HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

تغییر بالید

(مسلم ،رقم ۵۰۔۴۹)


عَنْ طَارِقِ بْنِ شِہَابٍ قَالَ: أَوَّلُ مَنْ بَدَأَ بِالْخُطْبَۃِ یَوْمَ الْعِیْدِ قَبْلَ الصَّلٰوۃِ مَرْوَانُ. فَقَامَ اِلَیْہِ رَجُلٌ، فَقَالَ: الصَّلٰوۃُ قَبْلَ الْخُطْبَۃِ. فَقَالَ: قَدْ تُرِکَ مَا ہُنَالِکَ. فَقَالَ اَبُو سَعِیْدٍ: أَمَّا ہَذَا فَقَدْ قَضَی مَا عَلَیْہِ. سَمِعْتُ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ. فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ. فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ. وَذَلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ.

طارق بن شہاب بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے سب سے پہلے عید کے دن نماز سے پہلے خطبے کا آغاز کیا وہ مروان تھا۔چنانچہ ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا: خطبے سے پہلے نماز ہے۔ اس نے کہا: اس موقع کا طریقہ چھوڑ دیا گیا۔ اس پر ابو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو وہ اسے ہاتھ سے ہٹا دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان سے ہٹا دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے ہٹا دے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔

عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِی اُمَّۃٍ قَبْلِی اِلَّا کَانَ لَہُ مِنْ اُمَّتِہِ حَوَارِیُّونَ وَاَصْحَابٌ. یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہِ وَیَقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہِ. ثُمَّ اِنَّہَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِہِمْ خُلُوفٌ. یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَ. وَیَفْعَلُونَ مَا لَا یُؤْمَرْونَ. فَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِیَدِہِ فَہُوَ مُؤْمِنٌ. وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِلِسَانِہِ فَہُوَ مُؤْمِنٌ. وَمَنْ جَاہَدَہُمْ بِقَلْبِہِ فَہُوَ مُؤْمِنٌ. وَلَیْسَ وَرَاءَ ذَلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ.

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں ہے جسے مجھ سے پہلے کسی امت میں مبعوث کیا گیا ہو اور اس کی امت میں سے اس کے حواری اور اصحاب نہ ہوں۔جو اس کی سنت پر عمل کرتے ہوں اور اس کے احکام کی پیروی کرتے ہوں۔ پھر اس کے بعد ان کے ناخلف سامنے آتے ہیں۔ یہ وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں اور وہ کرتے ہیں جس کا حکم نہیں دیا گیا۔ چنانچہ جس نے اپنے ہاتھ سے ان کے ساتھ جہاد کیا، وہ مومن ہے۔ جس نے زبان کے ساتھ ان سے جہاد کیا، وہ مومن ہے۔ جس نے دل کے ساتھ ان سے جہاد کیا ،وہ مومن ہے اور اس کے نیچے رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔

لغوی مباحث

منکر: بری چیز، برا عمل۔ یہ معروف کا متضاد ہے۔ معروف وہ ہے جسے معاشرے میں اچھا سمجھا جاتا ہے اور منکر وہ ہے جسے معاشرے میں برا سمجھا جاتا ہے۔ بعض شارحین نے اس لفظ کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ منکر وہ ہے جسے اللہ کے دین میں غلط قرار دیا گیا ہو۔ اگرچہ وہ چیزیں بھی منکر ہیں جنھیں اللہ کے دین میں غلط قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ اس لفظ کا مکمل اطلاق نہیں ہے۔ قرآن وحدیث میں معروف ومنکر کے الفاظ عربوں کے مسلمہ معروف و منکر کی مناسبت سے بولے جاتے ہیں۔

