواب: اتحادِ امت کا لفظ ، اگر امت کے سیاسی اتحاد کے لیے بولا گیا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ تمام اسلامی ممالک کو اپنی جغرافیائی حدود میں اپنے کلچر اور اپنے الگ قانونی نظام کے تحت زندگی گزارنے کی اجازت دے دی جائے اور مرکزی نظام کا دائرہ صرف دفاع اور خارجہ پالیسی تک محدود رہے ۔ امید یہی ہے کہ ان خطوط پر اگر رائے عامہ ہموار کی جائے تو اس اتحاد کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔
اور اگر ’’اتحاد‘‘ کا لفظ مذہبی اتحاد کے لیے بولا گیا ہے تو یہ ایک غیر فطری تقاضا ہے ۔ جب تک انسان کو فکرو عمل کی آزادی حاصل ہے ، اسے کسی ایک نقطہء نظر پر جمع کرنا ممکن نہیں ہے اور اسلام میں کسی حکومت کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ سب کو جبراً ایک فقہی یا کلامی رائے کا پابند بنا دے ۔ البتہ قانون جس کا دائرہ اجتماعی معاملات تک محدود ہے سب کے لیے یکساں ہو گا ۔ (طالب محسن )
________
سوال: اکثر اوقات نمازِ ظہر ادا کرنے میں تاخیر ہو جاتی ہے ،حتیٰ کہ عصر کا وقت قریب آ جاتا ہے۔ اس صورت میں دونوں نمازیں بیک وقت ادا کی جا سکتی ہیں یا نہیں ؟(بدرالسلام اسد، لالہ موسی)
جواب: اگر اس تاخیر کی وجہ محض سستی یا لاپروائی ہے تو پھر نماز جمع کرنے کی رخصت نہیں ہے ۔ آپ کی نماز اگر وقت گزر گیا ہے تو قضا ہو چکی ہے ۔ اب آپ قضا نماز ہی پڑھیں گے ۔ اگر اس کا باعث کوئی واقعی عذر ہے تو پھر نمازیں جمع کی جا سکتی ہیں ۔ (طالب محسن )
________
سوال: ایامِ حج میں حرمِ مکہ کے علاوہ جانوروں کی قربانی ، بال ناخن نہ کٹوانے کا جو طریقہ رائج ہے ، براہِ کرم قرآن و سنت کی روشنی اور اس کا منشا واضح فرمائیں ؟ (منظور حسین، وہاڑی)
جواب: قربانی ایک نفلی عبادت ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں حج کے علاوہ بھی قربانی کی ہے ۔ تمام فقہی گروہ اس قربانی کے معاملے میں متفق ہیں ۔ اس لیے اس کے ایک اسلامی عبادت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔ یہ عبادت اللہ کے حضور میں اپنی جان اور اپنے مال کا نذرانہ پیش کرنے کے جذبے کا علامتی اظہار ہے ۔
باقی رہا ناخن کاٹنے اور بال تراشنے سے روکنے کا مسئلہ تو یہ قدیم سے مختلف فیہ ہے ۔ امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کے قائل نہیں تھے ۔ مزید یہ کہ یہ روایات موطا کے ساتھ بخاری میں بھی نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سعید بن مسیب جن سے یہ روایت مروی ہے خود اس کے خلاف عمل کرتے تھے ۔ چنانچہ ہمارے نزدیک ابوحنیفہ اور امام مالک کی رائے ہی درست ہے ۔ (طالب محسن )
________
سوال: اہلِ کتاب کو کافر کہنا درست ہے یا نہیں ؟ اللہ تعالیٰ نے سورۂ مائدہ کی آیت ۷۲ میں عیسائیوں کے عقیدہ کو کفر سے تعبیر کیا ہے ؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: کسی کو کافر قرار دینا ایک قانونی معاملہ ہے ۔ پیغمبر اپنے الہامی علم کی بنیاد پر کسی گروہ کی تکفیر کرتا ہے ۔ یہ حیثیت اب کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی ۔ اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم مختلف گروہوں کے عقیدہ و عمل کی غلطی واضح کریں اور جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو نہیں مانتے ، انھیں بس غیر مسلم سمجھیں اور ان کے کفر کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں ۔(طالب محسن )
