HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

سمیہ رضی اللہ عنہا

[’’سیر و سوانح‘‘ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔
اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]


حضرت یاسر بن عامرعنسی یمن کے رہنے والے تھے، اپنے گم شدہ بھائی کو تلاش کرتے ہوئے مکہ آئے۔ ان کے دو دوسرے بھائی حارث اور مالک ان کے ساتھ تھے۔ یہ دونوں تو واپس چلے گئے، لیکن حضرت یاسرکو مکہ ایسا بھایا کہ وہیں بس گئے۔ انھوں نے قبائلی رواج کے مطابق ابوحذیفہ بن مغیرہ مخزومی کے ساتھ جینے مرنے کا حلف اٹھا لیا۔ابو حذیفہ نے اپنی باندی سمیہ بنت خباط رضی اللہ عنہا (یا خیاط) سے ان کی شادی کر دی۔ ابن اسحاق کی شاذروایت کے مطابق سمیہ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام مسلم اور دادا کا لخم تھا۔جب عمار پیدا ہوئے تو ابو حذیفہ نے نو مولود عمارکو آزاد کر دیا، لیکن یاسر اور عمار آخری وقت تک اسی کے ساتھ رہے۔ابو حذیفہ کی وفات بعثت نبوی سے پہلے ہوئی۔یاسر کے دو بیٹے اور تھے ،عبداﷲ اور حریث، حریث دور جاہلیت میں قتل ہو گئے تھے ۔

مکہ نور اسلام سے منور ہواتو حضرت یاسر رضی اﷲ عنہ کے خاندان نے ایمان قبول کرنے اور اس کا اظہار کرنے میں سبقت کی۔ باندی ہونے کے باوجود حضرت سمیہ روشن دل و دماغ کی مالک تھیں۔ اسلام کی طرف سبقت کرنے والے مسلمانوں، السابقون الاولون میں ان کا ساتواں نمبر تھا۔تب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم دار ارقم میں منتقل ہو چکے تھے۔ عبداﷲ بن مسعو د کی روایت کے مطابق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر،عمار،سمیہ،صہیب، حضرت بلال اور مقداد اپنے اسلام کا اظہار کرنے والے پہلے سات نفوس تھے۔آپ کی حفاظت آپ کے چچا ابوطالب نے کی،ابوبکر کو ان کی قوم نے بچایا،باقی پانچوں کو مشرکین لوہے کی زرہیں پہنا کرتپتی دھوپ میں بٹھا دیتے ۔غلام ہونے کی وجہ سے ان کا دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا۔ان میں سے کوئی نہ تھا جس نے مشرکین کی بات نہ مانی،بلال ہی تھے جنھوں نے اﷲ کی راہ میں اپنی جان کی پروا نہ کی ، ان کی قوم کوبھی ان کا خیال نہ ہوا ۔کافروں نے ان کو بچوں کے حوالے کر دیا، وہ انھیں پکڑ کر مکہ کی گھاٹیوں میں گھومے پھرے ،وہ ’’اﷲ ایک ہے‘‘ ،’’اﷲ ایک ہے ‘‘کی صدا لگاتے رہے۔ (مسند احمد: ۳۸۳۲، ابن ماجہ:۱۵۰) اس روایت میں ساتواں نام مقداد بن اسود کاہے جب کہ ابن سعد کی روایت میں جو جریر سے نقل ہوئی ہے مقداد کی بجاے خباب کا ذکر ہے۔راوی کی یہ بات کہ بلال کے علاوہ سزائیں جھیلنے والے ہر اولوالعزم نے مشرکوں کی مانگ پوری کی، یعنی بظاہر کفریہ کلمات کہہ کر تقیہ سے کام لیا، سیرت سمیہ کے مطالعے سے غلط ثابت ہو جاتی ہے تاہم عمار بن یاسر کی سوانح پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ضرور اس زمرہ میں شامل ہوئے۔

