HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

نبی کی باتیں

[اپنے بچوں کے لیے لکھا گیا]

ہم پیچھے بیان کر چکے ہیں کہ دین قرآن وسنت سے لیا جائے گا۔پورا دین اِنھی دو چیزوں میں ہے۔ اِن سے باہر کی کوئی چیز دین میں کمی یا اضافہ نہیں کر سکتی۔ ہم اِن کو سمجھنا چاہتے ہیں۔اِس میں بعض اوقات کوئی مشکل پیش آجاتی ہے۔ پھر جن معاملات کو ہمارے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے، اُن میں بھی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔اِس موقع پر صحیح رویہ یہ ہے کہ ہم اُن لوگوں سے پوچھیں یا اُن کی کتابیں دیکھیں جنھیں ہم دین کا عالم سمجھتے ہوں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے نبی تھے، اِس لیے دین کے سب سے پہلے اور سب سے بڑے عالم، بلکہ سب عالموں کے امام بھی آپ ہی تھے۔ دین کے دوسرے عالموں سے الگ آپ کے علم کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ کا علم بے خطا تھا، اِس لیے کہ اُس میں اگر کوئی غلطی ہو جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ اپنی وحی کے ذریعے سے اُس کو درست کر دیتے تھے۔ یہ علم اگر کہیں موجود ہو تو ہر مسلمان یہی چاہے گا کہ سب سے پہلے اِسی سے رہنمائی حاصل کرے۔

ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ علم موجود ہے اور اِس کا ایک بڑا حصہ ہم تک پہنچ گیا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ علم آپ کے صحابہ نے حاصل کیا تھا، لیکن اِس کو آگے بیان کرنا چونکہ بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اِس لیے بعض نے احتیاط برتی اور بعض نے حوصلہ کرکے بیان کردیا۔ اِس میں وہ چیزیں بھی تھیں جنھیں وہ آپ کی زبان سے سنتے یا آپ کے عمل میں دیکھتے تھے اور وہ بھی جو آپ کے سامنے کی جاتی تھیں اور آپ اُس سے منع نہیں فرماتے تھے۔یہ سار ا علم درحقیقت آپ کی باتیں ہیں۔ بات کو عربی زبان میں حدیث کہتے ہیں۔ اِن کے لیے یہ لفظ اِسی بنا پر اختیار کیا گیا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے پہلے یہ باتیں آپ کے صحابہ نے لوگوں کو سنائیں۔ پھر جن لوگوں نے اُن سے سنیں، اُنھوں نے دوسروں کو سنائیں۔ یہ زبانی بھی سنائی گئیں اور بعض اوقات لکھ کر بھی دی گئیں۔ ایک دو نسلوں تک یہ سلسلہ اِسی طرح چلا، لیکن پھر صاف محسوس ہونے لگا کہ اِن کے بیان کرنے میں کہیں کہیں غلطیاں ہو رہی ہیں اور کچھ لوگ دانستہ اِن میں جھوٹ کی ملاوٹ بھی کر رہے ہیں۔ یہی موقع ہے، جب اللہ کے کچھ بندے اُٹھے اور اُنھوں نے اِن حدیثوں کی تحقیق کرنا شروع کی۔ اِنھیں ’محدثین‘ کہا جاتا ہے۔ یہ بڑے غیر معمولی لوگ تھے۔ اِنھوں نے ایک ایک روایت اور اُس کے بیان کرنے والوں کی تحقیق کرکے، جس حد تک ممکن تھا، غلط اور صحیح کی نشان دہی کی اور جھوٹ کو سچ سے الگ کر دیا۔ پھر اِنھی میں سے بعض نے ایسی کتابیں بھی مرتب کر دیں جن کے بارے میں بڑی حد تک اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ اُن میں جو حدیثیں نقل کی گئی ہیں، وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی باتیں ہیں جو روایت کرنے والوں نے زیادہ تر اپنے الفاظ میں بیان کر دی ہیں۔ علم کی زبان میں اِنھیں ’اخبار آحاد‘ کہتے ہیں۔ اِس سے مراد وہ خبریں ہیں جو اتنے کم لوگوں کے ذریعے سے پہنچیں کہ اُن کے بارے میں یہ کہنا ممکن نہ ہو کہ وہ غلطی نہیں کر سکتے تھے یا کسی جھوٹ پر جمع نہیں ہو سکتے تھے۔

حدیث کی جن کتابوں کا ذکر ہوا ہے، وہ سب اپنی اپنی جگہ اہم ہیں، مگر امام مالک، امام بخاری اور امام مسلم کی کتابیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں اور بہت مستند خیال کی جاتی ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل، آپ کی سیرت اور آپ کے اسوۂ حسنہ کو جاننے کا سب سے بڑا اور سب سے اہم ذریعہ یہی کتابیں ہیں۔ یہ بڑی تحقیق کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اِن کے مرتب کرنے والوں سے کوئی غلطی نہیں ہوئی۔ اِس علم کے ماہرین جانتے ہیں کہ اُن سے تحقیق میں غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ اِسی بنا پر وہ برابر اِن کتابوں کو جانچتے پرکھتے رہتے ہیں۔ چنانچہ کسی حدیث کے بیان کرنے والوں میں کوئی بڑی کمزوری دیکھتے ہیں یا اُس کے مضمون میں دیکھتے ہیں کہ کوئی بات قرآن وسنت کے خلاف ہے یا علم وعقل کی مانی ہوئی باتوں کے خلاف ہے تو لوگوں کو بتا دیتے ہیں کہ یہ آں حضرت کی بات نہیں ہو سکتی۔ یہ غلطی سے آپ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔

میرے بچو، تم جانتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے پیغمبر تھے۔ خدا نے ہمیں پابند کیا ہے کہ ہم ہر حال میں آپ کی اطاعت کریں۔ لہٰذا آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِن حدیثوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچے تو ہم اُس سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس کی نسبت پر مطمئن ہو جائیں تو بغیر کسی چون وچرا کے اُس کو مانیں اور اُس پر عمل کے لیے تیار ہو جائیں۔

____________

B