________
سوال: اگر جنگ فیصلہ کن مرحلے میں ہو اور دشمن اپنے آپ کو بچانے اور مسلمانوں کو دھوکا دے کر انھیں شکست دینے کے لیے صلح کا پیغام بھیجے تو کیا مسلمانوں کو اس پیغام کو قبول کر لینا چاہیے ؟ سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم صلح کا پیغام قبول کر لو جبکہ اس کے برعکس سورۂ انفال کی آیت ۵۸ میں فرماتا ہے کہ ’’اگر تمھیں کسی قوم سے دغا بازی کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف پھینک دو۔‘‘ سورۂ انفال کی آیت ۶۱ میں اگلے اجزا میں ہے کہ ’’ اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسا رکھو ۔‘‘(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: دینِ اسلام صلح اور امن کو جنگ پر ترجیح دیتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ہر موقع سے فائدہ اٹھایا اور جنگ سے گریز کے طریقے ہی کو اختیار کیے رکھا ۔قرآنِ مجید کی جن آیات کا آپ نے حوالہ دیا ہے ان سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے ۔ البتہ یہ ترجیح اسی شرط کے ساتھ ہے کہ اس سے امن حاصل ہو ۔ اگر دشمن کی طرف سے اس کے پیچھے کوئی چال ہو تو اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اگر جنگ جاری رکھنا ناگزیر ہو تو جنگ جاری رکھی جائے گی ، لیکن یہ فیصلہ محض اندیشے کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے اس کے پیچھے قوی دلائل ہونے چاہییں ۔ سورۂ انفال کی آیت میں ’’ اللہ پر بھروسا رکھو ‘‘کے الفاظ محض اندیشوں کی بنا پر امن سے گریز سے روکنے ہی کے لیے ہیں ۔(طالب محسن )
________
سوال: دین میں کوئی ایسی چیز شامل کرنا جواس کا حصہ نہ ہو بدعت کہلاتا ہے ۔ اس تعریف کے مطابق حضرت عثمان کا خطبہ کے دن دوسری اذان کا اضافہ بدعت نہیں کہلائے گا ؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام سمجھنے میں لوگوں کو مشکل پیش آئی ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے تک مدینے کے اطراف میں بہت سے نئے مکانات بن گئے تھے ۔ آبادی کے اس حصے کو اذان کی آواز نہیں پہنچتی تھی ۔ چنانچہ لوگوں کو مسجد میں بروقت آنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا علاج یہ کیا کہ ایک مؤذن کو بازار کے ایک مقام پر اذان دینے پر مامور کر دیا ۔ یہ اذان مسجد کی اذان سے اتنا وقت پہلے ہوتی تھی کہ لوگ جب مسجد میں آئیں تو مسجد میں اذان ہو رہی ہو ۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو یہ ایک ہی اذان ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نماز کے بڑے اجتماعات میں مکبر امام کے اللہ اکبر کے کلمے کو دہرا کر پیچھے آواز پہنچاتے ہیں ۔ لاؤڈ اسپیکر کی ایجاد کے بعد ان دونوں اعمال کی ضرورت نہیں رہی ۔ اب ایک ہی جگہ سے دی گئی اذان اور صرف امام کی آواز سب تک آسانی سے پہنچ جاتی ہے ۔
________
سوال: کیا جہاد کی طرح خروج کے لیے بھی اقتدار شرط ہے ؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: خروج سے مراد یہ ہے کہ کسی اقتدار پر فائز گروہ کو بزورِ بازواقتدار سے الگ کر دیا جائے اور اس کی جگہ خود اقتدار سنبھال لیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ یہ راستہ اسی جگہ اختیار کیا جائے گا جہاں انتقالِ اقتدار کی کوئی پرامن صورت اختیار نہ کی جاسکتی ہو ۔ یہ عمل اگر دین کی خاطر کیا جا رہا ہو تو یہ جنگ جہاد ہی ہو گی ۔ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ کے نزدیک انبیا علیہ السلام کے طریقِ کار سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خروج کی صورت میں بھی جہاد کے لیے لگائی گئی اقتدار کی شرط قائم رہے گی ۔ یعنی اس گروہ کو پہلے کسی خطے میں خود مختار حکومت قائم کرنا پڑے گی ۔ اس کے بعد ہی وہ جنگ کر سکے گا ۔ واضح رہے کہ خروج کی بنیادی شرائط کے مطابق لازم ہے کہ جس گروہ کے خلاف خروج کیا جا رہا ہو ، اس نے استبدادی نظام قائم کر رکھا ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ قرآنِ مجید کی صریح نصوص سے انحراف کا مرتکب ہواہو ۔ تیسرے یہ کہ جو گروہ خروج کے لیے نکلے اس کی پشت پر قوم کی غالب اکثریت ہو ۔ اورجنگ سے پہلے لازم ہے کہ اس گروہ نے پہلے کسی خطے میں اپنی آزاد ریاست قائم کر لی ہو ۔(طالب محسن )
________
سوال: کیا طلاقِ بدعت واقع ہو جاتی ہے ؟ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں تین دفعہ دی گئی طلاق کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شمار کیا ہے ۔ ایسی روایات کی توجیہ کیا ہے ؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: بعض روایات میں یہ چیز ایک معمول کے عمل کی حیثیت سے روایت ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ ایک ہی موقع پر دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق قرار دیتے تھے ۔ لیکن بعض روایات میں اس طرح کے ایک مقدمے کی روداد کا کچھ حصہ بھی نقل ہوا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طلاق دینے والے کے ارادے کے بارے میں تحقیق کرتے تھے ۔ اس واقعہ کے مطابق طلاق دینے والے کا ارادہ ایک ہی طلاق دینے کا تھا ، چنانچہ آپ نے اسے ایک ہی طلاق قرار دیا ۔ طلاق کا اصل طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی طلاق دی جائے ۔ عدت کا عرصہ مطلقہ اپنے شوہر کے گھر میں رہے ۔ اگر صلح کی صورت پیدا ہو تو مرد رجوع کر لے ، اگر نہ ہو تو عدت گزرنے کے ساتھ ہی عورت دوسری جگہ شادی کے لیے آزاد ہوگی ۔ اس کے خلاف عمل کی صورت میں یہ ایک قضیہ ہے ۔ اس کا فیصلہ قاضی کرے گا ۔ وہ قرائن و شواہد اور فریقین کے بیانات کی روشنی میں فیصلہ دے گا کہ طلاق واقع کی جا سکتی ہے یا نہیں اور اسے ایک قرار دیا جائے گا یا ایک سے زیادہ ۔ (طالب محسن )
________
سوال: آپ کی رائے میں وتر نمازِ تہجد ہے ۔میرا سوال یہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فجر کی دو سنتوں (نوافل)اور وتر کی نماز پر اتنا زور کیوں دیا ہے اور حضرت ابوہریرہ سے یہ کیوں فرمایا کہ وتر کی نماز پڑھ کر سونا؟(محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: وتر تہجد ہے اور اس کی حیثیت ایک نفل نماز کی ہے ۔ اس نماز کا اصل وقت طلوعِ فجر سے پہلے کا ہے۔ البتہ اس کے بارے میں اجازت ہے کہ اگر اس وقت اٹھ کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو عشا کے ساتھ پڑھ لی جائے ۔ بعض نفل نمازیں زیادہ اہمیت کی حامل ہیں ۔ اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تاکید بھی کی ہے ۔ تاکید سے ان نوافل کی قدروقیمت واضح ہوتی ہے اور اس سے ان کا زیادہ باعثِ اجر ہونا معلوم ہوتا ہے ۔(طالب محسن)