قبیلۂ بنو مغیرہ نے اپنی باندی سمیہ کو طرح طرح کی ایذائیں دیں، لیکن انھوں نے عمر رسیدہ اور ضعیف ہونے کے باوجود صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا ۔ سمیہ کے استقلال کو دیکھ کر مشرکین غصے سے پھٹے پڑتے۔سیدنا عثمان بتاتے ہیں،ایک بار میں اور نبی صلی اﷲ علیہ وسلم مکہ کے ریگستان گئے جہاں عمار اور ان کے والدین پر تشدد کیا جا رہا تھا۔یاسر نے التجا کی، کیا یہ سلسلہ ہمیشہ جار ی رہے گا؟آپ نے جواب فرمایا، ’صبرًا یاآل یاسر،ان موعدکم الجنۃ‘۔ آل یاسر صبر سے چپکے رہو ،تم سے جنت کا وعدہ ہے ۔(مستدرک حاکم:۵۶۴۶)پھر دعا فرمائی، ’اللّٰہم لا تعذب احدًا من آل یاسر بالنار‘۔ اے اﷲ!آل یاسر میں سے کسی کو دوزخ کی سزا نہ دینا۔ جسمانی سزائیں دینے کے علاوہ اہل مکہ کو مستضعفین کے ساتھ لین دین کرنے سے منع کر دیا گیا۔قریش کے تشدد سے سمیہ کے شوہر یاسر کی شہادت ہوئی تو ان کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔تب ابوحذیفہ کے بیٹوں نے سمیہ کو اپنے چچا ابو جہل کی تحویل میں دے دیا۔ وہ اہل ایمان کو ایذا پہنچانے اور تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا تھا۔سمیہ اسے نظر حقارت سے دیکھتیں تو وہ غصے سے پاگل ہوجاتا۔ایک رات ابو جہل نے سمیہ کو بہت برا بھلا کہا اوران کے سامنے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خوب گالیاں دیں۔اس نے یہ بھی کہا،تم محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم )پر اس لیے ایمان لائی ہو، کیونکہ وہ (معاذ اﷲ ) تمھاری خوب صورتی پر فدا ہیں۔سمیہ نے ابو جہل کو لعن طعن کی اور سخت باتیں کہیں۔اس کی سر کشی اور طغیان نے زور مارا ،اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا بھالا سمیہ کے پیٹ کے نچلے حصے میں دے مارا۔سمیہ اسی وقت تاریخ اسلام کی پہلی شہید کے منصب پر فائز ہوئیں ۔آخری دموں میں اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ وان محمداً رسول اﷲ (میں گواہی دیتی ہوں کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اﷲ کے رسول ہیں) کے کلمات ان کی زبان پر جاری تھے۔یہ روایت بھی ہے کہ ابوجہل نے سمیہ کی ٹانگیں رسی سے باندھ کرکھینچیں ۔

ابن عبدالبراور ابن اثیر نے ابن قتیبہ کی اس بات کو جسے بعد میں ذہبی نے بھی اختیار کیا غلط اور وہم محض قرار دیا ہے کہ یاسر کی شہادت کے بعد سمیہ حارث بن کلدہ کے رومی غلام یاسر ازرق کے نکاح میں آئیں اور سلمہ بن یاسر نے جنم لیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ یاسر ازرق کا نکاح ثانی سمیہ ام زیاد سے ہوا تھا جو حارث بن کلدہ کی باندی تھی تو سلمہ بن ازرق عمار نہیں، بلکہ زیاد کا سوتیلا بھائی ہوا۔

