جامعہ ہمدرد نیو دلی (بھارت) کے پروفیسر الطاف احمد اعظمی صاحب نے ’’اشراق‘‘ میں شائع میرے مضمون ’’عہد رسالت میں خواتین کا سیاسی کردار ‘‘ کی دوسری قسط کی بعض باتوں کو محل نظر قرار دیا ہے اور اپنی نگارشات کو ’’استدراک‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس سلسلہ میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا وہ میرے مضمون کی پانچ قسطوں کا مطالعہ کرتے اور پھر تبصرے سے نوازتے۔ اس طرح ان کو بعض اعتراضات کا جواب بھی مل جاتا، خصوصاً اس بات کا کہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ جنگ جمل کو یاد کر کے روتی تھیں۔ وہ روتی اس لیے نہیں تھیں کہ انھوں نے اصلاح کی خاطر خروج کیوں کیا؟ بلکہ اس لیے روتی تھیں کہ اس میں ان کی خواہش کے برعکس مسلمانوں کا خون بہا اور اس بات پر حضرت علیؓ بھی نادم تھے۔
محترم پروفیسر صاحب کے اعتراضات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: پہلی قسم کے اعتراضات اس مائنڈ سیٹ کا نتیجہ ہیں کہ مرد کو محض مرد ہونے کی حیثیت سے عورت پر فضیلت حاصل ہے۔ پہلے تین اعتراضات اسی سوچ کا نتیجہ ہیں، اور یہ سوچ حکمت قرآن سے متصادم ہے جس میں فضیلت کا معیار تقویٰ ہے نہ کہ جنس۔ اعتراض نمبر ۷ بھی اسی زمرے میں شامل ہے، باقی کے تین اعتراضات سورۂ مریم کی تفسیر کے بارے میں ہیں۔ جو خالص علمی اعتراضات ہیں۔
اعتراض نمبر ۴ کے بارے میں پروفیسر صاحب نے بالکل درست کہا کہ مولانا آزاد کے حوالہ میں مجھ سے سہو ہوا ہے، میں اس کے لیے معذرت طلب ہوں اور ان کی نشان دہی کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں ان کے تبصرہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ کم از کم انھوں نے میرے اس مضمون کو اس قابل تو سمجھا۔
محترم پروفیسر صاحب نے مضمون کا آغاز عورت کی حکمرانی کے جواز اور عدم جواز سے کیا ہے۔ میرے مضمون کا حوالہ انھوں نے جو دیا ہے وہ پہلی قسط کے تسلسل سے کاٹ کر دیا ہے۔ مضمون کی پہلی قسط کے آخر میں میں نے ’’ملکۂ سبا‘‘ کا ذیلی عنوان باندھا ہے۔ قرآن حکیم نے سورۂ نمل (۲۷) کی آیت ۲۰ سے لے کر آیت ۴۴ تک ملکۂ سبا کا ذکر قدرے تفصیل سے کیا ہے۔ قرآن نے یہ تذکرہ مدحیہ انداز میں کیا ہے۔ مثلاً ہدہد کا یہ قول ’’میں نے ایک عورت دیکھی جو ان پر حکمرانی کرتی ہے، اس کے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور اس کا ایک بڑا تخت ہے۔ برائی اس کی یہ ہے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتی ہے‘‘۔* حضرت سلیمان نے ہدہد کے ذریعے سے ملکہ کو خط بھیجا۔ پیغام یہ تھا کہ سرکشی نہ کرو اور مسلمان ہو کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔ ملکہ نے اس خط کو ’کتاب کریم‘ (باوقعت خط) کا نام دیا اور اہل دربار سے اس کے بارے میں مشورہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خط کے مضمون اور خط لکھنے والے کے بارے میں اس کے دل میں عزت پہلے سے موجود تھی۔ قاضی ابن العربی نے ’’احکام القرآن‘‘ میں لکھا ہے: ’’علما کا قول ہے کہ سب سے پہلے بلقیس نے مشاورت کی طرح ڈالی‘‘ ملکہ نے اہل راے کا مشورہ رد کر دیا، کیونکہ وہ آمادہ بہ جنگ تھے اور وہ اپنی رعایا کو جنگ کی آگ میں جھونکنا نہیں چاہتی تھیں، کیونکہ بادشاہ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ اس نے حضرت سلیمان کی طرف بیش بہا تحفے بھیج کر آزمایا کہ آیا ان کو ملک گیری کی ہوس ہے یا ایک عقیدے کی خاطر برسرپیکار ہیں۔ جب اسے یقین ہو گیا کہ یہ عقیدے کا معاملہ ہے تو اس نے پل بھر دیر نہ کی اور حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا:
’’میرے رب، میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا ہے، میں سلیمان کے ساتھ اس اللہ کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہوں جو سارے جہان کا پالنہار ہے‘‘۔(النمل۲۷: ۴۴)
ملکۂ سبا کا قصہ بیان کرتے ہوئے توصیف کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ امام طبری، امام زمخشری، امام رازی، امام بغوی، ابن کثیر، امام شوکانی، ابوحبان، محمود آلوسی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے بیان کے مطابق حضرت سلیمان نے ملکۂ بلقیس سے شادی کر لی تھی اور انھیں یمن کی حکومت پر برقرار رکھا۔ اس تفصیل کے بعد میں نے علامہ یوسف علی کا حوالہ نقل کیا ہے۔ کیا قرآن نے ملکۂ سبا کی حکمرانی کا توصیفی انداز میں ذکر نہیں کیا؟ کیا حضرت سلیمان نے ان کو یمن کی حکومت پر برقرار نہیں رکھا؟ محترم پروفیسر اور کون سی دلیل مانگتے ہیں؟