________
سوال: ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح ہوجاتا ہے یانہیں ؟ نابالغ لڑکے یا لڑکی کا نکاح ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ (محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: ایک عاقل و بالغ مرد و عورت کے نکاح کے انعقاد کے لیے ولی کی رضا مندی قانونی شرط کی حیثیت نہیں رکھتی ، لیکن اگر اس کی رضامندی کے ساتھ ایسا ہو تو یہ زیادہ پسندیدہ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شادی کے نتیجے میں جو گھر وجود میں آتا ہے اس سے یہ قریبی عزیز شدید طور پر متعلق ہوتے ہیں ۔ لہٰذ۱ اگروہ کسی نکاح پر راضی نہیں ہیں تو یہ چیز نئے جوڑے کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے ۔ اسی وجہ سے احادیث میں ولی کی رضامندی حاصل کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔نابالغ کا نکاح ہو جاتا ہے ، لیکن جب وہ بالغ ہوں تو انھیں اس نکاح کے ختم کرنے کا پورا اختیار ہوتا ہے ۔(طالب محسن )
________
سوال: آپ کی رائے میں مہر کا نکاح کے وقت ادا کرنا ضروری نہیں ۔ حالانکہ یہ عورت کا حق ہے اور قرآن و حدیث میں اس کی بروقت ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے ؟ (محمد صفتین ، راولپنڈی)
جواب: مہر کو نکاح کے موقع پر ادا کرنا ہی اولیٰ ہے ، مگر اس کی ادائیگی کو اس موقع پر لازم کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے ۔ بسا اوقات حقیقی اسباب کے تحت اس کا اس موقع پر ادا کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ شاید اسی وجہ سے اس کی ادائیگی کو کسی وقت کے ساتھ مشروط نہیں کیا گیا ۔ آپ کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نکاح کے وقت اسے ادا کرنا، اس کے لیے موزوں ترین وقت ہے اور اس موقع پر ادا کرنے سے اس کی غایت پوری ہوتی ہے۔ اس کی ادائیگی میں تاخیر کی جورخصت دی گئی ہے ، اس سے اس وقت فائدہ اٹھانا چاہیے جب واقعی کوئی مشکل درپیش ہو ۔(طالب محسن )
________
سوال: قرآن میں مختلف مقامات پر مشرک کا جہنمی ہونا واضح کیا گیا ہے ۔ اس کے سوا باقی گناہوں کی بخشش کا امکان ہے ۔ آپ کے نقطہء نظر سے صرف وہ مشرک جہنمی ہوں گے جو جان بوجھ کر شرک کریں گے ، حالانکہ قرآن میں ایسی شرط نہیں ہے؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: یہ درست ہے کہ قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق جو مشرک ہو گا، وہ جہنمی ہو گا۔آپ کا کہنا ہے خواہ وہ عمداً شرک میں مبتلا ہو یا ناواقفی کی بنا پر کسی مشرکانہ عمل کو عین توحید سمجھ کر کر رہا ہو، بہرحال جہنمی ہو گا۔ اگر اِس بات کو درست مان لیا جائے، تو اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عمد اور غیر عمد یکساں قرار پاتے ہیں ۔یہ قرآنِ مجید کی صریح نص کے خلاف ہے۔ ارشادِ باری ہے:
وَ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَلٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ۔(الاحزاب ۳۳: ۵)
’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہو گئی اُس میں تم پر کچھ گناہ نہیں،لیکن جو دل کے ارادے سے کرو اُس پر مؤاخذہ ہے۔‘‘
(محمد رفیع مفتی)
________
سوال: آج کل عام مسلمانوں میں توحید اور شرک خلط ملط ہو گئے ہیں ۔ لہٰذا شرک کرنے والوں سے برا ء ت کا اعلان اور اپنا علیحدہ تشخص قائم کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے تاکہ دوسرے لوگ بھی دیکھ کر متجسس ہوں ۔ ان پر دین سمجھنے کا شوق پیدا ہو ۔ تحقیق کا شوق پیدا ہو۔ اس کے لیے علیحدہ نماز کا اہتمام کرنا کہیں دین میں قابلِ اعتراض تو نہیں ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: یہ کہنا درست نہیں ہے کہ انسان اِس معاشرے میں جہاں شرک اور توحید ساتھ ساتھ ہیں، توحید کو سمجھ نہیں سکتا۔ توحید کو اگر ذہنی، تصوراتی اور خیالی اعتبار سے سمجھنا پیشِ نظر ہے توشاید معاملہ مختلف ہو، ورنہ اصل توحید کو حقیقی اور عملی اعتبار سے تو شرک ہی کی فضا میں سمجھا گیا ہے۔ جیسا کہ صحابہ نے سمجھا تھا۔ (محمد رفیع مفتی)
