یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ{۲۰} وَلَا تَکُوْنُوْاکَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ{۲۱} اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ{۲۲} وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَھُمْ وَلَوْاَسْمَعَھُمْ لَتَوَلَّوْا وَّھُمْ مُّعْرِضُوْنَ{۲۳}
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ{۲۴} وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ{۲۵}
وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰکُمْ وَاَیَّدَکُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ{۲۶} یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ{۲۷} وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّاَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ{۲۸}
ایمان والو،۳۹؎ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو، (جس طرح کہ اطاعت کا حق ہے۴۰؎) اور رسول (کی دعوت) سے روگردانی نہ کرو۴۱؎، جبکہ تم (اُس کو) سن رہے ہو۴۲؎۔ تم اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جو دعویٰ کرتے تھے کہ ہم نے سنا، لیکن سنتے سناتے کچھ نہیں تھے۔۴۳؎ یقینا اللہ کے نزدیک بدترین جانور یہی بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔۴۴؎ اگر اللہ اِن میں کوئی بھلائی دیکھتا تو ضرور اِن کو سننے کی توفیق دیتا ۴۵؎اور اگر (اِس کے بغیر) سنوا دیتا تو یہ بے رخی کے ساتھ منہ پھیر جاتے۔۴۶؎۲۰-۲۳
ایمان والو، اللہ اور (اُس کے) رسول کی دعوت پر لبیک کہو، جبکہ رسول تمھیں اُس چیز کی طرف بلا رہا ہے جو تم کو زندگی بخشنے والی ہے ۴۷؎اور جان رکھو کہ (ایک عرصے تک مہلت دینے کے بعد) اللہ آدمی اور اُس کے دل کے درمیان حائل ہو جایا کرتا ہے۴۸؎ اور (یاد رکھو) کہ (ایک دن) اُسی کی طرف سمیٹے جائو گے۔ اُس فتنے سے بچو جو خاص اُنھی لوگوں کو لاحق نہیں ہو گا جو تم میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۴۹؎ اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ ۲۴-۲۵
اُس وقت کو یاد کرو، جب تم تھوڑے تھے، زمین میں تمھیں بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ لوگ تمھیں اچک نہ لیں۔ پھر اللہ نے تمھیں پناہ دی اور اپنی نصرت سے تمھاری تائید فرمائی اور تمھیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم شکر گزار رہو۵۰؎۔ ایمان والو، جانتے بوجھتے اللہ و رسول سے بے وفائی اور اپنی امانتوں میں خیانت نہ کرو۵۱؎ اور جان رکھو کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد ایک آزمایش ہیں اور یہ بھی کہ اجرعظیم اللہ ہی کے پاس ہے۵۲؎۔۲۶-۲۸
۳۹؎ یہ خطاب اگرچہ عام ہے، لیکن روے سخن اُنھی لوگوں کی طرف ہے جن کی کمزوری اور منافقت ابتدا سے زیربحث ہے۔
۴۰؎ آیت میں لفظ ’اَطِیْعُوْا‘آیا ہے۔ یہ اپنے کامل معنی میں ہے۔ ہم نے ترجمہ اِسی کے لحاظ سے کیا ہے۔
۴۱؎ پیچھے اللہ و رسول، دونوں کا ذکر ہے، لیکن یہاں ضمیر واحد آگئی ہے۔ اِس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول کی دعوت سے روگردانی اللہ سے روگردانی کے ہم معنی ہے، اِس لیے کہ خدا سے تعلق اور اُس کی اطاعت کا واحد ذریعہ اُس کا رسول ہی ہے۔
۴۲؎ یہ الفاظ اُن کے رویے کی شناعت کو ظاہر کرنے کے لیے آئے ہیں کہ جب رسول کی موجودگی میں اور اُس کی زبان سے براہ راست سن کر تمھارا یہ حال ہے تو آگے کیا کرو گے؟