پروفیسر صاحب کو سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۵۵ کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں: ’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنا دے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا، اور ان کے دین کو، جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، مستحکم و پائدار کرے گا‘‘۔ کیا اس آیت میں ’اٰمَنُوْا مِنْکُمْ‘ میں صرف مرد شامل ہیں، خواتین نہیں؟
کیا سورۂ احزاب (۳۳) کی آیت ۷۲ میں خلافت ارضی کی جو امانت انسان نے قبول کی، اس میں لفظ ’’انسان‘‘ میں صرف مرد شامل ہیں، خواتین نہیں؟ حاکم کا کام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ سورۂ توبہ (۹) کی آیت ۷۱ میں اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں‘‘۔
یہ سب کام حاکموں کے کرنے کے ہیں۔ اگر سورۂ نور کی آیت کو اس آیت سے ملا کر سمجھا جائے تو نتیجہ نکلتا ہے کہ حکمرانی میں قرآن نے مرد اور عورت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتا، اور جب وہ حکمرانی کریں گے تو مل جل کر یہ کام کریں گے۔
پروفیسر صاحب نے اپنی سوچ کی تائید میں قرآن حکیم سے دو دلائل پیش کیے ہیں:
۱۔ گھر کا کفیل (قوام) عورتوں کی بجاے مردوں کو بنایا گیا ہے۔ بالکل کھلی بات ہے کہ جب ایک عورت عام حالات میں گھر کی قوام نہیں ہو سکتی تو کسی اسلامی ریاست کی حکمران کیونکر ہو سکتی ہے؟
۲۔ لفظ ’’قوام‘‘ سے مراد پروفیسر صاحب نے حاکم کے لیے ہیں اور اسی مفہوم پر انھوں نے اپنی دلیل کی بنیاد رکھی ہے۔ آیت میں لفظ ’قَوَّام‘ مطلقاً استعمال نہیں ہوا، بلکہ اس کے بعد حرف جار ’علٰی‘ کا صلہ ہے۔ جس طرح انگریزی زبان میں حرف جار (Preposition) لگنے کے بعد یا تو معنی میں تخصیص ہو جاتی ہے یا معنی بالکل بدل جاتے ہیں، اسی طرح عربی میں بھی معنی کی تخصیص ہو جاتی ہے۔ ’قام علی الأمر‘ اور ’قام بالأمر‘ کے معنوں میں فرق ہے۔ ’قام علی الأمر‘ کے معنی ہیں: خیال رکھنا اور ’قام بالامر‘ کے معنی ہیں، انتظام کرنا۔ چنانچہ عربی محاورے میں کہا جاتا ہے: ’قام الرجل علی المرأۃ‘ یعنی مرد نے عورت کی مالی کفالت کی۔ یہ لفظ مطلقاً استعمال نہیں ہوا، یہاں بیوی کے بارے میں استعمال ہوا ہے۔ اس کی تائید ’بِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ‘ * (کیونکہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں) سے بھی ہوتی ہے۔ فقہا کا اتفاق ہے کہ اگر میاں بیوی کی کفالت نہ کر سکے تو وہ قوامیت کا حق کھو دیتا ہے اور بیوی اس سے جان چھڑا سکتی ہے۔ آج کل ہمارے گھروں میں جو لڑکیاں کام کرتی ہیں، ان کے والد اکثر و بیش تر نشہ کرتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرتے۔ کیا ہم اس کے باوجود ان کو قوام مان سکتے ہیں؟
معنوی اعتبار سے میاں بیوی کے تعلقات حاکم و محکوم کے نہیں، بلکہ ایک ساتھی اور شریک حیات کے ہیں، اسی لیے قرآن نے بیوی کے لیے ’صاحبہ‘ اور ’زوج‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ کیا حاکم و محکوم کے تصور سے گھر میں پیار اور محبت، سکون اور اطمینان کی فضا قائم ہو سکتی ہے؟ ہاں، رفاقت اور باہمی مشورہ خاندانی نظام کی بقا کا ضامن ہے۔ قوامیت گھر کے اندر تقسیم کار کا ایک نظام ہے۔ جس خالق نے عورت پر تخلیق کا بوجھ ڈالا ہے، اسی خالق نے مرد پر نان و نفقہ کا بوجھ ڈال کر حساب برابر کر دیا ہے۔ یہ قوامیت تقسیم کار کی قوامیت ہے، جسے ماہرین عمرانیات ‘Instrumental Gaurdian Ship’ کی اصطلاح سے تعبیر کرتے ہیں۔
اس قوامیت کا مطلب یہ نہیں کہ خاندان کے افراد اپنے ارادے اور اختیار سے کام نہ کر سکیں۔ یہ اشارہ کرتی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے زوج ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر غیر مکمل ہیں۔ اور دونوں کو مل جل کر کام کرنا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا قوامیت وجہ فضیلت ہے؟ آیۂ کریمہ میں نہ تو مرد کی فطری برتری کا بیان ہے اور نہ عورت کی کہتری کا۔ یہ محض ایک گھریلو نظام ہے۔ یہ قوامیت گھر کے اندر ہے۔ اگر کسی دفتر یا ادارے کی سربراہ عورت ہو تو کیا اس میں کام کرنے والے محض اس لیے اس کا حکم نہیں مانیں گے کہ اللہ نے قوامیت کا حق صرف مردکو دیا ہے؟ حضرت عمرؓ نے شفاء بنت عبداللہ عدویہ کو مدینہ کے بازار کا محاسب مقرر کیا تو ان کا حکم مردوں اور عورتوں، سب پر چلتا تھا۔ ان تصریحات کی روشنی میں میں پروفیسر صاحب سے بصد ادب گزارش کروں گا کہ جو عورت گھر کو چلا سکتی ہے، وہ ملک بھی چلا سکتی ہے۔
اسی سوچ کے تحت پروفیسر صاحب نے سورۂ بقرہ (۲) کی آیت ۲۴۷ کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ عورت حکمران نہیں ہو سکتی، کیونکہ وہ علم و جسم میں فوقیت نہیں رکھتی۔ آیت کا ترجمہ یوں ہے:
’’اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے طالوت کو تم پر بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کرنے کا حق کیونکر ہو سکتا ہے؟ اس سے بادشاہی کے زیادہ مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو دولت کی وسعت نہیں۔ نبی نے کہا: اللہ نے اس کو تم پر منتخب فرمایا ہے، اس نے اسے علم اور جسم میں وسعت بخشی ہے۔‘‘