سمیہ کی شہادت ہجرت نبوی سے سات سال پہلے ۶۱۵ ء میں ہوئی ۔ بعثت نبوی کے ابتدائی دور میں محض ایمان قبول کرنے کی پاداش میں انھیں شہید کر دیا گیا۔ان کے بیٹے عمار کو بھی تپتی دھوپ میں لٹا کر، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھ کریا پانی میں غوطے دے کر ایذا دی جاتی رہی۔ انھیں کہا گیا،محمد(صلی اﷲ علیہ وسلم ) کو گالیاں دے دو ،لات و عزیٰ کو بھلا کہہ دو تو ہم تجھے چھوڑ دیتے ہیں۔شدت تکلیف سے عاجز آ کر انھوں نے یہ سب کہہ دیا،پھر نبئ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس روتے روتے آئے۔آپ نے سوال فرمایا،تم اپنے دل کو کس کیفیت میں پاتے ہو؟ جواب دیا، میں اسے ایمان پر مطمئن پاتا ہوں۔فرمایا، دوبارہ ایسی صورت حال پیش آئے تو پھر یہی کچھ کرنا۔اس موقع پر یہ ارشاد ربانی نازل ہوا:

مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ إیْمَانِہ إِلاَّ مَنْ أُکْرِہَ وَقَلْبُہ مُطْمَءِنٌّ بِالإِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ. (سورۂ نحل :۱۰۶) ’’جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اﷲ کا انکار کیا ،وہ نہیں جو کفر پر زبردستی مجبور کیا گیا ،اس حال میں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن تھا بلکہ وہ جس نے شرح صدر کے ساتھ کفر کا ارتکاب کیا تو ایسے لوگوں پر اﷲ کا غضب ٹوٹے گا اور ان کو بڑا سخت عذاب ملے گا۔‘‘

جس وقت سمیہ کی شہادت ہوئی ،اہل ایمان پر بڑا کٹھن وقت تھا اسی لیے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ۔آپ کی دختر رقیہ اور آپ کے داماد عثمان کی قیادت میں مسلمانوں کا پہلا دس رکنی قافلہ کشتی کے ذریعے حبشہ روانہ ہو گیا۔

حیات نبوی میں سمیہ کا ذکر خیر منقطع نہ ہوا، کیونکہ آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم عمارکو ابن سمیہ کہہ کر پکارتے۔عبدﷲ بن مسعود بتاتے ہیں ،میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو فرماتے سنا،جب لو گ باہم جھگڑیں گے ،’’ابن سمیہ(عمار بن یاسر)حق کا ساتھ دیں گے۔‘‘ابن مسعود ہی کی روایت کردہ دوسری حدیث یوں ہے،’’ابن سمیہ کو حب بھی دو باتوں میں سے ایک چننے کو کہا گیا، انھوں نے آسان تر (صحیح تر)کا انتخاب کیا۔‘‘ (ترمذی: ۳۷۹۹، ابن ماجہ: ۱۴۸، مستدرک حاکم: ۵۶۶۴) ہجرت کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ پہنچے ہی تھے کہ عمار نے کہا،ہمیں کوئی ایسی جگہ بنانی چاہیے جہاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آرام کر سکیں اور نماز ادا کریں۔ پھرانھوں نے چند پتھر اکٹھے کیے اور مسجد قبا تعمیر کی ۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے مسجد بنائی اور اس میں نماز پڑھی۔(مستدرک حاکم:۵۶۵۵)اس موقع پرآپ نے فرمایا،’’تمھارے اوپر بڑا افسوس ہے، ابن سمیہ!(دوسری روایت:خوش ہو جاؤ،عمار!) تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ (مسلم: ۷۴۲۶،ترمذی:۳۸۰۰،مستدرک حاکم: ۵۶۶۰) جنگ بدر کے دن ابو جہل جہنم واصل ہوا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمار سے فرمایا، ’’اﷲ نے تمھاری ماں کے قاتل کو اس کے انجام تک پہنچا دیا ہے۔‘‘

مطالعۂ مزید:الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبدالبر)،الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)،اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابۃ(ابن اثیر)،سیر اعلام النبلا ، ترجمۃ عمار(ذہبی)، الاصابہ فی تمییز الصحابۃ(ابن حجر)، نساء مبشرات بالجنۃ (احمد خلیل جمعہ )، Wikipedia۔

_____________________

B