۴۳؎ قرآن کے ذوق آشنا سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اشارہ یہود کی طرف ہے۔
۴۴؎ یہ اِس لیے فرمایا ہے کہ انسان کا اصلی امتیازی وصف اُس کا سننا سمجھنا اور عقل و بصیرت سے کام لینا ہی ہے۔ وہ اپنے آپ کو اِس وصف سے محروم کر لے تو پھر وہ دو ٹانگوں پر چلنے والا جانور ہی ہے، بلکہ بدترین جانور۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ بدترین اِس لیے کہ جانور خواہ کتنا ہی برا ہو، وہ اپنی جبلت پر قائم رہتا ہے اور اپنے محل میں اُس کی ایک قیمت اور اُس کی ایک افادیت ہے، لیکن انسان اپنی خصوصیت نوعی سے محروم ہو جائے تو اُس کے آگے شیطان بھی اپنے کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے۔ یہ عقل و بصیرت سے کام لے تو جس طرح اِس کے عروج کی کوئی حد نہیں، اِسی طرح عقل و بصیرت سے محروم ہو جانے کی صورت میں اِس کی پستی کی بھی کوئی انتہا نہیں۔ ‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۵۷)
۴۵؎ ہدایت و ضلالت کے باب میں یہی خدا کی سنت ہے۔انسان کے اندر خیر و شر میں امتیاز کی جو صلاحیت رکھی گئی ہے، اُسے زندہ رکھا جائے اور اُس سے کام لیا جائے تو خدا کی توفیق شامل حال ہو جاتی ہے اور انسان علم و عمل کے اعلیٰ درجات تک پہنچنے کے لیے ترقی کرتا رہتا ہے۔
۴۶؎ اِس لیے کہ وہ اُن کے اندر جڑ نہ پکڑ سکتی اور وہ اُس کو لازماً اگل دیتے ۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ غذا کتنی ہی صالح ہو، لیکن معدہ فاسد ہو چکا ہو تو وہ اُس کو قبول نہیں کرتا۔ آدمی لقمہ حلق سے اتار تو لیتا ہے، لیکن بڑی جلدی قے کر دیتا ہے۔ ایک پودے کی صحیح نشوونما کے لیے صرف یہ کافی نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ذات سے تندرست ہو، بلکہ اِس کے لیے زمین کی زرخیزی بھی مطلوب ہوتی ہے۔ ایک مالی اگر ایک بنجر زمین میں عمدہ سے عمدہ پودا لگا دے تو لگانے کو تو وہ لگا دے گا اور چند روز وہ پودا اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل پر زندہ بھی رہے گا، لیکن جب زمین کے اندر سے اُس کے مزاج کے مطابق اُس کو مطلوب غذا نہیں ملے گی تو بالآخر وہ سوکھ جائے گا۔ ٹھیک یہی حال نیکی اور ہدایت کے بیج کا بھی ہے۔ یہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق نشوونما صالح فطرت کی زمین کے اندر پاتا ہے۔ اگر کسی شخص کی فطرت کی زمین شور ہو چکی ہو تو یہ بیج ڈالنے کو تو قدرت اُس کے اندر بھی ڈال سکتی ہے، لیکن قدرت ہی کا قانون یہ ہے کہ وہ اُس کے اندر نشوونما نہ پا سکے۔‘‘(تدبرقرآن۳/ ۴۵۸)
۴۷؎ یعنی حقیقی اور جاوداں زندگی بخشنے والی ہے۔ استاذ امام کے الفاظ میں، اِسی کو قبول کرنے سے بصارت کو بصیرت نصیب ہوتی ہے۔ اِس سے عقل کو وہ نور حاصل ہوتا ہے جو آفاق و انفس کے اسرار و حقائق سے اُس کے لیے پردہ اٹھاتا ہے۔ اِسی سے دل کو وہ زندگی نصیب ہوتی ہے جو اُس کو ایک مضغۂ گوشت سے تجلیات و انوار الٰہی کا ایک آئینہ بنا دیتی ہے۔
۴۸؎ خدا کے حائل ہو جانے سے مراد یہاں خدا کے قانون کا حائل ہو جانا ہے۔ یہ، اگر غور کیجیے تو بڑی سخت تنبیہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جانتے بوجھتے رسول کی دعوت سے منہ موڑو گے تو ایک وقت ایسا آئے گا، جب لوٹنا بھی چاہو گے تو نہیں لوٹ سکو گے۔ اُس کے بعد خدا کا وہ قانون تمھارے اور اِس دعوت کے درمیان حائل ہو جائے گا جو ہدایت و ضلالت کے باب میں مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ بار بار کی تنبیہ کے باوجود تم نے اپنے رویے کی اصلاح نہ کی تو اِس جرم کی پاداش میں تمھارے دلوں پر مہر کردی جائے گی اور خدا ہمیشہ کے لیے تمھیں راہ ہدایت سے محروم کر دے گا۔