بنو اسرائیل نے اعتراض اس لیے کیا کہ ان کے نزدیک مال و دولت میں وسعت عز و جاہ کا معیار تھا، کیونکہ طالوت بنو اسرائیل کے ایک چھوٹے سے قبیلے کے معمولی فرد تھے، ان میں بادشاہ بننے کی صلاحیت نہیں تھی۔ اس کے جواب میں نبی نے کہا: ٹھیک ہے، ان کے پاس مال و دولت کی وسعت نہیں، مگر ان میں علمی اور جسمانی صلاحیت کی وسعت تو ہے۔ آیت میں بنو اسرائیل کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، کوئی اصول بیان نہیں ہوا۔ اصول اگر نکلتا ہے تو وہ کشادہ نگہی اور علم و حقیقت پر مبنی ہو گا۔ خد اکا شکر ہے کہ پروفیسر صاحب عورت کی علمی صلاحیت کے قائل تو ہیں، ورنہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت کم عقل ہوتی ہے۔ دوسرے جسم میں وسعت سے یہ مراد نہیں کہ بادشاہ پہلوان یا ویٹ لفٹر ہو، بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اس سلیم جسم کا مالک ہے جس میں عقل سلیم ہوتی ہے۔ سلیم جسم مرد کی طرح عورت کا بھی ہوتا ہے۔ صرف ماحول اور تربیت کا فرق ہے۔ دیہاتی معاشرے میں عورت مرد کے شانہ بشانہ کام کرتی ہے۔ دو دو تین تین کوس کے فاصلے سے سر پر گھڑے اٹھا کر لاتی ہے، چارے کا گٹھا سر پر اٹھاتی ہے، چارا بناتی ہے اور بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ شہروں میں محنت کش خواتین سڑکوں پر روڑی کوٹتی ہیں اور سر پر آٹھ آٹھ دس دس اینٹیں اٹھا کر دوسری تیسری منزل پر چڑھتی ہیں۔ کیا ان کے کندھے ناتواں ہوتے ہیں؟ پروفیسر صاحب کی راے کے مطابق ایک صاحب علم عورت اگر باکسر ہو اور جوڈو کراٹے جانتی ہو، وہ حکمرانی کی اہل ہو سکتی ہے۔ میں پروفیسر صاحب کی توجہ اس نقطے کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ بنو اسرائیل نے جنگ کے لیے ایک کمانڈر مقرر کرنے کی درخواست کی تھی جس کی وجہ سے ’بسطۃ فی الجسم‘ کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ فوجی کمانڈر کے لیے ضروری ہے کہ اسے عسکری نظام کا پورا پورا علم ہو اور اس کے ساتھ جسمانی قوت بھی ہو جو اس دور میں عورتوں کو بھی اسی طرح حاصل ہیں، جس طرح مردوں کو۔
آیت کریمہ میں پہلے علم کی فراخی کا ذکر ہے، پھر جسم کی فراخی کا۔ یعنی اصل چیز علم کی فراخی ہے اور جسم کی فراخی اس کے تابع ہے۔ بقول سعدی:
توانا بود ہر کہ دانا بود
اور علامہ اقبال کا قول ہے:
قوت بے رائے جہل است و جنون
فاضل مضمون نگار فرماتے ہیں: ’’قوم و ملت کے اجتماعی معاملات کا بارگراں عورت کے ناتواں کندھوں پر رکھا جائے، یہ اس پر ظلم عظیم ہو گا‘‘۔ میری گزارش یہ ہے کہ یہ ظلم انسان نے بشمول مرد اور عورت اس وقت اپنی جان پر کیا، جب اس نے خلافت ارضی کی امانت کے بارگراں کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھانا قبول کیا۔ تعلیم اور صحت کے شعبہ میں تو پروفیسر صاحب خود تسلیم کرتے ہیں کہ عورت دماغی اور جسمانی طور پر سربراہی کی اہلیت رکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی شعبوں میں کیوں نہیں اہلیت رکھتی؟ دور حاضر میں خاتون نے ہر شعبہ میں اپنی اہلیت کا لوہا منوایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کی حکمرانی کو اب تقریباً تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اندرا گاندھی، بندرانائکے، مارگریٹ تھیچر اور بے نظیر بھٹو کو سب کامیاب حکمران تسلیم کرتے ہیں۔
اسی سوچ کے تحت فاضل مضمون نگار نے سورۂ احزاب (۳۳) کی آیات ۳۳ ۔۳۴ کا حوالہ دے کر کہا ہے کہ عورت کی سرگرمیوں کا اصل مرکز اس کا گھر ہے، نہ کہ سیاسی جھمیلے۔ تعجب ہے ایک طرف تو وہ اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ عورت کو گھر تک محدود کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف وہ اسے گھر تک محدود کرنے کے لیے آیات کا حوالہ دیتے ہیں۔
سورۂ احزاب (۳۳) کی ان آیات میں اللہ کا حکم ہے: ’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی‘ (اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح پہلے زمانۂ جاہلیت میں بن سنور کر نکلا کرتی تھیں، اس طرح اب زینت دکھانے کے لیے مت نکلو)۔ اگر ’قَرْن‘ (ق کی زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی ہیں: ’قرار پکڑو‘ اور اگر ’قِرْن‘ زیر کے ساتھ پڑھا جائے تو معنی ہیں: ’وقار سے رہو‘۔ امام طبری فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک ’قِرْن‘ والی قراء ت زیادہ درست ہے، کیونکہ عربی محاورہ میں کہا جاتا ہے: ’وَقَرَ فی منزلہ‘ (وہ اپنے گھر میں باوقار ہوا)۔ میرے پاس ’’تفسیر کشاف‘‘ کا دارالمعرفہ بیروت لبنان کا مطبوعہ نسخہ ہے۔ اس نسخہ کے متن میں ’قِرْن‘ لکھا ہوا ہے۔ امام راغب نے بھی اسے ’وَقَر‘ کے مادہ کے تحت بیان کیا ہے۔ امام بغوی ’’معالم التنزیل‘‘ میں فرماتے ہیں کہ علما کا قول ہے کہ صحیح ترین بات یہ ہے کہ یہ ’وَقَرَ‘ سے امر کا صیغہ ہے۔ سید محمد قطب شہید ’’فی ظلال القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’قِرْن‘ اصل میں ’وَقَرَ یَقِرُ‘ سے، یعنی بوجھل ہونا اور صاحب وقار ہونا۔ آیت کا سیاق و سباق بھی اس معنی کی تائید کرتا ہے۔ اس سے پہلے امہات المومنین نے زیادہ خرچ کا مطالبہ کیا، ایک ماہ بعد آیت تخییر نازل ہوئی۔ امہات المومنین کو اختیار دیا گیا کہ وہ اللہ او راس کے رسول کا یا دنیوی زندگی کا انتخاب کر لیں۔ انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انتخاب کیا تو اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ مقصد اس عدم اطمینان کو دور کرنا تھا جو ان کے دلوں میں بیدار ہو چکا تھا، فرمایا: اپنے گھروں میں باوقار طریقے سے رہو اور جو مالی وسائل میسر ہیں، ان پر قناعت کرو، گھر سے باربار بن سنور کر نکلنا تمھارے وقار کے منافی ہے۔ اصل حکم گھر میں محبوس رہنے کا نہیں، بلکہ مطمئن زندگی بسر کرنے کا ہے۔ اس لیے تمام مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے: ’’مقصد امہات المومنین اور ان کے ساتھ دوسری عورتوں کو گھر میں جکڑنا نہیں‘‘۔ مطلق خروج سے منع نہیں کیا گیا ہے، خود نمائی کی غرض سے باہر نکلنا منع کیا گیا ہے۔ اگر مراد خروج سے منع کرنا ہوتا تو ’لَا تَبَرَّجْنَ‘ کے بجاے ’لَا تخرجن‘ ہوتا۔ گھروں میں وقار سے رہنے اور بناؤ سنگھار نہ دکھانے کو ایک جگہ جمع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس غرض کے لیے گھر سے نہ نکلو۔ سورۂ نور (۲۴:۶۰) میں ’غَیْْرَ مُتَبَرِّجٰتٍ بِزِیْنَۃٍ‘ کا مطلب ہے: بشرطیکہ وہ عمر رسیدہ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔
مردوں کو تعلیم دینا امہات المومنین کا وطیرہ رہا ہے۔ ا س آیت سے اگلی آیت میں ہے: ’وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ‘۔ * جن آیات کو ازواج مطہرات سنتیں تو ان کے لیے ضروری ہو جاتا کہ وہ اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کرنے والے مردوں کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔ بے شمار صحابیات اور تابعیات سے مردوں نے روایت کی ہے۔ تاریخ اس پر گواہ ہے کہ خواتین نماز اور حج کے لیے، غزوات میں شرکت کے لیے، عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے، بیمار پرسی اور تعزیت کے لیے گھروں سے باہر نکلتی تھیں۔ مقام علم میں، مقام عبادت میں اور مقام جہاد میں ان کا خروج متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ وہ ہر قسم کی سماجی اور معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔ اس سلسلہ میں ’’طبقات ابن سعد‘‘ کی آٹھویں جلد، ’’اسد الغابہ‘‘ اور ’’الاصابہ‘‘ کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ دور حاضر میں مصر کے مصنف عمر رضا کحالہ نے ’’اعلام النساء‘‘ کی پانچ جلدوں میں عہد نبوت، اور عہد صحابہ سے لے کر دور حاضر کی خواتین کی سرگرمیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں سید قطب نے بڑی خوب صورت بات کہی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورتیں بند رہیں اور باہر نہ نکلیں۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے کہ زندگی میں گھر اصل ٹھکانا ہے۔ جہاں انسان کو قرار ملتا ہے، باقی سب ٹھکانے عارضی ہیں، ان میں قیام بقدر ضرورت ہونا چاہیے۔ کام کے تحت گھر سے نکلنا جائز ہے، لیکن شوقیہ طور پر گھر سے نکلنا لعنت ہے۔‘‘**
قرآن حکیم کی رو سے خواتین کو گھر میں بند کرنا ایک سزا ہے سورۂ نساء میں اللہ کا ارشاد ہے: اور تمھاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدچلنی کی مرتکب ہوں تو چاہیے کہ اپنے آدمیوں میں سے چار آدمیوں کی ان پر گواہی لو۔ اگر چار گواہ گواہی دے دیں تو پھر ایسی عورتوں کو گھروں میں بند رکھو، یہاں تک کہ موت ان کی عمر پوری کر دے یا اللہ ان کے لیے کوئی دوسری راہ پیدا کر دے۔***
زیربحث آیت کے سلسلہ میں فاضل مضمون نگار نے مولانا مودودی کا ایک اقتباس دیا ہے۔ اس کا تفصیلی جواب تو میرے اس مضمون کی آخری قسط میں موجود ہے۔ میں نے اس سلسلہ کی تمام روایات کو جمع کر کے ان کا تحقیقی مطالعہ کیا ہے۔ مولانا مودودی نے محض سطحی طور پر ان کا حوالہ دیا ہے۔ میں مختصراً یہ گزارش کروں گا کہ وہ روتی اس لیے تھیں کہ وہ جنگ نہیں کرنا چاہتی تھیں، بلکہ محض اصلاح کی طلب گار تھیں۔ حضرت علی بھی طرفین کے مقتولین کے پاس سے گزرنے کے بعد اپنی رانوں پر دوہتڑ مارتے تھے اور کہتے تھے: ’’کاش، اس سے پہلے میں مر مٹا ہوتا‘‘۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ جیسی دانا و بینا شخصیت بڑی سوچ بچار کے بعد حدود اللہ کے قیام کی خاطر نکلی تھیں، اور ان کے زیرقیادت حضرت زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر صحابی تھے۔ وہ سب اصلاح کی خاطر نکلے تھے، نہ کہ جنگ کی خاطر۔ جو اصلاح کا خواہاں ہو، اسے نادم ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ گویا کہ حضرت عائشہ کے خروج کی مخالفت کرنے والے اس وقت خوش ہوتے اگر خلیفہ کے خون کا بدلہ نہ مانگا جاتا اور حضرت عائشہ گھر میں بیٹھی رہتیں۔