فلیغیرہ:’غَیَّر‘ کا مطلب ہے تبدیل کرنا۔ مراد یہ ہے کہ منکر ختم کرکے اس کی جگہ معروف کو رائج کر دیا جائے۔ اس روایت میں یہ لفظ ’بیدہ‘ ، ’بلسانہ‘ اور ’بقلبہ‘ کے ساتھ آیا ہے۔ ان میں سے ہر لفظ کی مناسبت سے اس کے معنی تبدیل ہو جائیں گے۔ ’بیدہ‘ کے ساتھ اس کا اطلاق عملی جدوجہد پر ہو گا۔ ’بلسانہ‘ کے ساتھ اس کا اطلاق وعظ ونصیحت پر ہو گا ۔ اور ’بقلبہ‘ کے ساتھ اس کا اطلاق محض دل میں برا جاننے پر ہو گا۔

حواری:حواری کے لفظ کے معنی کے بارے میں مختلف آرا ہیں۔ صاحب مفردات القرآن امام راغب لکھتے ہیں:’’’حورت الشئ ‘کسی چیز کوگھمانا ،سفید کرنا۔ عیسیٰ علیہ السلام کے انصار واصحاب کو حواریین کہا جاتا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے اور بعض نے کہا ہے کہ وہ صیاد یعنی شکار ی تھے۔ بعض علما نے کہا کہ انھیں حواری اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پاک کرتے تھے۔یہ وہی پاکیزگی ہے جس کا ذکر ’اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا‘ (احزاب ۳۳:۳۳) کی آیت میں ہوا ہے۔ اس بنا پر انھیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا۔ اصل میں وہ دھوبی نہیں تھے۔ اس سے مراد وہ شخص ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر کوئی پیشہ اختیار نہ کرے۔ اسی طرح انھیں شکاری کہا گیا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو حق کی طرف لا کر گویا ان کا شکار کرتے تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: زبیر میرے پھوپھی زاد اور میرے حواری ہیں۔ ایک روایت کے مطابق آپ نے کہا: ہر نبی کا حواری ہے اور میرا حواری زبیر ہے۔ اس روایت میں حضرت زبیر کو حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے پہلو سے ہے۱؂۔‘‘ مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’تدبر قرآن‘‘ میں حواری کے حوالے سے لکھا :

’’’حواری‘ کا لفظ عربی میں عبرانی سے آیا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ اس کے لغوی مفہوم میں اہل لغت کا اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک اس کے معنی خیرخواہ، حامی، ناصر اور مدد گار کے ہیں۔ جس طرح انصار کا لفظ مدینہ کے ان جان نثاروں کے لیے خاص ہوا جنھوں نے ابتداے دعوت ہی سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا، اسی طرح ’حواریین‘ کا لفظ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ان خاص شاگردوں کے لیے استعمال ہوا جو آپ پر ایمان لائے، ہر قسم کے نرم وگرم حالات میں آپ کے ساتھ رہے، آپ نے پوری شفقت اوردل سوزی سے شب و روزجن کی تعلیم وتربیت کی اور جو بالآخر آپ کے داعی، نقیب اور آپ کے پیغام بر بن کر بنی اسرائیل کی ایک ایک بستی میں پہنچے۲؂۔‘‘

اس روایت میں یہ لفظ جس محل پر استعمال ہوا ہے اس سے بالکل واضح ہے کہ اس لفظ کے معنی بالکل وہی ہیں جو مولانا اصلاحی نے بیان کیے ہیں۔ اصحاب پر اس لفظ کا عطف اس کے اسی پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔

خلوف :یہ ’خَلْف‘ کی جمع ہے۔ اس کا مطلب ہے برے جانشین۔ لام کی فتح کے ساتھ یہ لفظ اچھے جانشینوں کے لیے آتا ہے اور اس کی جمع ’اخلاف‘ آتی ہے۔

معنی

دونوں روایتوں کے دو حصے ہیں۔پہلی روایت کا پہلا حصہ مروان کے عید کے خطبے کے وقت کو بدلنے کے بیان پر مشتمل ہے۔ دوسری روایت کا پہلا حصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان پر مشتمل ہے کہ نبی کے ساتھی کس کردار کے ہوتے ہیں اور بعد میں کیا تبدیلی آتی ہے۔