________
سوال: ہمارے ہاں عموماً عزت اور مذہب کے حوالے سے غیرت مندی دکھانا اور موقع پر اقدام کر ڈالنا بہت اچھا سمجھا جاتا ہے ۔ دین اس سلسلے میں کیا تصور پیش کرتا ہے ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: وہ غیرت مندی جس کا آپ نے ذکر کیا ہے ، دراصل اپنے آپ کو محض جذبات کے حوالے کر دینا ہے۔یہ کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے، کیونکہ جذبات ہمیشہ اندھے ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں ، سب سے بڑا جذبہ ، جذبہء عبودیت ہے، لیکن اِس جذبے کا حامل بھی اگر رسول کے بتائے ہوئے طریق کو علم اور عقل کے ساتھ قدم بہ قدم اختیار نہ کرے، تو یہ پاکیزہ ترین جذبہ بھی انسان کو رہبانیت اور فنا فی اللہ کی وادیوں میں بھٹکائے پھرتا ہے۔ اس لیے معاملہ عزت اور غیرت کا ہو یا مذہب کا ، انسان کے لیے ہر صورت میں لازم ہے کہ وہ صرف وہی راستہ اختیار کرے ، جس کے بارے میں وہ اپنے پروردگار کو یہ جواب دے سکے کہ میں اِس راستے کو اختیار کرنے کے معاملے میں تیرے اور تیرے رسول کے احکام کو بُھولا نہیں تھا۔احکام علم سے جانے اور عقل سے سمجھے جاتے ہیں اور اس کے بعد جذبے کے ساتھ ان پر عمل کیا جاتا ہے ۔ (محمد رفیع مفتی )
________
سوال: قرآن میں ’’المشرک ‘‘کا لفظ ایک خاص قوم یعنی مشرکینِ مکہ کے لیے آیا ۔ کیا وہ اپنے آپ کو مشرک کہتے تھے ؟ کیا وہ حضرت ابراہیم کو بھی مشرک کہتے تھے ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: وہ باقاعدہ عقیدۂ شرک کے حامل تھے۔اور وہ اپنے اس شرک کا اعتراف کرتے تھے ۔ وہ ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بھی یہ تاثر دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام بھی اُن صفات سے متصف تھے، جنھیں ہم خود اختیار کیے ہوئے ہیں، اسی لیے تو کعبہ کے اندر رکھے ہوئے تین سو ساٹھ بتوں میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل کے بت بھی تھے اور ان کے ہاتھوں میں فال کے تیر دکھائے گئے تھے ۔ ظاہر ہے کہ یہ سارا ’’کارنامہ‘‘ مشرکینِ مکہ ہی کا تھا ۔ (محمد رفیع مفتی )
________
سوال: زکوٰۃ اور تجارت سے مال کیسے بڑھتا ہے اور سود سے کیسے گھٹتا ہے جبکہ مشاہدہ اس کے خلاف ہے ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: قرآنِ مجید کی سورۂ روم میں یہ کہا گیا ہے کہ تمہارا وہ سودی قرض جو تم لوگوں کو اِس لیے دیتے ہو کہ وہ لوگوں کے مالوں میں شامل ہو کر بڑھے اور تمھیں وہ بڑھوتری سود کی شکل میں ملے ، تو یہ یاد رکھو کہ تمھیں تو اپنا مال بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے، لیکن اللہ کے ہاں یہ مال نہیں بڑھ رہا۔اللہ کے پیمانوں کے اعتبار سے تم اُس کے ہاں گھاٹے میں جا رہے ہو۔ البتہ جو زکوٰۃ تم اللہ کی رضا کی خاطر دیتے ہو وہ اللہ کے ہاں قبول ہوتی ہے اور تمھارے لیے اخروی حوالے سے کئی گنا فائدے کا باعث بنتی ہے۔ اِسی طرح تجارت اگر دینی حدود کی پاس داری کرتے ہوئے کی جا ئے تو وہ بھی اُخروی اجر کا باعث بنے گی۔خدا کے ہاں مال کے بڑھنے سے مراد اُس مال کا اُخروی اجر کا باعث ہونا ہے۔(محمد رفیع مفتی )
