HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الانفال ۸: ۵۰- ۵۸ (۶)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

(گذشتہ سے پیوستہ)  


وَلَوْتَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ{۵۰} ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِّلْعَبِیْدِ{۵۱}
کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاَخَذَھُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ{۵۲} ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَھَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِْم وَاَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ{۵۳}کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِْن قَبْلِھِمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ فَاَھْلَکْنٰھُمْ بِذُنُوْبِھِمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ{۵۴}
اِنَّ شَرَّالدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ{۵۵} اَلَّذِیْنَ عٰھَدْتَّ مِنْھُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَھُمْ فِیْ کُلِّ مَرَّۃٍ وَّھُْمْ لَا یَتَّقُوْنَ{۵۶} فَاِمَّا تَثْقَفَنَّھُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْبِھِمْ مَّنْ خَلْفَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ{۵۷} وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَۃً فَانْبِذْ اِلَیْھِمْ عَلٰی سَوَآئٍ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَ{۵۸} 
اگر تم دیکھ پاتے (تو دیکھتے کہ اُس وقت کیا گزر رہی تھی) ، جب فرشتے اِن منکروں کی روحیں قبض کر رہے تھے، اِن کے چہروں اور اِن کی پیٹھوں پر مارتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ اب چکھوجلنے کا عذاب۔ یہ اُس کا بدلہ ہے جو تم نے اپنے ہاتھوں آگے بھیجا تھا اور اِس لیے ہے کہ اللہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے۹۱؎۔۵۰-۵۱
اِن کے ساتھ وہی معاملہ ہوا ہے جو آل فرعون اور اُن سے پہلے کے لوگوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اُنھوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کر دیا تو اللہ نے اُن کے گناہوں پر اُنھیں پکڑ لیا۹۲؎۔ بے شک، اللہ قوی ہے، وہ سخت سزا دینے والا ہے۔ یہ اِس وجہ سے ہوا کہ اللہ کسی نعمت کو جو اُس نے کسی قوم کو عطا کی ہو، اُس وقت تک نہیں بدلتا، جب تک وہ اپنے آپ میں تبدیلی نہ کریں۔ (نیز) اِس وجہ سے کہ اللہ سمیع و علیم ہے۹۳؎۔وہی ہوا ہے جو آل فرعون اور اُن سے پہلے کے لوگوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ اُنھوں نے اپنے پروردگار کی نشانیوں کو جھٹلایا تو (بالآخر) اُن کے گناہوں کی پاداش میں ہم نے اُنھیں ہلاک کیا اور فرعون کے لوگوں کو غرق کر دیا۹۴؎۔یہ سب ظالم لوگ تھے۔۵۲-۵۴
یقینا اللہ کے نزدیک بدترین جانور وہ لوگ ہیں جنھوں نے انکار کر دیا ہے، پھر کسی طرح ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۹۵؎۔(بالخصوص وہ لوگ) جن سے تم نے عہد لیا، پھر ہر مرتبہ وہ اپنا عہد توڑ دیتے ہیں اور ذرا نہیں ڈرتے (کہ اِس کا نتیجہ کیا ہو گا)۹۶؎۔سو اِنھیں لڑائی میں پائو تو اِن کو ایسی مار مارو کہ جو اِن کے پیچھے ہیں۹۷؎،اُن کو بھی تتر بتر کر دو تاکہ وہ سبق حاصل کریں۔ (تم لوگ، البتہ ہر حال میں عہد کی پابندی کرو) اور اگر کسی قوم سے بد عہدی کا اندیشہ ہو تو اُن کا عہد اُسی طرح برابری کے ساتھ۹۸؎ اُن کے آگے پھینک دو۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بد عہدوں کو پسند نہیں کرتا۹۹؎۔۵۵-۵۸

۹۱؎ چنانچہ ٹھیک وہی معاملہ کر رہا ہے جس کے تم اپنے کرتوتوں کے نتیجے میں مستحق ہو چکے ہو۔ آیت میں ’اَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ‘ کے الفاظ ہیں۔ اِن میں مبالغہ پر جو نفی آئی ہے، وہ مبالغہ فی النفی کے لیے ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔ یہ وہی بات ہے جو دوسرے مقامات میں ’اِنَّ اللّٰہ لَایَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ*‘(بے شک، اللہ ذرے کے برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا) اور ’اِنَّ اللّٰہَ لَایَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا‘**(بے شک، اللہ لوگوں پر ذرا بھی ظلم نہیں کرتا)کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ اِس اسلوب کی مثالیں قرآن مجید اور کلام عرب، دونوں میں موجود ہیں۔

۹۲؎ اشارہ ہے اُن سزاؤں کی طرف جو پے در پے اُن پر نازل ہوئیں تاکہ وہ متنبہ ہوں اور پیغمبر کی بات سننے کے لیے آمادہ ہو جائیں۔بدر کے موقع پر قریش کو جو کچھ پیش آیا، اُس کی نوعیت بھی یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِن کے ساتھ وہی معاملہ ہوا ہے جو فرعون والوں اور اُن سے پہلے کے لوگوں کو پیش آیا تھا۔