مروان کے خطبہ پہلے دینے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ لوگ خطبہ سنے بغیر چلے جاتے تھے۔ چنانچہ اس کاحل یہ نکالا کہ جمعے کی طرح نماز کو موخر کر دیا جائے تاکہ لوگ خطبہ سنے بغیر نہ جا سکیں۔ لیکن اسے ٹوک دیا گیا اور یہ واضح کر دیا گیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کے خلاف ہے۔ اس روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ پہلا شخص جس نے اس طرح کی تبدیلی کی وہ مروان تھا۔ ابتدا کی نسبت حضرت عثمان، حضرت معاویہ اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے بھی کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ لہٰذا عمومی رائے یہی ہے کہ یہ کام مروان ہی نے کیا تھا۔ لیکن یہ انحراف چل نہیں سکا اور امت میں وہی طریقہ رائج رہا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔

دوسری روایت کے ابتدائی حصے میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ ہر نبی کے کچھ ساتھی اور کچھ مدد گار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ نبی کی تعلیمات اور اس کے اوامر ونواہی کے پابند ہوتے ہیں۔ اس کے اسوہ کی پیروی کرتے ہیں، لیکن اس کے بعد یہ صورت باقی نہیں رہتی اور ان کے جانشینوں میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک طرف وہ قول وفعل کے تضاد میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف ایسی باتیں دین کے نام پر پیش کرنے لگ جاتے ہیں جن کا دین میں حکم نہیں ہوتا۔ یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف پوری ہوچکی ہے۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ اس طرح کے حالات میں اہل خیر کو کیا کرنا چاہیے۔ اگلا حصہ لفظی فرق کے باوجود وہی ہے جو پہلی روایت میں بھی آچکا ہے۔

اس حصے میں وضاحت طلب نکات چار ہیں:

ایک یہ کہ منکر کسے کہتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ تغییر بالید یا جہاد بالید سے کیا مراد ہے۔

تیسرے یہ کہ اضعف الایمان کی وعید کس کے لیے ہے۔

چوتھے یہ کہ اس میں بیان کردہ ذمہ داری کا مکلف کون ہے۔

شارحین نے بالعموم اس کی وضاحت میں یہ لکھا ہے کہ اس سے وہ چیزیں مراد ہیں جنھیں شارع نے غلط قرار دیا ہے۔ ہم نے لغوی مباحث میں بیان کردیا ہے کہ ہمارے نزدیک یہ معروف کے مقابل میں آتا ہے۔ انسانوں کے بیچ مسلمہ خیر کے لیے عرب معروف کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور مسلمہ شر کے لیے منکر کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ہاں، یہ بات درست ہے کہ شریعت کے بیان کردہ منکرات بھی اس میں شامل ہیں۔

تغییر بالید، تغیر باللسان اور تغییر بالقلب، تینوں کی وضاحت کرتے ہوئے شارحین نے لکھا ہے کہ تغییر بالید سے مرادبرائی کو عملاً ہٹا دینا ہے۔ جیسے آلات موسیقی کو توڑ دینا، غصب کو چھڑوانا، شراب بہا دینا وغیرہ۔ اگر اس عمل سے زیادہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو یا برائی کرنے والا زیادہ قوی ہو تو زبان سے منع کرے۔ یہ تغییر باللسان ہے۔ اسی طرح شارحین کے نزدیک دل میں برا جاننے کے لیے اس روایت میں تغییر بالقلب کی تعبیر اختیار کی گئی ہے۔

سب سے زیادہ کمزور ایمان کا مظہر یہ تیسرا طریقہ ہے۔ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے جو برائی کرنے والے کو زبان سے روکنے کا حوصلہ بھی نہیں کر پاتا۔

بعض شارحین نے اس روایت کو ایک دوسرے زاویے سے سمجھا ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تغییر باللسان کی ذمہ داری علما کی ہے اور تغییر بالید کے ذمہ دار امرا وحکام ہیں۔