اس سلسلہ کی روایات میں صحابہ کے خلاف عام طور پر اور حضرت عائشہ کے خلاف خاص طور پر لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا گیا ہے، جس کے نتیجے کے طور پر اسلام میں خواتین کے سیاسی کردار پر طعنہ زنی کی جاتی ہے۔ رونے کے بارے میں تمام روایات کو وضع کرنے میں وہی ہاتھ کام کررہا ہے جو جنگ جمل کے بارے میں تمام روایات کو وضع کرنے میں کام کر رہا تھا۔
حضرت عائشہ کا خروج نہ خلافت کے خلاف تھا اور نہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لیے تھا۔ وہ جنگ کرنے نہیں نکلی تھیں، بلکہ جنگ روکنے اور حدود اللہ کے نفاذ کے لیے نکلی تھیں۔ ان کا خروج ان پر واجب تھا اور عدم خروج ان کے احساس ذمہ داری کے منافی ہوتا۔ جس کے باعث یہ قاعدہ کلیہ بن جاتا کہ امت کے سیاسی مسائل میں خواتین کو کوئی دخل حاصل نہیں۔ فقہی اور تاریخی شکل میں سیدہ عائشہؓ کا خروج ثابت کرتا ہے کہ اسلام نے ہر صاحب راے کو، خواہ مرد ہو یا عورت، اپنی راے پیش کرنے کی مکمل آزادی دی ہے۔ اس واقعہ کو مرد اور عورت کی فضیلت کے معرکہ میں بدلنا تاریخ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ سیاسی تحریک، جسے عائشہ صدیقہؓ جیسی پاک باز خاتون نے مہمیز دی، اس اسلامی معاشرے میں صحت و عافیت کی علامت ہے جس کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے ہر مرد اور ہرعورت پر رکھ دی ہے۔
آخر میں شیخ محب الدین الخطیب کے الفاظ پیش کرتا ہوں۔ وہ فرماتے ہیں
’’اکثر مؤرخین، جنھوں نے اس موضوع پر بحث کی ہے، نہ اس زمانے کے حالات سے مانوس تھے اور نہ اس زمانے کے لوگوں سے، اس لیے وہ صحابہ جیسے اونچے کردار کے لوگوں کو سمجھ نہ پائے۔ انھوں نے معلومات حاصل کرنے میں کوئی تحقیق نہیں کی، بلکہ بنی بنائی معلومات کو جو ان کے مزاج سے لگا کھاتی تھی نہ کہ صحابہ کے مزاج سے، بغیر تحقیق قبول کر لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اصلاح کے لیے اس خروج کی راہ میں مرد اور خاتون صحابہ نے جو مشکلات برداشت کیں، ان کو کرید کرید کر پیش کیا جاتا تاکہ ثابت ہو سکے کہ انھوں نے کس قدر جرأت سے سیاسی کردار ادا کیا تاکہ امت مسلمہ یک جان ہو کر اس مقصد کی طرف رواں دواں ہو جس کے حصول کے لیے وہ وجود میں آئی ہے۔‘‘ (العواصم من القواصم ۹۸)
اسی سوچ کے تحت پروفیسر صاحب نے سورۂ آل عمران کی آیت ’لَےْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ پر اعتراض وارد کیا ہے۔ آیت کا ترجمہ ہے: ’’لڑکا لڑکی کی مانند نہیں ہے‘‘۔ میں نے زمخشری کی ’’کشاف‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔ کاش، پروفیسر صاحب ’’کشاف‘‘ دیکھ لیتے، کیونکہ زمخشری لغت کے مانے ہوئے امام ہیں۔ لغوی مسائل میں تمام مفسرین ان کا حوالہ دیتے ہیں۔ امام زمخشری کا قول ہے کہ ’وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعْتْ‘ (اللہ کو خوب معلوم ہے کہ اس نے کس کو جنم دیا ہے)، یعنی تو اس بچی کی قدر و منزلت نہیں جانتی، اللہ اس کی قدر و منزلت کو خوب جانتا ہے۔* اگرآپ کہیں کہ ’لَےْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ کے کیا معنی ہوں گے؟ تو یہ ’وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعْتْ‘ کا بیان ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ لڑکا جو تمھارے ذہن میں موجود ہے، وہ اس لڑکی کی طرح نہیں جو تمھیں عطا ہوئی ہے۔ اور ’ذَکَر‘ اور ’اُنْثٰی‘ کے پہلے ال عہد کے لیے ہے۔ اگر تو یہ کہے کہ ’اِنِّیْ سَمَّیْتُہَا مَرْیَم‘ ** کس پر عطف ہے تو اس کا عطف ’اِنِّیْ وَضَعْتُہَآ اُنْثٰی‘ ***پر ہے اور ان دونوں کے درمیان دو جملے معترضہ ہیں، جیسا کہ اللہ کے قول ’اِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ‘ **** (اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے) میں۔ محمود آلوسی نے ’’روح المعانی‘‘(۳/ ۱۳۶) میں علم بیان کے قاعدے کہ ناقص کو کامل سے تشبیہ دی جاتی ہے، کی تائید کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف مولدین (ناخالص عربی بولنے اور لکھنے والے) مشبہ کو فضیلت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بعض لوگوں پر یہ تشبیہ گراں گزرتی ہے کہ لڑکی لڑکے سے بہتر ہے، سو انھوں نے آیت زیرنظر کو ام مریم کا قول قرار دے کر ترجمہ یہ کیا ہے کہ لڑکا فضیلت میں لڑکی جیسا نہیں ہوتا۔ اگر ان کی بات صحیح ہوتی تو جملہ یوں ہوتا ’لَےْسَ الذَّکَرُ کَالْاُنْثٰی‘ ، یعنی حرف نفی کا ذکر اس چیز کے ساتھ ہوتا جو موجود تھی تاکہ موجود چیز میں صفات کمال کی نفی کی جاتی۔ ’لَےْسَ‘ کا حرف حال کی نفی کے لیے آتا ہے۔ یہ جو ترجمہ کرتے ہیں کہ لڑکا لڑکی کی طرح نہیں ہوتا، اس کے لیے عربی میں یوں کہا جاتا ہے ’لا یکون الذکر کالانثٰی‘۔ لہٰذا آیت کا یہ ترجمہ قطعی غلط ہے۔ دوسرے اس ترجمہ میں ام مریم کی توہین کا پہلو نکلتا ہے کہ ان کا ایمان اتنا کمزور تھا کہ انھوں نے اللہ کی مشیت اور حکمت پر اعتراض کیا۔ پھر یہ معنی سیاق کلام کے بھی خلاف ہیں، کیونکہ یہاں مرد اور عورت کی بحث نہیں، بلکہ مسئلہ اس لڑکے کی بحث کا ہے جس کی تمنا ام مریم نے نذر مان کر کی تھی۔ اور اس لڑکی کی فضیلت کا جو اللہ نے ان کو عطا کی تھی، اللہ نے مریم کو لڑکی کے ہونے کے باوجود بیت المقدس کی خدمت کے لیے قبول کیا۔
آیت کا یہ ٹکڑا اس بارے میں نص قطعی ہے کہ مرد اور عورت میں وجہ فضیلت جنس نہیں، بلکہ ان کا ذاتی کردار ہے۔
فاضل مضمون نگار مفسر بھی ہیں، میری ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تفسیر کی اصلاح کر لیں۔
اعتراض نمبر ۳ میں فاضل مضمون نگار نے اس بات کو صحیح خیال نہیں کیا کہ حضرت مریم نبی تھیں۔ انھوں نے امام ابن حزم اندلسی کی راے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ امام ابن حزم نے اپنی کتاب ’’الفصل فی الملل والاھواء والنحل‘‘ (۵/ ۱۷) میں ’نبوۃ النساء‘ کے نام سے ایک فصل باندھی ہے جس میں عورت کی نبوت کے بارے میں کئی دلائل پیش کیے گئے ہیں۔ مولانا حفظ الرحمن نے اپنی کتاب ’’قصص القرآن‘‘ (۴/ ۱۸) میں اس کا لفظی ترجمہ کر دیا ہے۔
امام قرطبی اپنی تفسیر ’’الجامع الاحکام القرآن‘‘ (۲/ ۷۴،۸۲) میں مسلم کی مروی حدیث کہ مردوں میں سے بہت سے کامل ہوئے ہیں، مگر عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کامل ہوئی ہیں، کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ علما نے کہا کہ حدیث میں جس کمال کا ذکر ہے، اس سے مراد نبوت ہے۔ پس اس سے مریم اور آسیہ کی نبوت لازم آتی ہے۔ چنانچہ ایک قول یہی ہے، مگر صحیح یہ ہے کہ مریم نبی تھیں، کیونکہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے کہ اللہ نے ان کی طرف فرشتے کے ذریعے سے وحی بھیجی جیسا کہ اس نے سب انبیا کی طرف وحی بھیجی۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے محمد بن اسحاق (المتوفی ۱۵۳ھ) کا قول نقل کیا ہے کہ اکثر فقہا اس کے قائل ہیں۔ امام ابو الحسنعلی بن اسمٰعیل الاشعری (المتوفی ۳۳۰ھ) نبوت کے لیے مرد ہونے کی شرط تسلیم نہیں کرتے۔ محمود آلوسی نے ’’روح المعانی‘‘ میں سورۂ تحریم (۶۶) کی آیت ۱۲ کی تفسیر کے ضمن میں امام اشعری کی اس راے کاحوالہ دے کر علامہ ابن قاسم کی ’’الایات البینات‘‘ کا حوالہ بھی دیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’فتح الباری‘‘ (۶/ ۴۷۲) میں امام قرطبی کا حوالہ دیا ہے کہ حضرت مریمؑ نبی تھیں اور کہا ہے کہ ’’التمہید‘‘ میں یہ قول اکثر فقہا سے منقول ہے۔ صاحب ’’روح المعانی‘‘ کا قول ہے کہ مریم کی نبوت کے بارے میں قول مشہور ہے اور ’’الحلبیات‘‘ میں شیخ محی الدین سبکی اور ابن السید نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔* ’’میزان القرآن‘‘ کے مفسر سے میری گزارش ہے کہ یہ ابن حزم ہی کی راے نہیں، بلکہ میں نے ڈھیر سارے حوالے جمع کر دیے۔ میری نئی شائع شدہ کتاب ’’لغات قرآن اور عورت کی شخصیت‘‘ میں صفحہ ۲۳۹ سے لے کر ۲۵۴ تک آپ کو اس موضوع پر سیر حاصل بحث ملے گی۔ میں نے اس کتاب کی ایک کاپی تبصرہ کے لیے ’’تحقیق فقہ اسلامی‘‘ نامی رسالہ، جو علی گڑھ سے نکلتا ہے، کو بھجوا دی ہے۔
ساتواں اعتراض یہ ہے کہ میں نے جو لکھا ہے کہ انبیا کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں انبیا کے مشن کو آگے بڑھانے میں ان کے ساتھ شریک تھیں۔ فاضل مضمون نگار کا کہنا ہے کہ یہ عبارت ثبوت اور شہادت سے خالی ہے اور حد درجہ مغالطہ انگیز ہے۔ مقام حیرت ہے کہ قرآن کا مفسر یہ بات کہہ رہا ہے۔ اگر وہ میرے مضمون کی اکتوبر ۲۰۱۱ء میں شائع ہونے والی تحریر پڑھ لیتے تو ان کو ثبوت بھی مل جاتا اور شہادت بھی۔
حضرت ابراہیم کی بیوی حضرت ہاجرہ کی شخصیت قرآن کے مطالعہ سے ابھر کر سامنے آتی ہے۔ بے آب و گیاہ وادی، نہ کوئی مونس نہ غم خوار، تن تنہا خاتون، گود میں وہ دودھ پیتا بچہ۔ اس ماحول میں انھوں نے تائید الٰہی سے بڑی ہمت اور حوصلے سے بچے کی پرورش کی۔ وہ بچہ ہونے والا نبی تھا۔ نہ صرف بچے کی پرورش کی، بلکہ بیت اللہ کو آباد کر کے اپنے شوہر کے مشن کو آگے بڑھایا۔ اللہ نے اس باہمت اور باحوصلہ خاتون کو یہ اعزاز بخشا کہ صفا و مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں جو سعی انھوں نے کی تھی، اس کو ہر حج کرنے والے پر تا قیام قیامت واجب قرار دے دیا۔