۹۳؎ مطلب یہ ہے کہ خدا کا عذاب اندھے کی لاٹھی نہیں ہے۔ وہ تمام تر خدا کے سمع و علم پر مبنی ہوتا ہے۔ چنانچہ کسی قوم کو سرفرازی کے لیے منتخب کر لینے کے بعد وہ جب اُسے تباہی کے حوالے کرتا ہے تو اُس کے کرتوتوں کی بنیاد پر کرتا ہے۔ قوموں کے عزل و نصب سے متعلق یہ خدا کی غیر متبدل سنت ہے۔ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۵۸میں فرمایا ہے کہ خدا یہ معاملہ دنیا کی ہر قوم کے ساتھ کر رہا ہے اور قیامت تک کرتا رہے گا۔ رسولوں کی بعثت کے بعد، البتہ یہ بالکل مشہود ہو جاتا ہے۔ اُن کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود جب کوئی قوم آیات الہٰی کو جھٹلا دیتی ہے تو یہ اِس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ آخری درجے میں بگڑ چکی ہے، لہٰذا اِسی درجے میں ہلاکت اور تباہی کے حوالے کر دی جاتی ہے۔

۹۴؎ یعنی تنبیہات سے آگے اب وہ نوبت بھی آگئی ہے جو پہلی قوموں کے معاملے میں آتی رہی ہے کہ وہ خدا کی کھلی ہوئی نشانیوں کو بھی جھٹلا دیتی تھیں۔ بدر میں خدا کے فرقان کو دیکھ لینے کے بعد قریش نے یہی کیا ہے ، اِس لیے اب اِس کا نتیجہ بھی بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔فرعو ن اور اُس کے لشکروں کے لیے اِس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ خدا نے اُنھیں غرق کر دیا تھا۔

اِس تشریح سے واضح ہے کہ ’کَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ‘ کے الفاظ اِن آیتوں میں اگرچہ دو مرتبہ آئے ہیں، مگر یہ تکرار کے لیے نہیں آئے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ یہ تکرار نہیں ہے، بلکہ دونوں جگہ دو باتیں بتائی گئی ہیں۔ پہلے یہ بتایا کہ یہ اُسی نوع کی تنبیہ ہے جس نوع کی تنبیہ فرعون اور دوسری قوموں کو کی گئی۔ پھر یہ بتایا کہ اگر اِس تنبیہ سے اِنھوں نے فائدہ نہ اٹھایا تو بالآخر اِن پر بھی اُسی طرح فیصلہ کن عذاب آجائے گا، جس طرح اُن قوموں پر آیا۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۹۷)

۹۵؎ اِس لیے کہ انسان اُسی وقت تک انسان ہے، جب تک وہ سوچنے سمجھنے اور علم و عقل کی روشنی میں فیصلے کرنے کی صلاحیت سے بہرہ یاب ہے۔ یہ صلاحیت ختم ہو جائے تو اُس میں اور جانوروں میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ آیت میں ’شَرَّالدَّوَآبِّ‘ کے الفاظ آئے ہیں، اِن میں جو زور اور شدت ہے، اُس کی وضاحت پیچھے آیت ۲۲ کے تحت ہو چکی ہے۔

۹۶؎ یہ اشارہ یہود اور بعض دوسرے قبائل کی طرف ہے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمانے کے بعد حسن جوار اور باہمی تعاون اور مددگاری کے معاہدے کر لیے تھے۔ لیکن جس طرح کے حالات کے لیے یہ معاہدے کیے گئے تھے، وہ جب پیش آتے تو یہ کبھی اُن کی پاس داری نہیں کرتے تھے، بلکہ ہمیشہ اُنھیں توڑ دیتے تھے۔

۹۷؎ یعنی لڑائی کے لیے ابھی سامنے نہیں آئے، مگر پیچھے بیٹھے ہوئے پر تول رہے ہیں۔

۹۸؎ اصل میں ’عَلٰی سَوَآئٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن سے کیامراد ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’۔۔۔’عَلٰی سَوَآئٍ‘ کا مفہوم یہ ہے کہ اُنھی کے برابر اقدام تم بھی کرنے کے مجاز ہو۔ اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دینا چاہیے، بلکہ جواب ہم وزن ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں نے اِس سے یہ لازم قرار دیا ہے کہ ختم معاہدہ کی اطلاع فریق ثانی کو دے دینی چاہیے۔ اُن کی اِس بات کی کوئی دلیل اِن الفاظ میں مجھے نظر نہیں آتی۔ البتہ یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ محض فرضی اندیشہ کسی معاہدے کو کالعدم قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ عملاً اُس کی خلاف ورزی کااظہار ہوا ہو۔ اول تو یہاں ’تَخَافَنَّ‘ کا جو فعل استعمال ہوا ہے، اُس میں خود تاکید ہے۔ دوسرے ’عَلٰی سَوَآئٍ‘ کی قید بھی اِن کو نمایاں کر رہی ہے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۹۹)

۹۹؎ یعنی جب اللہ پسند نہیں کرتا تو اہل ایمان کو بھی پسند نہیں کرنا چاہیے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــ

  * النساء۴: ۴۰۔

 ** یونس۱۰: ۴۴۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B