یہ دونوں حل اضعف کے لفظ سے پیدا ہونے والے مفہوم اور ’اگر استطاعت نہ ہو‘ کی شرط کی تکرار کو نظر انداز کیے بغیر طے نہیں کیے جا سکتے۔ دوسرا حل استطاعت کے متفرق مفہوم پر مبنی ہے۔ اگر استطاعت کا مختلف مفہوم نہ لیا جائے تو ایک کو امرا اور دوسرے کو علما سے متعلق کرنا ممکن نہیں۔ اس طرح کے تقابل کے جملے میں ایک ہی لفظ کے دو مختلف معنی لینا زبان کے عام قواعد کے منافی ہے۔پھر یہ بات بھی غیر واضح ہو جاتی ہے کہ اضعف الایمان سے کیا مراد ہے۔ مثلاً اگر وہ حاکم نہیں ہے اور زبان سے نصیحت کرتا ہے تو اسے ’ان لم یستطع‘کے لفظ سے بیان کیوں کیا گیا ہے۔

یہی صورت پہلے حل کی ہے۔ اس میں بھی استطاعت سے جسمانی طاقت یا خارجی امکانات ہی کو مراد لیا گیا ہے۔ اس پر بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آدمی طاقت ہی نہیں رکھتا تو اسے اضعف الایمان کیوں قرار دیا جائے۔ سیوطی نے اس شرح پر یہی تبصرہ کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں حل روایت کو پوری طرح حل نہیں کرتے۔ استاد محترم نے اس روایت کے صحیح مفہوم کو بہت خوبی سے واضح کیا ہے۔ ’’قانون دعوت‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’...’تواصوا بالحق‘ کے تحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اگر کوئی منکر دیکھیں تو اپنے دائرۂ اختیار میں اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کا ارشاد ہے:
مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہِ، وَذَلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ.(مسلم، رقم۴۹)
’’تم میں سے کوئی شخص (اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی برائی دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ ہاتھ سے اس کا ازالہ کرے۔ پھر اگر اس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل میں اسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنی ترین درجہ ہے۔‘‘
ان لم یستطع‘ کے الفاظ یہاں اس استطاعت کے لیے استعمال نہیں ہوئے جو آدمی کو کسی چیز کا مکلف ٹھیراتی ہے، بلکہ ہمت اور حوصلے کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں جو ایمان کی قوت اور کمزوری سے کم یا زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کے دائرۂ اختیار میں اس کا پہلا کام یہی ہے کہ خود دین ہی کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو قوت سے منکر کو مٹا دے۔زبان سے روکنے کا درجہ اس دائرے میں دوسرا ہے اور دل کی نفرت وہ آخری درجہ ہے کہ آدمی اگر اس پر بھی قائم نہ رہا تو اس کے معنی پھر یہی ہیں کہ ایمان کا کوئی ذرہ بھی اس میں باقی نہیں رہ گیاہے۔
قرآن کی تصریحات، دین کے مسلمات، رسولوں کی سیرت اور روایت کے اپنے الفاظ کی روشنی میں اس کی صحیح تاویل یہی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے۔ شوہر، باپ، حکمران سب اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں لاریب، اسی کے مکلف ہیں کہ منکر کو قوت سے مٹا دیں۔ اس سے کم جو صورت بھی وہ اختیار کریں گے، بے شک، ضعف ایمان کی علامت ہے۔ لیکن اس دائرے سے باہر اس طرح کا اقدام جہاد نہیں، بلکہ بدترین فساد ہے جس کے لیے دین میں ہر گز کوئی گنجایش ثابت نہیں کی جا سکتی۔ قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ داعی کی حیثیت سے خدا کے کسی پیغمبر کو بھی تذکیر اور بلاغ مبین سے آگے کسی اقدام کی اجازت نہیں دی گئی۔ ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ، لَسْتَ عَلَیْْہِمْ بِمُصَیْْطِرٍ.(الغاشیہ۸۸:۲۱۔۲۲)
’’تم نصیحت کرنے والے ہو، تم ان پر کوئی داروغہ نہیں ہو۔‘‘‘‘(قانون دعوت۴۲)