۴۹؎ دنیا میں خدا کا قانون یہی ہے کہ بعض اوقات ایک گروہ کے جرائم کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ یہ اُس سے متنبہ فرمایا ہے کہ اپنے رویے کی اصلاح کر لو، ورنہ اندیشہ ہے کہ اُس طرح کے کسی فتنے میں مبتلا ہو جائو گے جو پوری جماعت، بلکہ آیندہ نسلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتا ہے۔ اللہ کے دین میں اِسی بنا پر لوگوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ دوسروں کو بھی بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکیں۔ قرآن اِسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے تعبیر کرتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی کے تحت ہدایت فرمائی ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے دائرۂ اختیار میں لوگوں کو کسی برائی کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو اُسے چاہیے کہ ہاتھ سے اُس کا ازالہ کرے۔ پھر اگر اِس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اُسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔*
۵۰؎ خدا و رسول کی اطاعت کے اُسی مطالبے کو موکد کرنے کے لیے جس کا ذکر پیچھے ہوا ہے، یہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات گنائے ہیں۔
۵۱؎ اصل الفاظ ہیں:’وَتَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ‘۔ یہ پچھلے جملے پر عطف ہے، لیکن اِس میں حرف ’لا‘ کا اعادہ نہیں کیا گیا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللہ و رسول کی خیانت ہی ہے جو لوگوں کے لیے اپنی امانتوں اور ذمہ داریوں میں خیانت کی راہ کھولتی ہے۔ یہ آیت ٹھیک اُس حکم کے مقابل میں ہے جو آیت ۲۴ میں بیان ہوا ہے۔ وہاں جو بات مثبت اسلوب میں کہی گئی ہے، یہاں اُس کے ضد سے روکا گیا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ اللہ و رسول سے اطاعت کا جو عہد باندھ چکے ہو، وہ ایک امانت ہے۔ اُس کی خلاف ورزی ، خفیہ ہو یا علانیہ، ہر حال میں خیانت ہے۔ اِس خیانت سے بچو اور ’سمعنا و اطعنا‘ کا اقرار کرکے اللہ و رسول سے بے وفائی اور غداری نہ کرو۔ اللہ کا حکم یہی ہے کہ کسی امانت میں کبھی خیانت نہ کی جائے۔ ’جانتے بوجھتے‘ کی قید یہاں اُن لوگوں کی مذمت کے لیے ہے جن کی طرف اشارہ ہے۔ تاہم یہ اپنی جگہ ایک حقیقت بھی ہے کہ کوئی فعل خدا کے ہاں جرم اُسی وقت بنتا ہے ، جب اُس کا ارتکاب یہ جانتے ہوئے کیا جائے کہ وہ غلط ہے۔
۵۲؎ یہ آخر میں اصل بیماری کا پتا دیا ہے کہ اِس رویے کا باعث درحقیقت مال و اولاد کی محبت ہے۔ یہ اگرچہ انسان کی فطرت ہے، لیکن جب اِس درجہ غالب آجائے کہ اللہ و رسول سے بے وفائی یا دوسروں کے حقوق میں خیانت کا باعث بننے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ فتنہ بن گئی ہے۔ اِس موقع پر یاد کر لینا چاہیے کہ خدا کے ہاں اُنھی کے لیے اجر عظیم ہے جو مال و اولاد کی محبت میں خدا و رسول سے بے وفائی نہیں کرتے۔
________
* مسلم، رقم۱۷۷۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