________
سوال: انبیا اور رسل کا مبعوث ہونا ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’Pre-planned‘ ہوتا ہے یا ضرورت کے تحت بعثت ہو جاتی ہے ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: یہ سوال خدا کے باطن میں جھانکنے کی لاحاصل کوشش ہے۔ ہم بس یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق جہاں جہاں اور جب جب رسول بھیجنا چاہا ہے، بھیجا ہے اور جب اُس کے نزدیک اِس کی ضرورت نہیں رہی ، اُس نے ختمِ نبوت کا اعلان کر دیا۔(محمد رفیع مفتی )
________
سوال: آپ کہتے ہیں کہ آدمی اگر اندر سے حق پرست ہو تو اس کی کسی غلط فہمی کے نتیجے میں سرزد ہونے والے غلط اعمال پر اسے سزا نہیں ملنی چاہیے ، مگر آج کل کے وہ مسلمان جو کھلم کھلا شرکیہ اعمال کرتے اور ان کی تبلیغ کرتے ہیں وہ یقیناًغلط فہمی ہی کی بنیاد پر ایسا کرتے ہیں تو بس اسی طرح کے لوگ تو عرب میں مشرکینِ مکہ اور یہود و نصاریٰ کی شکل میں موجود تھے ۔ وہ سب اللہ کو مانتے تھے اور آپ کے اعلانِ نبوت سے پہلے بغیر تعصب کے ، اپنی اپنی سمجھ کے مطابق عمل کیے جا رہے تھے ،مگر اللہ نے اس کو پسند نہیں فرمایا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے صحیح دین واضح کیا ۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اللہ اپنے بندوں میں صرف خالص توحید اور دین دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر سب کو معافی مل گئی تو خالص توحید والوں اور شرک میں ملوث ان لوگوں کے درمیان کیا فرق ہوا ؟ (محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: خالص موحد وہ ہے، جس کے دل میں توحید ہی توحید ہے ۔ اور خالص مشرک وہ ہے جس کے دل میں شرک ہی شرک ہے۔ مشرکینِ عرب کو اللہ تعالیٰ نے اِس لیے مشرک قرار دیا تھا کہ اُن کے دل شرک سے آلودہ تھے۔ رہا وہ شخص جو ہمیں شرکیہ اعمال میں پڑا ہوا نظر آتا ہے ، اُس کے بارے میں یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ اُس کا دل شرک سے آلودہ نہیں ہے،اِس کا پورا امکان ہے کہ وہ دل سے بھی مشرک ہی ہو اور توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اگر اُس تک پہنچے بھی تو وہ اُسے قبول نہ کرے، لیکن اُس کے بارے میں ہم یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے۔ہو سکتا ہے کہ ایسا نہ ہو ، جوں ہی توحید کی دعوت اپنی صحیح شکل میں اُس تک پہنچے ، وہ اُسے قبول کر لے۔ چنانچہ آپ بتائیے کہ ہم اُس شخص کے بارے میں جو ہمیں بس مشرکانہ اعمال ہی میں مشغول نظر آتا ہے، کیسے یہ کہہ دیں کہ اُس کا دل شرک سے لازماً اُسی طرح آلودہ ہے، جیسے مشرکینِ مکہ کا تھا اور وہ بھی خدا کے نزدیک اُسی طرح سے حقیقی مشرک ہے، جیسے مثلاً مشرکینِ مکہ تھے۔ ہو سکتا ہے وہ ہو اور ہو سکتا ہے کہ وہ نہ ہو۔ہمارا اُس کے بارے میں کوئی حتمی بات کرنا دراصل، اُس کے بارے میں خدا کے علم کو بیان کرنا ہو گا۔جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم کے نتیجے میں مشرکینِ عرب کے بارے میں خدا کا یہ علم ہی فیصلہ کن ہو ا۔ (محمد رفیع مفتی)
________
سوال: کیا آج بھی وہی شیطان موجود جس نے حضرت آدم کو دھوکا دیا تھا ؟ یا وہ اپنی عمر کو پا کر مر گیا ہے ؟(محمد بلال ، مظفر گڑھ)
جواب: میرے خیال میں ابلیس کو جو مہلت دی گئی تھی ، وہ اُس کے اختتام تک زندہ رہے گا۔بعض اہلِ علم اس سے مختلف رائے رکھتے ہیں ۔ تاہم مجھے اس پر اطمینان نہیں ہو سکا ۔ (محمد رفیع مفتی )
____________