جب حضرت ابراہیم کے پاس فرشتے مہمان بن کر آئے تو ان کی بیوی سارہ مہمانوں کے استقبال اور ان کی خدمت کے لیے موجود تھی۔ مہمانوں کو اجنبی سمجھ کر حضرت ابراہیم نے خوف محسوس کیا۔ حضرت سارہ کو ہنسی اس بات پر آئی کیونکہ ان کو اطمینان ہو گیا کہ یہ لوگ ہمارے لیے کوئی بری خبر نہیں لائے، بلکہ قوم لوط کے لیے یہ بری خبر لائے ہیں۔ فرشتوں نے براہ راست دودفعہ ان سے خطاب کیا۔ امام ابن حزم کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ام اسحاق نبی نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے سے ان سے خطاب کرے؟
ابوالانبیا حضرت ابراہیم کے ساتھ ان کی دونوں بیویاں ان کے مشن میں برابر کی شریک تھیں۔
موسیٰ و فرعون کا قصہ قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے اس قصہ میں تین عورتوں کا ذکر ہے جو ان کی پیدایش سے لے کر ان کی پرورش تک ان کے ساتھ ساتھ تھیں۔ اگر وہ تائید الٰہی سے ان کا ساتھ نہ دیتیں تو ان کا بچنا محال تھا۔
اللہ نے ام موسیٰ کی طرف وحی کی کہ بچے کو سمندر میں ڈال دو، اور انھوں نے ڈال دیا۔ امام ابن حزم فرماتے ہیں: معمولی عقل و شعور والا آدمی بھی باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اگر موسیٰ کی والدہ کا عمل اللہ کے عطا کردہ شرف نبوت کے مطابق نہ ہوتا اور محض خواب یا دل کے وسوسہ کے مطابق اگر وہ ایسا کرتیں تو ان کا یہ عمل مجنونانہ قرار پاتا۔ اگر آج ہم میں سے کوئی ایسا کر بیٹھے تو ہمارا یہ عمل گناہ قرار پائے گا یا ہم کو پاگل سمجھ کر پاگل خانے بھیج دیا جائے گا۔ اللہ کا یہ وعدہ کہ میں اسے تیرے پاس لوٹا دوں گا اور اسے رسول بناؤں گا، ان کی نبوت پر دلیل ہے، کیونکہ یہ وعدہ الہام اور خواب کی صورت میں نہیں کیا جا سکتا۔
اللہ نے حضرت موسیٰؑ کو اپنی ماں کی طرف لوٹانے میں جو آخری تدبیر اختیار کی، اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے بنیادی کردار ایک خاتون کا، یعنی موسیٰؑ کی بہن نے ادا کیا۔ ماں نے بیٹے کو دریا میں تو ڈال دیا، لیکن آخر کو ماں تھیں تڑپتی رہیں۔ پیچھے حضرت موسیٰ کی بہن کو بھیجا، فرعون کے محل تک پہنچنے کے بعد جب بہن نے دیکھا کہ بھائی کسی کے دودھ کو منہ نہیں لگاتا تو کہا: میں ایسے گھرانے کو جانتی ہوں جو اسے دودھ پلا کر اس کی پرورش کر سکتے ہیں۔ بس یہیں سے بہن کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ یہ الفاظ سننے والوں کو شبہ گزرا، ہو نہ ہو یہ لڑکی بچے کو بھی جانتی ہے اور اس کے گھر والوں کو بھی۔ تن تنہا جوان لڑکی، فرعون اور اس کے درباریوں کا دہشت انگیز ماحول، نیز بچوں کے قتل کا زمانہ ذرا سی غلطی بھی جان لیوا ہو سکتی تھی، لیکن لڑکی ذہین تھی، پراعتماد تھی اور اسے تائید الٰہی بھی حاصل تھی۔ اس نے جواب دیا: شہزادے کو دودھ پلانا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہ جواب سن کر سب مطمئن ہو گئے اور بچہ دوبارہ ماں کی گود میں پہنچ گیا۔ تیسری عورت فرعون کی بیوی ہے جس نے نہ صرف حضرت موسیٰؑ کی جان بچائی، بلکہ اللہ کے قول ’لِتُصْنَعَ عَلَی عَیْْنِیْ‘، ’’تاکہ تم میرے سامنے پرورش پاؤ‘‘ (طٰہٰ۲۰: ۳۹) کے مطابق اس کی تربیت کر کے اسے حق و باطل کے معرکہ کے لیے تیار کیا۔ وہ تنہا عورت تھی جو آمریت کے سامنے سینہ سپر رہی۔ اللہ نے اسے ایسی عزت بخشی کہ اسے مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے ضرب المثل بنا دیا اور حضرت مریمؑ کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔ مسلم میں ابو عیسیٰ کی روایت کاذکر پہلے ہو چکا ہے۔
حضرت موسیٰؑ کے قصہ میں ان تین خواتین کے علاوہ شعیبؑ یا شیخ مدین کی دوبیٹیوں کا کردار ہے۔ سورۂ قصص میں ان کا بیان ہے۔ جب حضرت موسیٰ بھاگ کر مدین پہنچے تو ان دو محنت کش لڑکیوں کی ذہانت سے ان کو پناہ ملی۔ اسی پناہ سے نکل کر وہ نبوت سے سرفراز ہوئے۔ خواتین کی اس جدوجہد کو ہمارے مفسر کیا مقام دیتے ہیں؟