ہمارے اس زمانے میں بعض لوگ برائی کو قوت سے ختم کرنے کی اپنی پالیسی کے حق میں اس روایت کو پیش کرتے ہیں۔ قوت سے ان کی مراد جماعت اور جتھے کی قوت ہے۔ استاد محترم نے واضح کر دیا ہے کہ اس روایت سے یہ معنی لینا درست نہیں ہے۔ یہ روایت فرد کے داخلی ضعف پر اسے متنبہ کرتی ہے۔ اسے یاد دلاتی ہے کہ اپنے دائرۂ کار اور اپنی حیثیت کے مطابق ہر فرد کو منکر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر وہ منکر کے معاملے میں اپنی حیثیت کے مطابق متحرک نہیں ہوتا تو اس کی وجہ اس کے ایمان کی کمزوری کو نہیں ہونا چاہیے۔

بعض شارحین نے یہ نکتہ بھی بیان کیا ہے کہ ازالۂ منکر کا یہ کام متفقہ امور ہی میں ہونا چاہیے۔ وہ امور جہاں آرا کا اختلاف ہو، یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات اس وجہ سے کہنا پڑی ہے کہ منکر کا اطلاق شرعی منکر پر کیا گیا ہے۔ ہم نے منکر کے معنی جس طرح واضح کیے ہیں، اس کے بعد یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

متون

پہلی روایت میں حضرت ابو سعید خدری کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو بیان کرنے کا موقع بھی نقل ہوا ہے۔ کچھ محدثین نے مروان سے متعلق اس واقعے سے مجرد بھی اس روایت کو نقل کیا ہے۔ مسلم کی محولہ بالا روایت میں مروان کے صرف خطبہ پہلے دینے کے انحراف کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض روایات میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مروان کے لیے منبر بھی باہر نکالا گیا تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کے زمانے میں یہ کام بھی نہیں کیا گیا تھا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید نے ایک آدمی کے ٹوکنے کے بعد بات کی تھی، لیکن کچھ روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید نے براہ راست بھی بات کی تھی۔ شارحین نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ یہ دو الگ الگ واقعات ہیں۔ بظاہر تطبیق کی یہ صورت درست نہیں لگتی ۔ واقعے کو نقل کرنے میں اس طرح کی کمی بیشی روایات میں عام ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ حضرت ابو سعید پر کسی دوسرے آدمی کا سبقت لے جانا موزوں نہیں ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ واقعات کی تفصیل معلوم کیے بغیر اس طرح کا کوئی تبصرہ بے محل ہے۔

روایت کے دوسرے حصے میں کوئی ایسا اختلاف نہیں ہے جو روایت کے کسی معنوی پہلو کو واضح کرنے میں معاون ہو۔ کچھ لفظی فرق کے ساتھ ہر متن میں یہی بات بیان ہوئی ہے۔ روایت کے اہم الفاظ مثلاً تغییر، ید، لسان ، قلب اور اضعف سب روایات میں یہی الفاظ دہرائے گئے ہیں۔

امام مسلم اسی مضمون کی حامل دوسری روایت بھی لائے ہیں۔ اس روایت میں تغییر کے بجائے ’جاہد‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ فرق اہم ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تغییر بالید سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ڈنڈا سوٹا اٹھانا نہیں ہے، بلکہ آپ کی مراد عملی جدوجہد ہے۔

کتابیات

مسلم، رقم۴۹، ۵۰۔ ابوداؤد، رقم۱۱۴۰، ۴۳۴۰۔ نسائی، رقم۵۰۰۸۔ ترمذی، رقم۲۱۷۲۔ ابنماجہ، رقم ۱۲۷۲، ۴۰۱۳۔ احمد، رقم۳۴۷۹، ۴۴۰۲، ۱۱۰۸۸، ۱۱۱۶۶، ۱۱۴۷۸، ۱۱۵۳۲، ۱۱۸۹۴۔ ابن حبان، رقم۳۰۶، ۳۰۷، ۶۱۹۳۔ بیہقی، رقم ۵۹۹۷، ۶۱۹۳، ۱۱۲۹۳، ۱۴۳۲۵، ۱۹۹۶۶۔ ابویعلیٰ، رقم۱۰۰۹۔ سنن کبریٰ، رقم۱۱۷۳۹۔ معجم کبیر، رقم ۹۷۸۴۔

_______________

B