ام مریم کا کڑا امتحان اس وقت شروع ہوا، جب وہ بچہ اٹھا کر اپنی قوم کے پاس گئیں۔ ایک بن بیاہی لڑکی گود میں بچہ اٹھائے ان کے سامنے کھڑی تھیں۔ وہ کون تھے حضرت ہارون کی نسل کے پیشہ ور کاہن۔ کہنے لگے: تو نے تو بری حرکت کی ہے، تیری نسبت تو ہارون نبی سے ہے۔ تیرے ماں باپ تو ایسے لوگ نہ تھے۔ تو نے تو اپنی نسل کو بدنام کر دیا ہے۔ حضرت مریم نے بڑے حوصلے سے یہ طعنے سنے اور بچے کی طرف اشارہ کر دیا۔ وہ سمجھے ہمارا مذاق اڑا رہی ہے۔ روایت ہے کہ انھوں نے مریم کو سنگ سار کرنے کا ارادہ کیا، مگر حضرت عیسیٰ اپنی ماں کی مدد کو آئے۔ یہ سب کچھ حضرت مریم نے عیسیٰؑ کے لیے کیا۔ اللہ نے ایک سورت کو ان کا نام دے کر انھیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے۔ یہ مثالیں تو ان خواتین کی ہیں جنھوں نے انبیا کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے ان کا ساتھ دیا۔ اس کے برعکس قرآن نے ان دو خواتین کی مثالیں دی ہیں جنھوں نے انبیا کی مخالفت کی ہے، حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ کی بیویاں* ۔ جدوجہد انھوں نے بھی کی، مگر معاندانہ۔ اللہ نے ان کو کافر مردوں اور عورتوں کے لیے ضرب المثل بنا دیا۔
پروفیسر صاحب کے علمی اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے ہی چند ایک ایسی باتوں کا جواب دینا مناسب سمجھتا ہوں جن کا ذکر پروفیسر اعظمی صاحب نے بین السطور کیا ہے۔ مثلاً یہ کہ مخلوط شرکت مفید ہونے کے بجاے سخت مضرت رساں ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے، مگر میں یہاں چند موٹی موٹی باتیں گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔
انسان مدنی الطبع ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت دونوں معاشرے سے کٹ نہیں سکتے۔ مخلوط معاشرہ ایک فطری معاشرہ ہے۔ اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لیے وہ اس معاشرے کی تائید کرتا ہے۔ اللہ نے آدم اور حوا کو ایک ساتھ زمین پر اتارا اور دونوں کو ایک دوسرے کا زوج قرار دیا۔ مرد عورت کا زوج ہے اور عورت مرد کی۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر غیر مکمل ہیں۔ اگر عورت کو اس معاشرے سے الگ کر دیا جائے تو زوجیت کا مقصد فوت ہو جائے گا۔ کائنات کی ہر چیز میں یہ تصور کار فرما ہے۔ عہد رسالت کا معاشرہ مخلوط معاشرہ تھا، جس میں مرد اور خواتین ایک ساتھ پنج گانہ نماز پڑھتے تھے، مل جل کر حج کر تے تھے۔ سماجی، علمی اور جہادی سرگرمیوں میں وہ ساتھ ساتھ شریک ہوتے تھے۔ مرد گھر کے کام بھی کرتے تھے اور عورتیں کھیت کھلیان کا کام بھی کرتی تھیں۔ مسجد نبوی میں جب کسی مسئلہ پر بحث ہوتی تھی تو عورتیں اس میں برابر شرکت کرتی تھیں۔ یہ ساری تفصیل مصر کے مصنف عبدالحلیم محمد ابوشقہ کی کتاب ’’تحریر المراۃ فی عصر الرسالہ‘‘ کی چاروں جلدوں میں موجود ہے۔ قرآن حکیم نے (التوبہ۹: ۷۱) یہ کہہ کر مخلوط معاشرہ کی تائید کی ہے: ’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اچھے کام کرنے کو کہتے اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ مخلوط معاشرہ کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے قرآن نے مردوں اور عورتوں کے درمیان ایمان کا رشتہ قائم کیا ہے، ارشاد ہے ’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ‘ ’’مومن تو آپس میں صرف بھائی بھائی ہیں‘‘ (الحجرات ۴۹:۱۰)۔ ایمان کا یہ رشتہ نسب کے رشتے پر غالب ہے۔ پھر ہم اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین سے ایمان کا رشتہ قائم کرنے کے بجاے جنسی رشتہ کو کیوں پیش نظر رکھتے ہیں؟ یہ ساتھ کام کرنے والی خواتین کا ایمانی رشتہ کی رو سے ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ اسی مخلوط معاشرے کو قائم رکھنے کے لیے قرآن ہمیں ڈھنگ کا لباس پہننے اور ڈھنگ کی گفتگو کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ ہمیں نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ سنت ہمیں راستوں میں بیٹھنے سے منع کرتی ہے۔ پہلی نظر کو معاف گردانا جاتا ہے، ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے منع کیا جاتا ہے۔ اگر ممانعت ہے تو صرف تخلیہ کی، یعنی ایک مرد اور ایک عورت تنہائی میں نہ ملیں۔ اگر انسانی جوڑے کے ایک مرد کو آپ کاٹ کر علیحدہ کر دیں گے تو معاشرہ پنپ نہیں سکے گا۔
اب آئیے علمی اعتراضات کی طرف: اعتراض نمبر ۵ صرف میرے ترجمے پر اعتراض نہیں بلکہ فاضل مضمون نویس نے مفسر قرآن ہونے کے ناتے سب مترجمین اور مفسرین سے ہٹ کر ایک نئی تفسیر بغیر کسی حوالے کے پیش کی ہے۔ ’نَادٰی‘ کا فاعل بغیر کسی قرینے کے پیٹ میں بچے کو قرار دینا اور ’ھا‘ کی ضمیر کا مرجع شکم مادر کو قرار دینا مناسب نہیں، شکم مادر (بطن) مذکر ہے مؤنث نہیں، ’ھا‘ کی خبر واضح طور پر حضرت مریم کی طرف راجع ہے اور ’نَادٰی‘ کا فاعل وہی فرشتہ ہے جس کا ذکر آیت ۱۹ میں ہوا ہے۔ ساری باتیں تدبیر الٰہی کے تحت ہو رہی تھیں۔ بچے کی طرف اشارہ بھی اسی تدبیر کے تحت تھا۔ پروفیسر صاحب کی تاویل دورازکار تاویل ہے۔
اعتراض نمبر ۶ میں فاضل مضمون نگار نے ایک چیز فرض کر کے اسے میری طرف منسوب کر دیا ہے۔ میں نے کب کہا کہ کھجور کا درخت موجود نہ تھا۔ قرآن کے الفاظ میں وہ کھجور کا صرف تنا تھا۔ اس پر کھجوریں لگی ہوئی نہیں تھیں۔ اس پر معجزاتی طور پر کھجوریں لگ گئیں۔
___________